1,457

صحیح بخاری کا مطالعہ ۔۔۔حدیث افک ۔۔۔ حافظ ابو یحیی نور پوری

تاریخی اعتراضات :

 قارئین !منکر ِ حدیث صاحب نے صحیح بخاری کی اتفاقی طور پر صحیح احادیث پردو تاریخی اعتراضات کیے ہیں ، لیکن یہ اعتراضات بھی ان کے حدیث فہمی میں بری طرح فیل ہونے پر برہانِ عظیم ہیں ، آئیے اس کا فیصلہ آپ ہی سے کرواتے ہیں :
اعتراض نمبر 1 :         ”بریرہ خادمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر اس داستان میں اس کے سرتاپا جھوٹ ہونے کی واضح دلیل ہے ، کیونکہ بریرہ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کی آزاد کردہ کنیز تھی ، ام المؤمنین نے اس کو فتح مکہ کے بعد خریدا اور آزاد فرما دیا تھا ۔۔۔۔
حضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس   رضی اللہ عنہ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ فتح مکہ کے بعد ہی مدینہ میں منتقل ہوئے تھے ۔۔۔۔الغرض بریرہ کا ام المومنین رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رہنا یقینا فتح مکہ کے بعد کی بات ہے اور حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا پر بہتان لگنے کا واقعہ غزوہئ بنی المصطلق کے بعد بتایا جاتا ہے ، اس وقت تو بریرہ ام المومنین کی خدمت میں آئی ہی نہ تھیں ، لا محالہ یہ غلط ہے ، آزادی کے بعد ہی بریرہ کو خیار ِ عتق (آزادی کے بعد لونڈی کو غلام خاوند کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار )حاصل ہوا ہے ، تب ہی اس کے شوہر کو بے تابی لاحق ہوئی ہے اور ان دونوں کا متضاد حال دیکھ کر حضور ِ اکر م  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس   رضی اللہ عنہ سے کہا :
ألا تعجب من حبّ مغیث بریرۃ ، ومن بغض بریرۃ مغیثاً ۔(کیا آپ بریرہ سے مغیث کی محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر تعجب نہیں کرتے ؟)
اور تبھی حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما نے بچشمِ خود مغیث کا بریرہ کے پیچھے روتے ہوئے پھرنا دیکھا ہے ۔
اور تمام محدثین و مؤ رخین قطعاً اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عباس اور ان کے اہل وعیال فتح مکہ کے بعد ہی مدینہ منتقل ہوئے ہیں ، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ اس داستان میں بریرہ کا ذکر قطعاً غلط ہے اور یہ غلط حضرت ام المومنین کی بیان کردہ نہیں ہے ، یقینا یہ غپ شپ کچھ لوگوں نے وضع کرکے ام المومنین کی طرف منسوب کر دی ہے ، اس داستان کے مصنف کو یہ تو معلوم تھا کہ بریرہ نام کی ایک باندی حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر حضرت عائشہ کی خدمت میں رہتی تھی ، مگر اسے بحمد اللہ اس کا پتہ نہ تھا کہ وہ کس سنہ میں اور کب ام المومنین کی خدمت میں آئی تھی ، پس افسانہ مکمل کرنے کے لیے اس نے اس میں بریرہ کا اور اس سے پوچھ گچھ کیے جانے کا ذکر تراش کر پیوند کر دیا ۔اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ اس کا ذکر ہی نہ کرتا ، حیرت اس پر ہے کہ محققین حتی کہ امام بخاری  رحمہ اللہ  جیسے حضرات کو بھی اس پر تنبہ نہ ہوا ۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٥٦۔١٥٨)
K :     1 جناب نے یہ اعتراض کرکے اپنی عقل اور اپنے علم دونوں کا جنازہ اکٹھا ہی نکال دیا ہے، عقل کا تو اس طرح کہ وہ خود لکھ چکے ہیںکہ ”پس بے شک عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگنے والی داستان سنی تھی ۔۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٧٧)
قارئین کرام !ان کی عقل تو ٹھکانے آنے سے رہی ، اللہ کے لیے آپ ہی سوچیں کہ اس حدیث میں بریرہ رضی اللہ عنہا کے تذکرے کا صحیح یا غلط ہونا اس دور کے لوگوں کو زیادہ معلوم تھا یا ”دروغ گو را حافظہ نہ باشد” کی عملی تصویر بن کر چودہ سو سال بعد آنے والے شخص کو ؟اگر یہ غلط ہوتا تو کیا عروہ  رحمہ اللہ جو کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ، ان کو اور اسی طرح دوسرے تمام راویوں کو یہ معلوم نہ ہوتا ؟ یقینا یہ اعتراض کوئی عقل سے پیدل شخص ہی کر سکتا ہے ۔
2     جہاں تک علم کاتعلق ہے تو وہ ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا ، کیونکہ خود محدثین کرام نے حدیث ِ افک کے بارے میں بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے اس اشکال کا ازالہ کر کے وضاحت کر دی ہے ، کاش حضرت صاحب صحیح بخاری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ، لیکن جب آدمی کے قلب و ذہن میں انکار ِ حدیث کا فتور ڈیرا ڈال لے تو پھر وہاں فہم ِ حدیث کو کب جگہ ملتی ہے ؟
n    حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وقد قیل انّ تسمیتھا ھنا وہم ، لأنّ قصّتھا کانت بعد فتح مکۃ ۔۔۔۔۔۔وقد أجاب غیرہ بأنّھا کانت تخدم عائشۃ بالأجرۃ ، وھی فی رقّ موالیھا قبل وقوع قصّتھا فی المکاتبۃ ۔
”(اعتراض کرتے ہوئے یہ ) کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں اس (بریرہ)کا نام لینا (راوی کا )وہم ہے ، کیونکہ اس کا (آزادی والا )قصہ فتح مکہ کے بعد کا ہے ۔۔۔بلاشبہ ان کے علاوہ (دوسرے محدثین)نے (اس اعتراض کا )یہ جواب دیا ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مکاتبت والے قصہ کے رونما ہونے سے پہلے ، جبکہ ابھی اپنے مالکوں کی غلامی میںتھیں ، اجرت پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت کرتی تھیں ۔”(فتح الباری : ٨/٤٦٩)
معلوم ہوا کہ محدثین نے صدیوں پہلے اس اعتراض کا جواب دے دیا تھا ،لیکن منکرینِ حدیث نے اپنی جہالت ِ مطلقہ کا پورا پورا ثبوت دیتے ہوئے اس کو دہرایا ہے ، لہٰذا ان کو امام بخاری  رحمہ اللہ پر حیرت کرنے کی بجائے اپنی بے عقلی ولاعلمی پر حیرت کرنی چاہیے ۔
جن علمائے امت نے اس اشکال کو دور کیا ہے ، ان میں سے چند ایک کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
n    علامہ تقی الدین سُبکی(٦٨٣۔٧٥٦ھ)فرماتے ہیں : انھا کانت تخدم عائشۃ قبل شرائھا۔ ”وہ (بریرہ رضی اللہ عنہا )ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا )کے خریدنے سے پہلے ان کی خدمت کرتی تھیں ۔”(فتح الباری : ٩/٤٠٩)
n    علامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی (م١١٢٢ھ)لکھتے ہیں :     وکانت تخدم عائشۃ قبل أن تعتق ، کما فی حدیث الافک ۔ ”وہ (بریرہ رضی اللہ عنہا )آزادی پانے سے پہلے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رہتی تھیں ، جیسا کہ حدیث ِ افک میں (ان کا ذکر موجود )ہے ۔”(شرح الزرقانی علی الموطأ : ٤/١١٢)
n    خود حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وکانت تخدم عائشۃ قبل أن تعتق ۔
”وہ (بریرہ رضی اللہ عنہا )آزاد ہونے سے پہلے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت کرتی تھیں ۔”(فتح الباری: ٥/١٨٨)
n    ملا علی قاری حنفی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وأمّا ذکرھا فی قصّۃ الافک مع تقدّمھا فوجّہ بأنّھا کانت تخدم عائشۃ قبل شرائھا ۔۔۔۔    ”رہاان(بریرہرضی اللہ عنہا )کا واقعہ افک میں ذکر آنا ،حالانکہ وہ واقعہ پہلے رونما ہو چکا تھا تو اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خریدنے سے پہلے بھی ان کی خدمت میں رہتی تھیں ۔”(مرقاۃ المفاتیح : ١٠/١٣٩)
n    علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری (تحفۃ الاحوذی : ٤/٣٩٠)، علامہ عبیداللہ مبارکپوری (مرعاۃ المفاتیح : ٦/٢١٨) وغیرہما Sنے بھی یہی جواب ذکر کر کے صحیح بخاری کی حدیث ِ افک کا دفاع کیا ہے ۔
اب قارئین ہی فیصلہ فرمائیں کہ بتصریحِ محدثین خادمہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ افک میں تذکرہ اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ پیدا نہیں کرتا ، بلکہ منکرینِ حدیث کا یہ اعتراض خود ان کے علم و عقل پرزبردست طمانچہ ہے جو قیامت تک ان کی رسوائی کا باعث بنتا رہے گا ، کیونکہ بریرہ رضی اللہ عنہا کوسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بعد میں آزاد کرنا عقلِ سلیم کے مطابق اس بات کے بالکل منافی نہیں ہے کہ وہ پہلے بھی آپ رضی اللہ عنہا کی خدمت کرتی ہوں ۔
اعتراض نمبر 2 :         ”اس داستان میں حضرت سعد بن معاذ   رضی اللہ عنہ کا ذکر ہونا اس کے قطعی جھوٹ ہونے کی نہایت واضح وقطعی دلیل ہے ، اس لیے کہ تمام مؤرخین اس پر متفق ہیں کہ غزوہ ئ بنی مصطلق جسے غزوۃ المریسیع بھی کہا جاتا ہے ، غزوہئ احزاب کے تقریباً نو ماہ بعد ہوا ہے ۔۔۔۔اور زہری کی داستان میں یہ ہے کہ حضرت ام المؤمنین پر افک وبہتان لگنے کا قصہ غزوہئ بنی مصطلق سے واپسی میں پیش آیا تھا۔۔۔اسی پر تمام مؤرخین نے اعتماد کیا ہے اور ناظرین کو معلوم ہوگا اور معلوم نہیں ہے تو ہو جانا چاہیے کہ حضرت سعد بن معاذ   رضی اللہ عنہ غزوہئ بنی مصطلق کے وقت اس عالم میں تھے ہی نہیں ، کیونکہ ان کی وفات غزوہئ احزاب سے تقریبا ً چالیس دن بعد ہوئی ہے ، جنگ ِ احزاب میں ان کی رگ ِ اکحل میں کسی مشرک کا تیر لگ گیا تھا۔۔۔بنی قریظہ کی مہم ختم ہوتے ہی رات کو زخم کا منہ کھل گیا اور جسم سے خون نچڑ نچڑ کر بہہ گیا اور وفات ہو گئی ۔
اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے ، خود ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سعد بن معاذ   رضی اللہ عنہ کی وفات کا پورا قصہ بیان کیا ہے ، امام بخاری  رحمہ اللہ نے اس کی تین جگہ تخریج فرمائی ہے ۔۔۔جب کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ سعد بن معاذ   رضی اللہ عنہ نے بنی قریظہ کے بعد متصلاً وفات پائی ہے تو خود وہی کیسے یہ بیان کر سکتی تھیں کہ نو دس ماہ بعد سعد بن معاذ نے مسجد کے اندر بھرے مجمع میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا ۔۔۔؟یہ اشکال نہایت واضح ہے اور سخت حیرت ہے کہ محقق محدثین و مؤرخین حتی کہ امام بخاری جیسے شخص کا ذہن بھی اس کی طر ف ملتفت نہ ہوا ۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٦٠۔١٦٢)
K :     1 جھوٹ کے رسیامنکر ِ حدیث صاحب حدیث ِ رسول کو(معاذاللہ) جھوٹ ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں، ان کا یہ کہنا کہ تمام مؤرخین غزوہئ بنی المصطلق کے غزوہئ احزاب کے بعدرونما ہونے پر متفق ہیں ، ایسا کالا جھوٹ ہے ، جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی ئ نبوت ، کیونکہ :
n    امام موسیٰ بن عقبہ  رحمہ اللہ (م١٤١ھ)کے بقول غزوہئ بنی المصطلق غزوہئ احزاب سے پہلے کا ہے ۔
(تغلیق التعلیق لابن حجر : ٤/١٢٣، وسندہ، حسن)
n    مغازی کے ماہر ابو معشر المدنی (م١٧٠ھ)نے غزوہئ بنی المصطلق کو پہلے اور غزوہئ احزاب کو بعد میں ذکر کیا ہے۔(فتح الباری لابن حجر : ٧/٤٣٠)
n    امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری  رحمہ اللہ (م ھ)فرماتے ہیں :     ثم قاتل بنی المصطلق وبنی لحیان فی شعبان سنۃ خمس ۔    ”پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق اور بنو لحیان سے شعبان پانچ ہجری میں قتال فرمایا ۔”(السنن الکبری للبیہقی : ٩/٥٤، وسندہ، حسنٌ)
غزوہئ احزاب شوال میں ہوا ہے ، لہٰذا امام زہری  رحمہ اللہ کے نزدیک غزوہئ بنی المصطلق لا محالہ پہلے ہوا ہے ، کیونکہ وہ اسی سال کے ماہِ شعبان میں ہوا ہے ۔
n    امام اسماعیل بن اسحاق القاضی  رحمہ اللہ (م٢٨٢ھ)فرماتے ہیں : اختلفوا فی ذلک ، والأولی أن تکون المریسیع قبل الخندق ، وعلی ھذا فلا اشکال ۔۔۔”لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے ، زیادہ بہتر یہی ہے کہ غزوہئ مریسیع کو غزوہئ احزاب سے پہلے سمجھا جائے ، اس طرح کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ۔”(شرح مسلم للنووی : ٥/٥٣٥، زاد المعاد لابن القیم : ٢/١٢٨، فتح الباری : ٨/٤٧٢)
n    علامہ ابن قیّم  رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ)نے بھی پہلے غزوہئ مریسیع کو اور بعد میں غزوہئ احزاب کو ذکر کیا ہے ۔(دیکھیں زاد المعاد لابن القیم)
n    مؤرخِ اسلام علامہ ذہبی  رحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٨ھ)نے اپنی مشہور ِ زمانہ کتاب تاریخ ِ اسلام میں غزوہ ئ مریسیع کو پہلے اور غزوہئ احزاب کو بعد میں ذکر کیا ہے۔
n    حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     فیظہر أنّ المریسیع کانت فی سنۃ خمس فی شعبان لتکون قد وقعت قبل الخندق ، لأنّ الخندق کانت فی شوّال من سنۃ خمس أیضا فتکون بعدھا ۔
”(ان دلائل سے )ظاہر ہوتا ہے کہ غزوہئ مریسیع شعبان پانچ ہجری میں ہوا تھا ، لہٰذا یہ غزوہئ خندق سے پہلے رونما ہوا ہے ، کیونکہ غزوہئ خندق پانچ ہجری ہی کے شوال میں ہوا تھا ، چنانچہ احزاب بعد میں ہے ۔”(فتح الباری : ٧/٤٣٠)
n    عالم ِ عرب کے مشہور عالم شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     لأنّ غزوۃ الخندق کانت فی شوّال فی السّنۃ الخامسۃ ۔۔۔۔۔۔    ”بلاشبہ غزوہ ئ خندق شوال پانچ ہجری میں ہی پیش آیا تھا ۔”
(شرح بلوغ المرام للشیخ العثیمین : ٥/٢٩٨)
لہٰذا ان کے نزدیک بھی غزوہئ احزاب بعدمیں اور مریسیع کا واقعہ پہلے پیش آیا ہے ۔
n    موجودہ دورمیں عالم ِ عرب کے معروف ومحقق مؤرخ محمد الغزالی لکھتے ہیں :     وکتاب السّیرۃ علی أنّ حدیث الافک وغزوۃ بنی المصطلق کانا بعد الخندق ، لکنّنا تابعنا ابن القیم فی اعتبارھا من حوادث السّنۃ الخامسۃ قبل ھجوم الأحزاب علی المدینۃ ، والتّحقیق یساند ابن القیم ومتابعیہ ۔۔۔۔    ”سیرت کی کتاب میں یہ ہے کہ واقعہ ئ افک اور غزوہئ بنی المصطلق غزوہئ خندق (احزاب )کے بعد ہوئے تھے ، لیکن ہم نے حافظ ابن قیّم  رحمہ اللہ کی پیروی کرتے ہوئے اسے پانچویں ہجری میں غزوہئ احزاب سے پہلے شمار کیا ہے اور تحقیق (بھی)حافظ ابن قیّم اور ان کے پیروکاروں کے موقف کی تائید کرتی ہے ۔۔۔”(فقہ السیرۃ لمحمد الغزالی : ٣١٦)
n    عصرِ حاضر کے ایک اور مؤرخ محمد الخضری نے بھی غزوہئ بنی المصطلق کو غزوہئ احزاب سے پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے ۔(نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین لمحمد الخضری : ١٥٢)
n    اردو اور عربی زبان میں معروف کتاب ِ سیرت ”الرحیق المختوم ” کے مصنف مولانا صفی الرحمن مبارکپوری  رحمہ اللہ نے بھی دلائل کے لحاظ سے راجح اسی بات کو قرار دیا ہے کہ غزوہئ مریسیع کو غزوہ ئ احزاب سے مقدم کہا جائے ۔(الرحیق المختوم اردو : ٤٤٢۔٤٤٣)
مذکورہ مؤرخین کے علاوہ بھی بہت سے متقدمین مؤرخین، مثلا ابو عبداللہ محمد بن عمر الواقدی(م٢٠٧ھ) (مغازی الواقدی : ١/٤٠٤)،محمد بن سعد بن منیع المعروف ابنِ سعد(١٦٨۔٢٣٠ھ)(طبقات ابن سعد : ٢/٦٣)، بلاذری(انساب قریش للبلاذری : ٣٤١،٣٤٣) ، نیز متاخرین ، مثلاًڈاکٹرمحمد سعیدرمضان البوطی (فقہ السیرۃ للبوطی : ٢/٩٣) ، ڈاکٹر محمد بن محمد ابو شہبہ(السیرۃ النبویۃ فی ضوء القرآن والسنۃ : ١٩٦) ،حسن الساعاتی (الفتح الربانی فی ترتیب مسند احمد : ١٤/١٠٩) اورالصابونی(روائع البیان فی تفسیر آیات الاحکام للصابونی : ٢/١١٩) وغیرہ نے بھی غزوہئ بنی المصطلق کوشعبان پانچویں ہجری میں بتایا ہے اور ان کے نزدیک غزوہئ خندق پانچویں ہجری ہی کے ماہِ شوال میں پیش آیا تھا ،لہٰذا بدیہی بات ہے کہ ان کے نزدیک غزوہئ مریسیع پہلے پیش آیا ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ جن مؤرخین نے غزوہئ مریسیع کو چار ہجری کے واقعات میں شمار کیاہے ، بلاشبہ ان کے نزدیک بھی غزوہ ئ احزاب اس کے بعد ہی پیش آیاہے ، ان میں سے مشہور یہ ہیں :
ابو الحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی(م٣٤٦ھ)(مروج الذھب : ٢/٢٩٥) ، محمد بن عبداللہ بن محمد المعافری ابو بکر ابن العربی المالکی (٤٦٨۔٥٤٣ھ)(عارضۃ الاحوذی شری جامع الترمذی : ٧/١٧٣)
ثابت ہوا کہ غزوہئ بنی المصطلق کے غزوہئ احزاب کے بعد ہونے پر اتفاق کا دعوی منکرینِ حدیث کا بدترین جھوٹ ہے ،شاید انہوں نے جھوٹ کا عالمی ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں مؤرخین کی آراء مختلف ہیں اور دلائل کی رو سے راجح بات یہی ہے کہ غزوہئ بنی المصطلق کاواقعہ غزوہئ احزاب سے پہلے کا ہے ، کیونکہ قدیم و جدید مؤرخین میں سے محققین نے اسی کو حق و صواب قرار دیا ہے ، نیز صحیح بخاری کی صحت پر عموماًاورحدیث ِ افک کی صحیح ہونے پر خصوصا ً امت کا جو اجماع ہے ، وہ اسی موقف کی تائید کرتا ہے ،جیسا کہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ اور دیگر علمائے امت نے صراحت کر دی ہے ۔
رہا غزوہئ بنی المصطلق کو پہلے قرار دینے پر یہ اشکال پیش کرنا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے اور پردے کی آیات نازل ہونے کے واقعات غزوہئ احزاب کے بعد کے ہیں ، پھر ان کا ذکر حدیث ِ افک میں کیسے آگیا ؟ تو منکرینِ حدیث کا یہ اشکال بھی سابقہ اعتراض کی طرح محض ایک مغالطہ ہی ہے ، کیونکہ پردے کی آیات کے نزول اور پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا واقعہ بھی راجح مؤقف کے مطابق تین یا چار ہجری میں غزوہ ئمریسیع سے پہلے پیش آیا تھا ، جیسا کہ ابو عمرو خلیفہ بن خیاط العصفری (م٢٤٠ھ)(تاریخ خلیفۃ )، ابو عبیدہ معمر بن مثنّیٰ (١١٢۔٢٠٨ھ)(الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر : ٢/٩٧، اسد الغابۃ فی معرفہ الصحابۃ لابن الاثیر : ٣/٣٥٧)وغیرہ کے نزدیک یہ واقعات تین ہجری کے ہیں ، جبکہ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ اور حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ وغیرہ چار ہجری میں بتاتے ہیں ۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     والحجاب کان فی ذی القعدۃ سنۃ أربع عند جماعۃ ، فیکون المریسیع بعد ذلک ۔۔۔ ”(نزولِ )حجاب (پردہ کاواقعہ )بہت سے مؤرخین کے ہاں ذوالقعدہ چار ہجری کا ہے ، یوں یہ غزوہئ مریسیع کے بعد پیش آیا ہے ۔۔۔”
نیز لکھتے ہیں :     فحصّلنا فی الحجاب علی ثلاثۃ أقوال أشھرھا سنۃ أربع ۔۔۔۔
”چنانچہ ہمیں نزولِ حجاب کے بارے میں تین اقوال ملے ہیں ، ان میں سے زیادہ مشہور قول چار سنِ ہجری کا ہے ۔۔۔۔”(فتح الباری لابن حجر : ٧/٤٣٠)
اس کے برعکس پانچ ہجری میں غزوہئ احزاب کے بعد نزولِ حجاب والے قول کے بارے میں فرماتے ہیں:    وأمّا قول الواقدیّ : أنّ الحجاب کان فی ذی القعدۃ سنۃ خمس ، فمردود ۔۔۔۔
”رہا واقدی کا یہ کہنا کہ پردے کا حکم ذوالقعدہ پانچویں ہجری میں آیا تھا تو یہ مردود ہے (کیونکہ خود واقدی نے ہی لکھا ہے کہ غزوہئ مریسیع شعبان پانچ ہجری کا واقعہ ہے ، نیز اس غزوے میں انہوں نے واقعہ افک کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اس میں موجود ہے کہ اس سے پہلے ہی پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا ، پھر واقدی کا واقعہ افک کے دو تین ماہ بعد پردے کے نزول کی تاریخ بتانا واضح تناقض ہے )۔”(فتح الباری : ٧/٤٣٠)
اب قارئین ہی بتائیں کہ منکر ِ حدیث صاحب کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟
”دیگر اہل علم بھی یہی بتاتے ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے کہ حضرت زینب غزوہئ احزاب کے بعد ہی امہات المؤمنین میں داخل ہوئی ہیں ۔۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٦٤)
b    کیا منکرینِ حدیث کو سارے محدثین ومحققین مؤرخین کو چھوڑ کر واقدی جیسا ”کذاب ” اور جھوٹا شخص ہی ”اہل علم” نظر آیا ہے اور سب کو پسِ پشت ڈال کر اسی جھوٹے کی متناقض اور غیر حقیقت بات ہی ”حقیقت ” محسوس ہوئی ہے ، جسے یہ بھی پتا نہیں چلا کہ میں پہلے کیا کہہ آیا ہوں اور بعد میں کیا کہہ رہا ہوں ؟ نیز یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے کہ ”دیگر اہل علم بھی یہی بتاتے ہیں ”، حالانکہ قارئین حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ کی زبانی یہ معلوم کر چکے ہیں کہ اکثر علمائے کرام کا موقف ”یہی ”ہے کہ پردے کا حکم غزوہ ئ احزاب سے پہلے کا ہے ۔
اعتراض کرتے ہیں امت کے اجماعی فیصلے صحیح بخاری پر اوربنیاد بناتے ہیں جھوٹ کو ، یہ دیکھ کر بے ساختہ شعر یاد آگیا ہے : ع اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔
عقلی اعتراضات
اعتراض نمبر 1 :         ”جب ام المؤمنین قضائے حاجت کے لیے گئی تھیں تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم کیسے نہ ہوا ؟ ظاہر ہے کہ وہ آپ کے ساتھ اورآپ کے پاس ہی تو تھیں ۔۔۔۔بہر کیف حضرت عائشہ کے جنگل جانے اور واپس نہ آنے سے حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا بے خبر رہ جانا قطعاً سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٤٨)
K : 1قارئین کرام ! اگر کسی نیم پاگل کی عقل وسمجھ دو اور دو کے چار ہونے کا انکار کر دے تو کیا اس حقیقت کا انکار کر دیا جائے گا ؟ قطعاً نہیں ، بفضل اللہ اس حدیث کی سند و متن پر واقع ہونے والے اصولی و تاریخی اعتراضات کے شافی و کافی جوابات دے کر ہم نے اس کی صحت کو ثابت کر دیا ہے ، اب بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی اختیار کر لے اور میں نہ مانوں کا مصداق بن کر حدیث ِ رسول کی قبولیت کے لیے اپنی عقلِ نارسا کو معیار قرار دینے کی سعی کرے تو یہ اس کی بدبختی ہے ، ہم ایسے بدبختوں سے سوال کرتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ایک آدمی اگرایسا ہی اعتراض قرآنِ کریم پر کر دے ، مثلاً فرمانِ باری تعالیٰ :
( فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہ، فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ )(سبا : ١٤)
”جب ہم نے ان (سلیمان u)پر موت کا فیصلہ کیا تو ان (جنوں)کو ان کی موت کی خبر اس زمینی کیڑے (دیمک)نے دی جو ان کی لاٹھی کھا رہا تھا ، جب آپ uگر پڑے تو جنوں کی حقیقت واضح ہوگئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس رسواکن عذاب میں نہ پڑے رہتے ۔”
اس کے بارے میں وہ یہ تبصرہ کرے :     ”یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنا عرصہ سلیمان uبے حس و حرکت کھڑے رہے ، لیکن جنوں کو پتا ہی نہ چلا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں ، حالانکہ اپنی زندگی میں آپu ہر وقت اور ہرکام میں ان کو مناسب احکام دیتے رہتے تھے ،نیز سستی کرنے والے کو سزا بھی دیتے تھے ، اگر ایک دو دن آپ نے کوئی حرکت نہ کی تھی تو جنوں کو معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے ، وہ بہانے سے قریب آکر ہی دیکھ لیتے کہ کیا ماجرا ہے ، جنوں کی تیزاور شرارتی طبیعت سے کون واقف نہیں ؟کیا اتنے عرصے میں کسی جن نے کوئی غلطی نہ کی تھی ؟ پھر دیمک کے لاٹھی کو چاٹنے اور آپ کے گرنے تک کے دورانیے میں جنوں کو معلوم نہ ہونا عقل سے بالاتر ہے ۔۔۔”
تواس کا منکرینِ حدیث کے پاس کیا جواب ہے ؟ جو جواب وہ منکرینِ قرآن کو دیں گے ، وہی جواب ہم ان کو حدیث ِ افک پر اس اعتراض کا دے دیں گے ۔
2    اسی حدیث کو ہی اگر غور سے پڑھ لیا جاتا تو یہ اعتراض کرنے کی نوبت نہ آتی ، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان فرماتی ہیں :     فکنت أحمل فی ھودجی وأنزل فیہ ۔
”میں اپنے ہودج (اونٹ پر رکھی جانے والی چھت دار کاٹھی)میں ہی سوار کی جاتی اور اٹھائی جاتی تھی ۔”
عربوں میں رواج تھا کہ عورتوں کے لیے اونٹ کے اوپر رکھی جانے والی کاٹھی کمرہ نما بناتے تھے ، لہٰذارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا گمان یہ تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا اپنے اس کمرے میں چلی گئی ہیں ، اسی لیے آپ نے پورے راستے میں بھی خیال نہیں فرمایا ، اتنی سی بات منکرینِ حدیث کی عقلِ ناقص سمجھ نہیں پائی اور انہوں نے امت کے اجماعی فیصلے صحیح بخاری کو ٹھکرا دیا ہے ۔
انکارِ حدیث سے انکارِ قرآن تک :     یاد رہے کہ اس بے ہودہ عقل کا حدیث ِ نبوی میں استعمال صرف انکار ِ حدیث تک نہیں،بلکہ انکار ِ قرآن تک بھی پہنچا دیتا ہے ، جیسا کہ منکر ِ حدیث صاحب صحیح بخاری کی ایک حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے کہا تھا ، لو نعلم أنّک رسول اللّٰہ ۔۔۔     لو نعلم عربیت کے لحاظ غلط ہے ، صحیح لفظ لو علمنا ہے ۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٧٣)
غور کریں کہ منکر ِ حدیث نے انکار ِ حدیث کے جوش میں ہوش کھو کر قرآنِ کریم کا بھی انکار کر دیا ہے ، کیونکہ بالکل یہی الفاظ لو نعلم قرآنِ کریم (آل عمران : ١٦٧)میں بھی موجود ہیں ، معاذ اللہ منکرینِ حدیث اللہ تعالیٰ کی کلام کو عربیت کے لحاظ سے غلط قرار دے کر کفر کے مرتکب ہوچکے ہیں ، اس بات سے ہر عقل مند انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ انکار ِ حدیث دراصل انکار ِ قرآن ہے ۔
یہی منکر ِ حدیث صاحب صحیح بخاری کی اجماعی طور پر صحیح تفسیری روایات کو غلط قرار دے کر جابجا اپنی تفسیر ”مفتاح القرآن ” کے مطالعہ کی دعوت دیتے رہتے ہیں ، قارئین کرام اتنی سی مثال سے ہی ان کی عربی دانی ، قرآن فہمی اور تفسیری صلاحیت کا اندازہ کر سکتے ہیں ، نیز ان کی طرف سے امام بخاری  رحمہ اللہ وغیرہ پر قرآن فہمی کے حوالے سے کی گئی اس بکواس کی حیثیت بھی معلوم کر سکتے ہیں کہ :         ”رہے زہری سے لے کر بخاری وغیرہ تک اسے روایت کرنے والے محدثین تو ان غریبوں کو بس شیخ سے سنی ہوئی سندیں اور حدیثیں یا د کر لینے ، لکھ لینے اور پھر روایت کرنے کے مشغلہ نے اتنی فرصت ہی نہ دی تھی کہ قرآن کو سمجھ بوجھ کر پڑھتے ۔۔۔کیا یہ غضب کی بات نہیں کہ تمام حفاظ ِقرآن جانتے ہیں اور تمام مصاحف میں لکھا اور چھپا ہوا ہے ۔۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ٢/٣٠٥)
قارئین کرام انصاف سے فیصلہ فرمائیں کہ انکار ِ حدیث نے منکرینِ حدیث کو قرآن سمجھ بوجھ کر پڑھنے کی فرصت نہیں دی یا اہتمام ِ حدیث نے محدثین کو فرصت نہیں دی ؟ کیا یہ غضب کی بات نہیں ہے کہ لو نعلم تمام حفاظ کو یاد ہے اور تمام مصاحف میں لکھا اور چھپا ہوا ہے ، پھر بھی منکرینِ حدیث اسے عربیت کے لحاظ سے غلط قرار دے رہے ہیں ، نہ معلوم ان کا قرآن کو نسا ہے ؟ (معاذاللہ!)جس میں یہ ”غلطی ”نہیں ہے ؟
محدثین اور اسلاف ِ امت کے خلاف زبان درازی کرنے والے بدباطن شخص کو اللہ تعالیٰ اسی طرح رسوا فرماتے ہیں ؟لہٰذا صحیح بخاری پریہ اعتراض رہتی دنیا تک منکرینِ حدیث کے ماتھے میں کلنک کا ٹیکا ہے ، جسے دیکھ کر قیامت تک آنے والے لوگ ان کی بے وقوفی کی داد دیتے رہیں گے ۔ان شاء اللہ !
تُف ہے اس شخص پر جو ایسے جاہل مطلق اور محرّف ِ قرآن کو ”مفسّر قرآن ” کے لقب سے نوازتا ہے ۔
اعتراض نمبر 2 :     ”مدینہ منورہ میں جب تک گھروں میں پاخانے تعمیر نہیں کیے گئے تھے، عورتیں رات کے وقت قریبی جنگل میں قضائے حاجت کے لیے جایا کرتی تھیں ، ازواجِ مطہرات بھی جاتی تھیں ، مگر تنہا نہیں ، ساتھ میں کوئی خادمہ ضرور ہوتی تھی ۔۔۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ام المؤمنین کے علاوہ لشکر ِ اسلام میں کوئی عورت نہیں تھی یا تھیں ، لیکن آپ کی قیام گاہ سے دور تھیں تو طبعاً ام المؤمنین خودحضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھ چلنے کو کہتیں ، ان کا اندھیری رات میں پڑاؤ سے تنہا باہر جانا بعید از امکان ہے ۔۔۔”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٤٨۔١٤٩)
K :     1 قرآنِ کریم میں سیدہ مریم[کا قصہ مذکور ہے کہ جب ان کو ایک حاجت پیش آئی تووہ اکیلی قوم سے دور چلی گئیں ، پھر اکیلی واپس آئیں ، اگر مریم [کا اکیلے چلے جانا کسی منکر ِ قرآن کی عقل میں نہ آئے اور وہ اسے ناممکن قرار دے کر قرآن کا انکار کر دے تو منکرینِ حدیث کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ اگر یہ قرآنی واقعہ منکرینِ حدیث کو ہضم ہو جاتا ہے تو بھلا حدیث ِ نبوی کی صورت میں اسی قرآن کی تشریح و توضیح ہی آخر ان کے حلق میں کیوں اٹکتی ہے ؟
2    مدینہ میں رہتے ہوئے جب قضائے حاجت کے لیے عورتیں جاتی تھیں توانہیں باہر جنگل میںجانا پڑتا تھا اور جنگل دور ہوتا تھا ،اس لیے کچھ عورتیں مل کر نکلتی تھیں، جبکہ اس حدیث کے مطابق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اتنی دور گئی ہی نہیں تھیں کہ ساتھ کسی کو لے کر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، کیونکہ لشکر کا پڑاؤ جنگل میں ہی ہوا تھا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زیادہ دور گئی ہی نہ تھیں ، جیسا کہ خود اسی حدیث میں ان کا اپنا بیان ہے :
فمشیت حتی جاوزت الجیش     ”میں چلی حتی کہ میں نے لشکر کو عبور لیا ۔”
نیز خود منکر ِ حدیث صاحب نے بھی لکھا ہے :     ”قضائے حاجت کے لیے پڑاؤ سے زیادہ دور تو آپ گئی نہ ہوں گی ۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٤٩)
جب دور نہ گئی تھیں تو اعتراض کس بات پر ؟ اتنی سی بات منکرینِ حدیث کی عقلِ نارسامیں نہیں آسکی اور انہوں نے امام بخاری سمیت تمام علمائے امت کو مطعون کرنا شروع کر دیا ہے ۔
اعتراض نمبر 3 :      ”کتنی ہی لاغر و نحیف اور دھان پان سہی ، بہر حال ام المؤمنین کوئی سوئیں تاگا نہ تھیں کہ کسی کو ان کے باہر جانے کا علم ہی نہ ہوتا ، جب کہ کوچ کا وقت قریب تھا اور پورا لشکر کوچ کے لیے جاگا ہوا تھا اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ لشکر کے قلب و وسط میں ہوتی تھی ، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ قلب ِ لشکر میں لگے ہوئے خیمہ سے کوئی عورت نکل کر جنگل کی طرف جائے اور سب کے جاگنے کے باوجود کسی کو نظر نہ آئے!”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٤٩)
F :     1 رات کے وقت پاس سے گزرنے والے کا علم دوسروں کو نہ ہونا عقلِ سقیم کے خلاف تو ہو سکتا ہے ، عقلِ سلیم کے نہیں ، خصوصاً جب کہ رات چاندنی نہ ہو اور ہر طرف اندھیرا ہو؟ جن مؤرخین نے اس غزوے کے حوالے سے ماہِ شعبان کے ساتھ ساتھ دن یا تاریخ کا ذکر کیا ہے، انہوں نے یہی لکھا ہے کہ اس غزوے سے آپ کی واپسی اس وقت ہوئی جب ماہِ شعبان کے اختتام میں صرف دو دن باقی تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رات بھی اندھیری تھی ، پھر اگر کسی نے نہیں دیکھا تو کونسا عجوبہ ہے ؟
2    اگر کسی نے دیکھا بھی تھا تواس کے خیال میں آپ رضی اللہ عنہا واپس آگئی تھیں ، کیونکہ دیر تو آپ کو ہار کے گم ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی ، کسی کو یہ علم ِ غیب تو تھانہیں کہ آپ کا ہار گم ہو گیا ہے اور وہ اسے تلاش کر رہی ہیں !
اعتراض نمبر 4 :      ”قضائے حاجت کے لیے پڑاؤ سے زیادہ دور تو آپ گئی نہ ہوں گی ، جب لشکر نے کوچ کیا ہوگا ، اونٹ بلبلائے ہوں گے ، لوگ باہم بول چال رہے ہوں گے اور رات کے سناٹے میں ان کے کوچ کرنے کی آواز تو دور دور تک پہنچی ہو گی ، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ام المؤمنین کو اس کا پتہ نہ چلا ہو کہ اب لشکر کوچ کر رہا ہے ۔۔۔واللہ یہ بالکل عقل سے خارج بات ہے کہ ام المؤمنین کو لشکر کی روانگی کا پتہ نہ چلے اور وہ ہار تلاش کرتی رہیں اور لشکر کوچ کر جائے ۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٤٩)
F :     قارئین کرام !جس بے عقل کی ”عقل ”میں قرآنِ کریم میں موجود فرمانِ باری تعالیٰ لو نعلم نہ آئے اور وہ اسے عربیّت کے لحاظ سے غلط قرار دے کر اپنی بے علمی اوربے عقلی کا پورا پورا ثبوت خود دے دے ، اس کی عقل سے اگر یہ حدیث خارج ہو جائے تو کوئی تعجب خیز بات نہیں ، حالانکہ عام تجربے کی بات ہے کہ اچانک پیش آنے والی کسی عام پریشانی میں بھی انسان کو ساتھ بیٹھے انسان کی وہ بات نہیں سنتی جو خاص اسی سے کی جارہی ہو ، پھر نہایت بیش قیمت ہار اچانک گم ہو جانے کے بعد دور سے آنے والی عام آواز نہ سننے پر اعتراض کرنا بہت بڑی حماقت ہی ہو سکتی ہے !
اعتراض نمبر 5 :      ”نماز ِ فجر سے پہلے کوچ ہوا ، راستہ میں آپ یقینا نماز ِ فجر کے لیے رکے ہوں گے ، پورا لشکر رکا ہوگا ، اگر ام المؤمنین رہ گئی ہوتیں تو کیا اس وقت حضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گم شدگی کا علم نہ ہو جاتا ؟ سخت حیرت کی بات ہے کہ حضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ راستے میں اس کا علم ہو، نہ نماز ِ فجر پڑھنے کے لیے اترنے پر پتہ چلے ، نہ بعد ِ نماز روانہ ہوجانے کے بعد تمام راستہ اس کا احساس ہو ۔۔۔
اگر کوئی کہے کہ یہ ممکن ہے تو پھر محال و ناممکن بے معنیٰ بات ہے ، تب تو دو اور دو کا پانچ ہونا اور دو نقیضوں کا جمع ہوجانا بھی ممکن ہو گا ۔”(” صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٤٩۔١٥٠)
F :     سخت حیرت کی بات ہے کہ منکرینِ حدیث کی عقل میں اتنی بات بھی نہیں آئی ، اگر ان کی عقل کبھی ٹھکانے ہو تو کوئی ان کو بتائے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نماز یا تو اپنے خیمے میں پڑھی ہوگی یا پھر عورتوں کی صف میں جو سب سے آخرمیں ہوتی ہے ، وہاں اداکی ہوگی، کیونکہ حدیث ِ رسول ہے :
عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : خیر صفوف الرّجال أوّلھا وشرّھا آخرھا ، وخیر صفوف النّساء آخرھا وشرّھا أوّلھا ۔
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مردوں کی صفوں میں سے بہترین صف سب سے پہلی اور سب سے بری (ثواب میں کم )سب سے آخری صف ہے ، جبکہ عورتوں کی صفوں میں سب سے بہترین صف آخری اور سب سے بری (ثواب میں کم )پہلی صف ہے۔”(صحیح مسلم : ٤٤٠)
نیز حدیث ِ نبوی ہے :     عن أمّ سلمۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت : کان یسلّم فینصرف النّساء ، فیدخلن بیوتھن من قبل أن ینصرف رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔”سیدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے تو عورتیں فوراً واپس جا کر (مقتدیوں کی طرف)آپ کے چہرہئ مبارک پھیرنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہو جاتیں ۔”(صحیح بخاری : ٨٥٠)
لہٰذا جس طرح حدیث ِ نبوی میں طریقہ موجود ہے ، اسی طرح فوراً نماز ختم ہوتے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر اپنی سواری کے اوپر پڑے ہودج میں داخل ہو گئی ہوں گی ۔
مزید برآں رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اندھیرے میں ادا فرماتے تھے ، جیساکہ :
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت : ان کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لیصلّی الصّبح ، فینصرف النّساء متلفّعات بمروطھن ، ما یعرفن من الغلس ۔
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، بیان کرتی ہیں کہ اس بات میں کچھ شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا فرماتے تو عورتیں فوراً چادروں میں لپٹی ہوئی واپس چلی جاتیں ،وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں ۔”(صحیح بخاری : ٨٦٧، صحیح مسلم : ٦٤٥)
لہٰذا اس حدیث میں بیان کیے گئے معمول کے مطابق یقیناآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِ فجر اندھیرے میں ادا کی گئی ہو گی ، اس لیے یہ خیال نہ فرمایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کیوں نظر نہیں آئیں ۔
اتنی سی سمجھ بھی منکرینِ حدیث کو نصیب نہیں ہوئی ، پھر بھی وہ اعتراض کرتے ہیں امام بخاری  رحمہ اللہ پر جو کہ بالاتفاق امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔اس پر اعتراض کرنا اڑھائی + اڑھائی کے پانچ ہونے پراعتراض کرنے کے مترادف ہے ۔
اعتراض نمبر 6 :      ”بالفرض حضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر   رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات کو نماز ِ فجر کے لیے اترنے پر بھی حضرت ِ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گم شدگی کا علم نہ ہوا اور راستے میں بھی پتہ نہ چل سکا ااور مان لیجیے کہ اگلی منزل پر پڑاؤ کرنے کے بعد بھی علم نہ ہوا اور اب بھر ی دوپہر میں صفوان انہیں اپنے اونٹ پر سوار کیے ہوئے لائے ۔۔۔تو کیا یہ بات ایسی تھی کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پیچھے رہ جانے کی وجہ دریافت نہ فرماتے اور حضرت ابو بکر   رضی اللہ عنہ جو بہت سریع الغضب تھے ، یعنی انہیں ناگوار بات پر جلد غصہ آجاتا تھا ، اپنی بیٹی پر ناراض نہ ہوتے ، لیکن نہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ پوچھا نہ حضرت ابوبکر   رضی اللہ عنہ نے کچھ کہا، جیسا کہ زہری کی بیان کردہ داستان سے مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس سلسلے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی ، ان وجوہ سے روز ِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ داستان شروع سے آخر تک قطعاً غلط ہے ۔۔۔۔”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٥٠۔١٥١)
:     قارئین ! آپ پوری حدیث ِ افک پڑھ جائیں ، آپ کو صراحتاً یا اشارۃً ،کسی طریقے سے بھی یہ معلوم نہیں ہوگا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا گیا ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میںسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ضرورکوئی پوچھ گچھ ہوئی ہوگی اور ان کے عذر کو سن کر ڈانٹ ڈپٹ نہ کی گئی ہو گی، نیز منافقین نے جو سارا پروپیگنڈا کیا ، اس کا اظہار فوراً نہیں ہوا ، نہ اس کی خبر اسی وقت رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر   رضی اللہ عنہ تک پہنچی تھی کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے برہم ہوتے ، مزید برآں تیمم کی مشروعیت والی حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہار کے گم ہوجانے کی وجہ سے سیدنا ابو بکر   رضی اللہ عنہ جو برہم ہوئے تھے ، اس کے بعد آیات ِ تیمم نازل ہو گئیں تو سیدنا اسید بن حضیر   رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا :      ما ھی بأوّل برکتکم یا آل أبی بکر ۔
”اے ابو بکر کی اولاد! یہ تمہاری پہلی برکت تو نہیں ہے ۔”(صحیح بخاری : ٣٢٧، صحیح مسلم : ٣٦٧)
لہٰذا اس وقت سے سیدنا ابو بکر   رضی اللہ عنہ معلوم کر چکے تھے کہ میری بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کوئی ایسا کام سرزد ہوتا ہے جو بظاہر ناگوار محسوس ہوتا ہو تو اس میں بھی کوئی خیر و بھلائی ہی مضمر ہوتی ہے ، اس لیے وہ اب برہم نہ ہوئے ۔
جاری ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.