2,197

تقدیر پر ایمان ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

تقدیر پر ایمان

تقدیر پر ایمان ان چھ ارکان میں سے ہے ، جن کے بغیر آدمی مومن نہیں ہو سکتا، جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جبریلu نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایمان کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہٖ، وَکُتُبِہٖ، وَرُسُلِہٖ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ .
”اللہ، فرشتوں، کتب ِسماوی، رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائیں اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائیں۔”
(صحیح مسلم : ١)
تقدیر پر ایمان واجب ہے، اس پر دلائل ملاحظہ ہوں:
فرمان ِباری تعالیٰ ہے:
(إِنَّا کُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ) (القمر : ٤٩)
”ہم نے ہر چیز تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تقدیر کے بارے بحث کرنے آئے تو یہ آیت نازل ہوئی :
(یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ . إِنَّا کُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ ) (القمر٤٨، ٤٩)
”اس روز یہ لوگ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور (ان سے کہا جائے گا کہ) جہنم کا مزہ چکھو! ہم نے ہر چیز تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔”
(صحیح مسلم : ٢٦٥٦)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَلِہٰذَا یَسْتَدِلُّ بِہٰذِہِ الْآیَۃِ الْکَرِیمَۃِ أَئِمَّۃُ السُّنَّۃِ عَلٰی إِثْبَاتِ قَدَرِ اللّٰہِ السَّابِقِ لِخَلْقِہٖ، وَہُوَ عِلْمُہُ الْـأَشْیَاءَ قَبْلَ کَوْنِہَا وَکِتَابَتُہ، لَہَا قَبْلَ بُرْئِہَا، وَرَدُّوا بِہٰذِہِ الْآیَۃِ وَبِمَا شَاکَلَہَا مِنَ الْآیَاتِ وَمَا وَرَدَ فِي مَعْنَاہَا مِنَ الْـأَحَادِیثِ الثَّابِتَاتِ عَلَی الْفِرْقَۃِ الْقَدَرِیَّۃِ الَّذِینَ نَبَغُوا فِي أَوَاخِرِ عَصْرِ الصَّحَابَۃِ .
”اسی لئے ائمہ سنت اس آیت سے اللہ کی تقدیر ثابت کرتے ہیں، جو کہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے (ہی لکھی جا چکی) ہے۔ تقدیر نام ہے، تخلیق اور وجودِ اشیاء سے قبل ان کے بارے اللہ کے علم اور اسے لکھنے کا۔ ائمہ سنت اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات و احادیث کو فرقہ قدریہ کے خلاف دلیل بناتے ہیں، یہ فرقہ عہد صحابہ کے آخر میں معر ض وجود میں آیا تھا۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٧/٤٥٧، ٤٥٨)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:
کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْـأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ، قَالَ : وَعَرْشُہ، عَلَی الْمَاءِ .
”زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیر لکھ دی تھی، نیز فرمایا : اللہ کا عرش (ابھی) پانی پر تھا۔”
(صحیح مسلم : ٢٦٥٣)
ابو رجاء خراسانی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عَدِیَّ بْنَ أَرْطَاۃَ کَتَبَ إِلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : إِنَّ قِبَلَنَا قَوْمًا یَقُولُونَ : لَا قَدَرَ، فَاکْتُبْ إِلَیَّ بِرَأْیِکَ، وَاکْتُبْ إِلَیَّ بِالْحُکْمِ فِیہِمْ فَکَتَبَ إِلَیْہِ : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ عُمَرَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلٰی عَدِیِّ بْنِ أَرْطَأَۃَ أَمَّا بَعْدُ : فَإِنِّي أَحْمَدُ إِلَیْکَ اللّٰہَ الَّذِي لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ أَمَّا بَعْدُ : فَإِنِّي أُوصِیکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ، وَالِاقْتِصَادِ فِي أَمْرِہٖ، وَاتِّبَاعِ سُنَّۃِ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَرْکِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ مِمَّا قَدْ جَرَتْ سُنَّتُہ،، وَکُفُوا مُؤْنَتَہ،، فَعَلَیْکُمْ بِلُزُومِ السُّنَّۃِ، فَإِنَّ السُّنَّۃَ إِنَّمَا سَنَّہَا مَنْ قَدْ عَرَفَ مَا فِي خِلَافِہَا مِنَ الْخَطَأِ وَالزَّلَلِ، وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ، فَارْضَ لِنَفْسِکَ مَا رَضِیَ بِہِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِہِمْ، فَإِنَّہُمْ عَنْ عِلْمٍ وَقَفُوا، وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ قَدْ کَفُّوا، وَلَہُمْ کَانُوا عَلٰی کَشْفِ الْأُمُورِ أَقْوٰی وَبِفَضْلٍ لَوْ کَانَ فِیہِ أَحْریٰ فَلَئِنْ قُلْتُمْ : أَمْرٌ حَدَثَ بَعْدَہُمْ، مَا أَحْدَثَہ، بَعْدَہُمْ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَ غَیْرَ سُنَّتَہُمْ، وَرَغِبَ بِنَفْسِہٖ عَنْہُمْ، إِنَّہُمْ لَہُمُ السَّابِقُونَ، فَقَدْ تَکَلَّمُوا مِنْہُ بِمَا یَکْفِی، وَوَصَفُوا مِنْہُ مَا یَشْفِی، فَمَا دُونَہُمْ مُقَصِّرٌ، وَمَا فَوْقَہُمْ مُخْسِرٌ، لَقَدْ قَصُرَ عَنْہُمْ آخَرُونَ فَضَلُّوا وَإِنَّہُمْ بَیْنَ ذٰلِکَ لَعَلٰی ہُدًی مُسْتَقِیمٍ کَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْقَدَرِ؟ عَلَی الْخَبِیرِ بِإِذْنِ اللّٰہِ تَعَالٰی سَقَطْتَ، مَا أَحْدَثَ الْمُسْلِمُونَ مُحْدَثَۃً، وَلَا ابْتَدَعُوا بِدْعَۃً ہِیَ أَبْیَنُ أَمْرًا، وَلَا أَثْبَتُ مِنْ أَمْرِ الْقَدَرِ، وَلَقَدْ کَانَ ذِکْرُہ، فِي الْجَاہِلِیَّۃِ الْجُہَلَاءُ یَتَکَلَّمُونَ بِہٖ فِي کَلَامِہِمْ، وَیَقُولُونَ بِہٖ فِي أَشْعَارِہِمْ، یُعَزُّونَ بِہٖ أَنْفُسَہُمْ عَنْ مَصَائِبِہِمْ، ثُمَّ جَاءَ الْإِسْلَامُ فَلَمْ یَزِدْہُ إِلَّا شِدَّۃً وَقُوَّۃً، ثُمَّ ذَکَرَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي غَیْرِ حَدِیثٍ وَلَا حَدِیثَیْنِ وَلَا ثَلَاثَۃٍ، فَسَمِعَہُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَتَکَلَّمُوا فِي حَیَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبَعْدَ وَفَاتِہٖ، یَقِینًا وَتَصْدِیقًا وَتَسْلِیمًا لِرَبِّہِمْ وَتَضْعِیفًا لِأَنْفُسِہِمْ : أَنْ یَکُونَ شَيْءٌ مِنَ الْأَشْیَاءِ لَمْ یُحِطْ بِہٖ عِلْمُہ،، وَلَمْ یُحْصِہٖ کِتَابُہ، وَلَمْ یَنْفُذْ فِیہِ قَدَرُہ،، فَلَئِنْ قُلْتُمْ : قَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي کِتَابِہٖ کَذَا وَکَذَا، وَلَمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَّہ، کَذَا وَکَذَا؟ لَقَدْ قَرَءُ وا مِنْہُ مَا قَدْ قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِیلِہٖ مَا جَہِلْتُمْ، ثُمَّ قَالُوا بَعْدَ ذٰلِکَ : کُلُّہ، کِتَابٌ وَقَدَرٌ، وَکَتَبَ الشِّقْوَۃَ، وَمَا یُقَدَّرْ یَکُنْ، وَمَا شَاءَ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ، وَلَا نَمْلِکُ لِأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذٰلِکَ وَرَہِبُوا، کَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي الْحُکْمَ فِیہِمْ، فَمَنْ أُوتِیتَ بِہٖ مِنْہُمْ فَأَوْجِعْہُ ضَرْبًا، وَاسْتَوْدِعْہُ الْحَبْسَ، فَإِنْ تَابَ مِنْ رَأْیِہِ السُّوئِ، وَإِلَّا فَاضْرِبْ عُنُقَہ،، وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ .
”عدی بن ارطاۃ نے امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  کو خط لکھا کہ ہمارے ہاں ایک گروہ تقدیر کا انکار کرتا ہے، آپ اپنی رائے اور ان کے متعلق حکم لکھ بھیجیں۔ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  نے جوابا خط لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ امیر المومنین بندہئ غریب، عمر کی طرف سے عدی بن ارطاہ کی خدمت میں۔ اما بعد : جملہ قسم کی تعریفات اللہ ہی کا خاصہ ہے، جس کے سوا کوئی الہ نہیں۔ اما بعد!میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تقویٰ اختیار کیجئے، میانہ روی اختیار کیجئے، سنت نبوی کا اتباع کیجئے، لوگوں نے بدعات گھڑ رکھی ہیں، حالاں کہ سنت کے ہوتے انہیں بدعات کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت ہی نہیںتھی، آپ ان بدعات کو چھوڑ دیجیے۔ سنت کو سینے سے لگائیے، کیوں کہ انہیں اس ہستی (اللہ تعالیٰ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جاری کیا ہے، جو جانتی تھی کہ اس کے علاوہ دوسرے راستے میں غلطی و خطا اور حماقت اور تکلف ہی ہے۔ اپنے لیے وہی پسند کر لیں، جو سلف نے پسند کیا ہے، کیوں کہ وہ علم پر مطلع ہوئے ہیں اور بصیرت کے ساتھ ہی کسی کام سے رکے ہیں۔ دینی امور کی حقیقت شناسی میں وہ زیادہ قوی تھے اور ہر فضیلت والے کام کے زیادہ لائق وہی تھے۔ اگر آپ کہیں کہ ان کے بعد کوئی نیا کام جاری ہو گیا ہے، تو ایسی حرکت وہی کر سکتا ہے، جو ان کے طریقے سے منحرف ہو جائے اور خود کو ان سے بے نیاز کر لے، جب کہ وہ سبقت والے ہیں، انہوں نے وہی بات کی ہے، جو کافی تھی اور اتنا ہی بیان کیا ہے، جتنا شافی تھا، لہٰذا جو عمل ان سے کم ہے، وہ تقصیر ہے اور جو بڑھا ہوا ہے، وہ گھاٹا اور خسارہ ہے۔ بعد والوں نے ان کے عمل سے بے رخی بھرتی، تو گم راہی ان کا مقدر بن گئی، جب کہ صحابہ کرام جادہئ مستقیم پر گامزن تھے۔ آپ نے تقدیر کی بابت سوال لکھا ہے، اللہ کے حکم سے آپ نے کسی باخبر آدمی سے پوچھا ہے۔ تقدیر کے مسئلے میں مسلمانوں نے کوئی نئی بات نہیں کی،نہ ہی یہ کوئی بدعت ہے،یہ تو واضح سی بات ہے اور تقدیر سے بڑھ واضح مسئلہ ہے ہی نہیں،اس کا ذکر تو جاہلیت کے لوگ بھی کیا کرتے تھے،وہ اپنی عام کلام اور شعری کلام میں اس کا ذکر کرتے رہے، نیز مصائب کے خلاف خود کو تسلی دیتے رہے۔ اسلام نے آ کر مسئلہ تقدیر کو مزید مستحکم کر دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صرف ایک دو یا تین نہیں، بل کہ بے شمار احادیث میں اس کا ذکر کیا۔ مسلمانوں (صحابہ کرام) نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبانی سنا اور خود بھی اس کا ذکر حیات نبوی اور بعد میں تصدیق کرتے ہوئے، رب تعالیٰ کی فرماں برداری میں اور خود کو کمزوری سمجھتے ہوئے کرتے رہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کا احاطہ ہمارا علم اور کتابت نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ بساط میں ہے۔ اگر تم کہو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں (نفی تقدیر پر) یہ یہ فرمایا ہے، تو (میں کہوں گا کہ) یہی آیات تم سے پہلے لوگوں (صحابہ) نے بھی پڑھی تھی، وہ ان کا درست مفہوم جان گئے، لیکن تم جاہل کے جاہل رہ گئے، ان سب آیات کے بعد وہ اسی کے قائل رہے کہ سب کچھ لوح محفوظ اور تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شقاوت لکھ دی ہے، جو تقدیر میں لکھا، وہ ہو کر رہے گا۔ جو اللہ چاہے، ہو جاتا ہے، جو نہ چاہے، نہیں ہوتا۔ ہم اپنے لیے نفع نقصان کے مالک نہیں۔ ان سب کے باوجود صحابہ کرام اعمال میں رغبت رکھتے تھے اور عذابات سے بچتے تھے۔ آپ نے پوچھا ہے کہ ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ ان منکرین تقدیر میں سے آپ کو جو بھی ملے، اس کی کوڑھوں سے سیوہ کریں، پابند سلاسل کر دیں، اپنی بری رائے سے تائب ہو جائے، تو ٹھیک ہے، ورنہ سر قلم کر دیں۔ والسلام علیکم!” چیک ترجمہ
(سنن أبي داود : ٤٦١٢، الشریعۃ للآجري : ٥٢٩، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ نووی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَظَاہَرَتِ الْـأَدِلَّۃُ الْقَطْعِیَّاتُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَإِجْمَاعِ الصَّحَابَۃِ وَأَہْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ عَلٰی إِثْبَاتِ قَدَرِ اللّٰہِ .
”کتاب و سنت اور صحابہ و فقہائے سلف وخلف کا اجماع تقدیر کے اثبات پر واضح دلالت کرتے ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم : ٢/١٥٥)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  صحابہ وتابعین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَإِنَّہُمْ یُثْبِتُونَ قُدْرَۃَ اللّٰہِ عَلٰی جَمِیعِ الْمَوْجُودَاتِ مِنَ الْـأَعْیَانِ وَالْـأَفْعَالِ وَمَشِیئَتَہِ الْعَامَّۃَ وَیُنَزِّہُونَہ، أَنْ یَّکُونَ فِي مُلْکِہٖ مَا لَا یِقْدِرُ عَلَیْہِ وَلَا ہُوَ وَاقِعٌ تَحْتَ مَشِیئَتِہٖ وَیُثْبِتُونَ الْقَدَرَ السَّابِقَ
وَأَنَّ الْعِبَادَ یَعْمَلُونَ عَلٰی مَا قَدَّرَہُ اللّٰہُ وَقَضَاہُ وفَرَغَ مِنْہُ وَأَنَّہ، لَا یَشَاؤُنَ إِلَّا أَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ وَلَا یَفْعَلُونَ إِلَّا مِنْ بَّعْدِ مَشِیئَتِہٖ وَأَنَّہ، مَا شَاءَ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ وَلَا تَخْصِیصَ عِنْدَہُمْ فِي ہَاتَیْنِ الْقَضِیَّتَیْنِ بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوہِ، وَالْقَدَرُ عِنْدَہُمْ قُدْرَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَعِلْمُہ، وَمَشِیئَتُہ، وَخَلْقُہ،، فَلَا یَتَحَرَّکْ ذَرَّۃٌ فَمَا فَوْقَہَا إِلَّا بِمَشِیئَتِہٖ وَعِلْمِہٖ وَقُدْرَتِہٖ .
”اہل سنت کے نزدیک تمام موجودات، اعیان ہوں یا افعال، سب پر اللہ کی تقدیر کا اثبات کرتے ہیں، نیز اللہ کی مشیت عامہ بھی ثابت مانتے ہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کرتے ہیں کہ اس کی بادشاہت میں کوئی ایسی چیز ہو، جس پر اس کی مکمل قدرت نہ ہو اور اس کی مشیت کے تحت نہ ہو۔ اہل ِسنت سابقہ تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں، یہ بھی مانتے ہیں کہ بندے اللہ کی تقدیر کے موافق عمل کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں، جو اللہ کی مشیت میںہو،وہی کرتے ہیں، جو اس کی مشیت میں ہو۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے، جسے وہ نہ چاہے،وہ نہیں ہو سکتا۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں کہ اہل سنت کے ہاں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اہل سنت کے ہاں تقدیر اللہ کی قدرت، مشیت اور اس کی تخلیق کا نام ہے۔ کوئی ذرہ یا اس سے بھی چھوٹی چیز اس کی مشیت، علم اور قدرت کے بغیر حرکت نہیںکر سکتی ہے۔”
(شِفاء العلیل : ١/١٥٠، ١٥١)
تقدیر پر ایمان کا اثبات :
1    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
فِي أَوَاخِرِ عَصْرِ الصَّحَابَۃِ حَدَثَتْ بِدْعَۃُ الْقَدَرِیَّۃِ وَالْمُرْجِئَۃِ، فَأَنْکَرَ ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ کَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ وَّجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ وَوَاثِلَۃَ بْنِ الْـأَسْقَعِ .
”عہد صحابہ کے آخر میںقدریہ اور مرجیہ کی بدعت ظہور پذیر ہوئی۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر، سیدنا عبد اللہ بن عباس، سیدنا جابر بن عبد اللہ اور سیدنا واثلہ بن اسقعy سمیت بہت سے کبار صحابہ کرام اور تابعین عظام نے ان کا رد کیا۔”
(منھاج السنۃ النبویۃ في نقض کلام الشیعۃ القدریۃ : ١/٣٠٩)
2    امام مطرف بن عبد اللہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
لَوْ کَانَ الْخَیْرُ فِي کَفِّ أَحَدِنَا مَا اسْتَطَاعَ أَنْ یُّفْرِغَہ، فِي قَلْبِہٖ حَتّٰی یَکُونَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِي یُفْرِغُہ، فِي قَلْبِہٖ .
”اگر ہم میں سے کسی کی مٹھی میں خیر ہو، تب بھی وہ اس وقت تک اپنے دل میں نہ ڈال پاتا، جب تک اللہ اس کے دل میں بھلائی نہ ڈال دیتا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١٣/٤٨٠، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں:
نَظَرْتُ فِي بَدْءِ ہٰذَا الْـأَمْرِ مِمَّنْ کَانَ فَإِذَا ہُوَ مِنَ اللّٰہ وَنَظَرْتُ عَلٰی مَنْ تَمَامُہ، فَإِذَا تَمَامُہ، عَلَی اللّٰہِ وَنَظَرْتُ مَا مِلَاکُہ، فَإِذَا مِلَاکُہُ الدُّعَاءُ .
”میں نے تدبر کیا کہ اس کائنات کی ابتدا کس سے ہے؟ تو جان گیا کہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کی تکمیل بھی اللہ کی جانب سے ہوئی اور اس کا سہارا دعا تھی۔”
ترجمہ چیک(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١٣/٤٨٠، وسندہ، صحیحٌ)
حماد بن زید رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِدَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ : مَا قُلْتَ فِي الْقَدَرِ؟ قَالَ : أَقُولُ مَا قَالَ مُطَرِّفٌ : لَمْ نُوکَلْ إِلَی الْقَدَرِ وَإِلَیْہِ نَصِیرُ .
”میں نے داود بن ابی ہند سے کہا آپ کا تقدیر کے بارے میں کیا موقف ہے ، فرمایا وہی جومطرف رحمہ اللہ کا ہے کہ ہمیں تقدیر پر نہیں چھوڑا گیا لیکن ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہو۔”ترجمہ چیک
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : ٣/٩٢، وسندہ، صحیحٌ)
3    عامر بن قیس رحمہ اللہ  نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے فرمایا:
فَوِّضَا أَمْرَکُمَا إِلَی اللّٰہِ تَسْتَرِیحَا .
”اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دیجئے، راحت پا و گے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١٣/٤٨٣، الطبقات لابن سعد : ٧/١٠٦، وسندہ، صحیحٌ)
4     امام حسن بصری رحمہ اللہ  (مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِینَ . إِلَّا مَنْ ہُوَ صَالِ الْجَحِیمِ) (الصّافّات : ١٦٢۔١٦٣) ”تم صرف اسے گم راہ کر سکو گے جس کا مقدور جہنم ہو۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
إِلَّا مَنْ أَوْجَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَنَّہ، یَصْلَی الْجَحِیمَ .
”صرف اسے گم راہ کر سکو گے، جس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم واجب کر دی ہے۔”
(سنن أبي داو،د : ٤٦١٥، المعرفۃ والتاریخ للفسوي : ٢/٣٩، وسندہ، صحیحٌ)
نیز خالد حذا رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
” میں نے امام حسن بصری رحمہ اللہ  سے پوچھا کہ آدم u آسمانوں کے لئے پیدا کئے گئے تھے یا زمین کیلئے؟ فرمایا : زمین کے لئے، میں نے کہا اگر وہ ثابت قدم رہتے اور درخت کا پھل نہ کھاتے؟ فرمایا : اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا؟ عرض کیا : مجھے اس آیت کے بارے میں بتائیں؟ فرمایا : شیاطین اسے ہی گم راہی میں لے جاسکتے ہیں جس پر جہنم واجب ہو چکی ہو۔”
(سنن أبي دو،اد : ٤٦١٤،المعرفۃ والتاریخ للفسوي : ٢/٤١، وسندہ، حسنٌ)
نیز فرماتے ہیں:
مَنْ کَفَرَ بِالْقَدَرِ، فَقَدْ کَفَرَ بِالْإِسْلَامِ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ خَلْقًا فَخَلَقَہُمْ بِّقَدَرٍ، وَقَسَمَ الْآجَالَ بِقَدَرٍ، وَقَسَمَ أَرْزَاقَہُمْ بِّقَدَرٍ، وَالْبَلْاءُ بِقَدَرٍ، وَالْعَافِیۃُ بِقَدَرٍ .
”تقدیر کا منکر اسلام کا منکر ہے۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی، تو انہیں تقدیر کے ساتھ پیدا کیا، انہیں زندگیاں تقسیم کیں، ان کے رزق تقسیم کئے اور ان کی تقدیر میں آزمائش و عافیت لکھی۔”
(القدر للفریابي : ٢٩٠، الشریعۃ للآجري : ٤٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
ایک شخص نے امام حسن بصری رحمہ اللہ  سے پوچھا کہ لیلۃ القدر ہر رمضان میں ہوتی ہے؟ فرمایا :
نَعَمْ وَاللّٰہِ الَّذِي لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، إِنَّہَا لَفِي کُلِّ رَمَضَانَ، وَإِنَّہَا اللَّیْلَۃُ الَّتِي یُفْرَقُ فِیہَا کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ، یَقْضِي اللّٰہُ کُلَّ أَجَلٍ وَّخَلْقٍ وَّرِزْقٍ إِلٰی مِثْلِہَا .
”جی ہاں! اس اللہ کی قسم، جس کے سوا کوئی الہ نہیں! یہ ہر رمضا ن میں ہوتی ہے۔ اس رات ہر حکمت کا کام تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک کے لیے موت، تخلیق اور رزق کے فیصلے ہوتے ہیں۔”
(تفسیر الطبري : ٣٠، ٣١، وسندہ، حسنٌ)
نیز فرماتے ہیں :
”فرمان باری تعالیٰ : (وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ) (سَبَأْ : ٥٤) ‘ان کی خواہشوں میں رکاوٹ ڈال دی جائے گی ۔’ سے مراد ہے:
حِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْـإِیمَانِ .
‘ان کے اور ایمان کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١٣/٥٢٧، المعرفۃ والتاریخ للفسوي : ٢/٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
قَرَأْتُ الْقُرْآنَ کُلَّہ، عَلَی الْحَسَنِ فِي بَیْتِ أَبِي خَلِیفَۃَ، فَفَسَّرَہ، لِي أَجْمَعَ عَلَی الْإِثْبَاتِ . فَسَأَلْتُہ، عَنْ قَوْلِہٖ (کَذٰلِکَ سَلَکْناہُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ) قَالَ : الشِّرْکُ سَلَکَہُ اللّٰہُ فِي قُلُوبِہِمْ . وَسَأَلْتُہ، عَنْ قَوْلِہٖ (وَلَہُمْ أَعْمالٌ مِّنْ دُونِ ذٰلِکَ ہُمْ لَہَا عَامِلُونَ) قَالَ : أَعْمَالٌ سَیَعْمَلُونَہَا لَمْ یَعْمَلُوہَا .
چیک ”میں نے حسن بصری کو ابو خلیفہ کے گھر پورا قرآن سنایا، میں نے انہیں مکمل قرآن کی تفسیر سنائی، انہوں نے اس کی تصدیق کی۔میں نے قرآن مجید کی آیت: (کَذٰلِکَ سَلَکْنٰہُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ) (اسی طرح ہم نے اسے مجرمین کے دلوں میں داخل کردیا۔) کی تفسیر پوچھی، فرمایا : ان کے دلوں میں شرک داخل کر دیا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَلَہُمْ أَعْمالٌ مِّنْ دُونِ ذٰلِکَ ہُمْ لَہَا عَامِلُونَ) (اس کے علاوہ بھی ان کے کھاتے میں کچھ ایسے اعمال ہیں، جنہیں وہ سر انجام دیں گے۔) کی تفسیر چاہی، فرمایا : ایسے اعمال، جو انہوں نے ابھی تک نہیں کیے، عن قریب کر لیں گے۔”
(المعرفۃ والتاریخ للفسوي : ٢/٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
(أَعْطیٰ کُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہ،) (طہ : ٥٠) قَالَ : أَعْطیٰ کُلَّ شَيْءٍ مَّا یُصْلِحُہ، . ثُمَّ ہَدَاہُ لَہ، .
”آیت(أَعْطیٰ کُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہ،) کی تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو ایسی چیز عطا کی، جو اس کے لیے بہتر تھی، پھر اس کے حصول کے لیے رہنمائی بھی فرمائی۔”
(تفسیر الطبري : ١٦/٨١، وسندہ، حسنٌ)
طلحہ بن یحییٰ رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَدَخَلَ عَلَیْہِ عَبْدُ الْـأَعْلَی بْنُ ہِلَالٍ، فَقَالَ : أَبْقَاکَ اللّٰہُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَا دَامَ الْبَقَاءُ خَیْرًا لَّکَ، قَالَ : قَدْ فُرِغَ مِنْ ذٰلِکَ یَا أَبَا النَّضْرِ، وَلٰکِنْ قُلْ : أَحْیَاکَ اللّٰہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً، وَتَوَفَّاکَ مَعَ الْـأَبْرَارِ .
”میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ عبد الاعلیٰ بن ہلال تشریف لائے اور دعادی، امیرالمومنین! جب تک آپ کا زندہ رہنا بہتر ہے اللہ آپ کو زندہ رکھے، فرمایا : ابونصر! یہ تو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے، ایسے دعا دیجئے : اللہ آپ کو پاکیزہ زندگی عطا فرمائے اور حشر صالحین کے ساتھ کرے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٧/١٧٥ ، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : ٥/٣٢٤، وسندہ، حسنٌ)
5    ابوعبدالرحمن رحمہ اللہ  آیت کریمہ (فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍحَکِیمٍ) (الدّخان : ٤) ”اس رات ہر حکمت کا فیصلہ کیاجاتا ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یُدَبَّرُ أَمْرُ السَّنَۃِ فِي لَیْلَۃِ الْقَدَرِ .
” لیلۃ القدر میں پورے سال کے معاملات کی تدبیر کی جاتی ہے۔”
(تفسیر الطبري : ٣١، ٣٤، شعب الإیمان للبیہقي : ٣٦٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
مجاہد رحمہ اللہ ، عبید بن عمیر رحمہ اللہ  کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں :
(کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِي شَأْنٍ) (الرَّحْمٰن : ٢٩)، قَالَ : مِنْ شَأْنِہٖ أَنْ یَّفُکَّ عَانِیًا، وَیُجِیبَ عَبْدًا، وَیَشْفِي مَرِیضًا، أَوْ یُعْطِيَ سَائِلًا .
”آیت(کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِي شَأْنٍ) (وہ ہر روز کسی کام میں ہوتا ہے۔) کی تفسیر ہے کہ اللہ کے شأن (کاموں ) میں پابند سلاسل کو رہائی دلانا، اپنے بندے کی دعا قبول کرنا، مریض کو شفا دینا اور سوالی کو نوازنا بھی شامل ہے۔”
(المعرفۃ والتاریخ للفسوي : ٣/١٤٧، ١٤٨، وسندہ، صحیحٌ)
6    امام شعبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
حُبَّ أَہْلَ بَیْتِ نَبِیِّکَ، وَلَا تَکُنْ رَّافِضِیًّا، وَاعْمَلْ بِالْقُرْآنِ، وَلَا تَکُنْ حَرُورِیًّا، وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَتَاکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ، وَمَا أَتَاکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ، وَلَا تَکُنْ قَدَرِیًّا، وَأَطِعِ الْإِمَامَ، وَإِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا .
”اہل ِبیت ِرسول سے محبت کیجئے، رافضی نہ ہو جانا۔ قرآن پر عمل کیجئے، خارجی نہ ہوئیے۔ یاد رکھئے کہ آپ کی ہر نیکی اللہ کی طرف سے ہے اور ہر برائی آپ کی طرف سے ہے۔ منکر تقدیر نہ ہوئیے اور حاکم وقت کی اطاعت کیجئے، بھلے وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو!”
(السنّۃ للخَلاّل، ٨ : وسندہ، حسنٌ)
7    یحییٰ بن عتیق کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی امام ابن سیرین رحمہ اللہ  کے پاس آیا اور دینی معاملے میں چند سوالات پوچھنے لگا، آپ اسے جواب دینے لگے، وہاں سلم بن قتیبہ بھی تھا۔ آدمی نے کہا اس سے تقدیر کی بابت پوچھئے گا، آپ نے فرمایا : ابوبکر! (سلم کی کنیت) تقدیر کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کہنے لگا : آپ سے یہ سوال کرنے کا کس نے کہا؟ پھر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا، تو امام ابن سیرین رحمہ اللہ  نے فرمایا:
إِنَّ الشَّیْطَانَ لَیْسَ لَہ، عَلٰی أَحَدٍ سُلْطَانٌ، وَلٰکِنْ مَنْ أَطَاعَہ، أَہْلَکَہ، .
”شیطان کے پاس کسی کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں، ہاں جو اس کی اطاعت کرے گا، ہلاک ہو جائے گا۔”
(طبقات ابن سعد : ٧/١٩٧، وسندہ، صحیحٌ)
امام مجاہد رحمہ اللہ  (یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ) (الرعد : ٣٩) ”اللہ جسے چاہے مٹا دیتا ہے، جسے چاہے قائم رکھتا ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یُنْزِلُ اللّٰہُ کُلَّ شَيْءٍ فِي السَّنَۃِ فِي لَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَیَمْحُو مَا یَشَاءُ مِنَ الْـآجَالِ وَالْـأَرْزَاقِ وَالْمَقَادِیرِ، إِلَّا الشَّقَاءَ وَالسَّعَادَۃَ، فَإِنَّہُمَا ثَابِتَانِ .
”اللہ تعالیٰ سال بھر میں وقوع پذیر ہونے والی تما م چیزیں کو لیلۃ القدر میں نازل کرتا ہے۔ جتنی زندگیاں، رزق یا تقادیر چاہتا ہے، ختم کر دیتا ہے، سوائے بدبختی اور خوش بختی کے، یہ ثابت ہی رہتی ہیں۔”
(تفسیر الطبري : ٢٠٤٧١، وسندہ، حسنٌ)
نیز (وَکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئِرَہ، فِي عُنُقِہٖ) (الإسراء : ١٣) ”ہم نے ہر انسان کا عمل اس کی گردن میں لٹکا رکھا ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”طائرہ سے مراد اس کا عمل ہے۔”
(الزہد لوکیع بن الجرّاح : ٣٧، وسندہ، صحیحٌ)
ابو نضرہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
یُفْرَقُ أَمْرُ السَّنَۃِ فِي کُلِّ لَیْلَۃٍ بَّلَاؤُہَا وَرَخَاؤُہَا وَمَعَاشُہَا إِلٰی مِثْلِہَا مِنَ السَّنَۃِ .
”ہر سال کی لیلۃ (القدر) میں اگلے سال تک کی بد حالی، خوش حالی اور رزق وغیرہ تقسیم کر دئیے جاتے ہیں۔”
(شعب الإیمان للبیہقي : ٣٦٦٥، وسندہ، حسنٌ)
نضر بن شمیل رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ جب بصرہ سے کوئی امام، سلیمان تیمی رحمہ اللہ  کے پاس آتا، تو آپ اسے فرماتے:
أَشْہَدُ أَنَّ الشَّقِيَّ مَنْ شَقٰی فِي بَطْنِ أُمِّہٖ وَأَنَّ السَّعِیدَ مَنْ وُّعِظَ بِغَیْرِہٖ .
”میرا عقیدہ ہے کہ بدبخت وہی ہے، جسے ماں کے پیٹ میں بد بخت لکھ دیا گیا اور خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔”
(القَدَر للفِرْیابي : ٣٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
مطلب بن زیادا رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی امام زید بن علی رحمہ اللہ  کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے زید! کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کئے جانے کا ارادہ کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا : کیا اس سے زبردستی نافرمانی کی جاتی ہے؟
(شرح أصول اعتقاد أہل السنّۃ والجماعۃ لِلَالْکَائِي : ١٢٦٤، وسندہ، حسنٌ)
ابومالک رحمہ اللہ  (فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ) (الدّخان : ٤) ”اس رات حکمت کے تمام معاملات ترتیب دیئے جاتے ہیں۔”کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أَمْرُ السَّنَۃِ إِلَی السَّنَۃِ مَا کَانَ مِنْ خَلْقٍ أَوْ رِزْقٍ أَوْ أَجَلٍ أَوْ مُصِیبَۃٍ، أَوْ نَحْوِ ہٰذَا .
”اس برس سے آئندہ سال تک کی تخلیق، رزق، موت اور مصیبت کے تمام معاملات طے پاتے ہیں۔”
(تفسیر الطبري : ٣١، ٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ہِيَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ فِیہَا یُقْضٰی مَا یَکُونُ مِنَ السَّنَۃِ إِلٰی السَّنَۃِ .
”لیلۃ القدر میں اس سال سے آئندہ سال کے تمام فیصلے کر دیے جاتے ہیں۔”
(تفسیر الطبري : ٢١/٩، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں:
طَائِرَہ، : عَمَلُہ، .
”طائرہ سے مراد اعمال (کا ریکارڈ) ہے۔”
(تفسیرالطبری : ١٤/٥٢٤، وسندہ، صحیحٌ)
ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
أَعْلَمُ النَّاسِ بِالْقَدَرِ ضُعَفَاؤُہُمْ، یَقُولُ : إِنَّ کُلَّ مَنْ لَّمْ یَدْخُلْ فِي خُصُومَۃِ الْقَدَرِ کَانَ مِنْ قَوْلِہٖ : کَانَ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ کَذَا وَکَذَا .
”کمزور (غریب) لوگ تقدیر کو زیادہ جانتے ہیں۔ جو مسئلہ تقدیر میں جھگڑا نہیں کرتا، وہ کہتاہے : اللہ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا۔”
(السُّنّۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد بن حنّبل : ٨٨٤، وسندہ، حسنٌ)
نیز فرماتے ہیں:
مَا کَلَّمْتُ أَحَدًا مِّنْ أَہْلِ الْـأَہْوَاءِ بِعَقْلِي کُلِّہٖ إِلَّا الْقَدَرِیَّۃَ فَإِنِّي قُلْتُ لَہُمْ : مَا الظُّلْمُ فِیکُمْ؟ فَقَالُوا : أَنْ یَّأْخُذَ الْإِنْسَانُ مَا لَیْسَ لَہُ، فَقُلْتُ لَہُمْ : فَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیرٌ .
”بدعتیوں سے جب بھی میرا مناظرہ ہوا، تو میں نے کلی طور پر عقلی دلائل پر انحصار نہیں کیا، سوائے قدریہ کے۔ میں نے ان سے کہا : تمہارے نزدیک ظلم کسے کہتے ہیں؟ کہنے لگے : (ظلم یہ ہے کہ) انسان اس چیز کے درپے ہو، جو اس کی نہیں، میں نے کہا کہ اللہ تو ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔”
(السنّۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد : ٩٤٦، القدر للفِریابي : ٤٣٥، الشریعۃ للآجري : ٤٧٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
أَدْرَکْتُ النَّاسَ ہَاہَنَا وَکَلاَمُہُمْ : وَإِنْ قُضِيَ وَإِنْ قُدِّرَ .
”میں نے یہاں لوگوں کو ایسی باتیں کرتے سنا ہے : اگر تقدیر میں لکھا ہوا تو۔”
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ للالکائي : ١٣٨٩، وسندہ، حسنٌ)
داود بن ابی ہند رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
أَتَیْتُ الشَّامَ فَلَقِیَنِي غَیْلَانُ فَقَالَ : یَا دَاو،دُ إِنِّي أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ مَّسَائِلَ، قُلْتُ : سَلْنِي عَنْ خَمْسِینَ مَسْأَلَۃٍ وَّأَسْأَلُکَ عَنْ مَّسْأَلَتَیْنِ، قَالَ : سَلْ یَا دَاو،دُ، قُلْتُ : أَخْبِرْنِي مَا أَفْضَلُ مَا أُعْطِيَ ابْنُ آدَمَ؟ قَالَ : الْعَقْلُ، قُلْتُ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْعَقْلِ ہُوَ شَيْءٌ مُّبَاحٌ لِّلنَّاسِ، مَنْ شَاءَ أَخَذَہ، وَمَنْ شَاءَ تَرَکَہ،؟ أَوْ ہُوَ مَقْسُومٌ بَّیْنَہُمْ؟ قَالَ فَمَضٰی وَلَمْ یُجِبْنِي .
”شام میں میری ملاقات غیلان سے ہوئی، مجھے کہنے لگا، داود! میں آپ سے کچھ مسائل دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا : پچاس سوال پوچھئے! مگر میں آپ سے دو سوال کروں گا۔ کہنے لگا : داود پوچھئے! میں نے سوال کیا کہ ابن آدم کو سب سے بہتر چیز کیا دی گئی ہے؟ کہنے لگا :عقل۔ اچھا! عقل سب سے بہتر ہے، تو کیا اس میں اختیار ہے کہ جو چاہے اسے لے جائے اور جو چاہے چھوڑ دے؟ یا جتنی نصیب میں لکھی ہے اتنی لے سکتا ہے؟ وہ جواب دئیے بغیر بھاگ گیا۔”
(حلیۃ الأولیاء : ٣/٩٢، ٩٣، وسندہ، حسنٌ)
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ  (مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِینَ . إِلَّا مَنْ ہُوَ صَالِ الْجَحِیمِ) (الصّافّات : ١٦٢۔١٦٣) ”تم صرف اسے گم راہ کر سکو گے جس کا جہنمی ہونا لکھا جا چکا ہے۔”کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
إِلَّا مَنْ قُدِّرَ عَلَیْہِ أَنَّہ، یَصْلَی الْجَحِیمَ .
”صرف اسے، جس کے مقدر میں جہنمی ہونا لکھ دیا گیا۔”
(تفسیر الطبري : ١٩/٦٤٨، الشّریعۃ للآجري : ٤٨٩، وسندہ، صحیحٌ)
انس بن عیاض رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن رحمہ اللہ  ایسے لوگوں کے پاس رکے، جو تقدیر کے بارے میں مذاکرہ کر رہے تھے، آپ نے فرمایا:
لَئِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ، وَأَعُوذُ بِاللّٰہِ أَنْ تَکُونُوا صَادِقِینَ، لَمَا فِي أَیْدِیکُمْ أَعْظَمُ مِمَّا فِي یَدَيْ رَبِّکُمْ إِنْ کَانَ الْخَیْرُ وَالشَّرُّ بِأَیْدِیکُمْ .
”اللہ کی پناہ! آپ کیسے سچے ہو سکتے ہیں؟، لیکن اگر آپ سچے ہیں کہ خیر و شر آپ کے ہاتھوں میں ہے ، تو لازما آپ کے ہاتھوں میں اللہ کے ہاتھوں سے بڑی چیز ہے۔”
(حلیۃ الأولیاء : ٣/٢٦٠، وسندہ، حسنٌ)
ابو ضمرہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ غیلان، امام ربیعہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ  کے پاس ٹھہرا اور کہنے لگا : ربیعہ! وہ شخص کہاں ہے جو دعوی کرتا ہے کہ اللہ اپنی نافرمانی پسند کرتا ہے، تو ربیعہ نے فرمایا:
وَیْلَکَ یَا غَیْلاَنُ! أَوَ یُعْصَی اللّٰہُ قَسْرًا .
”غیلان! تباہ ہو جاؤ!کیا اللہ کی زبردستی نا فرمانی کی جاتی ہے؟”
(القدر للفریابي : ٥١٧ ، وسندہ، صحیحٌ)
محمد بن کعب رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لَمَّا اسْتَنْقَذَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلابِ الرِّجَالِ وَأَرْحَامِ النِّسَاءِ کُلَّ مُؤْمِنٍ وَّمُؤْمِنَۃٍ قَالَ : یَا نُوحُ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ آمَنَ .
”چوں کہ اللہ نے عورتوں کی کوکھ اور مردوں کے نطفے سے تمام مومنین و مومنات کو کشید لیاتھا، اس لیے تو فرمایا : نوح! آپ کی قوم سے جس نے ایمان لانا تھا، لا چکے، اب مزید کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٢٠٢٤، وسندہ، حسنٌ)
محمد بن کعب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : (فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰی أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ) (القمر: ١٢) ”پس اس کام پر، جو مقدر کیا گیا تھا پانی خوب جمع ہو گیا۔” سے ثابت ہوا کہ
کَانَ الْقَدَرُ قَبْلَ الْبَلَاءِ .
”مصیبت پہلے سے ہی تقدیر میں لکھی جا چکی تھی۔”
(مَکارم الأخلاق للخَرَائِطي : ١٠٦٧، وسندہ، حسنٌ)
سعید بن جبیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : (فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ) (الدُّخان : ٤) قَالَ : أَمْرُ السَّنَۃِ إِلٰی السَّنَۃِ إِلَّا الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ وَالشَّقَاءَ وَالسَّعَادَۃَ .
”اللہ تعالیٰ کے فرمان : (فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍحَکِیمٍ) (اسی رات ہر پُر حکمت کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔) اس سال سے آئندہ سال تک تمام معاملات کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، سوائے موت وحیات، بدبختی اور خوش بختی کے۔”
(السّنّۃ لعبداللّٰہ بن أحمد : ٨٨٦، وسندہ، حسنٌ)
ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ ربعی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
(فِیہَا یُفَرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ) (الدُّخان : ٤) قَالَ : ہِيَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ یُجَاءُ بِالدِّیوانِ الْـأَعْظَمِ السَّنَۃَ إِلَی السَّنَۃِ، فَیَغْفِرُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ شَاءَ أَلَا تَرٰی أَنَّہ، قَالَ : (رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ) .
”آیت (فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ) ‘اس رات ہر پر حکمت کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔’ میں رات سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ سال بھر کے اعمال پر مشتمل ایک بڑا رجسٹر لایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں، معاف کر دیتے ہیں۔ کیا آپ نے قرآن میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا : (رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ) (رحمت کرتے ہوئے آپ کے رب کی طرف سے۔)”
(شُعَب الإیمان للبیہقي : ٤٦٦٤، وسندہ، حسنٌ)
تقدیر پر ایمان کے مراتب :
تقدیر کے چار مراتب ہیں، ان سب کو جمع کئے بغیر ایمان بالقدر مکمل نہیں ہوتا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  اہل سنت کے نزدیک یہ مراتب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالْـإِیمَانُ بِالْقَدَرِ عَلٰی دَرَجَتَیْنِ، کُلُّ دَرَجَۃٍ تَتَضَمَّنُ شَیْئَیْنِ : فَالدَّرَجَۃُ الْـاُولٰی : الْـإِیمَانُ بِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَلِیمٌ بِّمَا الخَلْقُ عَامِلُونَ بِعِلْمِہِ الْقَدِیمِ الَّذِي ہُوَ مَوْصُوفٌ بِّہٖ أَزَلًا وَّأَبَدًا، وَعَلِمَ جَمِیعَ أَحْوَالِہِمْ مِّنَ الطَّاعَاتِ وَالْمَعَاصِي وَالْـأَرْزَاقِ وَالْـآجَالِ ثُمَّ کَتَبَ اللّٰہُ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ مَقَادِیرَ الْخَلْقِ . وَأَمَّا الدَّرَجَۃُ الثَّانِیَۃُ : فَہِيَ مَشِیْئَۃُ اللّٰہِ النَّافِذَۃُ وَقُدْرَتُہُ الشَّامِلَۃُ وَہُوَ الْـإِیمَانُ بِأَنَّ مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ، وَأَنَّہ، مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْـأَرْضِ مِنْ حَرَکَۃٍ وَّلَا سُکُونٍ إِلَّا بِمَشِیئَۃِ اللّٰہِ سُبْحَانَہ،، لَا یَکُونُ فِي مُلْکِہٖ مَا لَا یُرِیدُ، وَأَنَّہ، سُبْحَانَہ، عَلٰی کُلِّ شَيءٍ قَدِیرٌ مِّنَ الْمَوْجُودَاتِ وَالْمَعْدُومَاتِ، فَمَا مِنْ مَخْلُوقٍ فِي الْـأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ إِلَّا اللّٰہُ خَالِقُہ، سُبْحَانَہ لَا خَالِقَ غَیْرُہ، وَلَا رَبَّ سِوَاہ، . وَمَعَ ذٰلِکَ فَقَدْ أَمَرَ الْعِبَادَ بِطَاعَتِہٖ وَطَاعَۃِ رُسُلِہٖ وَنَہَاہُمْ عَنْ مَّعْصِیَتِہٖ …. وَالْعِبَادُ فَاعِلُونَ حَقِیقَۃً وَّاللّٰہُ خَالِقُ أَفْعَالِہِمْ، وَالْعَبْدُ ہُوَ الْمَؤْمِنُ وَالْکَافِرُ، وَالْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، وَالْمُصَلِّي وَالصَّائِمُ . وَلِلْعِبَادِ الْقُدْرَۃُ عَلٰی أَعْمَالِہِمْ وَلَہُمْ إِرَادَۃٌ وَّاللّٰہُ خَالِقُہُمْ وَخَالِقُ قُدْرَتِہِمْ وَإِرَادَتِہِمْ .
”تقدیر پر ایمان کے دو درجات ہیں۔ ہر درجہ کے ضمن میں دو چیزیں ہیں۔ پہلا درجہ : اللہ ازل سے جانتا ہے کہ مخلوق کیا کرنے والی ہے، مخلوق کے نیک و بد اعمال، رزق و حیات بھی جانتا ہے، پھر اللہ نے اسے لوح محفوظ میں لکھ دیا۔ دوسرا درجہ : اللہ کی مشیت و قدرت پر ایمان رکھا جائے، یعنی یہ عقیدہ ہو کہ جو اللہ چاہے، ہوتا ہے، جو نہ چاہے،نہیںہوتا اور زمین و آسمان میں ہر حرکت اور سکون اسی کی مشیت کے تحت ہے۔ اس کی بادشاہت میں اس کی چاہت بنا کچھ نہیں ہوتا، وہ تمام موجودات و معلومات پر قادر، زمین و آسمان کی ہر مخلوق کا خالق ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے، نہ رازق۔ اس نے بندوں کو اپنی اور اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے، اپنی نافرمانی سے منع کیاہے …. بندے حقیقی فاعل اور خدا ان کے افعال کا خالق ہے۔ بندہ ہی مومن و کافر، نیک و بد اور نماز روزہ کا پابند ہوتا ہے۔ بندوں کی اپنے اعمال پر طاقت ہے اور ارادہ ہے، جب کہ اللہ ان کا بھی خالق ہے اور ان کی طاقت و ارادہ کا بھی۔”
(العقیدۃ الواسطیۃ : ٤٤۔٤٧)
اب ہر مرتبہ کی تفصیل ملاحظہ ہو:
مرتبہ علم :
اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو اجمالی و تفصیلی طور پر جانتا ہے، خواہ وہ اس کے اپنے افعال کے متعلق ہو یا بندوں کے افعال کے متعلق، چنانچہ فرمان ِباری تعالیٰ ہے:
(لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیرٌ وَّأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا) (الطلاق : ١٢)
”آپ جان لیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس نے علمی طور پر ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔”
امام ابو رجائ رحمہ اللہ  فرمان ِباری تعالیٰ (سَوَاءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِّاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِّالنَّہَارِ) (الرَّعْد : ١٠) ”بات کو چھپائیں یا اعلانیہ کریں، رات کے اندھیرے میں نکلیں یا دن میں برابر ہے، (اللہ سب جانتا ہے۔)” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
إِنَّ اللّٰہَ أَعْلَمَ بِہِمْ، سَوَاءٌ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِّاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِّالنَّہَارِ .
”یہ بات کو چھپائیں یا اعلانیہ کریں، رات کے اندھیرے میں نکلیں یا دن میں، اللہ پر یکساں ہے،نیز وہ ان سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔”
(تفسیر الطبري : ٢٠٢٠٤، وسندہ، صحیحٌ)
امام حسن بصری رحمہ اللہ  اس آیت کریمہ (وَمَنْ عِنْدَہ، عِلْمُ الْکِتَابِ) (الرَّعْد : ٤٣) ”جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ .
”اللہ کی طرف سے۔”
(تفسیر الطبري : ٢٠٥٥، وسندہ، صحیحٌ)
محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
مَنْ أَحَبَّ رَجُلًا لِّلّٰہِ لِعَدْلٍ ظَہَرَ مِنْہُ وَہُوَ فِي عِلْمِ اللّٰہِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ آجَرَہُ اللّٰہُ عَلٰی حُبِّہٖ إِیَّاہُ کَمَا لَوْ کَانَ أَحَبَّ رَجُلًا مِّنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَمَنْ أَبْغَضَ رَجُلًا لِّلّٰہِ لِجَوْرٍ ظَہَرَ مِنْہُ ہُوَ فِي عِلْمِ اللّٰہِ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ آجَرَہُ اللّٰہُ عَلٰی بُغْضِہٖ إِیَّاہُ کَمَا لَوْ کَانَ أَبْغَضَ رَجُلًا مِّنْ أَہْلِ النَّارِ .
”جو کسی کا عدل و انصاف دیکھ کر اللہ کے لئے اس سے محبت کرے، اگرچہ اللہ کے علم کے مطابق محبوب جہنمی ہے، لیکن پھر بھی محبت کرنے والے کو یوں ہی اجر ملے گا، جیسے اس نے جنتی سے محبت کی ہے۔ جو کسی کا ظلم دیکھ کر اس سے اللہ کے لئے نفرت کرے، گو اللہ کے علم میں مبغوض جنتی ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی نفرت کرنے والے کو یوں ہی اجر ملے گا، جیسے اس نے جہنمی سے نفرت کی ہو۔”
(طَبَقات ابن سعد : ٥/٩٧، وسندہ، حسنٌ)
زید بن اسلم رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
(یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفٰی) (طہٰ : ٧) قَالَ : یَعْلَمُ أَسْرَارَ الْعِبَادِ، وَأَخْفٰی سِرَّہ، فَلَا یُعْلَمُ .
”(یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفٰی) کا مطلب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے رازوں کو جانتا ہے، اور کبھی اس طرح مخفی رکھتا ہے کہ (کوئی باوجود کوشش کے) ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔”
(العَظَمَۃ لأبي الشیخ الأصبہاني : ٢/٥١٦، وسندہ، صحیحٌ)
محمد بن سیرین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
مَا یُنْکِرُ قَوْمٌ أَنْ یَّکُونَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلِمَ کُلَّ شَيْءٍ فَکَتَبَہ، .
”اس کا انکار کسی قوم نے نہیں کیا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی اور اس نے اسے لکھ دیا ہے۔”
(القدر للفریابي : ١٠٣، السنۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد : ٩٠٣، الشریعۃ للآجري : ٤٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
ربیع بن ابی صالح بیان کرتے ہیں :
” جب امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ  کو حجاج کے پاس لایا گیا، تو ایک آدمی رو پڑا۔ امام صاحب نے اس سے پوچھا : کیوں رو رہے ہو؟ کہنے لگا : آپ کی مصیبت کی وجہ سے، فرمایا:
فَلَا تَبْکِ کَانَ فِي عِلْمِ اللّٰہِ أَنَّ یَّکُونَ ہٰذَا .
‘مت روئیں! ایسا ہونا اللہ کے علم میں تھا۔’ پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : (مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِي الْـأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِي کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَہَا ) (الحدید : ٢٢) (زمین میں آنے والی یا آپ کی زندگیوں میں پہنچنے والی ہر رونما ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ہے۔)”
(طبقات ابن سعد : ٢/٢٦٤، وسندہ، صحیحٌ)
امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
مَنْ أَقَرَّ بِالْعِلْمِ فَقَدْ خَصَمَ .
”جس منکر ِتقدیر نے اللہ کے علم کا اقرار کر لیا، گویا وہ میدان ہار گیا۔”
(الردّ علی الجہمیہ للدارمي : ٢٤٤، وسندہ، حسنٌ)
امام قتادہ رحمہ اللہ  (یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفٰی) (طہٰ : ٧٤) ”پوشیدہ اور مخفی اشیاء کو جانتا ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مِنَ السِّرِّ مَا حَدَّثْتَ بِہٖ نَفْسَکَ وَمَا لَمْ تُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَکَ أَیْضًا مِّمَّا ہُوَ کَائِنٌ .
”آپ کے دل میں آنے والی اور وہ جو آپ کے دل میں بھی نہیں آئی ‘سر’ کہلاتی ہے۔ اسی طرح وہ چیز بھی ‘سر’ ہے، جسے ابھی ہونا ہے۔”
(تفسیر عبد الرّزاق : ٣/١٥، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرمان الٰہی : (وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ، وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ) (الحِجْر : ٢٤)”ہم آپ کے پہلوں کو بھی جانتے ہیں اور انہیں بھی جانتے ہیں جو بعد میں آئیں گے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
کُلُّ أُولٰئِکَ قَدْ عَلِمَ اللّٰہُ .
”یہ سبھی اللہ کے علم میں ہیں۔”
(تفسیر الطبري : ٢١١٤٢، وسندہ، صحیحٌ)
مزید فرماتے ہیں:
(طَآئِرُکُمْ) (النَّمْل: ٤٧) أَيْ : عَمَلُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ .
”(طَائِرُکُمْ) سے مراد یہ ہے کہ تم مشرکین کا عمل (مومنین کو منحوس سمجھنا) اللہ کے ہاں (تقدیر میں لکھ دیا گیا) ہے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٩/٢٨٩٩)
سدی رحمہ اللہ  فرمان ِباری تعالیٰ : (إِلَّا أَنَّ یَّشَاءَ اللّٰہُ رَبُّنَا) (الأعراف : ٨٩) ”البتہ اگر ہمارا رب اللہ چاہے تو۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَاللّٰہُ لَا یَشَاءُ الشِّرْکَ وَلٰکِنْ نَّقُولُ : إِلَّا أَنْ یَّکُونَ اللّٰہُ قَدْ عَلِمَ شَیْئًا فَإِنَّہ، قَدْ وَسِعَ کُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا .
”اللہ شرک نہیں چاہتے، لیکن اتنا ہے کہ اللہ کو اس کا علم ہے، کیوں کہ وہ علمی طور پر ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٥/١٥٢٣، وسندہ، حسنٌ)
مرتبہ کتابت :
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے، جو لکھا ہے وہی ہوگا۔ فرمان ِباری تعالیٰ ہے:
(وَکُلَّ شَيْءٍ أَحْصَیْنَاہُ فِي إِمَامٍ مُّبِینٍ) (یٰس : ١٢)
”ہم نے تمام اشیاء واضح کتاب میں لکھ رکھی ہیں۔”
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَأَجَمَعَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ وَجَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیثِ أَنَّ کُلَّ کَائِنٍ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَہُوَ مَکْتُوبٌ فِي أُمِّ الْکِتَابِ .
”تمام اہل سنت، اہل حدیث، صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے کہ قیامت تک رونما ہونے والی ہر چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔”
(شفاء العلیل : ١/١٢٠)
بعض لوگوں کو اشکال ہو تا ہے کہ جب لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی گئی، تو اس فرمان الٰہی کا کیا مطلب؟
(یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہ، أُمُّ الْکِتَابِ ) (الرَّعْد : ٣٩)
”اللہ جسے چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں ثابت رکھتے ہیں اللہ کے پاس لوح محفوظ ہے۔”
اس کا حل یہ ہے کہ رزق و عمر وغیرہ دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو لوح محفوظ میں لکھے جاتے ہیں، وہ تو نہیں بدلتے، دوسرے وہ جو اللہ نے فرشتوں کو بتائے ہیں، ان میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ آیت مذکور ہ کا یہی مطلب ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن ابی العز  رحمہ اللہ  اور حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَالْـأَجَلُ أَجَلَانِ : أَجَلٌ مُّطْلَقٌ یَعْلَمُہُ اللّٰہُ، وَأَجَلٌ مُّقَیَّدٌ، وَبِہٰذَا یَتَبَیَّنُ مَعْنٰی قَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (مَنْ سَرَّہ، أَنْ یُّبْسَطَ لَہ، فِي رِزْقِہٖ وَیُنْسَأَ لَہ، فِي أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہ،) . فَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمَلَکَ أَنْ یَّکْتُبَ لَہ، أَجَلًا وَّقَالَ : إنْ وَّصَلَ رَحِمَہ، زِدْتُّہ، کَذَا وَکَذَا وَالْمَلَکُ لَا یَعْلَمُ أَیَزْدَادُ أَمْ لَا؛ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یَسْتَقِرُّ عَلَیْہِ الْـأَمْرُ فَإِذَا جَاءَ ذٰلِکَ لَا یَتَقَدَّمُ وَلَا یَتَأَخَّرُ .
”عمر دو قسم کی ہے۔ ایک مطلق، جسے اللہ ہی جانتا ہے، دوسری مقید، یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کی وضاحت ہو جاتی ہے : (جو اپنے رزق اور عمر میں کشادگی چاہتا ہے، وہ صلہ رحمی کرے۔)، اللہ تعالیٰ فرشتے کو عمر رکھنے کا کہتے ہیں کہ اگر یہ صلہ رحمی کرے، تو میں اسے اتنا اتنا بڑھا دوں گا۔ فرشتہ نہیں جانتا کہ اس رزق و عمر میں زیادتی کی جائے گی یا نہیں؟، البتہ اللہ کو معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ کہاں جا ٹھہرے گا، جب اجل آجاتی ہے، تو آگے پیچھے نہیں ہوتی۔”
(مجموع الفتاوٰي : ٨/٥١٧، شرح العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : ١٣١، ١٣٢، فتح الباري : ١٠/٤١٦)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَالصَّحِیحُ أَنَّ نَصِیبَہُمْ مِّنَ الْکِتَابِ یَتَنَاوَلُ الْـأَمْرَیْنِ فَہُوَ نَصِیبُہُمْ مِّنَ الشَّقَاوَۃِ وَنَصِیبُہُمْ مِّنَ الْـأَعْمَالِ الَّتِي ہِي أَسْبَابُہَا وَنَصِیبُہُمْ مِّنَ الْـأَعْمَارِ الَّتِي ہِي مُدَّۃُ اکْتِسَابِہَا وَنَصِیبُہُمْ مِّنَ الْـأَرْزَاقِ الَّتِي اسْتَعَانُوا بِہَا عَلٰی ذٰلِکَ فَعَمَّتِ الْـآیَۃُ ہٰذَا النَّصِیبَ کُلَّہ، وَذَکَرَ ہٰؤُلَاءِ بَعْضَہ، وَہٰؤُلَاءِ بَعْضَہ، ہٰذَا عَلَی الْقَوْلِ الصَّحِیحِ وَأَنَّ الْمُرَادَ مَا سَبَقَ لَہُمْ فِي أُمِّ الْکِتَابِ .
”درست بات یہی ہے کہ تقدیر میں ان (ظالموں) کا نصیب دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ پہلا بدبختی والا حصہ، وہ اسباب جو بد بختی کا موجب بنتے ہیں، نصیب میں لکھی عمر کا وہ حصہ، جو ان بد بخت اعمال کی مدت ہے اور نصیب میں لکھا وہ رزق، جو ان بد بخت اعمال کے لیے مؤید ثابت ہوتے ہیں۔ یہ آیت (الاعراف : ٣٧) اس سارے نصیب کو شامل ہے، جب کہ کچھ مفسرین نے نصیب کا بعض حصہ ذکر کیا اور بعض مفسرین نے کچھ حصہ ذکر کیا ہے ۔ صحیح قول یہی ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ ان (ظالموں) کے حق میں لکھ دیا گیا۔”
(شِفاء العلیل : ١٢١، ١٢٢)
مسلم بن یسار رحمہ اللہ  سے تقدیر کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:
وَادِیَانِ عَمِیقَانِ قِفْ عِنْدَ أَدْنَاہُمَا .
”دو گہری وادیاں ہیں، آپ قریب ترین پر ٹھہرجائیے۔”
(مُعْجَم ابن الأعرابي : ٧١٥، وسندہ، صحیحٌ)
بلال بن سعد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
رُبَّ مَسْرُورٍ مَّغْبُونٌ وَّلَا یَشْعُرُ، یَأْکُلُ وَیَشْرَبُ وَیَضْحَکُ وَقَدْ حَقَّ لَہ، فِي کِتَابِ اللّٰہِ أَنَّہ، مِنْ وَّقُودِ النَّارِ .
”کتنے خوش فہمیوں میں مبتلا غافل، جنہیں شعور نہیں، کھاتے ہیں، پیتے ہیں، ہنستے ہیں، لیکن اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔”
(الزوائد لعبد اللّٰہ بن أحمد بن حنّبل علی الزہد لأبیہ : ٢٢٨٦، المَعْرِفۃ والتاریخ للفسوي : ٢/٤٠٧، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : ٥/٢٢٣، وسندہ، حسنٌ)
حسن بصری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
(مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِي الْـأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِي کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَہَا) (الحدید : ٢٢) قَالَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَمَنْ یَّشُکُّ فِي ہٰذَا، کُلُّ مُصِیبَۃٍ بَّیْنَ السَّمَاءِ وَالْـأَرْضِ فَفِي کِتَابِ اللّٰہِ قَبْلَ أَنْ یَّبْرَأَ النَّسَمَۃَ .
”(مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِي الْـأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِي کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَہَا) (الحدید : ٢٢) ( نہ کوئی آفت زمین میں آتی ہے نہ تمہاری جانوں میں مگر اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں درج شدہ ہے) ، سبحان اللہ! اس میں کون شک کر سکتا ہے؟ ہر زمینی و آسمانی آفت مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل لوح محفوظ میں لکھ دی گئی تھی۔”
(القدر للفریابي : ١٢٢، السنۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد : ٩٦١، تفسیر الطبري : ٢٢/٤١٩، شُعَب الإیمان للبیہقي : ٩٧٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
ابو ادریس رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ الْقَلَمَ ، فَکَتَبَ مَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .
”اللہ نے قلم کی تخلیق کی اور وہ سب کچھ لکھ دیا، جو روز قیامت تک ہونے والا تھا۔”
(القدر للفریابي : ١٢٠، وسندہ، حسنٌ)
ضمرۃ بن حبیب رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَرْشُہ، عَلَی الْمَائِ، وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْـأَرْضَ بِالْحَقِّ، وَخَلَقَ الْقَلَمَ، فَکَتَبَ بِہٖ مَا ہُوَ خَالِقٌ وَّمَا ہُوَ کَائِنٌ مِّنْ خَلْقِہٖ، ثُمَّ إِنَّ ذٰلِکَ الْکِتَابَ سَبَّحَ لِلّٰہِ وَمَجَّدَہ، أَلْفَ عَامٍ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ شَیْئًا مِّنَ الْخَلْقِ .
”اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا کہ زمین و آسمان کو پیدا کیا، پھر قلم کو پیدا کیا اور اس سے ہر وہ کچھ، جو کچھ پیدا کرنا تھا اور جو کچھ رونما ہونا تھا، سب کچھ لکھ دیا۔ پھر اس کتاب نے کچھ پیدا ہونے سے پہلے ایک ہزار سال تک اللہ کی تسبیح و تمجید کی۔”
(تفسیر الطبري : ١٢/٣٣٤، وسندہ، حسنٌ)
محمد بن کعب رحمہ اللہ  فرمان ِالٰہی (أُولٰئِکَ یَنَالُہُمْ نَصِیبُہُمْ مِّنَ الْکِتَابِ) (الأعْرَاف : ٣٧) ”انہیں لوح محفوظ سے اپنا حصہ مل جائے گا۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
رِزْقُہ، وَأَجُلُہ، وَعِلْمُہ، .
”اس کا رزق، علم اور عمر۔”
(تفسیر ابن أبي حاتِم : ٥/١٤٧٤، وسندہ، حسنٌ)
عبدا لرحمن بن سابط جمحی بیا ن کرتے ہیں:
یُدَبِّرُ أَمْرَ الدُّنْیَا أَرْبَعَۃٌ : جَبْرَائِیلُ وَمِیکَائِیلُ وَإِسْرَافِیلُ وَمَلَکُ الْمَوْتِ، فَأَمَّا جَبْرَائِیلُ، فَصَاحِبُ الْجُنُودِ وَالرِّیحِ، وَأَمَّا مِیکَائِیلُ فَصَاحِبُ الْقَطْرِ وَالنَّبَاتِ، وَأَمَّا مَلَکُ الْمَوْتِ فَمُوَکَّلٌ بِّقَبْضِ الْـأَنْفُسِ، وَأَمَّا إسْرَافِیلُ فَہُوَ یَنْزِلُ بِالْـأَمْرِ عَلَیْہِمْ بِّمَا یُؤْمَرُونَ .
”دنیا کے معاملات چار فرشتوں کے سپرد ہیں۔ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت۔ جبرائیل لشکروں اور ہواؤں والے ہیں، میکائیل کے ذمہ بارش اور ان سے انگنے والی انگوریوں کے معاملات ہیں، ملک الموت کی ڈیوٹی روحیں قبض کرنے پر ہے اور اسرافیل انسانوں پر وہ معاملات نازل کرتے ہیں، جن کا ان کے متعلق حکم دیا جاتا ہے۔”
(مصنَّف ابن أبي شیبۃ : ١٣/٤٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام مجاہد رحمہ اللہ  سورۃ بروج(٢٢) میں ”لوح” سے مراد ”ام الکتاب” اور سورۃ یٰسین(١٢) میں ”امام مبین” سے مراد بھی ام الکتاب لیتے ہیں۔
(تفیسر الطبري : ٣٦٨٩٣، ٧٩، ٢٩، فضائل القرآن لابن الضریس : ١٥٢، وَسَنَدُہُمَا صحیحٌ)
امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ  فرمان ِباری تعالیٰ (کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ )(الأعْرَاف : ٢٩)”تخلیق اول کی طرح آپ کی تخلیق ثانی بھی ہو گی۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
کَمَا کَتَبَ لَکُمْ، تَکُونُونَ .
”جیسے اللہ نے آپ کے لئے لکھا، آپ ویسے ہی ہوئے۔”
(تفسیر الطبري : ١٤٤٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں:
(لَوْلَا کِتَابٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ) (الأنْفَال : ٦٨) ”اگر اللہ کی طرف سے پہلے لکھا ہو انہ ہوتا۔” سے مراد ہے:
مَا سَبَقَ لِـأَہْلِ بَدْرٍ مِّنَ السَّعَادَۃِ .
”سعادت، جو اہل بدر کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٥/١٧٣٥، وسندہ، حسنٌ)
نیز (أُولٰئِکَ یَنَالُہُمْ نَصِیبُہُمْ مِّنَ الْکِتَابِ) (الأعراف : ٣٧) ”یہ لوح محفوظ سے اپنا حصہ پا لیں گے۔” سے مراد یہ لیتے ہیں:
مَا قُدِّرَ لَہُمْ مِّنَ الْخَیْرِ وَالشَّرِّ وَالشَّقَاوَۃِ وَالسَّعَادَۃِ .
”بدبختی، خوش بختی، خیر و شر، جو اللہ نے ان کے لئے مقدور کر رکھا ہے۔”
(مُسْنَد ابن الجَعْد للبغوي : ٢١٦٤، وسندہ، حسنٌ)
محمد بن سیرین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
مَا یُنْکِرُ قَوْمٌ أَنْ یَّکُونَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلِمَ کُلَّ شَيْءٍ فَکَتَبَہ، .
”کسی قوم نے اس کا انکار نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے اور اسے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔”
(السُّنّۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد : ٩٠٣، القدر للفِرْیابي : ١٠٣، وسندہ، صحیحٌ)
ابو مالک رحمہ اللہ  (وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖ إِلَّا فِي کِتَابٍ) (فاطِر : ١١) ”کسی کی عمر بڑھائی جاتی ہے یا کم کی جاتی ہے، وہ کتاب میں ضرور لکھی جا چکی ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مَا یَقْضِي مِنْ أَیَّامِہِ الَّتِي عَدَدْتُّ لَہ، إِلَّا فِي کِتَابٍ .
”اس کے نصیب کے ایام کا فیصلہ لوح محفوظ ہی میں ہوتا ہے۔”
(تفسیر الطبري : ٢٩٩٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام عکرمہ رحمہ اللہ  (وَکُلُّ صَغِیرٍ وَّکَبِیرٍ مُّسْتَطَرٌ) (القمر :٥٣) ”ہر چھوٹی بڑی چیز لکھ دی گئی ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مَکْتُوبٌ فِي سَطْرٍ .
”سطر میں لکھی ہوئی ہے۔”
(الزہد لأبي داو،د : ٤٦١، وسندہ، صحیحٌ)
امام قتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ فرمان ِباری تعالیٰ (کُتِبَ عَلَیْہِ أَنَّہ، مَنْ تَوَلَّاہُ …) (الحج : ٤) ”اس (شیطان) کے بارے لکھ دیا گیا کہ جس نے اس سے دوستی کی۔۔۔۔۔۔۔” سے مراد ہے:
کُتِبَ عَلَی الشَّیْطَانِ .
”شیطان کے بارے میں لکھ دیا گیا۔”
(تفسیر عبد الرّزاق : ٢/٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
مرتبہ ارادہ مشیت :
اس سے مراد یہ ہے کہ تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت چلتی ہے۔ جو اللہ چاہے، وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا۔ فرمان ِباری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیدُ) (الحجّ : ١٨)
”اللہ جو چاہتے ہیں، کئے دیتے ہیں۔”
نیزفرمایا:
(وَمَا تَشَاءُ ونَ إِلَّا أَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا)
(الدّہر : ٣٠)
”آپ وہی چاہت کرتے ہیں، جواللہ چاہتاہے ، اللہ خوب جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے۔”
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ہٰذِہِ الْمَرْتَبَۃُ قَدْ دَلَّ عَلَیْہَا إِجْمَاعُ الرُّسُلِ مِنْ أَوَّلِہِمْ إِلٰی آخِرِہِمْ وَجَمِیعُ الْکُتُبِ الْمُنَزَّلَۃِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَالْفِطْرَۃُ الَّتِي فَطَرَ اللّٰہُ عَلَیْہَا خَلْقَہ، وَأَدِلَّۃُ الْعُقُولِ وَالْعِیَانِ .
”اس مرتبہ کی دلیل اول تا آخر تمام رسولوں کے اجماع، تمام کتب الٰہیہ ،فطرت انسانی اور عقل ومشاہدہ سے ملتی ہے۔”
(شفاء العلیل : ١/١٢٥)
عطیہ بن قیس رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ کچھ لوگ کعب احبار رحمہ اللہ  کی عیادت کرنے آئے، انہوں نے کہا : ابواسحق! آپ خود کو کیسا سمجھتے ہیں، فرمایا:
بِخَیْرٍ . عَبْدٌ أُخِذَ بِذَنْبِہٖ فَإِنْ قَبَضَہ، إِلَیْہِ رَبُّہ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَہ، وَإِنْ شَاءَ رَحِمَہ، وَإِنْ شَاءَ یُنْشِیہِ نَظِیفًا .
”اللہ کا کرم! انسان پر جب گناہوں کی شامت آتی ہے، تو اللہ چاہیں، تو اسے عذاب دیں، چاہیں توا س پر رحم کریں اور اگر چاہیں، تو اسے پاک صاف کر دیں۔”
(شرح أصول اعتقاد أہل السّنّۃ والجماعۃ للالکائي : ١٢٥٩، وسندہ، صحیحٌ)
مطرف بن عبد اللہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
نَظَرْتُ فَإِذَا ابْنُ آدَمَ مُلْقًی بَّیْنَ یَدَيْ رَبِّہٖ تَعَالٰی وَبَیْنَ یَدَيْ إِبْلِیسَ، فَإِنْ شَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَنْ یَّعْصِمَہ، عَصَمَہ، وَإِنْ تَرَکَہ، ذَہَبَ بِہٖ إِبْلِیسُ .
”میں نے غور کیا (تو معلوم ہوا کہ) ابن آدم اللہ اور ابلیس کے سامنے پھینکا ہوا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو اس کو ابلیس سے بچا لے اور چاہے تو ابلیس کے لیے چھوڑ دے اور وہ اسے لے جائے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٤٧٥، وسندہ، حسنٌ)
ثابت رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ ہم مطرف بن عبد اللہ  رحمہ اللہ  کے پاس تھے، ہم نے اللہ کا ذکر کیا اور دعا مانگی، پھر آپ نے فرمایا:
وَلَئِنْ کَانَ ہٰذَا مِمَّا سَبَقَ لَکُمْ فِي الذِّکْرِ، لَقَدْ أَرَادَ اللّٰہُ بِکُمْ خَیْرًا، وَإِنْ کَانَ مِمَّا یَحْدُثُ فِي اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَقَدْ أَرَادَ اللّٰہُ بِکُمْ خَیْرًا، فَأَيُّ ذٰلِکَ مَا کَانَ فَاحْمَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ .
”اگر یہ کام لوح محفوظ میں تمہارے لئے لکھا جا چکا ہے تو اللہ نے آپ کے لئے بھلائی کا ارادہ کیا ہے ، اور اگر یہ اسی دن رات میں پیدا ہونے والا ہے ، تو بھی اللہ نے تمہارے لئے بھلائی کا ارادہ کیا ہے، جو بھی ہو اس پر اللہ کا شکر ادا کرو۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١٣/٤٨٠، الزہد لأحمد بن حنّبل : ٢٩٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام حسن بصری رحمہ اللہ  (وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلٰی أَعْیُنِہِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنّٰی یُبْصِرُونَ ) (یٰس : ٦٦) ”ہم چاہتے، تو ان کی آنکھیں مسخ کر دیتے، پھر وہ راستے کی طرف بڑھتے، تو کہاں دیکھ پاتے!” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
لَوْ یَشَاءُ لَطَمَسَ عَلٰی أَعْیُنِہِمْ فَتَرَکَہُمْ عُمْیًا یَتَرَدَّدُونَ .
”اللہ چاہتا تو ان کی آنکھیں مسخ کر دیتا ،انہیں اندھا کر کے بھٹکتا چھوڑ دیتا۔”
(تفسیر الطبري : ٢٩٢١٧، وسندہ، صحیحٌ)
ربیع بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میرے سامنے جعفر نے امام حسن بصری رحمہ اللہ  سے اس فرمان باری ِتعالیٰ کی تفسیر پوچھی : (یَاأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ) (الفَجْر :٢٧) ”اے مطمئن روح!” تو آپ نے فرمایا :
إِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَرَادَ قَبْضَ رُوحِ عَبْدِہِ الْمُؤْمِنِ اطِمَأَنَّتِ النُّفُوسُ إِلَی اللّٰہِ وَاطَّمَأَنَّ اللّٰہُ إِلَیْہَا .
”اللہ مومن بندے کی روح قبض کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، تو اس کی جان اللہ کی طرف سے مطمئن ہو جاتی ہے اور اللہ اس سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ١٠/٣٤٣٠، وسندہ، حسنٌ)
وہب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
إِنَّمَا یُوزَنُ مِنَ الْـأَعْمَالِ خَوَاتِیمُہَا، فَإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا خَتَمَ لَہ، بِخَیْرِ عَمَلِہٖ، وَإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ سُوئً ا خَتَمَ لَہ، بِشَرِّ عَمَلِہٖ .
”وزن انسان کے آخری (کیے گئے) اعمال کا ہو گا۔ اللہ کسی سے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، تو اس کا خاتمہ عمل خیر پر فرماتے ہیں اور کسی سے برائی کا ارادہ کرتے ہیں، تو اس کا خاتمہ شر کے عمل پر کرتے ہیں۔”
(تفیسر عبد الرزاق : ٣/٢٤، وسندہ، حسنٌ)
نیز فرمایا:
خَلَقَ اللّٰہُ ابْنَ آدَمَ کَمَا شَاءَ وَمِمَّا شَاءَ فَکَانَ کَذٰلِکَ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ)
”اللہ نے جیسے چاہا ابن آدم کی تخلیق کی، جس چیز سے چاہا تخلیق کی، اسی لیے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ) (اللہ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔)”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٩/٣٠٤٥، وسندہ، حسنٌ)
عثمان البتی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ  کے پاس آیا، آپ نے پوچھا : تقدیر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ مجھے کوئی جواب نہ سوجھا، آپ نے ایک چیز زمین سے اٹھائی اور فرمایا:
مَا أُرِیدُ عَلٰی مَا أَقُولُ مِثْلَ ہٰذَا، إِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَیْرًا وَفَّقَہ، لِمَحَابِّہٖ وَطَاعَتِہٖ وَمَا یَرْضٰی بِہٖ عَنْہُ، وَمَنْ أَرَادَ بِہٖ غَیْرَ ذٰلِکَ اتَّخَذَ عَلَیْہِ الْحُجَّۃَ ثُمَّ عَذَّبَہ، غَیْرَ ظَالِمٍ لَّہ، .
”میں اپنے کہنے پر اتنا بھی ارادہ نہیں رکھتا۔ اللہ جب بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، تو اسے محبوب اور نیک کاموں پہ لگا دیتے ہیں اور جس سے کچھ اور ارادہ کرتے ہیں، اس پر حجت قائم کرتے ہیں، پھر اسے عذاب دیتے ہیں، اس طرح کہ اللہ ظلم نہیں کر رہے ہوتے۔”
(القدر للفریابي : ٤١١، وسندہ، حسنٌ)
نیز آپ نے فرمایا:
إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا جَعَلَ لَہ، مِنْ قَلْبِہٖ وَاعِظًا یَّأْمُرُہ، وَیَنْہَاہُ قَالَ : وَیُجْرِي اللّٰہُ الْخَیْرَ عَلٰی یَدَيْ مَنْ یَّشَاءُ أَوِ الشَّرَّ عَلٰی یَدَيْ مَنْ یَّشَاءُ .
”اللہ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، تو اس کا دل اس کے لئے واعظ بن جاتا ہے، جو اسے نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے۔ جس کے لئے اللہ چاہتا ہے، خیر جاری کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے، شر جاری کر دیتا ہے۔”
(الزہد لہنّاد بن السري : ٥٠٦، الزہد لأحمد بن حنّبل : ١٧٧٣، وسندہ، حسنٌ)
زید بن اسلم رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
مَا أَعْلَمُ قَوْمًا أَبْعَدَ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ قَوْمٍ یُّخْرِجُونَہ، مِنْ مَّشِیئَتِہٖ وَیُتْلِفُونَہ، عَمَّا لَمْ یَتْلِفْ .
”میرے علم کے مطابق ان لوگوں سے بڑھ کر اللہ سے زیادہ دور کوئی نہیں، جو اللہ کو اس کی مشیت سے خارج کر دیتے ہیں اور اللہ کو اس چیز سے عاری کر دیتے ہیں جس سے وہ خود عاری نہیں۔”
(القدر للفریابي : ٢٠٨، وسندہ، حسنٌ)
امام شعبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
إِذَا اخْتَلَفَ عَلَیْکَ أَمْرَانِ فَانْظُرْ أَیْسَرَہُمَا فَإِنَّہ، أَقْرَبُ إِلَی الْحَقِّ، إِنَّ اللّٰہَ أَرَادَ بِہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ الْیُسْرَ، وَلَمْ یُرِدْ بِہِمُ الْعُسْرَ .
”دو معاملوں میں اختلاف ہو جائے، تو آسان کی طرف دیکھئے، کیوں کہ آسانی حق کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ اس امت پر آسانی چاہتے ہیں، مشکل نہیں۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ١/٣١٢، وسندہ، حسنٌ)
ابو نضرہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
یَنْتَہِي الْقُرْآنُ کُلُّہ، إِلٰی : (إِنَّ ربَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیدُ) (ہُوْد : ١٠٧)
”سارا قرآن اس قول پر ختم ہے ”اللہ جو چاہتا ہے، بخوبی کرنے والا ہے۔”
(الاعتقاد للبیہقي، ص : ٣٥، وسندہ، حسنٌ)
عمرو بن مہاجر رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
”امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  کو پتہ چلا کہ غیلان تقدیر کا انکار کرتا ہے، آپ نے اسے بلا بھیجا، کئی دن اسے قید رکھا، پھر اسے آپ کے پاس لایا گیا، آپ نے فرمایا : غیلان! کیا بات ہے جو مجھے تمہارے بارے معلوم ہوئی؟ عمرو بن مہاجر رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، اس نے کہا امیر المومنین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ہَلْ أَتٰی عَلَی الْإِنْسَانِ حِینٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُورًا . إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَّصِیرًا . إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُورًا)(الدہر: ١۔٣) ‘کیا انسان پر وہ وقت نہیں آیا، جب وہ حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا، ہم نے انسان کو ٹپکنے والے نطفے سے پیدا کیا اور اسے سمیع و بصیر بنایا، ہم نے اسے سیدھے راستے کی رہنمائی کی، چاہے تو شکر کرے، چاہے تو ناشکری۔’ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  نے فرمایا : اب سورت کے اخر سے پڑھ! : (وَمَا تَشَاء ُونَ إِلَّا أَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا . یُدْخِلُ مَنْ یَّشَاءُ فِي رَحْمَتِہٖ وَالظَّالِمِینَ أَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا أَلِیمًا) (الدَّہْر : ٣٠۔٣١) ‘آپ وہی ارادہ کر سکتے ہیں جو اللہ کی مشیت میں ہو اللہ علم و حکمت والا ہے، جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور ظالموں کے لئے اللہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔’ پھر آپ نے فرمایا : غیلان! تو اب کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا میں کہتا ہوں کہ میں اندھا تھا، آپ نے مجھے آنکھیں دے دیں، میں بہرا تھا آپ نے مجھے کان دے دیے اور میں گم راہ تھا، آپ نے مجھے راہ ہدایت پہ ڈال دیا۔ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  نے دعا فرمائی، اے اللہ! اگر غیلان سچا ہے تو ٹھیک، ورنہ اسے پھانسی پر چڑھا دے، وہ تقدیر کے انکار سے رک گیا، آپ نے اسے دارالضرب دمشق کا گورنر بنایا۔ جب آپ فوت ہو گئے، امور خلافت ہشام کے پاس آگئے، تو اس نے پھر تقدیر کا انکار کر دیا، ہشام نے اسے طلب کر کے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ ایک آدمی گزرا، تو اس کے ہاتھ پہ مکھیاں بیٹھی تھیں، اس نے کہا : غیلان! یہی تقدیر ہے، اس نے کہا : تو نے جھوٹ بولا ہے اللہ کی قسم یہ تقدیر نہیں ہے، ہشام نے اسے پکڑوا کر پھانسی پر چڑھا دیا۔”
(القدر للفریابي : ٢٧٩، وسندہ، حسنٌ)
امام اوزاعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  نے اپنے بیٹے کو خط لکھا، جس کے شروع میں یہ الفاظ تھے:
إِنِّي أَسْأَلُ اللّٰہَ الَّذِي بِیَدِہِ الْقُلُوبُ یَصْنَعُ فِیہَا مَا شَاءَ مِنْ ہُدًی أَوْ ضَلَالَۃٍ .
”میں اللہ سے سوال کرتا ہو ں، جس کے ہاتھ میں دل ہیں۔ ان میں ہدایت یا گم راہی میں سے جو چاہتا ہے ڈال دیتاہے ۔”
(القدر للفریابي : ٤١٠، وسندہ، حسنٌ)
عمر بن ذر رحمہ اللہ  کہتے ہیں میں نے امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کو یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا : (مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِینَ إِلَّا مَنْ ہُوَ صَالِ الْجَحِیمِ) (الصافات : ١٦٢۔١٦٣) ‘تم صرف اسے گم راہ کر سکو گے جس کا جہنم مقدور ہو چکی ہے۔’ پھر آپ نے فرمایا:
لَوْ شَاءَ اللّٰہُ أَنْ لَّا یُعْصٰی لَمْ یَخْلُقْ إِبْلِیسَ، وَقَدْ بَیَّنَ اللّٰہُ ذٰلِکَ فِي آیَۃٍ مِّنْ کِتَابِہٖ عَقَلَہَا مَنْ عَقَلَہَا وَجَہِلَہَا مَنْ جَہِلَہَا .
”اگر اللہ چاہتے کہ میری نافرمانی نہ کی جائے، تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا۔ یہ بات اللہ نے کتاب اللہ کی ایک آیت میں سمجھا دی۔ جو سمجھ گیا، وہ سمجھ گیا، جو نہ سمجھا، وہ نہ سمجھا۔”
(تفسیر عبد الرّزاق : ٣/١٥٧، وسندہ، صحیحٌ)
خالد بن معدان رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
مَا مِنْ عَبْدٍ إِلَّا وَلَہ، أَرْبَعُ أَعْیُنٍ، عَیْنَانِ فِي وَجْہِہٖ یُبْصِرُ بِہِمَا أَمْرَ دُنْیَاہُ، وَعَیْنَانِ فِي قَلْبِہٖ یُبْصِرُ بِہِمَا مَا وَعَدَ اللّٰہُ بِالْغَیْبِ، فَإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا فَتَحَ عَیْنَیْہِ اللَّتَیْنِ فِي قَلْبِہٖ فَأَبْصَرَ بِہِمَا مَا وَعَدَ اللّٰہُ بِالْغَیْبِ، وَہُمَا غَیْبٌ، فَأَبْصَرَ الْغَیْبَ بِالْغَیْبِ، وَإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ سِوٰی ذٰلِکَ تَرَکَ الْقَلْبَ عَلٰی مَا فِیہِ، وَقَرَأَ : (أَمْ عَلٰی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا)(محمّد : ٢٤)، وَمَا مِنْ إِنْسَانٍ إِلَّا لَہ، شَیْطَانٌ مُّتَبَطِّنٌ فَقَارَ ظَہْرِہٖ، لَاوِيَ عُنُقَہ، عَلٰی عَاتِقِہٖ، فَاغِرَ فَاہُ عَلٰی قَلْبِہٖ .
”ہر آدمی کی چار آنکھیں ہوتی ہیں۔ دو چہرے پر، جن سے وہ دنیاوی معاملات دیکھتا ہے، اوردو دل میں، جن سے اللہ کے غیبی وعدے دیکھتا ہے۔ جب اللہ کسی سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کے دل والی آنکھیں کھول دیتا ہے اور وہ ان سے اللہ کے غیبی وعدے دیکھ لیتا ہے۔ وہ آنکھیں چوں کہ خود غائب ہوتی ہیں، اس لئے وہ بندہ غائب کے ذریعے غیب کی تصدیق کرتا ہے۔ جب اللہ اس سے کوئی اور ارادہ کرے، تو اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (أَمْ عَلٰی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا)(محمّد : ٢٤) ‘کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں’، پھر فرمایا : انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے، جو اس کی کمر کی ہڈی میں چھپا ہوتا ہے، گردن اس کے کندھوں پر رکھے ہوئے ہوتا ہے اور اپنا منہ اس کے دل پر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔”
(الزُّہْد لأبي داو،د : ٥٠٩، وسندہ، حسنٌ)
امام قتادہ رحمہ اللہ  فرمان باری تعالیٰ : (فَإِنْ یَّشَإِ اللّٰہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ) (الشُّورٰی : ٢٤) ”اللہ چاہیں، تو آپ کے دل پر مہر لگا دیں۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
إِنْ یَّشَاءْ أَنْسَاکَ مَا قَدْ أَتَاکَ .
”اللہ چاہیں تو تجھے دیا ہوا (علم) بھلا دیں۔”
(تفسیر عبد الرّزاق : ٢/١٩١، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں کہ فرمان باری تعالیٰ : (…یُعَذِّبَ الْمُنَافِقِینَ إِنْ شَاءَ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ) (الأحزاب : ٢٤) ”اللہ چاہے، تو منافقین کو سزا دے اور اگر چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق عطا کر دے۔” سے مراد یہ ہے:
یُعِذِّبُہُمْ إِنْ شَاءَ أَوْ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ النِّفَاقِ إِلَی الْـإِیمَانِ .
”اگر چاہے، تو انہیں عذاب دے یا انہیں نفاق سے نکال کر ایمان میں داخل کر دے۔”
(تفسیر عبد الرّزاق : ٣/١١٥، وسندہ، صحیحٌ)
جویریہ بن اسمائ رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے علی بن زید رحمہ اللہ  کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا : (فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ) (الأنعام : ١٤٩) ‘اللہ ہی کے لئے حجت بالغہ ہے، اگر چاہے، تو آپ سب کو ہدایت عطا کر دے۔’ پھر آپ نے فرمایا:
إِنْقَطَعَ وَاللّٰہِ ہَاہُنَا أَہْلُ الْقَدْرِ .
”اللہ کی قسم! یہاں منکرین تقدیر پھنس جاتے ہیں۔”
(القدر للفریابي : ٢٢٣، وسندہ، حسنٌ)
حبیب بن زید رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ رحمہ اللہ  سے لڑائی کے وقت نماز کے بارے میں پوچھا، تو فرمایا:
یُصَلِّي الرَّجُلُ رَاکِبًا وَّمَاشِیًا حَیْثُ کَانَ وَجْہُہ،، وَذٰلِکَ مِنْ تَیْسِیرِ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ، أَنَّہ، یُرِیدُ بِہِمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِہِمُ الْعُسْرَ .
”آدمی سواری پر یا چلتے ہوئے نماز پڑھ لے۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں کے لئے آسانیاں ہیں، اللہ ان سے آسانی کا ارادہ کرتا ہے، تنگی کا نہیں۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ١/٣١٣، وسندہ، حسنٌ)
سدی رحمہ اللہ  (وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ) (الأنْفَال : ٢٤) ”اللہ تعالیٰ، انسان اور اس کے دل کے ما بین حائل ہو جاتا ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یَحُولُ بَیْنِ الْـإِنْسَانِ وَقَلْبِہٖ، فَلَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یُّؤْمِنَ وَلَا یَکْفُرُ إِلَّا بِإِذْنِہٖ .
”اللہ تعالیٰ، انسان اوراس کے دل کے مابین حائل ہو جاتا ہے، تو وہ اس کے اذن کے بغیر مومن یا کافر بننے کی طاقت نہیں رکھتا۔”
(تفسیر الطبري : ١٥٩٠١، وسندہ، حسنٌ)
نیز : (یُؤْتِیہِ مَنْ یَّشَائُ) (المائدۃ : ٥٤) ”جسے چاہتا ہے عطاکرتاہے۔” کا معنی بیان کرتے ہیں:
یَخْتَصُّ بِہٖ مَنْ یَّشَاءُ .
”اس فضل کے ساتھ جسے چاہتا ہے، خاص کرتا ہے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٤/١١٤٢، وسندہ، حسنٌ)
نیز (یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَائُ)(المائدۃ : ١٨) ”جسے چاہے معاف کرے جسے چاہے عذاب دے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یَہْدِي مِنْکُمْ مَّنْ یَّشَاءُ فِي الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لَہ،، وَیُمِیتُ مَنْ یَّشَاءُ مِنْکُمْ عَلٰی کُفْرِہٖ فَیَعَذِّبُہ، .
”آپ میں سے جسے چاہتا ہے، دنیا میںہدایت دے کر معاف کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے، کفر پر موت دے کر عذاب دیتا ہے۔”
(تفسیر الطبري : ١١٦١٨، وسندہ، حسنٌ)
مرتبہ تخلیق و ایجاد :
اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق حتی کہ بندوں کے افعال کے بھی خالق ہونے کا اعتراف کرنا۔ کائنات میں جو بھی چیز رونما ہوتی ہے، اللہ ہی اس کا خالق ہوتا ہے۔
فرمان باری ِتعالیٰ ہے:
(اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَيْئٍ) (الزُّمَر : ٢٦)
”اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔”
نیز فرمایا:
(واللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ) (الصّافّات : ٩٢)
”اللہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق ہے۔”
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ہٰذَا أَمْرٌ مُّتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ الرُّسُلِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ وَسَلَّمَ وَعَلَیْہِ اتَّفَقَتِ الْکُتُبُ الْـإِلٰہِیَّۃِ وَالْفِطْرُ وَالْعُقُولُ وَالِاعْتِبَارُ .
”یہ رسولوں کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے۔ اسی پر کتب ِسماویہ، فطرت ِانسانی اور عقل و مشاہدہ کا متفقہ فیصلہ ہے۔”
(شِفاء العلیل : ١/١٤٥)
حمید رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
” امام حسن بصری رحمہ اللہ  ہمارے پاس مکہ آئے، فقہائے مکہ نے مجھ سے بات کی کہ میں اما م صاحب سے ایک دن وعظ و نصیحت کے لئے اپنے پاس مجلس لگانے کی درخواست کروں، آپ نے ہاں کر دی۔ جو فقہاء آپ کے پاس جمع تھے، آپ نے انہیں خطاب کیا، میں نے آپ سے بڑھ کر خطیب نہ دیکھا تھا، ایک آدمی آیا کہنے لگا : ابو سعید! شیطان کو کس نے پیدا کیا؟ فرمایا : سبحان اللہ، کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے؟ اللہ ہی نے شیطان کو بھی پیدا کیا اور خیر و شر بھی اسی کی مخلوق ہے۔ آدمی کہنے لگا : اللہ ان (منکرین تقدیر) کوہلاک کرے، کیسے شیخ پر جھوٹ بولتے ہیں، (ان پر منکر تقدیر ہونے کا الزام لگاتے ہیں)۔”
(سنن أبي دو،اد : ٤٦١٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام حسن بصری رحمہ اللہ  فرمان الٰہی (وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ . إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ) (ہُوْد : ١١٨۔١١٩) ”اللہ کسی پر رحم کرے، تو درست ، ورنہ یہ اختلاف کرتے ہی رہیں گے ، اسی (رحمت کے) لئے ان کی تخلیق ہوئی ۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
خَلَقَہُمْ لِلرَّحْمَۃِ .
”اللہ نے انہیں رحمت کرنے کے لئے پیدا کیا۔”
(سنن سعید بن منصور : ١١٠٤، وسندہ، صحیحٌ)
امام مجاہد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
”یہ فرمان الٰہی (ثُمَّ السَّبِیلَ یَسَّرَہ،) (عبس : ٢٠) ‘پھر خیر و شر کا راستہ اس کے لیے آسان کیا۔’ اسی فرمان کی طرح ہے : (إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُورًا) (الدَّہْر : ٣) ‘ہم نے راستہ دکھا دیا اب چاہے شکر گزار بنے چاہے ناشکرا۔”
(تفسیر الطبري : ٢٦٣٤٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام مجاہد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
”فرمان الٰہی : (یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہ، أُمُّ الْکِتَابِ) (الرَّعْد :٣٩) ‘جسے چاہتا ہے، مٹا دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے، قائم رکھتا ہے۔ اسی کے پاس لوح محفوظ کاعلم ہے۔’ سے زندگی و موت اور سعادت و شقاوت مستثنی ہیں، یہ تبدیل نہیں ہوتیں۔”
(تفسیر الطبري : ٢٠٤٦٧، وسندہ، صحیحٌ)
نیز آپ رحمہ اللہ  (وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ) (الأنعام : ١١٠) ”ہم ان کے دل پھیرتے ہیں۔” سے مراد لیتے ہے:
نَحُولُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْإِیمَانِ لَوْ جَاء َتْہُمْ آیَۃٌ کَمَا حُلْنَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہ، أَوَّلَ مَرَّۃٍ .
”ہم ان کے دلوں اور ایمان کے درمیان حائل ہو تے ہیں۔ اگر کوئی نشانی ان کے پاس آئی جیسے ہم پہلی بار، ان کے اور ایمان کے درمیان حائل ہوئے تھے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٤/١٣٦٩، وسندہ ،حسنٌ)
امام قتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ إِذْ أَطَاعُوہُ، فَخَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ، وَعَلٰی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ، فَہُمْ لَا یُبْصِرُونَ ہُدًی، وَلَا یَسْمَعُونَ وَلَا یَفْقَہُونَ، وَلَا یَعْقِلُونَ .
”جب انہوں نے شیطان کی بات مانی، تو شیطان نے ان پر غلبہ پا لیا۔ اللہ نے ان کے دلوں اور سماعتوں پر مہر ثبت کر دی، ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ یہ ہدایت نہیں دیکھ پاتے، نہ اسے سنتے ہیں، نہ جانتے ہیں اور نہ اس بارے شعور رکھتے ہیں۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ١/٤١، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں:
(لَایُؤْمِنُونَ بِہٖ) (الشُّعَرَاء : ٢٠١) ‘اس پر ایمان نہیں لاتے۔’ کا مطلب یہ ہے :
إِذَا کَذَّبُوا سَلَکَ اللّٰہُ فِي قُلُوبِہِمْ أَلَّایُؤْمِنُوا بِہٖ .
”جب اللہ کی تکذیب کرتے ہیں، تو اللہ ان کے دلوں میں لکھ دیتے ہیں کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٩/٢٨٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
مزید فرماتے ہیں:
(وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ) (الصافات : ٩٦) قَالَ : خَلَقَکُمْ وَخَلَقَ مَا تَعْمَلُونَ بِأَیْدِیکُمْ .
”(وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ) (الصافات : ٩٦) ‘اللہ تعالیٰ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق ہے۔’ کا مطلب ہے کہ اللہ نے اسے بھی پیدا کیا، جو تم نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے۔”
(الاعتقاد للبیہقي، ص : ٧٩، القضاء والقدر للبیہقي : ١٢٥، وسندہ، صحیحٌ)
ابو حازم رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
(فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا) (الشمس : ٨) قَالَ : الْفَاجِرَۃُ أَلْہَمَہَا اللّٰہُ تَعَالٰی الْفُجُورَ، وَالتَّقِیَّۃُ أَلْہَمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ التَّقْوٰی .
”(فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا) (الشمس : ٨) ‘اس (نفس) کو برائی اور نیکی کا الہام کیا۔’ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بد (نفس) کو برائی کا اور متقی و پرہیز گار کو تقویٰ کا الہام کیا۔”
(السّنّۃ لعبداللّٰہ بن أحمد : ٨٩٠، القدر للفریابي : ٣٢٧، وسندہ، صحیحٌ)
سدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں : (أَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہ، نُورًا یَّمْشِي بِہٖ فِي النَّاسِ)(الأنعام : ١٢٢) ‘کیا جو مردہ تھا، تو ہم نے اسے زندہ کیا اوراس کے لئے نور بنایا جس کے ساتھ وہ لوگوںمیں چلتا ہے۔’ کا مطلب یہ ہے:
مَنْ کَانَ کَافِرًا فَجَعَلْنَاہُ مُسْلِمًا، وَجَعَلْنَا لَہ، نُورًا یَّمْشِي بِہٖ فِي النَّاسِ، وَہُوَ الْـإِسْلَامُ، یَقُولُ : ہٰذَا کَمَنْ ہُوَ فِي الظُّلُمَاتِ، یَعْنِي : الشِّرْکَ .
”کافر کو مسلمان بنایا، ہم نے اس کے لئے نور بنایا جس کے ذریعے لوگوں میںچلتا پھرتا ہے۔ وہ نور اسلام ہے۔ کیا یہ شخص اندھیروں یعنی شرک میں چلنے والے جیسا ہو سکتا ہے؟”
(تفسیر الطبري : ١٣٨٤٥، وسندہ، حسنٌ)
نیز فرمان ِالٰہی :
(کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ فَرِیقًا ہَدٰی وَّفَرِیقًا حَقَّ عَلَیْہِمُ الضَّلَالَۃُ) (الأعراف : ٢٩۔٣٠)
”تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا، اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے، ایک فریق کو اللہ نے ہدایت دی، اور دوسرے کے نام گم راہی رہی۔”
کا مطلب بیان کرتے ہیں :
کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ، کَمَا خَلَقْنَاکُمْ، فَرِیقٌ مُّہْتَدُونَ، وَفَرِیقٌ ضَالٌّ، کَذٰلِکَ تَعُودُونَ وَتُخْرَجُونَ مِنْ بِّطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ .
”جیسے ہم نے آپ کو پیدا کیا، ایک فریق ہدایت یافتہ تھا، دوسرا گم راہ، اسی طرح تم لوٹو گے اور اپنی ماؤں کے بطنوں سے نکالے جاؤ گے۔”
(تفسیر الطبري : ١٤٤٩٤، وسندہ، حسنٌ)
نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَاللّٰہُ أَرْکَسَہُمْ بِّمَا کَسَبُوا) (النِّساء : ٨٨) ”اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں گم راہ کیا۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أَضَلَّہُمْ بِّمَا کَسَبُوا .
”کرتوتوں کی وجہ سے گم راہ کیا۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٣/١٠٢٥، وسندہ، حسنٌ)
تقدیر کو حجت بنانا:
تقدیر کے مسائل میں سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب پر تقدیر کو دلیل بنانا کیسا ہے؟ مشرکین اور بدعتی ہمیشہ سے اسے وراثت میں منتقل کرتے رہے ہیں، کیوں کہ ان کے امام ابلیس نے ہی سب سے پہلے اللہ کے حکم کی نافرمانی پر تقدیر کو دلیل بناتے ہوئے کہا تھا:
(رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِي) (الحِجْر : ٣٩)
”رب! چوں کہ تو نے مجھے گم راہ کیا۔”
پھر ابلیس کے پیروکار مشرکین مکہ نے بھی یہی بات دہرائی:
(وَقَالَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا لَوْ شَاءَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِہٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِہٖ مِنْ شَيْءٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ) (النَّحْل : ٣٥)
”مشرک کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا، تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور نہ ہی اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے ، یہی فعل ان سے قبل لوگوں کا رہا۔”
ایسے لوگ منکرین تقدیر سے بھی بد تر ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  رقم طرا ز ہیں:
فَہٰؤُلَاءِ یَئُولُ أَمْرُہُمْ إِلٰی تَعْطِیلِ الشَّرَائِعِ وَالْـأَمْرِ وَالنَّہْيِ مَعَ الِاعْتِرَافِ بِالرُّبُوبِیَّۃِ الْعَامَّۃِ لِکُلِّ مَخْلُوقٍ وَّأَنَّہ، مَا مِنْ دَابَّۃٍ إِلَّا رَبِّي آخِذٌ بِّنَاصِیَتِہَا، وَہُوَ الَّذِي یَبْتَلِي بِہٖ کَثِیرًا إِمَّا اعْتِقَادًا وَّإِمَّا حَالًا طَوَائِفُ مِنَ الصُّوفِیَّۃِ وَالْفُقَرَاءِ حَتّٰی یَخْرُجَ مَنْ یَّخْرُجُ مِنْہُمْ إِلَی الْإِبَاحَۃِ لِلْمُحَرَّمَاتِ وَإِسْقَاطِ الْوَاجِبَاتِ وَرَفْعِ الْعُقُوبَاتِ .
”ایسے لوگ آخر کار شریعت اور احکام الٰہی کو معطل کر دیتے ہیں، حالاں کہ ہر مخلوق پر اس کی کامل ربوبیت کو بھی مانتے ہو تے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر جاندار کی پیشانی میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔ اعتقادی یا عملی طور پر صوفیا اور فقرا کا بڑا حصہ اسی خرابی میں مبتلا ہے، حتی کہ بعض تو محرمات کے جواز، واجبات کے اسقاط اور سزاؤں کے خاتمے تک پہنچ جاتے ہیں۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٨/٢٥٦، ٢٥٧)
نیز فرماتے ہیں:
وَسَلَفُ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتُہَا مُتَّفِقُونَ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ الْعِبَادَ مَأْمُورُونَ بِمَا أَمَرَہُمْ اللّٰہُ بِہٖ مَنْہِیُّونَ عَمَّا نَہَاہُمْ اللّٰہُ عَنْہُ وَمُتَّفِقُونَ عَلَی الْإِیمَانِ بِوَعْدِہٖ وَوَعِیدِہِ الَّذِي نَطَقَ بِہِ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ وَمُتَّفِقُونَ أَنَّہ، لَا حُجَّۃَ لِـأَحَدٍ عَلَی اللّٰہِ فِي وَاجِبٍ تَرَکَہ، وَلَا مُحَرَّمٍ فَعَلَہ، بَلْ لِّلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ عَلٰی عِبَادِہٖ وَمَنِ احْتَجَّ بِالْقَدَرِ عَلٰی تَرْکِ مَأْمُورٍ أَوْ فِعْلِ مَحْظُورٍ أَوْ دَفْعِ مَا جَاء َتْ بِہِ النُّصُوصُ فِي الْوَعْدِ وَالْوَعِیدِ فَہُوَ أَعْظَمُ ضَلَالًا وَّافْتِرَائً عَلَی اللّٰہِ وَمُخَالَفَۃً لِّدِینِ اللّٰہِ مِنْ أُولٰئِکَ الْقَدَرِیَّۃِ فَإِنَّ أُولٰئِکَ مُشَبَّہُونَ بِالْمَجُوسِ وَقَدْ جَاءَ تِ الْآثَارُ فِیہِمْ أَنَّہُمْ مَّجُوسُ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ …. فَہٰؤُلَاءِ الْمُحْتَجُّونَ بِالْقَدَرِ عَلٰی سُقُوطِ الْـأَمْرِ وَالنَّہْيِ مِنْ جِنْسِ الْمُشْرِکِینَ الْمُکَذِّبِینَ لِلرُّسُلِ وَہُمْ أَسْوَأُ حَالًا مِّنَ الْمَجُوسِ وَہٰؤُلَاءِ حُجَّتُہُمْ دَاحِضَۃٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ .
”اسلاف امت اور ائمہ دین متفق ہیں کہ بندے اللہ کے احکام و نواہی کے پابند ہیں۔ کتاب و سنت میں موجود اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور وعیدوں پر ایمان بھی اتفاقی ہے۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ کسی واجب کو ترک کرنے اور حرام کا ارتکاب کرنے کے بارے میں اللہ کے خلاف کوئی دلیل نہیں قائم کی جا سکتی، بل کہ اللہ ہی دلیل زبردست ہے ، جس نے کسی ممنوع و حرام کام پر دلیل لی یا وعدہ و عید پر مشتمل نصوص کا انکار کیا وہ منکرین تقدیر سے بڑھ کر گم راہ، اللہ پر جھوٹ باندھنے والا اور دین کا مخالف ہے۔ یہ لوگ مجوسیوں کے مشابہ ہیں۔ بعض آثار میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ منکرین تقدیر اس امت کے مجوسی ہیں …. اللہ کے اوامر و نواہی کی پامالی پر تقدیر کو دلیل بنانے والے لوگ رسولوں کو جھٹلانے والے مشرکین کی قبیل سے ہیں، بل کہ مجوسیوں سے برے ہیں۔ ان کی دلیل ان کے رب کے ہاں نکمی ہے، ان پر اللہ کے غضب کا کوڑا برسے گا اور درد ناک عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٨/٤٥٢۔٤٥٣)
مزید فرماتے ہیں:
فَالْقَدَرُ یُؤْمِنُ بِہٖ وَلَا یَحْتَجُّ بِہٖ فَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِّالْقَدَرِ ضَارَعَ الْمَجُوسَ وَمَنِ احْتَجَّ بِہٖ ضَارَعَ الْمُشْرِکِینَ وَمَنْ أَقَرَّ بِالْـأَمْرِ وَالْقَدَرِ وَطَعَنَ فِي عَدْلِ اللّٰہِ وَحِکْمَتِہٖ کَانَ شَبِیہًا بِّإِبْلِیسَ .
”تقدیر پر ایمان لایا جائے گا، اسے دلیل نہیں بنایا جائے گا۔ جو تقدیر کو نہیں مانتا، وہ مجوسیوں کے مشابہہ ہے، جو اس سے دلیل پکڑتا ہے، وہ مشرکین کے مشابہہ ہے اور جو تقدیر کا اقرار کر کے اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت میں طعن کرتا ہے، وہ ابلیس کے مشابہہ ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٨/١١٤)
مطرف بن عبد اللہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
لَیْسَ لِـأَحَدٍ أَنْ یَّصْعَدَ فَیُلْقِي نَفْسَہ، مِنْ فَوْقِ الْبِئْرِ وَیَقُولُ : قُدِّرَ لِي وَلٰکِنْ یَّحْذَرُ وَیَجْتَہِدُ وَیَتَّقِي فَإِنْ أَصَابَہ، شَيْءٌ عَلِمَ أَنَّہ، لَمْ یُصِبْہُ إِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَہ، .
”کسی کے لیے روا نہیں کہ وہ کنویں کی منڈیر پر چڑ کر خود کو اندر پھینک دیے اور کہے : یہ میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا، بل کہ اپنا پورا بچاؤکرے اور کوشش کرے۔ اگر کوئی مصیبت پہنچ ہی جائے، تو سمجھے کہ وہی پہنچی ہے، جو تقدیر میں لکھی تھی۔”
(حِلْیَۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : ٢/٢٠٢، وسندہ، حسنٌ)
امام قتادہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ (وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ) (النِّساء : ١١٣) ”اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو وہ سب سکھایا، جو آپ نہیں جانتے تھے۔” کا مطلب ہے:
عَلَّمَہُ اللّٰہُ بَیَانَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ بَیَّنَ حَلَالَہ، وَحَرَامَہ، لِیَحْتَجَّ بِذٰلِکَ عَلٰی خَلْقِہٖ .
”اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا و آخرت کا بیان سکھلایا، حلال و حرام کو بیان کیا تا کہ اس کے ذریعے مخلوق پر حجت قائم کرے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٣/١٠٦٤، وسندہ، صحیحٌ)
افعالِ باری تعالیٰ کی حکمت :
کسی کام کا انجام صالح، حکمت کہلاتا ہے۔ عقل، نقل، فطرت اور اجماع سب دلائل اللہ تعالیٰ کے افعال کے حکمت ہونے پر دلالت کرتے ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
فَاتِّقَانُہ، وَإِحْسَانُہ، لِخَلْقِہٖ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّہ، لَہ، حِکْمَۃٌ فِي ذٰلِکَ .
”اللہ کی تخلیق میں حسن و پختگی کا وجود بتاتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت بھی موجود ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٨/٣٤، ٣٥)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
أَنَّہ، سُبْحَانَہ، حَکِیمٌ لَّا یَفْعَلُ شَیْئًا عَبَثًا وَّلَا لِغَیْرِ مَعْنًی وَّمَصْلِحَۃٍ وَّحِکَمُہ، ہِيَ الْغَایَۃُ الْمَقْصُودَۃُ بِالْفِعْلِ بَلْ أَفْعَالُہ، سُبْحَانَہ، صَادِرَۃٌ عَنْ حِکْمَۃٍ بَّالِغَۃٍ لِّـأَجْلِہَا فِعْلٌ کَمَا ہِيَ نَاشِئَۃٌ عَنْ أَسْبَابٍ بِّہَا فِعْلٌ وَّقَدْ دَلَّ کَلَامُہ، وَکَلَامُ رَسُولِہٖ عَلٰی ہٰذَا وَہٰذَا فِي مَوَاضِعَ لَا تَکَادُ تُحْصٰی .
”اللہ سبحانہ وتعالیٰ حکیم ہے، کوئی کام عبث و لایعنی اور بغیر مصلحت کے نہیں کرتا۔ ہر کام میں حکمت ہی مقصود ہوتی ہے۔ اللہ کا ہر فعل بلیغ حکمت سے سرشار ہوتا ہے۔ اس کے اسباب بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی کلام بے شمار مواقع پر اس کی وضاحت کرتی ہے۔”
(شفاء العلیل : ٢/٩٧)
امام قتادہ رحمہ اللہ  فرمان ِالٰہی (وَہُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ) (سَبأ : ١) ”اور وہ حکمت والا خبردار ہے۔” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
حَکِیمٌ فِي أَمْرِہٖ، خَبِیرٌ بِّخَلْقِہٖ .
”اللہ اپنے کام میں حکیم اور مخلوق سے با خبر ہے۔”
(تفسیر عبد الرزّاق : ٣/١٢٦، وسندہ، صحیحٌ)
تکلیف ما لا یطاق :
وہ نئے مسائل جن میں تابعین رحمہ اللہ  نے کوئی بات نہیں کی، ان میں سے ایک ”تکلیف ما لایطاق” کا مسئلہ ہے۔ یہ بعد کی بدعت ہے، اسلاف ِامت نے اس طرح کی عبادات کا انکار کیا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ احسن عبارات یعنی جو قرآن و سنت کی نصوص پر مشتمل، ان کا استعمال کرنا چاہئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَلٰکِنَّ أَحْسَنَ الْـأَلْفَاظِ وَالِاعْتِبَارَاتِ مَا یُطَابِقُ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ وَاتِّفَاقَ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا، وَالْوَاجِبُ أَنْ یَّجْعَلَ نُصُوصَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ ہِيَ الْـأَصْلَ الْمُعْتَمَدَ الَّذِي یَجِبُ اتِّبَاعُہ، وَیَسُوغُ إِطْلَاقُہ، وَیَجْعَلَ الْـأَلْفَاظَ الَّتِي تَنَازَعَ فِیہَا النَّاسُ نَفْیًا أَوْ إِثْبَاتًا مَّوْقُوفَۃً عَلَی الِاسْتِفْسَارِ وَالتَّفْصِیلِ وَیَمْنَعَ مِنْ إِطْلَاقِ نَفْيِ مَا أَثْبَتَہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہ، وَإِطْلَاقِ إثْبَاتِ مَا نَفَی اللّٰہُ وَرَسُولُہ، .
”بلکہ کتاب اور اجماع اسلاف وائمہ کے مطابق احسن الفاظ و عبارات کا استعمال کرنا چاہیے، کتاب و سنت کی نصوص کو ہی بنیاد بنانا واجب ہے۔ اسی کی اتباع واجب اور اسی کا اطلاق جائز ہے، جن الفاظ کی نفی یا اثبات میں لوگوں کا اختلاف ہے، وہ تفصیل و بحث پرموقوف ہیں، نیز اللہ و رسول کے اثبات پر نفی اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی نفی پر اثبات کے اطلاق سے روکنا واجب ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٨/٣٠٠، ٣٠١)
تکلیف ما لایطاق کے بارے میں لکھتے ہیں:
فَإِطْلَاقُ الْقَوْلِ بِتَکْلِیفِ مَا لَا یُطَاقُ مِنْ الْبِدَعِ الْحَادِثَۃِ فِي الْإِسْلَامِ، کَإِطْلَاقِ الْقَوْلِ : بِأَنَّ النَّاسَ مَجْبُورُونَ عَلٰی أَفْعَالِہِمْ وَقَدِ اتَّفَقَ سَلَفُ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتُہَا عَلٰی إنْکَارِ ذٰلِکَ وَذَمِّ مَنْ یُّطْلِقُہ، .
”تکلیف ما لا یطاق کے الفاظ کا استعمال اسلام میں بدعت ہے، جیسے یہ کہنا بدعت ہے کہ بندے اپنے افعال میں مجبور محض ہیں۔ اسلاف وائمہ ملت کا اجماع ہے کہ ایسی عبارات ممنوع اور ان کو استعمال کرنے والا مذموم ہے۔”
(دَرْءُ تعارض العقل والنقل : ١/٦٥)
اہل سنت کے نزدیک مالا یطاق دو طرح کا ہے:
1مکلف کا کسی کام سے عاجز ہونا، مثلا اندھے آدمی کو لکھنے اور کتاب پر نقطے لگانے کا کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی تکلیف کسی کو نہیں دی۔
2دوسرے کام میں مشغولیت کی وجہ سے اس کام کو نہ کرنا۔ یہ نا ممکن نہیں، نہ ہی آدمی اس سے عاجز ہوتا ہے۔ اس میں تکلیف دی گئی ہے، جیسے کافر کو حالت کفر میں اسلام قبول کرنے کا مکلف ٹھہرانا، ان دونوں معاملات میں فرق روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
تقدیر میں گہرائی تک جانا مذموم کام ہے:
بہت سی احادیث میں تقدیر میں زیادہ غور و خوض سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ اللہ کا راز ہے۔ جس کو اللہ نے اپنے علم میں خاص کیا ہو ا ہے اور بندوں سے چھپایا ہے، اس کو کریدنا اسلام کی شاہراہ سے انحراف کا سبب ہے۔ علامہ آجری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
إِنَّہ، لَا یَحْسُنُ بِالْمُسْلِمِینَ التَّنْقِیرُ وَالْبَحْثُ عَنِ الْقَدَرِ؛ لِـأَنَّ الْقَدَرَ سِرٌّ مِّنْ سِرِّ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ .
”مسلمانوں کے لئے کیلئے تقدیر کے بارے میں بحث و کرید مناسب نہیں، کیوں کہ یہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔”
(الشریعۃ للآجُرِّي : ٢/٦٩٧)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَالْقَدَرُ سِرُّ اللّٰہِ لَا یُدْرَکُ بِجِدَالٍ وَلَّا یَشْفِي مِنْہُ مَقَالٌ وَّالْحِجَاجُ فِیہِ مَرْتَجَۃٌ لَّا یُفْتَحُ شَيْءٌ مِّنْہَا إِلَّا بِکَسْرِ شَيْءٍ وَّغَلْقِہٖ .
”تقدیر اللہ کا راز ہے، جو بحث وتمحیص سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کوئی بات اس کیلئے شافی حل ہو سکتی ہے۔ اس میں زیادہ غور کرنے والا اختلاط کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا ذرا سا حصہ بھی کسی چیز کو توڑنے یا بند کرنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔”
(التمہید لما في المُوَطّأ من المعاني والأسانید : ٦/١٤)
امام قاسم بن محمد رحمہ اللہ  نے تقدیر میں بحث کرنے والوں سے فرمایا:
کُفُّوا عَمَّا کَفَّ اللّٰہُ عَنْہُ .
”اس سے رک جاو، جس (کو بتانے) سے اللہ رک گیا۔”
(طبقات ابن سعد : ٥/١٨٨، وسندہ، حسنٌ)
امام طاوس رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
اِجْتَنِبُوالْکَلَامَ فِي الْقَدَرِ فَإِنَّ الْمُتَکَلِّمِینَ فِیہِ یَقُولُونَ بِغَیْرِ عِلْمٍ .
”تقدیر کے بارے میں بات چیت سے بچو! کیوں کہ اس بارے میں بات کرنے والے لوگ بغیر علم بحث کر تے ہیں۔”
(مصنّف عبد الرزّاق : ٢٠٠٧٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام میمون بن مہران رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ثَلَاثٌ ارْفُضُوہُنَّ : سَبُّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالنَّظَرُ فِي النُّجُومِ، وَالنَّظَرُ فِي الْقَدَرِ .
”تین کام چھوڑ دیجئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کو برا بھلا کہنا، ستاروں میں غور وفکر اور تقدیر میں غور وخوض۔”
(فضائل الصحابۃ لأحمد بن حنّبل : ١٩، وسندہ، حسنٌ)
نیزفرماتے ہیں:
أَرْبَعٌ لَّا تَتَکَلَّمْ فِیہِنَّ : عَلِيٌّ، وَعُثْمَانُ، وَالنُّجُومُ، وَالْقَدَرُ .
”چار چیزوں میں بات نہ کیجئے، سیدنا علی و عثمان رضی اللہ عنہما ، نجوم اور تقدیر۔”
(مَساوِي الأخلاق للخطرائطي : ٧٤٨، وسندہ، حسنٌ)
حبیب بن خالد رحمہ اللہ  کہتے ہیں میں عبد اللہ بن طاوس رحمہ اللہ  کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا : تم کہاں سے ہو؟ ہم نے کہا : بصرہ سے۔ آپ نے فرمایا : شاید تم قدری فرقے سے ہو، ہم نے کہا ہم تو ایوب سختیانی کے شاگر دہیں، آپ نے فرمایا : اللہ ایوب پر رحم کرے! وہ تو قدری نہیں تھے، میں نے عرض کی : قدریوں کے بارے میں آپ کے باپ (طاوس) کا کیا خیال تھا؟ آپ نے کہا ان کا فرمان تھا:
ہُوَ أَمرٌ مَّنْ تَکَلَّمَ فِیہِ سُئِلَ عَنہُ وَمَنْ لَّمْ یَتَکَلَّم فِیہِ لَمْ یَسْأَلْ عَنْہُ، مَا تُرِیدُونَ إِلَیْہِ؟ .
”یہ ایسی چیز ہے کہ جس نے اس بارے میں بات کی، اس سے حساب ہو گا، جس نے اس بارے میں بات نہ کی اس سے حساب نہ ہو گا۔ (اب) آپ کیا چاہتے ہیں؟”
(العِلَل ومعرفۃ الرّجال لأحمد بن حنّبل روایۃ ابنہ : ٣٥٩٨، وسندہ، حسنٌ)
منکرین ِتقدیر کی مذمت :
صحابہ وتابعین اپنے بعد والے لوگوں کے عقیدے کی سلامتی پر بہت حریص تھے، اس لئے انہوں نے پیدا ہونے والی ہر بدعت و خرافت کو زبان و طاقت ہر طرح سے دبایا، علامہ آجری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَلَوْلَا أَنَّ الصَّحَابَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ لَمَّا بَلَغَہُمْ عَنْ قَوْمٍ ضُلَّالٍ شَرَدُوا عَنْ طَرِیقِ الْحَقِّ، وَکَذَّبُوا بِالْقَدَرِ، فَرَدُّوا عَلَیْہِمْ قَوْلَہُمْ، وَسَبُّوہُمْ وَکَفَّرُوہُمْ، وَکَذٰلِکَ التَّابِعُونَ لَہُمْ بِّإِحْسَانٍ سَبُّوا مَنْ تَکَلَّمَ بِالْقَدَرِ وَکَذَّبَ بِہٖ وَلَعَنُوہُمْ وَنَہَوْا عَنْ مُّجَالَسَتِہِمْ، وَکَذٰلِکَ أَئِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ یَنْہَوْنَ عَنْ مُّجَالَسَۃِ الْقَدَرِیَّۃِ وَعَنْ مُّنَاظَرَتِہِمْ وَبَیَّنُوا لِلْمُسْلِمِینَ قَبِیحَ مَذَاہِبِہِمْ فَلَوْلَا أَنَّ ہٰؤُلَاءِ رَدُّوا عَلَی الْقَدَرِیَّۃِ لَمْ یَسَعْ مَنْ بَّعْدَہُمُ الْکَلَامُ عَلَی الْقَدَرِ .
”جب صحابہ کرامy کو ایک قوم کے متعلق خبر ملی کہ وہ راہ حق سے منحرف ہو گئے ہیں اور تقدیر کا انکار کر چکے ہیں، تو انہوں نے ان (منکرین تقدیر) کے مؤقف کا رد کیا، انہیں برا کہا اور تکفیر کی۔ اسی طرح تابعین عظام نے بھی منکرین تقدیر کو برا کہا، ان کی تکفیر کی، لعن طعن کی اور ان کی مجلس اختیار کرنے سے منع کیا۔ ائمہ مسلمین نے بھی قدریہ کی مجلس اختیار کرنے اور ان سے بحث و مباحثہ کرنے سے منع کیا۔ مسلمانوں پر قدریہ کے مذہب کی قباحت آشکارا کردی۔ اگر ہمارے اسلاف ان کے گندے عقیدے کا رد نہ کرتے، تو بعد والے تقدیر ثابت نہ کر پاتے۔”
(الشریعۃ : ٢/٦٩٨۔٦٩٩)
اثبات ِتقدیر کے بیان کے بعد فرماتے ہیں:
ہٰذِہٖ حُجَّتُنَا عَلَی الْقَدَرِیَّۃِ : کِتَابُ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَسُنَّۃُ رَسُولِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَسُنَّۃُ أَصْحَابِہٖ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِّإِحْسَانٍ وَّقَوْلُ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ، مَعَ تَرْکِنَا لِلْجِدَالِ وَالْمِرَائِ، وَالْبَحْثُ عَنِ الْقَدَرِ فَإِنَّا قَدْ نُہِینَا عَنْہُ، وَأُمِرْنَا بِتَرْکِ مُجَالَسَۃِ الْقَدَرِیَّۃِ، وَأَنْ لَّا نُنَاظِرَہُمْ، وَلَا نُفَاتِحَہُمْ عَلٰی سَبِیلِ الْجَدَلِ، بَلْ یُہْجَرُونَ وَیُہَانُونَ وَیُذَلُّونَ، وَلَا یُصَلّٰی خَلْفَ وَاحِدٍ مِّنْہُمْ، وَلَا تُقْبَلُ شَہَادَتُہُمْ وَلَا یُزَوَّجُ، وَإِنْ مَّرِضَ لَمْ یُعَدْ وَإِنْ مَّاتَ لَمْ یُحْضَرْ جِنَازَتُہ،، وَلَمْ تُجَبْ دَعْوَتُہ، فِي وَلِیمَۃٍ إِنْ کَانَتْ لَہ،، فَإِنْ جَاءَ مُسْتَرْشِدًا أُرْشِدَ عَلٰی مَعْنَی النَّصِیحَۃِ لَہ،، فَإِنْ رَّجَعَ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَإِنْ عَادَ إِلٰی بَابِ الْجَدَلِ وَالْمِرَاءِ لَمْ نَلْتَفِتْ عَلَیْہِ، وَطُرِدَ وَحُذِّرَ مِنْہُ، وَلَمْ یُکَلَّمْ وَلَمْ یُسَلَّمْ عَلَیْہِ .
”کتاب وسنت، طریق ِاصحاب ِرسول و تابعین اور اقوال ائمہ، قدریہ کے خلاف ہمارے دلائل ہیں۔ ہم تقدیر کے بارے بحث و تمحیص نہیں کرتے، کیوں کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے اور قدریہ کے پاس بیٹھے سے منع کیا گیا ہے۔ ان سے مناظرہ اور انہیں چیلنج سے بھی روکا گیا ہے۔ ائمہ کہتے ہیں کہ انہیں چھوڑ دیں، ان کی بے عزتی کریں، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں، گواہی قبول نہ کریں، ان سے شادی بیاہ کے معاملات نہ کریں،بیمار ہوں، تو مزاج پرسی نہ کریں، مر جائیں، تو جنازہ میں شرکت نہ کریں، دعوت ولیمہ دیں، تو قبول نہ کریں، رہنمائی لینے آئیں، تو ان کی رہنمائی کریں، توبہ کر لیں تو الحمد للہ، بحث و مناظرہ پر اتر آئیں تو بات نہ سنیں، بھگا دیں ان سے بچیں، کلام نہ کریں اور نہ انہیں سلام کہیں۔”
(الشریعۃ : ٢/٩٣٤)
عکرمہ بن عمار رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے امام قاسم بن محمد اور امام سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ  کو منکرین تقدیر پر لعنت کرتے دیکھا۔
(طبقات ابن سعد : ٥/١٨٨،وسندہ، صحیحٌ)
امام حسن بصری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
لَا تُجَالِسُوا مَعْبَدًا، فَإِنَّہ، ضَالٌّ مُّضِلٌّ .
”معبد جہنی (منکر تقدیر) کے پاس نہ بیٹھیں، کیوں کہ یہ خود بھی گم راہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔”
(شرح علل الترمذي لابن رجب : ١/٤٧، وسندہ، صحیحٌ)
عبد اللہ بن عون  رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لَمْ یَکُنْ أَبْغَضَ أَوْ أَکْرَہَ إِلٰی مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ مِنْ ہٰؤُلَاءِ الْقَدَرِیَّۃِ .
”محمد بن سیرین رحمہ اللہ  قدریہ سے زیادہ کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے۔”
(القدر للفریابي : ٣٢٩، وسندہ، صحیحٌ)
عبد اللہ بن عون مزید بیان کرتے ہیں :
” ایک آدمی امام ابن سیرین رحمہ اللہ  کے پاس آیا اور تقدیر کے بارے بات کی آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِي الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ) (النّحل : ٩٠) ‘اللہ عدل و احسان کا حکم دیتے ہیں، قرابت داروں سے محبت کا حکم دیتے ہیں، فحاشی منکر ات اور زنا سے منع کرتے ہیں۔ آپ کو وعظ کرتے ہیں، شاید آپ وعظ قبول کرلیں۔’ اس کے بعد آپ نے اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور فرمایا : یا تو میرے پاس سے چلا جا، یا میں چلا جاتا ہوں، وہ آدمی چلا گیا، تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ قَلْبِي لَیْسَ بِیَدِي، وَإِنِّي خِفْتُ أَنْ یَّنْفُثَ فِي قَلْبِي شَیْئًا، فَلَا أَقْدِرُ عَلٰی أَنْ أُخْرِجَہ، مِنْہُ، فَکَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ لَّا أَسْمَعَ کَلَامَہ، .
”میرا دل میرے ہاتھ میں نہیں ہے، مجھے ڈر تھا کہ یہ کوئی ایسی بات کرتا، جو مجھے منکر تقدیر بنا دیتی، تو میں نے بہتر سمجھا کہ ان کی بات نہ ہی سنوں ۔”
(طبقات ابن سعد : ٧/١٩٧، وسندہ، صحیحٌ)
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
”میں یہ آیت پڑھا کرتا تھا : (إِنَّ الْمُجْرِمِینَ فِي ضَلَالٍ وَّسُعُرٍ) (القمر : ٤٧) ‘مجرم گم راہی اور جہنم میں ہوں گے۔’ لیکن مجھے سمجھ نہ آتا کہ یہ کون لوگ ہیں، پھر مجھے پتہ چلا کہ یہ یہاں منکرین تقدیر مراد ہیں۔”
(تفسیر عبدالرزّاق : ٣/٢٦١، وسندہ، صحیحٌ)
ابو مودود رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن کعب رحمہ اللہ  نے فرمایا:
لَا تُخَاصِمُوا ہٰؤُلَاءِ الْقَدَرِیَّۃَ وَلَا تُجَالِسُوہُمْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ لَا یُجَالِسُہُمْ رَجُلٌ ثُمَّ لَمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُ فِقْہًا فِي دِینِہٖ وَعِلْمًا فِي کِتَابِہٖ إِلَّا أَمْرَضُوہُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِّیَدِہٖ، لَوَدِدْتُّ أَنَّ یَّمِینِي ہٰذِہٖ تُقْطَعُ عَلٰی کِبَرِ سِنِّي، وَأَنَّہُمْ أَتَوْا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ آیَۃً، وَلٰکَنَّہُمْ یَأْخُذُونَ بِآخِرِہَا وَیتْرُکُونَ أَوَّلہَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَإِبْلِیسُ لَعَنَہُ اللّٰہُ أَعْلَمُ بِاللّٰہِ مِنْہُمْ، إِنَّ إِبْلِیسَ لَعَنَہُ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَنْ أَغْوَاہُ، وَہُمْ یَزْعُمُونَ أَنَّہُمْ یُغْوُونَ أَنْفُسَہُمْ وَیُرْشِدُونَہَا .
”اہل قدر سے مت الجھیں، ان کی مجلس میں نہ بیٹھیں، اللہ کی قسم! جو بھی کتاب و سنت کے علم و آگہی سے ناآشنا ہو اور ان کے ساتھ بیٹھے، وہ اسے بھی اپنی (انکار تقدیر کی) بیماری لگا دیں گے، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں مجھ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اگر یہ لوگ قرآن کی مکمل آیت لے آئیں، تو کبر سنی کے باوجود میرا یہ دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے، لیکن (ایسا نہیں کر سکتے، کیوں کہ) یہ آیت کا آخری حصہ پڑھتے ہیں اور اول حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم! ابلیس اللہ کے بارے میں ان سے زیادہ جانتا ہے، ابلیس لعین اس حقیقت سے واقف ہے، جس سے یہ گم راہ ہو چکے ہیں، وہ تو جانتا تھا کہ اسے گم راہ کس نے کیا، جب کہ ان کا نظریہ ہے کہ خود ہی گمراہ ہوتے ہیں اور خود ہی راہ راست پر آتے ہیں۔”
(القدر للفریابي : ٢٥١، وسندہ، صحیحٌ)
امام مجاہد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
”(یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ) (القمر: ٤٨) ‘اس روز چہرے کے بل جہنم میں گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا جہنم کا مزہ چکھو۔’ سے مراد منکرین تقدیر ہیں۔”
(حلیۃ الأولیاء : ٣/٢٩٨، ٢٩٩، وسندہ، صحیحٌ)
امام اوزاعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
”ہمارے پاس منکر تقدیر غیلان آیا، یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کی بات ہے، اس نے بات کی جب وہ فارغ ہوا تو اس نے حسان سے کہا : میری بات سے تو کیا سمجھا؟ حسان نے فرمایا:
إِنْ یَّکُنْ لِّسَانِي یَکِلُّ عَنْ جَوَابِکَ فَإِنَّ قَلْبِي یُنْکِرُ مَا تَقُولُ .
”اگر چہ میری زبان تیرے جواب سے عاجز ہے، لیکن میرا دل تیری بات کا انکار کرتا ہے۔”
(حلیۃ الأولیاء : ٦/٧٢، وسندہ، صحیحٌ)
ابراہیم بن ابی علیہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
” میں عبارہ بن نسی رحمہ اللہ  کے پاس تھا، ان کے پاس ایک آدمی آیا اور بتایا کہ امیرا لمومنین نے غیلان کا ہاتھ اور زبان کاٹ کر اسے سولی پر چڑھا دیا، آپ نے فرمایا :کیا تو سچ کہتا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں!آپ نے فرمایا:
أَصَابَ وَاللّٰہِ السُّنَّۃَ وَالْقَضِیَّۃَ، وَلَآتِیَنَّ إِلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، فَلَـأُحَسِّنَنَّ لَہ، مَا صَنَعَ .
”اللہ کی قسم! انہوں نے سنت کے مطابق درست فیصلہ کیا۔ میں ان کے پاس جا کر انہیں اس کا م پر داد ضرور دوں گا۔”
(القدر للفریابي : ٢٥٦، وسندہ، حسنٌ)
امام مالک رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
” ان کے چچا ابو اسہیل ابن ابی مالک رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  کے ساتھ جا رہا تھا، آپ نے فرمایا : ان منکرین تقدیر کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے، اگر کر لیں تو اچھا ہے، ورنہ آپ ان کو قتل کروا دیں، آپ فرمانے لگے، میری بھی یہی رائے ہے، امام مالک رحمہ اللہ  فرماتے ہیں میری بھی یہی رائے ہے۔”
(مُوَطّأ الإمام مالک : ٢/٢٤٠)
محمد بن زیاد مہانی کہتے ہیں :
” ہم حمص کی مسجد میں بیٹھے تھے کہ لوگ اکٹھے ہو گئے، ہم نے کہا یہ کیا؟ انہوں نے بتایا کہ معبد الجہنی کو انکار تقدیر کے سلسلے میں امیر المومنین ، ہشام بن عبدالملک کے پاس لیجایا جا رہا ہے، ایک آدمی نے کہا، یہ تو بڑی آزمائش ہے، اس پر خالد بن معدان فرمانے لگے:
إِنَّمَا الْبَلَاءُ کُلُّ الْبَلَاءِ إِذَا کَانَتْ الْـأَئِمَّۃُ مِنْہُمْ .
”آزمائش تو تب ہو گی، جب حکران وقت ان میں سے ہوں۔”
(القدر للفریابي : ٣٥٠، وسندہ، حسنٌ)
امام معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
إِنِّي أُصَلِّي خَلْفَ صَاحِبِ السَّیْفِ، وَلَا أُصَلِّي خَلْفَ الْقَدَرِيِّ؛ لِـأَنَّ أَصْحَابَ السَّیْفِ مُخْلِصُونَ .
”میں خوارج کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں، لیکن قدریوں کے پیچھے نہیں پڑھتا کیوں کہ خوارج مخلص ہوتے ہیں۔”
(حلیۃ الأولیاء : ٣/٣٣، وسندہ، حسنٌ)
حرب بن سریج رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
” میں نے امام ابو جعفر محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ  سے سوال کیا، تو آپ نے پوچھا : کیا تو شامی ہے؟ میں نے کہا : نہیں۔ لوگوں نے کہا : یہ آپ کا ہے، آپ نے خوش آمدید کہا اور چمڑے کا ایک تکیہ میرے لئے رکھ دیا، میں نے عرض کیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اچھی تقدیر ہے، بری نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ہر اچھی و بری چیز جو ہونے والی تھی اس کے بارے میں قلم لکھ چکی تھی، آپ نے فرمایا:
بَلَغَنِي أَنَّ قَبْلَکُمْ أَئِمَّۃً یُّضِلُّونَ النَّاسَ، مَقَالَتُہُمُ الْمَقَالَتَانِ الْـأُولَیَانِ فَمَنْ رَّأَیْتُمْ إِمَامًا یُّصِلِّي بِالنَّاسِ، فَلَا تُصَلُّوا وَرَاءَ ہ، .
”مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے ہاں کچھ ائمہ ہیں، جو لوگوں کو گم راہ کرتے ہیں۔ پہلی دو باتیں ان کی ہیں، ایسے شخص کو نماز پڑھاتے دیکھو، تو اس کی اقتدا میںنماز نہ پڑھو۔”
پھر آپ تھوڑی دیر خاموش رہے ، پھر فرمایا :
فَمَنْ مَّاتَ مِنْہُمْ، فَلَا تُصَلُّوا عَلَیْہِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ إِخْوَانَ الْیَہُودِ .
”ان میں سے کوئی مر جائے تو ان کا جنازہ نہ پڑھیں اللہ ان یہودیوں کے بھائیوں کوقتل کرئے۔”
میں نے عرض کی میں نے تو ان کے پیچھے نماز پڑھی ہے، فرمایا:
مَنْ صَلّٰی خَلْفَ أُولٰئِکَ فَلْیُعِدِ الصَّلٰوۃَ .
”جو ان کے پیچھے پڑھ چکا ہو ، وہ اعادہ کرے۔”
(القدر للفریابي : ٢٩٤، وسندہ، حسنٌ)
امام زہری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
” اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر منکر تقدیر کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:
(اَلَّذِینَ قَالُوا لِإِخْوَانِہِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا) (آل عِمْران : ١٦٨)
”انہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگر ہماری بات مان لیتے، تو مقتول نہ ہوتے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٣/٨١١، وسندہ، صحیحٌ)
امام ربیعہ الرائے رحمہ اللہ  فرمایا کرتے تھے:
أَخَافُ عَلٰی ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ ثَلَاثَۃَ أَشْیَاء : الْعَصَبِیَّۃَ، وَالْقَدَرِیَّۃَ وَالرِّوَایَۃَ .
”اس امت پر تین چیزوں کا خوف محسوس کرتا ہوں۔ عصبیت، انکار ِتقدیر اور روایت پرستی۔”
(القدر للفریابي : ٣٨٩، وسندہ، صحیحٌ)
ہشام بن سعد رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
”امام نافع رحمہ اللہ  سے کہا گیا کہ فلاں آدمی تقدیر سے انکار کرتا ہے، تو آپ نے کنکریوں کی مٹھی بھر کر اس کے چہرے پر ماری۔”
(القدر للفریابي : ٢٧٢، وسندہ، حسنٌ)
رجاء بن حیوہ کہتے ہیں کہ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  نے امام مکحول رحمہ اللہ  سے فرمایا:
إِیَّاکَ أَنْ تَقُولَ فِي الْقَدَرِ مَا یَقُولُ ہٰؤُلَائِ، یَعْنِي غَیْلَانَ وَأَ صْحَابَہ، .
”تقدیر کے مسئلے میں ایسی بات مت کہیے، جو غیلان اور اس کے اصحاب کہتے ہیں۔”
(طبقات ابن سعد : ٥/٣٨٦، وسندہ، حسنٌ)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
سِتَّۃٌ لَّعَنْتُہُمْ وَلَعَنَہُمُ اللّٰہُ وَکُلُّ نَبِيٍّ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ اللّٰہِ، وَالمُکَذِّبُ بِقَدَرِ اللّٰہِ … .
”چھ قسم کے لوگوں پر میں لعنت کرتا ہوں، اللہ بھی ان پر لعنت کرے۔ (یاد رہے کہ) ہر نبی مستجاب الدعوات ہوتا ہے۔ ان چھ میں ایک کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا اور دوسرا تقدیر کو جھٹلانے والا… .۔”
(سنن الترمذي : ٢١٥٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان (٥٧٤٩) نے”صحیح”اورامام حاکم رحمہ اللہ  (٢/٥٢٥) نے ”صحیح الاسناد ”کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ”صحیح” کہا ہے۔
ابن دیلمی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
أَتَیْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ، فَقُلْتُ لَہ، : وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٍ مِّنَ الْقَدَرِ، فَحَدَّثَنِي بِشَيْءٍ لَّعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّذْہِبَہ، مِنْ قَلْبِي، قَالَ : لَوْ أَنَّ اللّٰہَ عَذَّبَ أَہْلَ سَمَاوَاتِہٖ وَأَہْلَ أَرْضِہٖ عَذَّبَہُمْ وَہُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَّہُمْ، وَلَوْ رَحِمَہُمْ کَانَتْ رَحْمَتُہ، خَیْرًا لَّہُمْ مِّنْ أَعْمَالِہِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ مَا قَبِلَہُ اللّٰہُ مِنْکَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِّیُخْطِئَکَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِّیُصِیبَکَ، وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ : ثُمَّ أَتَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ : ثُمَّ أَتَیْتُ حَذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ، فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ : ثُمَّ أَتَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ .
”میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا اور گوش گزار ہوا : مسئلہ تقدیر کی بابت میرے دل میں کچھ شبہات ہیں، کوئی حدیث بیان فرما دیں تا کہ اللہ تعالیٰ میرے شبہات کافور فرما دے، فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو عذاب دے تو یہ ظلم نہ ہو گا، اگر ان سے رحمت والا معاملہ فرمائے، تو یہ ان کے لئے ان کے اعمال سے کہیں بہتر ہو گا، اگر آپ (تقدیر پر ایمان لائے بغیر) احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں، تو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کریں گے، تا آنکہ آپ تقدیر پر ایمان لے آئیں اور جان لےں کہ جو آپ کو پہنچ چکا ہے، وہ چوک نہیں سکتا اور جو چوک چکا، وہ پہنچنے والا نہیں تھا۔ اگر اس عقیدے پر موت نہ آئی، تو جہنم ٹھکانا ہو گا، فرمایا : میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ  کے پاس یکے بعد دیگرے آیا، انہوں نے بھی یہی فرمایا، پھر میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  کے پاس گیا، تو انہوں نے مجھے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عالی شان سنایا۔”
(مسند أحمد : ٥/١٨٢، ١٨٩، سنن أبي داو،د : ٤٦٩٩، سنن ابن ماجہ : ٧٧، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان (٧٢٧) نے ”صحیح” کہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.