1,612

وضو میں پاوں دھونا واجب ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے۔یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی مسئلہ ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے۔قرآن و سنت کے دلائل اسی پر شاہد ہیں۔آئیے اس بارے میں اجماعِ امت اور قرآن و سنت کے دلائل فہم سلف کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں :
اجماعِ امت
1 عبد الملک بن ابو سلیمان نے تابعی امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے پوچھا :
ہَلْ عَلِمْتَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمْسَحُ قَدَمَیْہِ ؟ ’’کیا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو جانتے ہیں کہ وہ (ننگے)پاؤں پر مسح کرتا ہو؟‘‘ تو انہوں نے فرمایا : لَا، وَاللّٰہِ ! مَا أَعْلَمُہٗ ۔
’’اللہ کی قسم! میں کسی ایسے صحابی کو نہیں جانتا۔‘‘(الطہور لأبي عبید القاسم بن سلّام : 357، وسندہٗ حسنٌ، شرح معاني الآثار للطحاوي : 34/1، وسندہٗ صحیحٌ)
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : أَدْرَکْتَ أَحَدًا مِّنْہُمْ یَمْسَحُ عَلَی الْقَدَمَیْنِ ؟
’’کیا آپ نے کسی صحابی کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا ہے؟‘‘ اس پر انہوں نے فرمایا :
مُحْدَثٌ ۔ ’’یہ صحابہ کرام کے بعد والوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 19/1، وسندہٗ حسنٌ)
2 امام حکم بن عُتَیْبَہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مَضَتِ السُّنَّۃُ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ، یَعْنِي بِغَسْلِ الْقَدَمَیْنِ ۔
’’وضو میں پاؤں دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی متواتر سنت ہے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 19,18/1، وسندہٗ حسنٌ)
3 امام ابن منذر رحمہ اللہ (319-242ھ)فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَجْمَعَ عَوَّامُّ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلٰی أَنَّ الَّذِي یَجِبُ عَلٰی مَنْ لَّا خُفَّ عَلَیْہِ غَسْلُ الْقَدَمَیْنِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ، وَقَدْ ثَبَتَتِ الْـأَخْبَارُ بِذٰلِکَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ أَصْحَابِہٖ ۔
’’عام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے موزے نہ پہن رکھے ہوں، اس پر ٹخنوں تک پاؤں کو دھونا فرض ہے۔اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کرام کے آثار ثابت ہیں۔‘‘(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 413/1)
4 ابن ہُبَیْرہ(م : 560ھ)فرماتے ہیں: وَاتَّفَقُوا (أَيِ الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَالشَّافِعِيُّ وَمَالِکٌ وَأَبُو حَنِیفَۃَ) عَلٰی وُجُوبِ غَسْلِ الْوَجْہِ کُلِّہٖ، وَغَسْلِ الْیَدَیْنِ مَعَ الْمِرْفَقَیْنِ، وغَسْلِ الرِّجْلَیْنِ مَعَ الْکَعْبَیْنِ، وَمَسْحِ الرَّأْسِ ۔
’’امام احمد،امام شافعی،امام مالک اور امام ابوحنیفہ سب کا اتفاق ہے کہ وضو میں پورے چہرے،کہنیوں سمیت ہاتھوں،ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھونا اور سر کا مسح کرنا فرض ہے۔‘‘
(الإفصاح : 72/1)
5 ابوبکر،ابن العربی،مالکی رحمہ اللہ (م : 543ھ)فرماتے ہیں:
ہٰذِہٖ سُنَّۃٌ، اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَیْہَا، وَرٰی أَئِمَّۃُ الْـأَحَادِیثَ الصِّحَاحَ فِیہَا ۔
’’یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔محدثین کرام نے اس بارے میں صحیح احادیث روایت کی ہیں۔‘‘(عارضۃ الأحوذي : 58/1)
6 حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعَ الْعُلَمَائُ عَلٰی وُجُوبِ غَسْلِ الْوَجْہِ، وَالْیَدَیْنِ، وَالرِّجْلَیْنِ، وَاسْتِیعَابِ جَمِیعِہِمَا بِالْغَسْلِ، وَانْفَرَدَتِ الرَّافِضَۃُ عَنِ الْعُلَمَائِ، فَقَالُوا : الْوَاجِبُ فِي الرِّجْلَیْنِ الْمَسْحُ، وَہٰذَا خَطَأٌ مِّنْہُمْ ۔
’’وضو میں چہرے،دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو مکمل دھونا واجب ہے،اس پر علمائے کرام کا اجماع ہے،لیکن رافضی اس مسئلے میں اہل علم سے جدا ہو گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وضو میں دونوں پاؤں کا مسح واجب ہے۔یہ ان کی خطا ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 107/3)
b نیز فرماتے ہیں: فَذَہَبَ جَمْعٌ مِّنَ الْفُقَہَائِ، مِنْ أَہْلِ الْفَتْوٰی فِي الْـأَعْصَارِ وَالْـأَمْصَارِ، إِلٰی أَنَّ الْوَاجِبَ غَسْلُ الْقَدَمَیْنِ مَعَ الْکَعْبَیْنِ، وَلَا یُجْزِیُٔ مَسْحُہُمَا، وَلَا یَجِبُ الْمَسْحُ مَعَ الْغَسْلِ، وَلَمْ یَثْبُتْ خِلَافُ ہٰذَا عَنْ أَحَدٍ یُّعْتَدُّ بِہٖ فِي الْإِجْمَاعِ، وَقَالَتِ الشِّیعَۃُ : الْوَاجِبُ مَسْحُہُمَا، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیرٍ وَالْجُبَّائِيُّ، رَأْسُ الْمُعْتَزِلَۃِ، : یَتَخَیَّرُ بَیْنَ الْمَسْحِ وَالْغَسْلِ ۔
’’ہر دور اور ہر علاقے کے اہل فتویٰ فقہائے کرام کے ایک جم غفیر کا مذہب ہے کہ وضو میں ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھونا فرض ہے،ان کا مسح کافی نہیں ہو گا،نیز مسح اور غسل بیک وقت فرض نہیں۔اس کے خلاف کوئی بات کسی بھی ایسے عالم سے ثابت نہیں جس کو اجماع کے انعقاد میں کوئی حیثیت دی جاتی ہو۔اس کے برعکس شیعہ کا کہنا ہے کہ دونوں پاؤں کا مسح کرنا فرض ہے،جبکہ محمد بن جریر اور معتزلہ کے سرغنہ جبائی کا کہنا ہے کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے کہ وہ پاؤں پر مسح کر لے یا ان کو دھو لے۔‘‘(شرح صحیح مسلم : 129/3)
تنبیہ بلیغ : اس عبارت میں مذکور محمد بن جریر سے مراد سنی مفسرابن جریر طبری رحمہ اللہ نہیں،بلکہ ابن جریر شیعہ ہے،کیونکہ سنی مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ تو وضو میں پاؤں کو دھونا فرض سمجھتے تھے اور اسے فرض نہ سمجھنے والوں کا خوب ردّ بھی کرتے تھے، جیسا کہ آئندہ سطور میں ہم ان سے نقل بھی کریں گے۔ جبکہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس ابن جریر کا ذکر کیا ہے، جو وضو میں پاؤں دھونے یا مسح کرنے میں اختیار کا قائل تھا۔
بعض لوگوں کو ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی ایک عبارت سے دھوکا لگ گیا اور انہوں نے پاؤں پر مسح یا ان کو دھونے کا اختیار دینے والے ابن جریر کو سنی مفسر،ابن جریر طبری رحمہ اللہ خیال کر لیا۔
اس کا ردّ کرتے ہوئے سنی مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ) فرماتے ہیں:
فَمِنَ الْعُلَمَائِ مَنْ یَّزْعُمُ أَنَّ ابْنَ جَرِیرٍ اثْنَانِ ؛ أَحَدُہُمَا شِیعِيٌّ، وَإِلَیْہِ یُنْسَبُ ذٰلِکَ، وَیُنَزِّہُونَ أَبَا جَعْفَرٍ مِّنْ ہٰذِہِ الصِّفَاتِ، وَالَّذِي عُوِّلَ عَلَیْہِ کَلَامُہٗ فِي التَّفْسِیرِ أَنَّہٗ یُوجِبُ غَسْلَ الْقَدَمَیْنِ، وَیُوجِبُ مَعَ الْغَسْلِ دَلْکَہُمَا، وَلَکِنَّہٗ عَبَّرَ عَنِ الدَّلْکِ بِالْمَسْحِ، فَلَمْ یَفْہَمْ کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ مُرَادَہٗ جَیِّدًا، فَنَقَلُوا عَنْہُ أَنَّہٗ یُوجِبُ الْجَمْعَ بَیْنَ الْغَسْلِ وَالْمَسْحِ ۔
’’بعض علمائے کرام یہ بتا دیا ہے کہ ابن جریر دو ہیں؛ ایک شیعہ ہے اور اسی کی طرف ایسی باتیں منسوب ہیں۔یہ اہل علم ابوجعفر(طبری رحمہ اللہ )کو ان صفات سے پاک قرار دیتے ہیں۔وضو میں بیک وقت پاؤں دھونے اور مسح کرنے کی فرضیت کے بارے میں ان کی تفسیر کی جس عبارت کو دلیل بنایا گیا ہے،اس میں [دَلْک](دھوتے وقت پاؤں کو)ملنے کو مسح سے تعبیر کیا گیا ہے۔اکثر لوگ ان کی اس مراد کو اچھی طرح سمجھ نہیں پائے اور ان سے یہ نقل کرنا شروع کر دیا کہ وہ وضو میں بیک وقت پاؤں کو دھونا اور ان پر مسح کرنا واجب قرار دیتے ہیں۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 167/11)
ہندوستان کے مشہور عالم،علامہ،ابوالحسن،عبیداللہ،مبارکپوری رحمہ اللہ (1414-1327ھ) وضو کے سلسلے میں اہل علم کی طرف غلط باتوں کی نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَمِثْلُہٗ نِسْبَۃُ التَّخْیِیرِ إِلٰی مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبْرِيِّ، صَاحِبِ التَّارِیخِ الْکَبِیرِ وَالتَّفْسِیرِ الشَّہِیرِ، وَقَدْ نَشَرَ رُوَاۃُ الشِّیعَۃِ ہٰذِہِ الْـأَکَاذِیبَ الْمُخْتَلَقَۃَ، وَرَوَاہَا بَعْضُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، مِمَّنْ لَّمْ یُمَیِّزِ الصَّحِیحَ وَالسَّقِیمَ مِنَ الْـأَخْبَارِ، بِلَا تَحَقُّقٍ وَّلَا سَنَدٍ، وَاتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَی الرَّاقِعِ، وَلَعَلَّ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیرٍ الْقَائِلُ بِالتَّخْیِیرِ، ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیرِ بْنِ رُسْتَمٍ الشِّیعِيِّ، صَاحِبُ الْإِیضَاحِ لِلْمُتَرَشِّدِ فِي الْإِمَامَۃِ، لَا أَبُوجَعْفَرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیرِ بْنِ غَالِبٍ، الطَّبْرِيُّ الشَّافِعِيُّ، الَّذِي ہُوَ مِنْ أَعْلَامِ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَالْمَذْکُورُ فِي تَفْسِیرِ ہٰذَا، ہُوَ الْغَسْلُ فَقَطْ، لاَ الْمَسْحُ، وَلَا الْجَمْعُ، وَلَا التَّخْیِیرُ الَّذِي نَسَبَہُ الشِّیعَۃِ إِلَیْہِ ۔
’’اسی طرح کا معاملہ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ ،جو کہ تاریخ کبیر اور مشہور تفسیر کے مصنف ہیں،کی طرف اس بات کی نسبت کا ہے کہ وضو میں پاؤں دھونے اور مسح کرنے میں اختیار ہے۔یہ خود تراشیدہ جھوٹ شیعہ راویوں نے پھیلائے ہوئے ہیں اور صحت و سقم کی تمیز نہ رکھنے والے بعض سنی لوگوں نے ان جھوٹی باتوں کو بلا تحقیق و سند نقل کر کے بے گناہ کو مجرم قرار دے دیا ہے۔جو محمد بن جریر وضو میں پاؤں کو دھونے یا مسح کرنے کے اختیار کا قائل ہے، وہ غالباً محمد بن جریر بن رستم شیعہ ہے،جو کہ[اَلْإِیْضَاحُ لِلْمُتَرَشِّدِ فِي الْإِمَامَۃِ]نامی کتاب کا مصنف ہے،نہ کہ ابوجعفر،محمد بن جریر بن غالب،طبری،شافعی،جو کہ اہل سنت کے کبار علماء میں سے ایک ہیں۔ان کی تفسیر میں صرف پاؤں کو دھونے کا ذکر ہے، مسح کرنے کا نہیں،نہ ہی بیک وقت دونوں کام کرنے کا۔شیعہ نے خواہ مخواہ ان کے ذمے یہ بات لگائی ہے۔‘‘(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 102/2)
b علامہ نووی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
فَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، وَلَمْ یُخَالِفْ فِي ذٰلِکَ مَنْ یُّعْتَدُّ بِہٖ ۔ ’’مسلمانوں کا وضو میں پاؤں دھونے کی فرضیت پر اجماع ہے۔اس حوالے سے کسی ایسے عالم نے مخالفت نہیں کی،جس کی کوئی علمی حیثیت ہو۔‘‘
(المجموع شرح المہذّب : 417/1)
7 ابن نُجَیْم حنفی(م : 970ھ)لکھتے ہیں :
فَإِنَّ الْإِجْمَاعَ انْعَقَدَ عَلٰی غَسْلِہِمَا، وَلَا اعْتِبَارَ بِخِلَافِ الرَّوَافِضِ ۔
’’وضو میں پاؤں کو دھونے پر اجماع ہو چکا ہے۔رافضیوں کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘
(البحر الرائق : 14/1)
فائدہ : ابو المحاسن،مفضل بن محمد،تنوخی،حنفی،معتزلی،شیعی(م : 442ھ) نے وضو میں پاؤں دھونے کے وجوب پر ایک رسالہ [وُجُوبُ غَسْلِ الْقَدَمَیْنِ] بھی لکھا ہے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 92/60، وسندہٗ صحیحٌ)
مشہور فقیہ وادیب،سُلَیْم بن ایوب،ابو الفتح،رازی(م : 447ھ)نے بھی ’’غسل الرجلین‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔(سیر أعلام النبلاء للذہبي : 647/17)
معروف فقیہ ،علامہ،ابو الولید،باجی،مالکی(474-403ھ)نے بھی ’’غسل الرجلین‘‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔(طبقات المفسّرین للداودي : 210/1)
قرآنی دلیل
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ}
(المائدۃ 5 : 6)
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں،کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں کو دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔‘‘
قرآنِ کریم کی اس آیت ِکریمہ میں پاؤں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے۔اس آیت کی صحیح تفسیر یہی ہے،کیونکہ :
1 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے معتبر مفسر قرآن ہیں اور جو وحی ٔالٰہی کی روشنی میں قرآنی آیات کی تفسیر اپنے قول و فعل اور تقریر سے فرماتے ہیں،انہوں نے وضو میں ننگے پاؤں کو دھونے ہی کی تعلیم دی ہے،ان پر مسح کرنے کی نہیں،جیسا کہ :
صحابی ٔ رسول،سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قُلْتُ : یَا نَبِيَّ اللّٰہِ ! أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوئِ، قَالَ : ’مَا مِنْکُمْ مِّنْ أَحَدٍ یَّقْرَبُ وَضُوئَ ہٗ، ثُمَّ یَتَمَضْمَضُ وَیَسْتَنْشِقُ وَیَنْتَثِرُ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَاہُ مِنْ فَمِہٖ وَخَیَاشِیمِہٖ مَعَ الْمَائِ، حِینَ یَنْتَثِرُ، ثُمَّ یَغْسِلُ وَجْہَہٗ، کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا وَجْہِہٖ مِنْ أَطْرَافِ لِحْیَتِہٖ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا یَدَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِہٖ، ثُمَّ یَمْسَحُ رَأْسَہٗ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا رَأْسِہٖ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِہٖ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ، کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا قَدَمَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِہٖ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَقُومُ، فَیَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، وَیُثْنِی عَلَیْہِ بِالَّذِي ہُوَ لَہٗ أَہْلٌ، ثُمَّ یَرْکَعُ رَکْعَتَیْنِ، إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِہٖ، کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ أُمُّہٗ‘ ۔
’’میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! مجھے وضو کے بارے میں خبر دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب وضو شروع کرتا ہے اور کلی کرتے ہوئے اپنے ناک میں پانی ڈالتا ہے اور جھاڑتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے منہ اور اس کے ناک سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔پھر وہ اللہ کے حکم کے مطابق چہرہ دھوتاہے تو اس کے چہرے کے گناہ پانی کے ساتھ اس کی ڈاڑھی کے اطراف سے گِر جاتے ہیں۔پھر وہ کہنیوں سمیت اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کی انگلیوں کے کناروں سے اس کے ہاتھوں کے گناہ گِر جاتے ہیں۔پھر وہ سر کا مسح کرتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے سر کے گناہ بالوں کے کناروں سے گِر جاتے ہیں۔ پھر جب وہ اللہ کے حکم کے مطابق ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں دھوتاہے تو اس کے پاؤں کے گناہ پانی کے ساتھ پاؤں کی انگلیوں کے کناروں سے گِر جاتے ہیں۔پھر وہ کھڑا ہوتا ہے، اللہ کی شان کے لائق اس کی حمد و ثنا کرتا ہے،پھر دو رکعتیں ادا کرتا ہے تو اس کے (باقی ماندہ)گناہ (بھی)نکل جاتے ہیں،بالکل اس دن کی طرح،جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 112/4، صحیح مسلم : 832، صحیح ابن خزیمۃ : 165)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں پاؤں کے دھونے کا حکم دیا ہے۔وہ حکم کہاں ہے؟اسی آیت ِکریمہ ہی میں تو ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَفِي ذٰلِکَ دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَمَر بِغَسْلِہِمَا ۔
’’یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 68/1)
خاتمۃ المفسرین،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں:
وَفِیہِ : ’ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ، کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ‘، فَدَلَّ عَلٰی أَنَّ الْقُرْآنَ یَأْمُرُ بِالْغَسْلِ ۔ ’’اس حدیث میں مذکور ہے کہ پھر وضو کرنے والا اللہ کے حکم کے مطابق اپنے پاؤں کو دھوئے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم پاؤں کو دھونے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
(تفسیر القرآن العظیم : 495/2)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل مبارک سے بھی پاؤں کو دھونے ہی کی تعلیم دی ہے اور زندگی میں کبھی بھی ننگے پاؤں پر مسح نہیں فرمایا۔اس پر تفصیلی بات آئندہ صفحات میں ہو گی۔
جو لوگ کہتے ہیںکہ {وَاَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ} میں {وَاَرْجُلَکُمْ}کو زبر کی بجائے زیر سے پڑھتے ہوئے اس کا عطف {بِرُئُ وْسِکُمْ} پر کریں گے اور جس طرح سر کا مسح کیا جاتا ہے،اسی طرح پاؤں پر بھی مسح کیا جائے گا،ان کا ردّ اس حدیث سے ہو جاتا ہے۔
زبر پڑھیں یا زیر،دونوں قراء تیں صحیح ہیں،لیکن دونوں صورتوں میں معنیٰ پاؤں کو دھونے ہی کا ہو گا،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے یہ بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل مبارک سے بھی یہی ثابت کیا ہے۔حدیث ہی قرآن کی سب سے معتبر تفسیر و تشریح ہے۔
علامہ ماوردی (450-364ھ)لکھتے ہیں :
غَسْلُ الرِّجْلَیْنِ فِي الْوُضُوئِ مُجْمَعٌ عَلَیْہِ بِنَصِّ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، وَفَرْضُہَا عِنْدَ کَافَّۃِ الْفُقَہَائِ الْغَسْلُ دُونَ الْمَسْحِ ۔
’’وضو میں پاؤں کو دھونا کتاب و سنت کی نصوص سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے۔ تمام فقہاء کرام کے نزدیک پاؤں کا فرض ان کو دھونا ہے،نہ کہ ان کا مسح کرنا۔‘‘
(الحاوي الکبیر : 148/1)
علامہ کاسانی،حنفی(م : 587ھ)لکھتے ہیں :
وَقَدْ ثَبَتَ بِالتَّوَاتُرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَسَلَ رِجْلَیْہِ فِي الْوُضُوئِ، لَا یَجْحَدُہٗ مُسْلِمٌ، فَکَانَ قَوْلُہٗ وَفِعْلُہٗ بَیَانَ الْمُرَادِ بِالْـآیَۃِ ۔
’’یہ بات تواتر سے ثابت ہو چکی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے۔کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کر سکتا۔چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل،قرآنِ کریم کی آیت ِمبارکہ کی تفسیر ہے۔‘‘(بدائع الصنائع : 6/1)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں :
ہٰذِہِ الْآیَۃُ الْکَرِیمَۃُ دَالَّۃٌ عَلٰی وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، مَعَ مَا ثَبَتَ بِالتَّوَاتُرِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَلٰی وَفْقِ مَا دَلَّتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ الْکَرِیمَۃُ، وَہُمْ مُّخَالِفُونَ لِذٰلِکَ کُلِّہٖ، وَلَیْسَ لَہُمْ دَلِیلٌ صَحِیحٌ فِي نَفْسِ الْـأَمْرِ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔ ’’یہ آیت ِکریمہ وضو میں پاؤں دھونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے،پھر تواتر کے ساتھ اس آیت ِکریمہ کے موافق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مبارک بھی ثابت ہو گیا ہے۔رافضی لوگ ان سب دلائل کی مخالفت کرتے ہیں،حالانکہ ان کے پاس اس مسئلے میں کوئی بھی صحیح دلیل نہیں،وللہ الحمد!۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 497/2)
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي صِفَۃِ وُضُوئِہٖ، أَنَّہٗ غَسَلَ رِجْلَیْہِ، وَہُوَ الْمُبَیِّنُ لِأَمْرِ اللّٰہِ، وَقَدْ قَالَ فِي حَدِیثِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ، الَّذِي رَوَاہُ ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَغَیْرُہٗ مُطَوَّلًا فِي فَضْلِ الْوُضُوئِ، : ’ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ، کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ‘ ۔ ’’وضو کے بیان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی حکم الٰہی کی وضاحت کرتے ہیں۔سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ لمبی حدیث،جسے امام ابن خزیمہ وغیرہ نے وضو کی فضیلت میں بیان کیا ہے،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پھر وہ اپنے دونوں پاؤں کو دھوئے،جیسا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔‘‘(فتح الباري : 266/1)
زبر والی قراء ت!
عکرمہ رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إِنَّہٗ قَرَأَ : {وَاَرْجُلَکُمْ} ، یَعْنِي : رَجَعَ الْـأَمْرُ إِلَی الْغَسْلِ ۔
’’انہوں نے زبر کے ساتھ پڑھا،یعنی اس آیت میں پاؤں کو دھونے کا حکم ہے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 19/1، وسندہٗ صحیحٌ)
امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رَجَعَ الْقُرْآنُ إِلَی الْغَسْلِ، وَقَرَأَ : {وَاَرْجُلَکُمْ}، وَنَصَبَہَا ۔ ’’قرآنِ کریم کا حکم دھونے کی طرف لوٹتا ہے، انہوں نے نصب کے ساتھ پڑھا۔‘‘(شرح معاني الآثار للطحاوي : 40/1، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ضحاک بن مزاحم تابعی رحمہ اللہ نے اس آیت ِکریمہ کو زبر کے ساتھ پڑھا اور فرمایا :
اِغْسِلُوہَا غَسْلًا ۔ ’’پاؤں کو اچھی طرح دھوؤ۔‘‘
(تفسیر الطبري : 194/8، وسندہٗ صحیحٌ)
عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے :
إِنَّہٗ قَرَأَہَا بِذٰلِکَ {وَاَرْجُلَکُمْ}، وَقَالَ : عَادَ إِلَی الْغَسْلِ ۔
’’انہوں نے زبرکے ساتھ پڑھا اور فرمایا : اس کا عطف دھونے پر ہے۔‘‘
(الطہور للإمام القاسم بن سلّام : 359، وسندہٗ صحیحٌ)
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اسے زبر کے ساتھ پڑھنا ہے یا زیر کے ساتھ؟ تو فرمایا:
إِنَّمَا ہُوَ الْغَسْلُ، وَلَیْسَ بِالْمَسْحِ، لَا تُمْسَحُ الْـأَرْجُلُ، إِنَّمَا تْغْسَلُ ۔
’’جیسے بھی پڑھا جائے،مراد دھونا ہی ہے،مسح کرنا نہیں۔پاؤں پر مسح نہیں ہو گا ،بلکہ ان کو دھویا ہی جائے گا۔‘‘ پھر آپ سے پوچھا گیا کہ جو پاؤں پر مسح کر لے،کیا اس کا وضو ہو جائے گا؟ تو فرمایا : نہیں۔(تفسیر الطبري : 194/8، وسندہٗ صحیحٌ)
مقریٔ مدینہ،تلمیذ نافع،مشہور مجود و نحوی،عیسیٰ بن مینائ،قالون رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قَرَأْتُ عَلٰی نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي نُعَیْمٍ الْقَارِیِٔ ہٰذِہِ الْقِرَائَ ۃَ غَیْرَ مَرَّۃٍ، نَذْکُرُ فِیہَا : {بِرُئُ وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ} مَفْتُوحَۃً ۔
’’میں نے امام و قاری،نافع بن عبد الرحمن بن ابو نعیم کے پاس کئی مرتبہ یہ قراء ت پڑھی۔ہم اس میں زبر کے ساتھ یوں پڑھتے تھے : {بِرُئُ وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ} ۔
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 71/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَنَحْنُ نَقْرَأُہَا : {بِرُئُ وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ} عَلٰی مَعْنٰی : اغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ، وَأَیْدِیَکُمْ، وَأَرْجُلَکُمْ، وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِکُمْ ۔
’’ہم اسے زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ اپنے چہروں،ہاتھوں اور پاؤں کو دھوؤ اور سروں کا مسح کرو۔‘‘(کتاب الأمّ : 42/1)
امام،اسماعیل بن عبدالرحمن،سدی کبیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَیَقُولُ : اغْسِلُوا وُجُوھَکُمْ، وَاغْسِلُوا أَرْجُلَکُمْ، وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِکُمْ، فَہٰذَا مِنَ التَّقْدِیمِ وَالتَّأْخِیرِ ۔ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے چہروں اور پاؤں کو دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو۔یہ تقدیم و تاخیر کے قبیل سے ہے۔‘‘
(تفسیر الطبري : 192/8، وسندہٗ حسنٌ)
امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَبِالْقِرَائَ ۃِ الْـأُولٰی نَقْرَأُہَا {وَاَرْجُلَکُمْ}، وَالدَّلِیلُ عَلٰی صِحَّۃِ ہٰذِہِ الْقِرَاء َۃِ الْـأَخْبَارُ الثَّابِتَۃُ عَنْ نَّبِيِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، الدَّالَّۃُ عَلٰی ذٰلِکَ، وَہُوَ أَنَّہٗ غَسَلَ رِجْلَیْہِ، وَفِي غَسْلِہٖ رِجْلَیْہِ دَلِیلٌ عَلٰی صِحَّۃِ مَا قُلْنَا، لِأَنَّہُ الْمُبِینُ عَنِ اللّٰہِ، وَعَنْ مَعْنٰی مَا أَرَادَ بِقَوْلِہٖ : {وَاَرْجُلِکُمْ} ۔ ’’ہم پہلی(زبر والی)قراء ت کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں۔اس قراء ت کے صحیح ہونے کی دلیل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ وہ احادیث ہیں،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں دھونے کا ذکر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں دھونا ہمارے مؤقف کے صحیح ہونے کی بھی دلیل ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضاحت کرنے والے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مراد بتانے والے ہیں۔‘‘
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 412/1)
سنی امام،ابوجعفر،محمدبن جریر،طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)فرماتے ہیں:
اِخْتَلَفَتِ الْقُرَّائُ فِي قِرَائَ ۃِ ذٰلِکَ، فَقَرَأَہٗ جَمَاعَۃٌ مِّنْ قُرَّائِ الْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ : {وَاَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ} نَصْبًا، فَتَأْوِیلُہٗ : إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ، فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ، وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ، وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ، وَامْسَحُوا بِرُئُ وسِکُمْ، وَإِذَا قُرِیَٔ کَذٰلِکَ، کَانَ مِنَ الْمُؤَخَّرِ الَّذِي مَعْنَاہُ التَّقْدِیمُ، وَتَکُونُ الْـأَرْجُلُ مَنْصُوبَۃً عَطْفًا عَلَی الْـأَیْدِي، وَتَأَوَّلَ قَارِئُ وا ذٰلِکَ کَذٰلِکَ : أَنَّ اللّٰہَ جَلَّ ثَنَاؤُہٗ إِنَّمَا أَمَرَ عِبَادَہٗ بِغُسْلِ الْـأَرْجِلِ، دُونَ الْمَسْحِ بِہَا ۔
’’قرائِ کرام اس مقام کی قراء ت میں مختلف ہوئے ہیں۔ حجاز اور عراق کے قرائے کرام کی ایک جماعت نے اسے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔اس کی تفسیر یہ ہو گی کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو پہلے اپنے چہروں،کہنیوں سمیت ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھو لو،نیز اپنے سروں کا مسح کر لو۔جب اسے نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا تو یہ لفظًا مؤخر اور معناً مقدم ہو گا۔[أَیْدِي](ہاتھوں)پر عطف کی بنا پر[ أَرْجُل] (پاؤں) کو منصوب پڑھا جائے گا۔زبر کے ساتھ پڑھنے والوں نے تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وضو میں پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے،مسح کا نہیں۔‘‘(تفسیر الطبري : 188/8)
زیر والی قراء ت اور اس کی صحیح تفسیر
زیر والی قراء ت بھی اگرچہ ثابت ہے،لیکن اس سے بھی پاؤں دھونے کی نفی نہیں ہوتی،بلکہ اس کی صحیح تفسیر بھی پاؤں کو دھونے ہی کی ہے، جیسا کہ :
صحابی ٔ رسول، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نَزَلَ الْقُرْآنُ بِالْمَسْحِ، وَالسُّنَّۃُ الْغُسْلُ ۔ ’’قرآن تو مسح کے الفاظ میں نازل ہوا اور سنت پاؤں کو دھونا ہے۔‘‘(تفسیر الطبري : 195/8، وسندہٗ حسنٌ)
مراد یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں سر کے مسح پر عطف کرتے ہوئے {وَاَرْجُلِکُمْ} کہا گیا،یعنی پاؤں پر مسح کا حکم دیا گیا،لیکن اس مسح کا صحیح معنیٰ دھونا ہے،جیسا کہ قولی و فعلی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔
مسح کا معنیٰ دھونا کیسے ہو سکتا ہے؟عربی زبان میں مسح دھونے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔عربی دان لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔نزّال بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ کی بیان کردہ ایک صحیح حدیث،جو ہم آئندہ صفحات میں ذکر کریں گے،میں مسح دھونے کے معنیٰ میں مستعمل ہے،نیز خود اس قول کے قائل، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل یہی بتاتا ہے، جیسا کہ :
b مشہور تابعی، حُمَیْد طویل بیان کرتے ہیں : إِنَّ أَنَسًا کَانَ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ وَرِجْلَیْہِ، حَتّٰی یَسِیلَ الْمَائُ ۔ ’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں کو اتنا دھوتے کہ پانی بہنے لگتا۔‘‘(مصنف ابن أبي شیبۃ : 18/1، الأوسط لابن المنذر : 414/1، وسندہٗ صحیحٌ)
b نیز حمید طویل یہ بھی بیان کرتے ہیں :
قَالَ مُوسَی بْنُ أَنَسٍ لِّأَنَسٍ، وَنَحْنُ عِنْدَہٗ : یَا أَبَا حَمْزَۃَ ! إِنَّ الْحَجَّاجَ خَطَبَنَا بِالْـأَہْوَازِ، وَنَحْنُ مَعَہٗ، فَذَکَرَ الطُّہُورَ، فَقَالَ : اغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ وَامْسَحُوا بِرُئُ وسِکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ، وَإِنَّہٗ لَیْسَ شَيْئٌ مِّنِ ابْنِ آدَمَ أَقْرَبَ إِلٰی خَبَثِہٖ مِنْ قَدَمَیْہِ، فَاغْسِلُوا بُطُونَہُمَا وَظُہُورَہُمَا وَعَرَاقِیبَہُمَا، فَقَالَ أَنَسٌ : صَدَقَ اللّٰہُ، وَکَذَبَ الْحَجَّاجُ، قَالَ اللّٰہُ : {وَامْسَحُوا بِرُئُُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ}، قَالَ : وَکَانَ أَنَسٌ إِذَا مَسَحَ قَدَمَیْہِ بَلَّہُمَا ۔
’’ہم سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو ان کے بیٹے موسیٰ بن انس نے ان سے کہا : اے ابوحمزہ! ہم حجاج کے ساتھ اہواز میں تھے،اس نے ہمیں خطبہ دیا اور طہارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا : تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کو دھوؤ اور اپنے سروں اور پاؤں کا مسح کرو۔ابن آدم کے پاؤں سے زیادہ اس کی کوئی چیز اس کی خباثت کے قریب نہیں،لہٰذا تم اپنے پاؤں کی نچلی طرف،اوپر والی جانب اور ان کی ایڑھیاں اچھی طرح دھوؤ۔یہ سن کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے ،جبکہ حجاج نے جھوٹ بولا ہے۔اللہ تعالیٰ نے تو اتنا فرمایا ہے کہ : {وَامْسَحُوا بِرُئُُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ} (تم اپنے سروں اور پاؤں کا مسح کرو)۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب بھی اپنے پاؤں پر مسح کرتے تو انہیں بھگو لیتے۔‘‘
(تفسیر الطبري : 195/8، وسندہٗ صحیحٌ)
معلوم ہوا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک مسح والے قرآنی حکم سے مراد دھونا ہے،اسی لیے تو وہ خود اللہ کے حکم کو سنت ِنبوی کی روشنی میں بجا لاتے ہوئے اپنے پاؤں کو دھوتے تھے۔
رہی بات حجاج کو جھوٹا کہنے کی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اسے پاؤں دھونے کا حکم دینے کی بنا پر جھوٹا نہیں کہا،بلکہ اس کی اس خود ساختہ دلیل کو جھوٹ قرار دیا کہ انسان کے پاؤں اس کی نجاست کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔۔۔اگر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک پاؤں کو دھونا جھوٹ ہوتا تو وہ خود پاؤں کو کیوں دھوتے؟اور اسے سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کہتے؟
امام ابن منذر رحمہ اللہ زیر والی قراء ت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَقَدْ زَعَمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَّیْسَ فِي قِرَاء َۃِ مَنْ قَرَأَ {وَاَرْجُلِکُمْ} عَلَی الْخَفْضِ، مَا یُوجِبُ الْمَسْحَ دُونَ الْغَسْلِ، لِأَنَّ الْعَرَبَ رُبَّمَا نَسَقَتِ الْحَرْفَ عَلٰی طَرِیقَۃِ الْمُجَاوِرِ لَہٗ، قَالَ الْـأَعْشٰی :
لَقَدْ کَانَ فِي حَوْلٍ ثَوَائٍ ثَوَیْتُہٗ …… تُقَضِّي لُبَانَاتٍ وَّیَسْأَمُ سَائِمُ
قَالَ : فَخَفَضَ الثَّوائَ لِمُجَاوَرَتِہِ الْحَوْلَ، وَہُوَ فِي مَوْضِعِ رَفْعٍ، قَالَ : وَلُغَۃٌ مَّعْرُوفَۃٌ لِتَمِیمٍ قَوْلُہُمْ [جُحْرُ ضَبٍّ خَرِبٍ]، قَالَ : وَالْخَرِبُ صِفَۃٌ لِلْجُحْرِ، فَخَفَضُوہُ لِمُجَاوَرَتِہِ الضَّبَّ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَغَسْلُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رِجْلَیْہِ، وَقَوْلُہٗ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘، کِفَایَۃٌ لِّمَنْ وَفَّقَہُ اللّٰہُ لِلصَّوَابِ، وَدَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الَّذِي یَجِبُ غَسْلُ الْقَدَمَیْنِ، لَا الْمَسْحُ عَلَیْہِمَا، لِأَنَّہُ الْمُبِینُ عَنِ اللّٰہِ مَعْنٰی مَا أَرَادَ مِمَّا فَرَضَ فِي کِتَابِہٖ ۔
’’بعض اہل علم نے بتایا ہے کہ جر(زیر)کے ساتھ پڑھنے میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں جو دھونے کی بجائے مسح کو ضروری قرار دے،کیونکہ عرب لوگ کبھی کبھی قریبی لفظ کی بنا پر اعراب دے دیتے ہیں،جیسے شاعر اعشیٰ نے کہا ہے :
لَقَدْ کَانَ فِي حَوْلٍ ثَوَائٍ ثَوَیْتُہٗ …… تُقَضِّي لُبَانَاتٍ وَّیَسْأَمُ سَائِمُ
یہاں شاعر نے ثواء کو حول کے قریب ہونے کی بنا پر جر(زیر)دے دی،حالانکہ وہ محل رفع میں تھا۔اسی طرح بنو تمیم کی معروف لغت ہے کہ : [جُحْرُ ضَبٍّ خَرِبٍ] اس جملے میں لفظ [خرب]لفظ[جُحْر]کی صفت ہے،لیکن انہوں نے اسے لفظ [ضبّ]کے قریب ہونے کی بنا پر جر(زیر)دے دی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے اور فرمایا کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل‘نامی وادی ہے۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے حق قبول کرنے کی توفیق دی ہے ،اس کے لیے یہی بات کافی ہے۔یہ احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ وضو میں پاؤں کو دھونا ہی واجب ہے،مسح کرنا نہیں،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآنِ کریم میں فرض کی گئی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے تھے۔‘‘
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 414/1)
محدث ِاندلس،حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463-368ھ)فرماتے ہیں :
وَإِنْ کَانَتْ قَدْ قُرِئَتْ : {وَاَرْجُلِکُمْ}، بِالْجَرِّ، فَذٰلِکَ مَعْطُوفٌ عَلَی اللَّفْظِ، دُونَ الْمَعْنٰی، وَالْمَعْنٰی فِیہِ الْغَسْلُ، عَلَی التَّقْدِیمِ وَالتَّأْخِیرِ، فَکَأَنَّہٗ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ : إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوسِکُمْ، وَالْقِرَائَتَانِ بِالنَّصْبِ وَالْجَرِّ صَحِیحَتَانِ مُسْتَفِیضَتَانِ، وَالْمَسْحُ ضِدُّ الْغَسْلِ، وَمُخَالِفٌ لَّہٗ، وَغَیْرُ أَنْ تُبْطَلَ إِحْدَی الْقِرَاء َتَیْنِ بِالْـأُخْرٰی، مَا وُجِدَ إِلٰی تَخْرِیجِ الْجَمْعِ بَیْنَہُمَا سَبِیلٌ، وَقَدْ وَجَدْنَا الْعَرَبَ تَخْفِضُ بِالْجِوَارِ،۔۔۔، فَعَلٰی مَا ذَکَرْنَا تَکُونُ مَعْنَی الْقِرَائَۃِ بِالْجَرِّ النَّصْبُ، وَیَکُونُ الْخَفْضُ عَلَی اللَّفْظِ لِلْمُجَاوِرَۃِ، وَالْمَعْنَی الْغَسْلُ، وَقَدْ یُرَادُ بِلَفْظِ الْمَسْحِ الْغَسْلُ عِنْدَ الْعَرَبِ، مِنْ قَوْلِہِمْ : تَمَسَّحْتُ لِلصَّلَاۃِ، وَالْمُرَادُ الْغَسْلُ، وَیُشِیرُ إِلٰی ہٰذَا التَّأْوِیلِ کُلِّہٖ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’اگرچہ اسے زیر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے،لیکن یہ لفظ پر عطف ہے،معنیٰ پر نہیں۔ یہ تقدیم و تاخیر کے قبیل سے ہے اور اس کا معنیٰ دھونا ہی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں، کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں کو دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔نصب(زبر)اور جر(زیر) کے ساتھ دونوں قراء تیں صحیح اور مشہور ہیں۔(ظاہری طور پر اگرچہ)مسح دھونے کی ضد اور اس کے خلاف ہے،لیکن دونوں قراء توں میں ایک کو باطل کہنا اس وقت تک جائز نہیں،جب تک دونوں کی مطابقت و موافقت کا کوئی راستہ ہو۔ہم نے دیکھا ہے کہ عرب لوگ قرب کی بنا پر جر(زیر)دے دیتے ہیں۔۔۔ہمارے بیان کے مطابق جر(زیر)والی قراء ت کا معنیٰ نصب(زبر)والا ہی ہے،جبکہ جر(زیر) صرف قرب کی وجہ سے لفظی طور پر ہے، چنانچہ اس کا معنیٰ دھونا ہی ہے۔پھر کبھی عرب لوگ مسح کا لفظ دھونے پر بول دیتے ہیں،جیسا کہ عرب کہتے ہیں :[تَمَسَّحْتُ لِلصَّلَاۃِ](میں نے نماز کے لیے مسح کیا)اور مراد (وضو میں اعضاء کو)دھونا ہوتا ہے۔اسی معنیٰ کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘ (خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی’ویل‘ہے)۔‘‘
(التمہید لما في المؤطّإ من المعاني والأسانید : 255,254/24)
علامہ،محمدبن علی بن محمد،ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (792-731ھ)فرماتے ہیں :
وَلَفْظُ الْآیَۃِ لَا یُخَالِفُ مَا تَوَاتَرَ مِنَ السُّنَّۃِ، فَإِنَّ الْمَسْحَ کَمَا یُطْلَقُ وَیُرَادُ بِہِ الْإِصَابَۃُ، کَذٰلِکَ یُطْلَقُ وَیُرَادُ بِہِ الْإِسَالَۃُ، کَمَا تَقُولُ (الْعَرَبُ) : تَمَسَّحْتُ لِلصَّلَاۃِ، وَفِي الْآیَۃِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یُرِدْ بِمَسْحِ الرِّجْلَیْنِ الْمَسْحَ الَّذِي ہُوَ قَسِیمُ الْغَسْلِ، بَلِ الْمَسْحَ الَّذِي الْغَسْلُ قِسْمٌ مِّنْہُ، فَإِنَّہٗ قَالَ : {اِلَی الْکَعْبَیْنِ}، وَلَمْ یَقُلْ : إِلَی الْکِعَابِ، کَمَا قَالَ : {اِلَی الْمَرَافِقِ}، فَدَلَّ عَلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ فِي کُلِّ رِجْلٍ کَعْبٌ وَّاحِدٌ، کَمَا فِي کُلِّ یَدٍ مِّرْفَقٌ وَّاحِدٌ، بَلْ فِي کُلِّ رِجْلٍ کَعْبَانِ، فَیَکُونُ تَعَالٰی قَدْ أَمَرَ بِالْمَسْحِ إِلَی الْعَظْمَیْنِ النَّاتِئَیْنِ، وَہٰذَا ہُوَ الْغَسْلُ، فَإِنَّ مَنْ یَّمْسَحُ الْمَسْحَ الْخَاصَّ یَجْعَلُ الْمَسْحَ لِظُہُورِ الْقَدَمَیْنِ، وَجَعْلُ الْکَعْبَیْنِ فِي الْآیَۃِ غَایَۃً یَّرُدُّ قَوْلَہُمْ، فَدَعْوَاہُمْ أَنَّ الْفَرْضَ مَسْحُ الرِّجْلَیْنِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ، اللَّذَیْنِ ہُمَا مُجْتَمَعُ السَّاقِ وَالْقَدَمِ، عِنْدَ مَعْقِدِ الشِّرَاکِ، مَرْدُودٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ،۔۔۔، فَالسُّنَّۃُ الْمُتَوَاتِرَۃُ تَقْضِي عَلٰی مَا یَفْہَمُہٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ ظَاہِرِ الْقُرْآنِ، فَإِنَّ الرَّسُولَ بَیَّنَ لِلنَّاسِ لَفْظَ الْقُرْآنِ وَمَعْنَاہُ.
’’(زیر والی قراء ت کے ساتھ بھی)آیت ِکریمہ کے الفاظ متواتر سنت (وضو میں پاؤں کو دھونے)کے خلاف نہیں،کیونکہ جس طرح مسح سے مراد ہاتھ لگانا ہے،اسی طرح مسح سے مراد پانی بہانا بھی ہے۔اس سلسلے میں عربوں کا یہ قول دلیل ہے کہ [تَمَسَّحْتُ لِلصَّلَاۃِ] میں نے نماز کے لیے وضو کیا۔اس آیت ِکریمہ میں وہ قرینہ موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مراد وہ مسح نہیں جو دھونے کے برعکس ہے ،بلکہ وہ مسح مراد ہے جس کی ایک قسم دھونا ہے۔اللہ تعالیٰ نے{اِلَی الْکَعْبَیْنِ}([تثنیہ کے صیغے کے ساتھ]دونوں ٹخنوں تک)فرمایا ہے،إِلَی الْکِعَابِ([جمع کے صیغے کے ساتھ]ٹخنوں تک)نہیں فرمایا۔جبکہ ہاتھوں کے بارے میں ([جمع کے صیغے کے ساتھ]کہنیوں تک)فرمایا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ہر ہاتھ میں ایک کہنی ہوتی ہے، اس طرح ہر پاؤں میں ایک ٹخنہ نہیں ہوتا،بلکہ ہر پاؤں میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔یوں اللہ تعالیٰ نے دو ابھری ہوئی ہڈیوں تک مسح کا حکم دیا ہے اور یہ دھونے ہی سے ممکن ہے،کیونکہ خاص(خشک) مسح تو پاؤں کی اوپر والی جانب ہی ہوتا ہے۔اس آیت میں دونوں ٹخنوں تک مسح کا حکم رافضیوں کے دعوے کا ردّ کرتا ہے۔ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ان دو ٹخنوں تک پاؤں کا مسح فرض ہے جو تسمہ باندھنے کے مقام کے پاس پاؤں اور پنڈلی کے ملنے کی جگہ پر ہوتے ہیں،لیکن ان کا یہ دعویٰ کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں مردود ہے۔۔۔ یوں سنت ِمتواترہ اس مفہوم کو غلط قرار دیتی ہے جسے بعض لوگ قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو قرآنِ کریم کے الفاظ بھی بتائے ہیں اور ان کا معنیٰ بھی بیان فرمایا ہے۔‘‘
(شرح العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : 387,386)
مشہور امامِ لغت و ادب،محمد بن احمدبن ازہری(370-282ھ)لکھتے ہیں :
وَہِيَ أَجْوُدُ الْقِرَائَ تَیْنِ، لِمُوَافَقَتِہَا الْـأَخْبَارَ الصَّحِیحَۃَ عَنِ النَّبِيِّ، عَلَیْہِ السَّلَامُ، فِي غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، وَمَنْ قَرَأَ {وَاَرْجُلِکُمْ} عَطَفَہَا عَلٰی قَوْلِہٖ : {وَامْسَحُوْا بِرُء ُوْسِکُمْ}، وَبَیَّنَتِ السُّنَّۃُ أَنَّ الْمُرَادَ بِمَسْحِ الْـأَرْجُلِ غَسْلُہَا، وَذٰلِکَ أَنَّ الْمَسْحَ فِي کَلَامِ الْعَرَبِ یَکُونُ غَسْلًا، وَیَکُونُ مَسْحًا بِالْیَدِ، وَالْـأَخْبَارُ جَائَ تْ بِغَسْلِ الْـأَرْجُلِ وَمَسْحِ الرُّؤُوسِ، وَمَنْ جَعَلَ مَسْحَ الْـأَرْجُلِ کَمَسْحِ الرُّؤُوسِ، خُطُوطًا بِالْـأَصَابِعِ، فَقَدْ خَالَفَ مَا صَحَّ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہٗ قَالَ : {وَیلٌ لِّلْعَرَاقِیبِ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’یہ (فتح والی قراء ت)عمدہ ترین قراء ت ہے،کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میں مروی صحیح روایات کے موافق ہے۔جس نے اسے زیر کے ساتھ پڑھا ہے،اس نے اسے سر کے مسح پر عطف کیا ہے۔سنت ِنبوی میں اس کی مراد پاؤں کو دھونے سے بیان کی گئی ہے،کیونکہ کلامِ عرب میں جس طرح مسح ہاتھ پھیرنے کے معنیٰ میں آتا ہے،اسی طرح دھونے کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر پر مسح کرنے اور پاؤں کو دھونے کی احادیث ثابت ہیں۔لہٰذا جو شخص پاؤں پر بھی سر کی طرح انگلیوں سے خطوط کھینچ کر مسح کرتا ہے،وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیح فرمانِ مبارک کی مخالفت کرتا ہے کہ : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی’ویل‘ہے۔‘‘
(معاني القراء ات : 326/1)
حافظ،اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذِہٖ قِرَائَۃٌ ظَاہِرَۃٌ فِي وُجُوبِ الْغَسْلِ، کَمَا قَالَ السَّلَفُ ۔
’’سلف کے مطابق یہ قراء ت پاؤں دھونے کے وجوب میں بالکل واضح ہے۔‘‘
(تفسیر القرآن العظیم : 490/2)
مشہور شارحِ حدیث،علامہ طیبی رحمہ اللہ (م : 743ھ)فرماتے ہیں :
ذَہَبَ الشِّیعَۃُ إِلٰی أَنَّہٗ یُمْسَحُ عَلَی الرِّجْلَیْنِ، لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ} عَلٰی قِرَائَ ۃِ الْجَرِّ، فَإِنَّہٗ تَعَالٰی عَطَفَ الرِّجْلَ عَلَی الرَّأْسِ، وَالرَّأْسُ یُمْسَحُ، فَکَذَا الرِّجْلُ، قُلْنَا : وَقَدْ قُرِیَٔ بِالنَّصْبِ، عَطْفًا عَلٰی قَوْلِہٖ : {وَاَیْدِیَکُمْ}، وَإِذَا ذُہِبَ إِلَی الْمَسْحِ یَبْقٰی مُقْتَضَی النَّصِّ غَیْرَ مَعْمُولٍ بِہٖ، بِخِلَافِ الْعَکْسِ، فَإِنَّ الْمَسْحَ مَغْمُورٌ بِالْغَسْلِ، عَلٰی أَنَّ الْـأَحَادِیثَ الصَّحِیحَۃَ تَوَاتَرَتْ، مُعَاضِدَۃً لِّقِرَائَ ۃِ النَّصْبِ، فَوَجَبَ تَأْوِیلُ الْقِرَائَ ۃِ بِالْکَسْرِ، وِفِیہِ وُجُوہٌ ؛ أَحَدُہَا الْعَطْفُ عَلَی الْجَوَارِ، کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ}(ھود 11 : 26)، وَالْـأَلِیمُ صِفَۃُ الْعَذَابِ، فَأَخَذَ إِعْرَابَ الْیَوْمِ لِلْمُجَاوَرَۃِ، وَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ}(ہود 11: 84)، ۔۔۔۔۔، وَالثَّانِي الِاسْتِغْنَائُ بِأَحَدِ الْفِعْلَیْنِ عَنِ الْآخَرِ، وَالْعَرَبُ إِذَا اجْتَمَعَ فِعْلاَنِ مُتَقَارِبَانِ فِي الْمَعْنٰی، وِلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مُتَعَلِّقٌ، جَوَّزَتْ ذِکْرَ أَحَدِ الْفِعْلَیْنِ، وَعَطْفَ مُتَعَلِّقِ الْمَحْذُوفِ عَلٰی مُتَعَلِّقِ الْمَذْکُورِ، عَلٰی حَسَبِ مَا یَقْتَضِیہِ لَفْظُہٗ، حَتّٰی کَأَنَّہٗ شَرِیکُہٗ فِي أَصْلِ الْفِعْلِ، کَمَا قَالَ الشَّاعِرُ :
یَا لَیْتَ ! بَعْلُکَ قَدْ غَدَا ……… مُتَقَلِّدًا سَیْفًا وَّرُمْحًا
وَکَقَوْلِ الْـآخَرِ: ……، عَلَّفْتُہَا تِبْنًا وَّمَاء ًا بَارِدًا، تَقْدِیرُہٗ : عَلَّفْتُہَا تِبْنًا، وَسَقَیْتُہَا مَائً ا بَارِدًا، وَمُتَقَلِّدًا سَیْفًا، وَحَامِلاً رُمْحًا، وَالثَّالِثُ قَوْلُ الزَّجَّاجِ : یَجُوزُ {اَرْجُلِکُمْ} بِالْخَفْضِ، عَلٰی مَعْنٰی : فَاغْسِلُوا، لِأَنَّ قَوْلَہٗ تَعَالٰی : {اِلَی الْکَعْبَیْنِ} قَدْ دَلَّ عَلَیْہِ، لِأَنَّ التَّحْدِیدَ یُفِیدُ الْغَسْلَ، کَمَا فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِلَی الْمَرَافِقِ}، وَلَوْ أُرِیدَ الْمَسْحُ لَمْ یَحْتَجْ إِلَی التَّحْدِیدِ، کَمَا فِي قَوْلِہٖ : {وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ} مِنْ غَیْرِ تَحْدِیدٍ، وَیُطْلَقُ الْمَسْحُ عَلَی الْغَسْلِ ۔
’’رافضی شیعوں کا مذہب ہے کہ وضو میں پاؤں پر مسح کیا جائے گا۔دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : {وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ}۔ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے [رجل](پاؤں) کا عطف [راس](سر) پر کیا ہے۔لہٰذا جس طرح سرکا مسح کیا جاتا ہے، اسی طرح پاؤں کا بھی مسح کیا جائے گا۔ہم کہتے ہیں کہ اسے [ایدی](ہاتھوں)پر عطف کرتے ہوئے نصب (زبر)کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔جب مسح کرنے کا مذہب اپنایا جائے گا تو فرمانِ باری تعالیٰ کا تقاضا پورا نہیں ہو سکے گا۔اس کے برعکس اگر دھویا جائے گا تو مسح پر بھی عمل ہو جائے گا۔پھر متواتر صحیح احادیث بھی نصب (زبر)والی قراء ت کی تائید کرتی ہیں۔لہٰذا کسرہ(زیر)والی قراء ت کی تاویل کرنا ضروری ہے۔اس کی کئی صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ زیر کو جوار(قریبی لفظ)کی بنا پر تسلیم کیا جائے،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ}(ھود 11 : 26)، یہاں پر لفظ [الیم]،لفظ[عذاب]کی صفت ہے،لیکن قرب کی بنا پر اس نے [الیم]کا اعراب لے لیا۔اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ}(ہود 11: 84) ،اس میں لفظ [محیط]،لفظ[عذاب]کی صفت ہے،(لیکن اس نے قرب کی وجہ سے [یوم]کا اعراب قبول کر لیا)۔۔۔دوسری صورت یہ ہے کہ دو فعلوں میں سے ایک کو حذف مان کر دوسرے پر اکتفا تسلیم کیا جائے۔عرب لوگ ایسا کرتے رہتے ہیں کہ جب دو فعل قریب المعنیٰ ہوں اور دونوں کے متعلق موجود ہوں تو الفاظ کے تقاضے کے مطابق وہ ان میں سے ایک کو حذف کر کے محذوف کے متعلق کو مذکور کے متعلق پر عطف کرناجائز قرار دیتے ہیں۔ایسی صورتوں میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا متعلق بھی پہلے متعلق کے ساتھ اصل فعل میں شریک تھا۔اس کی مثال شاعر کا یہ قول ہے :
یَا لَیْتَ ! بَعْلُکَ قَدْ غَدَا ……… مُتَقَلِّدًا سَیْفًا وَّرُمْحًا
ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : عَلَّفْتُہَا تِبْنًا وَّمَاء ًا بَارِدًا ۔
دوسری عبارت اصل میں یوں تھی : عَلَّفْتُہَا تِبْنًا وَّسَقَیْتُہَا مَاء ًا بَارِدًا ۔ جبکہ پہلی عبارت اصل میں یوں تھی :مُتَقَلِّدًا سَیْفًا وَّحَامِلًا رُمْحًا ۔(اسی طرح اس آیت ِکریمہ کی اصل عبارت یوں ہو گی کہ اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ)۔ تیسری صورت علامہ زجّاج نے بیان کی ہے کہ زیر کے ساتھ پڑھنے پر یہاں دھونے کا معنیٰ ہو گا ،کیونکہ ’ٹخنوں سمیت ‘کی قید اس پر دلالت کرتی ہے۔جس طرح ہاتھوں میں ’کہنیوں سمیت‘ کی قید ہے اور وہ دھوئے جاتے ہیں،اسی طرح پاؤں میں بھی ’ٹخنوں سمیت‘ کی قید ہے،لہٰذا انہیں بھی دھویا جائے گا۔اگر پاؤں کا مسح ہی مراد ہوتا تو کسی قید کی ضرورت نہیں تھی، جیسا کہ سر پر مسح کرنے میں کوئی قید ذکر نہیں کی گئی۔دوسری بات یہ ہے کہ مسح کا لفظ دھونے پر بھی بولا جاتا ہے۔‘‘(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 97/2)
حدیثی دلائل
ہم قرآنی دلیل کے ضمن میں صحابی ٔ رسول سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں کو دھونے کا حکم دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا۔
آئیے اس حوالے سے مزید احادیث ِنبویہq ملاحظہ فرمائیں :
1 سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
تَخَلَّفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنَّا فِي سَفْرَۃٍ سَافَرْنَاہَا، فَأَدْرَکَنَا وَقَدْ أَرْہَقْنَا العَصْرَ، فَجَعَلْنَا نَتَوَضَّأُ وَنَمْسَحُ عَلٰی أَرْجُلِنَا، فَنَادٰی بِأَعْلٰی صَوْتِہٖ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘، مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا ۔
’’ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رَہ گئے۔عین عصر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آ ملے۔ہم وضو کرنے اور اپنے پاؤں پر مسح کرنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ پکارا : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل‘ نامی وادی ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 163، صحیح مسلم : 241)
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاٰی رَجُلًا، لَمْ یَغْسِلْ عَقِبَیْہِ، فَقَالَ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنی ایڑھیاں نہیں دھوئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل‘ نامی وادی ہے۔‘‘(صحیح البخاري : 165، صحیح مسلم : 242)
صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں : ’وَیْلٌ لِّلْعَرَاقِیبِ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’خشک کونچوں کے لیے جہنم کی ’ویل‘ نامی وادی ہے۔‘‘
3 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابوبکر سے فرمایا :
أَسْبِغِ الْوُضُوئَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘ ۔ ’’وضو اچھی طرح کیا کرو،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل‘نامی وادی ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 240)
4 سیدنا عبد اللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ، وَبُطُونِ الْـأَقْدَامِ مِنَ النَّارِ‘ ۔ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خشک ایڑھیوں اور پاؤں کی خشک نچلی اطراف کے لیے جہنم کی وادی ’ویل‘ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 191/4، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 162/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 70/1، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(163)اور امام حاکمH نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (تفسیر ابن کثیر : 493/2)نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
5 سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی’ویل‘ہے۔‘‘(تفسیر الطبري : 205/8، وسندہٗ صحیحٌ)
فائدہ : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’وَیْلٌ وَادٍ فِي جَہَنَّمَ، یَہْوِي بِہِ الْکَافِرُ أَرْبَعِینَ خَرِیفًا، قَبْلَ أَنْ یَبْلُغَ قَعْرَہَا‘ ۔ ’’ویل،جہنم کی ایک وادی ہے،جس میں گرنے کے بعد پیندے تک پہنچے میں کافر کو چالیس سال لگیں گے۔‘‘(صحیح ابن حبان : 7467، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 57/2، 596/4، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔درّاج کی ابو الہیثم سے روایت کم از کم ’’حسن‘‘ہوتی ہے۔
خشک ایڑھیوں والی حدیث اور فقہائے کرام
ان الفاظ پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یوں تبویب فرمائی ہے :
بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، وَلَا یُمْسَحُ عَلَی الْقَدَمَیْنِ ۔
’’اس بات کا بیان کہ پاؤں کو دھویا جائے گا،ان پر مسح نہیں کیا جائے گا۔‘‘
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَفِقْہُ ہٰذَا الْحَدِیثِ أَنَّہٗ لَا یَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَی الْقَدَمَیْنِ، إِذْ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا خُفَّانِ أَو جَوْرَبَانِ ۔
’’اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جب پاؤں پر موزے یا جرابیں نہ ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں۔‘‘(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 41)
امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَغَسْلُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رِجْلَیْہِ، وَقَوْلُہٗ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘، کِفَایَۃٌ لِّمَنْ وَفَّقَہُ اللّٰہُ لِلصَّوَابِ، وَدَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الَّذِي یَجِبُ غَسْلُ الْقَدَمَیْنِ، لَا الْمَسْحُ عَلَیْہِمَا، لِأَنَّہُ الْمُبِینُ عَنِ اللّٰہِ مَعْنٰی مَا أَرَادَ مِمَّا فَرَضَ فِي کِتَابِہٖ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے اور فرمایا کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل‘نامی وادی ہے۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے حق قبول کرنے کی توفیق دی ہے ،اس کے لیے یہی بات کافی ہے۔یہ احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ وضو میں پاؤں کو دھونا ہی واجب ہے،مسح کرنا نہیں،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآنِ کریم میں فرض کی گئی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے تھے۔‘‘
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 415/1)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی تبویب یہ ہے : بَابُ التَّغْلِیظِ فِي تَرْکِ غَسْلِ بُطُونِ الْـأَقْدَامِ فِي الْوُضُوئِ، فِیہِ أَیْضًا دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّ الْمَاسِحَ عَلٰی ظَہْرِ الْقَدَمَیْنِ غَیْرُ مُؤَدٍّ لِّلْفَرْضِ، لَا کَمَا زَعَمَتِ الرَّوَافِضُ أَنَّ الْفَرْضَ مَسْحُ ظُہُورِہِمَا، لَا غَسْلُ جَمِیعِ الْقَدَمَیْنِ ۔
’’وضو میں پاؤں کے اندرونی حصوں کو نہ دھونے پر وعید کا بیان۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاؤں کے اوپر مسح کرنے والا فرض کو ادا نہیں کرتا۔رافضیوں کا یہ خیال باطل ہے کہ وضو میں پاؤں کے اوپر مسح کرنا فرض ہے،پورے پاؤں کو دھونا فرض نہیں۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ : 84/1)
نیز مذکورہ حدیث پر ایک جگہ یوں تبویب کی ہے :
بَابُ التَّغْلِیظِ فِي تَرْکِ غَسْلِ الْعَقِبَیْنِ فِي الْوُضُوئِ، وَالدَّلِیلُ عَلٰی أَنَّ الْفَرْضَ غَسْلُ الْقَدَمَیْنِ لَا مَسْحُہُمَا، إِذَا کَانَتْا بَادِیَتَیْنِ غَیْرَ مُغَطَّیَتَیْنِ بِالْخُفِّ، أَوْ مَا یَقُومُ مَقَامَ الْخُفِّ، لَا عَلٰی مَا زَعَمَتِ الرَّوَافِضُ أَنَّ الْفَرْضَ مَسْحُ الْقَدَمَیْنِ لَا غَسْلُہُمَا، إِذْ لَوْ کَانَ الْمَاسِحُ عَلَی الْقَدَمَیْنِ مُؤَدِّیًا لِّلْفَرْضِ، لَمَا جَازَ أَنَّ یُّقَالَ لِتَارِکِ فَضِیلَۃٍ : وَیْلٌ لَّہٗ، وَقَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘ ، إِذَا تَرَکَ الْمُتَوَضِّیُٔ غَسْلَ عَقِبَیْہِ ۔
’’وضو میں ایڑھیوں کو نہ دھونے پر وعید کا بیان۔یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ جب پاؤں ننگے ہوں اور وہ موزوں وغیرہ سے ڈھکے ہوئے نہ ہوں تو وضو میں ان کو دھونا فرض ہے،نہ کہ ان پر مسح کرنا۔اگر ان پر مسح کرنے والا فرض کی ادائیگی کر لیتا ہوتا تو (پاؤں دھونا صرف)ایک فضیلت والا عمل(ہوتا اور اس) کے تارک کو جہنم کی وادی کی وعید دینا جائز نہ ہوتا،جبکہ ایک وضو کرنے والے نے اپنی ایڑھیاں نہ دھوئیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی’ویل‘ ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمۃ : 83/1)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِي ہٰذَا الْحَدِیثِ مِنَ الْفِقْہِ إِیجَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، وَفِي ذٰلِکَ تَفْسِیرٌ لِّقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : {وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ}، وَبَیَانُ أَنَّہٗ أَرَادَ الْغَسْلَ، لَا الْمَسْحَ ۔
’’اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے۔یہ حدیث فرمانِ الٰہی: {وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ}کی تفسیر ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد پاؤں کو دھونا ہے،نہ کہ مسح کرنا۔‘‘(التہمید لما في المؤطّإ من المعاني والأسانید : 254/14)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: غَسْلُ الرِّجْلَیْنِ شَرْعٌ لَّازِمٌ، بَیَّنَہٗ لَنَا الرَّسُولُ، اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ، وَقَالَ : ’وَیْلٌ لِّلْـأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘، وَعَلَیْہِ الْـأُمَّۃُ، وَلَا اعْتِبَارَ لِمَنْ شَذَّ ۔ ’’وضو میں پاؤں کو دھونا فرض ہے۔یہ بات ہمیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر بیان فرما دی ہے: خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل‘ہے۔پوری امت کا اسی پر عمل ہے۔امت سے بچھڑ جانے والوں کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء : 127/4)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَوَجْہُ الدَّلَالَۃِ مِنْ ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ ظَاہِرَۃٌ، وَذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ کَانَ فَرْضُ الرِّجْلَیْنِ مَسْحُہُمَا، أَوْ أَنَّہٗ یَجُوزُ ذٰلِکَ فِیہِمَا، لَمَا تَوَعَّدَ عَلٰی تَرْکِہٖ ۔ ’’ان احادیث سے استدلال بہت واضح ہے، کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کرنا فرض ہوتا یا یہ وضو میں کافی ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ دھونے پر وعید نہ فرماتے۔‘‘(تفسیر القرآن العظیم : 494/2)
شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661)فرماتے ہیں :
وَمَا تَقَوَّلَہُ الْإِمَامِیَّۃُ مِنْ أَنَّ الْفَرْضَ مَسْحُ الرِّجْلَیْنِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ، اللَّذَیْنِ ہُمَا مُجْتَمَعُ السَّاقِ وَالْقَدَمِ، عِنْدَ مَعْقِدِ الشِّرَاکِ، أَمْرٌ لَّا یَدُلُّ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوہِ، وَلَا فِیہِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثٌ یُّعْرَفُ، وَلَا ہُوَ مَعْرُوفٌ عَنْ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ، بَلْ ہُمْ مُخَالِفُونَ لِلْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ الْمُتَوَاتِرَۃِ، وَلِإِجْمَاعِ السَّابِقِینَ الْـأَوَّلِینَ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِإِحْسَانٍ ۔
’’امامیہ رافضیوں نے یہ جو بات گھڑ لی ہے کہ پاؤں کا مسح کرنا فرض ہے اور وہ بھی ان ٹخنوں تک جو ان کے نزدیک پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ کے قریب تسمیہ باندھنے والی جگہ واقع ہیں،یہ ایسی بات ہے جس پر قرآنِ کریم کسی بھی طرح دلالت نہیں کرتا،نہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث معروف ہے،نہ یہ بات سلف ِامت سے جانی گئی ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں رافضی لوگ قرآنِ کریم،سنت ِمتواترہ اور سابقون اولون اور تابعین کرام کے اجماع کے مخالف ہیں۔‘‘(منہاج السنّۃ النبویّۃ : 177/4)
6 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ، فَتَرَکَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلٰی قَدمِہٖ، فَأَبْصَرہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ’ارْجِعْ، فَأَحْسِنْ وُضُوئَکَ‘، فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلّٰی ۔
’’ایک آدمی نے وضو کیا،لیکن اپنے پاؤں پر ایک ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑ دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا : واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔وہ آدمی واپس گیا (دوبارہ وضو کیا)،پھر نماز پڑھی۔‘‘(صحیح مسلم : 243)
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ رَجُلًا جَائَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَدْ تَوَضَّأَ، وَتَرَکَ عَلٰی قَدَمِہٖ مَوْضِعَ الظُّفُرِ، فَقَالَ لَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ارْجِعْ، فَأَحْسِنْ وُضُوئَکَ‘ ۔ ’’ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے وضو کیا تھا لیکن اپنے پاؤں پر ایک ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 146/3، مسند أبي یعلی : 2944، سنن أبي داوٗد : 173، سنن ابن ماجہ : 665، وسندہٗ صحیحٌ)
8 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ بیان فرماتی ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاٰی رَجُلًا یُّصَلِّي، وَفِي ظَہْرِ قَدَمِہٖ لُمْعَۃٌ قَدْرَ الدِّرْہَمِ، لَمْ یُصِبْہَا الْمَائُ، فَأَمَرَہٗ رَسُولُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُّعِیدَ الْوُضُوئَ ۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا،اس کے پاؤں میں ایک درہم کے برابر خشک جگہ تھی،جہاں پانی نہیں پہنچا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ دوبارہ وضو کرے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 424/3، سنن أبي داوٗد : 175، وسندہٗ حسنٌ)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَہٰذَا إِسْنَادٌ جَیِّدٌ قَوِيٌّ صَحِیحٌ ۔
’’یہ سند عمدہ،قوی اور صحیح ہے۔‘‘(تفسیر القرآن العظیم : 495/2)
9 سیدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بیان میں فرماتے ہیں:
ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ۔ ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں مبارک دھوئے۔‘‘(صحیح البخاري : 186، صحیح مسلم : 235)
0 عبد خیر تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : أَتَاناَ عَلِيٌّ، وَقَدْ صَلّٰی، فَدَعَا بِطَہُورٍ، فَقُلْنَا : مَا یَصْنَعُ بِالطَّہُورِ وَقَدْ صَلَّی، مَا یُرِیدُ إِلَّا لِیُعَلِّمَنَا، فَأُتِيَ بِإِنَائٍ فِیہِ مَائٌ وَطَسْتٍ، فَأَفْرَغَ مِنَ الْإِنَائِ عَلٰی یَمِینِہٖ، فَغَسَلَ یَدَیْہِ ثَلَاثًا،۔۔۔، فَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ مَرَّۃً وَّاحِدَۃً، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی ثَلَاثًا، وَرِجْلَہُ الشِّمَالَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ : [مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یَّعْلَمَ وُضُوئَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَہُوَ ہٰذَا] ۔ ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے،آپ نے نماز پڑھی ہوئی تھی۔آپ نے وضو کے لیے پانی منگوایا۔ہم نے سوچا : آپ پانی کو کیا کریں گے؟ حالانکہ نماز تو آپ نے پڑھ رکھی ہے۔آپ صرف ہمیں وضو سکھانا چاہتے ہیں۔آپ کے پاس ایک پانی والا برتن اور ایک تشتری لائی گئی۔آپ نے اپنے دائیں ہاتھ پر پانی انڈیلا اور تین مرتبہ ہاتھ دھوئے۔۔۔پھر اپنے سر کا مسح کیا،پھر اپنے دائیں پاؤں کو تین مرتبہ دھویا،پھر اپنے بائیں پاؤں کو تین مرتبہ دھویا۔پھر فرمایا : جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو جاننا چاہے،وہ یہ وضو دیکھ لے۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 111، سنن النسائي : 92، وسندہٗ صحیحٌ)
! جُبَیْربن نُفَیْر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ أَبَا جُبَیْرٍ الْکِنْدِيَّ قَدِمَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَہٗ بِوَضُوئٍ، فَقَالَ : ’تَوَضَّأْ یَا أَبَا جُبَیْرٍ!‘، فَبَدَأَ بِفِیہِ، فَقَالَ لَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَا تَبْدَأْ بِفِیکَ، فَإِنَّ الْکَافِرَ یَبْدَأُ بِفِیہِ‘، وَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَائٍ، فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ، وَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ۔ ’’ابوجُبَیْرکندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وضو کا پانی منگوایا اور فرمایا : ابوجبیر! وضو کرو۔ انہوں نے اپنے منہ سے شروع کیا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منہ سے شروع نہ کرو، کیونکہ کافر منہ سے شروع کرتے ہیں۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر تین تین دفعہ وضو کیا،پھر سر کا مسح فرمایا،پھر اپنے دونوں پاؤں مبارک دھوئے۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 37/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 47,46/1، وصحّحہ ابن حبّان : 1089، وسندہٗ حسنٌ)
@ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے وضو کے بارے میں ہے :
ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ، ثُمَّ قَالَ : ہٰکَذَا کَانَ وُضُوئُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
’’پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھویا،پھر فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اسی طرح تھا۔‘‘(صحیح البخاري : 185، صحیح مسلم : 235)
# سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے وضو کے بارے میں روایت ہے :
……، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَۃً مِّنْ مَّائٍ، فَرَشَّ عَلٰی رِجْلِہِ الْیُمْنٰی، حَتّٰی غَسَلَہَا، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَۃً أُخْرٰی، فَغَسَلَ بِہَا رِجْلَہٗ، یَعْنِي الْیُسْرٰی، ثُمَّ قَالَ : ہٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ ۔
’’آپ نے اپنے سر کا مسح کیا،پھر ایک چُلُّو میں پانی لیا اور اسے اپنے دائیں پاؤں پر بہایا،حتی کہ اسے دھو لیا،پھر ایک اور چُلُّو پانی کا لیا اور اس سے بایاں پاؤں دھویا۔پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 268/1، صحیح البخاري : 140)
$ قرشی صحابی،سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْلُکُ بِخِنْصَرِہٖ مَا بَیْنَ أَصَابِعِ رِجْلَیْہِ ۔ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (وضو میں)اپنی چھنگلی کے ساتھ اپنے پاؤں کی انگلیوں کی درمیانی جگہ کو مل رہے تھے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 47,46/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إِنَّ ہٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ ۔
’’بلاشبہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘(أیضًا)
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وَہٰذَا لَا یَکُونُ إِلَّا فِي الْغَسْلِ، لِأَنَّ الْمَسْحَ لَا یَبْلُغُ فِیہِ ذٰلِکَ، إِنَّمَا ہُوَ عَلٰی ظُہُورِ الْقَدَمَیْنِ خَاصَّۃً ۔
’’ایسا (پاؤں کی انگلیوں کی درمیانی جگہ کو ملنا)صرف دھونے میں ہو سکتا ہے،کیونکہ مسح میں ایسی نوبت نہیں آتی،وہ تو صرف پاؤں کی اوپر والی جانب ہوتا ہے۔‘‘
(شرح معاني الآثار : 37/1)
% سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : مجھے وضو کا طریقہ بتائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَسْبِغِ الْوُضُوئَ، وَخَلِّلْ بَیْنَ الْـأَصَابِعِ، وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ، إِلَّا أَنْ تَکُونَ صَائِمًا ۔
’’وضو کو اچھی طرح مکمل کرو،انگلیوں کے درمیان خلال کرو،اگر روزہ نہ رکھا ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 142، سنن الترمذي : 38، وقال : حسنٌ صحیحٌ، سنن ابن ماجہ : 407، وسندہٗ حسنٌ، وأخرجہ أحمد : 211/4، وأبو داوٗد : 143، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(150)،امام ابن حبان(1054)اور امام حاکم (148,147/1) رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔
وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میں اور بھی صحیح احادیث موجود ہیں۔مذکورہ بالا احادیث کے بارے میں امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (321-238ھ)فرماتے ہیں :
فَہٰذِہِ الْـآثَارُ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ غَسَلَ قَدَمَیْہِ فِي وُضُوئِہٖ لِلصَّلَاۃِ ۔ ’’یہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے

2 تبصرے “وضو میں پاوں دھونا واجب ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

  1. ماشاءاللہ بہت پسند آیا۔ مجھے اسی مضمون کی عرصہ سے شدت سے ضرورت تھی۔ اللہ پاک اس تحقیق کو جمع کر کے لکھنے والے کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ میری تمام مطلوبہ تحقیق اس میں مدلل موجود تھا۔ میں مضمون کو کاپی کر کے اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے۔ ہمیشہ آپکے لئے دعا گو ہوں۔
    حافظ محمد امین شفیقی سکردو بلتستان

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.