3,109

صفات باری تعالیٰ کی معرفت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں چند اہم قواعد
اسم اور صفت کا معنیٰ اور ان میں فرق :
اسم : وہ لفظ ہے جو اپنا معنیٰ از خود بتا سکے۔(التعریفات للجرجاني، ص : 24)
ان الفاظ کواسمائ( نام) کہا جاتا ہے،جو چیزوں پر دلالت کرتے ہیں۔
(مجموع الفتاوٰی : 195/6)
ایک قول یہ ہے کہ اسم وہ لفظ ہے جو اپنے مسمّٰی کے بارے میں خبر دے،فعل وہ لفظ ہے جو مسمّٰی کی حرکت کے بارے میں بتائے اور حرف وہ لفظ ہے جو ایسا معنیٰ بتائے جو اسم و فعل نہ ہو۔(الکلّیّات لأبي البقاء الکفوي، ص : 83)
صفت : وہ اسم ہے جو کسی ذات کے بعض حالات کے بارے میں بتائے۔ صفت اس موصوف کی لازمی علامت ہوتی ہے،جو اس کے ساتھ معروف ہوتا ہے۔
(التعریفات للجرجاني، ص : 133)
صفت وہ ہوتی ہے جس سے وصف (اسم صفت)مشتق ہوتا ہے اور اسم صفت، صفت پر دلالت کرتا ہے،جیسے علم و قدرت وغیرہ۔ (الکلّیّات، ص : 546)
ابن فارس کہتے ہیں : ”کسی چیز کی لازمی علامت کو صفت کہتے ہیں۔”
(معجم مقاییس اللغۃ : 448/5)
نیز کہتے ہیں : ”کسی چیز میں موجود خوبی کا بیان صفت کہلاتا ہے۔”
(أیضًا : 115/6)
اسم اور صفت میں فرق :
سعودیہ کی فتویٰ کمیٹی سے اسم اور صفت کا فرق پوچھا گیا تو یہ جواب دیا گیا :
”اللہ تعالیٰ کے اسماء سے مراد وہ تمام الفاظ ہیں جو باری تعالیٰ کی ذات پر اس کی کمال والی صفات کے ساتھ دلالت کرتے ہیں،جیسا کہ قادر،علیم،حکیم،سمیع،بصیر۔
یہ نام اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بھی بتاتے ہیں اور اس قدرت، علم، حکمت اور سمع و بصر کے بارے میں بتاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔
جبکہ صفات وہ کمال والے اوصاف ہیں،جو ذات ِباری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں، جیسا کہ علم و حکمت اور سمع و بصر وغیرہ۔
یوں اسم دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے اور صفت ایک چیز پر۔اس بات کو یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اسم ،صفت کو متضمن ہوتا ہے اور صفت اسم کو مستلزم ہوتی ہے۔
(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ : 116/3، الرقم : 8942)
اسم سے صفت کے اور صفت سے اسم کے فرق کو کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے؛
1 اسماء سے صفات بنائی جاتی ہیں،جبکہ صفات سے اسماء نہیں بنائے جا سکتے۔مثلاً ہم اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی رحیم،قادر اور عظیم سے رحمت،قدرت اور عظمت والی صفات مشتق کر سکتے ہیں،لیکن ہم ارادہ، مجیئت اورمکر کی صفات سے اللہ تعالیٰ کے نام مرید،جائی اور ماکر نہیں بنا سکتے۔
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ صفات پر مشتمل ہیں،جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ قصیدہئ نونیہ میں فرماتے ہیں:
أَسْمَاءُ ہ، أَوْصَافُ مَدْحٍ کُلُّہَا مُشْتَقَّۃٌ قَدْ حُمِّلَتْ لِمَعَانٍ
”اللہ تعالیٰ کے نام اوصافِ مدح ہیں اور سارے کے سارے مشتق ہیں،جو مختلف معانی پر محمول کیے جاتے ہیں۔”
2 اللہ تعالیٰ کے افعال سے اس کا کوئی نام مشتق نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کے محبت،کراہت اور غضب کرنے کے افعال سے محب،مکرہ اور مغضب کی صورت میں اسما نہیں بنا سکتے،البتہ افعال سے صفات ِباری تعالیٰ بنائی جا سکتی ہیں،لہٰذا ہم مذکورہ افعالِ باری تعالیٰ سے محبت، کراہت اور غضب کی صفات ثابت کریں گے۔ اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ صفات ِ باری تعالیٰ کا دائرہ اسماء ِ حسنیٰ کی نسبت وسیع ہے۔
(مدارج السالکین لابن القیّم : 415/3)
3 اسمائے حسنیٰ اور صفات ِ باری تعالیٰ سے پناہ بھی پکڑی جا سکتی ہے اور ان کی قسم بھی اٹھائی جا سکتی ہے، اس معاملے میں اسماء و صفات ِ باری تعالیٰ مشترک ہیں۔البتہ بندگی و دعا میں یہ مختلف ہیں کہ اسمائے حسنیٰ سے بندگی کا اظہار کیا جاتا ہے، چنانچہ ہم اپنا نام عبد الکریم،عبد الرحمن اور عبد العزیز رکھ سکتے ہیں،لیکن عبد الکرم، عبد الرحمت، عبد العزت نام رکھنا جائز نہیں۔اسی طرح اسمائے حسنیٰ کے ذریعے دُعا کی جا سکتی ہے،جیسا کہ اے رحیم ! ہم پر رحم فرما،اے کریم! ہم پر کرم فرما، اے لطیف! ہم پر لطف فرما،لیکن ہم صفات ِ باری تعالیٰ کو پکار نہیں سکتے،چنانچہ اے اللہ کے کرم! اور اے اللہ کے لطف ! نہیں کہا جا سکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صفت کبھی موصوف نہیں ہوتی۔اللہ کی رحمت اللہ نہیں ہے، بلکہ اللہ کی صفت ہے،اسی طرح عزت اور دیگر صفات کا معاملہ ہے کہ یہ صفات ہیں، عین اللہ نہیں۔عبادت صرف اللہ کی جائز ہے اور دُعا بھی صرف اللہ سے کی جا سکتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(یَعْبُدُوْنَنِيْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِيْ شَیْئًا) (النور 24 : 55)
”وہ میری عبادت کریں گے،میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے۔”
نیز فرمایا : (وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ) (غافر 40 : 60)
”تمہارے ربّ نے فرمایا کہ مجھے پکارو،میں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔”
دیگر کئی آیات ِمبارکہ میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے۔
(فتاوی الشیخ ابن عثیمین : 26/1، بترتیب أشرف عبد المقصود)
صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں عمومی قواعد
1 إِثْبَاتُ مَا أَثْبَتَہُ اللّٰہُ لِنَفْسِہٖ فِي کِتَابِہٖ، أَوْ أَثْبَتَہ، لَہ، رَسُولُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ مِنْ غَیْرِ تَحْرِیفٍ وَّلاَ تَعْطِیلٍ، وَمِنْ غَیْرِ تَکْیِیفٍ وَّلَا تَمْثِیلٍ .
”جو صفات ِ باری تعالیٰ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں ثابت کی ہیں،بغیر تحریف و تعطیل اور تکییف و تمثیل ان سب کا اثبات کرنا ضروری ہے۔”(عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابوني، ص : 4، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 3/3، 182/4، 26/5، 38/6، 515/6)
کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں دوسروں سے بہتر جانتا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری مخلوق سے بڑھ کر اپنے ربّ کی معرفت رکھتے تھے۔
2 نَفْيُ مَا نَفَاہُ اللّٰہُ عَنْ نَّفْسِہٖ فِي کِتَابِہٖ، أَوْ نَفَاہُ عَنْہُ رَسُولُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَعَ اعْتِقَادِ ثُبُوتِ کَمَالِ ضِدِّہٖ لِلّٰہِ تَعَالٰی .
”اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جن چیزوں سے اپنی ذات کو منزہ و مبرا قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جن چیزوں کی ذات ِباری تعالیٰ سے نفی کر دی ہے،ان کی نفی کرنا اور ان کی کمال ضد کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ضروری ہے۔ ”
(العقیدۃ التدمیریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 58، الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمیّۃ : 139/3)
اللہ تعالیٰ سے موت کی نفی کرنے میں اس کی کمال حیات کا اثبات شامل ہے، اس سے ظلم کی نفی کرنے میں اس کے کمال عدل کا اثبات ہے اور اس سے نیند کی نفی کرنے میں اس کی کمال قیومیت کا اثبات ہے۔
3 صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تَوْقِیفِیَّۃٌ، فَلَا یُثْبَتُ مِنْہَا إِلَّا مَا أَثْبَتَہُ اللّٰہُ لِنَفْسِہٖ، أَوْ أَثْبَتَہ، لَہ، رَسُولُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یُنْفٰی عَنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا مَا نَفَاہُ عَنْ نَّفْسِہٖ، أَوْ نَفَاہُ عَنْہُ رَسُولُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”صفات ِباری تعالیٰ کا اثبات وحی ئ الٰہی پر موقوف ہے،یعنی صرف وہی صفات اللہ تعالیٰ کے لےے ثابت کی جائیں گی،جو خود اللہ نے اپنے لیے ثابت کی ہیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ثابت کی ہیں۔اسی طرح صرف انہی چیزوں کی اللہ تعالیٰ سے نفی کی جائے گی،جن چیزوں کی خود اللہ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات ِالٰہی سے نفی کی ہے۔”(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 26/5)
4 اَلتَّوَقُّفُ فِي الْـأَلْفَاظِ الْمُجْمَلَۃِ الَّتِي لَمْ یَرِدْ إِثْبَاتُہَا وَلَا نَفْیُہَا، أَمَّا مَعْنَاہَا؛ فَیُسْتَفْصَلُ عَنْہُ، فَإِنْ أُرِیدَ بِہٖ بَاطِلٌ یُّنَزَّہُ اللّٰہُ عَنْہُ، رُدَّ، وَإِنْ أُرِیدَ بِہٖ حَقٌّ لَّا یَمْتَنِعُ عَلَی اللّٰہِ، قُبِلَ، مَعَ بَیَانِ مَا یَدُلُّ عَلَی الْمَعْنَی الصَّوَابِ مِنَ الْـأَلْفَاظِ الشَّرْعِیَّۃِ، وَالدَّعْوَۃِ إِلَی اسْتِعْمَالِہٖ مَکَانَ ہٰذَا اللَّفْظِ الْمُجْمَلِ الْحَادِثِ .
”ایسے مجمل الفاظ جن کا اثبات یا نفی ثابت نہیں،ان کے استعمال میں توقف کیا جائے۔رہا ان الفاظ کے معانی کا معاملہ،تو ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں سے تفصیل طلب کی جائے۔اگر ان کی مراد ایسی باطل ہو جس سے اللہ تعالیٰ منزہ و مبرا ہے،تو انہیں ردّ کر دیا جائے اور اگر ان کی مراد ایسی ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں اطلاق ممتنع نہیں،تو انہیں قبول کر لیا جائے،البتہ ساتھ ہی وہ شرعی الفاظ بھی بیان کر دئیے جائیں جو درست معنیٰ پر دلالت کرتے ہوں،نیز ان نئے مجمل الفاظ کی بجائے شرعی الفاظ کے استعمال کی ترغیب بھی دی جائے۔”
(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 65، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 299/5، 36/6)
اس کی مثال لفظ ِ جہت ہے۔ہم اس کے اثبات یا نفی میں توقف کریں گے اور اس کا اطلاق کرنے والے سے یہ سوال کریں گے : آپ کی اس لفظ سے کیا مراد ہے؟ اگر وہ کہے کہ میری مراد ایسی جگہ ہے،جو ذات ِباری تعالیٰ کو محیط ہے،تو ہم کہیں گے : یہ معنیٰ باطل ہے،اس سے اللہ تعالیٰ منزہ ومبرا ہے۔ہم اس معنیٰ کو ردّ کر دیں گے۔ البتہ اگر وہ کہے کہ میری مراد مطلق بلندی ہے، تو ہم کہیں گے : یہ معنٰی حق ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ممتنع نہیں۔ہم اس معنیٰ کو قبول کر لیں گے ،لیکن ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ اس طرح کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے : اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر یا بلندی میں ہے۔صحیح دلائل انہی الفاظ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔لفظ ِجہت تو مجمل اور نیا لفظ ہے، جس کا ذات ِباری تعالیٰ کے بارے میں استعمال ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔
5 کُلُّ صِفَۃٍ ثَبَتَتْ بِالنَّقْلِ الصَّحِیحِ، وَافَقَتِ الْعَقْلَ الصَّرِیحَ، وَلَا بُدَّ .
”ہر وہ صفت جو نقل صحیح سے ثابت ہو، ضروری طور پر عقل صریح کے بھی موافق ہوتی ہے۔”(مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 141/1، 253)
6 قَطْعُ الطَّمْعِ عَنْ إِدْرَاکِ حَقِیقَۃِ الْکَیْفِیَّۃِ .
”ضروری ہے کہ صفات ِباری تعالیٰ کی کیفیت کے ادراک کی خواہش نہ کی جائے۔”
(منہج ودراسات لآیات الأسماء والصفات للشنقیطي، ص : 26)
کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا) (طٰہٰ 20 : 110)
”وہ اللہ کا علم کے ذریعے احاطہ نہیں کر سکتے۔”
7 صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تُثْبَتُ عَلٰی وَجْہِ التَّفْصِیلِ، وَتُنْفٰی عَلٰی وَجْہِ الْإِجْمَالِ .
”جب کسی صفت کو باری تعالیٰ کے لیے ثابت کیا جائے،تو تفصیل کی جائے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی ذات سے کسی چیز کی نفی کی جائے، تو اجمال سے کام لیا جائے۔”
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 37/6، 515)
صفات کے اثبات میں تفصیل یوں ہو گی کہ سمع و بصر اور دیگر صفات کو الگ الگ ثابت کیا جائے، جبکہ نفی میں اجمال یوں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ کہا جائے کہ :
(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) (الشورٰی 42 : 11)
”اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں۔”
8 کُلُّ اسْمٍ ثَبَتَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ؛ فَہُوَ مُتَضَمِّنٌ لِّصِفَۃٍ، وَّلَا عَکْسَ .
”ہر وہ اسم جو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے،اس میں کوئی نہ کوئی صفت ضرور موجود ہے،لیکن ہر صفت سے کوئی نام ثابت نہیں ہوتا۔”(بدائع الفوائد لابن القیّم : 162/1، القواعد المثلٰی في صفات اللّٰہ وأسمائہ الحسنٰی لابن عثیمین، ص : 30)
اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام ”رحمن”میں صفت ِرحمت موجود ہے، اسی طرح ”کریم” میں صفت ِکرم اور ”لطیف”میں صفت ِلطف موجود ہے،لیکن صفات ِباری تعالیٰ ”ارادہ،اتیان،استوائ”وغیرہ سے نام بنا کر ہم اللہ تعالیٰ کو ”مرید،آتی،مستوی” نہیں کہہ سکتے۔
9 صِفَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی کُلُّہَا صِفَاتُ کَمَالٍ، لَا نَقْصَ فِیہَا بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوہِ .
”اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال والی ہیں،ان میں کسی قسم کا کوئی نقص موجود نہیں۔”(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 206/5، مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 232/1، بدائع الفوائد لابن القیّم : 168/1)
0 صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتِیَّۃٌ وَّفِعْلِیَّۃٌ، وَالصِّفَاتُ الْفِعْلِیَّۃُ مُتَعَلِّقَۃٌ بِأَفْعَالِہٖ، وَأَفْعَالُہ، لَا مُنْتَہٰی لَہَا .
”اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی بھی ہیں اور فعلی بھی۔جو صفات فعلی ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کے افعال سے تعلق رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے افعال کی کوئی انتہا (شمار)نہیں،(لہٰذا فعلی صفات بھی بے شمار ہیں)۔”
(القواعد المثلٰی في صفات اللّٰہ وأسمائہ الحسنٰی لابن عثیمین، ص : 30)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَائُ) (إبراہیم 14 : 27)
”اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے،کرتا ہے۔”
! دَلَالَۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِ الصِّفَۃِ؛ إِمَّا التَّصْرِیحُ بِہَا، أَوْ تَضَمُّنُ الِاسْمِ لَہَا، أَوِ التَّصْرِیحُ بِفِعْلٍ أَوْ وَصْفٍ دَالٍّ عَلَیْہَا .
”کتاب و سنت سے کسی صفت ِباری تعالیٰ کا ثبوت تین طرح سے ہو سکتا ہے ؛ایک اس کا واضح بیان آ جائے ،دوسرے کسی نام سے ثابت ہو جائے ،تیسرے کسی فعل و وصف ِ باری تعالیٰ سے اس کا اثبات ہو جائے۔”
(القواعد المثلٰی في صفات اللّٰہ وأسمائہ الحسنٰی لابن عثیمین، ص : 38)
١۔ تصریح کی مثال،جیسے رحمت،عزت،قوت،چہرہ،دوہاتھ اور انگلیوں کی صفات ِ باری تعالیٰ صریح طور پر قرآن وسنت میں مذکور ہیں۔
٢۔ اللہ تعالیٰ کے کسی نام سے صفت کا ثبوت،جیسے اللہ تعالیٰ کے نام ”بصیر” میں صفت ِبصر اور ”سمیع”میں صفت ِسمع موجود ہے۔
٣۔ کسی فعل ووصف ِ باری تعالیٰ سے صفت کا اثبات،جیسے صفت ِ استوا اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ثابت ہو رہی ہے :
(اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ 20 ـ 5)
”رحمن عرش پر مستوی ہوا۔”
نیز اس فرمانِ باری تعالیٰ سے صفت ِ انتقام ثابت ہو رہی ہے :
(اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ) (السجدۃ 32 : 22)
”یقینا ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔”
@ صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یُسْتَعَاذُ بِہَا وَیُحْلَفُ بِہَا .
”صفات ِباری تعالیٰ کی پناہ پکڑی جا سکتی ہے اور ان کی قسم بھی اٹھائی جا سکتی ہے۔”(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 143/6، 229، 273/35)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
‘أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ’ .
”(اے اللہ!)میں تیرے غصے سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔”(صحیح مسلم : 486)
اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ”کتاب الایمان والنذور” میں یہ باب قائم فرمایا ہے :
بَابُ الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَصِفَاتِہٖ وَکَلِمَاتِہٖ .
”اللہ تعالیٰ کی عزت،اس کی دیگر صفات اور اس کے کلمات کی قسم اٹھانے کا بیان۔”
# اَلْکَلَامُ فِي الصِّفَاتِ کَالْکَلَامِ فِي الذَّاتِ .
”صفات ِباری تعالیٰ کا معاملہ بالکل ذات ِباری تعالیٰ کی طرح ہے۔”
(الکلام علی الصفات للخطیب البغدادي، ص : 20، الحجّۃ في بیان المحجّۃ لقوّام السنّۃ الأصبہاني : 174/1، التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 43، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 330/5، 355/6)
یعنی جس طرح اس کی ذات حقیقی ہے،لیکن مخلوق کی ذاتوں سے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات بھی حقیقی ہیں،لیکن مخلوق کی صفات سے مشابہ نہیں۔نیز جس طرح ذات ِ باری تعالیٰ کے اثبات میں وجود کا اثبات کیا جاتا ہے،کیفیت کا نہیں،اسی طرح صفات ِباری تعالیٰ کے اثبات میں بھی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔
$ اَلْقَوْلُ فِي بَعْضِ الصِّفَاتِ کَالْقَوْلِ فِي الْبَعْضِ الْآخَرِ .
”کچھ صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں جو (اقراری)رویہ اختیار کیا جاتا ہے،وہ باقی تمام صفات کے بارے میں بھی اختیار کرنا ضروری ہے۔”
(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 31، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 212/5)
یعنی جو شخص سمع و بصر اور ارادہ کی صفات ِباری تعالیٰ کا اقرار کرتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت،رضا،غضب اور کراہیت والی صفات کو بھی تسلیم کرے۔کچھ صفات کا اقرار اور کچھ کا انکار عقلی طور پر بھی درست نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جو شخص صفات ِ باری تعالیٰ کے بارے میں فرق والی روش اختیار کرتا ہے، حالانکہ ساری صفات اسباب ِحقیقت و مجاز میں برابر ہیں،ایسے شخص کا قول متناقض ہے، اس کا مذہب بے تُکا ہے اور وہ ان لوگوں کی روش اختیار کیے ہوئے ہے،جو کتاب کی بعض آیات پر ایمان لاتے اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔”(مجموع الفتاوٰی : 212/5)
% مَا أُضِیفَ إِلَی اللّٰہِ مِمَّا ہُوَ غَیْرُ بَائنٍ عَنْہُ؛ فَہُوَ صِفَۃٌ لَّہ، غَیْرُ مَخْلُوقَۃٍ، وَکُلُّ شَيْءٍ أُضِیفَ إِلَی اللّٰہِ بَائِنٌ عَنْہُ؛ فَہُوَ مَخْلُوقٌ، فَلَیْسَ کُلُّ مَا أُضِیفَ إِلَی اللّٰہِ یَسْتَلْزِمُ أَنْ یَّکُونَ صِفَۃً لَّہ، .
”جس چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اور وہ چیز اللہ سے جدا نہیں ہے،وہ اللہ کی صفت ہے،مخلوق نہیں۔اس کے برعکس جس چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے،لیکن وہ اس سے جدا ہے ،وہ مخلوق ہے۔ہر وہ چیز جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے،ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی صفت ہی ہو۔”
(الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمیّۃ : 145/3، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 290/9، مجموع فتاوٰی ورسائل ابن عثیمین : 166/1)
جو چیز اللہ کی طرف منسوب ہے اور اس سے جدا نہیں،اس کی مثال اللہ تعالیٰ کی سمع و بصر اور رضا و سخط (ناراضی)ہے۔یہ اللہ کی صفات ہیں۔
اور جو چیز اللہ کی طرف منسوب ہے،لیکن اس سے جدا ہے،اس کی مثال بیت اللہ(اللہ کا گھر) اور ناقۃ اللہ(اللہ کی اونٹنی)۔بیت یا ناقہ کو اللہ کی صفت نہیں کہا جا سکتا۔
^ صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَسَائِرُ مَسَائِلِ الِاعْتِقَادِ تَثْبُتُ بِمَا ثَبَتَ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ کَانَ حَدِیثًا وَّاحِدًا، وَإِنْ کَانَ آحَادًا .
”صفات ِباری تعالیٰ اور تمام اعتقادی مسائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث، چاہے وہ آحاد ہی ہو،سے ثابت ہو جاتے ہیں۔”
(مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 332/2، 412، 433)
& مَعَانِي صِفَاتِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ الثَّابِتَۃُ بِالْکِتَابِ أَوِ السُّنَّۃِ مَعْلُومَۃٌ، وَتُفَسَّرُ عَلَی الْحَقِیقَۃِ، لاَ مَجَازَ وَلَا اسْتِعَارَۃَ فِیہَا أَلْبَتَۃَ، أَمَّا الْکَیْفِیَّۃُ؛ فَمَجْہُولَۃٌ .
”جو صفات ِباری تعالیٰ کتاب وسنت سے ثابت ہیں،ان کے معانی معلوم ہیں، ان کا حقیقی معنٰی ہی لیا جائے،ان کے معانی میں مجاز و استعارہ کو قطعاً کوئی دخل نہیں۔ رہی ان کی کیفیت تو وہ معلوم نہیں۔”(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 44-43، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 42-36/5، مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 2/1)
* مَا جَاءَ فِي الْکِتَابِ أَوِ السُّنَّۃِ، وَجَبَ عَلٰی کُلِّ مُؤْمِنٍ الْقَوْلُ بِمُوجَبِہٖ وَالْإِیمَانُ بِہٖ، وَإِنْ لَّمْ یَفْہَمْ مَعْنَاہُ .
”کتاب و سنت میں جو بات ذکر ہو جائے،اس کا معنٰی سمجھ نہ بھی سکے، تو ہر مؤمن کے لیے اس پر ایمان لانا اور اسی کے مطابق اپنا مذہب بنانا فرض ہو جاتا ہے۔”
(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 65، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 298/5، دقائق التفسیر لابن تیمیّۃ : 245/5)
( بَابُ الْإِخْبَارِ أَوْسَعُ مِنْ بَابِ الصِّفَاتِ، وَمَا یُطْلَقُ عَلَیْہِ مِنَ الْإِخْبَارِ؛ لَا یَجِبُ أَنْ یَّکُونَ تَوْقِیفِیًّا، کَالْقَدِیمِ، وَالشَّيْءِ ، وَالْمَوْجُودِ ۔۔۔ .
”اللہ تعالیٰ کی معرفت کے سلسلے میں بیان، صفات کے دائرے سے بہت وسیع ہے۔ یہ بیان توقیفی ہونا ضروری نہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں خبر دینے کے لیے قدیم،شَے اور موجود کے الفاظ استعمال کرنا۔”(بدائع الفوائد لابن القیّم : 162/1)
) صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یُقَاسُ عَلَیْہَا .
”صفات ِباری تعالیٰ میں (ایک کو دوسری پر) قیاس کرنا جائز نہیں۔”
(شأن الدعاء للخطابي، ص : 111)
مثلاً صفت ِ”سخائ”کو ”جُود” پر،”ہمت”کو ”قوت”پر،”استطاعت’کو ”قدرت” پر، ”رقت”کو ”رحمت و رافت”پراور ”معرفت”کو ”علم”پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات ِباری تعالیٰ کے سلسلے میں نصوصِ شرعیہ سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔
` صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ حَصْرَ لَہَا، لِأَنَّ کُلَّ اسْمٍ یَّتَضَمَّنُ صِفَۃً،۔۔۔۔۔، وَأَسْمَاءُ اللّٰہِ لاَ حَصْرَ لَہَا، فَمِنْہَا مَا اسْتَأْثَرَ اللّٰہُ بِہٖ فِي عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَہ، .
”اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں،کیونکہ ہر اسم میں کوئی نہ کوئی صفت موجود ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا شمار نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے کچھ نام تو ایسے ہیں،جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس علم غیب میں چھپائے ہوئے ہیں۔”
صفات ِباری تعالیٰ کی اقسام
اللہ تعالیٰ کی صفات کو تین طرح سے تقسیم کیا جا سکتا ہے ؛
1 اثبات و نفی کے اعتبار سے۔
2 ذاتِ الٰہی اور افعالِ باری تعالیٰ سے تعلق رکھنے کے اعتبار سے۔
3 ثبوت و دلائل کے اعتبار سے۔
ان تینوں قسموں میں سے ہر قسم کی پھر دو قسمیں ہیں؛
آئیے تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں :
1 اثبات و نفی کے اعتبار سے :
(ا) صفات ِ ثبوتیہ :
یہ وہ صفات ہیں،جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے لیے ثابت کیا ہے،مثلاً صفت ِ استوا،نزول،وجہ(چہرہ)،ید(ہاتھ) وغیرہ۔یہ ساری مدح و کمال پرمشتمل صفات ہیں۔کتاب و سنت میں منقول اکثر صفات ِباری تعالیٰ اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کا اثبات ضروری ہے۔
(ب) صفات ِ سلبیہ :
یہ وہ صفات ہیں،جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ سے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات ِباری تعالیٰ سے نفی کیا ہے۔یہ ساری نقص والی صفات ہیں،مثلاً موت،اونگھ، نیند،ظلم وغیرہ۔عموماً کتاب و سنت میں ان صفات سے پہلے حرف ِنفی ،جیسے لا،ما، لیس وغیرہ آتا ہے۔ان صفات کی ذات ِباری تعالیٰ سے نفی کرنا اور ان کی کمال والی ضد [جیسے موت کی ضد کمال حیات ہے]کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ضروری ہے۔
2 ذاتِ الٰہی اور افعالِ باری تعالیٰ سے تعلق رکھنے کے اعتبار سے :
(ا) صفات ِذاتیہ :
یہ وہ صفات ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا،مثلاً علم،قدرت،حیات،سمع ،بصر،چہرہ،ہاتھ،وغیرہ۔
(ب) صفات ِ فعلیہ :
یہ وہ صفات ہیں، جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیئت و قدرت سے ہوتا ہے، اللہ چاہے تو کرے،نہ چاہے تو نہ کرے،مثلاً مجیئت(آنا)،نزول،غضب،فرح(خوش ہونا)، ضحک(ہنسنا) وغیرہ۔ انہیں صفات ِاختیاریہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے افعال بھی دو طرح کے ہوتے ہیں :
1 افعالِ لازمہ ،جیسے استوائ، نزول، اتیان وغیرہ۔
2 افعالِ متعدیہ، جیسے خلق،عطاء وغیرہ۔
افعالِ باری تعالیٰ کا کوئی شمار نہیں۔فرمانِ الٰہی ہے :
(وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَائُ) (إبراہیم 14 : 27)
”اور اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔”
اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کی صفات ِفعلیہ کا بھی کوئی شمار نہیں۔
ذات ِباری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہونے کی بنا پر صفات ِفعلیہ کو صفات ِ ذات بھی کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے صادر ہونے والے اقوال و افعال سے تعلق کی بنا پر انہیں صفاتِ افعال کا نام بھی دیا جاتا ہے۔اس کی مثال صفت ِکلام ہے کہ یہ صفت اپنی اصل اور نوع کے اعتبار سے صفت ِذات ہے اور کلام کی اکائی اور فرد ہونے کے اعتبار سے صفت ِفعل ہے۔
3 ثبوت و دلائل کے اعتبار سے :
(ا) صفات ِخبریہ :
یہ وہ صفات ہیں، جن کے اثبات کا انحصار صرف اللہ اور اس کے رسول سے منقول خبر پر ہے۔انہیں صفات ِسمعیہ یا نقلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ان میں صفات ذاتیہ بھی ہو سکتی ہیں،جیسے چہرہ اور دوہاتھ ہیں اور فعلیہ بھی ہو سکتی ہیں،جیسے فرح و ضحک وغیرہ۔
(ب) صفات ِسمعیہ و عقلیہ :
یہ ایسی صفات ہیں،جن کا اثبات نقلی دلائل سے بھی ہوتا ہے اور عقلی دلائل سے بھی۔یہ کبھی صفات ِذاتیہ ہوتی ہیں،جیسے حیات،علم، قدرت وغیرہ اور کبھی صفات ِفعلیہ ہوتی ہیں،جیسے خلق اور عطا وغیرہ۔
صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کے ثمرات
صفات ِباری تعالیٰ کے علم،ان پر ایمان اور تدبر کے بڑے ثمرات اور گراں قدر فوائد ہیں۔ان فوائد و ثمرات کو حاصل کرنے والے ایمان کی حلاوت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد،جو تعطیل و تاویل اور تشبیہ کی مرتکب ہے،ان فوائد سے محروم ہو گئی ہے۔ صفات ِ باری تعالیٰ پر ایمان کے کچھ فوائد و ثمرات درجِ ذیل ہیں:
1 صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بندہ اپنی اوقات کے مطابق ان صفات سے متصف ہونے کی کوشش کرتا ہے،کیونکہ اہل دانش کو معلوم ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی صفات اپنانا پسند کرتا ہے،اسی طرح محبوب بھی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا محب اس کی صفات کو اپنائے۔یہ بات اپنے ربّ سے محبت کرنے والے بندے کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی اوقات کے مطابق صفات ِباری تعالیٰ سے متصف ہو۔اللہ تعالیٰ کریم ہے،کرم کو پسند کرتا ہے،رحیم ہے،رحم کو پسند کرتا ہے، نرم ہے،نرمی کو پسند کرتا ہے۔جب بندے کو یہ صفات معلوم ہوں گی تو وہ کرم،رحم اور نرمی کی صفات سے متصف ہونے کی کوشش کرے گا۔یہی معاملہ ان باقی صفات کا ہے، جن سے بندوں کا متصف ہونا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
2 بندہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت ِمحبت پر ایمان لاتا ہے اور اسے علم ہوتا ہے کہ اللہ رحیم اور ودود(محبت کرنے والا)ہے تو وہ اپنے ربّ سے مانوس ہو جاتا ہے اور ان کاموں سے اس کا تقرب حاصل کرتا ہے ،جن سے اللہ کی محبت و مودّت زیادہ ہوتی ہے،جیسا کہ حدیث ِقدسی ہے :
‘وَمَا یَزَالُ عَبْدِي یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ، حَتّٰی أُحِبَّہ،’ .
”بندہ نفلی کاموں کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے،حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔”(صحیح البخاري : 6502)
اسی طرح بندہ ان لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے،جن کے بارے میں حدیث میں آتا ہے :
‘إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ، فَقَالَ : إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّہ،، قَالَ : فَیُحِبُّہ، جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِي فِي السَّمَائِ، فَیَقُولُ : إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوہُ، فَیُحِبُّہ، أَہْلُ السَّمَائِ، قَالَ : ثُمَّ یُوضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِي الْـأَرْضِ’ .
”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریلuکو بلا کر فرماتا ہے : میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں،تم بھی اس سے محبت کرو۔جبریلu اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جبریلuآسمانوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے،تم سب بھی اس سے محبت کرو۔آسمان کی تمام مخلوق اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔پھر زمین والوں کے دلوں میں بھی اس بندے کے بارے میں نیک نامی ڈال دی جاتی ہے۔”(صحیح البخاري : 3209، صحیح مسلم : 2637، واللفظ لہ،)
اس عظیم صفت پر ایمان کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو بندہ اللہ کا محبوب بننا چاہتا ہے، وہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی شروع کر دیتا ہے ،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ) (آل عمران 3 : 31)
”(اے نبی!)کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔”
اللہ کی بندے سے محبت کا دارومدار بندے کی اللہ سے محبت پر ہے۔جب بندے کے دل میں محبت کا درخت لگ جائے اور اسے اخلاص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا پانی ملنا شروع ہو جائے،تو وہ اللہ کی توفیق سے ہر وقت طرح طرح کے ثمرات دیتا رہتا ہے۔
3 جب بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ علم،احاطہ اور معیت پر ایمان لے آتا ہے، تو اس پر ذات ِباری تعالیٰ کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔جب وہ صفت ِسمع پر ایمان لاتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ساری باتیں سنتا ہے،چنانچہ وہ صرف اچھی بات اپنی زبان سے ادا کرتا ہے۔جب وہ صفت ِ بصر،رؤیت،نظر اور عین پر ایمان لاتا ہے تو جان لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے،چنانچہ وہ صرف اچھے کام ہی کرتا ہے۔
جس بندے کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی باتیں سن رہا ہے اور اس کے کاموں کو دیکھ رہا ہے،جو کچھ وہ کہتا ہے یا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، آپ کے خیال میں کیا ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو وہاں نہ پائے،جہاں سے اس نے اسے منع کیا ہے اور وہاں سے وہ بندہ غائب نہ ہو،جہاں جانے کا اس نے اسے حکم دیا ہے؟
جب اس بندے کو یہ معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت بھی کرتا ہے اور راضی بھی ہوتا ہے،تو وہ ایسے اعمال سرانجام دیتا ہے، جن کو اس کا معبود و محبوب پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔جب یہی بندہ اللہ تعالیٰ کی صفات ِغضب ،کراہیت،ناراضی،لعنت پر ایمان لاتا ہے ،تو وہ ایسے اعمال کرتا ہے،جو اس کے ربّ کو غصہ نہیں دلاتے اور جن کو وہ ناپسند نہیں کرتا،تاکہ اس کا ربّ ناراض ہو کر اس پر لعنت کر کے اسے اپنی رحمت سے دُور نہ کر دے۔
جب بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشی، بشاشت اور ہنسنے (جیسا اس کی شان کو لائق ہے) کی صفت پر ایمان لاتا ہے ،تو وہ اس ربّ سے مانوس ہو جاتا ہے،جو بندوں سے خوش بھی ہوتا ہے اور ان پر ہنستا بھی ہے۔
4 جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحمت،رافت،رجوع،لطف،معافی، مغفرت، پردہ پوشی اور قبولیت ِدعا کا علم ہوتا ہے اور وہ ان صفات پر ایمان لاتا ہے، تو جب بھی وہ کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے،اپنے لیے اللہ سے رحمت،مغفرت اور قبولیت ِتوبہ کی دُعا کرتا ہے،نیز اللہ کے ہاں اپنے مؤمن بندوں کے لیے پردہ پوشی اور لطف و کرم کی جو عنایت ہے،بندہ اس کا طمع کرتا ہے۔جب بھی اس سے کوئی گناہ ہوتا ہے،یہ چیزیں اسے اللہ کی طرف رجوع اور توبہ پر آمادہ کرتی ہیں اور یوں کبھی ناامیدی اس کے دل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفت ِصبر و حلم پر ایمان رکھتا ہے،وہ کیسے مایوس ہو سکتا ہے؟ وہ شخص اللہ کی رحمت سے ناامید کیسے ہو گا،جو جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کرم،جود اور عطاء کی صفات سے متصف ہے؟
5 جو شخص یہ جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ قہر،غلبے،بادشاہت اور نگرانی کی صفات سے متصف ہے،اسے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی،وہ زمین میں دھنسانے اور آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دینے پر قادر ہے،وہ اپنے بندوں پر مکمل غلبہ اور کنٹرول رکھتا ہے اور وہ قدیم بادشاہت اور سلطنت والا ہے۔
6 صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہمہ وقت اپنے ربّ سے مانگنے میں مشغول رہتا ہے۔جب گناہ کر بیٹھے ،تو اس کی صفت ِ رحمت، رجوع، معافی اور مغفرت کے وسیلے سے رحمت،معافی اور مغفرت کی دُعا کرتا ہے۔اگر اسے کسی ظالم و جابر دشمن سے ڈر محسوس ہو،تواپنے ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے قوت، غلبے، سلطان، قہر اور جبروت کی صفاتِ باری تعالیٰ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ اے قوت و سلطنت اور قہر و غلبے والی ذات! مجھے اس دشمن کے مقابلے میں کافی ہو جا۔
اگر وہ ایمان رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کفالت کرنے والا،حفاظت کرنے والا، کافی ہونے والا اور کارساز ہے،تو وہ کہتا ہے : ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔وہ واحد،احد اور بے نیاز پر توکل کرتا ہے۔اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ عزت، شدت، انتقام، قوت اور طاقت والی ذات اسے دشمنوں سے بچا لے گی۔
جب اس پر تنگدستی آ جائے،تو وہ غنائ،کرم،جود اور عطاء والی صفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے۔جب اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے ،تو وہ اللہ کو پکارتا ہے، کیونکہ اللہ طبیب،شفا دینے والا اور کافی ہو جانے والا ہے۔اگر وہ اولاد سے محروم ہو،تو وہ اللہ سے نیک اولاد کی دُعا کرتا ہے،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی عطا فرمانے والا ہے۔یوں صفات ِباری تعالیٰ کا علم رکھنے اور ان پر ایمان لانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا رہتا ہے۔
7 جب بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِعظمت،جلال،قوت اور غلبے پر غور و فکر کرتا ہے،تو اپنے آپ کو حقیر سمجھنے اور جاننے لگتا ہے۔جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کی صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ،تو وہ کبھی کسی پر تکبر نہیں کرتا،نہ ہی اللہ تعالیٰ کے لیے خاص صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب اسے علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غنائ،بادشاہت اور عطاء کی صفات سے متصف ہے،تو سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنے اس غنی آقا اور مالک الملک کا محتاج ہے جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کر دیتاہے۔
8 جب بندے کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قوت،عزت اور غلبے کی صفات سے متصف ہے اور ان پر ایمان بھی لے آتا ہے،تو یہ بات بھی بخوبی جان لیتاہے کہ اس کی قوت و عزت اللہ کی دی ہوئی ہے،چنانچہ وہ کسی کافر کے سامنے ذلیل و خوار نہیں ہوتا۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ اللہ کا فرمانبردار رہے گا،تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا حامی و مددگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے امر پر کسی کو غلبہ نہیں۔
9 اللہ کی صفات پر ایمان لانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ حاکمیت،الوہیت،شریعت سازی اور تحلیل و تحریم میں دخل دینے کی کوشش نہیں کرتا۔وہ اللہ کی وحی کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اپنے فیصلے وحی کی طرف ہی لے کر جاتا ہے،وہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام نہیں کہتا،نہ اللہ کی حرام کردہ کو حلال کہتا ہے۔
0 جب کوئی بندہ یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کو لائق ہے،وہ صفت ِکید،مکر،استہزاء اور خداع سے متصف ہے،تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے خلاف مکروتدبیر نہیں کر سکتا۔اللہ ہی بہترین مکرو تدبیر کرنے والا ہے۔کوئی اللہ تعالیٰ سے استہزاء نہیں کر سکتا،نہ اسے دھوکا دے سکتا ہے،کیونکہ جیسے اللہ کی شان کو لائق ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔اللہ تعالیٰ کے استہزاء کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بندے سے ناراض ہو جاتا ہے اور اسے سزا دیتا ہے۔گویا ان صفات پر ایمان بندے کو اللہ کے غصے اور ناراضی والے کاموں میں ملوث ہونے سے بچاتا ہے۔
! بندہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے اور اس کے ذکر کو ترک نہ کرے،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفت ِنسیان(فراموشی)اور ترک(بے یار و مددگار چھوڑنے)سے متصف ہے۔اللہ تعالیٰ بندے کو فراموش کرنے،یعنی بے یارو مددگار چھوڑنے پر قادر ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ) (التوبۃ 9 : 67)
”انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر(بے یارو مددگارچھوڑ) دیا۔”
اس طرح بندہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کو یاد رکھتا ہے۔
@ جو بندہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی،امن اور صدق کی صفت سے متصف ہے،وہ اپنے اندر اطمینان اور امن پسندی محسوس کرتا ہے۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی والا ہے اور سلامتی کو پسند کرتا ہے ،تو وہ مؤمنوں کے درمیان سلامتی پھیلاتا ہے اور یہی وہ مؤمن ہوتا ہے جس کے ظلم سے مخلوق محفوظ و مامون رہتی ہے۔جب بندے کا اعتقاد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ صدق کی صفت سے متصف ہے اور اس نے نیک اعمال کرنے کی صورت میں ایسے باغات کا وعدہ دیا ہے،جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں،تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا سچا ہے،وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔
یہ عقیدہ بندے کو اللہ تعالیٰ کا اور زیادہ مطیع و فرمانبردار بنا دیتا ہے، اس مزدور اور محنت کش کی طرح جو اپنے آقا اور کام لینے والے پر مکمل بھروسا رکھتا ہوکہ وہ اسے اس کا پورا حق بھی دے گا اور زائد انعام بھی دے گا۔
# اللہ تعالیٰ کی صفات ِخبریہ،جیسے چہرہ،دو ہاتھ،انگلیاں،پورے،دو قدم، پنڈلی وغیرہ،بندوں کے لیے سخت امتحان سے کم نہیں۔جو شخص ان صفات کو اس طرح تسلیم کر لیتا ہے ،جس طرح یہ اللہ کو لائق ہیں اور اس سلسلے میں کسی تمثیل ،تحریف اور تکییف سے کام نہیں لیتا ، صفت ِعلم،حیات،قدرت اور ان صفات میں(تسلیم کرنے کے حوالے سے)کوئی فرق نہیں کرتا،وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔اس کے برعکس جس شخص نے اپنی عقلِ سقیم کو نقلِ صحیح پر مقدم کر لیا، ان صفات کی تاویل کرنے لگا،ان کو مجاز قرار دیا اور ان (کو تسلیم کرنے)میں تحریف وتعطیل سے کام لیا،وہ واضح خسارے میں مبتلا ہو گیا۔اس نے ایک صفت کے ساتھ اور معاملہ کیا،جبکہ دوسری کے ساتھ اور۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے،اس شخص نے اس میں اللہ کی تکذیب کر دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جھٹلا دیا۔
اگر ان صفات ِخبریہ پر ایمان لانے کا صرف یہ فائدہ ہو تا کہ بندہ ان کو تسلیم کر کے موحّدین میں شمار ہو جاتا ،تو یہ بھی کافی تھا اور اگر ان صفات پر ایمان کا فائدہ صرف یہی ہوتا کہ ان کے ذریعے اللہ ورسول کی تصدیق کرنے والے مؤمن اور اللہ ورسول کے خلاف جسارت کرنے والے اور ان کے فرامین کی تحریف کرنے والے گستاخ کے درمیان فرق ہو جاتا،تو یہ ثمرہ بھی کافی تھا۔چہ جائیکہ آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ ان صفات ِخبریہ پر ایمان کے اور بھی بہت سے عظیم فوائد ہیں۔
ایک تو یہ کہ جب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا اس کی شان کے لائق چہرہ ہے اور قیامت کے دن اس پر نظر ڈالنا اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہو گی،جس کا وعدہ اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے،توآپ اللہ تعالیٰ سے اس کے معزز چہرے کی طرف دیکھنے کا سوال کریں گے اور اللہ یہ نعمت آپ کو دے دیں گے۔
جب آپ کا یہ ایمان ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا ایسا بھرا ہوا ہاتھ ہے،جس کی عطا میں کبھی کمی نہیں آتی اور ساری بھلائی اس کے ہاتھوں میں ہے ،تو آپ اللہ سے اس کے ہاتھوں کی عطا کا سوال کریں گے۔جب آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ آپ کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے ، تو آپ اس سے اپنے دل کی دین پر استقامت کی دُعا کریں گے۔
$ صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو نقائص سے منزہ و مبرا قرار دیتا ہے اور کمال والی صفات کے ساتھ اسے متصف کرتا ہے۔جس کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ قدوس اور سبوح اللہ کی صفات ہیں،وہ اللہ کو ہر عیب و نقص سے پاک قرار دے گا اور وہ یقین کر لے گا کہ :
(لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ) (الشورٰی 42 : 11)
”اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔”
% جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفت ِ حیات و بقاء کے بارے میں جان لے گا، اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایسے معبود کی عبادت کرتا ہے،جو کبھی نہیں مرے گا اور اسے نہ نیند آتی ہے،نہ اونگھ۔یہ عقیدہ اس کے دل میں اپنے ربّ کے لیے محبت و تعظیم اور تکریم پیدا کر دے گا۔
^ اللہ تعالیٰ کی صفت ِعُلُوّ،فوقیت،استواء علی العرش،نزول،قرب اور دُنُوّپر ایمان لانے کی وجہ سے بندے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات میں حلول کرنے سے پاک ہے،وہ ہر چیز سے بلند ہے،ہر چیز پر مطلع ہے،اپنی مخلوق سے جدا ہے،اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کے اعتبار سے اپنے بندے کے قریب ہے،جب بندے کو اپنے رب سے کوئی حاجت ہوتی ہے تو وہ اس کو اپنے قریب پاتا ہے،اس سے دُعا و التجا کرتا ہے،اللہ اس کی دُعا قبول فرماتا ہے،رات کے آخری تہائی حصے میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف ،جیسے اس کی شان کو لائق ہے،نزول کرتا ہے اور فرماتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے،تو میں اس کی پکار کو قبول کروں۔
یہ اعتقاد بندے میں ان اوقات کی تلاش کا طمع پیدا کر دیتا ہے،جن میں بندہ اپنے ربّ سے خلوت میں ملاقات کر سکے۔اللہ سبحانہ اپنی بلندی کے باوجود (علم کے لحاظ سے)قریب ہے اور اپنے قرب کے باوجود(ذات کے اعتبار سے)دُور ہے۔
& اللہ تعالیٰ کی صفت ِکلام پر ایمان اور قرآنِ کریم کو کلام اللہ تسلیم کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ جب قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے،تو محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام پڑھ رہا ہے۔جب وہ یہ آیت پڑھتا ہے کہ :
(یَا اَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ) (الانفطار 82 : 6)
”اے انسان!تجھے تیرے کریم رب کے متعلق کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے؟”
تو وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے آپ سے ہم کلام محسوس کرتا ہے،اس کا دل خوف سے ہوا ہونے لگتا ہے۔اسی طرح جب بندہ صفت ِکلام پر ایمان لانے کے بعد یہ صحیح حدیث پڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اس طرح کلام فرمائے گاکہ درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہو گا،تو وہ دنیا میں اللہ کی نافرمانی سے گریز کرتا ہے اور اس سوال و جواب اور حساب و کتاب کی تیاری کرنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ہر صفت پر ایمان لانے کے ایسے ہی عظیم فوائد وثمرات ہیں۔اہل سنت پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اس کی ہر صفت پر اسی طرح ایمان لے آئے،جس طرح وہ اس کی شان کے لائق ہے!
نوٹ : یہ مضمون علامہ علوی بن عبد القادر سقّاف کی کتاب صفات اللّٰہ عز ّوجلّ الواردۃ في الکتاب والسنّۃ سے ماخوذ ہے۔
ہر منصف مزاج شخص اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں اہل حدیث ہی کا وہ موقف ہے،جو سلف صالحین سے منقول ہے۔اسلاف قرآن و حدیث میں وارد ہونے والی ہر صفت ِباری تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے،کسی صفت میں تاویل و تحریف یا تمثیل و تکییف اور تعطیل سے کام نہیں لیتے تھے، اسی طرح اہل حدیث بھی تمام صفات ِباری تعالیٰ کو بغیر تاویل و تحریف، تمثیل و تکییف اور تعطیل کے تسلیم کرتے ہیں۔
اس کے برعکس دنیا میں اہل حدیث کے علاوہ کوئی بھی اسلامی مکتب ِفکر ایسا نہیں،جو تمام صفات ِالٰہیہ پر من وعن ایمان لاتا ہو۔اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے،تو دلیل پیش کرے۔
کیا اہل حدیث کے اہل حق ہونے کے لیے یہی دلیل کافی نہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.