781

سند دین ہے۔۔۔ حافظ ابویحیی نورپوری حفظہ اللہ

سند دین ہے

دینِ اسلام کا دارومدار اورانحصار سند پر ہے ، سندہی حدیث ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کا واحد طریقہ ہے ، نیز سند احکام ِ شرعی کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے ۔ سند امت ِ محمدیہ کا خاصہ ہے ، اہلحدیث اس کے وارث اور محافظ ہیں ۔
اہل باطل ہمیشہ سند سے دور رہے ہیں ، ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں ، ان سے سند کا مطالبہ بجلی بن کر گرتا ہے ، لہٰذا جب بھی کوئی بدعتی اورملحد آپ کوکوئی روایت پیش کرے تو آپ فوراً اس سے معتبر کتب ِ حدیث سے سند ، نیز راویوں کی توثیق وعدالت ، اتصالِ سند ، تدلیس اور اختلاط سے سند کے خالی ہونے کا مطالبہ کریں ، وہ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ کا صحیح مصداق بن جائے گا ۔
سند اور محدثین
امام یزید بن زریع   رحمہ اللہ  (م ١٨٢ ھ) فرماتے ہیں :     لکلّ دین فرسان وفرسان ھذا الدّین أصحاب الأسانید ۔     ”ہر دین کے شہسوار ہوتے ہیں اور اس دین کے شہسوار سندوں والے لوگ ہیں ۔”(المدخل للحاکم : ١٢، شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ٨٢، وسندہ، حسنٌ)
اس قول کی تشریح کرتے ہوئے امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ (م٣٥٤ھ) لکھتے ہیں :
فرسان ھذا العلم الّذین حفظوا علی المسلمین الدّین ، وھدوھم الی الصّراط المستقیم ، الّذین أکثروا قطع المفاوز والقفار ، علی التّنعّم فی الدّیار والأوطان فی طلب السّنن فی الأمصار ، وجمعھا بالوجل والأسفار ، والدّوران فی جمیع الأفطار، حتّی انّ أحدھم لیرحل فی الحدیث الواحد الفراسخ البعیدۃ ، وفی الکلمۃ الواحدۃ الأیام الکثیرۃ ، لئلّا یدخل مضلّ فی السّنن شیأا یضلّ بہ ، وان فعل فھم الذّابّون عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ذٰلک الکذب ، والقائمون بنصرۃ الدّین ۔۔۔
”اس علم کے شہسوار وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے مسلمانوں کے لیے ان کے دین کو محفوظ کیا اور ان کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی ، وہ لوگ جنہوں نے نازونعمت اور اپنے علاقوں میں رہنے پراحادیث ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب میں صحراوبیاباں طے کرکے دور دراز کے شہروں میں جانے کو ترجیح دی ، انہوں نے خوف وسفر اور تمام اطراف واکناف میں گھوم کر یہ کام کیا،حتی کہ ان میں سے کوئی ایک حدیث کی خاطر کئی کئی فرسخ اور ایک ہی کلمہ کی خاطر کئی کئی دن سفر کرتا ، تاکہ کوئی گمراہ کن شخص احادیث میں ایسی چیز داخل نہ کردے ، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔ اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس جھوٹ کو دُور کیا ، یہی لوگ دین کی نصرت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔”(المجروحین لابن حبان : ١/٢٧)
امام شافعی   رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٠٤ھ)فرماتے ہیں :      مثل الّذی یطلب العلم بلا حجّۃ ، مثل حاطب لیل ، یحمل حزمۃ حطب فیھا أفعٰی ، یلدغہ وھو لا یدری ۔۔۔
”جو شخص بغیر دلیل(سند )کے علم حاصل کرتا ہے ، وہ رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی طرح ہے کہ وہ لکڑیوں کا وہ گٹھا جمع کرتا ہے ، جس میں اژدھا ہوتا ہے ، اسے معلوم ہی نہیں ہوتاکہ وہ اس کو ڈنگ دیتا ہے ۔”(المدخل للحاکم : ٤ ، وسندہ، حسنٌ)
امام محمد بن سیرین تابعی   رحمہ اللہ (م ١١٠ھ) فرماتے ہیں :      انّ ھذا الحدیث دین ، فانظروا عمّن تأخذوہ ۔    ”یہ حدیث دین ہے ، لہٰذا تم دیکھو کہ کس سے دین لے رہے ہو۔”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٢/١٥، وسندہ، صحیحٌ)
شیخ الاسلام امام عبداللہ بن المبارک   رحمہ اللہ (م ١٨١ھ) فرماتے ہیں :      الاسناد من الدّین ، ولولا الاسناد لقال من شاء ما شاء ۔     ”سند دین ہے ، اگر سند نہ ہوتی تو ہر کہنے والا ، جو اس کے جی میں آتا ، کہہ دیتا ۔”(مقدمۃ صحیح مسلم : ١/٩ ، رقم : ٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم   رحمہ اللہ (م ٤٠٥ھ) فرماتے ہیں :      لولا الاسناد وطلب ھذہ الطّائفۃ لہ، وکثرۃ مواظبتھم علی حفظہ ، لدرس منار الاسلام ، ولتمکّن أھل الالحاد والبدع فیہ بوضع الحدیث ، وقلب الأسانید ، فانّ الأخبار اذا تعرّت عن وجود الأسانید فیھا کانت بُترا ۔۔۔     ”اگر سند نہ ہوتی اور محدثین کا یہ گروہ اس کو حاصل نہ کرتا اور اس کی حفاظت پر تسلسل نہ رکھتا تو اسلام کا مینار منہدم ہوجاتا اور ملحد وبدعتی لوگ حدیث کو گھڑنے اور سندوں کو بدلنے پر قادر ہوجاتے ۔احادیث جب سندوں کی وجود سے عاری ہوجائیں تو وہ ادھوری اور بے فیض ہوجاتی ہیں ۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ٦)
نیز فرماتے ہیں :      سمعت الشّیخ أبا بکر أحمد بن اسحاق الفقیہ ، وھو یناظر رجلا ، فقال الشّیخ : حدّثنا فلان ، فقال لہ الرّجل : دعنا من حدّثنا الی متی حدّثنا ، فقال لہ الشّیخ : قم یا کافر ! ولا یحلّ لک أن تدخل داری بعد ھٰذا ، ثمّ التفت الینا ، فقال : ما قلت قطّ لأحد لا تدخل داری الّا لھٰذا ۔۔۔۔۔
”میں نے شیخ ابوبکر احمد بن اسحاق فقیہ کو ایک آدمی سے مناظرہ کرتے ہوئے سنا ، شیخ نے سند پڑھی تو اس آدمی نے کہا ، سند کو چھوڑو ، اس پر شیخ نے کہا ، اے کافر !کھڑا ہوجا ، تیرے لیے اب کے بعد میرے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا، میں نے اس آدمی کے سوا کبھی کسی کو اپنے گھر میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا ۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ٤)
ابو نصر أحمد بن سلام الفقیہ کہتے ہیں :      لیس شیء أثقل علی أھل الالحاد ولا أبغض الیھم من سماع الحدیث وروایتہ باسناد ۔۔۔    ”ملحدین پر حدیث کو سننے اور اس کو باسند روایت کرنے سے بڑھ کر کوئی کام بھاری ومبغوض نہیں ۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ٤ ، شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ١٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
نیز امام عبداللہ بن المبارک   رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     مثل الّذی یطلب أمر دینہ بلا اسناد کمثل الّذی یرتقی السّطح بلا سُلّم ۔     ”جو شخص اپنے دین کو بغیر سند کے حاصل کرتا ہے ، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے ، جو چھت پر بغیر سیڑھی کے چڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔”
(شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ٧٥ ، وسندہ، صحیحٌ)
ابو سعید الحداد   رحمہ اللہ کہتے ہیں :      الاسناد مثل الدّرج ومثل المراقی ، فاذا زلّت رجلک عن المرقاۃ سقطت ، والرّأی مثل المرج ۔     ”اسناد سیڑھی اور اس کے زینوں کی طرح ہے ، اگر آپ کا پاؤں سیڑھی سے پھسلے تو آپ گر جاتے ہیں ۔ رائے تو فتنہ وفساد کی طرح ہے۔”(شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ٧٦، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ابن الصلاح   رحمہ اللہ (م ٦٤٣ھ)لکھتے ہیں :      أصل الاسناد خصّیصۃ فاضلۃ من خصائص ھٰذہ الأمّۃ ، وسنّۃ بالغۃ من السّنن المؤکّدۃ ۔    ”سند اس امت کی خصوصیات میں سے ایک زبردست خصوصیت ہے اور مؤکدہ سنتوں میں سے بلیغ سنت ہے ۔”
(مقدمۃ ابن الصلاح : ص ٢٣١)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ   رحمہ اللہ (م٧٢٢ھ) فرماتے ہیں :     الاسناد من خصائص ھذہ الأمّۃ ، وھو من خصائص الاسلام ، ثمّ ھو فی الاسلام من خصائص أھل السّنّۃ ، والرّافضۃ من أقلّ النّاس عنایۃ بہ ، اذ کانوا لا یصدّقون الّا بما یوافق أھوائھم ، وعلامۃ کذبہ أنّھم یخالف أھوائھم ۔     ”اسناد اس امت کا خاصہ ہے ، اسلام کا خاصہ ہے ، پھر اہل اسلام میں سے اہل سنت کا خاصہ ہے ۔ اس کی طرف سب لوگوںمیں سے کم توجہ رافضی کرتے ہیں ، کیونکہ وہ صرف اس سند کی تصدیق کرتے ہیں ، جو ان کی خواہشات کے موافق ہو اور(ان کے نزدیک) سند کے جھوٹا ہونے کے علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہو ۔”
(منھاج السنۃ النبویۃ : ٤/١١)
علامہ ابنِ حزم   رحمہ اللہ (م ٤٥٦ھ)لکھتے ہیں :      ”ثقہ کا ثقہ سے نقل کرنا ، حتی کہ یہ سلسلہ اتصال کے ساتھ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے ، ہر ایک راوی اپنے شیخ کا نام ونسب بیان کرے ، سب کی ذات اور ان کے احوال وزمان ومکان معروف ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خصوصیت (سند)اللہ تعالیٰ نے باقی سب امتوں میں سے صرف مسلمانوں کو دی ہے اور اس خصوصیت کوان کے ہاں قدیم زمانوں کے باوجود تروتازہ وشگفتہ رکھا ہے ۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے اتنے لوگ دوردراز آفاق کا سفر کرتے ہیں کہ ان کا شمار ان کا خالق ہی کرسکتا ہے ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ، لہٰذا اگر ان میں سے کسی سے نقل کرنے میں ایک کلمہ کی بھی غلطی ہوجائے تو وہ ان سے بچ کر نہیں نکلتی ، نہ ہی کسی فاسق کے لیے ممکن ہے کہ وہ اس میں کوئی ایک بھی من گھڑت کلمہ داخل کر سکے ۔ وللّٰہ تعالیٰ الشّکر !
یہود : ارسال اور انقطاع کے ساتھ سند یہود میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے ، لیکن وہ اس کے ذریعے بھی سیدنا موسیٰ u کے قریب نہیں پہنچ پاتے ، بلکہ وہ موسیٰ u سے اتنا دوررُک جاتے ہیں کہ ان کے درمیان تیس زمانوں سے بھی زیادہ اور پندرہ سوسال سے بھی زیادہ عرصے کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ وہ صرف شمعون وغیرہ تک پہنچ پاتے ہیں ۔
نصارٰی :     رہے نصاریٰ تو ان کے پاس اس میں سے صرف طلاق کی حرمت کا فتویٰ ہے ، پھر اس کا بیان کرنے والا بھی ایسا کذاب آدمی ہے ، جس کا جھوٹ واضح ہے ۔ کذاب اور مجہول راویوں پر مشتمل سندیں یہود ونصاریٰ کے ہاں بہت ہیں ۔
رہے اقوالِ صحابہ وتابعین تو یہودی اپنے نبی کے کسی صحابی یا تابعی تک قطعاً سند نہیں پہنچا سکتے ، نہ ہی نصاریٰ کے لیے ممکن ہے کہ وہ شمعون اورپولس سے آگے جائیں ۔۔۔”
(الفصل فی الملل والاھواء والنحل : ٢/٨٢۔٨٥)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.