1,388

تعداد رکعات وتر، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

تعداد رکعات وتر
نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کی ایک، تین، پانچ، سات اور نورکعات ثابت ہیں۔
ایک رکعت نماز وتر:
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
سُئِلَ الشَّافِعِیُّ عَنِ الْوِتْرِ؟ : أَیَجُوزُ أَنْ یُوتِرَ الرَّجُلُ بِوَاحِدَۃٍ لَیْسَ قَبْلَہَا شَیْء ٌ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَالَّذِی أَخْتَارُ أَنْ أُصَلِّیَ عَشْرَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ أُوتِرَ بِوَاحِدَۃٍ، فَقُلْتُ لِلشَّافِعِیِّ : فَمَا الْحُجَّۃُ فِی أَنَّ الْوِتْرَ یَجُوزُ بِوَاحِدَۃٍ؟، فَقَالَ : الْحُجَّۃُ فِیہِ السُّنَّۃُ وَالْآثَارُ .
”امام شافعی رحمہ اللہ  سے وتر کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آدمی ایک وتر ایسے پڑھے کہ اس سے پہلے کوئی نماز نہ ہو تو کیا جائز ہے؟ فرمایا: ہاں، جائز ہے، لیکن میں پسند یہ کرتا ہوں کہ دس رکعات پڑھ کر پھر ایک وتر پڑھوں۔ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ  سے پوچھا: ایک وتر کے جائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟ فرمایا: اس بارے میں سنت رسول اور آثار سلف دلیل ہیں۔”
(السنن الصغرٰی للبیھقي : ٥٩٣، وسندہ، حسن)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاۃ اللیل مثنی مثنی، فإذا خشی أحدکم الصبح صلی رکعۃ واحدۃ، توتر لا ما قد صلی .
”رات کی نماز دو، دو رکعت ہے، جب تم میں سے کوئی صبح ہونے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ وہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔”
(صحیح بخاري : ٩٩٠، صحیح مسلم : ٧٤٩)
صحیح مسلم (٧٤٩/١٥٨) کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
ویوتر برکعۃ من آخر اللیل .
”رات کے آخری حصے میں ایک وتر پڑھ لے۔”
صحیح مسلم (٧٥٢، ٧٥٣) میں سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر رکعۃ من آخر اللیل .
”وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت کا نام ہے۔”
صحیح مسلم (٧٤٩/١٥٩) کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
صلاۃ اللیل مثنی مثنی، فإذا رأیت أن الصبح یدرکک، فأوتر بواحدۃ .
”رات کی نماز دو، دو رکعت ہے، جب تو دیکھے کہ صبح ہونے کو ہے تو ایک وتر پڑھ لے۔”
سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں:
إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی باللیل إحدی عشرۃ رکعۃ، یوتر منھا بواحدۃ، فإذا فرغ منھا اضطجع علی شقہ الأیمن، حتی یأتیہ المؤذن، فیصلی رکعتین خفیفتین .
”رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک وتر ادا فرماتے۔ جب آپصلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آتا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی سی رکعتیں (فجر کی سنتیں) ادا فرماتے۔”
(صحیح بخاری : ٩٩٤، صحیح مسلم : ٧٣٦، واللفظ لہ،)
سیدنا ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر حق، فمن شاء أوتر بخمس، ومن شاء أوتر بثلاث، ومن شاء أوتر بواحدۃ .
”وتر حق ہیں۔ جو چاہے سات پڑھے۔ جو چاہے پانچ پڑھے۔ جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے ایک پڑھے۔”
(سنن ابی داو،د : ١٤٢٢، سنن النسائی : ١٧١١، سنن ابن ماجہ : ١١٩٠، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٢٤١٠) اور حافظ ابن الملقن (البدر المنیر : ٤/٢٩٦) نے ”صحیح” قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ  نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح” قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدہ عائشہr بیان کرتے ہیں:
أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أوتر برکعۃ .
”نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر ادا فرمایا۔”
(سنن الدار قطنی : ١٦٥٦، وسندہ، صحیح)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما ، رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أوتر برکعۃ .
”آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھا۔”
(صحیح ابن حبان : ٢٤٢٤، وسندہ، صحیح)
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ ان کے پاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  کے غلام بھی موجود تھے۔ انہوں نے آکر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  کو بتایا تو آپ رضی اللہ عنھما  نے فرمایا:
دعہ، فإنہ قد صحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .
”ان کو چھوڑو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔”
(صحیح البخاری : ٣٧٦٤)
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت (٣٧٦٥) میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  نے فرمایا:
إنہ فقیہ .
”وہ فقیہ ہیں۔”
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
إن معاویۃ أوتر برکعۃ، فأنکر ذلک علیہ، فسئل ابن عباس، فقال : أصاب السنۃ .
”سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا، ان پر اس چیز کا اعتراض کیا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما  سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩١، وسندہ، صحیح)
ایک رکعت وتر سنت ہے، فقیہ کی نشانی بھی یہ ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کا قائل و فاعل ہوتا ہے۔ سیدنا معاویہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم دو جلیل القدر صحابی ایک رکعت وتر کے قائل و فاعل ہیں۔ آئیے دیگر صحابہ کرام کا عمل دیکھتے ہیں:
ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما  سے وتر کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ اگر میں سفر میں ہوں تو کیا کروں؟ آپ رضی اللہ عنھما  نے فرمایا:
رکعۃ من آخر اللیل .
”رات کے آخری حصے میں ایک رکعت پرھ لو۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٠١، وسندہ، صحیح)
عبدالرحمن تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات قیام اللیل پر مجھ سے کوئی سبقت نہ لے جائے گا۔ میں اٹھا تو اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ پائی۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں ایک طرف ہٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، قرآن کریم شروع کیا اورختم کر دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ میں نے سوچا: شیخ بھول گئے ہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! آپ نے ایک ہی رکعت وتر ادا کی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ یہ میرا وتر ہے۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٩٤، سنن الدار قطنی : ٢/٣٤، ح : ١٦٥٦۔١٦٥٨، وسندہ، حسن)
عبداللہ بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی، پھر مسجد کے ایک کونے میں ایک رکعت ادا کی۔ میں آپ کے پیچھے گیا اور عرض کیا: اے ابو اسحاق! یہ کیسی رکعت ہے؟ فرمایا:
وتر، أنام علیہ .
”یہ وتر ہے جو پڑھ کر میں سو رہا ہوں۔”
عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مصعب بن سعد کو بتائی تو انہوں نے کہا: سعد رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٩٥، وسندہ، حسن)
سیدنا عبداللہ بن ثعلبہ بن صغیر رضی اللہ عنہ جن کے چہرے پر فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جو کہ بدر میں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، حتی کہ رات کے وسط میں قیام کرتے تھے۔
(معرفۃ السنن والآثار للبیھقی : ٢/٣١٤، ح : ١٣٩٠، صحیح البخاری : ٦٣٥٦، وسندہ، صحیح)
نافع رحمہ اللہ ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما  کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنہ کان یوتر برکعۃ .
”آپ رضی اللہ عنھما  ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔”
(الاوسط لابن المنذر : ٥/١٧٩، وسندہ، صحیح)
ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے مکہ و مدینہ کے درمیان عشاء کی نماز دو رکعت ادا کی، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت وتر پڑھا۔
(الاوسط لابن المنذر : ٥/١٧٩، وسندہ، صحیح)
جریر بن حازم بیان کرتے ہیں:
سألت عطاء ا : أوتر برکعۃ؟ فقال : نعم، إن شئت .
”میں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھ کیا کروں؟ فرمایا: ہاں اگر چاہے تو پڑھ لیا کر۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٢، وسندہ، صحیح)
ابن عون بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ  سے پوچھا کہ اگر آدمی سو گیا اور صبح ہو گئی تو کیا صبح ہونے کے بعد وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے؟ فرمایا:
لا أعلم بہ بأسا .
”میں اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتا۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٠، وسندہ، صحیح)
ایک تین، پانچ اور سات وتر احناف کی نظر میں
ایک، تین، پانچ اور سات رکعت وتر پڑھنا جائز ہیں۔ اب ہم مقلدین کی معتبر کتب کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں:
1 مشہور حنفی جنا ب عبدالحئی لکھنوی صاحب لکھتے ہیں:
وقد صح من جمع من الصحابۃ أنھم أوتروا بواحدۃ، دون تقدم نفل قبلھا .
”صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ بات صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے پہلے کوئی نفل پڑھے بغیر ایک رکعت وتر ادا کیا۔”
(التعلیق الممجد للکنوی : ١/٥٠٨)
2 علامہ سندھی حنفی، سیدہ عائشہr کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ھذا صریح فی جواز الوتر بواحدۃ .
”یہ حدیث ایک وتر کے جائز ہونے میں واضح ہے۔”
(حاشیۃ السندی علی النسائی : ٢/٣٠)
3 جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں:
نعم، ثابت عن بعض الصحابۃ بلا ریب.
”ہاں، بعض صحابہ کرام سے بلا شک و شبہ ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔”
العرف الشذی للکشمیری : ٢/١٢)
4 جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی دو بندی لکھتے ہیں:
”یہ (صرف تین وتر پڑھنا) مذہب امام صاحب کا ہے۔ ان کے نزدیک ایک رکعت کی وتر جائز نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ  کے نزدیک وتر میں ایک رکعت بھی جائز ہے۔ دونوں طرف بکثرت احادیث صحیحہ موجود ہیں۔”
(علم الفقہ از عبدالشکور اللکنوی : حصہ دوم : ١٨٢)
تنبیہ نمبر1:
بعض الناس پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام سے ایک رکعت وتر کا عدم جواز بسند صحیح ثابت کریں۔
تنبیہ نمبر 2 :
جس روایت میں تین وتر ہے ذکر ہے، اس سے ایک یا پانچ رکعت وتر کی نفی نہیں ہوتی۔
5جناب خلیل احمد سہارنپوری دیو بندی لکھتے ہیں:
”وت کی رکعت احادیث صحاح میں موجود اور عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنھما  اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما  وغیرہما صحابہ کرام اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب ، پھر اس پر طعن کرنا ان سب پر طعن ہے، کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانہ؟۔۔۔”
(براھین قاطعہ : ص٧)
یاد رہے کہ اس کتاب پر جناب رشید احمد گنگوہی دیو بندی کی تقریظ بھی ہے۔
سہارنپوری دیو بندی صاحب کی عبارت سے بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک رکعت وتر پر طعن کرنے والے بے ایمان ہیں۔
6 جب بعض لوگوں نے جناب سہارنپوری کی مذکورہ بالا کتاب پر اعتراضات کیے تو ان کے رد و جواب میں دیو بندیوں کے عقیدہ وحدت الوجود کے امام حاجی امداد اللہ ”مکی” دیو بندی صاحب لکھتے ہیں:
”ایسے ہی ایک وتر کی بحث میں جو آپ نے لکھا ہے کہ صاحب ”براہین” کا اعتراض امام صاحب و صاحبین تک پہنچتا ہے۔ یہ تو محض تعصب یا سفاہت ہے۔ صاحب ”براہین” اس شخص کو رد کرتے ہیں، جو عموما ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کرے، کیونکہ ایک وتر پڑھنے والے بعض صحابہ و ائمہ بھی ہیں۔ حضرت امام و صاحبین نے کب ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کیا ہے اور وہ کب طعن کر سکتے ہیں کہ اس طرف بھی صحابہ کبار اور ائمہ خیار ہیں۔ صاحب ”انوار ساطعہ” نے چونکہ بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کو مطعون کیا تھا، حالانکہ ان میں صحابہ و ائمہ ہیں۔ اس کو متنبہ کیا ہے اور اس گستاخی سے روکا ہے۔”
(یہ تحریر براھین کے آخر میں ملحق ہے : ص ٢٨٠)
7 اس تحریر کے ایک مقلد محشی لکھتے ہیں:
”پس معترض کا یہ کہنا کہ ”براہین” کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب و صاحبین کے ایمان کا بھی کیا ٹھکانہ، نہایت حمق و شقاوت ہے، کیونکہ ان حضرات نے ایک وتر پڑھنے والوں صحابہ و ائمہ کو کبھی طعن نہیں کیا اور نہ کلمات تحقیر ان حضرات کی شان میں لکھے۔ مولف ”انوار ساطعہ” نے بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کی نسبت کلمات ناشائستہ لکھے، اس لیے اس کو گستاخی سے روکا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ تحقیر احادیث و تحقیر سلف میں ایمان کا ٹھکانا نہیں۔ اگر مؤلف ”انورار ساطعہ” کہے کہ میری مراد حضرت صحابہ و ائمہ قائلین وتر واحد پر اعتراض کرنا نہیں تو یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے، کیونکہ اس کتاب میں بالتعمیم ایک وتر پڑھنے والوں پر اعتراض کیا ہے۔حکم شرعی ظاہر پر ہے اور پھر سلف ہوں یا خلف ، جس امر میں وہ متبع حدیث نبوی ہیں، اس فعل پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی تحقیر زیبا اعتراض جس پر ہے، کسی احادیث یا اتباع ہونے کی وجہ سے ہے، ورنہ چاہے کہ فرق باطلہ و اہل ہویٰ جن عقائد و اعمال میں اہل حق کے موافق ہیں، ان عقائد و اعمال میں بھی اعتراض کیا جائے، پھر جب ایک وتر کے قائلین بھی صحابہ و اہل سنت ہیں تو اس فعل پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔”
(ایضا : ص ٢٨٠)
8 جناب سہارنپوری کی تائید اور مؤلف ”انوار ساطعہ” کے رد میں مشہور مقلد جناب محمود الحسن دیو بندی لکھتے ہیں:
”(عبدالسمیع رامپوری مؤلف انوار ساطعہ نے) وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر سخت الفاظ کے ساتھ طعن کیا ہے۔ خیر اور تو وہی پرانا رونا ہے، جو مؤلف مذکورہ (عبدالسمیع) کے سلف کر چکے تھے، مگر وتر کی ایک رعت پڑھنے والوں پر جس کے بارے میں احادیث صحاح موجود ہیں اور بعض ائمہ مثل امام شافعی و امام احمد وغیرہ] کا وہ مذہب ہے۔ زبان درازی کرنا مؤلف مذکور کا ہی حصہ ہے۔ یہ جدا قصہ ہے کہ علمائے حنفیہs کا یہ مذہب بوجہ اور دلائل کے نہ ہو، مگر فقط اس امر سے ایک دوسرے پر طعن نہیں کر سکتا۔”
(الجھد المقل فی تنزیہ المعز والمذل از محمود الحسن دیو بندی : ص ١٧)
9 اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
”بعض لوگوں کے نزدیک وتر ایک رکعت ہے اور بعض کے نزدیک تین ہیں اور بعض کے نزدیک پانچ ہیں اور ان سب میں تاویل مذکور جاری ہو سکتی ہے، مگر میرے نزدیک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طرح ثابت ہے۔”
(تقریر ترمذی از تھانوی : ١٣٦)
اس کتاب پر جناب تقی عثمانی دیو بندی صاحب کا مقدمہ موجود ہے۔
0 جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب اپنے استاذ جناب شیخ محمد تھانوی صاحب دیو بندی سے نقل کرتے ہیں:
”(اہل حدیث) وتر کی تمام احادیث میںسے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے، حالانکہ تین رکعتیں بھی آئیں ہیں، پانچ بھی آئی ہیں، سات بھی آئی ہیں۔”
(قصص الاکابر از تھانوی : ١٢٢)
جناب تھانوی صاحب کا یہ بہتان ہے کہ اہل حدیث نے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے، جبکہ اہل حدیث ایک رکعت کے علاوہ تین، پانچ اور سات رکعت وتر کی احادیث کو بھی نا پسند نہیں کرتے، بلکہ ان کے بھی قائل و فاعل ہیں۔
والحمد للہ علی ذلک!
! جناب احمد سعید کاظمی بریلوی لکھتے ہیں:
”یعنی علامہ کرمانی نے فرمایا کہ حضرت قاسم بن محمد (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے) کے قول ان کلا کے معنیٰ یہ ہیں کہ وتر ایک رکعت، تین رکعت اور پانچ رکعتیں اور سات وغیرہ سب جائز ہیں۔”
(مقالات کاظمی، حصہ سوم : ٤٨٨)
@ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
”حضورصلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، تین یا پانچ پڑھتے تھے، سات پڑھتے تھے تو گیارہ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔”
(جاء الحق از نعیمی، جلد دوم : ص ٢٦٣)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.