3,391

مردے سنتے ہیں لیکن…حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ


مُردے سنتے ہیں،لیکن!

مُردے سنتے ہیں یا نہیں،اس بارے میں مسلمانوں کے ہاں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔یہی اختلاف عقیدے کے لحاظ سے مسلمانوں کی تقسیم کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔یہ مسئلہ ’’سماعِ موتیٰ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ہم فہم سلف کی روشنی میں قرآن و سنت سے اس مسئلے کا حل پیش کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے تلاشِ حق کی غرض سے ہماری ان معروضات کو ملاحظہ فرمائیں اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت تعصب کو آڑے نہ آنے دیں۔ہمیں امید ِواثق،بلکہ یقین ہے کہ وہ ضرور حق کی منزل کو پا لیں گے،کیونکہ قرآن و سنت کو اگر صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے طریقے اور منہج کے مطابق سمجھا جائے تو حق تک پہنچنا سو فی صد یقینی ہو جاتا ہے۔
بطور ِتمہید یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شریعت ِاسلامیہ کے کچھ کُلّی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناء ات رکھ دی گئی ہیں۔ان استثناء ات کی وجہ سے ان کُلّی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔نصوصِ شرعیہ سے ثابت شدہ استثناء ات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کُلّی ہی رہتا ہے،مثلاً :
1 تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا ایک کُلّی قاعدہ ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{یٰٓا َیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی} (الحجرات 49: 13)
’’اے لوگو!بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔‘‘
جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔
اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے،البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔
1 مُردار کا حرام ہونا ایک قاعدۂ کلیہ ہے۔فرمانِ الٰہی ہے :
{حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ} (المائدۃ 5: 3)
جبکہ اس سے’’ جراد‘‘(ٹڈی نام کا ایک پرندہ)اور ’’حوت‘‘(مچھلی) کا گوشت مستثنیٰ ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 384/1، وسندہٗ صحیحٌ)
ان دو قسم کے مُرداروں کے حلال ہونے سے ہر مُردار کے حلال ہونے کا استدلال جائز نہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’مرُدار حلال ہے ،لیکن صرف مچھلی اور ٹڈی کا۔‘‘ مرُدار کے حرام ہونے والا قانون اپنی جگہ مستقل اور کُلّی ہی ہے۔
3 امت ِمحمدیہq کے مرَدوں پر ریشم پہننا حرام کر دیا گیا ہے۔فرمانِ نبوی ہے:
’اَلْحَرِیرُ وَالذَّہَبُ حَرَامٌ عَلٰی ذُکُورِ أُمَّتِي، حِلٌّ لِّإِنَاثِہِمْ‘
’’ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں،جبکہ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘
(شرح مشکل الآثار للطحاوي : 308/12، ح : 4821، وسندہٗ حسنٌ)
جبکہ تین،چار انگلیوں کے برابر استعمال کر لینا جائز ہے۔(صحیح مسلم : 2069)
شریعت کا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ مَردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے،لیکن ایک خاص مقدار جائز کر دی گئی ہے۔کوئی اس رخصت کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَردوں کے لیے ریشم پہننا جائز ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’مردوں کے لیے ریشم پہننا جائز ہے،لیکن ایک خاص مقدار میں۔‘‘
یہ سب مثالیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کلّی قاعدے میں بسا اوقات شریعت کچھ استثناء ات رکھ دیتی ہے، لیکن اس سے قانونِ شریعت کی کلّی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔بالکل یہی حال مسئلہ سماعِ موتیٰ کا ہے۔مُردے نہیں سنتے،البتہ قرآن و سنت کے بیان کردہ خاص اوقات و حالات میں ان کا کوئی خاص بات سن لینا ثابت ہے۔یہ کہنا جائز نہیں کہ مُردے سنتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’مُردے سنتے ہیں،لیکن ان حالات و واقعات میں جن کی صراحت نصوصِ شرعیہ نے کر دی ہے۔‘‘
لہٰذا مطلق طور پر مُردوں کے سننے کا عقیدہ رکھنا قرآن و سنت سے متصادم ہے۔قرآن و سنت نے مُردوں کے سننے کی مطلق نفی کی ہے۔یہی کُلّی قانون ہے۔دلائل ملاحظہ فرمائیں:
عدمِ سماعِ موتیٰ کے دلائل
دلیل نمبر 1 : اللہ تعالیٰ کا فرمانِ گرامی ہے :
{اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِینَ یَسْمَعُوْنَ وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ} (الأنعام 6: 36)
’’جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تواللہ تعالیٰ(قیامت کے روز)زندہ کرے گا،پھروہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘
سنی مفسر ابوجعفر،ابن جریر طبری رحمہ اللہ (310-224ھ) فرماتے ہیں:
{وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ}، یَقُولُ : الْکُفَارُ یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ مَعَ الْمَوْتٰی، فَجَعَلَھُمُ تَعَالٰی ذِکْرُہٗ فِي عِدَادِ الْمَوْتَی الَّذِینَ لَا یَسْمَعُونَ صَوْتًا، وَّلَا یَعْقِلُونَ دُعَائً، وَّلَا یَفْقَھُونَ قَوْلًا ۔
’’{وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ}(اور مُردوں کو تو اللہ تعالیٰ[روز ِقیامت]زندہ کرے گا)۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مُردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا،یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں(زندہ ہوتے ہوئے بھی)ان مُردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں،نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیںاور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتاہے۔‘‘
(جامع البیان عن تأویل آي القرآن المعروف بتفسیر الطبري : 855/4)
دلیل نمبر 2 : {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ} (النمل 27: 80)
’’(اے نبی!)یقیناآپ نہ کسی مُردے کو سنا سکتے ہیں،نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں،جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔‘‘
جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب(1323-1244ھ)لکھتے ہیں:
وَاسْتَدَلَّ الْمُنْکِرُونَ (لِسَمَاعِ الْمَوْتٰی)، وَمِنْھُمْ عَائِشَۃُ وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَمِنْھُمُ الْإِمَامُ (أَبُو حَنِیفَۃَ)، بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی}، فَإِنَّہٗ لَمَّا شَبَّہَ الْکُفَّارَ بِالْـأَمْوَاتِ فِي عَدَمِ سَمَاعٍ، عُلِمَ أَنَّ الْـأَمْوَاتَ لَا یَسْمَعُونَ وَإِلَّا لَمْ یَصِحَّ التَّشْبِیہُ ۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو لوگ مُردوں کے سننے کے انکاری ہیں،ان میں سیدہ عائشہ ،سیدنا ابن عباسy اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ان کا استدلال اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہے : {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی}([اے نبی!] یقینا آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے)۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مُردوں سے تشبیہ دی ہے۔اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مُردے نہیں سنتے،ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔۔۔‘‘
(الکوکب الدرّيّ، ص : 319، ط الحجریّۃ، 197/2، ط الجدیدۃ)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مردے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔
دلیل نمبر 3 : اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{وَمَا یَسْتَوِي الْـاَحْیَآئُ وَلَا الْـاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ} (فاطر 22:35)
مسعود بن عمر تفتازانی ماتریدی(م : 792ھ)لکھتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُہٗ تَعَالٰی : {وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ}، فَتَمَثَّلَ بِحَالِ الْکَفَرَۃِ بِحَالِ الْمَوْتٰی، وَلَا نَزَاعَ فِي أَنَّ الْمَیِّتَ لَا یَسْمَعُ ۔
’’اپنے اس فرمانِ گرامی:{وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ}(آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے)میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مُردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مُردے سن نہیں سکتے۔‘‘
(شرح المقاصد في علم الکلام : 116/5)
شارحِ ہدایہ،علامہ ابن ہمام حنفی(م : 861ھ)ان دونوں آیات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : فَإِنَّھُمَا یُفِیدَانِ تَحْقِیقَ عَدَمِ سَمَاعِھِمْ، فَإِنَّہٗ تَعَالٰی شَبَّہَ الْکُفَّارَ بِالْمَوْتٰی لِإِفَادَۃِ تَعَذُّرِ سَمَاعِھِمْ، وَھُوَ فَرْعُ عَدَمِ سَمَاعِ الْمَوْتٰی ۔
’’ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سُن نہیں سکتے۔کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدمِ سماعِ موتیٰ کی فرع ہے۔‘‘(فتح القدیر : 104/2)
فائدہ : بعض لوگ فوت شدگان کو فریاد رسی کے لیے پکارتے ہیں اور غیب سے انکے نام کی دہائی دیتے ہیں۔یہ با طل عقیدہ ہے۔مردے تو قریب سے بھی سُن نہیں سکتے،ہزاروں میل دُور سے کیسے سُنیں گے؟قرآن مجید اس کا رد یوں فرماتا ہے :
{وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ ٭ اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَکُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ ٭} (فاطر 35: 13، 14)
’’اللہ کے سِوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو،وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سُن نہیں سکتے اور اگر وہ سُن بھی لیں تو تمہاری مُراد پوری نہیں کر سکتے۔قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براء ت کا اعلان کر دیں گے۔تمہیں (اللہ)خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘
نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُونَ}(الأحقاف 46: 5)
’’اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سِوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دادرسی نہیں کر سکتے۔وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ مُردے سُن نہیں سکتے۔یہ ایک کُلّی قاعدہ ہے۔اس کُلّی قاعدے کا انکاری اہل حق نہیں،بلکہ گمراہ شخص ہے۔
استثناء ات جو شرعی نصوص سے ثابت ہیں
اس کُلّی قاعدے سے شریعت نے خود ہی چند استثناء ات رکھ دی ہیں۔ان میں کچھ استثناء ات یہ ہیں:
استثناء نمبر 1 : مُردے کا جوتوں کی آواز سننا :
(ا) سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’اَلْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہٖ، وَتُوُلِّيَ، وَذَھَبَ أَصْحَابُہٗ، حَتّٰی إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ ، أَتَاہُ مَلَکَانِ، فَأَقْعَدَاہُ، فَیَقُولَانِ لَہٗ ۔۔۔۔۔۔۔‘
’’میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں،حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے،تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔‘‘
(صحیح البخاري : 78/1، ح : 1378، صحیح مسلم : 379/2، ح : 782)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
’إِنَّ الْمَیِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہٖ، إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِھِمْ إِذَا انْصَرَفُوا۔۔۔۔۔‘
’’میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔‘‘
(ب) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ــ:
’إِنَّ الْمَیِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہٖ إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِھِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْہُ‘ ۔ ’’میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو لوگوں کے واپسی کے وقت وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہی ہوتی ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 348/2، شرح معاني الآثار للطحاوي : 510/1، المعجم الأوسط للطبراني : 2651، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 381-380/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (3113)نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘کہاہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
علامہ ہیثمی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔(مجمع الزوائد : 52-51/3)
یہ ایک استثناء ہے ۔ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مُردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔اگروہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو’حِینَ یُوَلُّونَ عَنْہُ‘(جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہوتے ہیں)اور’إِذَا انْصَرَفُوا‘ (جب لوگ لوٹتے ہیں)کی قید لگاکرمخصوص وقت بیان کرنے کاکیافائدہ تھا؟مطلب یہ کہ قانون اوراصول تویہی ہے کہ مردہ نہیںسنتا،تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کردیاکہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں،ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
علامہ عینی حنفی(م : 855ھ) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْمَیِّتَ تَعُودُ إِلَیْہِ رُوحُہٗ لِأَجْلِ السُّؤَالِ، وَإِنَّہٗ لَیَسْمَعُ صَوْتَ نِعَالِ الْـأَحْیَائِ، وَھُوَ فِي السُّؤَالِ ۔
’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکرونکیر کے)سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔‘‘
(شرح أبي داوٗد 188/6:)
پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پرلام داخل ہو تو معنیٰ حال کے ساتھ خاص ہو جاتاہے،یعنی ’لَیَسْمَعُ‘ وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔
اِس تحقیق کی تائید،اُس فرمانِ نبوی سے بھی ہوتی ہے جو امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے :
’وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ ! إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِھِمْ، حِینَ تُوَلُّونَ عَنْہُ مُدْبِرِینَ‘ ۔ ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہو تو وہ ان جوتوں کی آواز سنتی ہے۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 510/1، وسندہٗ حسنٌ)
عالَمِ عرب کے مشہور اہل حدیث عالِمِ دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1420-1332ھ)اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
فَلَیْسَ فِیہِ إِلَّا السَّمَاعُ فِي حَالَۃِ إِعَادَۃِ الرُّوحِ إِلَیْہِ لِیُجِیبَ عَلٰی سُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ، کَمَا ھُوَ وَاضِحٌ مِّنْ سِیَاقِ الْحَدِیثِ ۔
’’اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لیے میت میں رُوح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی)آواز سُنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السيّء في الأمّۃ : 1147)
مشہور عَرب،اہل حدیث عالم،محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م : 1421ھ) فرماتے ہیں ــــ:
فَھُوَ وَارِدٌ فِي وَقْتٍ خَاصٍّ، وَھُوَ انْصِرَافُ الْمُشَیِّعِینَ بَعْدَ الدَّفْنِ ۔
’’مُردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔‘‘(القول المفید علی کتاب التوحید : 289/1)
استثناء نمبر 2 :
جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا :
(ا) بدر میں قتل ہونے والے چوبیس مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکارکرفرمایا:
’یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ! وَیَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ! أَیَسُرُّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمْ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ؟ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَھَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟‘ ’’اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچ ہوتا دیکھ لیا؟‘‘
یہ سُن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَھَا؟ ’’اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں؟‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ، مِنْھُمْ‘ ۔
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے! میںجو کہہ رہا ہوں،اس کو تم ان کفار سے زیادہ نہیں سُن رہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 566/2، ح : 3976، صحیح مسلم : 387/2، ح : 2874)
(ب) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :
اِطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَھْلِ الْقَلِیْبِ، فَقَالَ : ’وَجَدْتُّم مَّاوَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟‘، فَقِیلَ لَہٗ : أَتَدْعُو أَمْوَاتًا؟ فَقَالَ : ’مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْھُمْ، وَلٰکِنْ لَّا یُجِیبُونَ‘ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں والے کفار کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا : کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ آپ سے عرض کی گئی : کیا آپ مُردوں کو پکار رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں،لیکن جواب نہیں دے سکتے۔‘‘
(صحیح البخاري : 183/1، ح : 1370)
اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری (567/2، ح : 3981-3980)میں ہے : ’إِنَّھُمُ الْـآنَ یَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ‘ ۔
’’وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کے مردے نہیں سنتے۔صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔اسی لیے تو سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مُردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں،یہ تو سنتے نہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدمِ سماعِ موتیٰ کے اس قانونِ شریعت سے خاص کر دیا گیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا : ’اَلْـآنَ‘،یعنی اس وقت وہ میر ی بات سن رہے ہیں۔اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں،بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قَالَ (أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ـــ 536-453ھـ ــــ) الْمَازِرِيُّ : قَالَ بَعْضُ النَّاسِ : الْمَیِّتُ یَسْمَعُ عَمَلاً بِظَاھِرِ ھٰذَا الْحَدِیثِ، ثُمَّ أَنْکَرَہُ الْمَازِرِيُّ ، وَادَّعٰی أَنَّ ھٰذَا خَاصٌّ فِي ھٰؤُلَائِ ۔
’’علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی)مازری(536-453ھ)فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مُردے سنتے ہیں۔اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 387/2)
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1420-1332ھ)اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
وَنَحْوُہٗ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ ـــــ حِینَمَا سَأَلَہٗ عَنْ مُّنَادَاتِہٖ لِاَھْلِ قَلِیبِ بَدْرٍ ـــــ : ’مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْھُمْ‘، ھُوَ خَاصٌّ أَیْضًا بِأَھْلِ الْقَلِیبِ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔اِسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔‘‘(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : 286/3، ح : 1148)
فائدہ : مشہور تابعی،امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (118-61ھ)فرماتے ہیں :
أَحْیَاھُمُ اللّٰہُ حَتّٰی أَسْمَعَھُمْ قَوْلَہٗ، تَوْبِیخًا وَّتَصْغِیرًا وَّ نِقْمَۃً وَّحَسْرَۃً وَّنَدْمًا ۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 459/19، ح : 12417، صحیح البخاري : 3976)
علامہ ابو الحسن علی بن خلف بن عبداللہ،ابن بطال( م :449ھ)فرماتے ہیں :
وَعَلٰی تَأْوِیلِ قَتَادَۃَ فُقَھَائُ الْـأَئِمَّۃِ وَجَمَاعَۃُ أَھْلِ السُنَّۃِ ۔
’’امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت ِاہل سنت قائم ہیں۔‘‘
(شرح صحیح البخاري : 358/3)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مُردوں کے سننے کا قائل نہیں۔اگرقرآن و حدیث میں سماعِ موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف ِامت ضرور اس کے قائل ہوتے۔اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدمِ سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے،ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلاہے۔یہ کہنا کہ ’’نفیِ سماع،پھر استثنائ، کیا فرق نکلے گا،نتیجہ تو بہر کیف سماعِ موتی ہی نکلتاہے۔۔۔‘‘ نِری جہالت اور بے وقوفی ہے۔
شارحِ بخاری،علامہ،ابو محمد،عبدالواحد ،ابن تَیِّن،مغربی(م : 611ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمَوْتٰی لَایَسْمَعُونَ بِلَا شَکٍّ ۔
’’یقینا مُردے نہیں سنتے۔‘‘(فتح الباري لابن حجر : 235/3)
شارحِ بخاری،مہلب بن احمد بن اسید تمیمی(م : 435ھ) فرماتے ہیں :
لَا یَسْمَعُونَ، کَمَا قَالَ تَعَالٰی : {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} (النمل 27: 80)، {وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ} (فاطر 35: 22)
’’مُردے نہیں سنتے،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :{اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} (النمل 27: 80) ([اے نبی!]یقینا آپ مُردوں کو نہیں سُنا سکتے)۔نیز فرمایا : ([اے نبی!] آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے)۔‘‘
(شرح صحیح البخاري لابن بطّال : 320/3)
ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مُردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لیے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماعِ موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلائے۔ آمین!
قائلینِ سماعِ موتیٰ کے شبہات اور ان کا ازالہ
جو لوگ سماعِ موتیٰ کے قائل ہیں،وہ دلائل کی دنیا میں نادار اور فقیر ہیں۔ ان کے پاس دلائل نہیں، شبہات ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مُردوں کے سننے کے قائل ہیں۔آئیے قرآن و سنت اور آثار ِسلف کی روشنی میں ان شبہات کا ازالہ کرتے ہیں:
شبہ نمبر 1 : تفسیر ابن کثیر کی ایک الحاقی عبارت :
وَقَدْ شَرَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُمَّتِہٖ : إِذَا سَلَّمُوا عَلٰی أَھْلِ الْقُبُورِ أَنْ یُّسَلِّمُوا عَلَیْھِمْ سَلَامَ مَنْ یُّخَاطِبُونَہٗ، فَیَقُولُ الْمسلِّمُ : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِینَ، وَھٰذَا خِطَابٌ لِّمَنْ یَّسْمَعُ وَیَعْقِلُ، وَلَوْلَا ھٰذَا الْخِطَابُ لَّکَانُوا بِمَنْزِلَۃِ خِطَابِ الْمَعْدُومِ وَالْجَمَادِ، وَالسَّلَفُ مُجْمِعُونَ عَلٰی ھٰذَا، وَقَدْ تَّوَاتَرَتِ الْـآثَارُ عَنْھُمْ بِأَنَّ الْمَیِّتَ یَعْرِفُ بِزِیَارَۃِ الْحَيِّ لَہٗ وَیَسْتَبْشِرُ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِینَ‘ (اے مومنوں کے گھروں [قبروں]میں رہنے والو! تم پر سلامتی ہو)۔سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مُردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت،قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 325/6، بتحقیق سامي بن محمّد سلامۃ، طبع دار طیبۃ للنشر والتوزیع)
تفسیرابن کثیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اگر ثابت بھی ہوجائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذیہ عبارت ناقابل استدلال و التفات ہے۔
ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں:
وَأَرٰی مِنَ الْوَاجِبِ عَلٰی مَنْ یَّتَصَدّٰی لِتَحْقِیقِ تَفْسِیرِ ابْنِ کَثِیرٍ تَحْقِیقًا عِلْمِیًّا دَقِیقًا، سِیَّمَا مِنَ الْمَآخِذِ، أَنْ لَّا یَعْتَمِدَ عَلٰی نُسْخَۃٍ وَّاحِدَۃٍ، بَلْ عَلَیْہِ أَنْ یَّجْمَعَ کُلَّ النُّسَخِ الْمَخْطُوطَۃِ وَالْمَطْبُوعَۃِ، وَیُوَازِنُ بَیْنَھَا مَعَ إِثْبَاتِ الزِّیَادَۃِ وَالنَّقْصِ، وَالتَّحْرِیفِ وَالتَّصْحِیفِ ۔
’’جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے،خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے،تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے،بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے،پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔‘‘
(ابن کثیر ومنھجہ في التفسیر، ص : 128)
پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے ،جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے،اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھاہے۔مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں: زِیَادَۃٌ مِّنْ ت، أ ۔
یعنی یہ عبارت نسخہ المحمّدیّۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکورہے۔اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا)نامعلوم ہے۔نیزیہ عبارت نسخہ وليّ اللّٰہ بن جار اللّٰہ میں موجودہے۔اس کاناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے،اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریّۃ اور نسخہ دارالکتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔اس میںیہ عبارت نہیں ہے۔یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔
شبہ نمبر 2 : قبرستان میں سلام کہنے والی دلیل :
بعض لوگوںنے سلام والی حدیث سے سماعِ موتی کا مسئلہ ثابت کیا ہے۔ان کے ہاتھ ’’ضعیف‘‘ روایات لگ گئی ہیں۔انہی کی بنیاد پر یہ کچھ ثابت کیا گیا ہے۔جبکہ کسی صحیح حدیث میں مرُدوں کے سلام سننے کاذکر تک نہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب(1297-1248ھ)کہتے ہیں:
’’اپنے خیالِ نارسا کے موافق سمعِ اصوات،حدِّ اسماع سے تو پَرے ہے۔پَراستماعِ اصوات ممکن ہے۔یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی}فرمایا اورنبی علیہ السلام نے باوجود اس کے، سلامِ اہلِ قبور مسنون کردیا۔اگر استماع ممکن نہیں تو یہ بے ہودہ حرکت، یعنی سلامِ اہلِ قبور، ملحدوں کی زبان درازی کے لیے کافی ہے۔‘‘
(جمالِ قاسمی، ص : 9)
یہ کوئی علمی بات ہے؟جب دلائل نہ ہوں تو اسی طرح کے ’’تِیرتُکّے‘‘ لگائے جاتے ہیں اور وحی کے مقابلے میں عقلی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔یہ بات ہر ادنیٰ شعور رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ سلام دعا ہے۔ اور جب میت کو سلام کہا جاتا ہے تو صرف بطور ِدُعا کہا جاتا ہے،ان کو سنانا مقصود نہیں ہوتا۔بالکل اسی طرح جیسے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ :
[إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ۔۔۔۔۔۔۔]
’’میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے،تُونہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔۔۔‘‘
(صحیح البخاري : 1597، صحیح مسلم : 1270)
یہاں بھی حجر اسود کو سنانا مقصود نہیں تھا،بلکہ لوگوں کو بتانا مقصود تھا کہ میں حجر اسود کو صرف سنت ِنبویq کی پیروی میں چومتا ہوں۔کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو سنانے کے لیے یہ بات کہی تھی۔معلوم ہوا کہ بسااوقات خطاب سنانے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔کیا کوئی عقلی میدان میں طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حجر اسود،جو کہ جماد اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہے،کو خطاب کرنا(معاذ اللہ!)ایک بے ہودہ حرکت تھی؟
عالَمِ عرب کے مشہور عالِم،شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م : 1421ھ)فرماتے ہیں:
فَإِنَّہٗ لَا یَلْزَمُ مِنَ السَّلَامِ عَلَیْھِمْ أَنْ یَّسْمَعُوا، وَلِھٰذَا کَانَ الْمُسْلِمُونَ یُسَلِّمُونَ عَلَی النَّبِيِّ فِي حَیَاتِہٖ فِي التَّشَھُّدِ، وَھُوَ لَا یَسْمَعُھُمْ قَطْعًا ۔
’’مُردوں کو سلام کہنے سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ وہ اسے سنتے ہیں۔مسلمان(خصوصاً صحابہ کرام)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تشہد پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قطعاً نہیں سنتے تھے۔‘‘(القول المفید علی کتاب التوحید : 288/1)
شیخ رحمہ اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے۔اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام کا تشہد میں پڑھا گیا سلام [اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ!](اے نبی! آپ پر سلام ہو)سنتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب صحابہ کی ہر وقت خبر رہنی چاہیے تھی،کیونکہ سارے صحابہ کرام پانچ وقت کے نمازی تھے۔جبکہ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کرام کے بارے میں دریافت کرنا پڑا کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں؟
مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عورت (یا مَرد)جو مسجد کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی،فوت ہو گئی۔صحابہ کرام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اسے دفنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مسجد میں نہ آنے پر اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ وہ تو کئی دن پہلے فوت ہو چکی ہے۔
(انظر صحیح البخاري : 460، صحیح مسلم : 956، وغیرہما من الکتب الحدیثیّۃ)
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کا نماز میں پڑھا گیا سلام سنتے تھے تو اس عورت کے فوت ہونے کے بعد جو پہلی نماز کا وقت آیا تھا،اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو جانی چاہیے تھی کہ مسجد میں صفائی کرنے والی عورت نے نہ نماز پڑھی ہے،نہ سلام کہا ہے۔ایسا کچھ نہ ہونا،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کا کئی دن بعد صحابہ کرام سے علم ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر سلام کا سنا جانا ضروری نہیں۔
یہی معاملہ مُردوں کو سلام کہنے کا ہے۔ان کو بھی صرف دُعا دینا مقصود ہوتا ہے،نہ کہ سنانا۔کسی صحیح حدیث سے مردوں کا سلام سننا ثابت نہیں۔ہمارا سوال ہے کہ اگرمُردے سنتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے؟کسی نے آج تک مُردوں کی طرف سے جواب تو نہیں سنا،نہ کسی سماعِ موتیٰ کے قائل نے مُردوں کے جواب دینے کا دعویٰ کیا ہے۔جب بعض الناس کے نزدیک مردے سنتے بھی ہیں اورپہچانتے بھی ہیں تو خودسلام کیوں نہیں کہہ دیتے؟
معلوم ہوا کہ قبرستان میں کہا جانے والا سلام،سلامِ خطاب نہیں،سلامِ دُعاہے اور دعاکا سنانا مقصود نہیں ہوتا۔
شارحِ بخاری،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852-773ھ)فرماتے ہیں :
وَاسْتَدَلَّ جَمَاعَۃٌ مِّنْھُمْ عَبْدُ الْحَقِّ عَلٰی حُصُولِ الِاسْتِمَاعِ مِنَ الْمَیِّتِ بِمَشْرُوعِیَّۃِ السَّلَامِ عَلَی الْمَوْتٰی، فَقَالُوا : لَوْ لَمْ یَسْمَعُوا السَّلَامَ لَکَانَ خِطَابُھُمْ بِہٖ عَبَثًا، وَھُوَ بَحْثٌ ضَعِیفٌ، لِأَنَّہٗ یَحْتَمِلُ خِلَافَ ذٰلِکَ، فَقَدْ ثَبَتَ فِي التَّشَھُّدِ مُخَاطَبَۃُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَھُوَ لَا یَسْمَعُ جَمِیعَ ذٰلِکَ قَطْعًا، فَخِطَابُ الْمَوْتٰی بِالسَّلَامِ فِي قَوْلِ الَّذِي یَدْخُلُ الْمَقْبَرَۃَ : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الْقُبُورِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، لَا یَسْتَلْزِمُ أَنَّھُمْ یَسْمَعُونَ ذٰلِکَ، بَلْ ھُوَ بِمَعْنَی الدُّعَائِ، فَالتَّقْدِیرُ : اللّٰھُمَّ ! اجْعَلِ [السَّلَامُ عَلَیْکُمْ] کَمَا تُقَدَّرُ فِي قَوْلِنَا : الصَّلَاۃُ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَإِنَّ الْمَعْنٰی : اللّٰھُمَّ اجْعَلِ الصَّلَاۃَ وَالسَّلَامَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ، فَقَدْ ثَبَتَ فِي الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ فِي أَنَّ الْعَبْدَ إِذَا قَالَ : السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَصَابَ کُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ، فَھُوَ خَبَرٌ بِمَعْنَی الطَّلَبِ، فَالتَّقْدِیرُ : اللّٰھُمَّ سَلِّمْ عَلَیْھِمْ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ۔
’’ایک جماعت،جن میں عبد الحق(اشبیلی)بھی شامل ہیں،نے مُردوں کو سلام کہنے کی مشروعیت سے سماعِ موتیٰ پر استدلال کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مُردے سلام نہیں سنتے تو ان کو مخاطب کرنا فضول ہے۔۔۔لیکن یہ کمزور موقف ہے،کیونکہ مُردوں کو سلام کہنے میںاس (خطاب )کے برعکس اور احتمال بھی ہے۔ وہ یہ کہ تشہد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے سلام کہنا ثابت ہے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں سب لوگوں کی طرف سے کہے گئے سلام قطعاً نہیں سنتے۔اسی طرح قبرستان میں داخل ہونے والے شخص کا مؤمن مُردوں کو سلام کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ! ان پر سلامتی نازل فرما، جیسا کہ اَلصَّلَاۃُ والسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! کا مطلب ہے کہ (اے اللہ!تُو اپنے رسول پر رحمت اور سلامتی نازل فرما)۔صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ جب بندہ تشہد میں کہتا ہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ (ہم پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی)تو ہر نیک شخص تک یہ دُعا پہنچ جاتی ہے۔یوں یہ خبر بمعنیٰ انشاء ہوئی۔اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ اے اللہ! تُو تمام نیک لوگوں پر سلامتی نازل فرما۔واللہ اعلم!‘‘
(الإمتاع بالأربعین المتباینۃ السماع لابن حجر، ص : 86)
شبہ نمبر 3 : ایک بے سند روایت :
وَرَوٰی أَبُو الشَّیْخِ الْـأَصْبَھَانِيُّ فِي کِتَابِ [ثَوَابِ الْـأَعْمَالِ] بِإِسْنَادِہٖ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ أَبِي مَرْزُوقٍ، قَالَ : مَاتَتْ بِالْمَدِینَۃِ امْرَأَۃٌ یُّقَالُ لَھَا : اُمُّ مِحْجَنٍ، تَقُمُّ الْمَسْجِدَ، فَمَاتَتْ، فَلَمْ یَعْلَمْ بِھَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ عَلٰی قَبْرِھَا، فَقَالَ : ’مَا ھٰذَا الْقَبْرُ؟‘، قَالُوا : اُمُّ مِحْجَنٍ، فَقَالَ : ’الَّتِي کَانَتْ تَّقُمُّ الْمَسْجِدَ؟‘، قَالُوا : نَعَمْ، فَصَفَّ النَّاسَ، وَصَلّٰی عَلَیْھَا، ثُمَّ قَالَ : ’أَيَّ الْعَمَلِ وَجَدْتِّ أَفْضَلَ؟‘، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! أَتَسْمَعُ؟ قَالَ : ’مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْھَا‘، فَذَکَرَ أَنَّھَا أَجَابَتْہٗ : قَمُّ الْمَسْجِدِ ۔
(الترغیب والترھیب للمنذري : 122/1، ح : 428، فتح الباري لابن رجب : 352/2)
تبصرہ : اس کی مکمل سند نہیں مل سکی۔بے سندروایات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔جو ناقص سند موجود ہے،اس میں بھی عبید بن ابو مرزوق ’’مجہول الحال‘‘ہے۔سوائے امام ابن حبان کے (الثقات :157/7)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
امام بخاری(التاریخ الکبیر : 5/6رقم 1496)،امام ابو حاتم الرازی(الجرح والتعدیل : 13/6)اور دیگر نے اسے ’’مرسل‘‘ کہاہے۔ محدثین کے نزدیک ’’مرسل‘‘ روایت ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔
شبہ نمبر 4 : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
جَائَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَارَسُولَ اللّٰہِ ! إِنَّ أَبِي کَانَ یَصِلُ الرَّحِمَ، وَکَانَ وَکَانَ، فَأَیْنَ ھُوَ، قَالَ : ’فِي النَّارِ‘، قَالَ : فَکَأَنَّہٗ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَأَیْنَ أَبُوکَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’حَیْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ مُشْرِکٍ، فَبَشِّرْہٗ بِالنَّارِ‘، قَالَ : فَأَسْلَمَ الْـأَعْرَابِيُّ بَعْدُ، وَقَالَ : لَقَدْ کَلَّفَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعَبًا، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ کَافِرٍ إِلَّا بَشَّرْتُہٗ بِالنَّارِ ۔
’’ایک دیہاتی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : اللہ کے رسول! میرا والد صلہ رحمی اور بہت سے نیک کام کرتا تھا۔وہ کہاں ہے؟ فرمایا : جہنم میں۔ اسے یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگا : اللہ کے رسول! آپ کے والد کہاں ہیں؟ فرمایا : جب بھی تُو کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرے تو اسے جہنم کی بشارت دے۔ وہ دیہاتی بعد میں مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشقت والے کام میں مصروف کیا ہے۔میں جب بھی کسی کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔‘‘
(سنن ابن ماجہ : 1573)
تبصرہ : اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے ۔امام زہری ’’مدلس‘‘ہیں اوربصیغہ ’’عن‘‘ روایت کررہے ہیں۔کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں ملی۔البتہ اسی معنیٰ کی ایک روایت صحیح مسلم(203)میں بھی موجود ہے،لیکن اس روایت میں دیہاتی کو ہر مشرک کی قبر سے گزرتے ہوئے اسے جہنم کی بشارت دینے کا حکم مذکور نہیں۔
شبہ نمبر 5 : سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ بقیع غرقدکے پاس سے گزرے اورفرمایا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَہْلَ الْقُبُورِ ! أَخْبَارُ مَا عِنْدَنَا أَنَّ نِسَائَکُمْ قَدْ تَزَوَّجْنَ، وَدُورَکُمْ قَدْ سُکِنَتْ، وَأَمْوَالَکُمْ قَدْ فُرِّقَتْ، فَأَجَابَہُ ہَاتِفٌ : یَا عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ ! أَخْبَارُ مَا عِنْدَنَا أَنَّ مَا قَدَّمْنَاہُ، فَقَدْ وَجَدْنَاہُ، وَمَا أَنْفَقْنَاہُ، فَقَدْ رَبِحْنَاہُ، وَمَا خَلَّفْنَاہُ، فَقَدْ خَسِرْنَاہُ ۔
’’قبروں والو! تم پر سلامتی ہو۔ہمارے پاس جو خبریں ہیں،وہ یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے آگے نکاح کر لیے ہیں،تمہارے گھروں میں غیروں نے سکونت اختیار کر لی ہے اور تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ایک غیبی آواز نے جواب دیا : ہمارے پاس یہ خبر ہے کہ جو مال ہم نے آگے بھیجا تھا،وہ ہمیں مل گیا،جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا، وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوا اور جو ہم پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں، وہ نقصان دہ ثابت ہوا۔‘‘
(الھواتف لابن أبي الدنیا : 100)
تبصرہ : اس کی سند سخت’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 مطہربن نعمان راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
2 محمد بن جبیر کاسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یَصِحُّ سَمَاعُہٗ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنَّ الدَّارَقُطْنِيَّ (العلل : 174/1) نَصَّ عَلٰی أَنَّ حَدِیثَہٗ عَنْ عُثْمَانَ مُرْسَلٌ ۔
’’اس کا سماع سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث مرسل ہوتی ہے۔‘‘
(تہذیب التہذیب : 92/9)
جب محمد بن جبیر کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں تو سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ممکن ہے؟ ہم حیران ہیں کہ بعض لوگ ایسا خام مال اپنی کتابوں میں کیوں لوڈ کرتے ہیں؟
شبہ نمبر 6 : (ا) سیدنا ابو عبد اللہ، سیدان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَھْلِ الْقَلِیبِ، فَقَالَ : ’یَا أَھْلَ الْقَلِیبِ ! ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟‘ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَھَلْ یَسْمَعُونَ ؟ قَالَ : ’یَسْمَعُونَ کَمَا تَسْمَعُونَ، وَلٰکِنْ لَّا یُجِیبُونَ‘ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں میں پڑے مقتولینِ کفار کی طرف جھانکا اور فرمایا : اے کنویں والو! کیا تم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچا پایا؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ سنتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ بالکل تمہاری طرح سن رہے ہیں،لیکن جواب نہیں دے سکتے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 165/7، ح : 6715، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني : 444/3، ح : 3665)
تبصرہ : اس کی سند سخت ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 امام طبرانی کا استاذ عبد الوارث بن ابراہیم، ابو عبیدہ عسکری ’’مجہول الحال‘‘ہے ۔اس کے بارے میں حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: لَمْ أَعْرِفْہُ ۔
(مجمع الزوائد : 212/5)
2 یونس بن موسیٰ شامی راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
3 حسین بن حماد کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
4 عبیداللہ بن غسیل راوی کون ہے،تعارف کرایا جائے۔
اس سند میں نامعلوم افراد نے قبضہ جما رکھاہے ۔لہٰذا یہ ناقابل اعتبار ہے۔
(ب) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
وَقَفَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی أَھْلِ الْقَلِیبِ، فَقَالَ : ’یَا أَھْلَ الْقَلِیبِ ! ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟، فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا‘، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! ھَلْ یَسْمَعُونَ؟ قَالَ : ’مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ، مِنْھُمْ، وَلٰکِنَّھُمُ الْیَوْمَ لَا یُجِیبُونَ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں میں پڑے مقتولینِ کفار کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے کنویں والو! کیا تم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچ پایا؟ میں نے اپنے ربّ کے وعدے کو بالکل سچا پایا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا یہ سن رہے ہیں؟ فرمایا : تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔لیکن آج یہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔‘‘
(السنّۃ لابن أبي عاصم : 884، وفي نسخۃ أخرٰی : 910، المعجم الکبیر للطبراني : 160/10، ح : 10320)
تبصرہ : اس کی سند’’ضعیف‘‘ہے۔اس میں :
1 اشعث بن سوّار راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہاہے ۔(تقریب التھذیب : 524)
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : ضَعَّفَہٗ أَحْمَدُ وَجَمَاعَۃٌ ۔
’’اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ائمہ کرام کے ایک گروہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(مجمع الزوائد : 240/2)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
فَالْـأَکْثَرُ عَلٰی أَنَّہٗ غَیْرُ مَرْضِيٍّ وَّلَا مُخْتَارٍ ۔
’’اکثر محدثین کرام اسے ناقابل اعتبار اور ناپسندیدہ ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
(البدر المنیر : 731/5)
2 اس میں ابو اسحاق سبیعی کی ’’تدلیس‘‘اور اختلاط بھی ہے۔
[من حدیث أبي العبّاس الأصمّ] (84)کی سند میں ابان بن ابوعیاش راوی ’’متروک‘‘ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
فِإِنَّہٗ ضَعِیفٌ بِاتِّفَاقٍ ۔ ’’یہ راوی باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔‘‘
(فتح الباري : 239/9)
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ [السنّۃ لابن أبي عاصم]کے حاشیہ میں فرماتے ہیں :
لٰکِنْ لَّیْسَ فِیہَا أَنَّ الْمَوْتٰی عَامَّۃً یَّسْمَعُونَ، وَإِنَّمَا فِیہَا أَنَّ أَہْلَ الْقَلِیبِ سَمِعُوا قَوْلَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہُمْ، فَہِيَ قَضِیَّۃٌ خَاصَّۃٌ، لَا عُمُومَ لَہَا۔۔۔۔۔۔۔۔، وَیُؤَیِّدُہٗ قَوْلُ قَتَادَۃَ الْمُتَقَدِّمُ : أَحْیَاہُمُ اللّٰہُ لَہٗ، فَالْقَضِیَّۃُ خَاصَّۃٌ، فَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّلْحَقَ بِہَا غَیْرُہَا، فَیُقَالَ : إِنَّ الْمَوْتٰی کُلَّہُمْ یَسْمَعُونَ، کَمَا یَقُولُ کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ الْیَوْمَ !
’’لیکن اس حدیث سے تمام مُردوں کا (ہر بات کو)سننا ثابت نہیں ہوتا۔اس میں تو صرف یہ مذکور ہے کہ کنویں والے مقتولین نے وہ بات سنی تھی جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمائی تھی۔یہ ایک خاص واقعہ ہے جو عموم کا متحمل نہیں۔۔۔اس بات کی تائید اما م قتادہ تابعی رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سننے کے لیے زندہ کر دیا تھا۔۔۔یوں یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اسے عمومی رنگ دے کر یہ کہنا جائز نہیں کہ تمام مُردے سنتے ہیں، جیسا کہ موجودہ دَور میں اکثر لوگوں کا عقیدہ ہے۔‘‘(ظلال الجنّۃ في تخریج السنّۃ : 428/2)
شبہ نمبر 7 : سعید بن مسیب تابعی بیان کرتے ہیں :
دَخَلْنَا مَقَابِرَ الْمَدِینَۃِ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فََنَادٰی یَا أَھْلَ الْقُبُورِ ! السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، تُخْبِرُونَّا بِأَخْبَارِکُمْ، أَمْ تُرِیدُونَ أَنْ نُّخْبِرَکُمْ؟ قَالَ : فَسَمِعْتُ صَوْتًا ؛ وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینََ ! خَبِّرْنَا عَمَّا کَانَ بَعْدَنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَمَّا أَزْوَاجُکُمْ، فَقَدْ تَزَوَّجْنَ، وَأَمَّا أَمْوَالُکُمْ، فَقَدِ اقْتُسِمَتْ، وَالْـأَوْلَادُ قَدْ حُشِرُوا فِي زُمْرَۃِ الْیَتَامٰی، وَالْبِنَائُ الَّذِي شَیَّدْتُّمْ، فَقَدْ سَکَنَھَا أَعْدَائُکُمْ، فَھٰذِہٖ أَخْبَارُکُمْ عِنْدَنَا، فَمَا أَخْبَارُنَا عِنْدَکُمْ؟ فَمَا عِنْدَکُمْ؟ فَأَجَابَہٗ مَیِّتٌ : قَدْ تَخَرَّقَتِ الْـأَکْفَانُ، وَانْتَثَرَتِ الشُّعُورُ، وَتَقَطَّعَتِ الْجُلُودُ، وَسَالَتِ الْـأَحْدَاقُ عَلَی الْخُدُودِ، وَسَالَتِ الْمَنَاخِرُ بِالْقَیْحِ وَالصَّدِیدِ، وَمَا قَدَّمْنَاہُ وَجَدْنَاہُ، وَمَا خَلَّفْنَاہُ خَسِرْنَاہُ، وَنَحْنُ مُرْتَھَنُونَ بِالْـأَعْمَالِ ۔
’’ہم سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان میں داخل ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : قبروں والو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔تم ہمیں اپنے احوال سناؤ گے یا ہم سے سننا چاہتے ہو۔میں(سعید بن مسیب)نے یہ آواز سنی: امیرالمومنین! وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔آپ ہمارے بعد ہونے والے واقعات ہمیں بتائیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہاری بیویوں نے آگے شادیاں کر لی ہیں،تمہارے مال تقسیم کر دیے گئے ہیں، تمہاری اولادیں یتیموں میں شمار ہونے لگی ہیں اور جو مکان تم نے بنائے تھے،ان میں تمہارے دشمنوں نے رہائش اختیار کر لی ہے۔ہمارے پاس تمہاری یہی خبریں تھیں۔اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کیا خبریں ہیں؟ ایک میت نے جواب دیا : ہمارے کفن بوسیدہ ہو گئے ہیں،بال بکھر گئے ہیں، جلدیں پھٹ گئی ہیں، رونے کی وجہ سے آنکھوں کی سیاہی رخساروں پر بہہ چکی ہے،ناک سے کچ لہو اور پیپ کے فوارے نکل رہے ہیں۔جو چیزیں ہم نے آگے(اللہ کی راہ میں)بھیج دی تھیں،وہ ہمارے لیے نفع مند ثابت ہوئیں اور جن کو ہم (وارثوں کے لیے)پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ہم اپنے اعمال کے بدلے میں گروی رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 395/27)
تبصرہ : یہ سند باطل ہے، کیونکہ :
1 عبداللہ بن حسن بن عبدالرحمن،ابوالقاسم بزاز کی توثیق نہیں مل سکی۔
2 اس سند میں کئی اور راوی بھی ’’مجہول‘‘ ہیں،جیسا کہ امام بیہقی فرماتے ہیں:
فِي إِسْنَادِہٖ قَبْلَ أَبِي زَیْدٍ النَّحْوِيِّ مَنْ یُّجْھَلُ ۔
’’اس روایت کی سند میں ابوزید نحوی سے پہلے مجہول راوی موجود ہیں۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 395/27)
حافظ سیوطی اس روایت کے بارے کہتے ہیں : بِسَنَدٍ فِیہِ مَنْ یُّجْھَلُ ۔
’’یہ ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں مجہول راوی موجود ہیں۔‘‘
(الخصائص الکبرٰی : 113/2)
3 سفیان بن عیینہ ’’مدلس‘‘ہیں اور ’’عن‘‘سے روایت کررہے ہیں۔
لہٰذا یہ روایت قابل حجت نہیں ہو سکتی۔
شبہ نمبر 8 : عہد ِفاروقی میں ایک نوجوان تھا۔امیر المومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔دن بھر مسجد میں رہتا،بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔اس پر عاشق ہو گئی۔ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ایک رات قدم نے لغزش کی۔ساتھ ہو لیا۔دروازے تک گیا۔جب اندر جانا چاہا،اللہ تعالی یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت ِکریمہ زبان سے نکلی :{اِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طَآئِفٌ مِّنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ} آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔عورت نے اپنی کنیز کے ساتھ اٹھاکر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔باپ منتظر تھا۔آنے میں دیر ہوئی۔دیکھنے نکلا۔دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔رات گئے ہوش آئی۔باپ نے حال پوچھا۔ کہا : خیریت ہے۔کہا : بتادے۔ناچار قصہ بیان کیا۔باپ بولا : جان پدر! وہ آیت کون سی ہے؟جوان نے پھر پڑھی۔پڑھتے ہی غش آیا۔حرکت دی،مُردہ حالت میں پایا۔رات ہی نہلا کر کفناکر دفن کردیا۔صبح کو امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دینے کی شکایت فرمائی۔عرض کی : اے امیر المومنین ! رات تھی۔پھر امیر المومنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فَقَالَ عُمَرُ : یَا فُلَانُ ! وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰانِ، فَأَجَابَہُ الْفَتٰی مِنْ دَاخِلِ الْقَبْرِ : یَا عُمَرُ ! قَدْ أَعْطَانِیھُمَا رَبِّي یَا عُمَرُ !
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں! جو شخص اپنے ربّ کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے،اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔‘‘
(ذم الھوٰی لابن الجوزي : 253-252، تاریخ دمشق لابن عساکر : 450/45)
تبصرہ : اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری(م:168ھ) کہتے ہیں : سَمِعْتُ مَنْ یَّذْکُرُ أَنَّہٗ کَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ ۔۔۔۔۔
’’میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد ِفاروقی میں ۔۔۔‘‘
یوں یہ سند سخت ’’معضل‘‘ہے۔نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایت سنی تھی؟
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا :
سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ (ابْنِ الْمُبَارَکِ) ۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔‘‘
(مقدمۃ صحیح مسلم : 19)
تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)کہتے ہیں :
سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ، ھٰذَا مَجْھُولٌ، وَلَا یَصِحُّ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ ۔ ’’امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 19)
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔
شبہ نمبر 9 : حَدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ أَنَسُ بْنُ سَلْمٍ الْخَوْلَانِيُّ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْعَلَائِ الْحِمْصِيُّ : ثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِي کَثِیرٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْـأَوْدِيِّ، قَالَ : شَہِدْتُّ أَبَا أُمَامَۃَ، وَہُوَ فِي النَّزْعِ، فَقَالَ : إِذَا أَنَا مُتُّ، فَاصْنَعُوا بِي کَمَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَّصْنَعَ بِمَوْتَانَا، أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ’إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِّنْ إِخْوَانِکُمْ، فَسَوَّیْتُمِ التُّرَابَ عَلٰی قَبْرِہٖ، فَلْیَقُمْ أَحَدُکُمْ عَلٰی رَأْسِ قَبْرِہٖ، ثُمَّ لِیَقُلْ : یَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَۃَ ! فَإِنَّہٗ یَسْمَعُہٗ، وَلَا یُجِیبُ، ثُمَّ یَقُولُ : یَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَۃَ، فَإِنَّہٗ یَسْتَوِي قَاعِدًا، ثُمَّ یَقُولُ : یَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَۃَ ! فَإِنَّہٗ یَقُولُ : أَرْشِدْنَا رَحِمَکَ اللّٰہُ، وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُونَ، فَلْیَقُلِ : اذْکُرْ مَا خَرَجْتَ عَلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا ؛ شَہَادَۃَ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ، وَأَنَّکَ رَضِیتَ بِاللّٰہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا، فَإِنَّ مُنْکَرًا وَّنَکِیرًا یَأْخُذُ وَاحِدٌ مِنْہُمْا بِیَدِ صَاحِبِہٖ، وَیَقُولُ : انْطَلِقْ بِنَا، مَا نَقْعُدُ عِنْدَ مَنْ قَدْ لُقِّنَ حُجَّتَہٗ، فَیَکُونُ اللّٰہُ حَجِیجَہٗ دُونَہُمَا‘، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَإِنْ لَّمْ یَعْرِفْ أُمَّہٗ؟ قَالَ : ’فَیَنْسُبُہٗ إِلٰی حَوَّاء َ ؛ یَا فُلَانَ بْنَ حَوَّاء َ‘ ۔
’’سعید بن عبداللہ اودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہو ا،جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔ وہ فرمانے لگے : جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرنا،جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مُردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تھاکہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک شخص اس کی قبر کے سرہانے کی جانب کھڑا ہو کر کہے:اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا تو مُردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا،مُردہ یہ بات سنے گا،لیکن جواب نہیں دے گا۔پھر وہ کہے:اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! وہ کہے گا:اللہ تجھ پر رحم کرے ! ہماری رہنمائی کر ، لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔پھر کہے کہ تُواس بات کو یاد کر،جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہے۔اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ تُو اللہ کے رب ہونے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے،اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ منکر اور نکیر میں سے ایک،دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتاہے : چلو،جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو،اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے۔چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی:اللہ کے رسول ! اگر وہ (تلقین کرنے والا )اس (مرنے والے)کی ماں کو نہ جانتا ہو تو( کیا کرے )؟ فرمایا : وہ اسے حوّاء [کی طرف منسوب کرکے کہے ، اے حواء کے فلاں بیٹے !‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 250/8، ح : 7979، الدعاء للطبراني : 298/3، ح : 1214، وصایا العلماء عند حضور الموت لابن زبر، ص : 47-46، الشافي لعبد العزیز، نقلًا عن التلخیص الحبیر لابن حجر : 136/2، اتّباع الأموات للإمام إبراہیم الحربي، نقلًا عن المقاصد الحسنۃ للسخاوي : 265، الأحکام للضیاء المقدسي، نقلًا عن المقاصد الحسنۃ : 265)
تبصرہ : یہ سند بوجوہ سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے ، کیونکہ :
1 اسماعیل بن عیاش کی اہلِ حجاز سے بیان کردہ روایت ’’ضعیف‘‘ہوتی ہے۔ مذکورہ روایت بھی اہلِ حجاز سے ہے، لہٰذا ’’ضعیف ‘‘ہے ۔
امام اندلس، حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463-368ھ)فرماتے ہیں :
وَإِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ (عِنْدَھُمْ) أَیْضًا غَیْرُ مَقْبُولِ الْحَدِیثِ، إِذَا حَدَّثَ عَنْ غَیْرِ أَھْلِ بَلَدِہٖ، فَإِذَا حَدَّثَ عَنِ الشَّامِیِّینَ، فَحَدِیثُہٗ مُسْتَقِیمٌ، وَإِذَا حَدَّثَ عَنِ الْمَدَنِیِّینَ وَغَیْرِھِمْ، مَا عَدَا الشَّامِیِّینَ، فَفِي حَدِیثِہٖ خَطَأٌ کَثِیرٌ وَّاضْطِرَابٌ، وَلَا أَعْلَمُ بَیْنَھُمْ خِلَافًا أَنَّہٗ لَیْسَ بِشَيْئٍ فِیمَا رَوٰی عَنْ غَیْرِ أَھْلِ بَلَدِہٖ ۔
’’اسماعیل بن عیاش جب اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی اور سے بیان کرے، تو محدثین کے ہاں اس کی حدیث بھی قبول نہیں ہوتی۔جب وہ شامی لوگوں سے بیان کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔جب شامیوں کے علاوہ مدنیوں اور دیگر علاقے والوں سے بیان کرے تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطی اور اضطراب ہوتا ہے۔میری معلومات کے مطابق محدثین کرام کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب اسماعیل بن عیاش اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی سے بیان کرے تو اس کی حدیث قابل التفات نہیں ہوتی۔‘‘
(التمھید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : 429/6)
امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ (م : 277ھ) فرماتے ہیں :
وَتَکَلَّمَ قَوْمٌ فِي إِسْمَاعِیلَ، وَإِسْمَاعِیلُ ثِقَۃٌ، عَدْلٌ، أَعْلَمُ النَّاسِ بِحَدِیثِ الشَّامِ، وَلَا یَدْفَعُہٗ دَافِعٌ، وَأَکْثَرُ مَا تَکَلَّمُوا، قَالُوا : یُغْرِبُ عَنْ ثِقَاتِ الْمَدَنِیِّینَ وَالْمَکِّیِّینَ ۔ ’’کچھ اہل علم نے اسماعیل بن عیاش پر جرح کی ہے۔ اسماعیل ثقہ اور عدل ہیں،شام کی حدیث کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔کوئی بھی ان کو ردّ نہیں کرتا۔زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ اور مکہ کے رہنے والے ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتے ہیں۔‘‘
(المعرفۃ والتاریخ : 424/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صُدُوقٌ فِي رِوَایَتِہٖ عَنْ أَھلِ بَلَدِہٖ، مُخَلَّطٌ فِي غَیْرِھِمْ ۔
’’جب اپنے اہل علاقہ سے بیان کرے تو صدوق ہوتا ہے اور جب کسی اور سے بیان کرے تو حافظے کی خرابی کا شکار ہوتا ہے۔‘‘(تقریب التھذیب : 473)
یہ روایت بھی حجازیوں سے ہے۔لہٰذا ضعیف ہے۔یہ جرح مفسر ہے۔
2 اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن محمد قرشی غیر معروف ہے۔اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عَبْدُ اللّٰہِ، لَا یُدْرٰی مَنْ ھُوَ ۔
’’یہ عبد اللہ نامی راوی، معلوم نہیں ہو سکا کہ کون ہے؟‘‘
(میزان الاعتدال : 244/3، ت : عمران بن ھارون)
3 یحییٰ بن ابو کثیر ’’مدلس‘‘ہیں۔اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح نہیں ملی،لہٰذا یہ ناقابل قبول روایت ہے۔
4 اس کے ایک راوی سعید بن عبد اللہ اودی کی توثیق نہیں مل سکی۔اسی لیے حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : وَفِي إِسْنَادِہٖ جَمَاعَۃٌ، لَمْ أَعْرِفْھُمْ ۔
’’اس (طبرانی)کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں،جنہیں میں پہچان نہیں سکا۔‘‘
(مجمع الزوائد : 45/3)
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ : إِسْنَادُہٗ صَالِحٌ، وَقَدْ قَوَّاہُ الضِّیَائُ فِي أَحْکَامِہٖ ۔ ’’اس کی سند حسن ہے۔امام ضیاء مقدسی نے اسے اپنی کتاب احکام میں اسے مضبوط قرار دیا ہے۔‘‘(التلخیص الحبیر : 136-135/2، ح : 796)
جبکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک مقام پر اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
ھٰذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ، وَسَنَدُ الْحَدِیثِ مِنَ الطَّرِیقَیْنِ ضَعِیفٌ جِدًّا ۔
’’یہ حدیث غریب ہے اور اس کی دونوں سندیں ضعیف ہیں۔‘‘
(الفتوحات الربّانیّۃ : 196/4)
اسی لیے حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی بعض تصانیف میں ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔(المقاصد الحسنۃ، ص : 265)
اس حدیث کے بارے میں دیگر اہل علم کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیں :
1 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے شیخ حافظ عراقی رحمہ اللہ (806-725ھ) فرماتے ہیں :
اَلطَّبْرَانِيُّ ھٰکَذَا بِإِسْنَادٍ ضَعِیفٍ ۔ ’’اس روایت کو امام طبرانی نے اسی طرح ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘(تخریج أحادیث الإحیاء : 420/4)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)کہتے ہیں : إِسْنَادُہٗ ضَعِیفٌ ۔
’’اس کی سند ضعیف ہے۔‘‘(المجموع شرح المھذب : 257/5)
3 حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (663-557ھ)فرماتے ہیں:
لَیْسَ إِسْنَادُہٗ بِالْقَائِمِ ۔ ’’اس کی سند قابل حجت نہیں۔‘‘
(فتاوی ابن الصلاح : 261/1، الأذکار للنووي، ص : 138)
4 علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (751-557ھ)فرماتے ہیں :
ضَعِیفٌ بِاتِّفَاقِ أَھْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ ۔
’’محدثین کرام کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔‘‘
(تحفۃ المودود، ص : 149)
نیزفرماتے ہیں : لَا تَقُومُ بِہٖ حُجَّۃٌ ۔
’’اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘(تھذیب السنن : 250/7)
5 حافظ ہیثمی(807-735ھ)فرماتے ہیں:
وََفِي إِسْنَادِہٖ جَمَاعَۃٌ، لَمْ أَعْرِفْھُمْ ۔
’’اس کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں پہچان نہیں پایا۔‘‘
(مجمع الزوائد : 45/3)
حافظ سیوطی (911-869ھ)کہتے ہیں : اَلتَّلْقِینُ لَمْ یَثْبُتْ فِي حَدِیثٍ صَحِیحٍ وَّلَا حَسَنٍ، بَلْ حَدِیثُہٗ ضَعِیفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِینَ ۔
’’(قبر پر)تلقین کرنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں،بلکہ اس بارے میں مروی حدیث باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔‘‘(الحاوي للفتاوی : 191/2)
نیز کہتے ہیں : فِي مُعْجَمِ الطَّبْرَانِيِّ بِسَنَدٍ ضَعِیفٍ ۔
’’یہ راویت ضعیف سند کے ساتھ معجم طبرانی میں موجود ہے۔‘‘
(الدرر المنتثرۃ في الأحادیث المشتہرۃ : 469)
لہٰذا علامہ عینی حنفی(البنایۃ في شرح الھدایۃ : 177/3)کااس کی سند کو ’’صحیح‘‘کہنا بے معنیٰ اور ناقابل التفات ہے۔
نیز حافظ ابن ملقن کا اس کے بارے میں یہ کہنا بھی قطعاً صحیح نہیں کہ :
إِسْنَادُہٗ، لَا أَعْلَمُ بِہٖ بأْسًا ۔ ’’اس کی سند میں مجھے کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔‘‘(البدر المنیر : 334/5)
کیونکہ ایک مقام پر وہ خود اسماعیل بن عیاش کے بارے میں لکھتے ہیں :
وَھُوَ عَنْ غَیْرِ الشَّامِیِّینَ لَیْسَ بِشَيْئٍ عِنْدَ الْجُمْھُورِ ۔
’’جمہور محدثین کرام کے نزدیک اس کی غیرشامیوں سے روایت ناقابل التفات ہے۔‘‘
(البدر المنیر : 543/4)
اور اس سند میں اسماعیل بن عیاش غیر شامیوں سے روایت کر رہا ہے۔
ثابت ہوا کہ ائمہ حدیث اور علمائے سنت کے نزدیک یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے۔
علامہ صنعانی رحمہ اللہ (1162-1099ھ)فرماتے ہیں :
وَیَتَحَصَّلُ مِنْ کَلَامِ أَئِمَّۃِ التَّحْقِیقِ أَنَّہٗ حَدِیثٌ ضَعِیفٌ ۔
’’محققین ائمہ دین کے کلام سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔‘‘
(سبل السلام : 157/2)
تنبیہ : اس روایت کو ’’ضعیف‘‘قرار دینے کے بعد حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں : وَقَدِ اتَّفَقَ عُلَمَائُ الْمُحَدِّثِینَ وَغَیْرُھُمْ عَلَی السَّمَاحَۃِ فِي أَحَادِیثِ الْفَضَائِلِ، وَ التَّرْغِیبِ وَالتَّرْھِیبِ ۔
’’محدثین کرام اور دیگر اہل علم کا فضائل اور ترغیب و ترہیب پر مبنی احادیث کے بارے میں نرمی برتنے پر اتفاق ہے۔‘‘(المجموع شرح المھذب : 258-257/5)
حافظ نووی رحمہ اللہ کے ردّ و جواب میں مشہور اہل حدیث عالم،علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1420-1332ھ)فرماتے ہیں :
وَلَا یَرِدُ ھُنَا مَا اشْتَھَرَ مِنَ الْقَوْلِ بِالْعَمَلِ بِالْحَدِیثِ الضَّعِیفِ فِي فَضَائِلِ الْاَعْمَالِ، فَإِنَّ ھٰذَا مَحَلُّہٗ فِیمَا ثَبَتَتْ مَشْرُوعِیَّتُہٗ بِالْکِتَابِ أَوِ السُّنَّۃِ الصَّحِیحَۃِ، وَأَمَّا مَا لَیْسَ کَذَالِکَ، فَلَا یَجُوزُ الْعَمَلُ بِہٖ بِالْحَدِیثِ الضَعِیفِ لِأَنَّہٗ تَشْرِیعٌ، وَلَا یَجُوزُ ذٰلِکَ بِالْحَدِیثِ الضَعِیفِ، لِأَنَّہٗ یُفِیدُ إِلَّا الظَّنَّ الْمَرْجُوحَ اتِّفَاقًا، فَکَیْفَ یَجُوزُ الْعَمَلُ بِمِثْلِہٖ ۔
’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں جو بات مشہور ہے، اس کا اطلاق یہاں نہیں ہو سکتا۔اس کا اطلاق تو ان اعمال پر ہوتا ہے جن کی مشروعیت قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔جو عمل کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو،اس بارے میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں،کیونکہ یہ (ثواب کے لیے عمل کرنا)شریعت ہے اور شریعت ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ضعیف حدیث بالاتفاق مرجوح ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ ایسی کمزور دلیل پر عمل کرنا کیونکر جائز ہوا؟‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السيء في الأمّۃ : 65/2)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَمْ یَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْـأَئِمَّۃِ : إِنَّہٗ یَجُوزُ أَنْ یُّجْعَلَ الشَّرْعُ وَاجِبًا أَوْ مُسْتَحَبًّا بِحَدِیثٍ ضَعِیفٍ، وَمَنْ قَالَ ھٰذَا فَقَدْ خَالَفَ الْإِجْمَاعَ ۔
’’ائمہ دین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب کہنا جائزہے۔جو شخص ایسا دعویٰ کرتا ہے،وہ اجماعِ امت کا مخالف ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوی : 251/1)
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس ’’ضعیف‘‘حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں۔ہم وہ شواہد بھی قارئین کرام کی نظر کر رہے ہیں،ملاحظہ فرمائیں :
1 (ا) وَأَخْرَجَ ابْنُ مَنْدَۃَ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ، قَالَ : إِذَا مُتُّ فَدَفَنْتُمُونِي، فَلْیَقُمْ إِنْسَانٌ عِنْدَ رَأْسِي، فَلْیَقُلْ : یَا صُدَيَّ بْنَ عَجْلَانَ ! اذْکُرْ مَا کُنْتَ عَلَیْہِ فِي الدُّنْیَا ؛ شَھَادَۃَ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ ۔
’’سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا: جب میں فوت ہو جاؤں اور تم مجھے دفن کر چکو تو ایک انسان میرے سر کے پاس کھڑے ہو کر کہے : اے صدی بن عجلان (سیدنا ابوامامہ کا نام)! اس عقیدے کو یاد کر جس پر تُو زندگی میں قائم تھا،یعنی توحید ِالٰہی و رسالت ِمحمدی کا اقرار۔‘‘(الدرّ المنثور للسیوطي : 39/5)
تبصرہ : یہ اثر بے سند ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔دین کی بنیاد سندپرہے۔
(ب) مذکورہ بالا مرفوع روایت کی ایک دوسری سندبھی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍِ : حَدَّثَنَا حَمَادُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِي کَثِیرٍ، عَنْ سَعِیدٍ الْـأَوْدِيِّ، قَالَ : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(المنتقٰی من مسموعات مرو للضیاء المقدسي : 21، ذکر الموت لابن شاھین، نقلًا عن المقاصد الحسنۃ للسخاوي : 265)
تبصرہ : یہ سفید جھوٹ ہے۔اس سند کو گھڑنے والا حمادبن عمرو نصیبی ہے۔ اس کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مِمَّنْ یَّکْذِبُ، یَضَعُ الْحَدِیثَ ۔
’’یہ کذاب اور حدیث گھڑنے والا راوی ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 10/3، وسندہٗ حسنٌ)
امام ابن شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَمْ یَکُنْ بِثِقَۃٍ، قَدْ رَأَیْتُہٗ ۔
’’یہ ثقہ نہیں تھا۔میں نے اسے دیکھا ہوا ہے۔‘‘
(تاریخ أسماء الضعفاء والکذّابین : 129)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یَضَعُ وَضْعًا عَلَی الثِّقَاتِ ۔
’’یہ روایات خود گھڑ کر ثقہ راویوں کے ذمے تھوپ دیتا تھا۔‘‘
(کتاب المجروحین من المحدّثین والضعفاء والمتروکین : 252/1)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مُنْکَرُالْحَدِیثِ، ضَعَّفَہٗ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ۔
’’یہ منکرالحدیث راوی ہے۔اسے علی بن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(التاریخ الأوسط : 291/2، الرقم : 2646، التاریخ الکبیر : 28/3)
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یَرْوِي عَنْ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الثِّقَاتِ أَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃً سَاقِطَۃً ۔ ’’یہ کئی ثقہ راویوں سے منسوب کر کے من گھڑت اور سخت ضعیف روایات بیان کرتا ہے۔(المدخل إلی الصحیح، ص : 129، الرقم : 39)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قَدْ عَدَّہُ السَّلَفُ فِیمَنْ یَّضَعُ الْحَدِیثَ ۔
’’اسے سلف صالحین نے حدیث گھڑنے والوں میں شمار کیا ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 240/4، ت : عبداللّٰہ بن ضرار)
معلوم ہوا کہ یہ راوی باتفاق محدثین کذاب اور وضّاع ہے ۔لہٰذا یہ سند جھوٹی ہے۔
امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ (261-204ھ)فرماتے ہیں :
فَأَمَّا مَا کَانَ مِنْھَا عَنْ قِوْمٍ، ھُمْ عِنْدَ أَھْلِ الْحَدِیثِ مُتَّھَمُونَ، أَوْ عِنْدَ َالْـأَکْثَرِ مِنْھُمْ، فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِیجِ حَدِیثِھِمْ ۔
’’جن راویوں پر تمام محدثین کرام کے ہاں یا اکثر کے ہاں حدیث گھڑنے کا الزام ہو، ہم ان کی حدیث بیان کرنے میں مشغول نہیں ہوتے۔‘‘
(مقدمۃ صحیح مسلم)
اس روایت میں عبداللہ بن محمد قرشی راوی غیر معروف راوی ہے،نیز یحییٰ بن ابو کثیر ’’مدلس‘‘ہے،سماع کی تصریح نہیں کی۔پھر سعید ازدی یا سعید اودی بھی ’’مجہول‘‘ہے۔
اس کا ایک شاہد قاضی خلعی کی کتاب [الفوائد](41)میں مذکور ہے۔اس کی سند بھی موضوع(من گھڑت)ہے۔محدث البانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ ضَعِیفٌ جِدًّا، لَمْ أَعْرِفْ أَحَدًا مِّنْھُمْ غَیْرَ عُتْبَۃَ بْنِ السَّکَنِ، قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ (السنن : 184/2، 250/3) : مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ، وَقَالَ الْبَیْہَقِيُّ : وَاہٍ، مَنْسُوبٌ إِلَی الْوَضْعِ ۔ ’’یہ حدیث ضعیف ہے۔میں عتبہ بن سکن کے علاوہ اس کے راویوں میں سے کسی کو بھی نہیں پہچان پایااور عتبہ کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ ضعیف راوی ہے اور اس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السيء في الأمّۃ : 599)
عتبہ بن سکن سخت مجروح راوی ہے۔اس کے بارے میں امام ابن حبان فرماتے ہیں :
یُخْطِیُٔ وَیُخَالِفُ ۔ ’’یہ غلطیاں کرتا ہے اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘
(الثقات : 508/8)
حافظ ابن الجوزی کہتے ہیں : قَالَ الدَّارَقُطَنِيُّ : مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ ۔ ’’امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث اور متروک قرار دیا ہے۔‘‘
(الضعفاء والمتروکون : 2255)
حافظ بزار فرماتے ہیں : قَدْ رَوٰی عَنِ الْـأَوْزَاعِيِّ أَحَایثَ لَمْ یُتَابَعْ عَلَیْھَا۔
’’اس نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کی ہیں۔‘‘
(مسند البزار : 4166)
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : وَھُوَ مَتْرُوکٌ ۔ ’’یہ متروک راوی ہے۔‘‘
(مجمع الزوئد : 202/3، ح : 5230)
اس سند کے دیگر راویوں کی توثیق بھی نہیں ملی۔لہٰذا یہ سند بالکل باطل ہے۔
(ج) وَعَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیبٍ أَحَدِ التَّابِعِینَ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ إِذَا سُوِّيَ عَلَی الْمَیِّتِ قَبْرُہُ، وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْہُ، أَنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہٖ : یَا فُلَانُ ! قُلْ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، یَا فُلَانُ ! قُلْ : رَبِّيَ اللّٰہُ، وَدِینِيَ الْإِسْلَامُ، وَنَبِیِّي مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’ایک تابعی ضمرہ بن حبیب کہتے ہیںکہ جب میت پر قبر کو برابر کر دیا جاتااور لوگ واپس چلے جاتے تو وہ اس کی قبر کے پاس یہ کہنا مستحب سمجھتے تھے : اے فلاں ! تو لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُکہہ (تین مرتبہ )، اے فلاں! تو کہہ کہ میر ا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘
(سنن سعید بن منصور، نقلًا عن بلوغ المرام من جمع أدلّۃ الأحکام لابن حجر : 471)
تبصرہ : اس کی سند ’’ضعیف ‘‘ ہے ، اس میں ’’اشیاخ من اہل حمص ‘‘مجہول و نامعلوم ہیں ، لہٰذا یہ ناقابلِ حجت اور ناقابلِ عمل ہے ۔
(د) حکم بن حارث سلمی نے کہا:
إِذَا دَفَنْتُمُونِي وَرَشَشْتُمْ عَلٰی قَبْرِي، فَقُومُوا عَلٰی قَبْرِي، وَاسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ، وَادْعُوا لِي ۔ ’’جب تم مجھے دفن کر دو اور میری قبر پر پانی چھڑک دو تو میری قبر پر کھڑے ہو کر قبلے کی طرف رُخ کرو اور میرے لیے دُعا کرو۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 215/3، ح : 3171)
تبصرہ : اس کی سند’’ضعیف‘‘ہے۔حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
عَطِیَّۃُ الدُّعَائُ، وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔ ’’عطیہ دُعا کو میں نہیں پہچانتا۔‘‘
(مجمع الزوائد : 44/3)
دوسری بات یہ ہے کہ اس کا مروجہ تلقین سے کیا تعلق ہے؟قبر پرکھڑے ہو کر دعا کرنا تو جائز ہے۔حیرانی والی بات تو یہ ہے کہ حافظ ا بن حجر رحمہ اللہ نے اسے حدیث ابو امامہ کا شاہد بنایاہے۔
(ھ) امام سعید بن مسیب تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي جَنَازَۃٍ، فَلَمَّا وَضَعَھَا إِلَی اللَّحْدِ، قَالَ : بِسْمِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ۔ ’’میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا۔جب انہوں نے میت کو لحد میں رکھا گیا تو فرمایا : اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر۔‘‘(سنن ابن ماجہ : 1553، المعجم الکبیر للطبراني : 212/12، ح : 13094، السنن الکبرٰی للبیھقي : 55/4)
تبصرہ: یہ سخت ترین ’’ضعیف‘‘ روایت ہے، کیونکہ :
1 اس کا راوی حماد بن عبدالرحمن کلبی ’’ضعیف‘‘ہے۔(تقریب التھذیب : 1502)
حافظ بوصیری(م : 840ھ)کہتے ہیں:
ھٰذَا إِسْنَادٌ فِیہِ حَمَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، ھُوَ مُتَّفَقٌ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ ۔
’’اس سند میں حماد بن عبد الرحمن راوی موجود ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفق ہیں۔‘‘(مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ : 505/1)
2 ادریس بن صبیح اودی راوی ’’مجہول‘‘ ہے۔
امام ابو حاتم الرازی نے اسے ’’مجہول‘‘قرار دیا ہے۔
(الجرح و التعدیل لابن أبي حاتم : 264/2)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : یُغْرِبُ وَ یُخْطِيئُ عَلٰی قِلَّتِہٖ ۔
’’بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اس کی روایات میں نکارت اور غلطیاں موجود ہیں۔‘‘(الثقات : 78/6)
امام ابن عدی نے اسے ادریس بن یزید اودی قراردیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَقَوْلُ ابْنِ عَدِيٍّ أَصْوَبُ ۔
’’امام ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہی زیادہ صائب ہے۔‘‘
(تھذیب التھذیب : 171/1، وفي نسخۃ : 195/1)
یہ بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔
اس ضعیف روایت کا مروجہ بدعتی تلقین سے دور کا بھی تعلق نہیں۔معلوم ہوا شواہد کی رَٹ لگانے والوں کا دامن بالکل خالی ہے۔
فائدہ نمبر 1 : حلبی، علامہ سبکی سے نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں:
حَدِیثُ تَلْقِینِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِابْنِہٖ، لَیْسَ لَہٗ أَصْلٌ، أَيْ صَحِیِحٌ أَوْ حَسَنٌ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین کرنے والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں۔‘‘(السیرۃ الحلبیّۃ : 437/3)
فائدہ نمبر 2 : حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (751-691ھ) لکھتے ہیں:
فَھٰذَا الْحَدِیثُ، وَإِنْ لَّمْ یَثْبُتْ، فَاتِّصَالُ الْعَمَلِ بِہٖ فِي سَائِرِ الْـأَمْصَارِ وَالْـأَعْصَارِ مِنْ غَیْرِ إِنْکَارٍ، کَافٍّ فِي الْعَمَلِ بِہٖ ۔
’’یہ حدیث اگرچہ صحیح ثابت نہیں،لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے۔یہی بات اس پر عمل کے جائز ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘
(الروح، ص : 16)
کتاب الروح کے متعلق محدث العصر ،علامہ ،ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَاِنِّي فِي شَکٍّ کَبِیرٍ مِّنْ صِحَّۃِ نِسْبَۃِ [الرَّوْحِ] إِلَیْہِ، أَوْ لَعَلَّہٗ أَلَّفَہٗ فِي أَوَّلِ طَلَبِہٖ لِلْعِلْمِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔ ’’میں کتاب الروح کی علامہ ابن القیم کی طرف نسبت کے حوالے سے کافی شک و شبہ میں مبتلا ہوں۔(یا تو یہ ان کی تصنیف ہی نہیں)یا پھر انہوں نے اپنے طلب ِعلم کے اوائل میں اسے تالیف کیا تھا۔واللہ اعلم!‘‘
(تحقیق الآیات البیّنات في عدم سماع الأموت : 39)
ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت الحاقی ہو، یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو، کیونکہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ خود سیرت ِنبویq بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَلَمْ یَکُنْ یَّجْلِسُ یَقْرَأُ عِنْدَ الْقَبَرِ، وَلَا یُلَقِّنُ الْمَیِّتَ، کَمَا یَفْعَلُہُ النَّاسُ الْیَوْمَ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قراء ت کرنے نہیں بیٹھتے تھے،نہ ہی(قبر پر)میت کو تلقین کرتے تھے،جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔‘‘
(زاد المعاد في ھدي خیر العباد : 522/1)
اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی ہے۔لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کرام کا مذہب نہیں۔اگر کسی روایت کے حکم پر،یعنی اس سے ماخوذ مسئلہ پر اجماعِ امت ثابت ہوجائے، تب بھی وہ سند ’’ضعیف‘‘ہی رہے گی، البتہ وہ مسئلہ اجماعِ امت کی وجہ سے شرعی درجہ حاصل کر لے گا۔حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ پر اگر بعض لوگوں نے عمل کیا ہے تو ان کے عمل سے اسے کچھ تقویت نہیں ملے گی۔اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اہل علم نے اسے ’’ضعیف وغیر ثابت‘‘ قرار دیا ہے۔اور تلقین کو بدعت قرار دیاہے۔
قبرپر تلقین اور علمائے دین
1 علامہ عزبن عبدالسلام رحمہ اللہ (660-577ھ) فرماتے ہیں:
لَمْ یَصِحَّ فِي التَلْقِینِ شَيئٌ وَّھُوَ بِدْعَۃٌ، وَقَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ مَحْمُولٌ عَلٰی مَنْ دَنَا مَوْتُہٗ وَیَئِسَ مِنْ حَیَاتِہٖ ۔
’’مُردے کو تلقین کرنے کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔یہ بدعت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اپنے مرنے والوں کو لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کرو،اس شخص کے بارے میں ہے جس کی موت کا وقت قریب ہو اور اس کی زندگی کی امید نہ رہے۔‘‘
(فتاوی العزّ بن عبد السلام، ص : 427)
2 علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (620-541ھ)لکھتے ہیں:
فَأَمَّا التَّلْقِینُ بَعْدَ الدَّفْنِ، فَلَمْ أَجِدْ فِیہِ عَنْ أَحْمَدَ شَیْئًا، وَلَا أَعْلَمُ فِیہِ لِلْـأَئِمَّۃِ قَوْلًا، سِوٰی مَا رَوَاہُ الْـأَثْرَمُ، قَالَ : قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللّٰہِ : فَہٰذَا الَّذِي یَصْنَعُونَ إِذَا دُفِنَ الْمَیِّتُ، یَقِفُ الرَّجُلُ، وَیَقُولُ : یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانَۃَ ! اذْکُرْ مَا فَارَقْتَ عَلَیْہِ، شَہَادَۃَ أَنْ لَّا إلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ؟ فَقَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا فَعَلَ ہٰذَا إلَّا أَہْلَ الشَّامِ، حِینَ مَاتَ أَبُو الْمُغِیرَۃِ جَاء َ إِنْسَانٌ، فَقَالَ ذَاکَ، قَالَ : وَکَانَ أَبُو الْمُغِیرَۃِ یَرْوِی فِیہِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِي مَرْیَمَ، عَنْ أَشْیَاخِہِمْ، أَنَّہُمْ کَانُوا یَفْعَلُونَہٗ ۔
’’میت کو دفن کرنے کے بعد اسے تلقین کرنے کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مجھے کوئی بات معلوم نہیں ہو سکی۔اس بارے میں ائمہ دین میں سے کسی اور امام کا بھی کوئی قول مجھے نہیں ملا۔البتہ علامہ اثرم کا بیان ہے کہ میں نے ابو عبداللہ(امام احمد رحمہ اللہ ) سے پوچھا : یہ جو لوگ میت کو دفن کرنے کے بعد کرتے ہیں کہ ایک آدمی قبر پر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے : اے فلاں عورت کے فلاں بیٹے! جس عقیدۂ توحید پر تو نے دنیا کو چھوڑا تھا، اس کو یاد کر۔امام صاحب نے فرمایا : میں نے شام والوں کے علاوہ کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا۔جب ابومغیرہ فوت ہوئے تو ایک شخص آیا اور اس نے ایسا کیا۔ابومغیرہ اس بارے میں ابوبکر بن ابومریم سے ایک روایت بیان کرتے تھے، ابوبکر بن ابومریم اپنے(نامعلوم)شیوخ کا یہ عمل نقل کرتے تھے۔۔۔‘‘(المغني : 377/2)
3 شیخ مرداوی(م : 885ھ)کہتے ہیں: وَالنَّفْسُ تَمِیلُ إِلٰی عَدَمِہٖ ۔۔۔
’’میرا قلبی میلان تلقین کے جائز نہ ہونے کی طرف ہے۔‘‘
(الإنصاف في معرفۃ الراجح من الخلاف : 549/2)
4 علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں:
وَلَمْ یَکُنْ یَّجْلِسُ یَقْرَأُ عَنْدَ الْقَبْرِ، وَلَا یُلَقِّنُ الْمَیِّتَ، کَمَا یَفْعَلُہُ النَّاسُ الْیَوْمَ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قراء ت کرنے نہیں بیٹھتے تھے،نہ ہی(قبر پر)میت کو تلقین کرتے تھے،جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔‘‘
(زاد المعاد في ھدي خیر العباد : 522/1)
5 حافظ سیوطی(911-869ھ)لکھتے ہیں:
ذَھَبَ جُمْھُورُ الْـأَئِمَّۃِ إِلٰی أَنَّ التَّلْقِینَ بِدْعَۃٌ ۔
’’جمہور ائمہ کرام کا مذہب یہ ہے کہ (قبر پر)تلقین بدعت ہے۔‘‘(الحاوي للفتاوی : 191/2)
6 حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے:
وَأَمَّا التَّلْقِینُ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَلَا یُلَقَّنُ عِنْدَنَا فِي ظَاھِرِ الرِّوَایَۃِ، کَذَا فِي الْعَیْنِيِّ شَرْحِ الْھِدَایَۃِ، وَمِعْرَاجِ الدِّرَایَۃِ ۔
’’ظاہر روایت کے مطابق ہمارے (احناف کے)نزدیک موت کے بعد تلقین نہیں کرنی چاہیے۔علامہ عینی کی شرحِ ہدایہ اور معراج الدرایہ میں یہی لکھا ہے۔‘‘
(الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاوٰی عالمگیری : 157/1)
7 شیخ زادہ حنفی(م : 1078ھ) لکھتے ہیں:
وَقَالَ أَکْثَرُ الْـأَئِمَّۃِ وَالْمَشَایِخِ : لَا یَجُوزُ ۔
’’اکثر ائمہ اور مشایخ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں۔‘‘
(مجمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر : 179/1، وفي نسخۃ : 264/1)
8 علامہ صنعانی رحمہ اللہ (1182-1099ھ)فرماتے ہیں:
وَیَتَحَصَّلُ مِنْ کَلَامِ أَئِمَّۃِ التَّحْقِیقِ أَنَّہٗ حَدِیثٌ ضَعِیفٌ، وَالْعَمَلُ بِہٖ بِدْعَۃٌ، وَلَا یُغْتَرُّ بِکَثْرَۃِ مَنْ یَّفْعَلُہٗ ۔ ’’محققین ائمہ کے کلام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت ہے۔بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے عمل سے دھوکا نہیں کھا کر اسے جائز نہیں سمجھنا چاہیے۔‘‘(سبل السلام : 161/2)
9 محمد بن عبداللہ تمرتاشی حنفی لکھتے ہیں :
وَلَا یُلَقَّنُ بَعْدَ تَلْحِیدِہٖ ۔ ’’میت کی تدفین کے بعد تلقین نہ کی جائے۔‘‘
(تنویر الأبصار، ص : 619)
0 علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م : 1329ھ) فرماتے ہیں:
وَالتَّلْقِینُ بَعْدَ الدَّفْنِ، قَدْ جَزَمَ کَثِیرٌ أَنَّہٗ حَادِثٌ ۔
’’بہت سے اہل علم نے تصریح کی ہے کہ دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت ہے۔‘‘
(عون المعبود في شرح أبي داود : 269/8)
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (یہ پورے دس حوالے ہیں)
لطیفہ : علامہ ابن عابدین شامی حنفی(م : 1252ھ) لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا لَا یُنْھٰی عَنِ التَّلْقِینِ بَعْدَ الدَّفْنِ، لِأَنَّہٗ لَا ضَرَرَ فِیہِ، بَلْ فِیہِ نَفَعٌ ۔
’’دفن کے بعد تلقین سے منع اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس میں کوئی نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہے۔‘‘(رد المختار : 797/1)
قارئین کرام ! آپ نے اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرما لیے ہیں۔غور کیجیے کہ شامی حنفی صاحب ایک بدعت کے بارے میں یہ فرما رہے ہیں کہ اس سے منع نہیں کیا گیا۔بھلا جو عمل شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو اورعلمائے دین اسے بدعت قرار دیتے ہوں،اس کو جائز قرار دینے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس سے منع نہیں کیا گیا؟کیا نماز جنازہ کی ایک سے زائد رکعات سے منع کیا گیا ہے؟ پھر اس پر بھی کیا دلیل ہے کہ بدعی تلقین میت کو نفع دیتی ہے؟
دفن کے بعد میت کے حق میں ثابت قدمی کی دعا کرنا سنت ہے ۔اس کے بر خلاف بعض لوگوں نے تلقین گھڑ لی ہے۔
مفتی ٔدارالعلوم دیوبند،جناب عزیزالرحمن صاحب(م : 1347ھ) سے سوال ہوا کہ:
’’بعددفن کے تلقین کرناجائز ہے یا نہ؟ اگر جائز ہے تو کس طرح؟‘‘
جواب : ’’تلقین بعد الدفن کو فقہاء نے جائز رکھاہے۔‘‘
(فتاویٔ دارالعلوم دیوبند : 392/5)
یہ کون سے فقہاء ہیں؟ اور ان فقہاء کو کس نے اختیار دیاہے کہ جو عمل بغیر دلیل کے ہو اور ائمہ دین اسے بدعت کہتے ہوں، وہ اسے جواز کا درجہ دے دیں؟
جناب سرفراز خان صفدر حیاتی دیوبندی صاحب بھی اس بدعت کے دفاع میں لکھتے ہیں :
’’البتہ دفن کے بعد تلقین کرنا عند القبر(قبر کے پاس)ہے۔مگر وہ تو وَالدُّعَائُ عِنْدَھَا قَائِمًا(قبر کے پاس کھڑے ہو کر دُعا کرنے)کی مد میںہے،جو سنت سے ثابت ہے۔‘‘
(راہِ سنت، ص : 228)
یاد رہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرنے والے بدعی عمل میں دیوبندی اور بریلوی دونوں متفق ہیں۔دیوبندی حضرات نے قبر پر تلقین کو دعا پر قیاس کیاہے۔اور بریلویوں نے قبر پر اذان کو اس تلقین پر قیاس کرلیا۔حالانکہ عرفاً و شرعاً نہ تلقین دعا ہے اور نہ اذان تلقین ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں نہ قبر پر اذان ثابت ہے ،نہ ہی دفن کے بعد قبر پر تلقین ثابت ہے۔لہٰذا ایک بے اصل چیز کو دوسری بے اصل چیز پر قیاس کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
الحاصل : اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ مُردے سن نہیں سکتے۔البتہ دیگر کئی کلّی قواعد و قوانین کی طرح اس قاعدے میں بھی کچھ استثناء ات موجود ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہوتی ہیں،مثلاً مُردے دفن کے بعد واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتے ہیں،نیز بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا تھا۔
کچھ لوگوں کو انہی استثناء ات نے اس شبہے میں مبتلا کر دیا ہے کہ مُردے سنتے ہیں، حالانکہ دلائلِ شرعیہ کی وجہ سے صرف یہی استثناء ات اس کُلّی قاعدے سے خارج ہوں گی،عدمِ سماعِ موتیٰ والا پورا قانونِ شریعت تبدیل نہیں ہو گا۔جو لوگ ان استثناء ات کی بنا پر اس کُلّی قاعدے کا انکار کر جاتے ہیں،ان سے گزارش ہے کہ اگر ان کے طرز عمل کو اپنا کر کوئی شخص دیگر کُلّی قواعد کا انکار کر دے،مثلاً آدم علیہ السلام کی بن ماں اور بن باپ پیدائش اور عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کے پیدائش والی آیات کو لے کر انسانوں کے ماں اور باپ دونوں سے پیدا ہونے کے کُلّی قانون کا انکار کر دے یا مُردہ حالت میں مچھلی کی حلت والی نصِ شرعی کو لے کر مُردار کی حرمت والے کُلّی قاعدے کا انکار کر بیٹھے یا مَردوں کے لیے چند انگلیوں کے برابر ریشم کی حلت والی حدیث کو بنیاد بنا پر مَردوں کے لیے ریشم کی حرمت والے کُلّی قاعدے کا انکار کر دے۔۔۔تو کیا یہ طرز عمل درست ہو گا؟
قرآن و سنت اور فہم سلف کی روشنی میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مُردے نہیں سنتے،البتہ وہ حالات و واقعات اس سے خارج ہیں،جن کی شریعت نے خود وضاحت کر دی ہے۔یا مُردے سنتے ہیں،لیکن خاص ان حالات و واقعات میں جن کی نصوصِ شرعیہ میں تعیین و تخصیص ہو چکی ہے۔جو شخص کسی حال میں کسی مُردے کے کسی بات کو سننے کا دعویٰ کرے،اس کے پاس اس بارے میں ضرور کوئی خاص نصِ شرعی ہونی چاہیے،ورنہ اس کا دعویٰ باطل اور مردود ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت ِاسلامیہ سے کھلواڑ اور مذاق متصور ہو گا۔اگر کوئی شخص اپنے دعوے پر کوئی خاص نصِ شرعی پیش کر دے تو کسی مسلمان کو اس خاص صورت میں مُردے یا مُردوں کے سننے کا انکار کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی،البتہ اس خاص صورت کے علاوہ عام حالات میں مُردوں کا نہ سن سکنا،پھر بھی اپنی جگہ پر مسلمہ قانونِ شریعت رہے گا۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.