665

معرکہ حق وباطل، شمارہ 35، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

عقیدہ نمبر 0 : دلیل 1 : اعشیٰ مازنی رضی اللہ عنہ خدمت ِ اقدس میں اپنے بعض اقارب کی ایک فریاد لے کر حاضر ہوئے اور اپنی منظوم عرضی کی جس کی ابتدا اس مصرع سے تھی: ؎ یا مالک الناس ودیّان العرب ”اے تمام آدمیوں کے سردار اور اے عرب کے جزا و سزا دینے والے۔” نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فریاد سن کر شکایت رفع فرما دی۔”(زوائد مسند الامام احمد : ٢/٢٠١)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ اس میں صدقہ بن طیسلہ اور معن بن ثعلبہ مازنی دونوں راوی ”مجہول الحال” ہیں، سوائے امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ عقائد کے متعلق مجہول راویوں کی روایات پر اعتماد کرنا اہل بدعت ہی کی شان ہے۔
اسی طرح زوائد مسند الامام احمد(٢/٢٠٢) میں یا سیّد الناس ودیّان العرب کے الفاظ بھی آتے ہیں ، سند یہ ہے : أبو سلمۃ عبید بن عبد الرحمان الحنفیّ : حدّثنی الجنید بن أمین بن ذروۃ بن نضلۃ بن طریف بن بہصل الحرمازی : حدّثنی أبی أمین بن زروۃ عن أبیہ ذروۃ بن نضلۃ عن أبیہ نضلۃ بن طریف ۔۔۔
اس سند میں لگاتار چار مجہول راوی موجود ہیں۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فیہ جماعۃ لم أعرفہم ۔ ”اس سند میں راویوں کا پورا ایک گروہ ایسا ہے جن کو میں نہیں جانتا۔”(مجمع الزوائد للہیثمی : ٢/٢٠٢)
دلیل نمبر2 : حارث بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی : ابعث معی من یدعو إلی دینک فأنا لمجار ۔ ”میرے ساتھ کسی شخص کو بھیجیں جو میری قوم کو آپ کے دین کی دعوت دے اور وہ میری پناہ میں ہو گا۔۔۔”
(معجم ابن الاعرابی : ١٦٦٤، تاریخ ابن عساکر : ١٢/٤١٢)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ اس میں ابو عثمان سعید الضریر البصری کے حالات ِ زندگی نہیں مل سکے۔
دلیل نمبر3 : سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے :
إنّہ کان یضرب غلامہ ، فجعل یقول : أعوذ باللّٰہ ، قال : فجعل یضربہ ، فقال : أعوذ برسول اللّٰہ ، فترکہ ، فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : واللّٰہ ، للّٰہ أقدر علیک منک علیہ ، قال : فأعتقہ ۔ ”وہ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے۔ وہ کہنے لگا : میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ وہ مارتے رہے۔ اس نے کہا : میں اللہ کے رسول کی پناہ میں آتا ہوں، اس پر انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس غلام پر قادر ہو۔ انہوں نے غلام کو آزاد کر دیا۔”(صحیح مسلم : ١٦٥٩)
تبصرہ : صحیح مسلم ہی میں ہے کہ اس موقع پر نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے تھے ، اس لیے غلام نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہہ دیا کہ میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ چاہتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر احترام میں سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو چھوڑ دیا۔علمائے حق کہتے ہیں کہ :
وإن استعاذ بالمخلوق الحیّ الحاضر فیما یقدر علیہ فجائز ۔
”اگر کوئی شخص کسی زندہ اور حاضر مخلوق کی پناہ اس بارے میں مانگے جس پر وہ قادر بھی ہو تو یہ جائز ہے۔” کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے:
(( فمن وجد ملجأ أو معاذا فلیعذ بہ )) ”جو شخص کوئی پناہ پائے ، اس میں آ جائے۔”(صحیح البخاری : ٧٠٨٢، صحیح مسلم : ٢٨٨٦)
جناب احمد رضا خان بریلوی اس حدیث سے اپنا باطل عقیدہ ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”الحمدللہ! اس حدیث صحیح کے تیور دیکھیے، حیا ہو تو وہابیت کو ڈوب مرنے کی بھی جگہ نہیں۔ یہ حدیث تو خدا جانے بیمار دلوں پر کیا کیا قیامتیں توڑے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوہائی دنیا میں ان کی دوہائی مچانے کو بہت تھی نہ کہ وہ بھی یوں کہ سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ وہ اللہ عزوجل کی دوہائی دیتا رہا ، میں نے نہ چھوڑا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوہائی دی ، فوراً چھوڑ دیا۔”(الامن والعلی از احمد رضا خان بریلوی : ص ٩٢)
اگر کوئی بریلوی ہوش میں ہو تو بتائے کہ دوہائی کی بات کہاں سے آئی؟ بات تو پناہ کی ہو رہی ہے اور وہ بھی زندہ اور حاضر شخص کی پناہ کی۔ اس سے بدعتی دوہائی کا ثبوت کہاں؟
دلیل نمبر4 : امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بینا رجل یضرب غلاما لہ ، وہو یقول : أعوذ باللّٰہ ، إذ بصر برسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : أعوذ برسول اللّٰہ ۔۔۔
”ایک صاحب اپنے غلام کو مار رہے تھے اوروہ کہہ رہا تھا کہ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اتنے میں غلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا۔ کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آتا ہوں۔ فوراً اس صاحب نے کوڑا ہاتھ میں دیا اور غلام کو چھوڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! اللہ مجھ سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی پناہ دینے والے کو پناہ دی جائے۔ اس صاحب نے کہا : یا رسول اللہ! وہ تو اللہ کے لیے آزاد ہے۔”
(مصنف عبد الرزاق : ٩/٤٤٥۔٤٤٦، ح : ١٧٩٥٧)
تبصرہ : یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے کیونکہ :
1 اس کا راوی عمرو بن عبید ”متروک” اور”کذاب” ہے۔
2 یہ امام حسن بصری کی ”مرسل” روایت ہے۔ وہ براہِ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں۔
3 اس میں امام عبدالرزاق اور امام سفیان بن عیینہ دونوں ”مدلس” ہیں اور بصیغہئ عن روایت کر رہے ہیں۔
اس جھوٹی روایت پر اپنے عقیدے کی بنیاد ڈالتے ہوئے جناب احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں : ”الحمدللہ ! اس حدیث نے تو اور بھی پانی سر سے تیر کر دیا۔ صاف تصریح فرما دی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کی دونوں دوہائیاں بھی سنیں اور پہلی دوہائی پر ان کا نہ رُکنا اور دوسری پر فوراً باز رہنا بھی ملاحظہ فرمایا مگر افسوس وہابیت کی ذلت و مردودیت کہ نہ تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس غلام سے فرماتے ہیں کہ تو مشرک ہو گیا۔ اللہ کے سوا میری دوہائی دیتا ہے اوروہ بھی کس طرح کہ اللہ عزوجل کی دوہائی چھوڑ کر ۔ نہ آقا اسے ارشاد کرتے ہیں کہ یہ کیسا شرک اکبر ، خدا کی دوہائی کی وہ بے پرواہی اور میری دوہائی پر یہ نظر۔ ایک تو میری دوہائی ماننی اور وہ بھی یوں کہ خدا کی دوہائی نہ مان کر۔ افسوس آقا و غلام کو مشرک بنانا درکنار خود جو اس پر راضی ہوئے ہیں ، وہ کس مزے کی بات ہے کہ اللہ مجھ سے زیادہ اس کا مستحق ہے ، دوہائی تو اپنی بھی قائم رکھی اور اپنی دوہائی دینے پر پناہ دینی بھی قائم رکھی۔صرف اتنا ارشاد ہوا کہ خدا کی دوہائی زیادہ ماننے کے قابل تھی۔”(الامن والعلی : ص ٩٣)
جھوٹ کے بل بوتے پر ”اعلیٰ حضرت” کی دوہائی بھی آپ نے سنی۔ بات پناہ کی تھی ، دوہائی کہاں سے آئی؟ان تمام احادیث پر ”اعلیٰ حضرت” صاحب نے یوں شہ سرخی جمائی :
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام آدمیوں کے مالک ہیں۔”
سبحان اللہ! کیسے ”مضبوط” دلائل ہیں اور کیسے نِرالے استنباطات ہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.