2,290

مرد کے لئے کپڑا ٹخنوں سے اوپر کرنا۔۔۔علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

مرد کے لیے ٹخنوں سے نیچے تہہ بند ، شلوار ، پائجامہ ،قمیص وغیرہ لٹکانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے ۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا تکبر اور اسراف ہے ۔ یہ عملِ شنیع متکبرین اورعورتوں سے مشابہت وغیرہ کا موجب ہے ، جبکہ اس سے اجتناب واجب ہے ۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
( وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) (بنی اسرائیل : ١٧/٣٧)
”اورزمین پر اکڑ کر مت چلو ،نہ تو آپ زمین کو پھاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہیں۔”
نیز فرمایا :     ( إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ) (لقمان : ٣١/١٨)
” اللہ تعالیٰ متکبر اورشیخی خورے کو پسند نہیں فرماتے ۔”
ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانے والے کے بارے میں شدید وعید آئی ہے ، جیسا کہ :
1    سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( بینا رجل یجرّ إزارہ ، خسف بہ ، فھو یتجلجل فی الأرض إلی یوم القیامۃ ))
”(تم سے پہلے لوگوں میں)ایک آدمی تھا ، جو تکبر اور غرور کی وجہ سے اپنا تہ بند گھسیٹ کر چلتا تھا (جان بوجھ کر اس نے کپڑا لٹکایا ہوا تھا) ، وہ اس وجہ سے زمین میں دھنسا دیاگیا ، تاقیامت زمین میں دھنستا چلا جائے گا ۔”(صحیح بخاری : ٥٧٩٠، صحیح مسلم : ٢٠٨٨/٤٩ من حدیث ابی ھریرۃ)
2    سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ما أسفل من الکعبین من الإزار فی النّار ))     ”ٹخنوں کے نیچے جسم کا وہ حصہ جہاں تہ بند پہنچے ، وہ آگ میں جلے گا ۔”(صحیح بخاری : ٥٧٨٧)
3    سیدنا ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت ان سے کلام نہیں کریں گے ، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے ، نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کریں گے اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی ، سیدنا ابوذر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول ! وہ خاسر وخائب لوگ کون ہیں ؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      (( المسبل إزارہ ، والمنّان ، والمنفّق سلعتہ بالحلف الکاذب ))     ”1 ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا اور 3 جھوٹی قسم اٹھا کر مال فروخت کرنے والا ۔”(صحیح مسلم : ١٠٦)
ایک شبہ اور اس کا إزالہ :
وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر)کا ذکر نہیں ہے ، ان کے عموم کو ان احادیث کے ساتھ خاص کر دیا جائے ،جن میں خیلاء (تکبر) کا ذکر ہے ، یعنی وعید اس شخص کے لیے ہوگی ، جو تکبر کی وجہ سے کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ۔”
(التمھید لابن عبد البر : ٣/٢٤٤، شرح صحیح مسلم للنووی : ١/٧١، ٢/١٩٤۔١٩٥)
علامہ ابن العربی المالکی   رحمہ اللہ اس شبہ کا ازالہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
لا یجوز لرجل أن یجاوز بثوبہ کعبہ ویقول : لا أتکبّر فیہ ، لأنّ النّھی قد تناولہ لفظا وتناول علّتہ ، ولا یجوز یتناول اللّفظ حکما ، فیقال : إنّی لست ممّن یمتثلہ ، لأنّ تلک العلّۃ لیست فیّ ، فإنّہ مخالفۃ للشّریعۃ ، ودعوی لا تسلم لہ ، بل من تکبّرہ یطیل ثوبہ وإزارہ ، فکذبہ معلوم ۔۔۔     ”کسی آدمی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے اورکہے کہ میرا اس میں تکبر کا ارادہ نہیں ہے ۔ یہ کہنا اس لیے جائز نہیں ہے کہ اس پر (کپڑا لٹکانے کی)نہی لفظی اعتبار سے شامل ہے اور یہ نہی کی علت ، یعنی تکبر کوبھی شامل ہے۔ جب ایک لفظ حکم پر بھی شامل ہو تو آدمی کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ میں اس کا ارتکاب نہیں کرتا ، کیونکہ یہ (تکبر والی )علت مجھ میں نہیں پائی جاتی ۔ یہ شریعت کی مخالفت ہے اور ایسا دعویٰ ہے ، جسے تسلیم نہیں کیاجاسکتا ، بلکہ وہ اپنے تکبر ہی کی وجہ سے اپنے کپڑے اور تہ بند کو لمبا رکھتا ہے ، لہٰذا اس کا جھوٹ قطعی طور پر ثابت ہوچکا ہے ۔”(عارضۃ الاحوذی لابن العربی : ٧/٢٣٨)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ اس عبارت کا ماحصل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :      الإسبال یستلزم جرّ الثّوب وجرّ الثّوب یستلزم الخیلاء ، ولو لم یقصد اللّابس الخیلاء ۔۔۔۔
”کپڑا لٹکانے سے گھسیٹنا لازم آتا ہے اور گھسیٹنے سے تکبر لازم آتا ہے ، اگرچہ پہننے والا تکبر کاارادہ نہ بھی رکھتا ہو ۔”(فتح الباری لابن حجر : ١٠/٢٦٤)
4    اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ سیدنا جابر بن سلیم  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      (( وارفع إزارک إلی نصف السّاق ، فإن أبیت فإلی الکعبین ، وإیّاک وإسبال الإزار ، فإنّھا من المخیلۃ ، وإنّ اللّٰہ لا یحبّ المخیلۃ ۔۔))
”اپنا تہ بند نصف پنڈلی تک اٹھا کر رکھو ، اگر تم اس سے انکاری ہو تو (کم ازکم ) دونوں ٹخنوں تک رکھو ، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو ، یہ تکبر ہے ۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔”
(سنن ابی داو،د ، ٤٠٨٤، واللفظ لہ ، المعجم الکبیر للطبرانی : ٦٣٨٦، السنن الکبری للبیھقی : ١٠/٢٣٦، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ (٢٧٢٢)نے ”حسن صحیح” اورامام حاکم   رحمہ اللہ (٤/١٨٦)نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی   رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں :      (( وإیّاک وتسبل الإزار ، فإنّھا من الخیلاء ، والخیلاء لا یحبّھا اللّٰہ ))     ”ٹخنوں سے نیچے تہ بند لٹکانے سے بچو ، کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے ۔”(مسند الامام احمد : ٥/٦٣، وصححہ ابن حبان (٥٢٢) وقال ابن عساکر : حدیث حسن غریب (معجم الشیوخ لابن عساکر : ١٤٩١) ، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث میں تنصیص وتصریح ہے کہ جان بوجھ کر کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہی تکبر اور عُجب وافتخار کی علامت ہے ، خواہ تکبرکا قصد نہ بھی ہو ۔
5    سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میرا گزر نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے ہوا ۔ میری حالت یہ تھی کہ (غیرارادی طورپر) میری شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹک رہی تھی ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، اے عبداللہ ! اپنی شلوار اوپر کر ، میں نے اوپر کر لی ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اور زیادہ کر ، میں نے اور زیادہ کرلی۔ اس کے بعد میں ہمیشہ خیال رکھتا تھا (کہ کہیں شلوار ٹخنے سے نیچے نہ چلی جائے ) ۔ لوگوں نے پوچھا ، شلوار کہاں تک ہونی چاہیے ؟ تو آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا ، نصف پنڈلی تک ۔”(صحیح مسلم : ٢٠٨٦)
6    ایک روایت میں ہے کہ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما  کو دیکھ کر فرمایا :
(( من ھذا ؟ فقلت : أنا عبد اللّٰہ ! فقال : إن کنت عبد اللّٰہ ، فارفع إزارک ))
”یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی ، میں عبداللہ ہوں ، آپ نے فرمایا ، اگر تو عبداللہ (اللہ کا بندہ ) ہے تو اپنا تہبند ٹخنوں سے اوپر کرلے ۔”(مسند الامام احمد : ٢/١٤٧، مسند ابی یعلیٰ : ٥٦٤٤، شعب الایمان للبیہقی : ٦١١٩، وسندہ، صحیحٌ)
غور فرمائیں کہ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے ان کی نیت کے بارے میں سوال نہیں کیا کہ کیا آپ نے کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا ہے یا ویسے ہی ؟ بلکہ جوں ہی دیکھا ، کپڑے کو اوپر اٹھانے کا حکم صادر فرما دیا ، لہٰذا یہ کہنا کی تکبر کی نیت ہوتو ناجائز ہے ، ورنہ نہیں ۔ کیا سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  کے بارے میں حسنِ ظن یہ ہے کہ انہوں نے تکبر کی بنا پر لٹکایا تھا ، اس لیے نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا؟
اصل بات یہ ہے کہ تکبر کی قید اس لیے لگائی گئی کہ بسااوقات نہ سمجھی میں یا خود بخودتہبند نیچے ہوجاتا ہے ، اس پر یہ وعید نہیں ، لیکن جو جانتے بوجھتے اس طرح کرے گا ، وہ متکبر ہوگا ۔
6     سیدنا شرید بن سوید  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  ایک ثقفی شخص کے پیچھے چل رہے تھے ، یہاں تک کہ اس کی طرف لپک (عام چال اوردوڑنے کے درمیان کی چال چل) کر اس کا کپڑا پکڑ لیا اورفرمایا :     ارفع إزارک (فی روایۃ الحمیدی : ٨١٠ ، واحمد : ١٩٤٠٤، وسندہ، صحیحٌ : واتّق اللّٰہ )    ”اپنا تہبند ٹخنوں سے اوپر کرلیں اور اللہ سے ڈرجائیں۔”
راوی کہتے ہیں کہ اس آدمی نے اپنے ٹخنوں سے کپڑا اٹھا لیا اورعرض کی ، اے اللہ کے رسول ! میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں اورگھٹنے ٹکراتے ہیں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو خوبصورت پیدا کیا ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ (اس کے بعد) اس آدمی نے تاوفات اپنا تہبند نصف پنڈلی تک رکھا۔
(مسند الامام احمد : ٤/٣٩٠، ح : ١٩٧٠١، وسندہ، صحیحٌ ورجالہ ثقات)
7    عبدالرحمن بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے تہبند کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ، میں آپ کو بادلیل جواب دیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :      (( إزار المؤمن إلی أنصاف ساقیہ ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلی من جرّ إزارہ بطرا ))     ”مؤمن کے تہبند کی جگہ نصف پنڈلی ہے ۔ نصف پنڈلی اورٹخنوں کے درمیان رکھے تو کوئی گناہ نہیں ۔ (تہبند رکھنے کا)جو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،(تہبند رکھنے کا)جو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،جس نے تہبند کو تکبر کی وجہ سے (یعنی جان بوجھ کر)ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(موطا الامام مالک : ٢/٩١٤۔٩١٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٤٤، شرح السنۃ للبغوی : ٣٠٨٠)
اس کی سند ”حسن” ہے ۔ اس کے راوی العلاء بن عبدالرحمن جمہور کے نزدیک ”صدوق ، حسن الحدیث” ہیں اور صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں ۔
اس حدیث کو امام ابوعوانہ  رحمہ اللہ  (٥/٤٨٣) اور امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ (٥٤٤٧)نے ”صحیح” قرار دیا ہے۔
7    سیدنا ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ  نے صحابی ئ رسول سیدنا سہل بن حنظلیہ  رضی اللہ عنہ  سے کہا ، آپ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں ، جو ہمیں فائدہ دے اور آپ کو نقصان نہ دے ۔ اس پر انہوں نے کہا :
قال لنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : نعم الرّجل خریم الأسدیّ لولا طول جمّتہ وإسبال إزارہ ، فبلغ ذلک خریما ، فعجل ، فأخذ شفرۃ ، فقطع بھا جمّتہ إلی أذنیہ ورفع إزارہ إلی أنصاف ساقیہ ۔     ”خریم اسدی بھی کیا خوب آدمی ہے اگر اس کے بال (کندھوں تک) لمبے نہ ہوں اور اس کی شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو ۔ یہ بات خریم اسدی  رضی اللہ عنہ  کو پہنچی تو انہوں نے جلدی سے استرا لیا اور بال کانوں تک کاٹ دئیے اور شلوار نصف پنڈلی تک اٹھا لی۔”(سنن ابی داو،د : ٤٠٨٩، مسند الامام احمد : ٤/١٨٠، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/١٨٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم   رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد” اور حافظ ذہبی   رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس کا راوی ہشام بن سعد جمہور کے نزدیک ”موثق ، حسن الحدیث” ہے ۔     ان شاء اللّٰہ !
9    سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  کا ایمان افروز واقعہ :
جب سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کو ایک مجوسی یا عیسائی نے وار کرکے زخمی کردیا اور آپ کا پیٹ چاک ہوگیا ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  کو نبیذ پلائی گئی ، وہ آنتوں کے راستے باہر نکل آئی ، دودھ لایا گیا ، آپ نے پیا تو وہ بھی آنتوں کے راستے باہر نکل آیا ۔ صحابہ کرام ] جان گئے کہ آپ  رضی اللہ عنہ  جانبر نہیں ہوسکیں گے ۔ لوگ آپ کی تعریف کر رہے تھے ۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان آیا ، اس نے کہا ، اے امیرالمومنین ! آپ کو بشارت ہو ، آپ کو صحبت ِ رسول کا شرف حاصل ہے ، یقینا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو سبقت ِ اسلام کا بھی شرف حاصل ہے ، آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے عدل وانصاف کے پھریرے لہر ادئیے ، اب اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کے منصب پر فائز کرنے والے ہیں ۔ (یہ سن کر سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ نے عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے )فرمایا ، میری خواہش ہے کہ یہ سب امور میرے لیے برابر ہوجائیں ،نہ عذاب ہونہ ہی ثواب ! جب وہ نوجوان واپس پلٹا تو اس کا تہبند زمین پر لگ رہا تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :      ابن أخی ! ارفع ثوبک ، فإنّہ أنقی لثوبک وأتقی لربّک ۔
”اے میرے بھتیجے! اپنا کپڑا ٹخنوں سے اوپر اٹھالیں۔ اس میں آپ کے کپڑوں کی صفائی ہے اور تقویٰ کا باعث ہے ۔”(صحیح بخاری : ٣٧٠٠)
معلوم ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاناکوئی معمولی مسئلہ نہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  پر قربان جائیے کہ آپ نے وقت ِ وفات بھی مخالفت ِ سنت کو برداشت نہ کیا ، جبکہ آپ اس وقت زخموں سے چُور چُور تھے ، خون میں لت پت تھے ، زندگی اورموت کی کشمکش میں ایک نوجوان کو تہبند ٹخنے سے اوپر اٹھانا کا کہہ رہے ہیں ، ساتھ ساتھ اس کی حکمت بھی عیاں کردی اور رہتی دنیا تک کے نوجوانوں کو سبق دے دیا کہ ٹخنے ننگے رکھنا ضروری ہے ۔ یہ تقویٰ کی بات ہے ۔
0    مسلم بن یناق   رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  نے ایک آدمی دیکھا، جو اپنا تہبند گھسیٹ کر چل رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ، آپ کس قبیلہ سے ہو ؟ اس نے اپنا نسب بیان کیا ، وہ بنولیث سے تھا ۔ سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  نے اسے پہچان لیا اورفرمایا کہ میں نے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ، جو شخص تکبر کے ارادہ سے تہبند لٹکائے گا ، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(صحیح مسلم : ٢٠٨٥/٤٥)
! محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے ایک آدمی دیکھا ، جو اپنا تہبند گھسیٹ کر چل رہا تھا ، وہ بحرین کا امیر تھا ۔ زمین پر پاؤں مار مار کر کہہ رہا تھا کہ امیر آگیا ، امیر آگیا ۔ میں نے سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جو شخص تکبر کی وجہ سے تہبند گھسیٹ کر چلے ، اللہ تعالیٰ اس کی طرف (روز ِ قیامت )نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(صحیح مسلم : ٢٠٨٧)
@    ابواسحاق السبیعی تابعی   رحمہ اللہ  کہتے ہیں :      رأیت ناسا من أصحاب رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یأتزرون علی أنصاف سوقھم ، فذکر أسامۃ بن زید ، وابن عمر ، وزید بن أرقم ، والبراء بن عازب ۔۔۔     ”میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں سے بہت سے لوگ دیکھے ہیں ، جو تہبند نصف پنڈلی پر رکھتے تھے ، پھر انہوں نے سیدنا اسامہ بن زید، ابنِ عمر ، زید بن ارقم اور براء بن عازب ] کا ذکر کیا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٩٢۔٣٩٣، وسندہ، حسن)
#    عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  کو تہبند میں دیکھا ، وہ آگے سے اس کا کونہ اپنے پاؤں کی پیٹھ پر رکھتے اورپیچھے سے اٹھا کر رکھتے تھے ۔ میں نے کہا ، آپ اس طرح تہبندکیوں باندھتے ہیں ؟ فرمانے لگے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح باندھتے تھے ۔”
(سنن ابی داو،د : ٤٠٩٦، وسندہ، حسنٌ)
کسی صحابی سے جان بوجھ کر ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ثابت نہیں ہے ۔
$    محمد بن سیرین تابعی   رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ (صحابہ وتابعین ) نصف پنڈلی سے اوپر تہبند اٹھا کر رکھنانا پسند کرتے تھے ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٩٢، وسندہ، حسنٌ)
تنبیہ نمبر 1 :     سیدنا ابنِ مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ وہ کپڑا لٹکاتے تھے ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ، میں پتلی پنڈلیوں والا انسان ہوں ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٩، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  اس کی سند کو ”جید” قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :      ” اس کو اس حالت پر محمول کریں گے کہ وہ جگہ جہاں شلوار رکھنا مستحب ہے ، یعنی نصف پنڈلی ، اس سے زیادہ لٹکی ہوئی تھی ، کیونکہ سیدنا ابنِ مسعود  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے ٹخنوں سے نیچے تہبند کو لٹکایا ہو ۔ پنڈلیوں کے باریک ہونے کی علت اسی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔۔۔”(فتح الباری : ١٠/٢٦٤)
تنبیہ نمبر 2 : سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :      من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ ، قال أبو بکر : یا رسول اللّٰہ ! إن أحد شقی إزاری یسترخی إلّا أن أتعاھد ذلک منہ ، فقال النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : لست ممّن یصنعہ خیلاء ۔     ”جس نے تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹا ، روز ِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے ۔ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کہنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! میرے تہبند کا ایک پہلو لٹک جاتا ہے ، ہاں جب میں اس پر محافظت کروں تو نہیں لٹکتا ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ، جوتکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکاتے ہیں۔”(صحیح بخاری : ٥٧٨٤)
ایک روایت میں ہے :         فقال أبو بکر : إنّہ یسترخی إزاری أحیاناً ۔
”سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہا ، کبھی کبھا ر میرا تہبند (غیر ارادی طور پر )خود بخود لٹک جاتا ہے ۔”
(مسند الامام احمد : ٢/١٤٧، مسند ابی یعلی : ٥٦٤٤، شعب الایمان للبیہقی : ٦١١٩، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جو تکبر کے ارادے سے لٹکاتا ہے ، وہ اس وعید میں داخل ہوگا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ، خواہ تکبر کا قصد ہویا نہ ہو ، اس کے لیے یہ وعید ِ شدید ہے ۔
ہاں ! اگر کوئی آدمی کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود غیرارادی یا غیراختیاری طورپر کپڑا نیچے لٹک جاتا ہے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ معذور ہے ، جیسا کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ جب میں پوری پوری محافظت کرتا ہوں تو تہبند نیچے نہیں لٹکتا ۔ کبھی ذرا سی غفلت کروں تو نیچے لٹک جاتا ہے ۔ حدیث میں یسترخی     کا لفظ بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ تہبند خود بخود نیچے لٹک جاتا تھا ، وہ بھی کبھی کبھار نہ کہ ہمیشہ ۔ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  قصداً نہیں لٹکاتے تھے ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  بھی سمجھتے تھے کہ یہ وعید ہر اس انسان کو شامل ہے ، جو تکبر کے ارادے سے لٹکایا ہے یا بغیر تکبر کے ارادے سے ۔ تب ہی تو یہ سوال کیا تھا کہ غیرارادی طور پر غفلت کی وجہ سے میرا تہبند لٹک جاتا ہے۔کیا میں بھی اسی وعید میں داخل ہوں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، نہیں ۔
ہاں ! اگر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  یہ پوچھتے کہ میں خود شلوار ٹخنے سے نیچے لٹکا کر رکھتا ہوں اور میرا تکبر کا ارادہ نہیں ہوتا ، پھر اگر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت دے دیتے تو بات صحیح ہوتی ، جبکہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے ،لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کُناں ہے کہ جو جان بوجھ کر کپڑا لٹکاتا ہے، خواہ تکبر کا قصد نہ بھی ہو ، وہ اس وعید میں داخل ہے ، کیونکہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا بذات ِ خود تکبر ہے ۔ اس میں قصد وارادہ کا کوئی عمل دخل نہیں ۔
تنبیہ نمبر 3 :      سیدنا ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ہم نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تھے کہ سورج کو گہن لگ گیا ۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم       یجرّ ردائہ ، حتّی دخل المسجد ۔۔۔
”آپ  رضی اللہ عنہ  تہبند گھسیٹتے ہوئے (جلدی سے)کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے توہم بھی مسجد میں داخل ہوئے ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دورکعتیں پڑھائیں ۔”
(صحیح بخاری : ١٠٤٠)
دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے جب خواب میں اذان سنی ، پھر حالت ِ بیداری میں سیدنا بلال  رضی اللہ عنہ  کی اذان سن کر گھر سے باہر نکلے تو     فخرج یجرّ ردائہ ۔۔۔    ”آپ تہبند گھسیٹتے ہوئے نکلے ۔”(مسند الامام احمد : ٤/٤٣، سنن ابی داو،د : ٤٩٩، وسندہ، حسنٌ ومحمد ابن اسحاق موثق عند الجمہور )
اس حدیث کو امام ابن الجارود(١٥٨) ، امام ابنِ خزیمہ(٣٧١) ، امام ابنِ حبان (١٦٧٩)اور حافظ نووی   رحمہ اللہ  (خلاصۃ الاحکام : ١/٢٧٦)نے ”صحیح” کہا ہے ۔
امام ترمذی   رحمہ اللہ  (١٧٩)اور حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  (نتائج الافکار : ١/٣٣٨)نے ”حسن صحیح” قرار دیا ہے ۔
یہ اور اس جیسی دوسری احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اوپر والی چادر گھسٹ رہی تھی نہ کہ تہبند ، کیونکہ رداء اوپر والی چادر کو کہتے ہیں۔ورنہ تہبند کولٹکانے سے تو سیدنا عمربن خطاب  رضی اللہ عنہ  نے وقت ِ وفات بھی منع فرمایا تھا۔
%    سیدنا حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :      أخذ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بعضلۃ ساقی أو بعضلۃ ساقہ ، قال : فقال : الإزار ھاھنا ، فإن أبیت فھاھنا ، فإن أبیت فھاھنا ، فإن أبیت فلا حقّ للإزار فی الکعبین ۔۔۔
”رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے میری پنڈلی پکڑ کر فرمایا ، تہبند کو یہاں رکھو ، اگر آپ انکاری ہیں تو یہاں رکھو، اگر آپ انکاری ہیں تو یہاں رکھو ، اگر آپ انکاری ہیں تو (یاد رکھو)ٹخنے پر تہبند کا کوئی حق نہیں۔”
(مسند الامام احمد : ٥/٣٩٦، وسندہ، حسنٌ)
اس کاراوی مسلم بن نذیر ”حسن الحدیث” ہے ۔ امام ابوحاتم الرازی   رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لا بأس بحدیثہ ۔     ”اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں۔”(الجرح والتعدیل : ٨/١٩٧)
امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ  نے اسے ”ثقہ” قرار دیا ہے ۔ امام ترمذی   رحمہ اللہ  (١٧٨٣)نے اس کی حدیث کو ”حسن صحیح” کہا ہے ۔ یہ توثیق ہے ۔
یہ حدیث واضح طور پر پتہ دے رہی ہے کہ جان بوجھ کر ،خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہوتو کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکاہی نہیں سکتے ۔
فائدہ نمبر 1 :      حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:     ”مطلق طورپر ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانے کے بارے میں جو وعید آتی ہے ، اس سے وہ شخص مستثنیٰ ہے ، جو ضرورت وعذر کے پیشِ نظر لٹکاتا ہے ۔ مثال طور پر ٹخنے پر زخم ہے ۔ مکھیاں تکلیف پہنچاتی ہیں ۔ وہ شلوار یا چادر کے علاوہ کوئی دوسری چیز ڈھانپنے کے لیے نہیں پاتا ۔ یہ ایسے ہی ہے ، جیسا کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو خارش کی وجہ سے ریشمی قمیص پہننے کی اجازت دی تھی ۔”(فتح الباری : ١٠/٢٥٧)
عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ  والی روایت صحیح بخاری(٥٨٣٩) اور صحیح مسلم (٢٠٧٦)میں موجود ہے ۔
فائدہ نمبر 2 :      عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹخنے ڈھانپ کر رکھیں ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جس نے تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکایا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔ام ِ سلمہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں ، اے اللہ کے رسول!         فکیف یصنع النّساء بذیولھنّ ؟ قال : ترخینہ شبراً ، قال : قالت : إذا تنکشف أقدامھنّ ؟ قال : ترخینہ ذراعا ، لا یزدن علیہ ))
”عورتیں کپڑے کا دامن کہاں رکھیں گی ؟ وہ (نصف پنڈلی سے ) ایک (درمیانے ہاتھ کی ) بالشت (کُن انگلی اور انگوٹھے کے درمیان فاصلہ کے ) لٹکا کر رکھیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدہ ام ِ سلمہ رضی اللہ عنہا  نے کہا ، تب تو ان کے پاؤں ننگے ہوجائیں گے ۔ اس پر نبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، وہ دو بالشت نیچے رکھ سکتی ہیں ، اس سے زیادہ نہیں ۔”
(سنن النسائی : ٥٣٣٨، سنن الترمذی : ١٧٣١، وسندہ، صحیحٌ)
امام ترمذی   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”حسن صحیح” ہے ۔
نیز امام ترمذی   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      وفی الحدیث رخصۃ للنّساء فی جرّ الإزار ، لأنّہ یکون أستر لھنّ ۔    ” اس حدیث میں عورتوں کے لیے کپڑا گھسیٹنے کی رخصت ہے ، کیونکہ ان کے لیے زیادہ ستر کا باعث ہے ۔”
ایک شبہ اور اس کا إزالہ :      وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر ) کا ذکر نہیں ہے ، ان کے عموم کو ان احادیث کے ساتھ خاص کر دیا جائے گا ، جن میں خیلاء (تکبر ) کا ذکر ہے ، یعنی یہ وعید صرف اس شخص کے لیے ہوگی ، جو تکبر کی بنا پر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ۔
خوب یادر ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے ، ورنہ سیدہ ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کا عورتوں کے کپڑا لٹکانے کے بارے میں استفسار کا کیا معنیٰ ؟ بلکہ حدیث سننے کے بعد وہ یہ سمجھ رہی تھیں کہ تکبر کا ارادہ ہویا نہ ہو ، یہ ممانعت عام ہے ۔ اس لیے سوال کیا کہ عورتوں کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ ان کو پاؤں ڈھانپنے کے لیے کپڑا لٹکانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تب تو نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے واضح کیا کہ وہ اس مسئلہ میں مردوں کے حکم سے خارج ہیں ۔ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹخنے ڈھانپ کر رکھیں ۔ یہ مسلمانوں کا اجماعی مسئلہ ہے، اس لیے نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے کپڑا رکھنا مستحب اور دوبالشت جائز ہے ۔ اسی طرح مردوں کے ٹخنے سے نیچے تہہ بند ، چادر ، پائجامہ ، شلوار وغیرہ رکھنا ممنوع وحرام اورگناہ ِ کبیرہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُوری کا باعث ہے ۔ مرد کے لیے نصف پنڈلی تک کپڑا رکھنا مستحب اورٹخنے سے اوپر رکھنا جائز ہے ۔
فائدہ نمبر 3 :      سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ :
ما قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی الإزار فھو فی القمیص ۔
”جو حکم آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا تہبند کے بارے میں دیا ہے ، وہی قمیص کے بارے میں بھی ہے ۔”
(مسند الامام احمد : ٢/١١٠، ١٣٧، سنن ابی داو،د : ٤٠٩٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٤٤، وسندہ، صحیحٌ)
مطلب یہ ہے کہ قمیص بازینت اور ستر پوش ہو ، ضرورت سے زیادہ لمبی اور کھلی ہوگی تو تکبر میں شامل ہوجائے گی ، جو کہ ممنوع اور حرام ہے ۔
سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  نے فرمایا :      الإسبال فی الإزار والقمیص والعمامۃ ۔
”اسبال تہبند ، قمیص اور پگڑی (سب )میں (ممنوع)ہوتا ہے ۔”(سنن ابی داو،د : ٤٠٩٤، سنن النسائی : ٥٣٣٤، سنن ابن ماجہ : ٣٥٧٦، وسندہ، صحیحٌ)
اسبال ، ارسال اور ارخاء ، یہ تینوں ہم معنیٰ ہیں ۔ تہبند ، قمیص اور پگڑی سب میں اسبال ہوتا ہے۔ شریعت نے ہر ایک کی حدود مقررکی ہیں ۔ تہبند کے حوالے سے مرد کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ٹخنے سے نیچے نہ لٹکائے ، اسی طرح قمیص کے بارے میں بھی گزر چکا ہے ۔
جہاں تک پگڑی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شریعت کی رہنمائی یہ ہے کہ نہ تو اس کے زیادہ بَل ہوں ، نہ اس کا کوئی کونہ یاسرا زیادہ لٹکا ہوا ہو ۔ اگر ممنوع اسبال کی صورت اختیار کر گئی تو یہ تکبر ہے اورممنوع ہے ۔
b     سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :      کان النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا اعتمّ سدل عمامتہ بین کتفیہ ۔     ”نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  جب پگڑی باندھتے تو اس کا سرا دونوں کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے ۔”(سنن الترمذی : ١٧٣٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ترمذی   رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ”حسن غریب” کہا ہے ۔
اس کا راوی یحییٰ بن محمد المدنی الجاری ”حسن الحدیث” ہے ۔ امام عجلی ، امام ابنِ حبان ، یحییٰ بن محمد کے شاگرد یحییٰ بن یوسف الزمی نے ”ثقہ” قرار دیا ہے ۔امام ابنِ عدی   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
لیس بحدیثہ بأس ۔    ”اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے ۔”
اس کے دوسرے راوی عبدالعزیز بن محمد الدراوردی بھی جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہیں ۔
b    سیدناعمروبن حریث  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا کہ آپ نے کالی پگڑی باندھ رکھی تھی ، اس کے دونوں کونے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے ۔
(صحیح مسلم : ١٣٥٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :      وعمّمہ بعمامۃ بیضاء ، وأرسل من خلفہ أربع أصابع أو نحو ذلک ، وقال : ھکذا یا ابن عوف اعتمّ ! فإنّہ أعرب وأحسن ۔    ”نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان (سیدنا عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ  ) کو سفیدپگڑی باندھی، چار انگلیوں یا ان کے قریب قریب سرا ان کے پیچھے ڈال دیا اورفرمایا ، اے (عبدالرحمن)ابنِ عوف ! اس طرح پگڑی باندھا کرو ، کیونکہ یہ زیادہ واضح اور زیادہ خوبصورت ہے ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٥٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم   رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد” کہا ہے اورحافظ ذہبی   رحمہ اللہ  نے ”صحیح” کہا ہے ۔
یہ سند اس بات پر واضح دلیل ہے کہ امام عطاء بن ابی رباح   رحمہ اللہ  کا سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے سماع ولقاء ثابت ہے ۔ السنّۃ شمارہ نمبر 1 صفحہ نمبر ٣٠ پر لکھا گیا تھا کہ ان کا سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے سماع نہیں ہے ۔ یہ بات مرجوح ہوگئی ہے ۔
b    محمد بن زید العمری   رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہما  کو دیکھا کہ انہوں نے کالی پگڑی باندھ رکھی تھی ، دو بالشت کے برابر اس کا سرا پیچھے ڈالا ہوا تھا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٤٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 4 :      سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا ۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا ، جاؤ وضو کرو ۔ وہ گیا اور وضو کیا ، پھر (ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکاتا ہوا) آیا تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جاؤ اور وضو کرو ۔ وہ دوبارہ گیا ، وضو کیا ، پھر آیا تو ایک آدمی نے کہا ، اے اللہ کے رسول ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے ایک باوضو انسان کو وضو کرنے کا حکم دیا ہے ؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، وہ شلوار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ شلوار لٹکانے والے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ۔”(مسند الامام احمد : ٤/٦٨، سنن ابی داو،د : ٦٣٨، ٤٠٨٦، السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٧٠٣، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٤١، وسندہ، حسنٌ ، ابو جعفر المدنی المؤذن حسن الحدیث ، حسن الترمذی حدیثہ (٣٤٤٨) وصححہ ابن حبان (٢٦٩٩) ، وھذا توثیق منھما ، وروی عنہ یحیی بن ابی کثیر وقال الامام ابو حاتم الرازی : یحیی بن ابی کثیر امام لا یحدث إلا عن ثقۃ (الجرح والتعدیل : ٩/١٤٢) ، قال الحافظ النووی (ریاض الصالحین : ٧٩٥) : رواہ ابو داو،د بإسناد صحیح علی شرط مسلم ، ووافقہ الذھبی (الکبائر ص ١٧٩) ، وقال الحافظ الھیثمی (مجمع الزوائد : ٥/١٢٥) : رواہ أحمد ورجالہ رجال الصحیح)
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے ۔ اس پر یہ لازم ہے کہ وہ وضو اور نماز لوٹائے ۔
صاحب المنہل العذب المورود(٥/١٢٣) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”ضعیف” ہے ، بالفرض ثابت ہوبھی جائے تو یہ منسوخ ہے ، کیونکہ اس کے خلاف اجماع واقع ہوگیا ہے ۔
لیکن ان کا اس حدیث کو ”ضعیف” کہنا صحیح نہیں ہے ، ہم نے اس کی سند کا ”حسن” ہونا بطریقِ احسن واضح کردیا ہے ، نیز اس کی منسوخیت کا دعویٰ بے دلیل ہے ۔ ہم اس اجماع سے واقف نہیں ہوسکے ، جو اس کے خلاف ہوا ہے ، بلکہ اس موہوم اجماع کے خلاف ثابت ہے ، جیسا کہ :
مجاہد بن جبر تابعی   رحمہ اللہ  کہتے ہیں :     کان یقال : من مسّ إزارہ کعبہ لم تقبل لہ صلاۃ ، قال : وقال ذرّ : من مسّ إزارہ الأرض لم تقبل لہ صلاۃ ۔
”کہا جاتا تھا کہ جس کا تہبند ٹخنے کو چھو جائے ، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ،(حصین بن عبدالرحمن السلمی تابعی  رحمہ اللہ )کہتے ہیں کہ ذر (بن عبداللہ الہمدانی )نے کہا ، جس کا تہبند زمین کو چھوئے ، اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
لہٰذا اجماع کا یہ دعویٰ باطل ہوا ۔
حافظ ابن القیم   رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :      ووجہ ھذا الحدیث ـ واللّٰہ أعلم ـ أنّ إسبال الإزار معصیۃ ، وکلّ من واقع معصیۃ ، فإنّہ یؤمر بالوضوء والصّلاۃ ، فإنّ الوضوء یطفیء حریق المعصیۃ ۔     ” اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا معصیت ہے ، جو بھی کسی معصیت میں مبتلا ہوگا ، اسے وضو اور نماز کا حکم دیا جائے گا ، کیونکہ وضو معصیت (نافرمانی) کی آگ کو بجھاتا ہے ۔”(التھذیب علی سنن ابی داو،د : ٦/٥٠)
علامہ طیبی   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :      لعلّ السّرّ فی أمرہ بالتّوضّیء ، وھو طاھر ، أن یتفکّر الرّجل فی سبب ذلک الأمر ، فیقف علی ما ارتکبہ من شنعاء ، وأنّ اللّٰہ تعالیٰ ببرکۃ أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم طھارۃ الظّاھر ، یطھّر باطنہ من التّکبّر والخیلاء ، لأنّ طھارۃ الظّاھر مؤثّرۃ فی طھارۃ الباطن ۔
”باوضو انسان کو وضو کا حکم دینے میں شاید یہ حکمت پنہاں ہو کہ (دوبارہ وضو کرنے کے بارے میں)حکم میں وہ غوروفکر کرے ، جس بُری حرکت کا وہ مرتکب ہورہا ہے ، اس پر خبردار ہوجائے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ظاہری طہارت کے حکم (کی تعمیل) کی برکت سے اس کے باطن کو تکبر اور افتخار وعُجب سے پاک کر دے گا ، کیونکہ ظاہری طہارت باطنی طہارت پراثر انداز ہوتی ہے ۔”
(شرح الطیبی : ٢/٢٦٨)
علامہ ابن العربی المالکی   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :      إنّ الصّلاۃ حال تواضع وإسبال الإزار فعل متکبّر ، فتعارضا ، وأمرہ لہ بإعادۃ الوضوء أدب لہ وتأکید علیہ ، ولأنّ المصلّی یناجی ربّہ ، واللّٰہ لا ینظر إلی من جرّ إزارہ ، ولا یکلّمہ ، فکذلک لم یقبل صلاتہ ۔
”نماز تواضع کی حالت ہوتی ہے ، جبکہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا متکبر آدمی کا کام ہے ، یہ دونوں کام باہم متعارض ہیں ۔اس شخص کو وضو لوٹانے کا حکم اسے ادب سکھانے اور تاکید کرنے کا سبب ہے ، کیونکہ نمازی اپنے رب سے مناجات (سرگوشیاں) کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کپڑا گھسیٹنے والے شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے اورنہ ہی اس سے کلام کریں گے ، اسی لیے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔”(عارضۃ الاحوذی : ٧/٢٣٨)
اس بات کی تاکید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
^    سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
إنّ اللّٰہ عزّ وجلّ لا ینظر إلی مسبل الإزار ۔     ”یقینا اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھتے ۔”(مسند الامام احمد : ١/٣٢٢، سنن النسائی : ٥٣٣٥، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث ِ ابی ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
b    سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا :      من أسبل إزارہ فی صلاتہ خیلاء ، فلیس من اللّٰہ فی حلّ ولا حرام ۔
”جس نے تکبر کی وجہ سے نماز میں کپڑا لٹکایا ، اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں(یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کو حلال کریں گے نہ دوزخ کو حرام) ۔”(سنن ابی داو،د : ٦٣٧، السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٦٨٠، وسندہ، حسنٌ)
اگر کوئی کہے کہ ا س کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر تکبر کا ارادہ نہ ہوتو نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم ِ مخالف تب ہوگا ، جب کوئی قرینہ موجود نہ ہو ۔ یہاں تو نص موجود ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے ،لہٰذا جو بھی جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے گا ، وہ اس زمرہ میں آئے گا ، خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہو ۔
الحاصل :      وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر کی وجہ سے) کپڑا لٹکانے کا ذکر ہے ، ان کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر جو بھی کپڑا لٹکائے گا ، کیونکہ بھول کر لٹک جانے سے تکبر ہوتا ہی نہیں ۔ اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا خود تکبر ہے ، جیسا کہ حدیث سے واضح کیا جا چکا ہے ۔
مرد کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانا ممنوع وحرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے ۔
b    سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
ستّۃ لعنتھم ولعنھم اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والتّارک لسنّتی ۔
”چھ شخص ایسے ہیں ، جن پر میں نے لعنت کی ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے ۔۔۔ (ان میں سے ایک) وہ شخص ہے ، جو میری سنت کو چھوڑتا ہے ۔”(سنن الترمذی : ٢١٥٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ (٥٧٤٩) اور امام حاکم   رحمہ اللہ (٢/٥٢٥) نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
ثقۃ مشہور ۔    ”یہ مشہور ثقہ راوی ہے ۔”(المغنی للذھبی : ٢/٦١٤)
حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      من ثقات المدنیّین ۔     ”یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے ۔”(فتح الباری لابن حجر : ١١/١٨٣)
اس کا دوسرا راوی عبیداللہ بن عبدالرحمن بن موہب ”مختلف فیہ” ہے ۔ راجح یہی ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے ۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں سنت سے مراد واجبی اور فرضی سنتیں ، مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، ڈاڑھی رکھنا ، شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا وغیرہ مراد ہیں ۔اب جو بھی شخص جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا ، اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس پر لعنت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی لعنت سے دُور رکھے اور اپنی رحمت کا مستحق بنائے !         آمین

مرد کے لیے ٹخنوں سے نیچے تہہ بند ، شلوار ، پائجامہ ،قمیص وغیرہ لٹکانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے ۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا تکبر اور اسراف ہے ۔ یہ عملِ شنیع متکبرین اورعورتوں سے مشابہت وغیرہ کا موجب ہے ، جبکہ اس سے اجتناب واجب ہے ۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
( وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) (بنی اسرائیل : ١٧/٣٧)
”اورزمین پر اکڑ کر مت چلو ،نہ تو آپ زمین کو پھاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہیں۔”
نیز فرمایا :     ( إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ) (لقمان : ٣١/١٨)
” اللہ تعالیٰ متکبر اورشیخی خورے کو پسند نہیں فرماتے ۔”
ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانے والے کے بارے میں شدید وعید آئی ہے ، جیسا کہ :
1    سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( بینا رجل یجرّ إزارہ ، خسف بہ ، فھو یتجلجل فی الأرض إلی یوم القیامۃ ))
”(تم سے پہلے لوگوں میں)ایک آدمی تھا ، جو تکبر اور غرور کی وجہ سے اپنا تہ بند گھسیٹ کر چلتا تھا (جان بوجھ کر اس نے کپڑا لٹکایا ہوا تھا) ، وہ اس وجہ سے زمین میں دھنسا دیاگیا ، تاقیامت زمین میں دھنستا چلا جائے گا ۔”(صحیح بخاری : ٥٧٩٠، صحیح مسلم : ٢٠٨٨/٤٩ من حدیث ابی ھریرۃ)
2    سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ما أسفل من الکعبین من الإزار فی النّار ))     ”ٹخنوں کے نیچے جسم کا وہ حصہ جہاں تہ بند پہنچے ، وہ آگ میں جلے گا ۔”(صحیح بخاری : ٥٧٨٧)
3    سیدنا ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت ان سے کلام نہیں کریں گے ، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے ، نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کریں گے اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی ، سیدنا ابوذر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول ! وہ خاسر وخائب لوگ کون ہیں ؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      (( المسبل إزارہ ، والمنّان ، والمنفّق سلعتہ بالحلف الکاذب ))     ”1 ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا اور 3 جھوٹی قسم اٹھا کر مال فروخت کرنے والا ۔”(صحیح مسلم : ١٠٦)
ایک شبہ اور اس کا إزالہ :
وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر)کا ذکر نہیں ہے ، ان کے عموم کو ان احادیث کے ساتھ خاص کر دیا جائے ،جن میں خیلاء (تکبر) کا ذکر ہے ، یعنی وعید اس شخص کے لیے ہوگی ، جو تکبر کی وجہ سے کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ۔”
(التمھید لابن عبد البر : ٣/٢٤٤، شرح صحیح مسلم للنووی : ١/٧١، ٢/١٩٤۔١٩٥)
علامہ ابن العربی المالکی   رحمہ اللہ اس شبہ کا ازالہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
لا یجوز لرجل أن یجاوز بثوبہ کعبہ ویقول : لا أتکبّر فیہ ، لأنّ النّھی قد تناولہ لفظا وتناول علّتہ ، ولا یجوز یتناول اللّفظ حکما ، فیقال : إنّی لست ممّن یمتثلہ ، لأنّ تلک العلّۃ لیست فیّ ، فإنّہ مخالفۃ للشّریعۃ ، ودعوی لا تسلم لہ ، بل من تکبّرہ یطیل ثوبہ وإزارہ ، فکذبہ معلوم ۔۔۔     ”کسی آدمی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے اورکہے کہ میرا اس میں تکبر کا ارادہ نہیں ہے ۔ یہ کہنا اس لیے جائز نہیں ہے کہ اس پر (کپڑا لٹکانے کی)نہی لفظی اعتبار سے شامل ہے اور یہ نہی کی علت ، یعنی تکبر کوبھی شامل ہے۔ جب ایک لفظ حکم پر بھی شامل ہو تو آدمی کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ میں اس کا ارتکاب نہیں کرتا ، کیونکہ یہ (تکبر والی )علت مجھ میں نہیں پائی جاتی ۔ یہ شریعت کی مخالفت ہے اور ایسا دعویٰ ہے ، جسے تسلیم نہیں کیاجاسکتا ، بلکہ وہ اپنے تکبر ہی کی وجہ سے اپنے کپڑے اور تہ بند کو لمبا رکھتا ہے ، لہٰذا اس کا جھوٹ قطعی طور پر ثابت ہوچکا ہے ۔”(عارضۃ الاحوذی لابن العربی : ٧/٢٣٨)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ اس عبارت کا ماحصل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :      الإسبال یستلزم جرّ الثّوب وجرّ الثّوب یستلزم الخیلاء ، ولو لم یقصد اللّابس الخیلاء ۔۔۔۔
”کپڑا لٹکانے سے گھسیٹنا لازم آتا ہے اور گھسیٹنے سے تکبر لازم آتا ہے ، اگرچہ پہننے والا تکبر کاارادہ نہ بھی رکھتا ہو ۔”(فتح الباری لابن حجر : ١٠/٢٦٤)
4    اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ سیدنا جابر بن سلیم  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      (( وارفع إزارک إلی نصف السّاق ، فإن أبیت فإلی الکعبین ، وإیّاک وإسبال الإزار ، فإنّھا من المخیلۃ ، وإنّ اللّٰہ لا یحبّ المخیلۃ ۔۔))
”اپنا تہ بند نصف پنڈلی تک اٹھا کر رکھو ، اگر تم اس سے انکاری ہو تو (کم ازکم ) دونوں ٹخنوں تک رکھو ، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو ، یہ تکبر ہے ۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔”
(سنن ابی داو،د ، ٤٠٨٤، واللفظ لہ ، المعجم الکبیر للطبرانی : ٦٣٨٦، السنن الکبری للبیھقی : ١٠/٢٣٦، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ (٢٧٢٢)نے ”حسن صحیح” اورامام حاکم   رحمہ اللہ (٤/١٨٦)نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی   رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں :      (( وإیّاک وتسبل الإزار ، فإنّھا من الخیلاء ، والخیلاء لا یحبّھا اللّٰہ ))     ”ٹخنوں سے نیچے تہ بند لٹکانے سے بچو ، کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے ۔”(مسند الامام احمد : ٥/٦٣، وصححہ ابن حبان (٥٢٢) وقال ابن عساکر : حدیث حسن غریب (معجم الشیوخ لابن عساکر : ١٤٩١) ، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث میں تنصیص وتصریح ہے کہ جان بوجھ کر کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہی تکبر اور عُجب وافتخار کی علامت ہے ، خواہ تکبرکا قصد نہ بھی ہو ۔
5    سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میرا گزر نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے ہوا ۔ میری حالت یہ تھی کہ (غیرارادی طورپر) میری شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹک رہی تھی ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، اے عبداللہ ! اپنی شلوار اوپر کر ، میں نے اوپر کر لی ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اور زیادہ کر ، میں نے اور زیادہ کرلی۔ اس کے بعد میں ہمیشہ خیال رکھتا تھا (کہ کہیں شلوار ٹخنے سے نیچے نہ چلی جائے ) ۔ لوگوں نے پوچھا ، شلوار کہاں تک ہونی چاہیے ؟ تو آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا ، نصف پنڈلی تک ۔”(صحیح مسلم : ٢٠٨٦)
6    ایک روایت میں ہے کہ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما  کو دیکھ کر فرمایا :
(( من ھذا ؟ فقلت : أنا عبد اللّٰہ ! فقال : إن کنت عبد اللّٰہ ، فارفع إزارک ))
”یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی ، میں عبداللہ ہوں ، آپ نے فرمایا ، اگر تو عبداللہ (اللہ کا بندہ ) ہے تو اپنا تہبند ٹخنوں سے اوپر کرلے ۔”(مسند الامام احمد : ٢/١٤٧، مسند ابی یعلیٰ : ٥٦٤٤، شعب الایمان للبیہقی : ٦١١٩، وسندہ، صحیحٌ)
غور فرمائیں کہ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے ان کی نیت کے بارے میں سوال نہیں کیا کہ کیا آپ نے کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا ہے یا ویسے ہی ؟ بلکہ جوں ہی دیکھا ، کپڑے کو اوپر اٹھانے کا حکم صادر فرما دیا ، لہٰذا یہ کہنا کی تکبر کی نیت ہوتو ناجائز ہے ، ورنہ نہیں ۔ کیا سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  کے بارے میں حسنِ ظن یہ ہے کہ انہوں نے تکبر کی بنا پر لٹکایا تھا ، اس لیے نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا؟
اصل بات یہ ہے کہ تکبر کی قید اس لیے لگائی گئی کہ بسااوقات نہ سمجھی میں یا خود بخودتہبند نیچے ہوجاتا ہے ، اس پر یہ وعید نہیں ، لیکن جو جانتے بوجھتے اس طرح کرے گا ، وہ متکبر ہوگا ۔
6     سیدنا شرید بن سوید  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  ایک ثقفی شخص کے پیچھے چل رہے تھے ، یہاں تک کہ اس کی طرف لپک (عام چال اوردوڑنے کے درمیان کی چال چل) کر اس کا کپڑا پکڑ لیا اورفرمایا :     ارفع إزارک (فی روایۃ الحمیدی : ٨١٠ ، واحمد : ١٩٤٠٤، وسندہ، صحیحٌ : واتّق اللّٰہ )    ”اپنا تہبند ٹخنوں سے اوپر کرلیں اور اللہ سے ڈرجائیں۔”
راوی کہتے ہیں کہ اس آدمی نے اپنے ٹخنوں سے کپڑا اٹھا لیا اورعرض کی ، اے اللہ کے رسول ! میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں اورگھٹنے ٹکراتے ہیں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو خوبصورت پیدا کیا ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ (اس کے بعد) اس آدمی نے تاوفات اپنا تہبند نصف پنڈلی تک رکھا۔
(مسند الامام احمد : ٤/٣٩٠، ح : ١٩٧٠١، وسندہ، صحیحٌ ورجالہ ثقات)
7    عبدالرحمن بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے تہبند کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ، میں آپ کو بادلیل جواب دیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :      (( إزار المؤمن إلی أنصاف ساقیہ ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، ما أسفل من ذلک ففی النّار ، لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلی من جرّ إزارہ بطرا ))     ”مؤمن کے تہبند کی جگہ نصف پنڈلی ہے ۔ نصف پنڈلی اورٹخنوں کے درمیان رکھے تو کوئی گناہ نہیں ۔ (تہبند رکھنے کا)جو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،(تہبند رکھنے کا)جو حصہ اس (ٹخنے) سے نیچے ہوگا ، وہ آگ میں جلے گا ،جس نے تہبند کو تکبر کی وجہ سے (یعنی جان بوجھ کر)ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(موطا الامام مالک : ٢/٩١٤۔٩١٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٤٤، شرح السنۃ للبغوی : ٣٠٨٠)
اس کی سند ”حسن” ہے ۔ اس کے راوی العلاء بن عبدالرحمن جمہور کے نزدیک ”صدوق ، حسن الحدیث” ہیں اور صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں ۔
اس حدیث کو امام ابوعوانہ  رحمہ اللہ  (٥/٤٨٣) اور امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ (٥٤٤٧)نے ”صحیح” قرار دیا ہے۔
7    سیدنا ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ  نے صحابی ئ رسول سیدنا سہل بن حنظلیہ  رضی اللہ عنہ  سے کہا ، آپ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں ، جو ہمیں فائدہ دے اور آپ کو نقصان نہ دے ۔ اس پر انہوں نے کہا :
قال لنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : نعم الرّجل خریم الأسدیّ لولا طول جمّتہ وإسبال إزارہ ، فبلغ ذلک خریما ، فعجل ، فأخذ شفرۃ ، فقطع بھا جمّتہ إلی أذنیہ ورفع إزارہ إلی أنصاف ساقیہ ۔     ”خریم اسدی بھی کیا خوب آدمی ہے اگر اس کے بال (کندھوں تک) لمبے نہ ہوں اور اس کی شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو ۔ یہ بات خریم اسدی  رضی اللہ عنہ  کو پہنچی تو انہوں نے جلدی سے استرا لیا اور بال کانوں تک کاٹ دئیے اور شلوار نصف پنڈلی تک اٹھا لی۔”(سنن ابی داو،د : ٤٠٨٩، مسند الامام احمد : ٤/١٨٠، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/١٨٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم   رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد” اور حافظ ذہبی   رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس کا راوی ہشام بن سعد جمہور کے نزدیک ”موثق ، حسن الحدیث” ہے ۔     ان شاء اللّٰہ !
9    سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  کا ایمان افروز واقعہ :
جب سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کو ایک مجوسی یا عیسائی نے وار کرکے زخمی کردیا اور آپ کا پیٹ چاک ہوگیا ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  کو نبیذ پلائی گئی ، وہ آنتوں کے راستے باہر نکل آئی ، دودھ لایا گیا ، آپ نے پیا تو وہ بھی آنتوں کے راستے باہر نکل آیا ۔ صحابہ کرام ] جان گئے کہ آپ  رضی اللہ عنہ  جانبر نہیں ہوسکیں گے ۔ لوگ آپ کی تعریف کر رہے تھے ۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان آیا ، اس نے کہا ، اے امیرالمومنین ! آپ کو بشارت ہو ، آپ کو صحبت ِ رسول کا شرف حاصل ہے ، یقینا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو سبقت ِ اسلام کا بھی شرف حاصل ہے ، آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے عدل وانصاف کے پھریرے لہر ادئیے ، اب اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کے منصب پر فائز کرنے والے ہیں ۔ (یہ سن کر سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ نے عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے )فرمایا ، میری خواہش ہے کہ یہ سب امور میرے لیے برابر ہوجائیں ،نہ عذاب ہونہ ہی ثواب ! جب وہ نوجوان واپس پلٹا تو اس کا تہبند زمین پر لگ رہا تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :      ابن أخی ! ارفع ثوبک ، فإنّہ أنقی لثوبک وأتقی لربّک ۔
”اے میرے بھتیجے! اپنا کپڑا ٹخنوں سے اوپر اٹھالیں۔ اس میں آپ کے کپڑوں کی صفائی ہے اور تقویٰ کا باعث ہے ۔”(صحیح بخاری : ٣٧٠٠)
معلوم ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاناکوئی معمولی مسئلہ نہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  پر قربان جائیے کہ آپ نے وقت ِ وفات بھی مخالفت ِ سنت کو برداشت نہ کیا ، جبکہ آپ اس وقت زخموں سے چُور چُور تھے ، خون میں لت پت تھے ، زندگی اورموت کی کشمکش میں ایک نوجوان کو تہبند ٹخنے سے اوپر اٹھانا کا کہہ رہے ہیں ، ساتھ ساتھ اس کی حکمت بھی عیاں کردی اور رہتی دنیا تک کے نوجوانوں کو سبق دے دیا کہ ٹخنے ننگے رکھنا ضروری ہے ۔ یہ تقویٰ کی بات ہے ۔
0    مسلم بن یناق   رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  نے ایک آدمی دیکھا، جو اپنا تہبند گھسیٹ کر چل رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ، آپ کس قبیلہ سے ہو ؟ اس نے اپنا نسب بیان کیا ، وہ بنولیث سے تھا ۔ سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  نے اسے پہچان لیا اورفرمایا کہ میں نے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ، جو شخص تکبر کے ارادہ سے تہبند لٹکائے گا ، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(صحیح مسلم : ٢٠٨٥/٤٥)
! محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے ایک آدمی دیکھا ، جو اپنا تہبند گھسیٹ کر چل رہا تھا ، وہ بحرین کا امیر تھا ۔ زمین پر پاؤں مار مار کر کہہ رہا تھا کہ امیر آگیا ، امیر آگیا ۔ میں نے سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جو شخص تکبر کی وجہ سے تہبند گھسیٹ کر چلے ، اللہ تعالیٰ اس کی طرف (روز ِ قیامت )نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔”(صحیح مسلم : ٢٠٨٧)
@    ابواسحاق السبیعی تابعی   رحمہ اللہ  کہتے ہیں :      رأیت ناسا من أصحاب رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یأتزرون علی أنصاف سوقھم ، فذکر أسامۃ بن زید ، وابن عمر ، وزید بن أرقم ، والبراء بن عازب ۔۔۔     ”میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں سے بہت سے لوگ دیکھے ہیں ، جو تہبند نصف پنڈلی پر رکھتے تھے ، پھر انہوں نے سیدنا اسامہ بن زید، ابنِ عمر ، زید بن ارقم اور براء بن عازب ] کا ذکر کیا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٩٢۔٣٩٣، وسندہ، حسن)
#    عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  کو تہبند میں دیکھا ، وہ آگے سے اس کا کونہ اپنے پاؤں کی پیٹھ پر رکھتے اورپیچھے سے اٹھا کر رکھتے تھے ۔ میں نے کہا ، آپ اس طرح تہبندکیوں باندھتے ہیں ؟ فرمانے لگے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح باندھتے تھے ۔”
(سنن ابی داو،د : ٤٠٩٦، وسندہ، حسنٌ)
کسی صحابی سے جان بوجھ کر ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ثابت نہیں ہے ۔
$    محمد بن سیرین تابعی   رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ (صحابہ وتابعین ) نصف پنڈلی سے اوپر تہبند اٹھا کر رکھنانا پسند کرتے تھے ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٩٢، وسندہ، حسنٌ)
تنبیہ نمبر 1 :     سیدنا ابنِ مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ وہ کپڑا لٹکاتے تھے ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ، میں پتلی پنڈلیوں والا انسان ہوں ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٩، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  اس کی سند کو ”جید” قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :      ” اس کو اس حالت پر محمول کریں گے کہ وہ جگہ جہاں شلوار رکھنا مستحب ہے ، یعنی نصف پنڈلی ، اس سے زیادہ لٹکی ہوئی تھی ، کیونکہ سیدنا ابنِ مسعود  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے ٹخنوں سے نیچے تہبند کو لٹکایا ہو ۔ پنڈلیوں کے باریک ہونے کی علت اسی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔۔۔”(فتح الباری : ١٠/٢٦٤)
تنبیہ نمبر 2 : سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :      من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ ، قال أبو بکر : یا رسول اللّٰہ ! إن أحد شقی إزاری یسترخی إلّا أن أتعاھد ذلک منہ ، فقال النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : لست ممّن یصنعہ خیلاء ۔     ”جس نے تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹا ، روز ِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے ۔ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کہنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! میرے تہبند کا ایک پہلو لٹک جاتا ہے ، ہاں جب میں اس پر محافظت کروں تو نہیں لٹکتا ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ، جوتکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکاتے ہیں۔”(صحیح بخاری : ٥٧٨٤)
ایک روایت میں ہے :         فقال أبو بکر : إنّہ یسترخی إزاری أحیاناً ۔
”سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے کہا ، کبھی کبھا ر میرا تہبند (غیر ارادی طور پر )خود بخود لٹک جاتا ہے ۔”
(مسند الامام احمد : ٢/١٤٧، مسند ابی یعلی : ٥٦٤٤، شعب الایمان للبیہقی : ٦١١٩، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جو تکبر کے ارادے سے لٹکاتا ہے ، وہ اس وعید میں داخل ہوگا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ، خواہ تکبر کا قصد ہویا نہ ہو ، اس کے لیے یہ وعید ِ شدید ہے ۔
ہاں ! اگر کوئی آدمی کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود غیرارادی یا غیراختیاری طورپر کپڑا نیچے لٹک جاتا ہے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ معذور ہے ، جیسا کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ جب میں پوری پوری محافظت کرتا ہوں تو تہبند نیچے نہیں لٹکتا ۔ کبھی ذرا سی غفلت کروں تو نیچے لٹک جاتا ہے ۔ حدیث میں یسترخی     کا لفظ بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ تہبند خود بخود نیچے لٹک جاتا تھا ، وہ بھی کبھی کبھار نہ کہ ہمیشہ ۔ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  قصداً نہیں لٹکاتے تھے ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  بھی سمجھتے تھے کہ یہ وعید ہر اس انسان کو شامل ہے ، جو تکبر کے ارادے سے لٹکایا ہے یا بغیر تکبر کے ارادے سے ۔ تب ہی تو یہ سوال کیا تھا کہ غیرارادی طور پر غفلت کی وجہ سے میرا تہبند لٹک جاتا ہے۔کیا میں بھی اسی وعید میں داخل ہوں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، نہیں ۔
ہاں ! اگر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  یہ پوچھتے کہ میں خود شلوار ٹخنے سے نیچے لٹکا کر رکھتا ہوں اور میرا تکبر کا ارادہ نہیں ہوتا ، پھر اگر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت دے دیتے تو بات صحیح ہوتی ، جبکہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے ،لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کُناں ہے کہ جو جان بوجھ کر کپڑا لٹکاتا ہے، خواہ تکبر کا قصد نہ بھی ہو ، وہ اس وعید میں داخل ہے ، کیونکہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا بذات ِ خود تکبر ہے ۔ اس میں قصد وارادہ کا کوئی عمل دخل نہیں ۔
تنبیہ نمبر 3 :      سیدنا ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ہم نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تھے کہ سورج کو گہن لگ گیا ۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم       یجرّ ردائہ ، حتّی دخل المسجد ۔۔۔
”آپ  رضی اللہ عنہ  تہبند گھسیٹتے ہوئے (جلدی سے)کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے توہم بھی مسجد میں داخل ہوئے ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دورکعتیں پڑھائیں ۔”
(صحیح بخاری : ١٠٤٠)
دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے جب خواب میں اذان سنی ، پھر حالت ِ بیداری میں سیدنا بلال  رضی اللہ عنہ  کی اذان سن کر گھر سے باہر نکلے تو     فخرج یجرّ ردائہ ۔۔۔    ”آپ تہبند گھسیٹتے ہوئے نکلے ۔”(مسند الامام احمد : ٤/٤٣، سنن ابی داو،د : ٤٩٩، وسندہ، حسنٌ ومحمد ابن اسحاق موثق عند الجمہور )
اس حدیث کو امام ابن الجارود(١٥٨) ، امام ابنِ خزیمہ(٣٧١) ، امام ابنِ حبان (١٦٧٩)اور حافظ نووی   رحمہ اللہ  (خلاصۃ الاحکام : ١/٢٧٦)نے ”صحیح” کہا ہے ۔
امام ترمذی   رحمہ اللہ  (١٧٩)اور حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  (نتائج الافکار : ١/٣٣٨)نے ”حسن صحیح” قرار دیا ہے ۔
یہ اور اس جیسی دوسری احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اوپر والی چادر گھسٹ رہی تھی نہ کہ تہبند ، کیونکہ رداء اوپر والی چادر کو کہتے ہیں۔ورنہ تہبند کولٹکانے سے تو سیدنا عمربن خطاب  رضی اللہ عنہ  نے وقت ِ وفات بھی منع فرمایا تھا۔
%    سیدنا حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :      أخذ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بعضلۃ ساقی أو بعضلۃ ساقہ ، قال : فقال : الإزار ھاھنا ، فإن أبیت فھاھنا ، فإن أبیت فھاھنا ، فإن أبیت فلا حقّ للإزار فی الکعبین ۔۔۔
”رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے میری پنڈلی پکڑ کر فرمایا ، تہبند کو یہاں رکھو ، اگر آپ انکاری ہیں تو یہاں رکھو، اگر آپ انکاری ہیں تو یہاں رکھو ، اگر آپ انکاری ہیں تو (یاد رکھو)ٹخنے پر تہبند کا کوئی حق نہیں۔”
(مسند الامام احمد : ٥/٣٩٦، وسندہ، حسنٌ)
اس کاراوی مسلم بن نذیر ”حسن الحدیث” ہے ۔ امام ابوحاتم الرازی   رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لا بأس بحدیثہ ۔     ”اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں۔”(الجرح والتعدیل : ٨/١٩٧)
امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ  نے اسے ”ثقہ” قرار دیا ہے ۔ امام ترمذی   رحمہ اللہ  (١٧٨٣)نے اس کی حدیث کو ”حسن صحیح” کہا ہے ۔ یہ توثیق ہے ۔
یہ حدیث واضح طور پر پتہ دے رہی ہے کہ جان بوجھ کر ،خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہوتو کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکاہی نہیں سکتے ۔
فائدہ نمبر 1 :      حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:     ”مطلق طورپر ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانے کے بارے میں جو وعید آتی ہے ، اس سے وہ شخص مستثنیٰ ہے ، جو ضرورت وعذر کے پیشِ نظر لٹکاتا ہے ۔ مثال طور پر ٹخنے پر زخم ہے ۔ مکھیاں تکلیف پہنچاتی ہیں ۔ وہ شلوار یا چادر کے علاوہ کوئی دوسری چیز ڈھانپنے کے لیے نہیں پاتا ۔ یہ ایسے ہی ہے ، جیسا کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو خارش کی وجہ سے ریشمی قمیص پہننے کی اجازت دی تھی ۔”(فتح الباری : ١٠/٢٥٧)
عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ  والی روایت صحیح بخاری(٥٨٣٩) اور صحیح مسلم (٢٠٧٦)میں موجود ہے ۔
فائدہ نمبر 2 :      عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹخنے ڈھانپ کر رکھیں ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جس نے تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکایا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ۔ام ِ سلمہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں ، اے اللہ کے رسول!         فکیف یصنع النّساء بذیولھنّ ؟ قال : ترخینہ شبراً ، قال : قالت : إذا تنکشف أقدامھنّ ؟ قال : ترخینہ ذراعا ، لا یزدن علیہ ))
”عورتیں کپڑے کا دامن کہاں رکھیں گی ؟ وہ (نصف پنڈلی سے ) ایک (درمیانے ہاتھ کی ) بالشت (کُن انگلی اور انگوٹھے کے درمیان فاصلہ کے ) لٹکا کر رکھیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدہ ام ِ سلمہ رضی اللہ عنہا  نے کہا ، تب تو ان کے پاؤں ننگے ہوجائیں گے ۔ اس پر نبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، وہ دو بالشت نیچے رکھ سکتی ہیں ، اس سے زیادہ نہیں ۔”
(سنن النسائی : ٥٣٣٨، سنن الترمذی : ١٧٣١، وسندہ، صحیحٌ)
امام ترمذی   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”حسن صحیح” ہے ۔
نیز امام ترمذی   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      وفی الحدیث رخصۃ للنّساء فی جرّ الإزار ، لأنّہ یکون أستر لھنّ ۔    ” اس حدیث میں عورتوں کے لیے کپڑا گھسیٹنے کی رخصت ہے ، کیونکہ ان کے لیے زیادہ ستر کا باعث ہے ۔”
ایک شبہ اور اس کا إزالہ :      وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر ) کا ذکر نہیں ہے ، ان کے عموم کو ان احادیث کے ساتھ خاص کر دیا جائے گا ، جن میں خیلاء (تکبر ) کا ذکر ہے ، یعنی یہ وعید صرف اس شخص کے لیے ہوگی ، جو تکبر کی بنا پر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ۔
خوب یادر ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے ، ورنہ سیدہ ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کا عورتوں کے کپڑا لٹکانے کے بارے میں استفسار کا کیا معنیٰ ؟ بلکہ حدیث سننے کے بعد وہ یہ سمجھ رہی تھیں کہ تکبر کا ارادہ ہویا نہ ہو ، یہ ممانعت عام ہے ۔ اس لیے سوال کیا کہ عورتوں کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ ان کو پاؤں ڈھانپنے کے لیے کپڑا لٹکانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تب تو نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے واضح کیا کہ وہ اس مسئلہ میں مردوں کے حکم سے خارج ہیں ۔ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹخنے ڈھانپ کر رکھیں ۔ یہ مسلمانوں کا اجماعی مسئلہ ہے، اس لیے نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے کپڑا رکھنا مستحب اور دوبالشت جائز ہے ۔ اسی طرح مردوں کے ٹخنے سے نیچے تہہ بند ، چادر ، پائجامہ ، شلوار وغیرہ رکھنا ممنوع وحرام اورگناہ ِ کبیرہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُوری کا باعث ہے ۔ مرد کے لیے نصف پنڈلی تک کپڑا رکھنا مستحب اورٹخنے سے اوپر رکھنا جائز ہے ۔
فائدہ نمبر 3 :      سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ :
ما قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی الإزار فھو فی القمیص ۔
”جو حکم آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا تہبند کے بارے میں دیا ہے ، وہی قمیص کے بارے میں بھی ہے ۔”
(مسند الامام احمد : ٢/١١٠، ١٣٧، سنن ابی داو،د : ٤٠٩٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٤٤، وسندہ، صحیحٌ)
مطلب یہ ہے کہ قمیص بازینت اور ستر پوش ہو ، ضرورت سے زیادہ لمبی اور کھلی ہوگی تو تکبر میں شامل ہوجائے گی ، جو کہ ممنوع اور حرام ہے ۔
سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  نے فرمایا :      الإسبال فی الإزار والقمیص والعمامۃ ۔
”اسبال تہبند ، قمیص اور پگڑی (سب )میں (ممنوع)ہوتا ہے ۔”(سنن ابی داو،د : ٤٠٩٤، سنن النسائی : ٥٣٣٤، سنن ابن ماجہ : ٣٥٧٦، وسندہ، صحیحٌ)
اسبال ، ارسال اور ارخاء ، یہ تینوں ہم معنیٰ ہیں ۔ تہبند ، قمیص اور پگڑی سب میں اسبال ہوتا ہے۔ شریعت نے ہر ایک کی حدود مقررکی ہیں ۔ تہبند کے حوالے سے مرد کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ٹخنے سے نیچے نہ لٹکائے ، اسی طرح قمیص کے بارے میں بھی گزر چکا ہے ۔
جہاں تک پگڑی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شریعت کی رہنمائی یہ ہے کہ نہ تو اس کے زیادہ بَل ہوں ، نہ اس کا کوئی کونہ یاسرا زیادہ لٹکا ہوا ہو ۔ اگر ممنوع اسبال کی صورت اختیار کر گئی تو یہ تکبر ہے اورممنوع ہے ۔
b     سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :      کان النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا اعتمّ سدل عمامتہ بین کتفیہ ۔     ”نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  جب پگڑی باندھتے تو اس کا سرا دونوں کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے ۔”(سنن الترمذی : ١٧٣٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ترمذی   رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ”حسن غریب” کہا ہے ۔
اس کا راوی یحییٰ بن محمد المدنی الجاری ”حسن الحدیث” ہے ۔ امام عجلی ، امام ابنِ حبان ، یحییٰ بن محمد کے شاگرد یحییٰ بن یوسف الزمی نے ”ثقہ” قرار دیا ہے ۔امام ابنِ عدی   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
لیس بحدیثہ بأس ۔    ”اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے ۔”
اس کے دوسرے راوی عبدالعزیز بن محمد الدراوردی بھی جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہیں ۔
b    سیدناعمروبن حریث  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا کہ آپ نے کالی پگڑی باندھ رکھی تھی ، اس کے دونوں کونے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے ۔
(صحیح مسلم : ١٣٥٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :      وعمّمہ بعمامۃ بیضاء ، وأرسل من خلفہ أربع أصابع أو نحو ذلک ، وقال : ھکذا یا ابن عوف اعتمّ ! فإنّہ أعرب وأحسن ۔    ”نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان (سیدنا عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ  ) کو سفیدپگڑی باندھی، چار انگلیوں یا ان کے قریب قریب سرا ان کے پیچھے ڈال دیا اورفرمایا ، اے (عبدالرحمن)ابنِ عوف ! اس طرح پگڑی باندھا کرو ، کیونکہ یہ زیادہ واضح اور زیادہ خوبصورت ہے ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٥٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم   رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد” کہا ہے اورحافظ ذہبی   رحمہ اللہ  نے ”صحیح” کہا ہے ۔
یہ سند اس بات پر واضح دلیل ہے کہ امام عطاء بن ابی رباح   رحمہ اللہ  کا سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے سماع ولقاء ثابت ہے ۔ السنّۃ شمارہ نمبر 1 صفحہ نمبر ٣٠ پر لکھا گیا تھا کہ ان کا سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے سماع نہیں ہے ۔ یہ بات مرجوح ہوگئی ہے ۔
b    محمد بن زید العمری   رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہما  کو دیکھا کہ انہوں نے کالی پگڑی باندھ رکھی تھی ، دو بالشت کے برابر اس کا سرا پیچھے ڈالا ہوا تھا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٤٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 4 :      سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا ۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا ، جاؤ وضو کرو ۔ وہ گیا اور وضو کیا ، پھر (ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکاتا ہوا) آیا تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، جاؤ اور وضو کرو ۔ وہ دوبارہ گیا ، وضو کیا ، پھر آیا تو ایک آدمی نے کہا ، اے اللہ کے رسول ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے ایک باوضو انسان کو وضو کرنے کا حکم دیا ہے ؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، وہ شلوار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ شلوار لٹکانے والے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ۔”(مسند الامام احمد : ٤/٦٨، سنن ابی داو،د : ٦٣٨، ٤٠٨٦، السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٧٠٣، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٤١، وسندہ، حسنٌ ، ابو جعفر المدنی المؤذن حسن الحدیث ، حسن الترمذی حدیثہ (٣٤٤٨) وصححہ ابن حبان (٢٦٩٩) ، وھذا توثیق منھما ، وروی عنہ یحیی بن ابی کثیر وقال الامام ابو حاتم الرازی : یحیی بن ابی کثیر امام لا یحدث إلا عن ثقۃ (الجرح والتعدیل : ٩/١٤٢) ، قال الحافظ النووی (ریاض الصالحین : ٧٩٥) : رواہ ابو داو،د بإسناد صحیح علی شرط مسلم ، ووافقہ الذھبی (الکبائر ص ١٧٩) ، وقال الحافظ الھیثمی (مجمع الزوائد : ٥/١٢٥) : رواہ أحمد ورجالہ رجال الصحیح)
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے ۔ اس پر یہ لازم ہے کہ وہ وضو اور نماز لوٹائے ۔
صاحب المنہل العذب المورود(٥/١٢٣) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”ضعیف” ہے ، بالفرض ثابت ہوبھی جائے تو یہ منسوخ ہے ، کیونکہ اس کے خلاف اجماع واقع ہوگیا ہے ۔
لیکن ان کا اس حدیث کو ”ضعیف” کہنا صحیح نہیں ہے ، ہم نے اس کی سند کا ”حسن” ہونا بطریقِ احسن واضح کردیا ہے ، نیز اس کی منسوخیت کا دعویٰ بے دلیل ہے ۔ ہم اس اجماع سے واقف نہیں ہوسکے ، جو اس کے خلاف ہوا ہے ، بلکہ اس موہوم اجماع کے خلاف ثابت ہے ، جیسا کہ :
مجاہد بن جبر تابعی   رحمہ اللہ  کہتے ہیں :     کان یقال : من مسّ إزارہ کعبہ لم تقبل لہ صلاۃ ، قال : وقال ذرّ : من مسّ إزارہ الأرض لم تقبل لہ صلاۃ ۔
”کہا جاتا تھا کہ جس کا تہبند ٹخنے کو چھو جائے ، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ،(حصین بن عبدالرحمن السلمی تابعی  رحمہ اللہ )کہتے ہیں کہ ذر (بن عبداللہ الہمدانی )نے کہا ، جس کا تہبند زمین کو چھوئے ، اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
لہٰذا اجماع کا یہ دعویٰ باطل ہوا ۔
حافظ ابن القیم   رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :      ووجہ ھذا الحدیث ـ واللّٰہ أعلم ـ أنّ إسبال الإزار معصیۃ ، وکلّ من واقع معصیۃ ، فإنّہ یؤمر بالوضوء والصّلاۃ ، فإنّ الوضوء یطفیء حریق المعصیۃ ۔     ” اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا معصیت ہے ، جو بھی کسی معصیت میں مبتلا ہوگا ، اسے وضو اور نماز کا حکم دیا جائے گا ، کیونکہ وضو معصیت (نافرمانی) کی آگ کو بجھاتا ہے ۔”(التھذیب علی سنن ابی داو،د : ٦/٥٠)
علامہ طیبی   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :      لعلّ السّرّ فی أمرہ بالتّوضّیء ، وھو طاھر ، أن یتفکّر الرّجل فی سبب ذلک الأمر ، فیقف علی ما ارتکبہ من شنعاء ، وأنّ اللّٰہ تعالیٰ ببرکۃ أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم طھارۃ الظّاھر ، یطھّر باطنہ من التّکبّر والخیلاء ، لأنّ طھارۃ الظّاھر مؤثّرۃ فی طھارۃ الباطن ۔
”باوضو انسان کو وضو کا حکم دینے میں شاید یہ حکمت پنہاں ہو کہ (دوبارہ وضو کرنے کے بارے میں)حکم میں وہ غوروفکر کرے ، جس بُری حرکت کا وہ مرتکب ہورہا ہے ، اس پر خبردار ہوجائے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ظاہری طہارت کے حکم (کی تعمیل) کی برکت سے اس کے باطن کو تکبر اور افتخار وعُجب سے پاک کر دے گا ، کیونکہ ظاہری طہارت باطنی طہارت پراثر انداز ہوتی ہے ۔”
(شرح الطیبی : ٢/٢٦٨)
علامہ ابن العربی المالکی   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :      إنّ الصّلاۃ حال تواضع وإسبال الإزار فعل متکبّر ، فتعارضا ، وأمرہ لہ بإعادۃ الوضوء أدب لہ وتأکید علیہ ، ولأنّ المصلّی یناجی ربّہ ، واللّٰہ لا ینظر إلی من جرّ إزارہ ، ولا یکلّمہ ، فکذلک لم یقبل صلاتہ ۔
”نماز تواضع کی حالت ہوتی ہے ، جبکہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا متکبر آدمی کا کام ہے ، یہ دونوں کام باہم متعارض ہیں ۔اس شخص کو وضو لوٹانے کا حکم اسے ادب سکھانے اور تاکید کرنے کا سبب ہے ، کیونکہ نمازی اپنے رب سے مناجات (سرگوشیاں) کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کپڑا گھسیٹنے والے شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے اورنہ ہی اس سے کلام کریں گے ، اسی لیے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔”(عارضۃ الاحوذی : ٧/٢٣٨)
اس بات کی تاکید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
^    سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
إنّ اللّٰہ عزّ وجلّ لا ینظر إلی مسبل الإزار ۔     ”یقینا اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھتے ۔”(مسند الامام احمد : ١/٣٢٢، سنن النسائی : ٥٣٣٥، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث ِ ابی ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
b    سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا :      من أسبل إزارہ فی صلاتہ خیلاء ، فلیس من اللّٰہ فی حلّ ولا حرام ۔
”جس نے تکبر کی وجہ سے نماز میں کپڑا لٹکایا ، اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں(یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کو حلال کریں گے نہ دوزخ کو حرام) ۔”(سنن ابی داو،د : ٦٣٧، السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٦٨٠، وسندہ، حسنٌ)
اگر کوئی کہے کہ ا س کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر تکبر کا ارادہ نہ ہوتو نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم ِ مخالف تب ہوگا ، جب کوئی قرینہ موجود نہ ہو ۔ یہاں تو نص موجود ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے ،لہٰذا جو بھی جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے گا ، وہ اس زمرہ میں آئے گا ، خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہو ۔
الحاصل :      وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر کی وجہ سے) کپڑا لٹکانے کا ذکر ہے ، ان کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر جو بھی کپڑا لٹکائے گا ، کیونکہ بھول کر لٹک جانے سے تکبر ہوتا ہی نہیں ۔ اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا خود تکبر ہے ، جیسا کہ حدیث سے واضح کیا جا چکا ہے ۔
مرد کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانا ممنوع وحرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے ۔
b    سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
ستّۃ لعنتھم ولعنھم اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والتّارک لسنّتی ۔
”چھ شخص ایسے ہیں ، جن پر میں نے لعنت کی ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے ۔۔۔ (ان میں سے ایک) وہ شخص ہے ، جو میری سنت کو چھوڑتا ہے ۔”(سنن الترمذی : ٢١٥٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ (٥٧٤٩) اور امام حاکم   رحمہ اللہ (٢/٥٢٥) نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی   رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
ثقۃ مشہور ۔    ”یہ مشہور ثقہ راوی ہے ۔”(المغنی للذھبی : ٢/٦١٤)
حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      من ثقات المدنیّین ۔     ”یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے ۔”(فتح الباری لابن حجر : ١١/١٨٣)
اس کا دوسرا راوی عبیداللہ بن عبدالرحمن بن موہب ”مختلف فیہ” ہے ۔ راجح یہی ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے ۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں سنت سے مراد واجبی اور فرضی سنتیں ، مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، ڈاڑھی رکھنا ، شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا وغیرہ مراد ہیں ۔اب جو بھی شخص جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا ، اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس پر لعنت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی لعنت سے دُور رکھے اور اپنی رحمت کا مستحق بنائے !         آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.