1,038

اسلاف پرستی سے اصنام پرستی تک، شمارہ 32 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اسلاف پرستی سےاصنام پرستی تک

اسلاف پرستی ہی دراصل اصنام پرستی ہے ۔ دنیا میں شرک اولیاء و صلحاء کی محبت و تعظیم میں غلوّ کے باعث ہی پھیلا ۔ اس حقیقت کو شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ(661- 728ھ) یوں آشکارا کرتے ہیں : إِنَّ أَصْلَ الشِّرْكِ فِي الْعَالَمِ كَانَ مِنْ عِبَادَةِ الْبَشَرِ الصَّالِحِينَ وَعِبَادَةِ تَمَاثِيلِهِمْ وَهُمُ الْمَقْصُودُونَ، وَمِنَ الشِّرْكِ مَا كَانَ أَصْلُهُ عِبَادَةَ الْكَوَاكِبِ ؛ إمَّا الشَّمْسُ وَإِمَّا الْقَمَرُ وَإِمَّا غَيْرُهُمَا، وَصَوَّرَتِ الْأَصْنَامُ طَلَاسِمَ لِتِلْكَ الْكَوَاكِبِ، وَشِرْكُ قَوْمِ إبْرَاهِيمَ – وَاللّهُ أَعْلَمُ – كَانَ مِنْ هَذَا أَوْ كَانَ بَعْضُهُ مِنْ هَذَا، وَمِنَ الشِّرْكِ مَا كَانَ أَصْلُهُ عِبَادَةَ الْمَلَائِكَةِ أَوِ الْجِنِّ، وُضِعَتِ الْأَصْنَامُ لِأَجْلِهِمْ، وَإِلَّا فَنَفْسُ الْأَصْنَامِ الْجَمَادِيَّةِ لَمْ تُعْبَدْ لِذَاتِهَا، بَلْ لِأَسْبَابٍ اقْتَضَتْ ذٰلِكَ، وَشِرْكُ الْعَرَبِ كَانَ أَعْظَمُهُ الْأَوَّلَ، وَكَانَ فِيهِ مِنَ الْجَمِيعِ . “دنیا میں شرک کی بنیاد نیک بندوں کی عبادت تھی ، نیز ان کی مُورتیوں کو بھی پوُجا جاتا تھا لیکن مقصود وہی لوگ تھے۔ شرک کی ایک قسم وہ بھی تھی جس کی بنیاد ستاروں کی پرستش پر تھی ۔ وہ سورج ہو یا چاند یا کوئی اور ستارے ، بُتوں نے انہی ستاروں کی طلسمی تصویر پیش کی تھی۔ سیّدنا ابراہیم کی قوم کا شرک پُورا کا پُورا یہی تھا یا کچھ نہ کچھ اسی پر مبنی تھا ۔ شرک کی ایک اور قسم ہے جس کی بنیاد فرشتوں یا جنوں کی عبادت پر ہے ۔ فرشتوں اور جنّوں کی یاد میں بُت تراشے گئے ہیں ، ورنہ بے جان بُتوں کی عبادت محض انہی کے لیے کبھی نہیں کی گئی۔بلکہ ان کی عبادت کے پیچھے مذکورہ اسباب اس کے متقاضی تھے ۔ عربوں کے شرک کا بڑا حصہ پہلی قسم کے شرک سے تھا ، البتہ اُن میں سب طرح کا شرک پایا جاتا تھا۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : 17/460- 461)
نیز فرماتے ہیں : وَمِنْ هٰؤُلَاءِ مَنْ يَأْتِي إلىٰ قَبْرِ الشَّيْخِ الَّذِي يُشْرِكُ بِهِ وَيَسْتَغِيثُ بِهِ، فَيَنْزِلُ عَلَيْهِ مِنَ الْهَوَاءِ طَعَامٌ أَوْ نَفَقَةٌ أَوْ سِلَاحٌ أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا يَطْلُبُهُ، فَيَظُنُّ ذَلِكَ كَرَامَةً لِشَيْخِهِ، وَإِنَّمَا ذَلِكَ كُلُّهُ مِنَ الشَّيَاطِينِ، وَهٰذَا مِنْ أَعْظَمِ الْأَسْبَابِ الَّتِي عُبِدَتْ بِهَا الْأَوْثَانُ، وَقَدْ قَالَ الْخَلِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ :ﭽﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯﭼ إبراهيم: ٣٥،ﭽﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶﭷ ﭼ إبراهيم: ٣٦ ،كَمَا قَالَ نُوحٌ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْحَجَرَ لَا يُضِلُّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ إلَّا بِسَبَبٍ اقْتَضٰى ضَلَالَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ عُبَّادِ الْأَصْنَامِ يَعْتَقِدُ أَنَّهَا خَلَقَتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، بَلْ إِنَّمَا كَانُوا يَتَّخِذُونَهَا شُفَعَاءَ وَوَسَائِطَ لِأَسْبَابِ : مِنْهُمْ مَنْ صَوَّرَهَا عَلىٰ صُوَرِ الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَمِنْهُمْ مَنْ جَعَلَهَا تَمَاثِيلَ وَطَلَاسِمَ لِلْكَوَاكِبِ وَالشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ جَعَلَهَا لِأَجْلِ الْجِنِّ، وَمِنْهُمْ مَنْ جَعَلَهَا لِأَجْلِ الْمَلَائِكَةِ، فَالْمَعْبُودُ لَهُمْ فِي قَصْدِهِمْ إِنَّمَا هُوَ الْمَلَائِكَةُ وَالْأَنْبِيَاءُ وَالصَّالِحُونَ أَوِ الشَّمْسُ أَوِ الْقَمَرُ، وَهُمْ فِي نَفْسِ الْأَمْرِ يَعْبُدُونَ الشَّيَاطِينَ، فَهِيَ الَّتِي تَقْصِدُ مِنَ الْإِنْسِ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَتُظْهِرُ لَهُمْ مَا يَدْعُوهُمْ إلىٰ ذٰلِكَ كَمَا قَالَ تَعَالىٰ : ﭽ ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭼ سبأ : ٤٠، ﭽﭜ ﭝ ﭞ ﭟ ﭠ ﭡﭢ ﭣ ﭤ ﭥ ﭦﭧ ﭨ ﭩ ﭪﭼ سبأ: ٤١، وَإِذَا كَانَ الْعَابِدُ مِمَّنْ لَا يَسْتَحِلُّ عِبَادَةَ الشَّيَاطِينِ أَوْهَمُوهُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَدْعُو الْأَنْبِيَاءَ وَالصَّالِحِينَ وَالْمَلَائِكَةَ وَغَيْرَهُمْ مِمَّنْ يُحْسِنُ الْعَابِدُ ظَنَّهُ بِهِ، وَأَمَّا إنْ كَانَ مِمَّنْ لَا يُحَرِّمُ عِبَادَةَ الْجِنِّ عَرَّفُوهُ أَنَّهُمُ الْجِنُّ . “بعض مشرک ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایسے بزرگ کی قبر پر آتے ہیں جس کے ذریعے وہ شرک کرتے اور جس سے وہ مدد طلب کرتے ہیں تو ان کے پاس فضا سے کوئی کھانا یا خرچ یا اسلحہ وغیرہ جس کی انہیں طلب ہوتی ہے ، آ جاتا ہے ۔وہ اسے اس بزرگ کی کرامت سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔بُتوں کی پرستش کا بڑا سبب یہی رہا ہے ۔ سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ  نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی : :ﭽﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯﭼ إبراهيم: ٣٥،(اے اللہ مجھے اور میرے بیٹوں کو بُتوں کی پُوجا سے بچا لینا)، نیز عرض کی : ﭽﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶﭷ ﭼ إبراهيم: ٣٦(اے میرے ربّ اِن بُتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے)۔ اسی طرح کی بات سیّدنا نوح نے بھی کی تھی ۔ اب یہ بات تو معلوم ہے کہ پتھر لوگوں کو گمراہ نہیں کر سکتا ، ہاں کسی ایسے سبب سے یہ کام ہو سکتا ہے جو اُن کی گمراہی کا باعث بنا ہو ۔کسی بُت پرست کا یہ اعتقاد نہیں ہو سکتا کہ بُتوں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ بلکہ بُت پرست تو بُتوں کو کئی اسباب سے سفارشی اور وسیلہ بناتے تھے ۔ بعض مشرکین نے انبیائے کرام اور نیک اولیاء اللہ کی صورتوں پر بُت بنائے ہوئے تھے۔ بعض نے ستاروں ، سورج اور ستاروں کی مُورتیاں بنا لی تھیں ۔ بعض نے یہ مُورتیاں جنّوں کے لیے اور بعض نے فرشتوں کے لیے بنائی تھیں۔ اِن بُت پرستوں کا مقصد صرف فرشتوں ، انبیائے کرام ، نیک بزرگوں یا سورج اور چاند کی عبادت کرنا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ شیاطین کی عبادت کرتے ہیں ۔ یہ شیاطین ہی انسانوں سے بُتوں کی عبادت چاہتے ہیں اور اُن کے لیے بسااوقات ایسی چیزیں ظاہر کرتے ہیں جو اُن کو شرک کی طرف بلاتی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :ﭽ ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭛ ﭼ سبأ: ٤٠، ﭽﭜ ﭝ ﭞ ﭟ ﭠ ﭡﭢ ﭣ ﭤ ﭥ ﭦﭧ ﭨ ﭩ ﭪﭼ سبأ: ٤١،(اور اس دن اللہ ان سب کو جمع کرے گا ، پھرفرشتوں سے فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے : اے اللہ تُو پاک ہے ۔ ان کے خلاف تُو ہی ہمارا ولی ہے ۔یہ لوگ تو جنّوں کی عبادت کرتے تھے ۔ ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لاتے تھے۔)جب عبادت کرنے والا شیاطین کی عبادت کو جائز نہ سمجھتا ہو تو یہ شیاطین اس کو یہ وہم دیتے ہیں کہ وہ تو صرف اُن انبیائے کرام ، نیک لوگوں اور فرشتوں وغیرہ کو پُکار رہا ہے جن کے بارے میں عبادت گزار کو حسنِ ظن ہوتا ہے ۔ اور اگر عبادت گزار جنّوں وغیرہ کی عبادت کو حرام نہ سمجھتا ہو تو اُسے بتا دیتے ہیں کہ وہ جنّ ہی ہیں۔”
(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ الحرانی : 1/360)
مزید فرماتے ہیں : وَقَالَ تَعَالىٰ : ﭽﯗ ﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧ ﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﯱﯲ ﯳ ﯴ ﯵ ﯶ ﯷ ﯸﭼ الإسراء: ٥٦ – ٥٧، قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنَ السَّلَفِ : كَانَ أَقْوَامٌ يَدْعُونَ الْمَسِيحَ وَعُزَيْرًا وَالْمَلَائِكَةَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالىٰ : هَؤُلَاءِ الَّذِينَ تَدْعُونَهُمْ عِبَادِي كَمَا أَنْتُمْ عِبَادِي وَيَرْجُونَ رَحْمَتِي كَمَا تَرْجُونَ رَحْمَتِي وَيَخَافُونَ عَذَابِي كَمَا تَخَافُونَ عَذَابِي، وَيَتَقَرَّبُونَ إلَيَّ كَمَا تَتَقَرَّبُونَ إلَيَّ، فَإِذَا كَانَ هٰذَا حَالُ مَنْ يَدْعُو الْأَنْبِيَاءَ وَالْمَلَائِكَةَ فَكَيْفَ بِمَنْ دُونَهُمْ ؟ وَقَالَ تَعَالىٰ : ﭽ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉ ﮊ ﮋﮌ ﮍ ﮎ ﮏ ﮐ ﮑ ﮒ ﭼ الكهف: ١٠٢، َوَقَالَ تَعَالىٰ: ﭽﯯ ﯰ ﯱ ﯲ ﯳ ﯴ ﯵﯶ ﯷ ﯸ ﯹ ﯺ ﯻ ﯼ ﯽ ﯾ ﯿ ﰀ ﰁ ﰂ ﰃ ﰄ ﰅ ﰆ ﰇ ﰈ ﰉ ﰊ ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘﭙﭼ سبأ: ٢٢، ٢٣، فَبَيَّنَ سُبْحَانَهُ أَنَّ مَنْ دُعِيَ مَنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ جَمِيعِ الْمَخْلُوقَاتِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَالْبَشَرِ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي مُلْكِهِ، وَأَنَّهُ لَيْسَ لَهُ شَرِيكٌ فِي مُلْكِهِ، بَلْ هُوَ سُبْحَانَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَأَنَّهُ لَيْسَ لَهُ عَوْنٌ يُعَاوِنُهُ كَمَا يَكُونُ لِلْمَلِكِ أَعْوَانٌ وَّظُهَرَاءُ، وَأَنَّ الشُّفَعَاءَ عِنْدَهُ لَا يَشْفَعُونَ إلَّا لِمَنْ ارْتَضَى، فَنَفٰى بِذٰلِكَ وُجُوهَ الشِّرْكِ، وَذٰلِكَ أَنَّ مَنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِمَّا أَنْ يَكُونَ مَالِكًا وَإِمَّا أَنْ لَا يَكُونُ مَالِكًا، وَإِذَا لَمْ يَكُنْ مَالِكًا فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ شَرِيكًا وَإِمَّا أَنْ لَا يَكُونَ شَرِيكًا، وَإِذَا لَمْ يَكُنْ شَرِيكًا فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ مُعَاوِنًا وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ سَائِلًا طَالِبًا، فَالْأَقْسَامُ الْأُوَلُ الثَّلَاثَةُ وَهِيَ : الْمِلْكُ وَالشَّرِكَةُ وَالْمُعَاوَنَةُ مُنْتَفِيَةٌ، وَأَمَّا الرَّابِعُ فَلَا يَكُونُ إلَّا مِنْ بَعْدِ إذْنِهِ كَمَا قَالَ تَعَالَى : ﭽ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠﯡﭼ البقرة: ٢٥٥، وَكَمَا قَالَ تَعَالَى : ﭽﰆ ﰇ ﰈ ﰉ ﰊ ﰋ ﰌ ﰍ ﰎ ﰏ ﰐ ﰑ ﰒ ﰓ ﰔ ﰕ ﰖ ﰗﭼ النجم: ٢٦، وَقَالَ تَعَالَى : ﭽﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉﮊ ﮋ ﮌ ﮍ ﮎ ﮏ ﮐ ﮑ ﮒ ﮓ ﮔ ﮕ ﮖ ﮗﮘ ﮙ ﮚ ﮛ ﮜﮝﭼ الزمر: ٤٣ – ٤٤، وَقَالَ تَعَالَى : ﭽﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆﮇ ﮈ ﮉ ﭼ السجدة: ٤، وَقَالَ تَعَالَى : ﭽﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦﯧ ﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﭼ الأنعام: ٥١، وَقَالَ تَعَالَى : ﭽﭯ ﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉ ﮊﮋ ﮌ ﮍ ﮎ ﮏ ﮐ ﮑ ﮒﮓ ﮔ ﮕ ﮖ ﮗ ﮘ ﮙ ﮚ ﭼ آل عمران: ٧٩ – ٨٠، فَإِذَا جُعِلَ مَنِ اتَّخَذَ الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا كَافِرًا فَكَيْفَ مَنِ اتَّخَذَ مَنْ دُونَهُمْ مِنَ الْمَشَايِخِ وَغَيْرِهِمْ أَرْبَابًا، وَتَفْصِيلُ الْقَوْلِ : أَنَّ مَطْلُوبَ الْعَبْدِ إنْ كَانَ مِنَ الْأُمُورُ الَّتِي لَا يَقْدِرُ عَلَيْهَا إلَّا اللَّهُ تَعَالَى مِثْلُ أَنْ يَطْلُبَ شِفَاءَ مَرِيضِهِ مِنَ الْآدَمِيِّينَ وَالْبَهَائِمِ أَوْ وَفَاءَ دَيْنِهِ مِنْ غَيْرِ جِهَةٍ مُعَيَّنَةٍ أَوْ عَافِيَةَ أَهْلِهِ وَمَا بِهِ مِنْ بَلَاءِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَانْتِصَارَهُ عَلَى عَدُوِّهِ وَهِدَايَةَ قَلْبِهِ وَغُفْرَانَ ذَنْبِهِ أَوْ دُخُولَهُ الْجَنَّةَ أَوْ نَجَاتَهُ مِنْ النَّارِ أَوْ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَالْقُرْآنَ أَوْ أَنْ يُصْلِحَ قَلْبَهُ وَيُحَسِّنَ خُلُقَهُ وَيُزَكِّيَ نَفْسَهُ وَأَمْثَالَ ذَلِكَ، فَهٰذِهِ الْأُمُورُ كُلُّهَا لَا يَجُوزُ أَنْ تُطْلَبَ إلَّا مِنَ اللَّهِ تَعَالىٰ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَقُولَ لِمَلِكِ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا شَيْخٍ – سَوَاءٌ كَانَ حَيًّا أَوْ مَيِّتًا – اغْفِرْ ذَنْبِي وَلَا اُنْصُرْنِي عَلَى عَدُوِّي وَلَا اشْفِ مَرِيضِي وَلَا عَافِنِي أَوْ عَافِ أَهْلِي أَوْ دَابَّتِي وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، وَمَنْ سَأَلَ ذٰلِكَ مَخْلُوقًا كَائِنًا مَنْ كَانَ فَهُوَ مُشْرِكٌ بِرَبِّهِ مِنْ جِنْسِ الْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ يَعْبُدُونَ الْمَلَائِكَةَ وَالْأَنْبِيَاءَ وَالتَّمَاثِيلَ الَّتِي يُصَوِّرُونَهَا عَلَى صُوَرِهِمْ، وَمِنْ جِنْسِ دُعَاءِ النَّصَارَى لِلْمَسِيحِ وَأُمِّهِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالىٰ : ﭽﭼ ﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉ ﮊﮋ ﭼ المائدة: ١١٦، الْآيَة، وَقَالَ تَعَالىٰ : ﭽﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﭼ التوبة: ٣١، وَأَمَّا مَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ الْعَبْدُ فَيَجُوزُ أَنْ يُطْلَبَ مِنْهُ فِي بَعْضِ الْأَحْوَالِ دُونَ بَعْضٍ ؛ فَإِنَّ “مَسْأَلَةَ الْمَخْلُوقِ” قَدْ تَكُونُ جَائِزَةً وَقَدْ تَكُونُ مَنْهِيًّا عَنْهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالىٰ : ﭽ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧ ﯨ ﭼ الشرح: ٧-٨، وَأَوْصَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ابْنَ عَبَّاسٍ : ((إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاَللَّهِ)) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  “اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﭽﯗ ﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧ ﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﯱﯲ ﯳ ﯴ ﯵ ﯶ ﯷ ﯸﭼ الإسراء: ٥٦ – ٥٧،(اے نبی! کہہ دیجیے کہ تم جن لوگوں کو اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو ، نہ وہ تم سے کسی تکلیف کے ہٹانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ اسے بدلنے کا۔جنہیں یہ مشرک لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ تک پہنچنے کا وسیلہ ڈھونڈتے کہ ان میں سے کون اللہ سے قریب تر ہو سکتا ہے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بلاشبہ آپ کے ربّ کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے)۔ سلف صالحین کے ایک گروہ نے کہا ہے : کچھ لوگ سیّدنا عیسیٰ ، سیّدنا عزیر اور فرشتوں کو پُکارتے تھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو تم پکارتے ہو وہ بھی اسی طرح کے بندے ہیں جس طرح کے تم ہو ،وہ بھی میری رحمت کے اُسی طرح امیدوار ہیں جس طرح تم ہو ، وہ بھی میرے عذاب سے اسی طرح ڈرتے ہیں جس طرح تم ڈرتے ہو اور وہ بھی میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح تم کرتے ہو۔ جب انبیائے کرام اور فرشتوں کو پکارنے والوں کا یہ حال ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہو گا (جو اولیاء اللہ کو پُکارتے ہیں)؟اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ﭽﮃ ﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉ ﮊ ﮋﮌ ﮍ ﮎ ﮏ ﮐ ﮑﭼ الكهف: ١٠٢، (کیا پھر کافروں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کارساز بنا لیں گے ۔ بلاشبہ ہم نے کافروں کے لیے جہنم کی مہمانی تیار کی ہوئی ہے۔)نیز فرمایا : ﭽﯯ ﯰ ﯱ ﯲ ﯳ ﯴ ﯵﯶ ﯷ ﯸ ﯹ ﯺ ﯻ ﯼ ﯽ ﯾ ﯿ ﰀ ﰁ ﰂ ﰃ ﰄ ﰅ ﰆ ﰇ ﰈ ﰉ ﰊ ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘﭙﭼ سبأ: ٢٢، ٢٣، (اے نبی ! کہہ دیجیے کہ تم اُنہیں پکارو جن کو تم نے اللہ کو چھوڑ کر معبود سمجھ رکھا ہے ۔ وہ تو آسمانوں اور زمین میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں ہیں نہ ان کا زمین و آسمان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا معاون ہے۔اس کے ہاں کسی کی شفارش بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ ہاں جسے وہ اجازت دے )۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ فرشتوں اور انسانوں میں سے جس بھی مخلوق کو پکارا جاتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں سے ایک ذرے کے بھی مالک نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اُسی اللہ کے لیے بادشاہت اور تعریف ہے ، وہی ہر چیز پر قادر ہے۔جس طرح بادشاہوں کے معاونین اور مددگار ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا کوئی معاون نہیں، نیز سفارشی اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف اس شخص کی سفارش کر سکیں گے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سفارش کو پسند کریں گے ۔اللہ تعالیٰ نےاس سے شرک کی تمام اقسام کی نفی کر دی ہے۔اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ جس کو مشرکین اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں ، وہ یا تو مالک ہو گیا یا مالک نہیں ہو گا۔ اگر مالک نہیں ہو گا تو یا وہ شریک ہو گا یا شریک نہیں ہو گا ۔ اگر وہ شریک نہیں ہو گا تو یا معاون ہو گا یا سوالی و طالب ہو گا ۔ پہلی تین اقسام یعنی ملکیت ، شرکت اور معاونت تو ممتنع ہیں ۔ چوتھی قسم یعنی سفارش صرف اس کی اجازت کے بعد ہو سکتی ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﭽ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠﯡﭼ البقرة: ٢٥٥،(کون ہے جو اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے ؟ ) نیز فرمایا : ﭽﰆ ﰇ ﰈ ﰉ ﰊ ﰋ ﰌ ﰍ ﰎ ﰏ ﰐ ﰑ ﰒ ﰓ ﰔ ﰕ ﰖ ﰗﭼ النجم: ٢٦،(آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں کہ ان کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دیتی مگر اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اور پسند کرے ، اجازت دے دے۔) ایک مقام پر فرمایا : ﭽﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉﮊ ﮋ ﮌ ﮍ ﮎ ﮏ ﮐ ﮑ ﮒ ﮓ ﮔ ﮕ ﮖ ﮗﮘ ﮙ ﮚ ﮛ ﮜﮝﭼ الزمر: ٤٣ – ٤٤،(کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ کوئی سفارشی بنا لیے ہیں ؟ کہہ دیجیے کہ اگر وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور کچھ نہ سمجھتے ہوں تو؟تمام شفاعت اللہ ہی کےلیے ہے ، اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے ۔ ) نیز فرمایا : : ﭽﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆﮇ ﮈ ﮉ ﭼ السجدة: ٤،(اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے ، آسمانوں ، زمین اور جو کچھ دونوں کے درمیان ہے ، چھ دن میں پیدا کیا ، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا ۔ تمہارے لیے اس کے سوا کوئی کارساز اور سفارشی نہیں ، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟) نیز فرمایا : ﭽﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦﯧ ﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﭼ الأنعام: ٥١،(اے نبی ! آپ اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرائیں جو اپنے رب کی طرف جمع کیے جانے سے ڈرتے ہیں ۔ ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی کارساز اور سفارشی نہیں ۔ شاید کہ وہ ڈریں ) نیز فرمایا : ﭽﭯ ﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉ ﮊﮋ ﮌ ﮍ ﮎ ﮏ ﮐ ﮑ ﮒﮓ ﮔ ﮕ ﮖ ﮗ ﮘ ﮙ ﮚ ﭼ آل عمران: ٧٩ – ٨٠، کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کرے تو وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ ، بلکہ وہ کہے گا کہ رب والے بن جاؤ ، کیونکہ تم اس کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو ۔ اور وہ تمہیں اس بات کا حکم نہیں دے گا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو ربّ بنا لو ۔ کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا جبکہ تم مسلمان ہو چکے ہو؟) پس جب فرشتوں اور نبیوں کو اللہ کے علاوہ ربّ بنانے والا کافر قرار دیا گیا ہے تو اُن لوگوں کا حال کیا ہو گا جنہوں نے نبیوں اور فرشتوں سے ادنیٰ شیوخ وغیرہم کو ربّ بنا لیا ہے ؟ اس بات کی تفصیل یہ ہےکہ اگر بندے کا مطلوب ایسی چیز ہو جس پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہو تو ایسے اُمور صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیے جا سکتے ہیں ، مثلاً بیمار انسانوں یا جانوروں کے لیے شفاء کی طلب ، اپنے قرض کی غیر معین جہت کے ادائیگی ، اپنے گھر والوں کی عافیت ، دنیا و آخرت کی آزمائشوں سے چھٹکارا ، دشمن پر غلبہ ، دل کی ہدایت ، گناہوں کی معافی ، جنت میں دخول ، جہنم سے آزادی ، علم اور قرآنِ کریم کی تعلیم کا حصول ، دل کی اصلاح ، حُسنِ اخلاق، تزکیہ نفس وغیرہ ۔کسی بادشاہ ، نبی یا شیخ سے ، وہ زندہ ہو یا مردہ ، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے گناہ معاف کر دے ، میرے دشمنوں پر مجھے غلبہ دے دے ، میرے مریض کو شفاء دے دے ، مجھے عافیت دے دے یا میرے گھروالوں یا میرے جانوروں کو صحت دے دے وغیرہ وغیرہ۔ جس شخص نے کسی بھی مخلوق سے اِن میں سے کوئی چیز مانگی وہ اپنے ربّ کے ساتھ شرک کرنے والا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے وہ مشرک جو فرشتوں ، انبیائے کرام اور اُن مُورتیوں کی عبادت کرتے ہیں جو فرشتوں اور انبیائے کرام کی صورتوں پر بنائی گئی ہیں اور بالکل ایسے ہی جیسے نصاریٰ سیّدنا عیسیٰ اور ان کی والدہ کو پُکارتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﭽﭼ ﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ ﮃ ﮄ ﮅ ﮆ ﮇ ﮈ ﮉ ﮊﮋ ﭼ المائدة: ١١٦، (جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا دو الٰہ بنا لو ؟) نیز فرمایا : ﭽﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﭼ التوبة: ٣١، (انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں اور عیسیٰ بن مریم کو اللہ کے علاوہ اپنا ربّ بنا لیا تھا ، حالانکہ ان کو صرف ایک ہی الٰہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بری ہے )۔ اب رہیں وہ چیزیں جن پر بندے قادر ہوتے ہیں تو ایسی چیزیں بسااوقات بندوں سے مانگی جا سکتی ہیں ۔ مخلوق سے مانگنا کبھی جائز ہوتا ہے اور کبھی ممنوع ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﭽ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧ ﯨ ﭼ الشرح: ٧-٨،(جب آپ فارغ ہوں تو محنت کیجیے اور اپنے ربّ ہی کی طرف رغبت کیجیے)۔ نبیِ اکرم نے سیّدنا ابنِ عباس کووصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو ۔ ”
(زیارۃ القبور والاستنجاد بالمقبور لابن تیمیۃ : 5۔11)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.