558

صحیح بخاری کا مطالعہ، حدیث تحویل قبلہ، حافظ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ،شمارہ 21

درایتی اعتراضات
اعتراض نمبر 1 :      ”درایت کے لحاظ سے دیکھیے تو اس کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے کہ :
( الف) آیت ِ شریفہ میں تجارۃً أو لھوًا ہے۔ پس اگر یہ سمجھا جائے کہ اس میں ذکر مسلمانوں کا ہے ، جو جمعہ کے دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکو خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ کر مسجد سے باہر نکل گئے تھے توماننا پڑے گا کہ یہ حادثہ کم از کم دو بار پیش آیاتھا ۔ ایک بار خطبہ کے دوران مسجد سے باہر غلہ فروش آگئے تھے اورایک بار مسجد سے باہر خطبہ کے وقت کھیل کود اورتفریح کا سامان ہوگیا تھا ۔ دونوں دفعہ مسجد میں خطبہ سننے والے مسلمان دیوانہ وار باہر نکل گئے ۔ اور یقینا یہ غلط ہے ، لہٰذا یہ سمجھنا ہی غلط ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کا ذکر ہے ۔۔۔”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٨١)
J : قارئین کرام ! یقینادو بار سے بھی زائد دفعہ یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ صحابہ کرام خطبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، جیسا کہ زیرِ بحث حدیث کے راوی سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ خود ہی بیان کرتے ہیں :
کان الجواری إذا نکحوا ، کانوا یمرّون بالکَبَر والمزامیر ، ویترکون النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قائما علی المنبر ، وینفضون إلیھا ، فأنزل اللّٰہ : (وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً أَوْ لَھْوًا انْفَضُّوْا إِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَائِمًا )
”جب وہ مدینہ والے نکاح کرتے تو چھوٹی بچیاں یا لونڈیاں ڈھول اور مزامیر لے کر گزرتیںتو لوگ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے چھوڑ کر اس طرف نکل جاتے تھے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ( وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً أَوْ لَھْوًا انْفَضُّوْا إِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَائِمًا ) (جب وہ کوئی تجارت یا کوئی کھیل دیکھتے ہیں تو اس طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کھڑا چھوڑ جاتے ہیں)۔”(جامع البیان فی فی تاویل القرآن للطبری : ٢٣/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
یعنی جس طرح پہلے نماز کے اندر صحابہ کرام ] آپس میں روزمرہ کی بات چیت کر لیا کرتے تھے ، لیکن نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اس وقت تک نکیر نہیں کی ،جب تک اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے اس سے روک نہیں دیا ، اسی طرح صحابہ کرام ] خطبہ کو معمولی سے معمولی کام کی وجہ سے چھوڑ کرچلے جاتے ، جب تک اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل نہیں کی ، تب تک ایسا کرنا کوئی جرم نہیں تھا ، اسی لیے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلماس سے روکتے نہیں تھے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس سے روک دیا تو صحابہ کرام ] رک بھی گئے تھے ۔ اس میں اعتراض والی کون سی بات ہے ؟
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہلکھتے ہیں :      ولا بعد فی أن تنزّل فی الأمرین معا أو أکثر ۔ ” کوئی بعید بات نہیں ہے کہ یہ آیت دو یا دوسے زیادہ واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہو ۔”(فتح الباری لابن حجر : ٢/٤٢٤)
وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا ۔۔۔ کی تفسیر میںوارد ہونے والی صحیح بخاری کی حدیث کے دفاع میں ہم یہ بات بالتفصیل بیان کرچکے ہیں کہ ایک آیت ایک سے زائد واقعات کے بارے میں نازل ہوسکتی ہے ۔ قارئین کرام وہاںملاحظہ فرمالیں۔
جب ایک ہی آیت کئی واقعات کے بارے میں نازل ہوسکتی ہے اور ممانعت سے پہلے صحابہ کرام نماز میں بھی بارہا باتیں کرسکتے ہیں تو پھر ممانعت سے پہلے کئی دویازائد بار خطبہ چھوڑ کرجانے میں بھلا کون سا کفر لازم آجاتا ہے اور کون سی درایت اس سے مانع ہے؟
2    اصل اشکال جو اس حدیث پرآتا تھا ، وہ میرٹھی صاحب پیش نہیں کرسکے ، شاید کہ ان کو خبر ہوگئی ہوگی کہ اس کا جواب پہلے دیا جاچکا ہے ۔
چنانچہ حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد استشکل الأصیلیّ حدیث الباب ، فقال : إنّ اللّٰہ تعالیٰ وصف أصحاب محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأنّھم : ( لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) (النور : ٢٤/٣٧)، ثمّ أجاب باحتمال أن یکون ھذا الحدیث کان قبل نزول الآیۃ ۔انتھی ، وھذا الّذی یتعیّن المصیر إلیہ مع أنّہ لیس فی آیۃ النّور التّصریح بنزولھا فی الصّحابۃ ۔
”اصیلی نے اس حدیث میں یہ اشکال بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صفت یہ بیان کی ہے کہ ان کو تجارت اورخریدوفروخت اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی (جبکہ یہ حدیث اس کے خلاف ہے ) ، پھر انہوں نے خود اس کا جواب دیا ہے کہ ممکن ہے یہ حدیث اس آیت (النور : ٢٤/٣٧)نے نزول سے پہلے کی ہو ۔اسی بات (جو اصیلی نے بیان کی ہے )کو لینا ضروری ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ سورہئ نور کی اس آیت میں اس کے صحابہ کرام کے بارے میں نازل ہونے کی صراحت نہیں ۔”(فتح الباری لابن حجر : ٢/٤٢٥)
اعتراض نمبر 2 :
” (ب) مدینہ دارالاسلام تھا ۔ وہاں مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور قوم نہ تھی اور سب ہی عاقل بالغ لوگ جمعہ میں حاضر ہوتے تھے اورجمعہ کی نماز مسجد ِ نبوی کے علاوہ مدینہ میں اور کسی جگہ نہ ہوتی تھی ۔ اس لیے یہ اندیشہ نہ تھا کہ ہم تو یہاں مسجد میں ہیں ، ایسا نہ ہو کہ سارا غلہ دوسرے لوگ خرید کر لے جائیں اورجب ہم فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلیں تو ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے ۔ اس صورت ِ حال میں مسلمانوں کا بے صبری کے ساتھ غلہ فروشوں کی آمد پر مسجد سے نکل جانا بالکل غیر معقول ہے ۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٨١)
J :    1    میرٹھی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مدینہ میں منافقین بھی رہتے تھے ۔ ضروری نہیں کہ وہ بھی سب کے سب خطبہ جمعہ میں حاضر ہوئے ہوں ۔ اگر حاضر بھی تھے تو قافلے کا سن کر سب سے پہلے وہ اٹھ گئے ہوں گے اور پھر صحابہ کرام ] کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوگا کہ کہیں سارا مال منافقین ہی نہ خرید لیں ، پھر ابھی تک خطبہ کے بارے میں سخت احکام بھی نہ آئے تھے اورصحابہ کرام اس میں رخصت ہی سمجھتے تھے ، لہٰذا ان کا مسجد سے نکل جانا بالکل معقول تھا ۔
2    نیز ہوسکتا ہے کہ مدینہ میں سامانِ خوردونوش کم ہو اورصحابہ کرام ] کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوکہ کہیں خطبہ ختم ہونے تک قافلہ واپس ہی نہ چلا جائے ۔
3    عورتوں پر جمعہ فرض نہیں تھا اور وہ خرید وفروخت بھی کر سکتی تھیں ، اسی طرح بچے بھی سامانِ تجارت خرید سکتے تھے ، لہٰذا صحابہ کرام ] کو اس خیال کا آجانا کوئی بعید نہ تھا کہ کہیں سامانِ تجارت ختم ہی نہ ہوجائے ۔
لہٰذا یہ میرٹھی صاحب کا اپنا درایتی قصور ہے ، حدیث ِ نبوی  علی صاحبھا الصلوۃ والسلام  کا نہیں ۔
اعتراض نمبر 3 :
”(ج) اس آیت سے پہلے اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد ہوا ہے ۔۔۔”اے اہل ایمان! جمعہ کے دن جب نماز ِ جمعہ کی اذان ہوتو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اورخرید وفروخت چھوڑ دو ، یعنی اس وقت دنیوی مشغلوں سے دست بردار ی تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم جانتے ہو ۔ پس جب نماز ِ جمعہ سے فراغت ہوجائے تو اپنے مشاغل کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا کچھ فضل تلاش کرو ،یعنی مال ورزقِ حلال حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو ۔ امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے ۔”
اس کے بعد آیت ( وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً ) ہے ۔ اگر اس آیت میں بھی مسلمانوں کا ہی ذکر اور ان کے عمل شنیع پرجس کا اس حدیث میں ذکر ہے ، انکار مقصود ہوتا تو وإذا رأیتم تجارۃ أو لھوا انفضضتم إلیھا وترکتم الرّسول قائما ہوتا ، یعنی خطاب کے صیغے لائے جاتے۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٨١۔٨٢)
J :      1 گزشتہ حدیث کے دفاع میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ میرٹھی صاحب نے حدیث میں ایک ”غلطی” نکالنے کی ذلت آمیز کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
” لو نعلم عربیت کے لحاظ سے غلط ہے ، صحیح لفظ لو علمنا ہے ۔”
حالانکہ قرآنِ کریم میں بھی لو نعلم موجود ہے ۔ہم نے وہاں بتایا تھا کہ جو اعتراض حدیث ِ نبوی میں کیا جائے گا ، بعینہٖ وہی قرآنِ کریم میں آجائے گا ، کیونکہ دونوں ایک ہی ذات ، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی ہیں ، لہٰذا اگر میرٹھی صاحب اس کام سے باز ہی رہتے تو اچھا تھا ، ان کو عربی زبان وادب سے اتنی واقفیت تو ہے نہیں ، لیکن وہ ”پنگا” لینے سے رہتے نہیں ہیں۔
ان کا یہ اعتراض بھی بالکل اسی طرز کا ہے ۔حالانکہ بات واضح سی ہے کہ پہلے مسلمانوں کو خطاب تھا اور اب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکو خطاب کیا گیا کہ آپ بھی ا ن سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو اجروثواب ہے ، وہ تمہاری تجارت اورکھیل کود سے بہت بہتر ہے ۔اگر یہ خطاب بھی عام مسلمانوں کو ہوتا تو وہ اشکال آتا جو میرٹھی صاحب نے پیش کیا ہے ۔
انکار ِ حدیث نے منکرینِ حدیث کے دماغ سے سوچ وفکر کی صلاحیت ہی ختم کردی ہے ۔کوئی باشعور بچہ بھی ایسی بے وقوفی نہیں ہانک سکتا ، جیسی میرٹھی صاحب نے ہانک دی ہے ۔
اعتراض نمبر 4 :      ”(د) اس آیت میں مسلمانوں کا ذکر سمجھا جائے تو اس کا آیات ِ سابقہ سے کوئی ربط نہیں رہتا ۔ ایسی بے ربطی تو انسانوں کے کلام میں بھی نہیں ہوتی ، پھر اللہ تعالیٰ کے کلام میں اس کا کیا امکان ہے ؟”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٨٢)
J :      1    قارئین کرام ! لیجیے وہی ہوا جو ہم ابھی بتا رہے تھے کہ میرٹھی صاحب انکار ِ حدیث کے نشے میں عقل سے ہاتھ ہی دھو بیٹھے ہیں ۔بھلا اس آیت میں مسلمانوں کا ذکر ہونے سے بے ربطی کیسے آگئی ۔ پچھلی آیات میں بھی اہل ایمان کو خطاب ہے کہ جمعہ کی اذان سن کر خطبہ کی طرف جلدی جلدی آجاؤ اورخرید وفروخت چھوڑ دو۔
جب نماز ِ جمعہ ادا ہوچکے تو پھر دوبارہ اپنے کام کاج میں مشغول ہوجاؤ۔ان کا ترجمہ گزشتہ اعتراض میں میرٹھی صاحب خود پیش کر چکے ہیں ، قارئین وہاں سے پڑھ لیں اور اس سے اگلی آیت یہی ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے کہ ان مسلمانوں سے کہہ دو کہ جو اجر وثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، وہ تجارت اور کھیل تماشے سے بہت بہتر ہے ۔ بھلا اس سے بے ربطی کیسے آگئی ؟
یہ ہے میرٹھی صاحب کی تحقیق وتنقید ! نہ معلوم ایسے نامعقول شخص کو صحیح بخاری پر اعتراض کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا ؟
2    بے ربطی تو میرٹھی صاحب کی بیان کردہ تفسیر سے آتی ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک اس آیت میں یہود کا تذکرہ ہے ۔اب قارئین خود ہی فیصلہ کر کے بتائیں کہ اہل ایمان کے خطاب کے ساتھ بغیر کسی فاصلے اور بغیر کسی صراحت کے یہود کا تذکرہ بے ربطی ہے یا اہل ایمان کو خطاب کے بعد مسلمانوں کا تذکرہ بے ربطی ہے ؟
اعتراض نمبر 5 :      ” (ہ) اس حدیث میں صحابہ کرام کی طرف جو عمل شنیع منسوب کیا گیا ہے ، عصر حاضر کے جاہل مسلمانوں سے بھی اس کا صدور نہیں ہوسکتا ، صحابہ کرام کا تو ذکر ہی کیا ۔ ان واضح وجوہ کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث باطل ہے اور اس میں جو قصہ مذکورہے ،قطعاً بے اصل ہے۔۔۔ یہاں میں یہ بتانے پر اکتفا کرتا ہوں کہ اس آیت میں ذکر یہود کا ہے۔۔۔” (”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٨٢)
J :      یہ ہے آخری زور جو میرٹھی صاحب نے پوری امت ِ مسلمہ کے اتفاقی فیصلے صحیح بخاری کے خلاف لگایا ہے ، لیکن یہ بھی عقل کی کمی کا پروردہ ہے، کیونکہ :
1 جب تک خطبہ سننے کی پابندی نہیں آئی تھی ، اس وقت تک ایسا کرنا کوئی جرم نہ تھا کہ اس سے صحابہ کرام ] کی شان میں کمی کا سبب بنے ۔
2 نماز میں کلام کی ممانعت آنے سے پہلے صحابہ کرام ] نماز کے اندر آپس میں بات چیت کر لیتے تھے ۔ اگر کوئی جاہل کہہ دے کہ    ” عصر حاضر کے جاہل مسلمانوں سے بھی اس کا صدور نہیں ہوسکتا ، صحابہ کرام کا تو ذکر ہی کیا ۔”    تو کیا اس سے اس حقیقت کا بھی انکار کردیا جائے گا؟
3    اگر کوئی منکر ِ قرآن اسی طرح کا اعتراض قرآنِ کریم پر کردے اور کہہ دے کہ :
”سورۃ القصص (٢٨/١٥)میں ذکر ہے کہ موسیٰ  علیہ السلام کے سامنے دو آدمی لڑرہے تھے ۔ ایک ان کی قوم کا تھا اور دوسرے کا تعلق ان کے دشمنوں سے تھا ۔ آپ  علیہ السلامکی قوم کے آدمی نے موسیٰ  علیہ السلامسے مدد کی درخواست کی ۔ موسیٰ  علیہ السلامنے اپنے دشمنوں کے آدمی کو مکّا مار کر اس کا کام تمام کر دیا ، پھر اس کام پر نادم ہوئے اوراللہ تعالیٰ سے معافی مانگی ۔۔۔
قرآنِ کریم کی اس آیت میں موسیٰ  علیہ السلامنے یہ تحقیق نہیں کی کہ قصور کس کا ہے اور حق پر کون ہے ، بلکہ محض تعصب کی بنا پر اسے قتل کردیا ۔۔۔یہ کام تو عصر حاضر کے کسی منصف مزاج کافر سے بھی ممکن نہیں ، موسیٰ  علیہ السلامکا تو ذکر ہی کیا۔۔۔ اس وجہ سے میں اس آیت کو باطل سمجھتا ہوں اور اس میں جو قصہ مذکور ہے ، وہ قطعاً بے اصل ہے۔”(نقل کفر کفر نہ باشد)
تو منکرینِ حدیث کا اس کے پاس کیا جواب ہے ؟ کیا اس اعتراض سے قرآنِ کریم کی صحت پر کوئی حرف آئے گا ؟ جو جواب اس قرآنی آیت کا منکرینِ حدیث دیں گے ، وہی ہماری طرف سے قبول کرلیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حق جو سمجھ کراس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور باطل کو سمجھ کر اس سے بچنے کی ہمت عطا فرمائے !         آمین !

قارئین کرام ! سورۃ النساء میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( فَمَا لَکُمْ فِیْ الْمُنَافِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَرْکَسَھُمْ بِمَا کَسَبُوْا أَتُرِیْدُوْنَ أَنْ تَھْدُوْا مَنْ أَضَلَّ اللّٰہُ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہ، سَبِیْلًا ) (النساء : ٤/٨٨)
”(اے مسلمانو!)تمہیں کیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے اعمالِ (بد)کی وجہ سے (سابقہ حالت کفرمیں)لوٹا دیا ہے؟ کیا جس شخص کو اللہ نے گمراہ کردیا ہے ، تم اس کو ہدایت دینا چاہتے ہو؟ جس شخص کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے ، تُو اس کے لیے (ہدایت کی )کوئی راہ نہیں پائے گا ۔”
غزوہئ احد کے موقع پرمسلمانوں کے فوج مدینہ سے قریباً ایک ہزار کی تعداد میں مقام ِ اُحد کی طرف نکلی تھی ، لیکن کچھ منافقین راستے سے ہی واپس ہوگئے ۔ اس پر بعض مسلمانوں نے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلمسے عرض کی کہ یہ کافر ہوگئے ہیں ، لہٰذا ان سے قتال کیا جائے ، لیکن بعض نے ان کے کلمہ گو ہونے کی وجہ سے قتال نہ کرنے کی تجویز پیش کی ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ِ مبارکہ نازل فرماکر وضاحت فرما دی کہ منافقین کے بارے میں تمہاری دو آراء نہیں ہونی چاہئیں ، بلکہ ایک ہی رائے ہو اور وہ یہ کہ اگر وہ کھلم کھلا اعلانِ بغاوت کردیں تو ان سے قتال کیا جائے ۔
اس آیت ِ کریمہ کی یہی تفسیر صحیح بخاری کی حدیث میں موجود ہے، لیکن شبیر احمد ازہرمیرٹھی صاحب نے اپنی دیرینہ روایت کے مطابق بغیر کسی معقول وجہ کے اس کا انکار کردیا ہے ۔آئیے ان کے اعتراضات کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں ۔
اعتراض نمبر 1 :     ”عدی بن ثابت غلوکار شیعہ ، یعنی رافضی تھا اور موقوف روایات کو مرفوع بیان کردینے کا خوگر۔ بہت سی صحیح حدیثیں بھی اس نے روایت کی ہیں ۔ ان ہی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اوررافضی ہونے کی وجہ سے حضرت علی اور ان کی آل کے متعلق بے سروپا روایات بھی اس نے ذکر کی ہیں ۔ بقول امام ابوحاتم شیعوں کی مسجد کا امام اور ان کا واعظ تھا کان امام مسجد الشّیعۃ وقاصّھم ۔ یحییٰ بن معین نے اسے شیعیّ مفرط (غالی شیعہ) اور ابواسحاق جوزجانی نے مائل عن القصد (اعتدال سے ہٹا ہوا) بتایا ہے ۔ شعبہ نے کہا : کان من الرّفاّعین (موقوف روایات کو مرفوع بیان کردینے والاتھا) ۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٨٤۔٨٥)
J :      1 قارئین کرام ! ہم پہلے بھی حدیث نمبر 6 کے دفاع میں یہ بات بہت واضح طور پر بیان کر چکے ہیں کہ متقدمین جس راوی کو غالی شیعہ کہیں ، اس کو رافضی قرار دینا نِری جہالت ہے ، کیونکہ بصراحت ِ محدثین ایسا راوی رافضی نہیں ہوتا ۔ افسوس کہ ہمارا پالا جاہل لوگوں سے پڑا ہے !
تفصیل کے لیے حدیث نمبر 6 پر اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔
2    موقوف روایات کو مرفوع بنا کر بیان کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی قول یا فعل کو بجائے صحابی کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کردینا ۔ تُف ہے ایسی سوچ سمجھ پر ! جویہ بھی نہیں بھانپ سکے کہ اس بات کا تعلق سرے سے اس حدیث سے نہیں ہے ، کیونکہ اس حدیث میں آیت ِ کریمہ کا شانِ نزول سیدنا زید بن ثابت  رضی اللہ عنہہی نے بیان کیا ہے ۔اگر اس شانِ نزول کے بیان کو رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کیا جاتا تو عدی بن ثابت پر یہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے اس نے کسی صحابی کا قول رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کردیا ہو ۔
اگر میرٹھی صاحب کے کسی معتقد کے ذہن میں یہ بات آئے کہ اُحد کی طرف نکلنے کی بات تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب ہے نا ! تواس سے بڑی جہالت اورکوئی نہیں، کیونکہ یہ کسی صحابی کا فعل نہیں ہوسکتا کہ عدی بن ثابت نے اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کردیا ہو ، بلکہ اتفاقی طور پر صحابہ کرام ]کو لے کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمخود ہی اُحد کی طرف نکلے تھے ۔
موجودہ صورت ِ حال میں عدی بن ثابت پر یہ جرح نقل کرنا سوائے ورق سیاہ کرکے کتاب کا حجم بڑھانے کے اور کچھ بھی نہیں ۔
3    خود میرٹھی صاحب نے اقرار کرلیا ہے کہ بہت سی صحیح احادیث بھی اس نے بیان کی تھیں ۔ یقینا یہ حدیث بھی ان بہت سی صحیح حدیثوں میں سے ایک ہے ، کیونکہ اگر یہ ان میں سے نہ ہوتی تو امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری  رحمہ اللہاور دیگر کبار محدثین کو ضرور معلوم ہوجاتا اور وہ ضرور اس کی وضاحت کردیتے ۔ حیرت ہے کہ فن حدیث کے امام تو اس سے بے خبر رہے اور شیعہ اور رافضی کا فرق بھی نہ سمجھ سکنے والے میرٹھی صاحب اس سے واقف ہوگئے !
4    میرٹھی صاحب کا یہ جھوٹ بھی بکری کواونٹ کہنے کے مترادف ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے ثقہ قرار دیا ہے ، کیونکہ محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان کی توثیق کی ہے ۔
١۔    امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہفرماتے ہیں کہ عدی بن ثابت ثقہ ہیں ۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/٢، وسندہ، صحیحٌ)
٢۔    امام ابوحاتم  رحمہ اللہفرماتے ہیں :
ھو صدوق ۔    ”وہ سچے راوی ہیں۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/٢)
٣۔    امام احمد بن عبداللہ العجلی  رحمہ اللہفرماتے ہیں :      عدیّ بن ثابت الأنصاریّ ثقۃ ثبت فی الحدیث ۔۔۔ وکان شیخا عالیا فی عداد الشّیوخ ۔۔۔
”عدی بن ثابت انصاری حدیث میں بہت ہی زیادہ قابل اعتماد تھے ۔۔۔ شیوخ میں سے وہ بڑے عالی قدر شیخ تھے ۔۔۔”(الثقات للعجلی : ١٢٢٢)
٤۔    امام دارقطنی  رحمہ اللہفرماتے ہیں :      وعدیّ ثقۃ ۔ ”اورعدی (بن ثابت) ثقہ راوی ہیں۔”(سوالات البرقانی للدارقطنی : ٣٩٩)
٥۔    امام ابنِ شاہین  رحمہ اللہنے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے ۔
(تاریخ اسماء الثقات : ١٠٧١)
٦۔    امام ابنِ حبان  رحمہ اللہنے اسے ثقہ کہا ہے ۔(الثقات لابن حبان : ٤٧٨٥)
٧۔    امام مسلم  رحمہ اللہنے بھی اپنی کتاب صحیح مسلم میں ان کی بہت سی احادیث پیش کرکے ان کی ثقاہت پر مہر لگائی ہے ۔
(صحیح مسلم : ٧٥، ٧٨، ٤٦٤، ٦٦٦، ١٠١٥، ١٠٢٠، وغیرھا)
٨۔    امام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہکے نزدیک بھی عدی بن ثابت ثقہ ہیں ، کیونکہ انہوں نے بھی اپنی کتاب صحیح ابنِ خزیمہ میں ان کی کئی احادیث پیش کی ہیں ، جو کہ ان کی طرف سے توثیق ہیں۔(صحیح ابن خزیمۃ : ٥٢٢، ٩٢٥، ١٤٣٦، ١٥٩٠، وغیرھا)
٩۔    امام ابن الجارود  رحمہ اللہنے بھی ان کی توثیقِ ضمنی کی ہے ۔
(المنتقی لابن الجارود : ٦٨١)
١٠۔    امام حاکم  رحمہ اللہنے ان کی احادیث کو ”بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح” قرار دے کر ان کی توثیق کی ہے ۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٨٩٣، ٣٣٠٣، وغیرھا)
١١۔    امام الضیاء المقدسی  رحمہ اللہنے بھی ان کی احادیث کو صحیح قرار دے کر ان کی توثیق کی ہے۔(المختارۃ للضیاء المقدسی : ٢٥١، وغیرھا)
١٢۔    مسند ابی عوانہ میں بھی ان کی احادیث موجود ہیں ، جو کہ امام ابوعوانہ کے نزدیک ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہیں ۔(مسند ابی عوانۃ : ١١٥٤، ١٧٧٣، وغیرھا)
١٣۔    ناقد ِ رجال حافظ ذہبی  رحمہ اللہنے سارے اقوال کو مد ِ نظر رکھ کر لکھا ہے :
ثقۃ ، لکنّہ قاصّ الشّیعۃ وإمام مسجدھم بالکوفۃ ۔
”وہ ثقہ تھے ، لیکن شیعہ کے واعظ اور کوفہ میں ان کی مسجد کے امام تھے۔”
(الکاشف للذھبی : ٣٧٥٨)
١٤۔    حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہنے بھی سب محدثین کے اقوال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثقۃ ، رمی بالتّشیّع ۔    ”ثقہ تھے ، ان پر شیعہ ہونے کا الزام ہے۔”
(تقریب التھذیب لابن حجر : ٤٥٣٩)
ان کے علاوہ بھی بہت سے ماہرینِ رجالِ حدیث کے اقوال پیش کیے جاسکتے ہیں ،لیکن وہ طوالت کا باعث ہوں گے ۔
اب قارئین کرام خود ہی فیصلہ کرلیں کہ حدیث کے اماموں اور ماہرینِ فن لوگوں کی بات معتبر ہوگی یا میرٹھی صاحب کی ، جن کو متقدمین اور متاخرین کی اصطلاحِ” شیعہ” میں موجود فرق کا بھی علم نہیں ؟
رہی یہ بات کہ امام طبری  رحمہ اللہفرماتے ہیں :
عدیّ بن ثابت ممّن یجب التّثبّت فی نقلہ ۔
”عدی بن ثابت ان لوگوں میں سے ہیں ،جن کی نقل کردہ روایات کی تحقیق کرنا ضروری ہے۔”(تھذیب التھذیب لابن حجر : ٧/١٦٥)
اوّلاً تو اس کی سند معلوم نہیں ، نہ ہی ہمیںامام طبری  رحمہ اللہکی کسی کتاب میں یہ قول ملا ہے ۔
ثانیاً یہ کوئی ایسی جرح نہیں ، جس سے عدی بن ثابت کا رافضی یا جھوٹا ہونا لازم آتا ہو۔
رہا امام دارقطنی کا ان کوغالی رافضی کہنا (سوالات السلمی للدارقطنی : ٢٠١)تووہ ثابت نہیں ہے ، کیونکہ ان سے یہ قول بیان کرنے والا راوی ابوعبدالرحمن محمد بن حسین السلمی خود گمراہ صوفی تھا۔
اس کے بارے میں خطیب بغدادی  رحمہ اللہ، محمد بن یوسف القطان سے نقل کرتے ہیں :
کان أبو عبد الرّحمن السّلمی غیر ثقۃ ۔۔۔ وکان یضع للصّوفیۃ الأحادیث۔ ”ابوعبدالرحمن السلمی ثقہ نہیں تھا ، یہ صوفیوں کے لیے احادیث گھڑتا تھا۔”
(تاریخ بغداد : ٢/٢٤٨)
نیز وہ اس حسین بن منصور الحلاج گمراہ وکافر صوفی کا معتقد تھا، جس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہلکھتے ہیں :      فتدبّر یا عبد اللّٰہ ! نحلۃ الحلّاج الّذی ھو من رؤوس القرامطۃ ، ودعاۃ الزندقۃ ، وأنصف ، وتورّع ، واتّق ذلک ، وحاسب نفسک ، فإن تبرھن لک أنّ شمائل ھذا المرء شمائل عدوّ للإسلام ، محبّ للرّأاسۃ ، حریص علی الظّھور بباطل وبحقّ ، فتبرّأ من نحلتہ ، وإن تبرھن لک ـ والعیاذ باللّٰہ ـ أنّہ کان ـ والحالۃ ھذہ ـ محقّا ، ھادیا ، مھدیّا ، فجدّد إسلامک ، واستغث بربّک أن یوفّقک للحقّ ، وأن یثبّت قلبک علی دینہ ، فإنّما الھدی نور یقذفہ اللّٰہ فی قلب عبدہ المسلم ، ولا قوّۃ إلّا باللّٰہ ۔۔۔
”اے اللہ کے بندے ! آپ اس حلّاج کے مذہب پر غورکریں ، جو کہ کہ قرامطہ(غالی اورخطرناک قسم کے رافضی لوگوں)کا ایک سردار اور الحاد وبے دینی کا زبردست داعی تھا ۔ آپ انصاف وغیرجانبداری سے کام لیں ، اس سے بچ جائیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں ۔اگر آپ کے لیے واضح ہوجائے کہ اس شخص کے خصائل اسلام دشمن ، حکومت پسند اور باطل وحق کے اختلاط کے ساتھ غلبہ حاصل کرنے کے خواہش مندشخص کے خصائل ہیں تو فوراً اس کے مذہب سے دستبردار ہوجائیے ! اور اللہ نہ کرے ،اگر اس صورت ِ حال کے باوجود آپ کو وہ حق بجانب ، ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ نظرآئے تو اپنے اسلام کی تجدید کیجیے اور اپنے ربّ سے مدد مانگیے کہ وہ آپ کو حق کی توفیق دے اور آپ کے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھے ، کیونکہ ہدایت تو ایک نور ہے ، جسے اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندے کے دل میں جاگزیں کردیتا ہے ۔ گمراہی سے بچنے اور حق کو پانے کی قوت وطاقت صرف الہ تعالیٰ دیتا ہے ۔۔۔”(سیر اعلام النبلاء : ١٤/٣٤٥)
اسی لیے خود حافظ ذہبی  رحمہ اللہابوعبدالرحمن السلمی کے بارے میں لکھتے ہیں :
وما ھو بالقویّ فی الحدیث ۔ ”یہ حدیث میں قوی نہیں تھا۔”
(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٧/٢٥١)
ان وجوہ کی بنا پر امام دارقطنی کا عدی بن ثابت کورافضی کہنا پایہئ ثبوت کو نہیں پہنچ پایا ، البتہ ان کا عدی بن ثابت کوثقہ کہنا ہم ثابت کر چکے ہیں ۔    والحمد للّٰہ !
اگر کوئی امام دارقطنی  رحمہ اللہکے اس قول کو ثابت ہی سمجھے تو بھی یہ قول عدی بن ثابت کے ضعف پر دلالت نہیں کرتا ، کیونکہ امام موصوف نے ان کو غالی رافضی کہنے کے متصل پہلے ان کو ثقہ بھی قرار دیا ہے ، جبکہ غالی رافضی تو کافر ہوتے ہیں ۔ بھلا امام دارقطنی  رحمہ اللہجیسا شخص ایک کافر کو ثقہ کیسے قرار دے سکتا ہے ؟ اگر یہ قول تسلیم کیا جائے تو اس کو مبالغہ پر محمول کیا جائے گا ۔
5    جب میرٹھی صاحب عدی بن ثابت کا رافضی ہونا ہی ثابت نہیں کرسکے تو یہ کہنا سینہ زوری ہے کہ:     ”رافضی ہونے کی وجہ سے حضرت علی اور ان کی آل کے متعلق بے سروپا روایات بھی اس نے ذکر کی ہیں۔”
محدثین کرام کی ایک بڑی جماعت ان کو حدیث میں قابل اعتماد قرار دے رہی ہے ۔ ان سب کے خلاف میرٹھی صاحب کی خود ساختہ بات کوئی وقعت نہیں رکھتی ۔
6    میرٹھی صاحب نے امام ابوحاتم  رحمہ اللہکا قول پیش کرنے میں خیانت سے کام لیا ہے ، وہ اس طرح کہ ان کا یہ قول تو پیش کردیا ہے کہ وہ شیعہ کے امام اور واعظ تھے ، لیکن اس سے پہلے الفاظ ذکر نہیں کیے ، کیونکہ وہ ان کے خلاف تھے ۔ ہم باحوالہ نقل کرچکے ہیں کہ امام ابوحاتم  رحمہ اللہنے شیعہ کا امام وواعظ کہنے سے پہلے عدی بن ثابت کو ”صدوق” یعنی سچا راوی قرار دیا ہے ۔
یہ میرٹھی صاحب کے منہ پر ایک زوردار علمی طمانچہ ہے کہ امام ابوحاتم  رحمہ اللہشیعہ ہونے کے باوجود اسے سچا قراردے رہے ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ ہونا اصولِ حدیث میں کوئی جرح نہیں ہے اور میرٹھی صاحب کا اس پر بے سروپا روایات بیان کرنے کا الزام لگانا بہت بڑا بہتان ہے ۔
7    رہا امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہکا عدی کو غلوکار شیعہ کہنا تو اوّلاً اس کی کوئی سند ہمیں نہیں مل سکی ۔ ثانیاً اس کا معنیٰ رافضی ہونا نہیں ، لہٰذا یہ کوئی جرح نہیں ، جیسا کہ ہم بارہا بیان کرچکے ہیں۔
8    ابواسحاق جوزجانی کا انہیں مائل عن القصد (اعتدال سے ہٹے ہوئے) قرار دینا تو یہ کونسی جرح ہے ؟ متقدمین کی اصطلاح میں جن کو شیعہ کہا جاتا تھا ، وہ واقعی اعتدال سے ہٹے ہوئے ہوتے تھے ، لیکن ان کا اعتدال سے ہٹنا انہیں کفر تک نہیں لے جاتاتھا ، نہ ہی اس بے اعتدالی میں وہ جھوٹ بولتے تھے، لہٰذا اس کا ان کی حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
نیز ہم حدیث نمبر 6 میں بیان کرچکے ہیں کہ ابواسحاق جوزجانی ناصبی ہیں ۔ شیعہ راویوں کے خلاف جرح میں وہ خود اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں ،لہٰذا ان کی یہ جرح اصولاً بھی مردودہے۔
9    رہا امام شعبہ  رحمہ اللہکا ان کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ موقوف روایات کو مرفوع بیان کردینے والے تھے تو ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ اس جرح کا تعلق اس حدیث سے ہے ہی نہیں ، یہ بات میرٹھی صاحب کی کم عقلی کو ظاہر کرنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں دیتی ۔
یہ تھے میرٹھی صاحب کے عدی بن ثابت پر اعتراضات والزامات جن کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے۔ اب آپ خود انصاف سے کام لے کر فیصلہ کریں کہ بھلا اس وجہ سے حدیث ِ صحیح بخاری کا انکار کرنا عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے یا نہیں ؟
 

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.