549

ایک تقلیدی فتوی ۔۔۔ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
من أدرک من الصّبح رکعۃ قبل أن تطلع الشّمس ، فقد أدرک الصّبح ، ومن أدرک من العصر رکعۃ قبل أن تغرب الشّمس ، فقد أدرک العصر ۔
”جس نے طلوعِ آفتا ب سے پہلے نماز ِ صبح کی ایک رکعت پالی ، اس نے نماز ِ صبح پالی اورجس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھ لی ، اسے نے عصرکی نماز پالی ۔”
(صحیح بخاری : ١/٨٢، ح : ٥٧٩، صحیح مسلم : ١/٢٢١، ح : ٦٠٧)
یہ روایت صحیح مسلم(٦٠٩) میں سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے بھی مروی ہے ۔
یہ حدیث ِ مبارک اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ جس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی، باقی رکعات ادا کر لے تو اس کی نما زِ عصر صحیح ہے ، اگر طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالی ، دوسری رکعت ادا کرنے پر نماز ِ فجر ادا ہو جائے گی ۔
اس حدیث کے تحت حافظ نووی  رحمہ اللہ  (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں :      ھذا دلیل صریح فی أنّ من صلّی رکعۃ من الصّبح أو العصر ، ثمّ خرج الوقت قبل سلامہ ، لا تبطل صلاتہ ، بل یتمّھا ، وھی صحیحۃ ، وھذا مجمع علیہ فی العصر ، وأمّا فی الصّبح ، فقال بہ مالک والشّافعیّ وأحمد والعلماء کافّۃ الّا أبا حنیفۃ قال : تبطل صلاۃ الصّبح بطلوع الشّمس فیھا ، لأنّہ وقت النّھی من الصّلاۃ بخلاف غروب الشّمس والحدیث حجّۃ علیہ ۔
”یہ حدیث بین دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی نماز کی ایک رکعت پڑھی ، پھر سلام پھیرنے سے پہلے اس نماز کا وقت ختم ہو گیا ، اس کی نماز باطل نہیں ہوگی ، بلکہ وہ اپنی نماز کو پورا کرے گا اور اس کی نماز صحیح ہے ۔ عصر کے بارے میں تو اجماع ہے ، فجر کے بارے میں امام ابو حنیفہ کے علاوہ باقی سب ائمہ مثلاً امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل     وغیرہم S اسی کے قائل ہیں ، مگر امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر نماز ِ فجر کے دوران سورج طلوع ہوگیا تو نماز باطل ہو جائے گی ، کیونکہ یہ نماز کا ممنوع وقت ہے ، جبکہ غروب ِ آفتاب کا وقت ممنوع نہیں ، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے ۔”(شرح صحیح مسلم للنووی : ١/٢٢١۔٢٢٢)
امام ابن المنذر نیسابوری  رحمہ اللہ  (م ٣١٨ھ) لکھتے ہیں :      قد جعل النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم من أدرک من العصر قبل أن تغرب الشّمس ، ومن أدرک رکعۃ من الصّبح قبل أن تطلع الشّمس مدرکا للصّلاتین وجمع بینھما ، فلا معنیٰ لتفریق من فرق الشّیئین جمعت السّنّۃ بینھما ، ولو جاز أن تفسد صلاۃ من جاء الی وقت لا تحلّ الصّلاۃ فیہ ألزم أن تفسد صلاۃ من ابتدأھا فی وقت لا تجوز الصّلاۃ فیھا ، ولیس فیما ثبت عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الّا التّسلیم لہ وترک أن یحمل علی القیاس والنّظر ۔۔۔    ”نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کو نماز پانے والا قرار دیا ہے ، جس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی یا طلوعِ آفتاب سے پہلے صبح کی ایک رکعت پالی ، نیز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں نماز وں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے ، چنانچہ سنت نے جن چیزوں کو جمع کیا ہے ، انہیں الگ کرنا درست نہیں ، اگر ایسے شخص کی نماز فاسد ہو گی ، جس نے مکروہ وقت میں نماز ادا کی تو لازم تھا کہ اس کی نماز شروع ہی سے باطل ہو جاتی ، حالانکہ جو کچھ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے ، اسے تسلیم کرنا اور قیاس پر محمول نہ کرنا ہی واجب ہے ۔”(الاوسط لابن المنذر : ٢/٣٤٩)
کرمانی حنفی لکھتے ہیں :         وفی الحدیث أنّ من دخل الصّلاۃ ، فصلّی رکعۃ وخرج الوقت کان مدرکا لجمیعھا ، وتکون أداء ، وھو الصّحیح ۔     ”اس حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نماز میں داخل ہوا ، اس نے ایک رکعت پڑھی تو وقت ختم ہوگیا ، وہ ساری کی ساری نماز کو پانے والا ہے ، یہی صحیح اور درست ہے ۔”(شرح صحیح البخاری : ٤/٢٠١)
2    سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے ہی روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا أدرکت رکعۃ من صلاۃ الصّبح قبل أن تطلع الشّمس ، فصلّ الیھا أخری ۔
”اگر آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالیں تو اس کے ساتھ دوسری رکعت بھی پڑھ لیں (نماز مکمل کر لیں)۔”(مسند الامام احمد : ٢/٢٣٦، ٤٨٩، وسندہ، صحیحٌ)
مسند احمد(٢/٤٩٠) میں ہی قتادہ  رحمہ اللہ  نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے ۔
یہ حدیث ِ مبارکہ نصِ صریح ہے کہ جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالی ، وہ دوسری رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے گا ۔
امام ابن عبدالبر  رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ)نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
وھذا اجماع من المسلمین ، لا یختلفون فی أنّ ھذا المصلّی فرض علیہ واجب أن یأتی بتمام صلاۃ الصّبح وتمام صلاۃ العصر ۔     ”اس پر مسلمانوں کا بلا اختلاف اجماع ہے کہ ایسے نمازی پر نماز ِ صبح اور نماز ِ عصر مکمل کرنا واجب ہے ۔”(التمھید لابن عبد البر : ٣/٢٧٣)
3    سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
من صلّی سجدۃ واحدۃ من العصر قبل غروب الشّمس ، ثمّ صلّی ما بقی بعد غروب الشّمس ، فلم تفتہ العصر ، وقال : ومن صلّی سجدۃ واحدۃ من الصّبح قبل طلوع الشّمس ، ثمّ صلّی ما بقی بعد طلوع الشّمس ، فلم تفتہ صلاۃ الصّبح ۔
”جس شخص نے نماز ِ فجر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی ، باقی ماندہ نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھ لی ، اس سے عصر کی نماز فوت نہیں ہوئی ، فرمایا ، اور جس نے نماز ِ فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی ، باقی ماندہ نماز سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھی ، اس کی صبح فوت نہیں ہوئی ۔”(مسند السراج : ٩٣٦، وسندہ، صحیحٌ)    دیگر عمومی روایات بھی اس مسئلہ کی مؤید ہیں ۔
قال عبد اللّٰہ : سألت أبی عن رجل صلّی بالغداۃ ، فلمّا صلّی رکعۃ قام فی الثّانیۃ ، طلعت الشّمس ، قال : یتمّ الصّلاۃ ، ھی جائزۃ ۔     ”عبداللہ بن احمد بن حنبل  رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد  رحمہ اللہ  سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا حکم ہے ، جس نے نماز ِ فجر پڑھی ، جب رکعت ادا کر کے دوسری کے لیے کھڑا ہوا تو سورج طلوع ہو گیا تو آپ  رحمہ اللہ  نے فرمایا ، وہ اپنی نماز مکمل کرے ، یہ جائز ہے ۔”
(مسائل الامام احمد لابنہ عبد اللہ : ٥٤۔٥٥)
اب ان صحیح احادیث ِ نبویہ اور اجماعِ امت کے خلاف فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
سوال :     ”اگر صبح کی نماز پڑھتے پڑھتے آفتاب طلوع ہو جائے یا عصر کی نماز پڑھتے پڑھتے غروب ہو جائے تو کیا فجر وعصر کی نماز ادا ہو جائے گی ؟”
الجواب :     ”عصر کی نماز ہو جائے گی ، فجر کی نہیں ہوگی ۔”
(احسن الفتاوی از رشید احمد دیوبندی لدھیانوی کراچوی : ٢/١٣١)
سوال :     ”اگر فجر کی نماز میں آفتاب طلوع کرے تو نماز صحیح ہوگی یا نہیں ؟
الجواب :     ”عندالحنفیہ نماز اس کی فاسد ہوگی ، بعد طلوع وارتفاعِ آفتاب پھر صبح کی نماز اس کو پڑھنا چاہیے ۔”(فتاوی دارالعلوم دیوبند : ٤/٤٧)
بعض الناس کے یہ دونوں فتوے احادیث ِ صحیحہ اور اجماعِ امت کے خلاف ہیں ، یہ حدیث کے ایک ٹکڑے پر عمل ہے ، دوسرے کی مخالفت ہے ، قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔
( أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ) (البقرۃ : ٨٥)
”کیا تم کتاب کے بعض حصہ پر ایمان لے آتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو ؟” فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکیٰ !
جناب محمد تقی عثمانی دیوبندی حیاتی صاحب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”حدیث ِ باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے ، مختلف مشائخِ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا ، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ مسلک پر اس کو مشکلات میں شمار کیا گیا ہے ۔”(درسِ ترمذی از تقی عثمانی : ١/٤٣٤)
نیز تقی عثمانی صاحب اس مسئلہ میں اپنے دلائل پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
”خود صاحب ِ معارف السنن (محمد یوسف بنوری دیوبندی) نے حضرت شاہ صاحب (انور شاہ کشمیری دیوبندی) کی اس توجیہ کو بہت مفصل اور موجہ کر کے بیان کیا ہے ، لیکن آخر میں خود انہوں نے بھی یہ اعتراض کیا ہے شرح صدر اس پر بھی نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ ان تمام توجیہات پر ایک مشترک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کو اپنے ظاہر سے مؤوّل کرنا کسی نص یا دلیل شرعی کی وجہ سے ہوسکتا ہے اور اس معاملہ میں تفریق بین الفجر والعصر کے بارے میں حنفیہ کے پاس نصِ صریح نہیں ، صرف قیاس ہے اور وہ بھی مضبوط نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیہ کی طرف سے کوئی ایسی توجیہ اب تک احقر (محمد تقی عثمانی)کی نظر سے نہیں گزری ، جو کافی اور شافی ہو ، اس لیے حدیث کو تروڑ مروڑ کر حنفیہ کے مسلک پر فٹ کرنا کسی طرح مناسب نہیں ، یہی وجہ ہے کہ حضرت (رشید احمد )گنگوہی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بارے میں حنفیہ کی تمام تاویلات باردہ ہیں اور حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں کھینچ تان کرنے کے بجائے کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ اس بارے میں حنفیہ کے دلائل ہماری سمجھ میں نہیں آسکے ، اور ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز تو ہے ، لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ہو جائے گی ۔حضرت گنگوہی کے علاوہ صاحب ِ بحر الرائق (ابنِ نجیم حنفی) اور علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی نے بھی دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ (امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام مالک S ) کے مسلک کو ترجیح دی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف سے ایک روایت یہ مروی ہے کہ طلوعِ شمس سے فجر کی نماز فاسد نہیں ہوتی ۔”
(درسِ ترمذی از تقی عثمانی : ١/٤٣٩۔٤٤٠)
اللّٰھم أرنا الحقّ حقّا وارزقنا اتباعہ ، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.