972

معرکہ حق و باطل، شمارہ 36 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


عقیدہ نمبر ! : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أنا أوّلہم خروجا ، وأنا قائدہم إذا وفدوا ، وأنا خطیبہم إذا أنصتوا ، وأنا مشفعہم إذا حبسوا ، وأنا مبشّرہم إذا أیسوا ، الکرامۃ والمفاتیح یومئذ بیدی ۔ ”میں سب سے پہلے قبر سے باہر آؤں گا۔ میں لوگوں کا پیشوا ہوں گا جب وہ حاضر بارگاہ ہوں گے۔ میں ان کا خطیب ہوں گا جب وہ دم بخود ہوں گے۔ میں ان کا شفیع ہوں گا جب وہ محبوس ہوں گے۔ میں خوشخبری دینے والا ہوں گا جب وہ ناامید ہوں گے۔عزت اور کنجیاں اس دن میرے ہاتھ میں ہوں گی۔۔۔”
(مسند الدارمی : ١/٢٦، ٢٧، سنن الترمذی : ٣٦١٠، وقال : حسن غریب، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٥/٤٨٤)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ اس میں لیث بن ابی سلیم راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”مختلط” ہے۔
اس ”ضعیف” روایت کو بنیاد بنا کر ”اعلیٰ حضرت” احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں :
”والحمد للہ رب العالمین! شکر اس کریم کا جس نے عزت ِ دنیا ، اس دن کے کاموں کا اختیار پیارے رؤوف و رحیم کے ہاتھ میں رکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔”(الامن والعلٰی از احمد رضا : ص ٧٩)
کیسی دلیل ہے اور کیسا عقیدہ ہے! جو لوگ صحیح حدیث سے ثابت توحید اسماء و صفات کو تسلیم نہیں کرتے ، وہ ”ضعیف” روایات سے عقیدہ بنا کر اس کا پرچار کرتے ہیں۔
عقیدہ نمبر @ : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سے خازنِ جنت نے بعد ولادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پروں کے اندر لے کر گوشِ اقدس میں عرض کی : معک مفاتیح النصر ، قد ألبّ الخوف والرعب ، لا یسمع أحد بذکرک إلّا وجل فؤادہ وخاف قبلہ ، وإن لم یرک یا خلیفۃ اللّٰہ ! ”آپ کے ساتھ نصرت کی کنجیاں ہیں۔ رعب و دبدبہ آپ کو پہنچایا گیا ہے۔ جو آپ کا چرچا سنے گا اس کا دل ڈر جائے گا اور جگر کانپ اٹھے گا اگرچہ آپ کو نہ دیکھا ہو اے اللہ کے نائب!”(الامن والعلٰی از احمد رضا خان : ص ٧٨)
تبصرہ : یہ بے سند و بے ثبوت روایت ہے۔ بسیار کوشش کے باوجود اس کی سند نہیں مل سکی، اسی لیے یہ بریلوی حضرات کے ماتھے کا جھومر بن گئی ہے۔اس بے سروپا روایت پر ”اعلیٰ حضرت” نے ”حضور اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں” کا باب قائم کرتے ہوئے اس سے اپنا عقیدہ یوں ثابت کیا ہے : ”ایمان کی آنکھ میں نور ہو تو ایک اللہ کا نائب ہی کہنے میں سب کچھ سمجھ آ گیا۔ اللہ کا نائب ایسا ہی تو چاہیے کہ جس کا نام محمد ہے۔ وہ کسی چیز کا مختار نہیں۔ ایک دنیا کے کہنے کا نائب کہیں کا صوبہ اس کی طرف سے وہاں کے سیاہ و سپید کا مختار ہوتا ہے۔ مگر اللہ کے نائب کسی پتھر کا نائب ہے۔ وما قدروا اللّٰہ حقّ قدرہ بے دولتوں نے اللہ ہی کی قدر نہ جانی۔لا واللّٰہ ! اللہ کا نائب اللہ کی طرف سے اللہ کے ملک میں تصرّف ِ تام کا اختیار رکھتاہے، جب تو اللہ کا نائب کہلایا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔”
(الامن والعلٰی از احمد رضا خان بریلوی : ص ٧٨)
معلوم نہیں کہ ان لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کہنے میں کیا عار ہے؟ سارے خدائی اختیار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی میں مانتے ہیں۔ خالق اور مخلوق میں فرق نہیں کرتے۔ ”اعلیٰ حضرت” صاحب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی کے بارے میں اتنا مبالغہ آمیز کلام کر دیا ہے ، لیکن کس دلیل کی بنیاد پر؟ کیا اہل حق کے دلائل سند سے عاری ہوتے ہیں۔
عقیدہ نمبر # : ایک اونٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنے مالک کی شکایت کرتا ہے۔۔۔۔
تبصرہ : یہ روایت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٠۔٧٧٤ھ) نے البدایۃ والنہایۃ (٦/١٥٨) میں ذکر کی ہے۔ اس کی سند یوں ہے :
قال أبو محمّد عبد اللّٰہ بن حامد الفقیہ فی کتابہ دلائل النبوّۃ : أبو علی الفارسی ، حدّثنا أبو سعید عن عبد العزیز بن شہلان الفواس ، حدّثنا أبو عمرو عثمان بن محمّد بن خالد الراسبی : حدّثنا عبد الرحمٰن بن علی البصری : حدّثنا سلامۃ بن سعید بن زیاد بن أبی ہند الداری : حدّثنا أبی عن أبیہ عن جدّہ: حدّثنا تیم بن أوس الداری ، قال : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جھوٹ کا پلندا ہے۔ اس سند کے تقریبا سارے راوی ”مجہول” ہیں۔ سلامہ بن سعید کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ اسی طرح سعید بن زیاد کی ایک روایت ذکر کرنے کے بعد امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أدری البلیّۃ ممّن ہی ؟ منہ أو من أبیہ أو جدّہ ۔۔۔ ”مجھے معلوم نہیں کہ یہ جھوٹ کس کی طرف سے ہے ؟ اس سعید بن زیاد کی طرف سے یا اس کے باپ یا دادے کی طرف سے۔۔۔”(المجروحین لابن حبان : ١/٣٢٧)
سلامہ بن سعید سے نیچے کے تمام راویوں کے بھی حالات ِ زندگی اور توثیق نہیں مل سکی۔ ”اعلیٰ حضرت” تو فوت ہو گئے ہیں۔ اب ان کے سارے حواری سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہمارے سامنے اس روایت کے راویوں کا تعارف و توثیق پیش کر دیں۔
تنبیہ : یہ روایت حافظ منذری رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ کے حوالے سے ذکر کی ہے لیکن یہ وہم ہے۔ سنن ابن ماجہ میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔
جس روایت کے سارے راوی ”مجہول” ہیں ، اس کو عقائد کے ثبوت میں بطور ِ دلیل پیش کرتے ہوئے ”اعلیٰ حضرت” بریلوی صاحب لکھتے ہیں ـ:
”یہ حدیث نفیس کہ ایک اعلیٰ اعلامِ نبوت و معجزات جلیلہ حضرت رسالت علیہ وعلی آلہ افضل الصلاۃ والتحیۃ سے تھی۔ بتمامہ ذکر کرنی مناسب سمجھی۔ یہاں موضع استناد وہ پیاری پیاری استناد وہ پیاری پیاری اسناد ہے کہ جو ہماری پناہ لے ،اللہ عزوجل اسے مان لیتا ہے اور جو ہم سے التجا کرے ، نامراد نہیں رہتا۔ الحمد للہ رب العالمین اور خدا جانے دافع البلاء کس شَے کا نام ہے؟”(الامن والعلٰی از احمد رضا خان بریلوی : ص ٩٧)
عقیدہ نمبر $ : سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من استعملناہ علی عمل ، فرزقناہ رزقا ، فما أخذ بعد ذلک فہو غلول ۔ ”جس شخص کو ہم کسی کام پر عامل مقرر کریں، پھر اس کو رزق (معاوضہ) دے دیں، اس کے بعد وہ جو کچھ لے گا ، وہ خیانت ہو گی۔”(سنن ابی داو،د : ٢٩٤٣، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٤٠٦، ح : ١٤٧٣، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٦٩)نے ”صحیح” اور امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح” قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس حدیث میں معاوضے اور مزدوری کو رزق کہا گیا ہے۔ ، اس بات کو ”اعلیٰ حضرت” نے اپنی دلیل بناتے ہوئے یہ باب قائم کیا کہ : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رزق دیا۔”
(الامن والعلٰی از احمد رضا خان بریلوی : ص ١١٨)
جناب کے فہم اور استنباط کو دیکھیں کہ کیسی اچھوتی دلیل نکالی ہے۔ اسی لفظ رزق کو عربی لغت سے ملاحظہ فرمائیں اور ”اعلیٰ حضرت” کی ”فہم و فراست” کو داد دیں !
ویقال : رزق الطائر فرخہ رزقا ، کسب لہ ما یغذوہ ، وکلّ من أجریت علیہ جرایتہ فقد رزقتہ ، یقال : رزق الأمیر جندہ ۔۔۔۔۔
”کہا جاتا ہے کہ پرندے نے اپنے چوزے کو رزق دیا یعنی اس کے لیے اس کی غذا اکٹھی کر کے لایا۔ جس شخص کو بھی آپ اس کے حصے کی مزدوری دیں اس کو آپ نے گویا رزق دیا، مقولہ ہے کہ امیر نے اپنے لشکر کو رزق(اس کے حصے کا کھانا وغیرہ) دیا ۔۔۔”
(المعجم الوسیط : ١/٣٤٢)
اب کیا ”اعلیٰ حضرت”کے ہم نوا پرندوں اور سپہ سالاروں کے بارے میں بھی یہ سرخی قائم کریں گے : ”پرندوں نے رزق دیا۔” ، ”امیروں نے رزق دیا۔”؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.