2,027

تقلید کی شرعی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

تقلید کیا ہے؟
امام اندلس،حافظ ابن عبد البرa(463-368ھ)نے تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: وَالتَّقْلِیدُ أَنْ تَقُولَ بِقَوْلِہٖ، وَأَنْتَ لَا تَعْرِفُ وَجْہَ الْقَوْلِ، وَلَا مَعْنَاہُ، وَتَأْبٰی مَنْ سِوَاہُ، أَوْ أَنْ یَّتَبَیَّنَ لَکَ خَطَأُہٗ، فَتَتَّبِعَہٗ مَہَابَۃَ خِلَافِہٖ، وَأَنْتَ قَدْ بَانَ لَکَ فَسَادُ قَوْلِہٖ، وَہٰذَا مُحَرَّمٌ الْقَوْلُ بِہٖ فِي دِینِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ۔
’’تقلید یہ ہے کہ آپ اس(معیَّن شخص)کی بات کو تسلیم کر لیں، حالانکہ آپ کو نہ اس کی دلیل معلوم ہو،نہ اس کا معنیٰ اور اس کے علاوہ آپ ہر بات کا انکار کریں۔یا یوں سمجھیں کہ آپ پر اس(معیَّن شخص)کی غلطی واضح ہو جائے تو پھر بھی اس کی مخالفت سے ڈرتے ہوئے اسی کی پیروی کرتے رہیں۔ایسا کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت میں حرام ہے۔‘‘
(جامع بیان العلم وفضلہ : 787/2)
علامہ محمد بن احمد بن اسحاق بن خواز،ابوعبد اللہ مصری مالکی کہتے ہیں :
التَّقْلِیدُ، مَعْنَاہُ فِي الشَّرْعِ الرُّجُوعُ إِلٰی قَوْلٍ لَّا حُجَّۃَ لِقَائِلِہٖ عَلَیْہِ، وَہٰذَا مَمْنُوعٌ فِي الشَّرِیعَۃِ ۔ ’’تقلید کا اصطلاحی معنیٰ یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کیا جائے جس کی قائل کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔شریعت ِاسلامیہ میں یہ کام ممنوع ہے۔‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ : 992/2)
معلوم ہوا کہ تقلید ممنوع اور خلافِ شرع ہے۔وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام اور ممنوع ہے۔قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔
تقلید جہالت ہے :
حافظ ابن عبد البرa(463-368ھ)تقلید کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَالْمُقَلِّدُ لَا عِلْمَ لَہٗ، وَلَمْ یَخْتَلِفُوا فِي ذٰلِکَ ۔
’’اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقلد جاہل مطلق ہوتا ہے۔‘‘
(جامع بیان العلم وفضلہ : 992/2)
شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن قیمa(751-691ھ)فرماتے ہیں :
وَالتَّقْلِیدُ لَیْسَ بِعِلْمٍ بِاتِّفَاقِ أَھْلِ الْعِلْمِ ۔ ’’اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید،علم نہیں(جہالت ہے)۔‘‘(إعلام الموقّعین عن ربّ العالمین : 169/2)
نیز فرماتے ہیں : فَإِنَّہٗ لَیْسَ عِلْمًا بِاتِّفَاقِ النَّاسِ ۔
’’سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ تقلید علم نہیں(بلکہ جہالت ہے) ۔‘‘
(إعلام الموقّعین عن ربّ العالمین : 215/2)
تقلید کی خرابیاں :
تقلید وہ بُری مؤنث ہے جو ہر وقت بُرائیاں جنم دیتی رہتی ہے۔اس کے باعث انبیائے کرامoکو قتل کیا گیا،ان کی نبوت کا انکار کیا گیااور ان کی دعوت کو جھٹلایا گیا۔اسی تقلید نے انسانوں کودین الٰہی کا باغی بنا دیا،ان کو اللہ کے دین کے مقابلے میں دین ایجاد کرنے پر اُکسایا، اجماعِ امت کا مخالف بنایا،حق کا دشمن بنایااور سلف صالحین وائمہ دین سے بیگانہ کیا۔ اسی تقلید نے انسانیت سے علم و عقل کا زیور چھین لیا اور وحدت ِامت کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کرتے ہوئے ہرجگہ منافرت اور کدورتوں کے بیج بو دیئے۔
علامہ ابن قیمaتقلید کی قباحتیں ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں :
وَأَمَّا الْمُتَعَصِّبُونَ فَإِنَّہُمْ عَکَسُوا الْقَضِیَّۃَ، وَنَظَرُوا فِي السُّنَّۃِ، فَمَا وَافَقَ أَقْوَالَہُمْ مِّنْہَا قَبِلُوہُ، وَمَا خَالَفَہَا تَحَیَّلُوا فِي رَدِّہٖ أَوْ رَدِّ دَلَالَتِہٖ، وَإِذَا جَائَ نَظِیرُ ذٰلِکَ أَوْ أَضْعَفُ مِنْہُ سَنَدًا وَدَلَالَۃً، وَکَانَ یُوَافِقُ قَوْلَہُمْ قَبِلُوہُ، وَلَمْ یَسْتَجِیزُوا رَدَّہٗ، وَاعْتَرَضُوا بِہٖ عَلٰی مُنَازِعِیہِمْ، وَأَشَاحُوا وَقَرَّرُوا الِاحْتِجَاجَ بِذٰلِکَ السَّنَدِ وَدَلَالَتِہٖ، فَإِذَا جَائَ ذٰلِکَ السَّنَدُ بِعَیْنِہٖ أَوْ أَقْوٰی مِنْہُ، وَدَلَالَتُہٗ کَدَلَالَۃِ ذٰلِکَ أَوْ أَقْوٰی مِنْہُ فِي خِلَافِ قَوْلِہِمْ، دَفَعُوہُ وَلَمْ یَقْبَلُوہُ، وَسَنَذْکُرُ مِنْ ہٰذَا إنْ شَائَ اللّٰہُ طَرَفًا، عِنْدَ ذِکْرِ غَائِلَۃِ التَّقْلِیدِ وَفَسَادِہٖ، وَالْفَرْقِ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الِاتِّبَاعِ ۔ ’’متعصب لوگوں نے معاملے کو برعکس کر دیااور جو حدیث اپنے ائمہ کے اقوال کے مطابق ملی، اسے لے لیا اور جو ان کے خلاف معلوم ہوئی ،کسی نہ کسی حیلے سے اسے ردّ کر دیا،اس کامعنیٰ و مفہوم بدلنے کی کوشش کی،اس سے بہت کمزور سند والی اور کمزور دلالت والی حدیث اگر ان کے مذہب کے موافق معلوم ہوئی تو اسے قبول کر لیا، اس کو ردّ کرنے والوں کے سر ہو گئے اور اپنے مخالف کے سامنے اس پَر ڈٹ گئے، اس کے لیے تمام جتن کر ڈالے،حالانکہ خود اپنے امام کے خلاف پا کر اس سے بہت واضح دلالت والی حدیث کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے پورے زور سے اسے ٹھکرا دیا تھا۔ہم اس طرح کی مثالیں تقلید کی قباحت و شناعت کے بیان میں ذکر کریں گے۔ان شاء اللہ، وہیں پر اس تقلید کی خرابیاں،بُرائیاں اور بیہودگیاں بھی معلوم ہوں گی اور وہیں پر ہم اتباع اور تقلید کا فرق بھی بیان کریں گے۔‘‘(إعلام الموقّعین : 60/1)
شیخ عزّالدین بن عبد السلامa(660-577ھ)فرماتے ہیں :
وَمِنَ الْعَجَبِ الْعَجِیبِ أَنَّ الْفُقَہَائَ الْمُقَلِّدِینَ یَقِفُ أَحَدُہُمْ عَلٰی ضَعْفِ مَأْخَذِ إمَامِہٖ، بِحَیْثُ لَا یَجِدُ لِضَعْفِہٖ مَدْفَعًا، وَمَعَ ہٰذَا یُقَلِّدُہٗ فِیہِ، وَیَتْرُکُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَالْـأَقْیِسَۃِ الصَّحِیحَۃِ لِمَذْہَبِہٖ، جُمُودًا عَلٰی تَقْلِیدِ إمَامِہٖ، بَلْ یَتَحَلَّلُ لِدَفْعِ ظَوَاہِرِ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، وَیَتَأَوَّلُہُمَا بِالتَّأْوِیلَاتِ الْبَعِیدَۃِ الْبَاطِلَۃِ، نِضَالًا عَنْ مُقَلَّدِہٖ، وَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ یَجْتَمِعُونَ فِي الْمَجَالِسِ، فَإِذَا ذُکِرَ لِأَحَدِہِمْ فِي خِلَافٍ مَا وَطَّنَ نَفْسَہٗ عَلَیْہِ تَعَجَّبَ مِنْہُ غَایَۃَ التَّعَجُّبِ، مِنْ غَیْرِ اسْتِرْوَاحٍ إلٰی دَلِیلٍ، بَلْ لِّمَا أَلِفَہٗ مِنْ تَقْلِیدِ إِمَامِہٖ، حَتّٰی ظَنَّ أَنَّ الْحَقَّ مُنْحَصِرٌ فِي مَذْہَبِ إِمَامِہٖ، وَلَوْ تَدَبَّرَہٗ لَکَانَ تَعَجُّبُہٗ مِنْ مَّذْہَبِ إِمَامِہٖ أَوْلٰی مِنْ تَعَجُّبِہٖ مِنْ مَذْہَبِ غَیْرِہٖ، فَالْبَحْثُ مَعَ ہَؤُلَائِ ضَائِعٌ، مُفْضٍ إِلَی التَّقَاطُعِ وَالتَّدَابُرِ، مِنْ غَیْرِ فَائِدَۃٍ یُّجْدِیہَا، وَمَا رَأَیْت أَحَدًا رَجَعَ عَنْ مَذْہَبِ إِمَامِہٖ، إِذَا ظَہَرَ لَہُ الْحَقُّ فِی غَیْرِہٖ، بَلْ یُصِرُّ عَلَیْہِ مَعَ عِلْمِہٖ بِضَعْفِہٖ وَبُعْدِہٖ، فَالْـأَوْلٰی تَرْکُ الْبَحْثِ مَعَ ہَؤُلَائِ، الَّذِینَ إِذَا عَجَزَ أَحَدُہُمْ عَنْ تَمْشِیَۃِ مَذْہَبِ إِمَامِہٖ، قَالَ : لَعَلَّ إمَامِي وَقَفَ عَلٰی دَلِیلٍ لَّمْ أَقِفْ عَلَیْہِ وَلَمْ أَہْتَدِ إِلَیْہِ، وَلَا یَعْلَمُ الْمِسْکِینُ أَنَّ ہٰذَا مُقَابَلٌ بِّمِثْلِہٖ، وَیَفْضُلُ لِخَصْمِہٖ مَا ذَکَرَہٗ مِنَ الدَّلِیلِ الْوَاضِحِ وَالْبُرْہَانِ اللَّائِحِ، فَسُبْحَانَ اللّٰہِ، مَا أَکْثَرَ مَنْ أَعْمَی التَّقْلِیدُ بَصَرَہٗ، حَتّٰی حَمَلَہٗ عَلٰی مِثْلِ مَا ذُکِرَ ! وَفَّقَنَا اللّٰہُ لِاتِّبَاعِ الْحَقِّ، أَیْنَ مَا کَانَ وَعَلٰی لِسَانِ مَنْ ظَہَرَ، وَأَیْنَ ہٰذَا مِنْ مُّنَاظَرَۃِ السَّلَفِ وَمُشَاوَرَتِہِمْ فِي الْـأَحْکَامِ، وَمُسَارَعَتِہِمْ إلَی اتِّبَاعِ الْحَقِّ، إذَا ظَہَرَ عَلَی لِسَانِ الْخَصْمِ ۔
’’کتنی تعجب خیز بات ہے کہ ہر مقلد فقیہ اپنے امام کی کمزور بات پر ڈٹ جاتا ہے، حالانکہ وہ اس کمزوری کا کوئی توڑ بھی نہیں جانتا ہوتا۔پھر بھی وہ اس مسئلے میں اسی امام کی تقلید کرتے ہوئے قرآن و سنت اور قیاسِ صحیح کے روز روشن کی طرح واضح دلائل کو ٹھکرا دیتا ہے۔وہ یہ کام صرف اپنے امام کے مذہب پر جمود کی وجہ سے کرتا ہے۔اسی پر بس نہیں،بلکہ وہ اپنے امام کا ناحق دفاع کرنے کی خاطر قرآن و حدیث کے اصل معانی کو بدلنے اور اس میں دورازکار تاویلات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ہم نے مقلدین کو علمی مجالس میں جمع ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے،جب ان میں سے کسی کے سامنے ایسی بات کر دی جائے جو اس کے مذہب کے خلاف ہو تو بغیر کوئی دلیل ذکر کیے اسے عجیب و غریب قرار دیتا ہے۔دراصل وہ اپنے امام کی تقلید سے اتنا مانوس ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے امام کے مذہب کے علاوہ کسی مذہب کو حق نہیں سمجھتا۔ایسے لوگوں کے ساتھ بحث فضول ہے،بلکہ اس سے بجائے فائدے کے قطع رحمی اور بغض و کینہ حاصل ہوتا ہے۔میں نے ان لوگوں میں سے کسی کو اپنے امام کے مذہب سے رجوع کرتے ہونے نہیں دیکھا،حالانکہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو چکی ہوتی ہے کہ اس مسئلے میں کوئی دوسرا مذہب حق پرہے۔وہ اپنے امام کے مذہب کو کمزور اور دورازکار جاننے کے باوجود بھی اسی کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔جب ان میں سے کوئی اپنے امام کے مذہب کو دلائل سے ثابت کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو کہہ دیتاہے کہ شاید میرے امام کے پاس وہ دلیل ہو جو مجھے معلوم نہیں ہو سکی۔اس بیچارے کو اتنا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اسے بھی کوئی مخالف یہی بات کہہ سکتا ہے،بلکہ اس کی طرف سے یہ بیان اس کے مخالف کے لیے زیادہ واضح اور ٹھوس دلیل بن جائے گا۔سبحان اللہ! لوگوں کو تقلید نے کتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق کا اتباع کرنے کی توفیق دے،وہ کہیں بھی ہو اور کسی کی زبان پرجاری ہو۔کہاں یہ روَش اور کہاں سلف صالحین کا آپس میں معنیٰ خیز بحث و مباحثہ، مسائل میں ان کی باہمی مشاوت اور مخالف کی زبانی حق کو سن کر اس کی پیروی میں جلدی!۔‘‘
(قواعد الأحکام في مصالح الأنام : 135/2، وفي نسخۃ : 159)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب(1943-1863ئ)تقلید کے مفاسد یوں بیان کرتے ہیں: ’’اور مفاسد کا ترتب یہ کہ اکثر مقلدین عوام،بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے،ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا،بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے،پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے،خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو،بلکہ مجتہد کی دلیل اُس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو،بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو، مگر نصرت ِمذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں،دل یہ نہیں مانتا کہ قولِ مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح و صریح پر عمل کر لیں۔‘‘(تذکرۃ الرشید : 131/1)
شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی(1176-1114ھ)لکھتے ہیں :
فَإِنْ بَلَغَنَا حَدِیثٌ مِّنَ الرَّسُولِ الْمَعْصُومِ، الَّذِي فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْنَا طَاعَتَہٗ، بِسَنَدٍ صَالِحٍ یَّدُلُّ عَلٰی خِلَافِ مَذْہَبِہٖ، وَتَرَکْنَا حَدِیثَہٗ، وَاتَّبَعْنَا ذٰلِکِ التَّخْمِینَ، فَمَنْ أَظْلَمُ مِنَّا، وَمَا عُذْرُنَا یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ؟
’’اگر ہمارے پاس اس رسولِ معصومeکی حدیث قابل حجت سند کے ساتھ پہنچ جائے،جن کی اطاعت اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے اوروہ حدیث ہمارے امام کے مذہب کے خلاف جاتی ہو اور ہم نبی اکرمeکی حدیث کو چھوڑ کر اس ظن کی پیروی میں لگ جائیں، تو ہم سے بڑا ظالم کون ہو گا اور جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے،اس دن ہمارا کیا عذر ہو گا؟‘‘(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 156/1)
تقلید میں ردّ حدیث کی دو مثالیں
اب ہم دو مثالیں ذکر کریں گے،جن سے معلوم ہو گا کہ مقلدین اپنے امام کے مذہب کے خلاف حدیث کو کس طرح ردّ کرتے ہیں اور کس طرح اس میں دورازکار اور مضحکہ خیز تاویلات کرتے ہیں۔
مثال نمبر 1 : تقلید اور سواری پر وِتر کی ادائیگی
سواری پر نماز وتر کی ادائیگی اور سنت ِرسولq :
رسول اللہeسے سواری پر وتر ادا کرنا ثابت ہے، جیسا کہ :
1 صحابی جلیل، سیدنا عبد اللہ بن عمرw بیان کرتے ہیں :
کَانَ النَّبِيُّ e یُصَلِّي فِي السَّفَرِ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ، حَیْثُ تَوَجَّھَتْ بِہٖ، یُؤْمِي إِیمَائً، صَلَاۃَ اللَّیْلِ، إِلَّا الْفَرَائِضَ، وَیُوتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ ۔
’’نبی اکرمeفرائض کے علاوہ باقی نماز سفر میں اپنی سواری ہی پر ادا کر لیتے تھے، اس کا رُخ جس طرف بھی ہوتا، آپeاشارے سے نماز پڑھ لیتے تھے اور وتر بھی سواری پر ادا فرماتے تھے۔‘‘(صحیح البخاري : 136/1، ح : 1000، صحیح مسلم : 244/1، ح : 700)
2 عظیم تابعی،سعید بن یسارaبیان کرتے ہیں :
کُنْتُ أَسِیرُ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ بِطَرِیقِ مَکَّۃَ، فَقَالَ سَعِیدٌ : فَلَمَّا خَشِیتُ الصُّبْحَ نَزَلْتُ، فَأَوْتَرْتُ، ثُمَّ لَحِقْتُہٗ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ : أَیْنَ کُنْتَ؟، فَقُلْتُ : خَشِیتُ الصُّبْحَ، فَنَزَلْتُ، فَأَوْتَرْتُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : أَلَیْسَ لَکَ فِي رَسُولِ اللّٰہِ eاُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ؟ فَقُلْتُ : بَلٰی، وَاللّٰہِ ! قَالَ : فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ eکَانَ یُوتِرُ عَلَی البَعِیرِ ۔
’’میں سیدنا عبد اللہ بن عمرw کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا۔جب مجھے صبح صادق طلوع ہونے کا خدشہ ہوا تو میں نے سواری سے نیچے اُتر کر وتر ادا کیے،پھر میں سیدنا ابن عمرw سے جا ملا۔انہوں نے پوچھا : تم کہاں رَہ گئے تھے؟ میں نے کہا : مجھے صبح صادق طلوع ہونے کا خدشہ ہوا تو میں نے سواری سے اُتر کر وِتر ادا کر لیے۔ابن عمرw نے فرمایا : کیا تمہارے لیے رسول اللہeکا اسوۂ حسنہ قابل عمل نہیں ہے؟میں نے کہا : اللہ کی قسم! کیوں نہیں۔انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسولe اونٹ پر وِتر ادا کر لیا کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 136/1، ح : 999، صحیح مسلم : 244/1، ح : 36/700)
3 نافع تابعیa بیان کرتے ہیں : کَانَ ابْنُ عُمَرَt یُصَلِّي عَلٰی رَاحِلَتِہٖ، وَیُوتِرُ عَلَیْھَا، وَیُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ e کَانَ یَفْعَلُہٗ ۔
’’سیدنا ابن عمرw اپنی سواری پر(نفل)نماز پڑھ لیتے اور وتر بھی اسی پر ادا فرماتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ نبی اکرمeایسا کیا کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 1095، صحیح مسلم : 700)
4 سیدنا ابن عمرw فرماتے ہیں : إِنَّ النَّبِيَّe کَانَ یُوتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ ۔
’’نبی اکرمeاپنی سواری پر وتر ادا فرما لیتے تھے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 6/2، وسندہٗ صحیحٌ)
سواری پروِتر اور صحابی ٔ رسول سیدنا ابن عمرw :
n جریر بن حازمaبیان کرتے ہیں :
قُلْتُ لِنَافِعٍ : أَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یُوتِرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ؟ قَالَ : وَہَلْ لِّلْوِتْرِ فَضِیلَۃٌ عَلٰی سَائِرِ التَّطَوُّعِ؟ إِي، وَاللّٰہِ ! لَقَدْ کَانَ یُوتِرُ عَلَیْہَا ۔
’’میں نے نافع (مولیٰ ابن عمرa)سے پوچھا کہ کیا سیدنا ابن عمرw سواری پر وتر ادا کر لیتے تھے؟انہوں نے فرمایا : کیا وِتر کو باقی نوافل پر کوئی فضیلت ہے(کہ وہ سواری پر ادا نہ کیا جا سکتے)؟۔اللہ کی قسم!وہ سواری پر وِتر(بھی)ادا کر لیا کرتے تھے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 6/2، وسندہٗ صحیحٌ)
امام عبد اللہ بن دینار تابعیaبیان فرماتے ہیں:
وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ۔ ’’سیدنا عبد اللہ بن عمرwسواری پر وِتر ادا کیا کرتے تھے۔‘‘(السنن الکبرٰی للنسائي : 456/1، تہذیب الآثار للطبري : 542/1، وسندہٗ صحیحٌ)
عظیم تابعی، امام سالمaبیان فرماتے ہیں:
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ کَانَ یُصَلِّي فِي اللَّیْلِ، وَیُوتِرُ رَاکِبًا عَلٰی بَعِیرِہٖ، لَا یُبَالِي حَیْثُ وَجَّہَہٗ ۔ ’’سیدنا عبد اللہ بن عمرw رات کو نماز ادا فرماتے تو اپنی سواری پر ہی وتر ادا کر لیا کرتے تھے،اس کا رُخ جس طرف بھی ہوتا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 105/2، وسندہٗ صحیحٌ)
سواری پر نماز وتر کی ادائیگی اور فقہائے امت:
عظیم المرتبت تابعی،فقیہ امت،امام حسن بصریa(م : 110ھ)کے بارے میں ہے :
کَانَ الْحَسَنُ لَا یَرٰی بَأْسًا أَنْ یُّوتِرَ الرَّجُلُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ ۔
’’وہ اس بات میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے کہ آدمی اپنی سواری پر وِتر پڑھے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 98/2، وسندہٗ حسنٌ)
امام موسیٰ بن عقبہaبیان کرتے ہیں :
وَقَدْ رَأَیْتُ أَنَا سَالِمًا یَّصْنَعُ ذٰلِکَ ۔ ’’میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمرa کو سواری پر وِتر ادا کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 105/2، وسندہٗ صحیحٌ)
جلیل القدر تابعی،مشہور فقیہ،نافع مولیٰ ابن عمرa(م : 117ھ)کے بیٹے ان کے بارے میں بیان کرتے ہیں: إِنَّ أَبَاہُ کَانَ یُوتِرُ عَلَی الْبَعِیرِ ۔
’’ان کے والد(نافعa) اونٹ پر وِتر ادا کر لیا کرتے تھے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 97/2، وسندہٗ صحیحٌ)
فقیہ عراق،امام ابو عبد اللہ،سفیان بن سعید ثوریa(161-97ھ)فرماتے ہیں :
أَعْجَبُ إِلَيَّ أَنْ یُّوتِرَ عَلَی الْـأَرْضِ، وَأَيُّ ذٰلِکَ فَعَلَ، أَجْزَأَہٗ ۔
’’مجھے زمین پر وتر پڑھنا زیادہ پسند ہے،لیکن جیسے بھی پڑھ لیے جائیں،جائز ہیں۔‘‘
(تھذیب الآثار للطبري : 545/1، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شافعیaسواری پر وتر ادا کرنے کو جائز سمجھتے تھے۔امام ترمذیaفرماتے ہیں:
وَقَدْ ذَھَبَ بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّeوَغَیْرِھِمْ إِلٰی ہٰذَا، وَرَأَوْا أَنْ یُّوتِرَ الرَّجُلُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ، وَبِہٖ یَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ ۔
’’اس حدیث پر بعض صحابہ کرام اور دیگر اہل علم نے عمل کیا ہے اور ان کی رائے میں آدمی کا اپنی سواری پر وتر ادا کرنا جائز ہے۔امام شافعی،امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہS کا یہی مذہب ہے۔‘‘(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 472)
امام اہل سنت،احمد بن حنبلa(241-164ھ)کے بیٹے ابوفضل صالحaبیان کرتے ہیں : سَأَلْتُ أَبِي : یُوتِرُ الرَّجُلُ عَلٰی بَعِیرِہٖ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَدْ أَوْتَرَ النَّبِيُّ e عَلٰی بَعِیرِہٖ ۔
’’میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا آدمی اپنے اونٹ پر وتر ادا کر سکتا ہے؟انہوں نے فرمایا : ہاں، یقینا نبی اکرمeنے اپنے اونٹ پر وتر ادا فرمائے ہیں۔‘‘
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ أبي الفضل صالح : 257/2، الرقم : 859)
امام اسحاق بن راہویہa(238-161ھ)فرماتے ہیں : اَلسُّنَّۃُ الْوِتْرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ فِي السَّفَرِ ۔ ’’سفر میں سواری پر وتر ادا کرنا سنت ِرسول ہے۔‘‘
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ للکوسج : 650/2، الرقم : 297)
مشہور امام،ابومحمد،عبد اللہ بن عبد الرحمن بن فضل بن بہرام دارمیa(255-181ھ) نے جب سواری پر وتر ادا کرنے کے بارے میں نبی اکرمeکی حدیث بیان کی تو اُن سے پوچھا گیا : تَأْخُذُ بِہٖ؟ کیا آپ اس حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : نَعَمْ ۔ ’’ہاں،(میں اس کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں)۔‘‘
(سنن الدارمي : 991/2)
امام اہل سنت،رئیس المفسرین،ابوجعفر،محمدبن جریر،طبریa(310-224ھ)سواری پر وتر کے بارے میں اختلاف اور دلائل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَالصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ فِي الْوِتْرِ رَاکِبًا، قَوْلُ مَنْ أَجَازَہٗ، لِمَعَانٍ : أَحَدُہَا صِحَّۃُ الْخَبَرِ الْوَارِدِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ eأَنَّہٗ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ، وَہُوَ الْإِمَامُ الْمُقْتَدٰی بِہٖ ۔
’’سواری پر وِتر کی ادئیگی(کے جواز اور عدمِ جواز)کے بارے میں اس شخص کی بات درست ہے،جو اسے جائز کہتا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سواری پر وِتر ادا کرنے کے بارے میں نبی اکرمeسے مروی احادیث ثابت ہیں اور آپe ہی وہ امام ہیں جن کی اقتدا کی جانی چاہیے۔‘‘(تہذیب الآثار للطبري : 545/5)
امام الائمہ،ابن خزیمہa(311-223ھ)حدیث ابن عمر پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
بَابُ إِبَاحَۃِ الْوِتْرِ عَلَی الرَّاحِلَۃِ ۔ ’’سواری پر وتر کے جائز ہونے کا بیان۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ : 249/2)
امام ابن منذرa(319-242ھ)اس کے جواز کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ذِکْرُ الْوِتْرِ عَلَی الرَّاحِلَۃِ، ثَبَتَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ e کَانَ یُوتِرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ ۔
’’سواری پر وتر ادا کرنے کا بیان۔یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ رسول اللہe سواری پر وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔‘‘(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 201/5)
علامہ نوویa(676-631ھ)نے یوں باب قائم کیا ہے:
بَابُ جَوَازِ الْوِتْرِ جَالِسًا، وَعَلَی الرَّاحِلَۃِ فِي السَّفَرِ ۔
’’اس بات کا بیان کہ بیٹھ کر وتر پڑھنا اور سفر میں سواری پر وتر ادا کرنا جائز ہے۔‘‘
(خلاصۃ الأحکام في مہمّات السنن وقواعد الإسلام : 562/1)
سواری پر نماز وتر کی ادائیگی اور فقہ حنفی:
اس صحیح و ثابت سنت ِرسول،عمل صحابہ، فہم ائمہ دین اور فقہائے امت کے خلاف سواری پر وتر ادا کرنے کے بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ یہ ہے :
وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّوتِرَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ ۔ ’’سواری پر وتر ادا کرنا جائز نہیں۔‘‘
(الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاوی عالمگیری : 111/1، البنایۃ شرح الہدایۃ للعیني الحنفي : 477/2، البحر الرائق لابن نجیم الحنفي : 41/2)
سنت ِرسول اور حنفی تاویلات :
قارئین کرام صحیح احادیث سے یہ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ سواری پر وترادا کرنا نبی اکرمe کی سنت ہے۔جلیل القدر صحابی سیدناعبد اللہ بن عمرw نبی اکرمeکی سنت سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ائمہ دین اور فقہائے امت نے اسے سنت ِرسول ہی بتایا ہے۔
اس صحیح و ثابت سنت ِرسول کو قبول کرنے کی سعادت احناف کے حصے میں نہیں آئی، بلکہ انہوں نے اسے اپنی نام نہاد فقہ کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اس میں عجیب و غریب تاویلات اور گمراہ کن دعوے کیے ہیں۔آئیے ان تاویلات ِباطلہ کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
تاویل نمبر 1 : دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث،جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (1933-1875ئ)لکھتے ہیں :
أَمَّا ابْنُ عُمَرَ، فَالْجَوَابُ عِنْدِي أَنَّہٗ مِمَّنْ لَّمْ یَکُنْ یُّفَرِّقُ بَیْنَ الْوِتْرِ وَصَلَاۃِ اللَّیْلِ، وَکَانَ یُطْلِقُ الْوِتْرَ عَلَی الْمَجْمُوعِ، فَیُمْکِنُ أَنْ یَّکُونَ مَا ذَکَرَہٗ مِنْ وِّتْرِہٖ عَلَی الدَّابَّۃِ، ھِيَ صَلَاۃَ اللَّیْلِ ۔
’’سیدنا ابن عمرw کے بیان کا تو میرے پاس یہ جواب ہے کہ وہ وتر اور نماز تہجد میں فرق نہیں کرتے تھے،بلکہ ساری نماز کے لیے وتر ہی کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ممکن ہے کہ انہوں نے سواری پر آپeکے وتر کا جو ذکر کیا ہے،اس سے مراد تہجد کی نماز ہو۔‘‘
(فیض الباري : 194/3)
علامہ زیلعی حنفی(م : 762ھ)اور علامہ عینی حنفی(م : 855ھ)نے کیا خوب کہا ہے کہ :
اَلْمُقَلِّدُ ذَھْلٌ، وَالْمُقَلِّدُ جَھْلٌ ۔ ’’مقلد حقائق سے چشم پوشی کرنے والا اور جاہل ہوتا ہے۔‘‘(نصب الرایۃ للزیلعي : 219/1، 228/3، البنایۃ شرح الہدایۃ للعیني : 317/1)
سیدنا ابن عمرw کے فہم پر یہ حملہ دیکھ کر ہمیں بھی بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس مسئلے میں شاہ صاحب نے علم و عقل سے خوب دشمنی کمائی ہے۔یہ احادیث بول بول بتا رہی ہیں کہ سیدنا ابن عمرw نے یہاں وتر اور تہجدکو نہ خود ایک سمجھا ہے،نہ اپنے شاگرد سعید بن یسار تابعی کے سامنے اسے ایک شمار کیا ہے،بلکہ ان کی مراد سراسر اصطلاحی وتر ہی تھی۔یہ بات ادنیٰ شعور رکھنے والے شخص کو ادنیٰ غوروفکر سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔
تابعی سعید بن یسارaنے سیدنا ابن عمرw کے استفسار پر بتایا تھا کہ :
خَشِیتُ الصُّبْحَ، فَنَزَلْتُ، فَأَوْتَرْتُ ۔
’’مجھے صبح صادق کے طلوع ہونے کا خدشہ ہوا تو میں نے اُتر پر وتر ادا کر لیے۔‘‘
کیا جب اتنا تھوڑا وقت ہو کہ صبح صادق کے طلوع ہونے کا خدشہ ہو رہا ہو تو پوری نماز تہجد ادا کی جا سکتی ہے؟کیا کوئی عقل مند اس طرح کی ہفوات پرکان دَھر سکتا ہے؟
آئیے اب ہم آپ کو یہی بات حدیث ِرسول کی روشنی میں بتاتے ہیں :
إِنَّ رَجُلًا جَائَ إِلَی النَّبِيِّ e، وَہُوَ یَخْطُبُ، فَقَالَ : کَیْفَ صَلاَۃُ اللَّیْلِ؟ فَقَالَ : ’مَثْنٰی مَثْنٰی، فَإِذَا خَشِیتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَۃٍ‘ ۔
’’ایک شخص نبی اکرمeکی خدمت میں حاضر ہوا،آپeاس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔اس نے پوچھا : رات کی نماز (تہجد)کس طرح پڑھنی ہے؟آپeنے فرمایا : دو دو رکعت کر کے۔پھر جب صبح صادق طلوع ہونے کا خدشہ ہو تو ایک وتر ادا کر لے۔‘‘
(صحیح البخاري : 473، صحیح مسلم : 749)
یعنی بقولِ رسول مقبولeبھی جب صبح صادق طلوع ہونے کے قریب ہو تو اصطلاحی وتر ہی ادا کیے جاتے ہیں۔اب کس کس حدیث کی مخالفت پر افسوس کریں! اس حدیث میں خود رسولِ اکرمeنے ایک وتر پڑھنے کا حکم دیا ہے،لیکن احناف اسے بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔بھلا مؤخر الذکر حدیث سننے کے بعد کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ صبح صادق کے طلوع ہونے کے عین قریبی وقت میں وتر پڑھنے سے مراد تہجد پڑھنا ہے؟یہ حدیث بھی رسولِ اکرمeسے سیدنا ابن عمرw ہی نے بیان کی ہے۔بھلا وہ کیسے سعید بن یسار کے اصطلاحی وتر کو تہجد سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے تھے؟فہم کی ایسی غلطی میں تو کوئی ادنیٰ شعور رکھنے والا عام آدمی بھی مبتلا نہیں ہو سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری ذکر کردہ پہلی حدیث میں سیدنا ابن عمرw ہی نے رسول اکرمeکی نماز تہجد اور وتر دونوں کو الگ الگ ذکر کر کے یہ صراحت کی ہے کہ آپe تہجد اور وتر دونوں کو سواری پر ادا فرمایا کرتے تھے۔کیا اب بھی کوئی یہ بہانہ کر سکے گا کہ سیدنا ابن عمرw تہجد اور وتر،دونوں کو وتر کہتے تھے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہماری ذکر کردہ تیسری روایت میں نافع تابعیaنے سیدنا ابن عمرw کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ وتر اپنی سواری ہی پر ادا کر لیا کرتے تھے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نافع تابعیaبھی تہجد کو وتر کہتے تھے؟
چوتھی بات یہ کہ احناف کے متقدمین علماء اس بات کے اقراری تھے کہ نبی اکرمe نے سواری پر اصطلاحی وِتر ہی ادا کیے تھے۔آئندہ اعتراض کے ضمن میں امام طحاوی حنفی کا یہ اعتراف آپ ملاحظہ فرما لیں گے۔آپeکے سواری پر وِتر سے مراد تہجد لینا خالص کشمیری اختراع ہے۔ہمارے علم کے مطابق ان سے پہلے کسی مسلمان نے ایسا نہیں کہا۔
پانچویں بات یہ کہ سعید بن یسار تابعیaنے سیدنا ابن عمرw سے یہ حدیث سن کر کوئی معارضہ نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ میں نے تو وتر ادا کیا ہے،جبکہ آپ کی بیان کردہ حدیث کے مطابق تو رسولِ اکرمeسواری پر وتر نہیں،بلکہ تہجد کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ پھر ائمہ دین اور فقہائے امت کا فہم اس پر مستزاد ہے۔امام شافعی،امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابن خزیمہ وغیرہمS کے علاوہ امام بخاریaنے بھی رسول اللہe کے سواری پر وتر کو بَابُ الْوِتْرِ عَلَی الدَّابَّۃِ (سواری پر وتر پڑھنے کا بیان)کی تبویب کر کے اصطلاحی وتر ہی سمجھا ہے۔امام بخاریaکے اجتہاد اور ان کی فقاہت کا اعتراف کرتے ہوئے تو خود انورشاہ کشمیری صاحب نے لکھا ہے:
فَإِنَّہٗ لَیْسَ بِمُقَلِّدٍ لِّلْـأَحْنَافِ وَالشَّافِعِیَّۃِ ۔ ’’امام بخاریaحنفی یا شافعی مقلد نہیں تھے۔‘‘(العرف الشذي : 106/1)
یعنی ان احادیث میں وتر سے اصطلاحی وتر ہی مراد ہے،مجتہدین امت کا یہی فیصلہ ہے،ایسا نہیں کہ ہم احناف کی مخالفت میں ایسا کر رہے ہیں۔جن محدثین کرام نے احادیث پر فقہی تبویب کی ہے،سب نے اس حدیث سے اصطلاحی وِتر ہی مراد لیا ہے۔
اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے باوجود بھی مقلدین واضح احادیث کی باطل تاویلات پر اُتر آتے ہیں،کیونکہ انہوں نے حدیث کے خلاف اپنے امام کی ’’لایجوز‘‘ کی لاج جو رکھنی ہے،خواہ انہیں منکرینِحدیث کا انداز ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔ہم تو حدیث کی مخالفت پر ایسے لوگوں سے وہی سوال کریں گے جو سیدنا ابن عمرw نے سعید بن یسار تابعی سے سواری پر وتر نہ پڑھنے پر فرمایا تھا کہ :
أَمَا لَکَ فِي رَسُولِ اللّٰہِ eأُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔
’’کیا تمہارے لیے رسول اللہeکا اسوۂ حسنہ قابل عمل نہیں ہے؟‘‘
فرق صرف یہ ہے کہ سعید بن یسار تابعیaنے تو حدیث کا علم نہ ہونے کی بنا پر ایسا کیا تھا،لیکن ہمارے احناف بھائی نہ صرف حدیث کو بخوبی جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں، بلکہ اس سنت سے روکنے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے بھی اپناتے ہیں، جن سے فہم صحابہ و فقاہت ِفقہائے امت کی فقاہت پر سخت زَد آتی ہے۔اہل انصاف کو غور وفکر کی دردمندانہ اپیل ہے!
اعتراض نمبر 2 : امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں :
فَیَجُوزُ أَنْ یَّکُونَ مَا رَوَی ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِe مِنْ وِّتْرِہٖ عَلَی الرَّاحِلَۃِ کَانَ ذٰلِکَ مِنْہُ قَبْلَ تَأْکِیدِہٖ إِیَّاہُ، ثُمَّ أَکَّدَہٗ مِنْ بَعْدِ نَسْخِ ذٰلِکَ ۔ ’’سیدنا ابن عمرw نے جو رسول اللہeکا سواری پر وِتر پڑھنا ذکر کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ وِتر کی تاکید(وجوب)سے پہلے کا واقعہ ہو،پھر اس کے نسخ کے بعد آپeنے وِتر کی تاکید کر دی ہو۔‘‘(شرح معاني الآثار : 430/1)
امام طحاوی حنفیaکے دعویٔ نسخ پر شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجرa (852-773ھ) یوں تبصرہ فرماتے ہیں :
لٰکِنَّہٗ یُکْثِرُ مِنِ ادِّعَائِ النَّسْخِ بِالِاحْتِمَالِ ۔ ’’لیکن امام طحاوی محض احتمال کی بنا پر بکثرت نسخ کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔‘‘(فتح الباري في شرح صحیح البخاري : 487/9)
جب اپنا فقہی مذہب حدیث کے خلاف ہو اور کوئی جواب نہ بن پڑے تو آلہ نسخ کا بلادریغ استعمال کرتے ہوئے احادیث کو ردّ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ نماز وتر کے وجوب کی حقیقت ایک مفروضے سے بڑھ کر نہیں،دلائل شرعیہ یہی بتاتے ہیں کہ نماز وتر نفل ہی ہے۔دوسرے کوئی احناف سے پوچھے کہ نماز وتر کی تاکید کب ہوئی؟جب تک ٹھوس قرائن و شواہد سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ کون سا معاملہ پہلے کا اور کون سا بعد کا ہے، اس وقت تک نسخ کا دعویٰ ہی مردُود ہوتا ہے۔
امام بیہقیa(458-384ھ)سواری پر وتر پڑھنے کو منسوخ کہنے کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وَلَا یَجُوزُ دَعْوَی النَّسْخِ فِیمَا رُوِّینَا فِي ذَلِکَ، بِمَا رُوِيَ فِي تَأْکِیدِ الْوِتْرِ، مِنْ غَیْرِ تَارِیخٍ، وَلَا سَبَبٍ، یَدُلُّ عَلَی النَّسْخِ ۔
’’وِتر کی تاکید والی حدیث سے سواری پر وِتر کی ادائیگی کے بارے میں مروی حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ جائز نہیں۔دعویٔ نسخ پر وقت کا علم،کوئی تاریخ یا کوئی سبب موجود نہیں۔‘‘(معرفۃ السنن والآثار : 448/3)
وَمَا رُوِيَ فِي تَأْکِیدِ الْوِتْرِ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ أَوَّلُ مَا شَرَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوِتْرَ، وَإِنَّمَا صَلَّاہَا عَلَی الرَّاحِلَۃِ، بَعْدَ مَا شَرَعَہَا، وَأَخْبَرَ أُمَّتَہٗ بِأَمْرِہِمْ بِہَا، إِنْ ثَبَتَ الْحَدِیثُ عَنْہُ، فَکَیْفَ یَکُونُ ذٰلِکَ نَاسِخًا لِّمَا صَنَعَ فِیہَا بَعْدَہٗ ؟
’’وِتر کی تاکید کے بارے میں جو احادیث مروی ہیں،اگر وہ صحیح ہیں تو،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز ِوتر کی مشروعیت کے بالکل آغاز کی بات ہے، جبکہ سواری پر وِترنبی اکرمe نے اس کی مشروعیت اور اس کی تاکید کے بعد پڑھے ہیں۔پھر یہ تاکید آپeکے بعد والے عمل (سواری پر وِتر)کو کیسے منسوخ کر سکتی ہے؟۔‘‘(معرفۃ السنن والآثار : 447/3)
اہل خرد انصاف کریں کہ صحابی ٔ رسول سیدنا عبد اللہ بن عمرw جو نبی اکرمe کے سواری پر وِتر ادا کرنے کو امت کے لیے بیان کرتے ہیں،وہ خود آپeکی وفات کے بعد سواری پر وتر ادا کرتے تھے اور اسے اسوۂ حسنہ قرار دے کر دوسروں کو اس کی تاکید بھی کرتے تھے۔ اگر سواری پر وتر ادا کرنا منسوخ ہو چکا تھا تو انہیں کیوں علم نہ ہوا؟امام طحاوی حنفی سے پہلے، سوا تین سو سال تک،کسی امام و فقیہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ سواری پر وتر ادا کرنا منسوخ ہو چکا ہے۔اس پر مستزاد کہ امام بیہقیaجیسے محدثِ شہیر نے اس کا سختی سے علمی ردّ بھی کر دیا ہے۔
علامہ عبد الحئی حنفی نے بھی امام طحاوی کے دعویٔ نسخ کا ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے:
وَفِیہِ نَظَرٌ لَّا یَخْفٰی، إِذْ لَا سَبِیلَ إِلٰی إِثْبَاتِ النَّسْخِ بِالِاحْتِمَالِ مَا لَمْ یُعْلَمْ ذٰلِکَ بِنَصٍّ وَارِدٍ فِي ذٰلِکَ ۔
’’امام طحاوی حنفی کا دعویٔ نسخ واضح طور پر مردودہے،کیونکہ نسخ کبھی بھی احتمال کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا،جب تک اس بارے میں قرآن وسنت کی واضح تعلیمات معلوم نہ ہو جائیں۔‘‘
(التعلیق الممجّد علی مؤطّإ مالک : 133)
تنبیہ : اگر کوئی کہے کہ سیدنا ابن عمرwکے بارے میں مروی ہے :
إِنَّہٗ کَانَ یُصَلِّي عَلٰی رَاحِلَتِہٖ، وَیُوتِرُ بِالْـأَرْضِ، وَیَزْعَمُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِe کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ۔
’’وہ سواری پر(نفل)نماز ادا کرتے تھے،پھر وتر زمین پر ادا فرماتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہeایسا کیا کرتے تھے۔‘‘(شرح معاني الآثار للطحاوي : 429/1، وسندہٗ صحیحٌ)
تو ایسا کرنا بالکل جائز اور درست ہے۔سواری پر وِتر ادا کیے جائیں یا زمین پر،دونوں صورتیں بالکل درست ہیں۔سیدنا ابن عمرw کے اس عمل کو سواری پر وِتر ادا کرنے کے خلاف پیش کرنا دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ ہم ان سے سواری پر وِتر ادا کرنے کے بارے میں ان کے کئی شاگردوں کی صحیح الاسناد روایات پیش کر چکے ہیں۔
اگر پھر بھی کسی کو کوئی شبہ ہو تو وہ یہ روایت پڑھ لے۔نافعaبیان فرماتے ہیں :
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ رُبَّمَا أَوْتَرَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ، وَرُبَّمَا نَزَلَ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمرwکبھی سواری پر وتر ادا فرماتے اور کبھی نیچے اُتر کر۔‘‘
(تہذیب الآثار للطبري : 541/1، سنن الدارقطني : 339/2، وسندہٗ صحیحٌ)
معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمرw کا سواری سے اُتر کر وِتر ادا کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ سواری پر وتر کو ناجائز سمجھتے تھے،کیونکہ خود ان سے سواری پر وِتر ادا کرنا بھی ثابت ہے،یعنی وہ حدیث ِرسول کی روشنی میں دونوں صورتوں کو جائز سمجھتے تھے۔
امام ابن منذرa(319-242ھ)فرماتے ہیں :
أَمَّا نُزُولُ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَّاحِلَتِہٖ حَتّٰی أَوْتَرَ بِالْـأَرْضِ، فَمِنَ الْمُبَاحِ، إِنْ شَائَ الَّذِي یُصَلِّي الْوِتْرَ صَلّٰی عَلَی الرَّاحِلَۃِ، وَإِنْ شَائَ صَلّٰی عَلَی الْـأَرْضِ، أَيَّ ذٰلِکَ فَعَلَ یُجْزِیہِ، وَقَدْ فَعَلَ ابْنُ عُمَرَ الْفِعْلَیْنِ جَمِیعًا، رُوِّینَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ رُبَّمَا أَوْتَرَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ، وَرُبَّمَا نَزَلَ، وَالْوِتْرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ جَائِزٌ، لِلثَّابِتِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ أَوْتَرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ، وَیَدُلُّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْوِتْرَ تَطَوُّعٌ، خِلَافَ قَوْلِ مَنْ شَذَّ عَنْ أَہْلِ الْعِلْمِ، وَخَالَفَ السُّنَّۃَ، فَزَعَمَ أَنَّ الْوِتْرَ فَرْضٌ ۔
’’سیدنا ابن عمرwکا سواری سے اُتر کر وِتر ادا کرنا جواز کی دلیل ہے۔ وِتر پڑھنے والا چاہے تو سواری پر پڑھ لے اور چاہے تو اُتر کر۔دونوں صورتیں جائز ہیں۔سیدنا ابن عمرw نے دونوں طرح سے وِتر پڑھے ہیں۔ہمیں یہ روایت مل گئی ہے کہ سیدنا ابن عمرw کبھی سواری پر وِتر ادا فرماتے اور کبھی اُتر کر۔سواری پر وتر ادا کرنا نبی اکرمeسے ثابت شدہ حدیث کی بنا پر جائز ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وتر نفل ہے،جن لوگوں نے اہل علم(سلف صالحین) اور سنت کی مخالفت میں وتر کو فرض سمجھا ہے،یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔‘‘
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 247/5)
امام طبریaاس بارے میں فرماتے ہیں :
وَأَمَّا مَا رُوِيَ فِي ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّي التَّطَوُّعَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِاللَّیْلِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُّوتِرَ نَزَلَ، فَأَوْتَرَ عَلَی الْـأَرْضِ، فَإِنَّہٗ لَا حُجَّۃَ فِیہِ لِمُحْتَجٍّ بِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْ أَجْلِ أَنَّہٗ کَانَ لَا یَرٰی جَائِزًا لِّلْمَرْئِ أَنْ یُّوتِرَ رَاکِبًا، وَأَنَّہٗ کَانَ یَرٰی أَنَّ الْوِتْرَ فَرْضٌ کَسَائِرِ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوبَاتِ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ جَائِزٌ أَنْ یَّکُونَ نُزُولُہٗ لِلْوِتْرِ إِلَی الْـأَرْضِ کَانَ اخْتِیَارًا مِنْہُ ذٰلِکَ لِنَفْسِہٖ، وَطَلَبًا لِّلْفَضْلِ لَا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ عِنْدَہُ الْوَاجِبُ عَلَیْہِ الَّذِي لَا یَجُوزُ غَیْرُہٗ، ہٰذَا لَوْ لَمْ یَکُنْ وَّرَدَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ خَبَرٌ، فَکَیْفَ وَالْـأَخْبَارُ عَنْہُ بِخِلَافِ ذٰلِکَ مِنَ الْفِعْلِ مُتَظَاہِرَۃٌ ؟
’’سیدنا ابن عمرw سے جو یہ روایت ہے کہ وہ رات کو نفل نماز سواری پر ادا فرماتے اور جب وِتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو اُتر کر زمین پر ادا کرتے،اس میں کسی کے لیے یہ دلیل نہیں کہ سیدنا ابن عمرw سواری پر وِتر کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرتے تھے یا وہ وِتر کو فرضی نمازوں کی طرح فرض سمجھتے تھے،بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زمین پر اُتر کر زیادہ ثواب کے لیے ایسا کرتے تھے،اس لیے نہیں کہ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے۔ اگر اُن سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہ ہو تو بھی اس روایت سے یہی ثابت ہو گا،چہ جائیکہ اس کے خلاف اُن سے (سواری پر وِتر ادا کرنے کی)بہت سی روایات ثابت ہیں۔‘‘
(تہذیب الآثار : 541/1)
امام بیہقیaسیدنا ابن عمرw کے سواری سے اُتر کر وِتر پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں: وَقَدْ ذَکَرْنَا ۔۔۔ وِتْرَ عَلِيٍّ وَّابْنِ عُمَرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ، بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنُزُولُ ابْنِ عُمَرَ لِوِتْرِہٖ لَا یَرْفَعُ جَوَازَہٗ عَلَی الرَّاحِلَۃِ ۔
’’ہم ذکر کر چکے ہیں کہ۔۔۔سیدنا علی اور سیدنا ابن عمرy رسول اللہeکی وفات کے بعد سواری پر وِتر ادا فرماتے تھے۔جبکہ سیدنا ابن عمرwکا سواری سے اُتر کر وِتر ادا کرنا سواری پر وِتر ادا کرنے کے جواز کو ختم نہیں کرتا۔‘‘(معرفۃ السنن والآثار 448/3)
امام طحاوی حنفیaسیدنا ابن عمرw کے اس عمل کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَوِتْرُہٗ عَلَی الْـأَرْضِ فِیمَا لَا یَنْفِي أَنْ یَّکُونَ قَدْ کَانَ یُوتِرُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ أَیْضًا، ثُمَّ جَائَ سَالِمٌ وَّنَافِعٌ وَّأَبُو الْحُبَابِ، فَأَخْبَرُوا عَنْہُ أَنَّہٗ کَانَ یُوتِرُ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ ۔
’’سیدنا ابن عمرw کا زمین پر وِتر ادا کرنا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ وہ سواری پر بھی وِتر ادا فرمایا کرتے تھے۔پھر سالم،نافع اور ابو الحباب نے یہ بیان بھی کر دیا ہے کہ وہ سواری پر وِتر ادا فرمایا کرتے تھے۔‘‘(شرح معاني الآثار : 430/1)
شارحِ بخاری،حافظ ابن حجرa(852-773ھ)فرماتے ہیں:
قَالَ الطَّحَاوِيُّ : ذُکِرَ عَنِ الْکُوفِیِّینَ أَنّ الْوِتْرَ لَا یُصَلّٰی عَلَی الرَّاحِلَۃِ، وَھُوَ خِلَافُ السُّنَّۃِ الثَّابِتَۃِ، وَاسْتَدَلَّ بَعْضُہُمْ بِرِوَایَۃِ مُجَاہِدٍ أَنَّہٗ رَأَی ابْنَ عُمَرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ بِمُعَارِضٍ، لِکَوْنِہٖ أَوْتَرَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ، لِأَنَّہٗ لَا نَزَاعَ أَنَّ صَلَاتَہٗ عَلَی الْـأَرْضِ أَفْضَلُ ۔
’’امام طحاوی نے کوفیوں سے یہ بات ذکر کی ہے کہ سواری پر وِتر نہ پڑھے جائیں۔یہ بات ثابت شدہ سنت ِنبوی کے خلاف ہے۔بعض لوگوں نے امام مجاہد کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرwکو دیکھا، انہوں نے اُتر کر زمین پر وِتر ادا کیے۔لیکن یہ روایت سیدنا ابن عمرw کے سواری پر وِتر ادا کرنے کے خلاف نہیں، کیونکہ بالاتفاق زمین پر وِتر کرنا افضل ہے۔‘‘(فتح الباري : 488/2)
اعتراض نمبر 3 : جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں:
’’امام طحاوی فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ وِتر کو قدرت علی القیام کی صورت میں قاعداً (بیٹھ کر)پڑھنا جائز نہیں،جس کا تقاضا ہے کہ وتر علی الراحلہ(سواری پر) بطریق اولیٰ ناجائز ہو، کیونکہ راحلہ(سواری)پر نماز نہ صرف قیام سے بلکہ استقبالِ قبلہ اور قعود(بیٹھنے)کی ہیئت ِمسنونہ سے بھی خالی ہوتی ہے۔‘‘(تقریر ترمذی : 244/1)
’’عقل بڑی کہ بھینس؟‘‘کی مصداق یہ وہ رائے ہے جس کی محدثین کرام مذمت کرتے ہیں۔صحیح و صریح سنت ِنبوی کے خلاف یہ قیاس کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ جب نبی اکرمeنے سواری پر نماز ِوتر ادا کی ہے تو پھر یہ اعتراض کیسا؟نبی اکرمeکی سواری پر نماز جائز تھی یا ناجائز؟اگر جائز تھی تو اس حیلہ و حجت سازی کا کیا جواز؟
اعتراض نمبر 4 : شارحِ ہدایہ،ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
إِنَّہٗ وَاقِعَۃُ حَالٍ، لَا عُمُومَ لَہَا، فَیَجُوزُ کَوْنُ ذٰلِکَ لِعُذْرٍ، وَالِاتِّفَاقُ عَلٰی أَنَّ الْفَرْضَ یُصَلّٰی عَلَی الدَّابَّۃِ لِعُذْرِ الطِّینِ وَالْمَطَرِ وَنَحْوِہٖ ۔
’’یہ خاص واقعہ ہے،اس میں عموم نہیں۔ہو سکتا ہے کہ آپeنے کسی عُذر کی بنا پر سواری پر وِتر ادا کیاہو اور اس بات پر اتفاق ہے کہ کیچڑاور بارش کی مجبوری میں فرائض سواری پر ادا کیے جا سکتے ہیں۔‘‘(فتح القدیر : 371/1)
راویٔ حدیث،صحابی ٔ جلیل،سیدنا ابن عمرw نبی اکرمeکی وفات کے بعد اسے اُسوۂ حسنہ قرار دے کر یہ تعلیم دے رہے کہ سواری پر وِتر جائز ہے اور اس کے خلاف ابن ہمام صاحب اسے ایک خاص واقعہ کہہ کر سواری پر وِتر کو ناجائز قرار دے رہے ہیں۔ائمہ محدثین کے فہم کے مطابق یہ سنت ِرسول ہے،جبکہ احناف بغیر دلیل شرعی کے نماز وتر کی سواری پر ادائیگی کو ناجائز کہتے ہیں۔اسی بنا پر محدثین کرام ان کو مخالف ِسنت سمجھتے ہیں۔
کیا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی کہ یہ ایک خاص واقعہ ہے؟صرف ابن ہمام کو یہ بات سوجھی ہے۔
یہ ہے تقلید کا بھیانک انجام کہ مقلدین کو اپنے امام کا بے دلیل مذہب بچانے کی خاطر کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور نتیجے میں سوائے سنت کی مخالفت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تقلید اور تعصب کو چھوڑ کر ہمیں سنت ِرسول پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مثال نمبر 2 : تقلیداورجانور کے پیٹ کا بچہ
سیدنا ابو سعید خدریt سے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا :
’ذَکَاۃُ الْجَنِینِ ذَکَاۃُ أُمِّہٖ‘ ۔ ’’اپنی ماں کے ذبح ہونے سے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 39/3، سنن الدارقطني : 274/4، السنن الکبرٰی للبیہقي : 335/9، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کے راوی یونس بن ابو اسحاق سبیعی،صحیح مسلم کے راوی ہیں اور جمہور محدثین کرام کے نزدیک ثقہ ہیں۔ان پر تدلیس کا الزام ثابت نہیں۔ان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین(سؤالات ابن الجنید : 430)،امام عجلی(تاریخ الثقات : 486)،امام ابن سعد(الطبقات الکبرٰی : 344/6)Sنے ثقہ، امام عبد الرحمن بن مہدیa(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 244/9، وسندہٗ صحیحٌ)نے لم یکن بہٖ بأس (ان میں کوئی خرابی نہیں)اور امام ابوحاتم رازیa(أیضًا)نے کَانَ صَدُوقًا(یہ سچے تھے)کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔امام ابن حبانa(الثقات : 650/7)اور امام ابن شاہینa(الثقات : 1621) نے انہیں ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔
امام ابن عدیaفرماتے ہیں : لَہٗ أَحَادِیثُ حِسَانٌ ۔
’’انہوں نے حسن درجے کی احادیث بیان کی ہیں۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 179/7)
حافظ ذہبیaفرماتے ہیں: وَھُوَ حَسَنُ الْحَدِیثِ ۔
’’یہ حسن الحدیث راوی ہیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 27/7)
نیز انہیں ثقہ بھی قرار دیا ہے۔(من تکلّم فیہ وہو موثّق : 393)
اس روایت کے دوسرے راوی ابو ودّاک جبر بن نوف بکالی بھی ثقہ ہیں۔
ان کے بارے میں حافظ ابن حجرaفرماتے ہیں:
فَلَمْ أَرَ مَنْ ضَعَّفَہٗ، وَقَدِ احْتَجَّ بِہٖ مُسْلِمٌ ۔
’’میں نہیں جانتا کہ انہیں کسی نے ضعیف قرار دیا ہو،البتہ امام مسلمaنے ان کی حدیث سے حجت لی ہے۔‘‘(التلخیص الحبیر : 157/4، ح : 2009)
اس حدیث کو امام ابن حبان(صحیح ابن حبان : 5889)نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
حافظ منذریaنے اس کی سند کو ’’حسن‘‘کہا ہے۔(مختصر السنن : 120/4)
حافظ نوویaنے بھی اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔(المجموع : 562/2)
نیز فرماتے ہیں: وَہُوَ حَدِیثٌ حَسَنٌ ۔ ’’یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
(تہذیب الأسماء واللّغات : 111/3)
حافظ ابن حجرa،علامہ غزالی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فَقَالَ : ہُوَ حَدِیثٌ صَحِیحٌ، وَتَبِعَ فِي ذٰلِکَ إِمَامَہٗ (إِمَامُ الْحَرَمَیْنِ الْجُوَیْنِيُّ) ۔
’’انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے امام(امام الحرمین جُوَیْنِی)کی پیروی کی ہے۔‘‘(التلخیص الحبیر : 157/4)
علامہ ابن دقیق العیدaنے بھی اسے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔(أیضًا)
خود حافظ ابن حجرaفرماتے ہیں: ہٰذِہٖ مُتَابَعَۃٌ قَوِیَّۃٌ ۔
’’یہ مضبوط متابعت ہے۔‘‘(أیضًا)
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر بکری،گائے،اونٹنی وغیرہ کو ذبح کیا جائے تو اس کے پیٹ میں جو بچہ ہو گا،وہ بھی ذبح ہو جائے گا اور اس کا کھانا حلال ہو گا۔یہ اہل حق کا اجماعی مسئلہ ہے۔
اس کے برعکس امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین کے نزدیک ایسے بچے کا کھانا حرام ہے۔ ان کے نزدیک اپنی ماں کے ذبح ہونے سے وہ بچہ ذبح نہیں ہو گا۔اسے کھانا ناجائز ہے۔
(المبسوط للسرخسي : 6/12، الہدایۃ للمرغیناني : 351/4، بدائع الصنائع للکاساني : 421/5، النتف في الفتاوی للسعدي : 228/1، البحر الرائق لابن نجیم : 195/8، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر لشیخي زادہ : 512/2، ردّ المحتار علی الدّر المختار : 304/6)
یہ موقف صحیح احادیث،اجماعِ امت اور فہم محدثین کے سراسر خلاف ہے۔یہ بے اصل اور بے دلیل بات ہے،جیسا کہ امام ابن منذرa(319-242ھ)فرماتے ہیں:
لَمْ یُرْوَ عَنْ أَحَدٍ مِّنْ أَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ وَسَائِرِ الْعُلَمَائِ أَنَّ الْجَنِینَ لَا یُؤْکَلُ، إِلَّا بِاسْتِئْنَافِ الذَّکَاۃِ فِیہِ، إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِیفَۃَ، وَلَا أَحْسِبُ أَصْحَابَہٗ وَافَقُوہُ عَلَیْہِ ۔
’’صحابہ و تابعین اور باقی اہل علم میں سے کسی سے بھی یہ بات مروی نہیں کہ (حلال جانور کے)پیٹ کے بچے کو الگ ذبح کیے بغیر نہیں کھایا جا سکتا۔صرف امام ابوحنیفہ سے یہ روایت کیا گیا ہے۔میرا نہیں خیال کہ اس مسئلے میں ان کے شاگردوں نے بھی ان کی موافقت کی ہو۔‘‘(نصب الرایۃ للزیلعي الحنفي : 192/4)
امام ابن عبد البرa(463-368ھ)فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُ أَبِي حَنِیفَۃَ وَزُفَرَ، فَلَیْسَ لَہٗ فِي حَدِیثِ النَّبِيِّ e، وَلَا فِي قَوْلِ أَصْحَابِہٖ، وَلَا فِي قَوْلِ الْجُمْہُورِ أَصْلٌ ۔
’’امام ابوحنیفہ اور زُفَر کے قول کی کوئی دلیل نہ نبی اکرمeکی حدیث میں موجود ہے، نہ صحابہ کرام کے اقوال میں،نہ جمہور اہل علم کے مذہب میں۔‘‘(الاستذکار : 265/5)
شیخ الاسلام ثانی،علامہ ابن قیم الجوزیہa(751-691ھ)فرماتے ہیں:
رَدُّ السُّنَّۃِ الصَّحِیحَۃِ الصَّرِیحَۃِ الْمُحْکَمَۃِ بِأَنَّ ذَکَاۃَ الْجَنِینِ ذَکَاۃُ أُمِّہٖ، بِأَنَّہَا خِلَافُ الْـأُصُولِ، وَہُوَ تَحْرِیمُ الْمَیْتَۃِ، فَیُقَالُ : الَّذِي جَائَ عَلٰی لِسَانِہٖ تَحْرِیمُ الْمَیْتَۃِ ہُوَ الَّذِي أَبَاحَ الْـأَجِنَّۃَ الْمَذْکُورَۃَ، فَلَوْ قُدِّرَ أَنَّہَا مَیْتَۃٌ لَکَانَ اسْتِثْنَاؤُہَا بِمَنْزِلَۃِ اسْتِثْنَائِ السَّمَکِ وَالْجَرَادِ مِنَ الْمَیْتَۃِ، فَکَیْفَ وَلَیْسَتْ بِمَیْتَۃٍ؟ فَإِنَّہَا جُزْئٌ مِّنْ أَجْزَاء ِ الْـأُمِ،ّ وَالذَّکَاۃُ قَدْ أَتَتْ عَلٰی جَمِیعِ أَجْزَائِہَا، فَلَا یَحْتَاجُ أَنْ یُّفْرَدَ کُلُّ جُزْئٍ مِّنْہَا بِذَکَاۃٍ، وَالْجَنِینُ تَابِعٌ لِلْـأُمِّ، جُزْئٌ مِّنْہَا، فَہٰذَا ہُوَ مُقْتَضَی الْـأُصُولِ الصَّحِیحَۃِ، وَلَوْ لَمْ تَرِدِ السُّنَّۃُ بِالْإِبَاحَۃِ، فَکَیْفَ وَقَدْ وَرَدَتْ بِالْإِبَاحَۃِ الْمُوَافِقَۃِ لِلْقِیَاسِ وَالْـأُصُولِ؟
’’اپنی ماں کے ذبح ہونے سے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے، اس بارے میں ثابت شدہ ،صریح اور محکم سنت ِنبوی کو یہ کہہ کر ردّ کیا گیا کہ یہ اصول کے خلاف ہے،اصول یہ ہے کہ مُردار حرام ہے۔ایسی باتیں کرنے والوں سے کہا جائے کہ جس ہستی (رسولِ اکرمe) کی زبان پر مردار کی حرمت نازل ہوئی،اسی نے مذکورہ پیٹ کے بچوں کو حلال قرار دیا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ (ذبح شدہ حلال جانور کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ)مُردہ ہے تو بھی یہ حرمت سے مستثنیٰ ہو گا،جیسے مردار کی حرمت سے مچھلی اور جراد(ٹڈی)مستثنیٰ ہے،چہ جائیکہ یہ مُردہ ہے ہی نہیں۔پیٹ کا بچہ ماں کے اجزاء میں سے ایک جزء ہوتا ہے۔ذبح کرنے سے جانور کے تمام اجزاء ذبح ہو جاتے ہیں، ہر ہر جزوِ جسم کو الگ الگ ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔پیٹ کا بچہ بھی ماں کا جزوِ جسم ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ذبح ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں اگر ہمیں سنت ِنبوی نہ بھی ملتی تو صحیح اصولوں کا تقاضا یہی تھا۔اب جبکہ اس بارے میں قیاس و اصول کے موافق سنت ِنبوی بھی مل گئی ہے، تو اسے ردّ کرنا کیسے جائز ہوا؟۔‘‘
(إعلام الموقعین عن رب العالمین : 334/2)
علامہ ابو محمد،ابن قدامہ،مقدسیa(620-541ھ)فرماتے ہیں:
وَلِأَنَّ ہٰذَا إِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِ وَمَنْ بَعْدَہُمْ، فَلَا یُعَوَّلُ عَلٰی مَا خَالَفَہٗ، وَلِأَنَّ الْجَنِینَ مُتَّصِلٌ بِہَا اتِّصَالَ خِلْقَۃٍ، یَتَغَذّٰی بِغِذَائِہَا، فَتَکُونُ ذَکَاتُہٗ ذَکَاتَہَا، کَأَعْضَائِہَا، وَلِأَنَّ الذَّکَاۃَ فِي الْحَیَوَانِ تَخْتَلِفُ عَلٰی حَسَبِ الْإِمْکَانِ فِیہِ وَالْقُدْرَۃِ، بِدَلِیلِ الصَّیْدِ الْمُمْتَنِعِ وَالْمَقْدُورِ عَلَیْہِ وَالْمُتَرَدِّیَۃِ، وَالْجَنِینُ لَا یُتَوَصَّلُ إلٰی ذَبْحِہٖ بِأَکْثَرَ مِنْ ذَبْحِ أُمِّہٖ، فَیَکُونُ ذَکَاۃً لَہٗ ۔
’’صحابہ کرام اور بعد والے اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے(کہ ماں کے ذبح ہونے سے اس کے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے)،لہٰذا اس کے خلاف کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔دوسری بات یہ ہے کہ پیٹ کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ تخلیقی حوالے سے متصل ہوتا ہے، اسی کی غذا سے وہ غذا پاتا ہے۔یوں ماں کے ذبح ہونے سے اس کے دوسرے اعضاء کی طرح وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ جانوروں میں ذبح کا طریقہ امکان و قدرت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ جس شکار کو زندہ پکڑنے پر انسان قادر نہ ہو اورجس کو زندہ پکڑ لینے پر قادر ہو اور کنویں وغیرہ میں گر گیاہو، ان کو ذبح کا طریقہ الگ الگ ہے۔اسی طرح پیٹ کے بچے کو صرف اسی طرح ذبح کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کر دیا جائے۔یوں اس کی ماں کو ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جائے گا۔‘‘
(المغني : 401/9)
نیز امام ابن منذرaسے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کَانَ النَّاسُ عَلٰی إِبَاحَتِہٖ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنْہُمْ خَالَفَ مَا قَالُوا إِلٰی أَنْ جَائَ النُّعْمَانُ، فَقَالَ : لَا یَحِلُّ، لِأَنَّ ذَکَاۃَ نَفْسٍ لَّا تَکُونُ ذَکَاۃَ نَفْسَیْنِ ۔
’’لوگ (صحابہ و تابعین اور اہل علم)اس(جانور کے پیٹ کے بچے )کو حلال ہی سمجھتے تھے۔ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے صحابہ و تابعین اور اہل علم کی اس بات میں مخالفت کی ہو،حتی کہ نعمان(امام ابوحنیفہ)آئے اور کہا کہ یہ حلال نہیں،(اور یہ عقلی دلیل دی) کہ ایک جان کو ذبح کرنے سے دو جانیں ذبح نہیں ہوتیں۔‘‘(المغني : 401/9)
علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَبِالْجُمْلَۃِ، فَقَوْلُ مَنْ قَالَ بِمُوَافَقَۃِ الْحَدِیثِ أَقْوٰی ۔
’’الحاصل، جس کا قول حدیث کے موافق ہے،وہی زیادہ قوی ہے۔‘‘
(التعلیق الممجّد علی المؤطّإ لمحمّد : 287)
بعض احناف مقلدین نے اس صحیح حدیث کو اپنے بے دلیل مذہب کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور کہہ دیا ہے کہ اس حدیث میں ذَکَاۃُ أُمِّہٖ کو ذَکَاۃَ أُمِّہٖ ،یعنی نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا ،یوں اس کا معنیٰ یہ ہو گاکہ بچے کو بھی اس کی ماں کی طرح ذبح کیا جائے۔یہ ایسی مردود اور باطل تاویل ہے،جو صحابہ و تابعین اور محدثین کرام کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔یہ حدیث بھی اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔
مشہور لغوی،علامہ نوویa(676-631ھ)اس باطل تاویل کے ردّ میں فرماتے ہیں:
وَالرِّوَایَۃُ الْمَشْہُورَۃُ : ذَکَاۃُ أُمِّہٖ، بِرَفْعِ ذَکَاۃٍ، وَبَعْضُ النَّاسِ یَنْصِبُہَا، وَیَجْعَلُہَا بِالنَّصْبِ دَلِیلًا لِّأَصْحَابِ أَبِي حَنِیفَۃَ، رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، فِي أَنَّہٗ لَا یَحِلُّ إِلَّا بِذَکَاۃٍ، وَیَقُولُونَ : تَقْدِیرُہٗ [کَذَکَاۃِ أُمِّہٖ]، حُذِفَتِ الْکَافُ، فَانْتَصَبَ، وَہٰذَا لَیْسَ بِشَيئٍ، لِأَنَّ الرِّوَایَۃَ الْمَعْرُوفَۃَ بِالرَّفْعِ ۔
وَکَذَا نَقَلَہُ الْإِمَامُ أَبُو سُلَیْمَانَ الْخَطَّابِيُّ وَغَیْرُہٗ، وَتَقْدِیرُہٗ عَلَی الرَّفْعِ یَحْتَمِلُ أَوْجُہًا، أَحْسَنُہَا أَنَّ [ذَکَاۃُ الْجَنِینِ] خَبَرٌ مُّقَدَّمٌ، وَ[ذَکَاۃُ أُمِّہٖ] مُبْتَدَأٌ، وَالتَّقْدِیرُ : ذَکَاۃُ أُمِّ الْجَنِینِ ذَکَاۃٌ لَّہٗ، کَقَوْلِ الشَّاعِرِ : بَنُونَا بَنُو أَبْنَائِنَا، وَنَظَائِرِہٖ، وَذٰلِکَ لِأَنَّ الْخَبَرَ مَا حَصَلَتْ بِہِ الْفَائِدَۃُ، وَلَا تَحْصُلُ إِلَّا بِمَا ذَکَرْنَاہُ، وَأَمَّا رِوَایَۃُ النَّصْبِ عَلٰی تَقْدِیرِ صِحَّتِہَا، فَتَقْدِیرُہَا [ذَکَاۃُ الْجَنِینِ حَاصِلَۃٌ وَقْتَ ذَکَاۃِ أُمِّہٖ]، وَأَمَّا قَوْلُہُمْ : تَقْدِیرُہٗ [کَذَکَاۃِ أُمِّہٖ]، فَلاَ یَصِحُّ عِنْدَ النَّحْوِیِّینَ بَلْ ہُوَ لَحْنٌ، وَإِنَّمَا جَائَ النَّصْبُ بِإِسْقَاطِ الْحَرْفِ فِي مَوَاضِعَ مَعْرُوفَۃٍ عِنْدَ الْکُوفِیِّینَ بِشَرْطٍ لَیْسَ مَوْجُودًا ہٰہُنَا ۔
’’مشہور روایت ذَکَاۃُ أُمِّہٖ یعنی رفع کے ساتھ ہی ہے۔البتہ بعض الناس اسے نصب سے پڑھتے ہیں اور اسے امام ابوحنیفہaکے مقلدین کے لیے اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ پیٹ کا بچہ ذبح کرنے ہی سے ذبح ہو گا۔ان کا کہنا ہے کہ اصل عبارت کَذَکَاۃِ أُمِّہٖ ہے،یعنی پیٹ کا بچہ اپنی ماں کی طرح ذبح ہو گا۔کاف کو حذف کر دیا گیا تو یہ منصوب ہو گیا۔ لیکن یہ بات بالکل فضول ہے۔امام ابوسلیمان خطابی وغیرہ نے اسے اسی طرح(رفع کے ساتھ)ہی نقل کیا ہے۔رفع کی حالت میں اصل عبارت کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔سب سے بہتر یہ ہے کہ ذَکَاۃُ الْجَنِینِ کو خبر مقدم بنایا جائے اور ذَکَاۃُ أُمِّہٖ مبتدا ہو۔اصل عبارت یوں ہو گی ذَکَاۃُ أُمِّ الْجَنِینِ ذَکَاۃٌ لَّہٗ(ماں کا ذبح پیٹ کے بچے کے لیے بھی ذبح ہے)، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : بَنُونَا بَنُو أَبْنَائِنَا (ہمارے بیٹوں کے بیٹے بھی ہمارے بیٹے ہیں)،وغیرہ۔اس لیے کہ خبر وہ ہوتی ہے،جس سے کوئی فائدہ حاصل ہو اور فائدہ تب حاصل ہو گا، جب ہماری مذکورہ صورت مراد لی جائے۔رہی نصب والی صورت تو اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو اصل عبارت یہ ہو گی [ذَکَاۃُ الْجَنِینِ حَاصِلَۃٌ وَقْتَ ذَکَاۃِ أُمِّہٖ] کہ پیٹ کا بچہ اسی وقت ذبح ہو جاتا ہے جب اس کی ماں کو ذبح کیا جاتا ہے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ اصل عبارتکَذَکَاۃِ أُمِّہٖہے ، یہ نحویوں کے ہاں درست نہیں،بلکہ غلط ہے،کیونکہ صرف کوفیوں کے ہاں کسی حرف کے حذف ہونے سے نصب آتی ہے اور وہ خاص ہے بعض معروف مقامات کے ساتھ اور وہ بھی ایک شرط کے پورا ہونے پر، جو یہاں پائی ہی نہیں جا رہی۔‘‘
(تہذیب الأسماء واللّغات : 112/3)
علامہ زیلعی حنفی(م : 762ھ)بعض الناس کے ردّ میں لکھتے ہیں:
وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ فِي مُخْتَصَرِہٖ : وَقَدْ رَوٰی ہٰذَا الْحَدِیثَ بَعْضُہُمْ لِغَرَضٍ لَّہٗ : [ذَکَاۃُ الْجَنِینِ ذَکَاۃَ أُمِّہٖ]، بِنَصْبِ [ذَکَاۃ] الثَّانِیَۃِ، لِتُوجِبَ ابْتِدَائَ الذَّکَاۃِ فِیہِ إذَا خَرَجَ، وَلَا یُکْتَفٰی بِذَکَاۃِ أُمِّہٖ، وَلَیْسَ بِشَيْئٍ، وَإِنَّمَا ہُوَ بِالرَّفْعِ، کَمَا ہُوَ الْمَحْفُوظُ عَنْ أَئِمَّۃِ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَأَبْطَلَہٗ بَعْضُہُمْ بِقَوْلِہٖ : ’فَإِنَّ ذَکَاتَہٗ ذَکَاۃُ أُمِّہٖ‘، لِأَنَّہٗ تَعْلِیلٌ لِّإِبَاحَتِہٖ، مِنْ غَیْرِ إحْدَاثِ ذَکَاۃٍ ۔
’’علامہ منذریaنے مختصر السنن میں فرمایا ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے خاص مقصد کے تحت اس حدیث کو دوسرے لفظ ذَکَاۃ کی نصب کے ساتھ [ذَکَاۃُ الْجَنِینِ ذَکَاۃَ أُمِّہٖ] روایت کیا ہے،تاکہ اس حدیث سے بچے کے پیٹ سے نکلنے کے بعد اسے دوبارہ ذبح کرنا ضرروی قرار دیا جائے اور اس کی ماں کے ذبح ہونے کو اس کے لیے کافی نہ سمجھا جا سکے۔ لیکن یہ فضول حرکت ہے۔یہ حدیث لفظ ِذَکَاۃ کے رفع کے ساتھ ہی ہے، جیسا کہ ائمہ حدیث سے ثابت ہے۔بعض محدثین کرام نے اس بات کا ردّ حدیث میں موجود ان الفاظ سے کیا ہے :’فَإِنَّ ذَکَاتَہٗ ذَکَاۃُ أُمِّہٖ‘ ،کیونکہ یہ الفاظ تو بغیر ذبح کیے جانے والے بچے کے حلال ہونے کی علت کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔‘‘(نصب الرایۃ : 191/4، 192)
علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی نے بھی یوں اس کا ردّ کیا ہے :
وَفِیہِ نَظَرٌ، فَإِنَّ الْمَحْفُوظَ عَنْ أَئِمَّۃِ الشَّأْنِ الرَّفْعُ، صَرَّحَ بِہِ الْمُنْذِرِيُّ ۔
’’یہ محل نظر بات ہے،کیونکہ ائمہ حدیث سے رفع ہی منقول ہے۔علامہ منذریa نے اس بات کی صراحت کی ہے۔‘‘(التعلیق الممجّد علٰی مؤطّإ محمّد، ص : 287)
تنبیہ : بعض لوگوں نے اس مسئلے میں صحیح و صریح حدیث ِنبوی اور اجماعِ امت کے خلاف امام ابراہیم نخعی تابعی کا یہ قول پیش کیا ہے :
لَا یَکُونُ ذَکَاۃُ نَفْسٍ ذَکَاۃَ نَفْسَیْنِ، یَعْنِي أَنَّ الْجَنِینَ إِذَا ذُبِحَتْ أُمُّہٗ لَمْ یُؤْکَلْ حَتّٰی یُدْرَکَ ذَکَاتُہٗ ۔ ’’ایک جان کا ذبح دو جانوں کے ذبح کا کام نہیں دے سکتا،یعنی جب ماں کو ذبح کیا جائے تو اس کے پیٹ کا بچہ ذبح نہیں ہوگا،ہاں، اگر خود اس بچے کو بھی ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو وہ حلال ہو گا۔‘‘
(کتاب الآثار لمحمّد بن الحسن الشیباني، ص : 186)
لیکن امام ابراہیم نخعی سے یہ قول ثابت نہیں،کیونکہ :
1 صاحب ِکتاب محمد بن حسن شیبانی محدثین کے ہاں’’متروک‘‘ اور ’’کذاب‘‘ ہے۔
2 ان کے استاذ بھی باتفاقِ محدثین غیر معتبر اور غیر ثقہ ہیں۔
3 حماد بن ابو سلیمان ’’مختلط‘‘ راوی ہیں۔امام ابوحنیفہ ان لوگوں میں سے نہیں، جنہوں نے حماد سے اختلاط سے پہلے روایات لی ہیں،جیسا کہ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں:
وَلَمْ یُقْبَلْ مِنْ حَدِیثِ حَمَّادٍ إِلَّا مَا رَوَاہُ عَنْہُ الْقُدَمَائُ، شُعْبَۃُ وَسُفْیَانُ الثَّوْرِيُّ والدَّسْتَوَائِيُّ، وَمَنْ عَدَا ہٰؤُلَائِ رَوَوْا عَنْہُ بَعْدَ الِاخْتِلَاطِ ۔
’’حماد کی وہی حدیث قبول ہو گی جو اس سے اس کے پرانے شاگردوں ،یعنی شعبہ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی نے بیان کی ہے۔باقی لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد ہی روایات لی ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 119/1)
ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ تک تمام صحابہ و تابعین اور اہل علم کے نزدیک صحیح حدیث کی روشنی میں پیٹ کا بچہ اپنی ماں کے ذبح ہونے کے ساتھ ہی ذبح ہو جاتا ہے۔اب امام ابوحنیفہ کو یہ حدیث نہ ملی اور انہوں نے اپنی رائے سے یہ بات کہہ دی۔چاہیے تو یہ تھا کہ صحابہ و تابعین کے اجماع کی پاسداری کرتے ہوئے حدیث ِنبوی پر عمل کیا جاتا، لیکن بُرا ہو تقلید کا کہ وہ دین الٰہی کے مقابلے میں نیا دین کھڑا کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور تقلید جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
nnnnnnn
قَالَ بَعْضُ النَّاسِ!
جناب تقی عثمانی دیوبندی،علامہ زیلعی حنفی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’امام بخاریaحنفیہ پر اعتراض کرنے میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں اور انہیں [قَالَ بَعْضُ النَّاسِ]کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔‘‘(تقریر ترمذی : 503/1)
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.