513

صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکار حدیث، حدیث تحویل قبلہ۔شمارہ 18۔۔حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ

عقلی اعتراضات
اعتراض نمبر 1 :     ”پھر ابوالعمیس اورمسعر کی روایت بتاتی ہے کہ حضرت عمر سے یہ بات کہنے والا ایک یہودی تھا اورثوری کی روایت میں ہے کہ متعدد یہودی لوگ تھے ۔ ادریس بن یزید کی روایت میں بھی بصیغہئ جمع یہود کا ذکر ہے ۔ یہ اختلاف قیس بن مسلم کی جہت سے ہے اور نہیں کہا جاسکتا کہ دراصل طارق نے کیا ذکر کیا تھا، ایک یہودی کا یا چند یہودیوں کا ؟قیس نے کبھی کچھ کہہ دیا ، کبھی کچھ ۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٥٥)
J :     قارئین کرام !جب اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے اور میرٹھی صاحب کے اس پر کیے گئے تمام اصولی اعتراضات کو ہم نے ان کی بے اصولی ثابت کردیا ہے تو اب اس پر عقلی اعتراضات کچھ حیثیت نہیں رکھتے ، کیونکہ قرآنِ کریم ، جس کی صحت میں کسی مسلمان کو ادنیٰ سا بھی شبہ نہیں ، عقلی اعتراضات تو اس میں بھی منکرین نے کر دئیے ہیں اورکتنے ہی مقامات پر انہوں نے بزعم ِ خود قرآنِ کریم میں تناقض اور اختلاف ثابت کرنے کی سعی ئ لا حاصل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود قرآنِ مجید کی صحت میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوسکا ۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
روز ِ قیامت کے بارے میں قرآنِ کریم نے ایک مقام پر فرمایا ہے:     ( کَانَ مِقْدَارُہ، أَلْفَ سَنَۃٍ ) (السجدۃ : ٣٢/٥) یعنی اس کی مقدار ایک ہزار سال ہوگی ، جبکہ دوسرے مقام پر فرمایا :
( کَانَ مِقْدَارُہ، خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ ) (المعارج : ٧٠/٤) ، یعنی اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی ۔
جس طرح شبیر احمد ازہرمیرٹھی صاحب نے حدیث ِ نبوی پر اعتراض کیا ہے ، اگر بعینہٖ یہ اعتراض کوئی منکر ِ قرآن ، قرآنِ کریم پر کردے اورکہہ دے کہ : (نقل کفر ، کفر نہ باشد!)
”سورہئ سجدہ بتاتی ہے کہ روز ِ قیامت کی مقدار ہزار سال ہوگی ، جبکہ سورہئ معارج میں پچاس ہزار سال کا ذکر ہے ۔یہ اختلاف صحابہ کرام کی جہت سے ہے اور نہیں کہا جاسکتا کہ دراصل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کیا وحی آئی تھی، ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال ؟ صحابہ کرام نے کبھی کچھ کہہ دیا ، کبھی کچھ۔۔۔” تو اس کفریہ اعتراض کا میرٹھی کمپنی کے پاس کیا جواب ہوگا ؟اگر وہ یہاں جمع وتطبیق کی کوئی صورت نکالیں گے تو حدیث میں ایسا کیوں نہیں کرتے کہ وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے ؟نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تو دینی معاملات میں اپنی خواہش سے بولتے ہی نہ تھے ۔(النجم : ٥٣/٣۔٤)
قارئین کرام اللہ کے لیے غور کریں اور بتائیں کہ کیا قرآنِ پاک پراس بے وقوفانہ اعتراض سے اس کتاب ِ ذی شان کی صحت میں ذرا برابر بھی کوئی شبہ پیدا ہوتا ہے ؟یقینا ہر مسلمان کا جواب ہاں میں ہوگا ! پھر خود ہی غور کرلیں کہ حدیث پر اس طرح کے اعتراضات کیا حیثیت رکھتے ہیں ؟
سیدھی سی بات ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  سے یہ بات تو ایک ہی یہودی نے کی تھی ، لیکن اس ایک یہود ی کی یہ بات سب یہود کی نمائندگی تھی ، یعنی اس نے تمام یہود کی طرف سے یہ بات پیش کی تھی اور ادنیٰ سا شعور رکھنے والا آدمی بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ کسی قوم کا نمائندہ اگر کوئی بات کرتا ہے تو وہ ساری قوم کی بات شمار ہوتی ہے اور اسے پوری قوم کی بات قرار دیا جاتا ہے ۔
اتنی سی بات بھی جس آدمی کی عقل میں نہیں سماسکی،وہ لگا ہے پوری امت کے اتفاقی فیصلے صحیح بخاری پر اعتراض کرنے !!!
اعتراض نمبر 2 : ”رہا اس حدیث کا مضمون ، جسے طارق بن شہاب وقبیصہ بن ذؤیب اور محمد بن کعب القرظی نے حضرت عمر اوریہودی کے مکالمہ کے طور پر اور عماربن ابی عمار نے حضرت ابنِ عباس اوریہودی کے مکالمہ کے طور پرنقل کیا ہے تو یہ سراسر باطل اور اس المناک حقیقت کی دلیل ہے کہ ان راویوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) کو اس کے سیاق وسباق کے ساتھ مطالعہ کرنے اور اس آیت کو سمجھنے کی طرف ذرابھی دھیان نہیں دیا تھا ، جس میں یہ ارشاد مذکور ہے ۔
یہ ارشاد کوئی مستقل آیت نہیں ہے ، بلکہ ایک آیت کے درمیان کا ٹکڑا ہے ۔۔۔ سورہئ مائدہ کے نزول کا آغاز سن ٧ ہجری میں عمرۃ القضاء سے پہلے ہوا تھا ۔ اس کے آغاز میں اہل ایمان کو خطاب کر کے ان معاہدوں کو وفا کرنے کا حکم دیا ہے ، جو حضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف قبائل عرب سے کیے تھے ، خصوصاً ناجنگی کا وہ دس سالہ معاہدہ ، جو سن ٦ ہجری میں بمقام ِ حدیبیہ مشرکین مکہ سے ان ہی کی پیش کردہ شرائط پر منعقد فرمایا تھا ۔ اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ فتحِ خیبر کے بعد بحمداللہ مسلمانوں کو زبردست قوت وشوکت حاصل ہوچکی تھی اورممکن تھا کہ اس قوت وشوکت کے پیشِ نظر مسلمانوں کو یہ خیال ہونے لگے کہ وہ معاہدے اس وقت کے ہیں ، جب ہم اتنے قوی وزور آور نہ تھے ۔ اب کیا ضرورت ہے کہ ہم ان سیاسی مصلحتوں پرمبنی معاہدوں کا لحاظ رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد نے اس متوقع وسوسہ کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا ۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٥٨۔٥٩)
J :      قارئین کرام !ہم نے، بلکہ پوری امت ِ مسلمہ نے جس روایت کی بنا پر اس آیت ِ کریمہ کا محل نزول مقام ِ عرفہ قرار دیا ہے ،سب مسلمانوںکے برعکس اس کی صحت پر تومیرٹھی صاحب کو اعتراض ہے ، لیکن افسوس ہے کہ میرٹھی صاحب نے اپنے اس دعوی پر کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ یہ آیت ِ کریمہ سن ٧ ہجری میں عمرۃ القضاء سے پہلے نازل ہوئی ۔ منکرینِ حدیث کو چاہیے کہ ذرا اس پر ”بے غبار” نہ سہی کوئی ”غبار دار” سند ہی پیش کردیں !!!
آخرمیرٹھی صاحب نے کونسا کشف لگایا ہے کہ اجماعِ امت کے خلاف بغیر دلیل کے ان کو ٧ ہجری میں اس کا نزول نظر آگیا ہے ؟حالانکہ منکرینِ حدیث کسی ایک مسلمان مفسر سے بھی یہ بات ثابت نہیں کرسکتے کہ اس نے عمرۃ القضاء سے پہلے سورہئ مائدہ کے نزول کا دعویٰ کیا ہو ، اس کے برعکس اس طرح کی ایک روایت ذکر کرنے کے بعد علامہ قرطبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وروی أنّھا نزلت منصرف رسول اللّٰہ من الحدیبیۃ ، وذکر النقّاس عن أبی سلمۃ ۔۔۔ قال ابن العربیّ : ھذا حدیث موضوع ، لا یحلّ لمسلم اعتقادہ ۔۔۔۔
”ایک روایت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ سورت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیبیہ سے واپس آنے کے وقت نازل ہوئی ۔ نقاش نے ابوسلمہ سے ذکر کیا ہے ۔۔۔ علامہ ابن العربی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”موضوع”(من گھڑت)ہے ۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس (کی صحت)کا اعتقاد رکھے ۔”(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی : ٦/٣٠)
مفسرابنِ عطیہ اندلسی لکھتے ہیں :     وھذا عندی لا یشبہ کلام النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ومن ھذہ السّورۃ ما نزل فی حجّۃ الوداع ، ومنھا ما نزل عام الفتح ۔۔۔
”میرے نزدیک یہ (من گھڑت روایت )نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام ِ مبارک سے ملتی جلتی بھی نہیں۔ (بلکہ اس کے برعکس) اس سورت کا بعض حصہ حجۃ الوداع میں نازل ہوا اور بعض حصہ فتحِ مکہ کے موقع پرنازل ہوا تھا ۔۔۔”(المحرر الوجیز لابن عطیۃ : ٢/١٦٧)
لیجیے !یہ ہے انکار ِ حدیث کا انجام ِ بے خیر کہ امت کے اتفاقی فیصلہئ صحت کو چھوڑا اور ہاتھ میں وہ روایت آئی ، جسے ائمہ مسلمین من گھڑت اور خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور جس کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ وہ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی فصیح وبلیغ زبان سے ادا ہونا ہی ممکن نہیں ہیں ۔
پھر میرٹھی صاحب کا یہ قول بھی بالکل باطل ہے کہ اس سورت کے آغاز میں ان معاہدوں کو وفا کرنے کا حکم ہے ، جو مسلمانوں نے مختلف قبائل عرب سے کیے تھے ، خصوصاً معاہدہئ حدیبیہ ، حالانکہ کسی مفسر نے اس سورت کے شانِ نزول کے بیان میں معاہدہئ حدیبیہ کا ذکر تک نہیں کیا ۔ یہ بات چودہ سوسال بعد صرف میرٹھی صاحب کو سوجھی ہے ۔ اس کے برعکس اس سورت کے شروع میں جن ”عقود” کو نبھانے اوروفا کرنے کا ذکر ہے ، ان کے بارے میںامام طبری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأولی الأقوال عندنا بالصّواب ۔۔۔ وأنّ معناہ أوفوا ـ یأیّھاالّذین ـ بعقود اللّٰہ الّتی أوجبھا علیکم ، وعقدھا فیما أحلّ لکم وحرّم علیکم ، وألزمکم فرضہ ، وبیّن لکم حدودہ ، وانّما قلنا ذلک أولی بالصّواب من غیرہ من الأقوال ، لأنّ اللّٰہ عزّوجلّ أتبع ذلک البیان عمّا أحلّ لعبادہ وحرّم علیھم ، وما أوجب علیھم من فرائضہ ، فکان معلوما بذلک أنّ قولہ : ( أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ) أمر منہ عبادہ بالعمل بما ألزمھم من فرائضہ وعقودہ عقیب ذلک ، ونھی منہ لھم عن نقض ما عقدہ علیھم منہ ۔۔۔ ”سب اقوال میں سے ہمارے نزدیک راجح یہ ہے ۔۔۔اور اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اے ایمان والو! وہ عقود نبھاؤ ، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے ہیں ، حلت وحرمت میں جو قیود تم پر لگائی ہیں ، جو فرض تم پر عائد کیے ہیں اور جو حدود تمہارے لیے بیان کی ہیں ۔ہم نے اسے دوسرے اقوال کی نسبت قرینِ صواب اس لیے قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد اپنے بندوں پرحلال وحرام کی گئی چیزیں بیان کی ہیں اور اپنے عائد کیے ہوئے فرائض ذکر کیے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرمانِ باری تعالیٰ : (أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ) (اے ایمان والو !تم اپنے عہدوں کو نبھاؤ)اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کو حکم ہے کہ وہ اس کے ان فرائض وعقود کو پورا کریں جو اس حکم کے فوراً بعد بیان ہوئے ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے اپنے مقرر کیے ہوئے فرائض کو پامال کرنے کی ممانعت ہے ۔۔۔”(تفسیر الطبری : ٩/٤٥٤)
میرٹھی صاحب جو ”سیاق وسباق ” کی بہت رَٹ لگاتے ہیں، ان کو امام طبری  رحمہ اللہ کا بیان کردہ یہ فی الواقع سیاق وسباق سمجھ نہیں آیا کہ عقود کو پورا کرنے کا جو حکم اس سورت کے شروع میں دیا گیا ہے ، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق وفرائض کی پابندی ہے ، کیونکہ ساتھ ہی تو حلت وحرمت کا ذکر آرہا ہے ۔
ائمہ حدیث پر سیاق وسباق کو نہ سمجھ سکنے کا الزام رکھنے والے میرٹھی صاحب کی اپنی عقل یہاں پر بالکل سٹھیا گئی ہے اور مفسرین کا بیان کردہ سیاق وسباق بھی ان کے خانہئ عقل میں نہیں سما سکا اور انہوںنے ایسی بے بنیاد بات کہہ دی ہے ، جو آج تک کسی مسلمان مفسر نے نہیں کہی ، بلکہ ایسا کہنا ان کے نزدیک جائز ہی نہیں ، جیسا کہ ہم مفسر ابنِ عطیہ کے بقول ذکر کرچکے ہیں!!!
قارئین کرام !آپ دیکھ چکے ہیں کہ مفسرین کرام کے مطابق اس سورت کا کچھ حصہ حجۃ الوداع کے موقع پر اور کچھ حصہ فتحِ مکہ کے موقع پرنازل ہوا ، لیکن لغت ِ عرب ، قرآنِ کریم اور علم ِ حدیث وتفسیر سے بالکل عاری اور تمام سلف صالحین کی مخالفت کرنے والے شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ سورت عمرۃ القضاء سے پہلے ٧ ہجری میں نازل ہوئی ۔ اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کس کی بات مانیں گے ؟
اعتراض نمبر 3 :      ”یہ تیسری آیت ہے ، اسی کے ضمن میں اپنی یہ نعمت یاد دلائی کہ مشرکین کو دینِ اسلام سے سرسبز نہ ہوسکنے کی جو آس لگی ہوئی تھی ، اپنا دم توڑ چکی ہے اور اصول وفروع کے لحاظ سے تمہارا دین اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے ۔ اس طرح تم پراللہ کا یہ انعام پورا ہوچکا ہے ۔ اب تمہیں اس پورے دین کے تحت زندگی گزارنا اورہمیشہ اپنے رب کا فرمانبردار رہنا ہے ۔ یہ ہی روش تمہارے لیے پسندیدہ ہے ۔ اس جملہئ معترضہ کے بعد مضمونِ بالا کا تتمہ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ جانور ، جن کا گوشت کھانا تمہیں حرام ہے ، حالت ِ اضطرار میں بقدر ِ ضرورت ان کا گوشت تناول کرلینے کی رخصت ہے ۔ ۔۔یہ ہم نسق آیات ایک ہی سلسلہ کی ہیں اور ان کا نزول اس وقت ہوا ہے ، جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کے ساتھ عمرۃ القضاء کے لیے تشریف لے جانے والے تھے ۔ جب حقیقت یہ ہے تو اس بے ہودہ بکواس کی کیا تُک ہے کہ ( اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔۔) کانزول سن ١٠ ہجری میں نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ہوا تھا ۔ طارق بن شہاب وقبیصہ بن ذؤیب ومحمد بن کعب قرظی کی ذکرکردہ کہانی بھی قطعاً غلط ہے اور عمار بن ابی عمار کی بیان کردہ کہانی بھی باطل ہے ۔ نہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے یہ بات کہی تھی نہ حضرت ابنِ عباس نے ۔ ان یاوہ گو راویوں نے نہ معلوم کس سے سنی ہوئی یہ غلط کہانی توروایت کر ڈالی اوریہ نہ سوچا کہ اس سے لازم آتا ہے کہ تقریباً تین سال تک مسلمان اس آیت کو ناقص پڑھتے رہے ہوں ۔۔۔ کیونکہ ان راویوں کے بقول ( اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔۔) کا نزول ہوا ہی نہ تھا اور اسی ناقص طور سے لکھنے والوں نے یہ آیت لکھی ہو ، پھر نویں ذی الحجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں بتایا ہو کہ اس آیت کے درمیان میں یہ اضافہ کر لو اور ایسا ہوا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا ، حالانکہ صحیح توکیا ، کسی ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ نہ ہی ان راویوں نے یہ سوچا کہ اس آیت میں ( اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔۔) سے پہلے متصل ( اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخُشَوْنِ ) آیا ہے اور دونوں آیات ہم نسق ہیں ۔ جب ارشاد ِ اوّل ، یعنی ( اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ) سن ٧ ہجری میں نازل ہوا ہے تو ارشاد ِ ثانی ، یعنی ( اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔۔) کو سن ١٠ ہجری میں نازل شدہ قرار دینے کی کیا تُک ہے ؟ ”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٥٩۔٦١)
J :      1 قارئین کرام ذرا میرٹھی صاحب کی دوغلی پالیسی ملاحظہ فرمائیں کہ سلف صالحین کے خلاف اپنی بے تُکی تفسیر کو ”جملہ معترضہ” کا سہارا دے کر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن سب امت کی طرف سے کی گئی اتفاقی تفسیر میں ان کو اکثر یہی عیب نظر آیا ہے اس سے ہم نسق آیات میںکوئی ربط نہیں رہتا !
؎ تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی         وہ تیرگی جو میرے نامہئ سیاہ میں تھی
حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ عقود کو پورا کرنے کا حکم دینے کے بعد حلت وحرمت کا ذکر جملہ معترضہ نہیں ، بلکہ پچھلی بات کا ہی تسلسل ہے ، یعنی جن عقود کی ایفاء کا حکم تھا ، اب انہی کو بیان کیا جارہا ہے ۔
مشہور مفسر علامہ فخرالدین رازی(م٦٠٦ھ) لکھتے ہیں :      إعلم أنّہ تعالیٰ لمّا قرّر بالآیۃ الأولیٰ علی جمیع المکلّفین أنّہ یلزمھم الانقیاد لجمیع تکالیف اللّٰہ تعالیٰ ، وذلک کالأصل الکلّیّ والقاعدۃ الجمیلۃ ، شرع بعد ذلک فی ذکر التّکالیف المفصّلۃ ، فبدأ بذکر ما یحلّ وما یحرم من المطعومات ، فقال : ( أُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ)(المائدۃ : ٥/١)     ”جان لیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت کے پہلے ٹکڑے کے ساتھ تمام مکلفین پر ایک کلی اصول اور بہترین قاعدے کے ذریعے اپنے تمام احکام ِ تکلیفیہ کی پیروی لازم کی تو اب ان احکام ِ تکلیفیہ کی تفصیل بیان کرناشروع کی ہے ۔ ابتدا کھانے کی چیزوں میںسے حلال وحرام کے ذکر سے کی ہے ، لہٰذا فرمایا 🙁 أُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ)(المائدۃ : ٥/١) (تمہارے لیے چوپائے حلال کردئیے گئے ہیں)۔”(التفسیر الکبیر للرازی : ١١/٩٩)
علامہ آلوسی (م ١٢٧٠ھ)بھی لکھتے ہیں :      ( أُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ)(المائدۃ : ٥/١) شروع فی تفصیل الأحکام الّتی أمر بوفائھا ، وبدأ سبحانہ بذلک ، لأنّہ یتعلّق بضروریات المعاش ۔۔۔     ”( أُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ)(المائدۃ : ٥/١) (تمہارے لیے چوپائے حلال کردئیے گئے ہیں) یہ ان احکام کی تفصیل کی ابتدا ہے ، جن کے ایفاء کا حکم دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ابتدا اس لیے کی ہے کہ یہ معاشی ضروریات کے متعلق ہے ۔”(روح المعانی للآلوسی : ٦/٤٩)
معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے امت ِ مسلمہ کی متفقہ تفسیر کو سینے سے لگایا ہے ، ان کو ”جملہ معترضہ” کہہ کر جان چھڑانے کی ضرورت نہیں پڑی ، بلکہ ان کے نزدیک یہ الفاظ آیت کے پہلے ٹکڑے سے بالکل ہم ربط ہیں ۔        اب کوئی میرٹھی صاحب کے معتقدین سے پوچھے کہ کیا اس آیت میں ان کو ایک ہی آیت کے دوٹکڑوں کی بے ربطی نظر نہیں آئی ؟ کیا وہ اب بھی امت ِ مسلمہ کی اتفاقی تفسیر کے خلاف میرٹھی صاحب کی اس یاوہ گوئی اور بے ہودہ بکواس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ؟
2    ہم گزشتہ صفحات میں تفصیلاًبیان کرچکے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا وقت عمرۃ القضاء سے پہلے ہونے کا دعویٰ کرنا نِری خود سری اور علم ِ تفسیر سے جہالت کا نتیجہ ہے ۔ کسی ایک مسلمان مفسر نے چودہ سوسال کے عرصہ میں آج تک یہ دعویٰ نہیں کیا ، نہ ہی میرٹھی صاحب اور ان کے معتقدین کے پاس اس بات پر کوئی دلیل ہے ، لہٰذا آیات کے ہم نسق ہونے کو بنیاد بنا کر صحیح بخاری پر یہ اعتراض اور راویانِ حدیث ، خصوصاً صحابی ئ رسول سیدنا طارق بن شہاب  رضی اللہ عنہ  کے خلاف یہ یاوہ گوئی بالکل فضول ہے کہ انہوں نے قرآنِ کریم کو نہ سمجھا تھا ۔یہ توخود منکرینِ حدیث کی اپنی بے عقلی اور علم ِ قرآن سے دُوری ہے کہ آیات ِ قرآنیہ کا صحیح وقت ِ نزول اور صحیح تفسیران کی سمجھ میں نہیں آسکی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.