1,797

حدیث مصراۃ ۔۔۔علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

حدیث ِ مصرّاۃ
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصرّوا الابل والغنم ، فمن ابتاعہا بعد فانہ بخیر النظرین بعد ان یحتلبہا ، ان شاء امسک وان شاء ردہا وصاع تمر ۔
”(خریدار کو دھوکا دینے کے لیے )اونٹنیوں اور بکریوں کا دودھ نہ روکو ، جو ایسا جانور خرید بیٹھے ، وہ دو باتوں میں سے ایک کا اختیار رکھتا ہے ، چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو اسے مالک کی طرف لوٹا دے ، سا تھ کھجوروں کا ایک صاع بھی دے ۔”
(صحیح بخاری : ١/٢٨٨، ح : ٢١٣٨، صحیح مسلم : ٢/٤۔٥ ، ح : ١٥٢٤)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے :
من اشتری شاۃ مصراۃ فہو بالخیار ثلاثۃ ایام ، فان ردہا ، رد معہا صاعا من طعام ، لا سمرائ۔
”جو دودھ روکی ہوئی بکری خرید لے، وہ تین دن (واپس کرنے کا )اختیار رکھتا ہے ، اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ طعام (کھجور)کا ایک صاع بھی دے ، نہ کہ گندم کا ۔”
”مُصَرَّاۃٌ ”سے مراد وہ جانور ہے ، جس کا دودھ اس کے تھنوں میں روک دیا گیا ہو ۔
اگر کوئی شخص بکری یا اونٹ وغیر ہ کو بیچنے کے ارادے سے خریدار کو دودھ زیادہ باور کروانے کے لیے ایک دو دن تھنوں میں دودھ روکے رکھے تو یہ کام ناجائزو حرام اور دھوکا ہے ، یہ اقدام اس جانور کو عیب دار بنا دیتاہے ، اگر کوئی غلطی سے ایسا جانور خرید لے اور بعد میں اسے پتا چل جائے تو تین دن کے اندر واپس لوٹانے کا مجاز ہے ، لیکن جب جانور واپس لوٹائے گاتو جو دودھ پیا ہے ، اس کے عوض ایک صاع (دو سیر چار چھٹانک) کھجور دے گا۔
آلِ تقلید کے نزدیک یہ متفق علیہ حدیث متروک اورناقابلِ عمل ہے ، اس کو مہمل ثابت کرنے کے لیے ان سے کئی خرافات و ہفوات صادر ہوئی ہیں ، جنہیں سن کر اہلِ کتاب بھی شرما جائیں ، برا ہو اس مؤنث تقلید ِ نا سدید کا جو ہمہ وقت برائی کو جنم دیتی رہتی ہے ، اس نے علم و عمل کا جنازہ اٹھا دیا ، عمل بالحدیث کو شدید افراتفری اور سنگین گمراہی قرار دیا ،جیسا کہ جناب تقی عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں :
”اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے تو اس کا نتیجہ شدید افرا تفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔”
(تقلید کی شرعی حیثیت از تقی : ٨٧)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی آلِ تقلید کی شقاوت و ضلالت کا یوں تذکرہ کرتے ہیں :
”اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہو تے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے ، ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا ، بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں ، دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح پر عمل کر لیں ۔”
(تذکرۃ الرشید از عاشق الٰہی دیوبندی :١/ ١٣١)
جن کے سینوں میں امتی کے قول کے خلاف کوئی آیت یا حدیث سن کر نہ صرف تنگی اور گھٹن پیدا ہو ، بلکہ دل سے نفرت و انکار کے شعلے بلند ہوں ، وہ دینِ اسلام کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ ایسوں کو اہلِ سنت کہلانے سے عارکیوں نہیں ؟
آلِ تقلید نے حدیث ِ مصراۃ سے جو ناروا سلوک کیا ہے ، وہ ملا حظہ فرمائیں :
اعتراض نمبر ١:
حنفی اصولِ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حدیث ِ مصراۃ میں جوایک صاع کھجوروںکا ادا کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے ، اس کے اور دودھ کے درمیان کوئی توازن نہیں ، یہ قیا س کے خلاف ہے ، راویئ حدیث ابوہریرہ غیر فقیہ ہیں ”وعلی ہذا ترک اصحابنا روایۃ ابی ہریرۃ فی مسالۃ المصراۃ بالقیاس۔
”اس بناپر ہمارے اصحاب نے مسئلہ مصراۃ میں ابو ہریرہ کی حدیث کوناقابلِ عمل قرار دیا ہے ۔ ”
(دیکھیں نور الانوار : ١٨٣، اصول الشاشی : ٧٥)
جواب:
١٭    حدیث ِ ابی ہریرہ مسئلہ مصراۃ میں نص ہے ، نص یعنی واضح دلیل کے مقابلے میں قیاس کرنا شیطان لعین کا کام ہے ، لہٰذا ان کا قیاس بھی شیطان کے قیاس کی طرح باطل و مردود ہے ، امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أول من قاس ابلیس۔ :”(دلیل کے مقابلے میں )سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : ١٤/٨٦، وسندہ حسن)
تقلید پرستوں کا یہ کہنا کہ یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے ، دراصل منکرینِ حدیث کی تائید ہے ، وہ بھی کتنی ہی احادیث کے رد میں یہی طریقہ اپناتے ہیں ، جب نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ سنا دیا ہے کہ تین دن کے اندر اندر جانور واپس کرے اور جتنا دودھ بھی پی لیا ہے ، اس کے بدلے ایک صاع کھجوراد اکرے ، اب یہ کہنا کہ یہ نبوی فیصلہ قیاس کے خلاف ہے ، دودھ اور کھجوروں میں توازن نہیں ، واضح انکارِ حدیث ہے ۔یہاں صحیح حدیث کے خلاف قیاس محض ابلیسی چال ہے۔
جیسا کہ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں :
وہذا الجواب باطل لا یلتفت الیہ ۔ یعنی: ”یہ جواب باطل اور ناقابلِ التفات ہے ۔”
(فیض الباری : ٣/٢٣)
٢٭    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غیر فقیہ کہہ کر حدیث کو متروک قرار دینے والوں کو معلوم نہیں کہ یومِ حساب آنے والا ہے ، حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”جس نے حدیث پر اس بنا پر طعن کیا کہ اس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقیہ نہیں تھے ، لہٰذا قیاس کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ عمل ہے ، وہو کلام آذی قائلہ بہ نفسہ ۔(اس نے یہ بات کہہ کر اپنے آپ کا ہی نقصان کیا ہے )۔”(فتح الباری : ٤/٣٦٤)
حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
قلت : والمعتزلۃ تقول : لو أن المحدّثین ترکوا ألف حدیث فی الصّفات والأسماء والرؤیۃ والنزول لأصابوا ، والقدریۃ تقول : لو أنہم ترکوا سبعین حدیثا فی اثبات القدر ، والرافضۃ تقول : لو أن الجمہور ترکوا من الأحادیث التی یدّعون صحتہا ألف حدیث لأصابوا ، وکثیر من ذوی الرّأی یروون أحادیث شافہ بہا الحافظ المفتی المجتہد أبوہریرۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ویزعمون أنہ ما کان فقیہا ، ویأتوننا بأحادیث ساقطۃ ، أولا یعرف لہا اسناد أصلا محتجّین بہا ۔
قلنا : وللکل موقف بین یدی اللّٰہ تعالیٰ : یاسبحان اللّٰہ ! أحادیث رؤیۃ اللّٰہ فی الآخرۃ متواترۃ والقرآن مصدّق لہا ، فأین الانصاف ؟
”معتزلہ کہتے ہیں کہ اگر محدثین اسماء و صفات ، رؤیت اور نزولِ بار ی تعالیٰ کے بارے میں ایک ہزار احادیث چھوڑدیتے تو درست کرتے ، قدریہ کہتے ہیں کہ اگر محدثین اثبات ِ قدر کے بارے میں مروی ستر احادیث چھوڑدیتے تو اچھا کرتے ، رافضی کہتے ہیں کہ اگر جمہور وہ ہزار حدیث چھوڑ دیں ، جن کی صحت کے وہ دعوے دار ہیں تو اچھاکریں گے ، اکثر اہل الرائے ایسی احادیث کو بیان کرتے ہیں ، جن کو الحافظ ، المفتی ، المجتہد امام ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا واسطہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، پھر کہتے ہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے ، خود دلیل کے طور پر من گھڑت احادیث یا بلا سند روایات پیش کرتے ہیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے ،آخرت میں رؤیت ِ باری تعالیٰ کی احادیث تو متواتر ہیں اور قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے ،(ان کا انکا ر کرنے میں )انصاف کہاں ہے ؟”
(سیر أعلام النبلاء للذہبی : ١٠/٤٥٥)
سیدنا أبو ہریرہ کی عالیشان کرامت:
قاضی ابو الطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا ، اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے میں استفتاء کیا تو ایک محدث نے اس مسئلے میں سیدنا ابو ہریرہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ خبیث بولا ، ابو ہریرہ کی حدیث قبول نہیں ، قاضی ابو الطیب نے فرمایا ، اس نوجوان نے ابھی اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر ا ، لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے دوڑنے لگا ، بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا ۔(المنتظم لابن الجوزی : ١٧/١٠٦، وسندہ صحیح)
٣٭     فقیہ الامت سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتوٰ ی بھی حدیث ِ ابی ہریرہ کے موافق ہے :
من اشتری شاۃ محفلۃ فردہا ، فلیردہا معہا صاعا من تمر ۔
”جو شخص دودھ روکی ہو ئی بکری خرید بیٹھے اور پھر اسے واپس کرنا چاہے ، وہ اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع واپس کرے ۔”(صحیح بخاری : ١/٢٨٨، ح : ٢١٤٩)
سیدنا ابنِ مسعود کے اس فتوے کا کیا جواب ہے ، جو فرمانِ نبوی کے عین مطابق ہے ؟
جناب محمود الحسن دیوبندی”اسیرِ مالٹا” لکھتے ہیں :
”مصراۃ کی حدیث کا جو جواب صاحب ِ نورالانوار دیتے ہیں ، وہ ہر گز درست نہیں ، کیونکہ اگر ابوہریرہ غیر فقیہ تسلیم کر لیے جائیں تو ابنِ مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت جس کو بخاری نے تخریج کیا ہے ، اس کا کیا جواب ہو گا؟”(تقاریر شیخ الہند : ١٤٣)
جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
”ومن یجتریئ علی ابی ہریرۃ فیقول : انہ کان غیر فقیہ ؟ ولو سلمنا ، فقد یرویہ افقہم اعنی ابن مسعود ایضا ، فیعود المحذور۔
”کون سیدنا ابو ہریرہ کے خلاف جسارت کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ غیرفقیہ تھے ؟ اگر ہم اس بات کو تسلیم کر بھی لیں تو فقیہ صحابہ یعنی سیدنا ابنِ مسعود نے بھی اسے بیان کیا ہے ، لہٰذا اعتراض پھرلوٹ آیا۔”
(فیض الباری : ٣/٢٣١)
اعتراض نمبر ٢:
جناب حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں :
”آپ کا یہ فیصلہ بطورِ قاعدہ کلیہ نہیں ہے ، بلکہ ایک جزئی واقعہ میں آپ نے اسے فرمایاتھا ، راوی نے روایت بالمعنیٰ کے طور پر اسے قاعدہ کلیہ بنا لیا ، بہر حال چوں کہ روایت ِ مصراۃقواعد ِ کلیہ کے خلا ف ہے ۔۔۔۔”(تقریرِ ترمذی از حسین احمد : ٦٧٨)
جواب:
یہ سخت مغالطہ ہے اور شریعت ِ اسلامیہ کو مشکوک قرار دینے کی مذموم سازش ہے ، نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان”من اشتری شاۃ”میں” من ” عموم کے لیے ہے ، یہ حکم کلی طور پر عا م ہے ، سیدنا ابنِ مسعود کا فتوی بھی اس بات کی عکا سی کرتا ہے ۔
علامہ ابنِ حزم فرماتے ہیں :
قالوا : ہو مخالف الأصول ، فقلنا : کذبتم ، بل ہو أصل من کبار الأصول ، وانّما المخالف للأصول قولکم فی الوضوء من القہقہۃ فی الصلاۃ خاصۃ ، وقولکم بأن القلس لا ینقض الوضوء أصلا ، الا اذا کان ملأ الفم ، وقولکم فی جعل الآبق أربعون درہما اذا کان علی مسیرۃ ثلاث ، وقولکم فی عین الدّابۃ ربع ثمنہا ، والوضوء بالخمر ، وسائر تلک الطّوام التی ہی بالمضاحک ربما یأتی بہ المبرسم أشبہ منہا بشرائع الاسلام۔
”احناف کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اصول(قیاس )کے خلاف ہے ، ہم کہتے ہیں کہ یہ تو تمہارا جھوٹ ہے ، بلکہ یہ حدیث(اسلام کے ) عظیم الشان اصولوں میں سے ایک اصول ہے ، قیاس کے خلاف تو تمہاری یہ بات ہے کہ صرف نماز میں قہقہہ ناقضِ وضو ہے اور یہ بات کہ قے منہ بھر کر نہ ہوتو بالکل ناقضِ وضونہیں ، نیز یہ کہنا کہ اگر غلام تین دن کی مسافت بھاگ گیا ہو تو اس پر چالیس درہم( جرمانہ) ہے ، جانور کی آنکھ (ضائع کرنے )میں اس کی کل قیمت کا چوتھائی حصہ( جرمانہ )ہے اور شراب(پختہ نبیذ )سے وضو وغیرہ جیسے اور بھی کئی مضحکہ خیز مسائل ہیں کہ بسا اوقات پاگل آدمی بھی ان سے بڑھ کر اسلامی اصولو ں سے ملتی جلتی بات کر دیتا ہے ۔” (المحلی : ٦/٦٧۔٦٨)
اعتراض نمبر ٣:
جناب حسین احمد” مدنی ”دیوبندی شریعت کا یوں مذاق اڑاتے ہیں :
”تو جب دودھ ملک ِ مشتری (خریدار کی ملکیت )ہے ، کیونکہ کھلایا پلایا اس نے ہے ، تو اب اس سے ایک صاع کا مطالبہ کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ ”(تقریر ترمذی از حسین احمد : ٦٧٧)
جواب:
یہ فیصلہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ، آپ کا ہر فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے ، مومنو ں کو چاہیے کہ وہ اللہ و رسول کا ہر فیصلہ دل و جان سے قبول کریں ، ضدی اور معاند نہ بنیں ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ’ۤ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ’ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا)(الأحزاب : ٣٦)
”کسی مومن مرد اور عورت کے لیے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو اس کے لیے کوئی اختیا ر باقی رہے ، جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے ، وہ واضح گمراہ ہو گیا ۔”
اعتراض نمبر ٤:
نیز کہتے ہیں :
”امام صاحب (ابو حنیفہ )فرماتے ہیں کہ یہ تصریہ (جانور کے تھنوں میں دودھ روکنا ، یہ باور کرانے کے لیے کہ یہ جانور بہت دودھ دینے والا ہے )عیب نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ عقد (لین دین )کا مقتضایہ ہے کہ مبیع(فروخت شدہ جانور )عیوب سے خالی ہو ، یہ عیب جو دودھ میں ہے ، یہ اس کے ثمرات و منافع اور زوائد میں ہے ، جس کی وجہ سے نفسِ بیع پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، خواہ دودھ کم ہو یا بہت ، لہٰذا بیع کا فسخ کرنا اور مبیع (فروخت شدہ جانور )کا رد کرناجائز نہ ہو گا ، بلکہ یہ بیع لازم ہو گئی ، مشتری (خریدار )اور قاضی کو اس کے فسخ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔”(درسِ ترمذی از حسین احمد : ٦٧٥)
جواب:
جانور واپس لوٹانے کا حق نبی ئ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ ہے اور آپ کا عطاکردہ حق کیوں چھینا جا رہا ہے ؟ اس بات سے بچہ بچہ واقف ہے کہ جانور کے تھنوں میں دودھ روکنا ، یہ باور کرانے کے لیے کہ یہ جانور بہت زیادہ دودھ دینے والا ہے ، صریح دھوکا اور عیب ہے ، خریدار نے جب جانور خریدا تھا ، اس کے دودھ کی زیادتی کو دیکھ کر ، جبکہ بعد میں معلوم ہو ا کہ یہ جانور تو ادا کردہ قیمت کے مطابق بہت کم دودھ دیتاہے ، تو یہ واضح عیب ہے ، اس عیب کے باوجود اگر وہ بیع فسخ نہ کرنا چاہے ، تو نہ کرے ، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔
قارئین!کتنی بڑی جسارت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو فسخ کا حق دیں ، اس وجہ سے کہ اس جانور میں عیب ہے ، لیکن تقلید پرست یہ کہیں کہ یہ عیب نہیں ہے ، لہٰذا فسخ کا کوئی حق نہیں ، فرمائیں !یہ حدیث کا اتباع ہے یا مخالفت ؟ آپ اس کو کیا نام دیں گے ؟
اعتراض نمبر ٥: جناب حسین احمد ”مدنی ” دیو بندی کہتے ہیں :
”یہ دوسری بات ہے کہ بائع (بیچنے والا )اور مشتری (خریدنے والا )باہمی رضامندی سے رد کرنا چاہیں تو یہ جائز ہے ۔”(تقریر ترمذی از حسین احمد : ٦٧٥)
جواب: یہ ہو ا پرستی ہے ، ” باہمی رضامندی ” کہاں سے لے آئے ؟ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خریدار کو ان الفاظ میں اختیار دیا ہے کہ ((ان شاء أمسک ، وان شاء ردّہا وصاع تمر))”اگر چاہے تو پاس رکھ لے اور اگر چاہے تو جانور ایک صاع کھجوروں کے ہمراہ واپس کر دے ”۔اگر خریدار اپنا یہ حق استعمال کرنا چاہے تو بیچنے والے پر نبوی فرمان کے مطابق لازم ہے کہ وہ یہ جانور واپس لے ، بصورت ِ دیگر حدیث کا مخالف ٹھہرے گا اور سخت گناہ گار ہو گا ۔
اعتراض نمبر ٦:
جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں :
”یہ حدیث قرآنی ضابطہ (فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ) سے متعارض ہے
(فتح القدیر : ٢/١٤١)یعنی تلف شدہ چیز کا تاوان بالمثل ہوتا ہے ، عام اس سے کہ مثل صوری ہو یا معنوی ، یعنی قیمت اور ”صاع من تمر ”(ایک صاع کھجوریں )نہ تو مثلِ لبن (دودھ کی مثل )اور نہ قیمت ِلبن ہے ۔”(الکلام المفید : ٢٧٢۔٢٧٣، خزائن السنن : ٥٤٨)
جواب:
١٭    یہ منکرینِ حدیث کی روش ہے کہ حدیث کو قرآن کے معارض قرار دے کر ترک کر دیتے ہیں ۔ ؎یہ مدعی ئ اسلام تو ہیں ، ساتھی ہیں مگر بیگانوںکے
تقوٰی کی وہ بوہی ان میں نہیں ، وہ رنگ نہیں ایمانوں کے
جناب سرفراز خان صفدر خود لکھتے ہیں :
”صحاحِ ستہ کی صحیح احادیث میںسے کوئی حدیث قرآنِ کریم کی کسی بھی آیت ِ کریمہ کے ہر گز خلاف نہیں ، اگر کسی کوتاہ فہم کو صحاحِ ستہ کی کسی حدیث کا قرآنِ کریم کی کسی آیت ِ کریمہ سے تضاد نظر آتا ہے تو وہ اس کی اپنی سوء ِ فہم کا نتیجہ ہے ، ایسا سطحی قسم کا تعارض تو قر آنِ کریم کی بعض آیا تِ کریمات کا آپس میں بھی معلوم ہوتا ہے۔”(شوقِ حدیث از صفدر: ١٥٣)
٢٭    اس آیت ِ کریمہ کا تعلق عقوبات (تعزیرات )سے ہے ، جبکہ اس حدیث کا تعلق اموال کے ساتھ ہے ، اموال کا تاوان کبھی بالمثل ہوتا ہے اور کبھی بالمثل نہیں ہوتا۔
٣٭    اگر ایک صاع کھجوریں نہ دودھ کی مثلِ صوری ہیں نہ مثلِ معنوی یعنی قیمت ہیں تو یہ مثلِ شرعی ہوئیں ، کیونکہ اس دودھ کی مثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کی ہے ، لہٰذا اس میں چوں چراں کی کیا ضرورت ہے ؟
اعتراض نمبر ٧: صفدر صاحب مزید لکھتے ہیں :
” یہ حدیث ((الخراج بالضمان))کی حدیث کے خلاف ہے (ابو داؤد : ٢/١٣٩[٣٥٠٨، وسندہ حسن۔غ ، م)یعنی جو شخص کسی چیز کے نقصان کو برداشت کرتاہے تو چیز کا نفع بھی اس کا ہو گا، چونکہ مشتری (خریدار)دودھ دینے والے جانور کا خرچہ اٹھاتاہے ، اس لیے اس کے دودھ کا حقدار بھی وہی ہے ، جو عادتاً چارہ کی قیمت سے زیادہ ہوتاہے ، اس کے بدلے میں اسے بائع (بیچنے والے )کو کچھ بھی نہیں دینا پڑتا ، جبکہ حد یث المصراۃ میں”صاع من التمر ” (ایک صاع کھجوروں کا )دینا پڑتاہے ۔”
(الکلام المفید از صفدر : ٢٧٣)
جواب : ١٭    یہ ساری کی ساری باتیں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدّ ِنظر تھیں ، اس کے باوجود آپ نے ایک صاع کھجوریں بھی دینے کا حکم فرمایا ، دراصل یہ نبوی فیصلے کو چیلنج ہے ، جو صرف آلِ تقلید کی عدالت کے حصے میں آیا ہے ، یہ خوامخواہ احادیث میں تعارض پیدا کر کے آسان مسائل کو الجھانے والی بات ہے ، حدیث ((الخراج بالضمان))عام ہے اور حدیث ِ مصراۃ خاص ہے ، عام اور خاص میں تعارض ہو تو خاص کو مقدم کرتے ہیں ، لہٰذا تعارض ختم ہو ا۔
امام طحاوی نے حدیث ِ مصراۃ کو حدیث ((الخراج بالضمان)) کے معارض قرار دیا، اس کے جواب میں جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں :
اقول : ان ہذا الجواب لیس بذاک القوی ۔ ”یہ کوئی ٹھوس (تسلی بخش)جواب نہیں ۔”
(العرف الشذی از کشمیری : ١/٣٦٨)
اعتراض نمبر ٨: جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں :
” طعام کی طعام کے ساتھ”نسیئۃ” (ادھار)بیع جائز نہیں ، دودھ اور تمر (کھجور)کا طعام ہونا تو واضح ہے اور ”نسیئۃ”(ادھار)بھی ظاہر ہے کہ دودھ دوہنے کا زمانہ کیا ہے اور”صاع من التمر ” (ایک صاع کھجوریں )ادا کرنے کا زمانہ کیا ہے ؟ اور حدیث ا لمصراۃ اس کے خلاف ہے ۔”
(الکلام المفید از صفدر: ٢٧٣)
جواب: یہ بیع(خریدوفروخت)نہیں ہے ، بلکہ بیع کے منعقد ہو جانے کے بعد دودھ کی کمی کی صورت میںایک عیب ظاہر ہو ا ہے ، جو بیع کے فسخ کا سبب بنا ہے ، اس وقت ایک صاع کھجوریں اد اکرنے کا نبوی حکم ہے ، اس کو بیع قرار دینا نری جہالت اور دھوکہ دہی ہے ۔
باقی رہا طعام کی طعام کے ساتھ ادھار بیع کا جائز نہ ہونا تو اس کا تعلق کچھ اجناس کے ساتھ ہے ، دودھ ان اجناس میں شامل نہیں ۔
اعتراض نمبر ٩: جناب ِ صفدر مزیدلکھتے ہیں :
”جزاف(تخمینہ والی چیز )کو مکیل و موزون (جس کا وزن کیا گیا ہو )کے مقابلہ میں بیچنا جائز نہیں ہے اور یہاں دودھ جزاف (تخمینہ والی چیز )ہے اور وہ مجہول ہے اور”صاع من التمر ” (ایک صاع کھجور)معلوم ہے اور حدیث المصراۃ اس طے شدہ قاعدہ کے خلاف ہے ۔”(الکلام المفید : ٢٧٣)
جواب: جب یہ بیع ہی نہیں تو طے شدہ قاعدہ کے خلاف کیسے ؟ نبوی فیصلے کے مطابق ایک صاع کھجوریں تمام دودھ کا مثل ہیں ۔
اعتراض نمبر ١٠: جناب سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں :
”امام طحاوی فرماتے ہیں کہ حدیث ِ مصراۃ پہلے کی ہے اور حرمت ِ ربا(سود کی حرمت )کا حکم اس کے بعد کا ہے اور چونکہ ربوٰ (سود )حرمت نصِ قطعی اور احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہے ، لہٰذا اس کا حکم منسوخ ہے ۔”(الکلام المفید از صفدر : ٢٧٣)
جواب: امام طحاوی حنفی کا دعویئ نسخ بلا دلیل ہے ، ان کی عادت ہے کہ بغیر دلیل کے نسخ کا دعوٰ ی کرتے رہتے ہیں ، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں :
لکنہ یکثر من ادعائہ النّسخ بالاحتمال فجرٰی علی عادتہ۔
”محض احتمال کی بنیاد پر کثر ت سے دعوی ئ نسخ آپ کی عادت ہے ۔”(فتح الباری : ٩/٤٧٨)
حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
و نجد کثیرا من النّاس ممن یخالف الحدیث الصّحیح من أصحاب أبی حنیفۃ أو غیرھم یقول : ھٰذا منسوخ و قد اتّخذوا ھٰذا محنۃ ، کلّ حدیث لا یوافق مذھبھم یقولون : ھو منسوخ من غیر أن یعلموا أنہ منسوخ ولا یثبتوا ما الّذی نسخہ۔
” ہم نے کثیرتعدادمیں امام ابو حنیفہ کے پیروکاروں وغیرہ کو پایا ہے جوصحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں ،وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ منسوخ ہے ، یہ ان کا وطیرہ ہے کہ ہر حدیث جو ان کے مذہب کے مطابق نہ ہو ، بغیر علم کے اس کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، وہ اس حدیث کا دلیل سے ناسخ بھی ثابت نہیں کر سکتے ۔
(مجموع الفتاوی : ٢١/١٥٠)
اس مسئلہ میں بھی حدیث کی مخالفت کرنے والوں نے یہی روش اختیار کی ہے ، منسوخیت کا بے بنیاددعوی کر دیا ہے ، سیدنا ابنِ مسعود کا فتوی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ منسوخ نہیں ۔
اعتراض نبمر ١١: جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں :
”امام طحاوی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ((نہٰی عن بیع الکالیئ بالکالیئ یعنی الدّین بالدّین)) کے خلاف ہے (طحاوی : ٢/١٦٩)یعنی نہ تو ابھی تک مشتری (خریدار)نے پورا دودھ وصول کیا اور نہ بائع (بیچنے والے )نے تمر (کھجوروں )کا صاع وصول کیا تو یہ دین بالدین ہے ، جس سے نہی آئی ہے ، یہ روایت رافع بن خدیج سے بھی مرفوعاً مروی ہے (نصب الرایۃ : ٤/٤٠عن الطبرانی)اور حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی مرفوعاً مروی ہے، ان کی روایت دارقطنی(٣١٩)، سنن کبری بیہقی(٥/٢٩٠) وغیرہ۔۔۔”
(الکلام المفید : ٢٧٣۔٢٧٤)
جواب: یہ حدیث سنن الدارقطنی(٣/٧١، ح : ٣٠٤١۔٣٠٤٢) ، البزار(کشف الاستار : ١٢٨) ، المعجم الکبیر للطبرانی(٤٣٧٥) ، السنن الکبری للبیہقی(٥/٢٩٠) ، المستدرک للحاکم (٢/٥٧)میں آتی ہے ، اس کی سند ”ضعیف” ہے ، موسیٰ بن عبیدہ الربذی راوی ”ضعیف” ہے ، حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں :
فان الرّبذی ضعیف عند الأکثرین ۔
(تفسیر ابن کثیر : ٤/١٤٨، سورۃ بنی اسرائیل ، تحت آیۃ: ٤٤بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
دارقطنی اور حاکم کی سند میں موسیٰ بن عقبہ ہے ، زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وغلّطہما البیہقیّ وقال : انما ہو موسیٰ بن عبیدۃ الرّبذی (نصب الرایۃ : ٤/٤٠)
لہٰذا امام حاکم وغیرہ کا اسے ”صحیح ” کہنا ” صحیح” نہیں ۔
مصنف عبدالر زاق(٨/٩٠، ح : ١٤٤٤٠) کی سند میں ابراہیم بن ابی یحییٰ الاسلمی ”ضعیف ” ہے ۔اگر کوئی کہے کہ اس مسئلہ پر اجماع ہے(نیل الاوطار : ٥/١٦٦) تو ہما ر اجواب یہ ہو گا کہ حدیث ِ مصراۃ میں جو تین دن کے اندر اندر واپسی کا اختیار دیا گیا ہے ، ان دنوں میں جو دودھ پیا ہے ، اس کے عو ض میں ایک صاع کھجوریں دے گا ، یہ دودھ او ر کھجوروں کی بیع نہیں ہے ، بلکہ نبوی فیصلہ ہے ، جسے تقلید پرست سود اور نہ معلوم کیا کیا نام دے رہے ہیں ، فقیہ امت سیدنا ابنِ مسعود کا فتوی اس بات پر دال ہے کہ یہ حدیث ِ مصراۃ شریعت کی کسی نص کے خلاف نہیں ،اندھی تقلید اتنی سی بات ذہن میں نہیں آنے دیتی۔
اعتراض نمبر ١٢: جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں :
”اکابر ِ علمائے دیوبند کا اس حدیث پر عمل ہے ، فیض الباری(٢/٢٣١) ، العرف الشذی (٢٣٦)اور بوادر النوادر(١٠٧) میں ہے کہ حدیث المصراۃ صلح اور مشورہ پر محمول ہے اور صلح و دیانت اور مشاورت مساوات کے قیاسی اصول سے بالا تر معاملہ ہوتاہے ۔”(خزائن السنن : ٤٩۔٥٠)
جواب: خواہشات پرستی اسی کا نام ہے کہ جو جی میں آئے کرےں،نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ کلیہ اور ضابطہ بنا کر کیا ہے ، جو دیوبندیوں کو قطعاً قبول نہیں ، یہ کہاں لکھا ہو ا ہے کہ آپ نے بائع اور مشتری کو بلا کر صلح کروائی تھی اور مشتری کو کہا تھا کہ ایک صاع کھجوروں کا بھی واپس کرو؟ حاشا وکلا ایسے نہیں ہے ، بلکہ ہمارے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ سنایاہے اور ایک کلیہ و ضابطہ بتایا ہے ، مزید فقیہ الامت سیدنا ابنِ مسعود کا فتوی سونے پر سہاگہ ہے ۔
حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
رد محکم الصّحیح الصّریح فی مسألۃ المصرّاۃ بالمتشابہ من القیاس ، وزعمہم أنّ ہذا الحدیث یخالف الأصول فلا یقبل ، فیقال : الأصول کتاب اللّٰہ وسنّۃ رسولہ واجماع أمتہ والقیاس الصّحیح الموافق للکتاب والسّنۃ ، فالحدیث الصّحیح أصل بنفسہ ، فکیف یقال : الأصل یخالف نفسہ ؟ ہٰذا من أبطل الأباطیل ، والأصول فی الحقیقۃ اثنان لا ثالث لہما : کلام اللّٰہ وکلام رسولہ ، وما عداہما فمردود الیھما ، فالسّنۃ أصل قائم بنفسہ ، والقیاس فرع ، فکیف یرد الأصل بالفرع ؟ وقد تقدم بیان موافقۃ حدیث المصرّاۃ للقیاس وابطال قول من زعم أنہ خلاف القیاس ، وأما القیاس الباطل فالشّریعۃ کلّہا مخالفۃ لہ ، ویاللّٰہ العجب ! کیف وافق الوضوء بالنبیذ المشتدّ للأصول حتی قُبِلَ وخالف خبر المُصَرَّاۃ للأصول حتی رُدَّ۔
”(احناف نے )مسئلہ مصراۃ میں صحیح و صریح نص کو قیاس کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ حدیث اصول (قیاس)کے خلاف ہے ، لہٰذا قبول نہیں کی جائے گی ، ان کو جواباً یوں کہا جائے گا کہ اصول تو اللہ کی کتاب ، اس کے رسول کی سنت ، اجماعِ امت اور صحیح قیاس کا نا م ہے اور صحیح قیاس وہ ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو ، چنانچہ صحیح حدیث خود ایک مستقل اصل ہے ، کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ایک اصل اپنے ہی خلاف ہے ؟ یہ باطل ترین بات ہے ، درحقیقت اصول دو ہی ہیں ، تیسرا کوئی نہیں ، یعنی قرآن و حدیث ، ان کے علاوہ ہر بات انہی کی طرف لوٹائی جائے گی ، معلوم ہو اکہ حدیث اصل ہے اور قیاس فرع ہے ، فرع کی وجہ سے ا صل کو کیونکر چھوڑا جا سکتاہے ؟ حالانکہ پہلے حدیث ِ مصراۃ کا قیاس کے مطابق ہونا بیان ہو چکا ہے، یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اسے خلاف ِ قیاس سمجھنا باطل ہے ،نیز شریعت کا کوئی حکم قیاسِ صحیح کے خلاف نہیں ، رہا قیاسِ باطل تو ساری شریعت ہی اس کے مخالف ہے ۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ گاڑھے نبیذ سے وضو کرنا قیاس کے مطابق سمجھ کر کیسے مان لیا گیااور حدیث ِ مصراۃ قیاس کے خلاف سمجھ کر کیسے چھوڑ دی گئی؟”(اعلام الموقعین : ٢/٣١١)
سلسلہ تعارفِ تفاسیرومفسرین تحریر: الشیخ محمد بن حمود النجدی ترجمہ: حافظ ابو یحییٰ نورپوری
تفسیر الزمخشری (٤٦٧۔۔۔۔۔۔٥٣٨ھ)
مفسّر کا نام:    ابو القاسم محمود بن عمر بن محمد الخوارزمی، الحنفی، المعتزلی، لقب ”جار اللہ” ہے۔
تفسیر کا نام:    الکشّاف عن حقائق التّنزل وعیون الأقاویل فی وجوہ التّاویل۔
عقیدہ:    فقہئ معتزلہ کے امام ہیں، اپنے مذہب کی خوب حمایت کرتے ہیں اور اس کی تائید میں دلیل و حجت کی جنتی بھی قوت و طاقت ان کے پاس ہوتی ہے ، صَرف کرتے ہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
”صَالِحٌ ‘لٰکِنَّہ، دَاعِیَۃٌ اِلَی الْاِعْتَزَالِ أجَارَنَا اللّٰہُ ‘ فَکُنْ حَذِرًا مِنْ کَشَّافِہٖ۔
”وہ صالح آدمی ہیں لیکن معتزلی مذہب کے پر جوش داعی ہیں، اللہ ہمیں محفوظ رکھے، لہٰذا ان کی کتاب ”الکشّاف” سے بچ کر رہیں۔”(المیزان ٤/٧٨)
ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ آیات سے اپنے باطل مذہب کی تائید حاصل کریں، اس کے خلاف آنے والی آیات کی تاویل کریں اور کفار کے بارے نازل ہونے والی آیات کو ان اہل السنۃ والجماعہ پر چسپاں کریں، جن کو موصوف حَشَوِیَّۃ، مُجَبِّرَۃاور مُشَبِّھَۃ کا نام دیتے ہیں۔
تفسیر ٰہذا کی عمومی خصوصیات:    ان کی تفسیر جمالِ قرآن اور اس کے سحرِ بلاغت کے بیان میں منفرد ہے، کیونکہ وہ لغتِ عرب سے واقفیت اور ان کے اشعار کی خوب معرفت رکھتے ہیں ، لیکن وہ قرآنی آیات سے اندازِ بلاغت میں اپنے باطل معتزلی مذہب کے دلائل تراشتے ہیں، چنانچہ اس تفسیر سے بچنا ہی بہتر ہے ،خاص طور پر اس کو، جو اس میدان میں نووارد ہو۔
مسائل فقہیّہ    فقہی مسائل میں زیادہ تر تفصیل نہیں کرتے اور اپنے مذہب ِحنفی میں متعصب نہیں، بلکہ معتدل ہیں۔
لغت ، نحو اور شعر: قرآنِ کریم میں معانی اوربیان کی جو دولت ِبلاغت موجود ہے، اسے اہتمام سے بیان کرتے ہیں، لیکن جب ایسا لفظ آ جائے، جو ان کے مذہب کے موافق نہ ہو، تو ظاہری معنی کو ترک کرنے، لغت میں موجود کوئی دوسرا معنی دینے یا اسے مجاز ، استعارہ اور تمثیل قرار دینے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔
اسرائیلی روایات میں آپ کا انداز:    اسرائیلی روایات بہت کم بیان کرتے ہیں، ان کو ”رُوِیَ” کے لفظ سے ذکر کرتے ہیں یا آخر میں ”واللّٰہ أعلم” کہہ دیتے ہیں، لیکن انہوں نے ہر سورت کی تفسیر کے آخر میں اس کے فضائل میں” موضوع”(من گھڑت) احادیث بیان کی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.