608

سلف صالحین سے منسوب تبرکات، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اس مضمون میں سلف صالحین،یعنی صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے حصولِ تبرک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں سے تبرک :
n عثمان بن عبداللہ بن موہب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أَرْسَلَنِي أَہْلِي إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ مِنْ مَّائٍ، فِیہِ شَعَرٌ مِّنْ شَعْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الْإِنْسَانَ عَیْنٌ أَوْ شَيْئٌ بَعَثَ إِلَیْہَا مِخْضَبَہٗ، فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ، فَرَأَیْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا ۔
’’مجھے میرے گھر والوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ،سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا ،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تھے۔جب کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، تو وہ پانی کا برتن سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا کرتے(وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بال،جو کہ انہوں نے چاندی کی ڈبیا میں رکھے ہوئے تھے،نکال کر انہیں اس شخص کے لیے پانی میں ہلاتیں اور بیمار آدمی وہ پانی پی کر شفا یاب ہو جاتا)۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس ڈبیا میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اس میں سرخ بال دکھائی دیے۔‘‘(صحیح البخاري : 5896)
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ)لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ أَنَّہٗ کَانَ مَنِ اشْتَکٰی أَرْسَلَ إِنَائً إِلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ، فَتَجْعَلُ فِیہِ تِلْکَ الشَّعَرَاتِ، وَتَغْسِلَہَا فِیہِ، وَتُعِیدُہٗ، فَیَشْرَبُہٗ صَاحِبُ الْإِنَائِ، أَوْ یَغْتَسِلُ بِہِ اسْتِشْفَائً بِہَا، فَتَحْصُل لَہٗ بَرَکَتُہَا ۔
’’اس حدیث ِمبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا،تو وہ کوئی برتن سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کو اس میں رکھ کر ہلاتیں۔بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا،بیماری سے شفا کے لیے غسل کرتا اور اسے اُن مبارک بالوں کی برکت حاصل ہوتی تھی۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 353/10)
b امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِعَبِیدَۃَ : عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَصَبْنَاہُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ، أَوْ مِنْ قِبَلِ أَہْلِ أَنَسٍ، فَقَالَ : لَـأَنْ تَکُونَ عِنْدِي شَعَرَۃٌ مِّنْہُ؛ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ۔
’’میں نے عبیدہ(بن عمرو سلمانی،مخضرم تابعی) رحمہ اللہ سے کہا: ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال مبارک ہیں،جو ہمیں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔یہ سن کر عبیدہ رحمہ اللہ کہنے لگے:اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بھی ہو، تو وہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘(صحیح البخاري : 170)
ایک روایت میں ہے کہ عبیدہ مخضرم تابعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
لََـأَنْ یَّکُونَ عِنْدِي مِنْہُ شَعَرَۃٌ؛ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ صَفْرَائَ وَبَیْضَائَ أَصْبَحَتْ عَلٰی وَجْہِ الْـأَرْضِ وَفِي بَطْنِہَا ۔
’’اگر میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہو،تو وہ مجھے زمین کے اندر اور باہر والے تمام سونے اور چاندی سے محبوب ہو۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 256/3، السنن الکبرٰی للبیہقي : 427/2، وسندہٗ حسنٌ)
b اس قول پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673۔748ھ)ان الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں:
ہٰذَا الْقَوْلُ مِنْ عَبِیْدَۃَ؛ ہُوَ مِعْیَارُ کَمَالِ الْحُبِّ، وَہُوَ أَنْ یُّؤْثَرَ شَعْرَۃٌ نَّبَوِیَّۃٌ عَلٰی کُلِّ ذَہَبٍ وَّفِضَّۃٍ بِأَیْدِي النَّاسِ، وَمِثْلُ ہٰذَا یَقُوْلُہٗ ہٰذَا الْإِمَامُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِیْنَ سَنَۃً، فَمَا الَّذِي نَقُوْلُہٗ نَحْنُ فِي وَقْتِنَا لَوْ وَجَدْنَا بَعْضَ شَعْرِہٖ بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ، أَوْ شِسْعَ نَعْلٍ کَانَ لَہٗ، أَوْ قُلاَمَۃَ ظُفْرٍ، أَوْ شَقَفَۃً مِّنْ إِنَائٍ شَرِبَ فِیْہِ، فَلَوْ بَذَلَ الْغَنِيُّ مُعْظَمَ أَمْوَالِہٖ فِي تَحْصِیْلِ شَيْئٍ مِّنْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، أَکُنْتَ تَعُدُّہٗ مُبَذِّرًا أَوْ سَفِیْہاً ؟ کَلاَّ ۔
’’عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ کا یہ قول کمال محبت کا معیار ہے کہ لوگوں کے پاس تمام سونے اور چاندی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بال کو ترجیح دی جائے۔یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پچاس سال بعد یہ تابعی امام فرما رہے ہیں۔ اب اگر ہمارے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،جوتے کے تسمے، ناخن یا برتن کا ٹکڑا،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرمایا کرتے تھے،صحتِ سند کے ساتھ مل جائے،تو ہم(محبت میں)اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟اور اگر کوئی امیر آدمی اس کے حصول کی خاطر کثیر زَر خرچ کر دے، تو کیا ہم اسے فضول خرچ اور بیوقوف کہیں گے؟ نہیں! ہر گز نہیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 42/4)
تنبیہ 1 :
b ثابت بنانی رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ انہیں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ہٰذِہٖ شَعْرَۃٌ مِّنْ شَعْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَضَعْہَا تَحْتَ لِسَانِيْ، قَالَ : فَوَضَعْتُہَا تَحْتَ لِسَانِہٖ، فَدُفِنَ وَہِيَ تَحْتَ لِسَانِہٖ ۔
’’یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے۔آپ اسے میری زبان کے نیچے رکھ دیجیے۔ثابت کہتے ہیں کہ میں نے وہ بال مبارک ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو جب دفن کیا گیا ،تو وہ بال ان کی زبان کے نیچے ہی تھا۔‘‘
(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ لابن حجر : 127/1)
لیکن یہ مردود روایت ہے۔ہبیرہ عیشی کی توثیق درکار ہے،نیز صفوان سے نیچے سند بھی غائب ہے۔فضیلت وہ ہے جو با سند ِصحیح ثابت ہو۔
تنبیہ 2 :
b جعفر بن عبداللہ بن حکم رحمہ اللہ سے مروی ہے :
إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فَقَدَ قَلَنْسُوَۃً لَّہٗ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ، فَقَالَ : اطْلُبُوہَا، فَلَمْ یَجِدُوہَا، فَقَالَ : اطْلُبُوہَا، فَوَجَدُوہَا، فَإِذَا ہِيَ قَلَنْسُوَۃٌ خَلَقَۃٌ، فَقَالَ خَالِدٌ : اِعْتَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَحَلَقَ رَأْسَہٗ، فَابْتَدَرَ النَّاسُ جَوَانِبَ شَعْرِہٖ، فَسَبَقْتُہُمْ إِلٰی نَاصِیَتِہٖ، فَجَعَلْتُہَا فِي ہٰذِہِ الْقَلَنْسُوَۃِ، فَلَمْ أَشْہَدْ قِتَالاً وَّہِيَ مَعِيَ إِلاَّ رُزِقْتُ النَّصْرَ ۔
’’جنگ ِیرموک کے موقع پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی گم ہو گئی،تو انہوںنے کہا:تلاش کرو، مگر ہمیں نہ ملی۔انہوں نے پھر حکم دیا:تلاش کرو، تو ہمیں وہ مل گئی۔وہ ایک پرانی ٹوپی تھی۔سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ادا کیا اور سر مبارک منڈوایا،توصحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطراف کے بالوں پر ٹوٹ پڑے۔میں ان سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے بالوں تک پہنچ گیا اور انہیں میں نے اس ٹوپی میں رکھ لیا۔جس بھی جنگ میں مَیں نے اس ٹوپی کو اپنے ساتھ رکھا،مجھے کامیابی نصیب ہوئی۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 104/4، ح : 3804، مسند أبي یعلٰی : 7183، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 299/3، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 249/6، دلائل النبوّۃ لأبي نعیم الأصبہاني :367، تاریخ دمشق لابن عساکر :246/16، سیر أعلام النبلاء للذہبي : 374/1، 130/16)
تبصرہ :
اس کی سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ ’’ضعیف‘‘ہے،جیسا کہ:
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
إِسْنَادُہٗ مُنْقَطِعٌ ۔
’’اس کی سند منقطع ہے۔‘‘(تلخیص المستدرک : 299/3)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو یَعْلٰی بِنَحْوِہٖ، وَرِجَالُہُمَا رِجَالُ الصَّحِیحِ، وَجَعْفَرٌ سَمِعَ مِنْ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ، فَلَا أَدْرِي سَمِعَ مِنْ خَالِدٍ أَمْ لَا ۔
’’اس روایت کو امام طبرانی اور امام ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے۔دونوں کے راوی صحیح بخاری کے ہیں۔جعفر نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے تو سنا ہے، مگر مجھے یہ نہیں معلوم کہ سیدنا خالد سے سنا ہے یا نہیں؟‘‘(مجمع الزوائد : 349/9)
لہٰذا حافظ بوصیری(اتّحاف الخیرۃ المہرۃ : 271/7،ح : 6832)کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہنا صحیح نہیں۔لگتا ہے کہ ان پر ’’انقطاع‘‘والی علت مخفی رہ گئی اور انہوں نے ظاہر پر حکم لگا دیا۔
اس کی صحت کے مدعی پر اتصالِ سند کا ثبوت ضروری ہے۔
تنبیہ 3 :
b عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ سے منسوب ہے :
أَوْصٰی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَدَعَا بِشَعْرٍ مِّنْ شَعْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَظْفَارٍ مِّنْ أَظْفَارِہٖ، وَقَالَ : إِذَا مُتُّ؛ فَخُذُوا الشَّعْرَ وَالْْأَظْفَارَ، ثُمَّ اجْعَلُوہُ فِي کَفَنِي، فَفَعَلُوا ذٰلِکَ ۔
’’سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے موت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اور ناخن منگوا کر وصیت فرمائی:جب میں مر جائوں تو ان بالوں اور ناخنوں کو میرے کفن میں رکھ دینا،چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔‘‘(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 406/5)
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
1 محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ہے۔
2 محمد بن مسلم بن جماز اور عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ کی توثیق درکار ہے۔
تنبیہ 4 :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایت(مناقب أحمد بن حنبل لابن الجوزي : 545، سیر أعلام النبلاء للذہبي : 337/11)بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔
اس کے راوی عصمہ بن عصام کی توثیق نہیں مل سکی۔
آج کل بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بالوں کی زیارت کراتے پھرتے ہیں،ان کے پاس کوئی با سند صحیح ایسی دلیل نہیں،جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مبارک بال ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اور تہ بند مبارک سے تبرک :
n سیدنا ابو بردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَخْرَجَتْ إِلَیْنَا عَائِشَۃُ إِزَارًا وَّکِسَائً مُلَبَّدًا، فَقَالَتْ : فِي ہٰذَا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک تہہ بند اور موٹی اونی چادر نکال کر ہمیں دکھائی اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس چادر میں ہوئی تھی۔‘‘
(صحیح البخاري : 3108، صحیح مسلم : 2080)
n صحیح مسلم(2080/34) کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْنَا إِزَارًا غَلِیظًا، مِمَّا یُصْنَعُ بِالْیَمَنِ، وَکِسَائً مِّنَ الَّتِي یُسَمُّونَہَا الْمُلَبَّدَۃَ، قَالَ : فَأَقْسَمَتْ بِاللّٰہِ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُبِضَ فِي ہٰذَیْنِ الثَّوْبَیْنِ ۔
’’میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے موٹے کپڑے کا ایک تہبند نکالا،جو یمن کا بنا ہوا تھا اور ایک چادر نکالی، جسے’’ ملبدہ‘‘کہا جاتا ہے۔پھر سیدہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کی قسم اٹھا کر بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات انہیں دو کپڑوں میں ہوئی تھی۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک سے تبرک :
n سیدہ اسما بنت ِابو بکر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سیدہ اسما رضی اللہ عنہا نے ایک جبہ نکال کر فرمایا:
ہٰذِہٖ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَۃَ حَتّٰی قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُہَا، وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَلْبَسُہَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُہَا لِلْمَرْضٰی یُسْتَشْفٰی بِہَا ۔
’’یہ تاوقت ِوفات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔جب ان کی وفات ہوئی،تو اسے میں نے حاصل کر لیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب ِتن فرمایا کرتے تھے اور ہم اسے دھو کر پانی بیماروں کو پلاتے ہیں، تاکہ وہ صحت یاب ہو جائیں۔‘‘
(صحیح مسلم : 2069)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالہ مبارک سے تبرک :
1 سیدنا ابو بردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں ایسے مبارک برتن میں پانی پلانے کی پیشکش کی،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا اور انہوں نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا :
أَلاَ أَسْقِیکَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِ ۔
’’کیا میں آپ کو اس مبارک پیالے میں پانی نہ پلائوں،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا۔‘‘(صحیح البخاري : 7341)
2 سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، تو انہوں نے فرمایا:
اِنْطَلِقْ إِلَی الْمَنْزِلِ، فَأَسْقِیَکَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’میرے ساتھ گھر چلیے،میں آپ کو اس پیالہ میں پانی پلائوں گا،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا۔‘‘(صحیح البخاري : 7341)
3 سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ حَتّٰی جَلَسَ فِي سَقِیفَۃِ بَنِي سَاعِدَۃَ ہُوَ وَأَصْحَابُہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’اِسْقِنَا یَا سَہْلُ‘، فَخَرَجْتُ لَہُمْ بِہٰذَا الْقَدَحِ، فَأَسْقَیْتُہُمْ فِیہِ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَہْلٌ ذٰلِکَ الْقَدَحَ، فَشَرِبْنَا مِنْہُ، قَالَ : ثُمَّ اسْتَوْہَبَہٗ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَوَہَبَہٗ لَہٗ ۔
’’اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنے صحابہ کرام کے ہمراہ بیٹھے، پھر فرمایا: سہل! پانی لائو۔میں نے ایک پیالہ نکال کر سب کو اس میں پانی پلایا۔سیدنا سہل رضی اللہ عنہ ہمارے لیے بھی وہی پیالہ نکال کر لائے اور ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔راوی بیان کرتے ہیں کہ بعد میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان سے یہ پیالہ مانگ لیا تھا اور انہوں نے یہ انہیں عنایت کر دیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 5637، صحیح مسلم : 2007)
4 حجاج بن حسان بصری، تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
کُنَّا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، فَدَعَا بِإِنَائٍ، وَفِیہِ ثَلَاثُ ضِبَابِ حَدِیدٍ، وَحَلْقَۃٌ مِّنْ حَدِیدٍ، فَأُخْرِجَ مِنْ غِلَافٍ أَسْوَدَ، وَہُوَ دُونَ الرُّبُعِ وَفَوْقَ نِصْفِ الرُّبُعِ، فَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، فَجُعِلَ لَنَا فِیہِ مَائٌ، فَأُتِینَا بِہٖ، فَشَرِبْنَا وَصَبَبْنَا عَلٰی رُئُ وسِنَا وَوُجُوہِنَا، وَصَلَّیْنَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔اسی دوران انہوں نے ایک برتن منگوایا، جس میں لوہے کے تین ٹکڑے اور ایک چھلّا لگا ہوا تھا۔انہوں نے وہ برتن ایک کالے غلاف سے نکالا تھا،جو چوتھائی سے کم اور نصف چوتھائی سے کچھ زیادہ تھا۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے حکم پر اس میں ہمارے لیے پانی ڈالا گیا۔ہم نے وہ پانی نوش کیا،اپنے سر اور چہرے پر ڈالا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دورد و سلام پڑھا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 187/3، وسندہٗ حسنٌ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے تبرک :
1 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ کَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نِطَعًا، فَیَقِیلُ عِنْدَہَا عَلٰی ذٰلِکَ النِّطَعِ، قَالَ : فَإِذَا نَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَتْ مِنْ عَرَقِہٖ وَشَعَرِہٖ، فَجَمَعَتْہُ فِي قَارُورَۃٍ، ثُمَّ جَمَعَتْہُ فِي سُکٍّ، قَالَ : فَلَمَّا حَضَرَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ الْوَفَاۃُ، أَوْصٰی إِلَيَّ أَنْ یُّجْعَلَ فِي حَنُوطِہٖ مِنْ ذٰلِکَ السُّکِّ، قَالَ : فَجُعِلَ فِي حَنُوطِہٖ ۔
’’سیدہ امِ سلیم رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کی چٹائیاںبچھا دیا کرتی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں انہیں چٹائیوں پر قیلولہ فرما لیا کرلیتے تھے۔پھرجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوجاتے توسیدہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک اور(جھڑے ہوئے)بال مبارک لے لیتیں۔پسینے کو ایک شیشی میں جمع کرتیں،پھر سُک(ایک خوشبو)میں ملا لیتیں۔راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب ہوا،تو انہوں نے وصیت کی کہ اس سُک ( جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ملا ہوا ہے) میں سے کچھ حصہ ان کو کفن پر دی جانے والی خوشبو میں ملا دیا جائے۔چنانچہ وہ ان کی خوشبو میں ملایا گیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 6281)
2 امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
فَاسْتَوْہَبْتُ مِنْ أُمِّ سُلَیْمٍ مِّنْ ذٰلِکَ السُّکِّ، فَوَہَبَتْ لِي مِنْہُ، قَالَ أَیُّوبُ : فَاسْتَوْہَبْتُ مِنْ مُّحَمَّدٍ مِّنْ ذٰلِکَ السُّکِّ، فَوَہَبَ لِي مِنْہُ، فَإِنَّہٗ عِنْدِي الْآنَ، قَالَ : فَلَمَّا مَاتَ مُحَمَّدٌ؛ حُنِّطَ بِذٰلِکَ السُّکِّ، قَالَ : وَکَانَ مُحَمَّدٌ یُّعْجِبُہٗ أَنْ یُّحَنَّطَ الْمَیِّتُ بِالسُّکِّ ۔
’’میںنے سیدہ امِ سلیم رضی اللہ عنہا سے سُک ملی ہوئی خوشبو مانگی(جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک ملا ہوا تھا)۔انہوں نے مجھے وہ عطا فرما دی۔ایوب سختیانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:میں نے بھی محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے اس کاکچھ حصہ مانگا،تو انہوں نے بھی عنایت فرما دیا۔وہ اب بھی میرے پاس موجود ہے۔ایوب سختیانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:جب امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فوت ہوئے، تو انہیں یہی خوشبو لگائی گئی۔امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی یہ خواہش تھی کہ ان کی میت کو یہی خوشبو لگائی جائے۔‘‘
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 428/8، المعجم الکبیر للطبراني : 19/25، ح : 290)
3 حُمَید طویل تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
تُوُفِّيَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، فَجُعِلَ فِي حَنُوطِہٖ سُکَّۃٌ، أَوْ سُکٌّ، وَمِسْکَۃٌ فِیہَا مِنْ عَرَقِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، تو ان (کے کفن)کو ایسی خوشبو دی گئی،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک شامل تھا۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 249/1، ح : 715، السنن الکبرٰی للبیہقي : 406/3، وسندہٗ حسنٌ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کریمین سے تبرک :
n عیسیٰ بن طہمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أَخْرَجَ إِلَیْنَا أَنَسٌ نَّعْلَیْنِ جَرْدَاوَیْنِ لَہُمَا قِبَالاَنِ، فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ بَعْدُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّہُمَا نَعْلاَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بالوں کے بغیر چمڑے والے دو جوتے لائے،ان کے دو تسمے تھے۔بعد میں مجھے ثابت بنانی رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ نعلین کریمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 438/1، ح : 3107)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک چھڑی سے تبرک :
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِنَّہٗ کَانَتْ عِنْدَہٗ عُصَیَّۃٌ لِّرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَاتَ، فَدُفِنَتْ مَعَہٗ بَیْنَ جَیْبِہٖ وَقَمِیصِہٖ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چھوٹی سے چھڑی تھی۔جب وہ فوت ہوئے، تو چھڑی ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کر دی گئی۔‘‘
(مسند البزّار (کشف الأستار : 395/1، ح : 840)، وسندہٗ حسنٌ)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.