994

عالم الغیب کون؟ شمارہ 37 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

مطلق طور پر علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہ عقیدہ قرآن ، حدیث ، اجماعِ امت اور ائمہ سلف کی تصریحات سے ثابت ہے۔ اس کے باوجود سلف صالحین کی مخالفت میں بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ما کان وما یکون (جو کچھ ہو گیا اور جو کچھ ہونے والا ہے) کا علم ہے۔ وہ قرآن و حدیث کی واضح نصوص کی تاویلیں کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وأمّا أہل البدع فہم أہل أہواء وشبہات یتّبعون أہواء ہم فیما یحبّونہ ویبغضونہ ویحکمون بالظنّ والشبہ ، فہم یتّبعون الظنّ وما تہوی الأنفس ، ولقد جاء ہم من ربّہم الہدی ، فکلّ فریق منہم قد أصّل لنفسہ أصل دین وضعہ ، إمّا برأیہ وقیاسہ الذی یسمّیہ عقلیّات ، وإمّا بذوقہ وہواہ الذی یسمّیہ ذوقیّات ، وإمّا بما یتأوّلہ من القرآن ویحرّف فیہ الکلم عن مواضعہ ویقول : إنّہ إنّما یتّبع القرآن کالخوارج ، وإمّا بما یدّعیہ من الحدیث والسنّۃ ، ویکون کذبا وضعیفا کما یدّعیہ الروافض من النصّ والآیات ، وکثیر ممّن یکون قد وضع دینہ برأیہ أو ذوقہ یحتجّ من القرآن بما یتأوّلہ علی غیر تأوّلہ ، ویجعل ذلک حجّۃ لا عمدۃ ، وعمدتہ فی الباطن علی رأیہ کالجہمیّۃ والمعتزلۃ فی الصفات والأفعال بخلاف مسائل الوعد والوعید ، فإنّہم قد یقصدون متابعۃ النصّ ، فالبدع نوعان نوع کان قصد أہلہا متابعۃ النصّ والرسول ، لکن غلطوا فی فہم المنصوص وکذّبوا بما یخلف ظنّہم من الحدیث ومعانی الآیات کالخوارج ، وکذلک الشیعۃ المسلمین بخلاف من کان منافقا زندیقا یظہر التشیّع وہو فی الباطن لا یعتقد الاسلام ، وکذلک المرجئۃ ۔۔۔
”اہل بدعت نفس پرست اور شبہات کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں۔وہ پسند اور ناپسند میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور ظن اور شبہات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ ظن اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ اہل بدعت کے ہر گروہ نے اپنے لیے اس دین کو دلیل بنایا ہوا ہے جسے اس نے خود گھڑا ہے۔ بعض نے اپنی رائے اور قیاس کو دین بنایا ہے اور اسے عقلیات کا نام دیتا ہے ، بعض نے اپنے ذوق اور خواہش کو دین بنایا ہے اور اسے ذوقیات کا نام دیتا ہے، بعض نے قرآنِ کریم کی تفسیر میں تحریف ِمعنوی سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی پیروی خوارج کی طرح کرتے ہیں اور بعض نے حدیث اور سنت کی پیروی کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کے دلائل وہ روایات ہیں جو جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہیں جیسا کہ رافضی لوگ نص اور آیات کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں۔اکثر اہل بدعت نے اپنی رائے اور ذوق کے مطابق اپنا دین بنایا ہوا ہے اور وہ قرآنِ کریم کی غلط تفسیر کر کے اپنے دلائل تراشتے ہیں۔یہ لوگ قرآنِ کریم کو اپنی دلیل بناتے ہیں ، لیکن اس پر اعتماد نہیں کرتے ، ان کا اعتماد درحقیقت اپنی رائے پر ہوتا ہے جیسا کہ جہمیہ اور معتزلہ لوگوں کا صفات و افعالِ باری تعالیٰ کے بارے میں حال ہے۔ وعد و عید کے مسائل میں ان کی صورت ِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے، کیونکہ بسااوقات یہ لوگ نصوص کی پیروی کا ارادہ کرتے ہیں۔چنانچہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے کہ اس کے مرتکب لوگوں کی نیت قرآن و سنت کی پیروی ہوتی ہے لیکن وہ نصوص کو سمجھنے میں غلطی کھا جاتے ہیں اور اپنی عقل کے خلاف آنے والی احادیث اور تفسیر کو جھٹلا دیتے ہیں جیسا کہ خوارج اور مسلمان شیعہ لوگوں کا حال ہے۔ جو لوگ منافق اور زندیق ہیں اور ظاہر میں شیعہ کہلاتے ہیں جبکہ باطن میں وہ اسلام کو مانتے ہی نہیں ، ان کا معاملہ اس کے برعکس ہے (یعنی ایسے بدعتی قرآن و سنت کی پیروی کا ارادہ ہی نہیں رکھتے)۔۔۔”(النبوات لابن تیمیۃ، ص : ٩٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرماتے ہیں :
ولہذا قال تعالی : ( فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ )، أی ضلال وخروج عن الحقّ إلی الباطل ( فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ) ، أی إنّما یأخذون منہ بالمتشابہ الذی یمکنہم أن یحرّفوہ إلی مقاصدہم الفاسدۃ ، وینزلوہ علیہا ، لاحتمال لفظہ لما یصرفونہ ، فأمّا المحکم فلا نصیب لہم فیہ ، لأنّہ دامغ لہم وحجّۃ علیہم ، ولہذا قال : ( ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ ) ، أی الإضلال لأتّباعہم ، إیہامًا لہم أنّہم یحتجّون علی بدعتہم بالقرآن ، وہذا حجّۃ علیہم لا لہم ، کما لو احتجّ النصاری بأنّ القرآن قد نطق بأنّ عیسی ہو روح اللّٰہ وکلمتہ ألقاہا إلی مریم ، وترکوا الاحتجاج بقولہ تعالی : ( إِنْ ہُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَیْہِ ) (الزخرف : ٥٩) وبقولہ 🙁 إِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہ، مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ، کُنْ فَیَکُونُ) (آل عمران : ٥٩) ، وغیر ذلک من الآیات المحکمۃ المصرّحۃ بأنّہ خلق من مخلوقات اللّٰہ وعبد ورسول من رسل اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔
”اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گمراہ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والے لوگ قرآنِ کریم کے ان متشابہ مقامات سے دلیل لیتے ہیں جن میں اپنے فاسد مقاصد کے لیے تحریف کرنا ان کے لیے ممکن ہوتا ہے اوراس کے لفظوں میں ان کے مقاصد کا احتمال ہوتا ہے۔ محکم آیات میں ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محکم آیات ان کا سخت ردّ کرتی ہیں اور ان کے خلاف دلیل بنتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پیرو کاروں کو گمراہ کرنے کے لیے اور ان کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اپنی بدعت پر قرآنی دلائل رکھتے ہیں ، متشابہ آیات سے دلیل لیتے ہیں۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے نصاریٰ یہ دلیل دینے لگیں کہ قرآنِ کریم نے عیسیٰuکو روح اللہ اور کلمۃ اللہ کہا ہے لیکن وہ اس آیت کو چھوڑ دیں جس میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰuتو محض اللہ کے ایک بندے ہیں جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰuکی مثال اللہ کے ہاں آدمuجیسی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر ان سے کہا : ہو جا ، تو وہ ہو گئے۔۔۔ اس طرح اور بھی بہت سی محکم اور صریح آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰuاللہ تعالیٰ کی مخلوق ، اس کے بندے اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔۔۔”(تفسیر ابن کثیر : ٢/٧)
”قرآنی دلائل” کا جائزہ :
بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کو قرآنی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ کیا ان کی پیش کردہ قرآنی آیات سے ان کا مدعا ثابت ہوتا ہے :
پہلی دلیل : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ)
(الجن : ٢٦، ٢٧)
” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔”
اس آیت ِ کریمہ کا صحیح مطلب کیا ہے اور کیا اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ؟ ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے ، بلکہ اس بارے میں ائمہ دین اور سلف صالحین کی تصریحات پیش کرنے پر اکتفا کریں گے۔ البتہ قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اتنی زحمت ضرور کریں کہ مذکورہ آیت ِ کریمہ کے متصل پہلے والی آیت پڑھ لیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ یَجْعَلُ لَہ، رَبِّی أَمَدًا) (الجن : ٢٥) ”کہہ دیجےے: میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لےے میرے رب نے کوئی لمبی مدت رکھی ہے۔”
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنے اور اس پر دلائل تراشنے والوں کو یہ آیت ِ کریمہ کیوں نظر نہ آئی۔ کیا اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی صاف نفی نہیں ہو رہی؟ نیز ان لوگوں کو یہ آیت ِ کریمہ کیوں نظر نہ آئی:
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : (تِلْکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود : ٤٩) ”(اے نبی!) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انھیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انھیں جانتے تھے اورنہ آپ کی قوم۔”
ان کی نظر اس آیت ِ کریمہ پر کیوں نہ پڑ گئی :
(وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ) (الأعراف : ١٨٨)
” کہہ دیجےے: میں اپنی جان کے لےے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو ڈرانے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں۔”
یہ آیت انہوں نے کیوں قابل التفات نہیں سمجھی کہ :
(فَقُلْ إِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰہِ) (یونس : ٢)
”(اے نبی!) کہہ دیجیے کہ غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے۔”
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان کی نظر سے کیوں نہیں گزرا کہ :
(قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ) (النمل : ٦٧)
”کہہ دیجیے: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب (کی بات) نہیں جانتا۔”
کیا یہ سب آیات واضح طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی نفی نہیں کر رہیں؟ ان سے نظر کیوں چرائی جاتی ہے؟ آئیے اب ان لوگوں کی پیش کی گئی قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں کہ اس کا صحیح مطلب کیا ہے:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وقولہ : (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَسُولٍ) ہذہ کقولہ تعالی : (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْء ٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَاءَ )(البقرۃ : ٢٥٥) وہکذا قال ہاہنا : إنّہ یعلم الغیب والشہادۃ ، وإنّہ لا یطّلع أحد من خلقہ علی شیء من علمہ إلّا ممّا أطلعہ تعالی علیہ ، ولہذا قال : (فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ) ، وہذا یعمّ الرسول الملکیّ والبشریّ ۔
”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ) (الجن : ٢٦، ٢٧)[(وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔]اس آیت کی طرح ہے : (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْء ٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ)(البقرۃ : ٢٥٥)( اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔)اسی طرح یہاں فرمان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے۔اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے علم میں سے کسی بھی چیز پر اطلاع نہیں پاسکتا، سوائے اس چیز کے جس پر اللہ تعالیٰ خود کسی کو مطلع کر دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ : (فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ)(وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔)اور یہ بات فرشتے رسول اور بشر رسول دونوں کو شامل ہے۔”(تفسیر ابن کثیر : ٤/٣٢٦)
نیز فرماتے ہیں : أمرہ اللّٰہ تعالی أن یفوّض الأمور إلیہ ، وأن یخبر عن نفسہ أنّہ لا یعلم الغیب المستقبل ، ولا اطّلاع لہ علی شیء من ذلک إلّا بما أطلعہ اللّٰہ علیہ ، کما قال تعالی : (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا) ۔
”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے ، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے ، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا)[(وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا]۔”(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٩)
مزید فرماتے ہیں : ثمّ قال : (وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ) أی أنتم لا تعلمون غیبَ اللّٰہ فی خلقہ حتّی یُمیّز لکم المؤمن من المنافق ، لولا ما یعقدہ من الأسباب الکاشفۃ عن ذلک ، ثمّ قال :(وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِی مِنْ رُّسُلِہِ مَنْ یَّشَائُ) کقولہ : (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا۔۔۔۔۔) ۔
”پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :(وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ) (اور اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیںکرنے والا) یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں موجود اس کا غیب نہیں جان سکتے کہ تمہیں مؤمن اور منافق کی تمیز ہو جائے۔ ہاں اگر وہ اسباب موجود ہوں جو اس غیب سے پردہ اٹھا سکتے ہیں، پھر فرمایا : (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِی مِنْ رُّسُلِہِ مَنْ یَّشَائُ) [لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے ، (اس غیب سے پردہ اٹھانے کے لیے)اس کا انتخاب کر لیتا ہے]۔ یہ فرمان اس آیت کی طرح ہی ہے کہ : (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا۔۔۔۔۔)[(وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا]۔”(تفسیر ابن کثیر : ٢/١٥٥، تحت آل عمران : ١٧٩)
یعنی اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اپنے رسول کو غیب کی بات پر مطلع کر دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے یہ وضاحت کی ہے کہ پہلی قوموں کے حالات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ہی بتائے گئے تھے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(تِلْکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود : ٤٩) ”(اے نبی!) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انھیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انھیں جانتے تھے اورنہ آپ کی قوم۔”
مستقبل کی خبربھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
(لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ آمِنِینَ مُحَلِّقِینَ رُءُ وسَکُمْ وَمُقَصِّرِینَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیبًا) (الفتح : ٢٧)
”البتہ تحقیق اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگراللہ نے چاہا تو تم اپنے سر منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے، تم(کسی سے) نہ ڈرتے ہوگے، چنانچہ اللہ وہ بات جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے، لہٰذا اس نے اس سے پہلے ایک فتح جلد ہی عطاکردی۔”
دراصل اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا اور انبیائے کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
نیز فرمایا : (الۤم ٭ غُلِبَتِ الرُّومُ ٭ فِی أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ ٭ فِی بِضْعِ سِنِینَ) (الروم : ١۔ ٤)
”الۤمّۤ ۔ رومی مغلوب ہوگئے قریب ترین سرزمین (شام و فلسطین) میں، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوں گے ، چند برسوں میں۔”
ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماضی اور مستقبل کی کوئی خبر بذریعہ وحی دے دیتا تھا۔
اس کی تائید کے لیے ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن لبید عن رجال من بنی عبد الئاشہل قالوا : فقال زید بن اللّصیت وہو فی رحل عمارۃ ، وعمارۃ عند رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : ألیس محمّد یزعم أنّہ نبیّ ویخبرکم عن خبر السّماء ، وہو لا یدری أین ناقتہ ؟ فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وعمارۃ عندہ أنّ رجلا قال : ہذا محمّد یخبرکم أنّہ نبیّ ویزعم أنّہ یخبرکم بأمر السّماء وہو لا یدری أین ناقتہ ؟ وانّی واللّٰہ ما أعلم ما علمنی اللّٰہ وقد دلّنی اللّٰہ علیہا ، وہی فی الوادی فی الشّعب کذا وکذا ، قد حبسہا شجرۃ بزمامہا ، فانطلقوا حتی تأتونی بھا ، فذہبوا ، فجاؤا بھا ۔ ”محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں: زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔اس نے کہا : محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں ، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے ، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آگئے۔”(المغازی لابن اسحاق کما فی السیرۃ لابن ہشام : ٢/٥٢٣، وسندہ، حسنٌ، وابن إسحاق وثّقہ الجمہور)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم غیب نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما کان وما یکون کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کسی معاملے کی خبر آپ کو دے دیتا تھا۔
شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : فأعلم النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا یعلم الغیب إلّا ما علّمہ اللّٰہ ، وہو مطابق لقولہ تعالی : (فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ) ۔۔۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے ، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں)۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے : (فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ) [(وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے]۔”(فتح الباری لابن حجر : ١٣/٣٦٤)
علامہ احمد قسطلانی (٨٥١۔٩٢٣ھ)کہتےہیں : عالم الغیب فلا یطلع علی غیبہ أحدا من خلقہ إلّا من ارتضی من رسول لاطّلاعہ علی بعض الغیب ، یکون إخبارہ عن الغیب معجزۃ لہ ۔ ”اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا ، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔”(إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری : ١٠/٣٦٣)
مفسرین کرام اور ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں اس آیت ِ کریمہ کی مزید وضاحت اگلی قسط میں کی جائے گی۔ إن شاء اللّٰہ!
جاری ہے ۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.