538

زندگی میں‌جائیداد کی تقسیم، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے خود مختار بنایا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کرے، لیکن اس استعمال میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قوانین کو پامال نہ کرے۔مال و جائیداد بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،اس میں بھی انسان اپنی مرضی سے جائز تصرف کا حق رکھتا ہے۔اسی بنا پر ایک مسلمان زندگی میں بھی اپنی اولاد کو اپنا مال تقسیم کر سکتا ہے اور جتنا چاہے اپنے لیے بھی رکھ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ زندگی میں یہ تقسیم بہ ضابطہ میراث نہیں ہو گی،کیونکہ وراثت اس مال کا نام ہے،جو انسان کے مرنے کے بعد غیر اختیاری طور پر اس کے ورثہ کی طرف منتقل ہو جائے،البتہ جو انسان زندگی میں اپنے مال کو اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ قانون ہبہ کے مطابق ہی تقسیم کر سکتا ہے۔
جب انسان اپنی زندگی میں کسی کو بلا معاوضہ کوئی چیز دے تو یہ ہبہ یا ہدیہ یا عطیہ کہلاتا ہے۔ہبہ یا ہدیہ کے حوالے سے چند ایک اسلامی قوانین ملاحظہ فرمائیں :
1 ہبہ میں بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر حصہ ملے گا۔
2 ہبہ کی صورت میں کچھ اولاد کو دینا اور کچھ کو محروم کر دینا ظلم و جور اور باطل اقدام ہے۔
3 اگر بعض کو دیا اور بعض کو محروم کر دیا تو یہ تقسیم فسخ ہو جائے گی، اس موہوب چیز کو واپس لینا واجب ہو گا۔
4 اگرباقی اولاد کی رضامندی سے کسی بیٹے یا بیٹی کو کوئی چیز ہبہ کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
5 ہبہ کی صورت میں اولاد میں سے کسی کو دوسروں سے زیادہ دیا جائے اور باقی اولاد کو اعتراض نہ ہو ،تو یہ بھی جائز ہے۔
6 باپ اپنی اولاد سے بلا وجہ بھی ہبہ کردہ چیز کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔اس میں کوئی گناہ نہیں۔
7 شکم مادر میں پرورش پانے والے بچے کو کوئی چیز ہبہ نہیں کی جا سکتی، البتہ اس کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔
8 ہبہ قبول کرنا چاہیے،خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ ہبہ ردّ کرنا پسندیدہ فعل نہیں۔
9 کسی کے ذمے واجب الادا چیز اسے ہبہ کی جا سکتی ہے۔
0 انسان اپنی مرضی سے کسی کو ہبہ کرتاہے،اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔
! قانونِ ہبہ میں تمام اولاد، یعنی بیٹے اور بیٹیوں، کا حصہ برابر برابر ہے،ان کے درمیان عدل و مساوات واجب ہے۔
دلائل شرعیہ :
1 سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْہِبَۃِ لِي مِنْ مَّالِہٖ، ثُمَّ بَدَا لَہٗ، فَوَہَبَہَا لِي، فَقَالَتْ : لاَ أَرْضٰی حَتّٰی تُشْہِدَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِیَدِي وَأَنَا غُلاَمٌ، فَأَتٰی بِيَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنَّ أُمَّہٗ بِنْتَ رَوَاحَۃَ سَأَلَتْنِي بَعْضَ الْمَوْہِبَۃِ لِہٰذَا، قَالَ : ’أَلَکَ وَلَدٌ سِوَاہُ؟‘، قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَأُرَاہُ قَالَ : ’لاَ تُشْہِدْنِي عَلٰی جَوْرٍ‘ ۔
’’میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ مجھے اپنے مال سے کوئی چیز ہبہ کریں۔(پہلے تو انہوں نے انکار کیا)بعد میں راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کردی۔ میری والدہ نے کہا: جب تک آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں گواہ نہیں بنا لیتے،میں راضی نہیں ہوں گی۔چنانچہ میرے والد میرا ہاتھ پکڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،میں ابھی نو عمر تھا۔عرض کیا:اس لڑکے کی والدہ (عمرہ)بنت ِرواحہ مجھ سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ میں اسے ایک چیز ہبہ کروں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:اس کے علاوہ بھی تمہاری کوئی اولاد ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یوں ارشاد فرمایا: مجھے ظلم پر گواہ مت بنائو۔‘‘
(صحیح البخاري : 2585، صحیح مسلم : 1623)
2 صحیح مسلم(1623)میں ہے :
’قَارِبُوا بَیْنَ اَوْلَادِکُمْ‘ ۔
’’اپنی اولاد کے مابین برابر تقسیم کرو۔‘‘
3 سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’اعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمُ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ‘ ۔
’’اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو،اپنے بیٹوں کے مابین انصاف کرو۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 275/4، سنن أبي داوٗد :3544، سنن النسائي : 262/6، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابو عوانہ رحمہ اللہ (5694)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
4 صحیح مسلم (10/1623)کی روایت ہے :
’إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي ہٰذَا غُلَامًا، فَقَالَ : ’أَکُلَّ بَنِیکَ نَحَلْتَ؟‘، قَالَ : لَا، قَالَ : ’فَارْدُدْہُ‘ ۔
’’(میں نے عرض کیا:)میں نے اپنے اِس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:کیا آپ نے اپنے سارے بیٹوں کو ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا:نہیں۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس سے ہبہ واپس لے لو۔‘‘
5 صحیح مسلم(13/1623)میں ہے :
’أَفَعَلْتَ ہٰذَا بِوَلَدِکَ کُلِّہِمْ؟‘ قَالَ : لَا، قَالَ : ’اتَّقُوا اللّٰہَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِکُمْ‘، فَرَجَعَ أَبِي، فَرَدَّ تِلْکَ الصَّدَقَۃَ ۔
’’(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)کیا آپ نے اپنی ساری اولاد کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے؟انہوں نے عرض کیا: نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو،(سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ) میرے والد نے واپس آ کر وہ ہبہ واپس لے لیا۔‘‘
6 حسن سند کے ساتھ سنن نسائی(3685)میںہے :
’أَلَا سَوَّیْتَ بَیْنَہُمْ؟‘ ۔
’’آپ نے سب میں برابر تقسیم کیوں نہیں کیا؟‘‘
7 صحیح ابن حبان کی روایت (5099،وسندہ حسن) کے الفاظ ہیں کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا :
اِنْطَلَقَ بِي أَبِي إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُشْہِدَہٗ عَلٰی عَطِیَّۃٍ أَعْطَانِیہَا، فَقَالَ : ’ہَلْ لَّکَ بَنُونَ سِوَاہُ؟‘، قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : ’سَوِّ بَیْنَہُمْ‘ ۔
’’میرے والد ِگرامی مجھے لے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ کو اس عطیہ پر گواہ بنائیں جو انہوں نے مجھے عطا کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا آپ کے اس کے علاوہ اور بیٹے بھی ہیں؟انہوں نے عرض کیا:جی ہاں! فرمایا: ان کے مابین برابر تقسیم کرو۔‘‘
8 ایک روایت میں ہے
’أَلَکَ بَنُونَ سِوَاہُ؟‘ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : ’فَکُلَّہُمْ أَعْطَیْتَ مِثْلَ ہٰذَا؟‘ قَالَ : لَا، قَالَ : ’فَلَا أَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ‘ ۔
’’(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:)کیا اس کے علاوہ آپ کے اور بھی بیٹے ہیں؟انہوں نے عرض کیا:جی ہاں!فرمایا: کیا سارے بیٹوں کو اتنا دیا ہے؟ عرض کیا: جی نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پھر میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا۔‘‘
(صحیح مسلم : 15/1623)
9 ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں:
’لاَ تُشْہِدْنِي عَلٰی جَوْرٍ‘ ۔ ’’مجھے ظلم پر گواہ مت بنائو۔‘‘
(صحیح البخاري : 2650، صحیح مسلم : 1623)
0 صحیح مسلم(19/1623)میں ہے :
’أَلَہٗ إِخْوَۃٌ؟‘ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : ’أَفَکُلَّہُمْ أَعْطَیْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَیْتَہُ؟‘، قَالَ : لَا، قَالَ : ’فَلَیْسَ یَصْلُحُ ہٰذَا، وَإِنِّي لَا أَشْہَدُ إِلَّا عَلٰی حَقٍّ‘ ۔
’’(فرمایا)کیا اس لڑکے کے اور بھی بھائی ہیں؟عرض کیا:جی ہاں!فرمایا:جو تم نے اسے دیا ہے،کیا باقی سب کو بھی اتنا دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ درست نہیں اور میں صرف حق پر گواہ بن سکتا ہوں۔‘‘
! صحیح مسلم(17/1623)کے الفاظ یہ ہیں:
’فَأَشْہِدْ عَلٰی ہٰذَا غَیْرِي‘، ثُمَّ قَالَ : ’أَیَسُرُّکَ اَنْ یَّکُونُوا إِلَیْکَ فِي الْبِرِّ سَوَائً؟‘ قَالَ : بَلٰی، قَالَ : ’فَلَا إِذًا‘ ۔
’’(فرمایا:)اس پر کسی اور کو گواہ بناؤ۔پھر فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تمہاری ساری اولاد تمہاری برابر کی فرماں بردار ہو؟انہوں نے عرض کیا:جی بالکل!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ایسا نہ کرو۔ ‘‘
b امیر المومنین فی الحدیث،امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے:
بَابُ الْہِبَۃِ لِلْوَلَدِ، وَإِذَا أَعْطٰی بَعْضَ وَلَدِہٖ شَیْئًا لَّمْ یَجُزْ، حَتّٰی یَعْدِلَ بَیْنَہُمْ وَیُعْطِيَ الْـآخَرِینَ مِثْلَہٗ، وَلاَ یُشْہَدُ عَلَیْہِ ۔
’’اولاد کو ہبہ کرنے کا بیان۔جب کوئی اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے،توجب تک انصاف کے ساتھ سب کو برابر نہ دے ،ہبہ جائز نہیں ہو گا۔ایسے(ناجائز) ہبہ پر گواہ بھی نہ بنا جائے۔‘‘
b شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں:
وَاخْتِلَافُ الْـأَلْفَاظِ فِي ہٰذِہِ الْقِصَّۃِ الْوَاحِدَۃِ یَرْجِعُ إِلٰی مَعْنًی وَّاحِدٍ، وَقَدْ تَمَسَّکَ بِہٖ مَنْ أَوْجَبَ السَّوِیَّۃَ فِي عَطِیَّۃِ الْـأَوْلَادِ، وَبِہٖ صَرَّحَ الْبُخَارِيُّ ۔
’’اس قصہ میں مذکور مختلف الفاظ ایک ہی معنیٰ و مفہوم کو بیان کرتے ہیں۔اس قصے کو وہ علما دلیل بناتے ہیں جو ہبہ میں مساوات کو واجب سمجھتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کی تصریح کی ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 214/5)
b شارح صحیح مسلم،حافظ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ أَنَّہٗ یَنْبَغِي أَنْ یُّسَوِّيَ بَیْنَ أَوْلَادِہٖ فِي الْہِبَۃِ، وَیَہِبُ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمْ مِّثْلَ الْآخَرِ وَلَا یُفَضِّلُ، وَیُسَوِّي بَیْنَ الذَّکَرِ وَالْـأُنْثٰی ۔
’’اس حدیث میں مذکور ہے کہ ہبہ میں ساری اولاد کو برابر رکھا جائے،ہر ایک کو دوسرے کے مقابلے میں برابر کا ہبہ کیا جائے اور کسی کو زیادہ حصہ نہ دے،نیز اس میں مذکر و مؤنث کو برابر حصہ دیا جائے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : 6/6)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ کچھ اولاد کو ہبہ کرنے اور کچھ کو محروم کر دینے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم اور جور قرار دیا ہے۔یہ عدل و مساوات کے خلاف ہے اور ہر گز درست نہیں۔ تب ہی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا ڈر دلایا ہے اور اولاد کے درمیان عدل کا حکم دیاہے۔
یہ حکم وجوبی ہے !
بعض لوگ ہبہ کے وقت اولاد میں عدل و انصاف کو واجب نہیں سمجھتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں فرمانِ نبوی استحباب پر محمول ہے۔ایسے لوگوں کا ردّ کرتے ہوئے ؛
b شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں:
وَمِنَ الْعَجَبِ اَنْ یُّحْمَلَ قَوْلُہٗ : ’اِعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ‘ عَلٰی غَیْرِ الْوُجُوْبِ، وَہُوَ أَمْرٌ مُّطْلَقٌ مُّؤَکَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَقَدْ أَخْبَرَ الْـآمِرُ بِہٖ أَنَّ خِلَافَہٗ جَوْرٌ، وَأَنَّہٗ لَا یَصْلُحُ، وَأَنَّہٗ لَیْسَ بِحَقٍّ، وَمَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الْبَاطِلُ، ہٰذَا وَالْعدْلُ وَاجِبٌ فِي کُلِّ حَالٍ، فَلَوْ کَانَ الْـاَمِرُ بِہٖ مُطْلَقًا لَّوَجَبَ حَمْلُہٗ عَلَی الْوُجُوبِ، فَکَیْفَ وَقَدْ اقْتَرَنَ بِہٖ عَشَرَۃُ أَشْیَائَ تُؤَکِّدُ وُجُوبَہٗ؟ فَتَاَمَّلْہَا فِي أَلْفَاظِ الْقِصَّۃِ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ اپنی اولاد کے درمیان مساوات کرو،کو عدمِ وجوب پر محمول کرنا تعجب خیز ہے،حالانکہ یہ ایک مطلق حکم ہے،جس کی تین دفعہ تاکید کی گئی۔حکم دینے والے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم )نے خود بتایا کہ اس کی مخالفت ظلم ہے،یہ بھی بتایا کہ ایسا کرنا درست نہیں،نیز فرمایا کہ یہ ناحق فعل ہے۔اب حق کے بعد تو صرف باطل ہی باقی بچتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ عدل ہر حال میں واجب ہے۔اگریہ حکم مطلق بھی ہوتا تو اسے وجوب پر محمول کرنا ضروری تھاچہ جائیکہ اس قصہ میں دس چیزیں ایسی ہیں جو اس کے وجوب کو لازم کرتی ہیں۔آپ اس قصہ کے الفاظ پر غور کر کے انہیں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔‘‘
(تحفۃ المودود في أحکام المولود، ص : 228)
b نیز فرماتے ہیں:
قَوْلُہٗ : ’أَشْہِدْ عَلٰی ہٰذَا غَیْرِي‘، فَإِنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِإِذْنٍ قَطْعًا؛ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَأْذَنُ فِي الْجَوْرِ وَفِیْمَا لاَ یَصْلُحُ وَفِي الْبَاطِلِ، فَإِنَّہٗ قَالَ : ’إِنِّي لَا أَشْہَدُ إِلَّا عَلٰی حَقٍّ‘، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِي فَعَلُہٗ أَبُو النُّعْمَانِ لَمْ یَکُنْ حَقًّا، فَہُوَ بَاطِلٌ قَطْعًا، فَقَوْلُہٗ : ’إِذَنْ أَشْہِدْ عَلٰی ہٰذَا غَیْرِيْ‘ حُجَّۃٌ عَلَی التَّحْرِیْمِ، کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ}، وَقَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شَئْتَ‘، أَيِ الشَّہَادَۃُ عَلٰی ہٰذَا لَیْسَتْ مِنْ شَأْنِي وَلَا تَنْبَغِي لِي، وَإِنَّمَا ہِيَ مِنْ شَأْنِ مَنْ یَّشْہَدُ عَلَی الْجَوْرِ وَالْبَاطِلِ وَمَا لَا یَصْلُحُ، وَہٰذَا فِي غَایَۃِ الْوُضُوْحِ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بناؤ،قطعاً اس کی اجازت نہیں ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز ظلم، ناجائز اور باطل اُمور کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ فرما رہے ہیں کہ میں صرف حق پر گواہ بنتا ہوں،اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کے والد کا اقدام حق نہیں تھا،بلکہ کلی طور پر باطل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ جائو میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بناؤ اس فعل کے حرام ہونے کی دلیل ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ}(حٓمٓ السجدۃ 41 : 40)(جو مرضی کرو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:جب تم میں حیا ختم ہو جائے تو جو دل میں آئے کرو۔ آپ کی مراد یہ تھی کہ اس معاملے پر گواہی دینا میری شان کے لائق اور میرے لیے مناسب نہیں،بلکہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو ظلم و باطل اور ناجائز اُمور پر گواہی دیتے ہیں۔یہ بات بالکل واضح ہے۔‘‘(تہذیب السنن : 192/5، 193)
b شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں:
وَاَمَّا قَوْلُہٗ : إِنَّ قَوْلَہٗ : ’أَشْہِدْ‘ صِیغَۃُ إِذْنٍ فَلَیْسَ کَذٰلِکَ، بَلْ ہُوَ لِلتَّوْبِیخِ لِمَا یَدُلُّ عَلَیْہِ بَقِیَّۃُ أَلْفَاظِ الْحَدِیثِ، وَبِذٰلِکَ صَرَّحَ الْجُمْہُورُ فِي ہٰذَا الْمَوْضِعِ، وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ : قَوْلُہٗ : ’أَشْہِدْ‘ صِیغَۃُ أَمْرٍ، وَالْمُرَادُ بِہٖ نَفْيُ الْجَوَازِ ۔
’’ان کا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ [اس پر کسی اور کو]گواہ بنائو، اجازت ہے،درست نہیں،بلکہ یہ الفاظ ڈانٹ کے لیے ہیں،کیونکہ حدیث کے بقیہ الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں۔اس مقام پر جمہور نے اسی کی تصریح کی ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہیہ امر کا صیغہ ہے،مگر اس سے مراد عدمِ جواز ہے۔‘‘(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 215/5)
b نیز لکھتے ہیں:
وَزَعَمَ بَعْضُہمْ أَنَّ مَعْنٰی قَوْلِہٖ : ’لَا أَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ‘، اَیْ لَا أَشْہَدُ عَلٰی مَیْل الْـأَبِ لِبَعْضِ الْـأَوْلَادِ دُونَ بَعْضٍ، وَفِي ہٰذَا نَظَرٌ لَّا یَخْفٰی، وَیَرُدُّہٗ قَوْلُہٗ فِي الرِّوَایَۃِ : ’لَا أَشْہَدُ إِلَّا عَلَی الْحَقِّ‘ ۔
’’بعض کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا، کا معنیٰ یہ ہے کہ میں کسی باپ کے کچھ اولاد کی طرف جھکائو پر گواہ نہیں بنتا،مگر اس کا محل نظر ہونا مخفی نہیں،کیونکہ حدیث میں مذکور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میں صرف حق پر ہی گواہ بنتا ہوں،اس بات کی تردید کرتا ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 215/5)
b نیز ایک استدلال کا رَدّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إِنَّ قَوْلَہٗ : ’اِرْجِعْہُ‘ دَلِیلٌ عَلَی الصِّحَّۃِ، وَلَوْ لَمْ تَصِحَّ الْہِبَۃُ لَمْ یَصِحَّ الرُّجُوعُ، وَإِنَّمَا أَمَرَہٗ بِالرُّجُوعِ لِأَنَّ لِلْوَالِدِ أَنْ یَّرْجِعَ فِیمَا وَہَبَہٗ لِوَلَدِہٖ، وَإِنْ کَانَ الْـأَفْضَلُ خِلَافَ ذٰلِکَ، لٰکِنِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِیَۃِ رُجِّحَ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلِذٰلِکَ أَمَرَہٗ بِہٖ، وَفِي الِاحْتِجَاجِ بِذٰلِکَ نَظَرٌ، وَالَّذِي یَظْہَرُ أَنَّ مَعْنٰی قَوْلِہٖ : ’اِرْجِعْہُ‘، أَيْ لَا تُمْضِ الْہِبَۃَ الْمَذْکُورَۃَ، وَلَا یَلْزَمُ مِنْ ذٰلِکَ تَقَدُّمُ صِحَّۃِ الْہِبَۃِ ۔
’’ان کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسے واپس کرو،ہبہ کے صحیح ہونے پر دلیل ہے،کیونکہ اگر ہبہ صحیح نہ ہوتا تو رجوع بھی درست نہیں تھا۔آپ کا اسے اپنے بیٹے سے ہبہ واپس لوٹانے کا حکم اس لیے ہے کہ والد اپنی اولاد سے ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے،اگرچہ واپس نہ لینا بہتر ہے،لیکن مساوات کے استحباب کو اس استحباب پر ترجیح دی گئی،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا۔(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:)مگر یہ دلیل بھی محل نظرہے۔واضح طور پر اس فرمان کا معنی یہ ہے کہ مذکورہ ہبہ کو جاری نہ رکھو۔اس سے اس ہبہ کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔‘‘(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 215/5)
b نیز ایک شبہ کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إِنَّ الْإِجْمَاعَ انْعَقَدَ عَلٰی جَوَازِ عَطِیَّۃِ الرَّجُلِ مَالَہٗ لِغَیْرِ وَلَدِہٖ، فَإِذَا جَازَ لَہٗ أَنْ یُّخْرِجَ جَمِیعَ وَلَدِہٖ مِنْ مَّالِہٖ؛ جَازَ لَہٗ اَنْ یُّخْرِجَ عَنْ ذٰلِکَ بَعْضَہُمْ، ذَکَرَہُ ابْنُ عَبْد الْبَرِّ، وَلَا یَخْفٰی ضَعْفُہٗ، لِاَنَّہٗ قِیَاسٌ مَّعَ وُجُود النَّصِّ ۔
’’علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ آدمی کے اپنا مال اپنی اولاد کے علاوہ کسی دوسرے کو ہبہ کرنے پر اجماع ہے۔چنانچہ جب کسی غیر کو ہبہ کرکے ساری اولاد کو محروم کیا جاسکتا ہے،تو(اپنی کچھ اولاد کو ہبہ کرنے کی صورت میں)کچھ اولادکو محروم رکھنا بھی درست ہوا۔(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:) لیکن اس بات کا ضعف آشکارا ہے،کیونکہ یہ قیاس نص کے ہوتے ہوئے کیا گیا ہے(جو کہ درست نہیں)۔‘‘(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 215/5)
@ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے اونٹ کے بارے میں یہ مکالمہ ہوا :
’بِعْنِیہٖ‘، قَالَ : ہُوَ لَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ : ’بِعْنِیہٖ‘ فَبَاعَہٗ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ہُوَ لَکَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ، تَصْنَعُ بِہٖ مَا شِئْتَ‘ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اونٹ مجھے بیچ دیجیے۔انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو آپ ہی کا ہے؟مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں،مجھے یہ اونٹ بیچ دیجیے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن عمر! اب یہ اونٹ آپ کا ہوا،اپنی مرضی کے مطابق اس کا استعمال کرو۔‘‘
(صحیح البخاري : 2115)
b اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے باب میں بھی ذکر کیا ہے تو شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں:
قَالَ ابْنُ بَطَّالٍ : مُنَاسَبَۃُ حَدِیثِ ابْنِ عُمَرَ لِلتَّرْجَمَۃِ أَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ سَأَلَ عُمَرَ أَنْ یَّہَبَ الْبَعِیرَ لِابْنِہٖ عَبْدِ اللّٰہِ لَبَادَرَ إِلٰی ذٰلِکَ، لٰکِنَّہٗ لَوْ فَعَلَ لَمْ یَکُنْ عَدْلًا بَیْنَ بَنِي عُمَر، فَلِذٰلِکَ اشْتَرَاہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ، ثُمَّ وَہَبَہٗ لِعَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ الْمُہَلَّبُ : وَفِي ذٰلِکَ دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَا تَلْزَمُ الْمَعْدِلَۃُ فِیمَا یَہَبُہٗ غَیْرُ الْـأَبِ لِوَلَدِ غَیْرِہٖ، وَہُوَ کَمَا قَالَ ۔
’’علامہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت کی ترجمۃ الباب سے یہ مطابقت ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اونٹ ہبہ کریں،تو وہ فوراً تعمیل کرتے،لیکن ایسا کرنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے مابین انصاف نہیں ہونا تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ خرید کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ہبہ کر دیا۔ مہلب کہتے ہیں ـ: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر باپ کے علاوہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو ہبہ کرے، تو اس میں مساوات ضروری نہیں ہے۔(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:)ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 215/5)
خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان نے اپنی زندگی میں اپنے کسی ایک بیٹے یا کچھ بیٹوں کو اپنی جائیداد میں حصہ دیا اور ان کے نام لگوا کر باقیوں کو محروم کر دیا، توایسا ہبہ ناجائز ہے، مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ایسے ہبہ کو واپس لوٹانا واجب ہے۔
# ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إِنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ کَانَ نَحَلَہَا جَادَّ عِشْرِینَ وَسْقًا مِّنْ مَّالِہٖ بِالْغَابَۃِ، فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ قَالَ : وَاللّٰہِ یَا بُنَیَّۃُ، مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ غِنًی بَعْدِي مِنْکِ، وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْکِ، وَإِنِّي کُنْتُ نَحَلْتُکِ جَادَّ عِشْرِینَ وَسْقًا، فَلَوْ کُنْتِ جَدَدْتِیہِ وَاحْتَزْتِیہِ کَانَ لَکِ، وَإِنَّمَا ہُوَ الْیَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا ہُمَا أَخَوَاکِ، وَأُخْتَاکِ، فَاقْتَسِمُوہُ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ، قَالَتْ عَائِشَۃُ : فَقُلْتُ : یَا أَبَتِ، وَاللّٰہِ لَوْ کَانَ کَذَا وَکَذَا لَتَرَکْتُہٗ، إِنَّمَا ہِيَ أَسْمَائُ، فَمَنِ الأُْخْرٰی؟ فَقَالَ اَبُو بَکْرٍ : ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَۃَ، أُرَاہَا جَارِیَۃً ۔
’’سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے جنگل کے مال سے بیس وسق کی مقدار میں عطیہ دیا۔جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگے: بیٹی!تمام لوگوں سے بڑھ کر میری وفات کے بعد مجھے تمہاراغنی ہونا پسند ہے اور مجھے میری وفات کے بعد تمام لوگوں سے بڑھ کرمشکل تمہارا فقیر ہونا لگتا ہے۔اگر تم اسے(باغ کے پھل کو)اُتارلیتیں اور جمع کر لیتیں، تووہ تمہارا تھا، مگر آج یہ صرف وارث کا مال ہے۔یہ تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں،ان میں اللہ عزوجل کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:ابو جان!اللہ کی قسم،اگر یہ مال اتنی اتنی مقدار میں بھی ہوتا،تومیں اس کو چھوڑ دیتی۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : 752/2، السنن الکبرٰی للبیہقي : 295/6، وسندہٗ صحیحٌ)
معلوم ہوا کہ اگر والد نے زندگی میں کسی بیٹے بیٹی کو کوئی چیز دے رکھی ہو، تو وفات کے بعد وہ بھی وراثت کے حساب سے تقسیم ہو جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.