973

رد بدعات ۔۔علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

ردّ ِ بدعات

فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا ) (المائدۃ : ٥/٣)
”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور تم پراپنی نعمت کو مکمل کردیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کودین کے طورپر پسند کیا ہے ۔”
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تنصیصاً وتعلیلاً دینِ اسلام کی تکمیل کی خوشخبری سنائی ہے ۔
حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ (٧٠١۔ ٧٧٤ھ) لکھتے ہیں :      ھذہ أکبر نعم اللّٰہ عزّ وجلّ علی ھذہ الأمّۃ حیث أکمل تعالی لھم دینھم ، فلا یحتاجون إلی دین غیرہ ، ولا إلی نبی غیر نبیّھم صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ ، ولھذا جعلہ اللّٰہ تعالیٰ خاتم الأنبیاء وبعثہ إلی الإنس والجنّ ، فلا حلال ولا إلّا ما أحلّہ ، ولا حرام إلّا ما حرّمہ ، ولا دین إلّا ما شرعہ ۔     ”یہ اس امت پراللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اس نے ان کے لیے ان کا دین مکمل کردیا ہے ، وہ کسی اور دین کی طرف محتاج نہیں ، نہ اپنے نبی کے علاوہ کسی نبی کی طرف محتاج ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنا کر جن وانس دونوں کی طرف بھیجا ہے ۔ حلال وہی ہے ، جس کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا ہے اورحرام وہی ہے ، جس کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اوردین صرف وہی ہے ، جسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کردیا ہے ۔”(تفسیر ابن کثیر : ٢/٤٦٥)
سیدنا عرباض بن ساریہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد ترکتکم علی البیضاء ، لیلھا کنھارھا ، لا یزیغ بعدی عنھا إلّا ھالک ۔
”یقینا میں نے تم کو ایک واضح راستے پر چھوڑا ہے ، جس کی رات اس کے دن ہی کی طرح (واضح) ہے ۔ میرے بعد اس سے صرف ہلاک ہونے والا شخص ہی ہٹے گا ۔”
(مسند الامام احمد : ٤/١٢٦، سنن ابن ماجہ : ٤٣، السنۃ لابن ابی عاصم : ٤٨، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٩٦، وسندہ، حسنٌ)
دین مکمل ہے ، اس میں کمی وبیشی کی گنجائش نہیں ۔ بدعت دین میں اضافہ ہے ، دین میں اضافہ کفار کی تقلید ہے ۔ بدعت دین کے نام پر دین کے خلاف گھناؤنی سازش ہے ۔ بدعت اسلام دشمنی کی واضح دلیل ہے ۔ بدعت گناہ کی تجارت ہے ۔
ہر بدعت ظلمت وضلالت ہے ۔ بدعت اتباعِ نفس ہے ۔ بدعت ِ انہدام ِ اسلام ہے ۔ ہر بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے ۔ جس کام کی اصل قرآن وحدیث میں نہ ہو ، وہ دین کا کام کیسے ہوسکتا ہے ؟
علامہ شاطبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      فاعلموا أنّ البدعۃ لا یقبل معھا عبادۃ من صلاۃ ولا صیام ولا صدقۃ ولا غیرھا من القربات ومجالس صاحبھا تنزع منہ العصمۃ ویوکّل إلی نفسہ ، والماشی إلیہ وموقّرہ معین علی ھدم الإسلام ، فما الظّنّ بصاحبھا ، وھو ملعون علی لسان الشّریعۃ ، ویزداد من اللّٰہ بعبادتہ بعدا ، وھی المظنّۃ إلقاء العداوۃ والبغضاء ، ومانعۃ من الشّفاعۃ المحمّدیّۃ ، ورافعۃ للسّنن الّتی تقابلھا ، وعلی مبتدعھا إثم من عمل بھا ، ولیس لہ توبۃ ، وتلقی علیہ الذّلّۃ والغضب من اللّٰہ ، ویبعد عن حوض رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ویخاف علیہ أن یکون معدودا فی الکفّار الخارجین عن الملّۃ ، وسوء الخاتمۃ عند الخروج من الدّنیا ، ویسودّ وجہہ فی الآخرۃ ، یعذّب بنار جھنّم ، وقد تبرّأ منہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وتبرّأ منہ المسلمون ، ویخاف علیہ الفتنۃ فی الدّنیا زیادۃ إلی عذاب الآخرۃ۔۔۔     ”جان لوکہ بدعت کے ہوتے ہوئے نماز ، روزہ اور صدقہ وغیرہ کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ بدعتی کی مجالس سے عصمت چھین لی جاتی ہے ، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔ بدعت کی طرف چلنے والا اور اس کی توقیر کرنے والا اسلام کو منہدم کرنے پر تعاون کرنے والا ہے ۔اب بدعتی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ وہ تو شریعت کی زبانی ملعون ہے ، وہ اپنی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دُور ہی ہوتا ہے ۔ بدعت دشمنی وبغاوت ڈالنے کاسبب ، محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو روکنے والی اوراپنے مقابلے میں آنے والی سنتوں کو ختم کرنے والی ہوتی ہے ۔ اس کو ایجاد کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہو گا ، جو اس پر عمل کریں گے ۔اس کے لیے کوئی توبہ نہیں ہوگی ۔ اس پر ذلت اور اللہ تعالیٰ کا غضب ڈال دیا جائے گا ، وہ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے دُور کردیا جائے گا ، اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسلام سے خارج کفا رمیں شمار ہوجائے اور دنیا سے جاتے ہوئے سوئے خاتمہ کا شکار ہوجائے ۔ آخرت میں اس کا چہرہ سیاہ ہوجائے گااور اسے جہنم کا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے بیزاری کا اعلان کردیا ہے ، مسلمان بھی اس سے بری ہیں ۔ ڈر ہے کہ آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ اسے دنیا میں بھی کوئی بڑا فتنہ آن لے ۔”
(الاعتصام للشاطبی : ١/١٠٦۔١٠٧)
فقیہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :      إنّ أحسن الحدیث کتاب اللّٰہ ، وأحسن الھدی ھدی محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وشرّ الأمور محدثاتھا ، وإنّ الشّقیّ من شقی فی بطن أمّہ ، وإنّ السّعید من وعظ بغیرہ ، فاتّبعوا ولا تبتدعوا ۔
”بلاشبہ بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ، بدترین کام بدعت کے کام ہیں ۔ بدبخت وہی ہے ، جو اپنے ماں کے پیٹ میں بدبخت ہوگیا تھا (تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا )اور نیک بخت وہ ہے ، جو اپنے غیر کے ساتھ نصیحت کیا جائے ، لہٰذا تم اتباع کرو ، بدعت ایجاد نہ کرو۔”(الاعتقاد للبیہقی : ٣٠٦، وسندہ، صحیحٌ)
امام ِ ربانی شیخ الاسلام ثانی ابن القیم  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      فإن السّنّۃ بالذّات تمحق البدعۃ ، ولا تقوم لھا ، وإذا طلعت شمسھا فی قلب العبد قطعت من قلبہ ضباب کلّ بدعۃ وأزالت ظلمۃ کلّ ضلالۃ ، إذ لا سلطان للظّلمۃ مع سلطان الشّمس ، ولا یری العبد الفرق بین السّنّۃ والبدعۃ ، ویعینہ علی الخروج من ظلمتھا إلی نور السّنّۃ إلّا المتابعۃ والھجرۃ بقلبہ کلّ وقت إلی اللّٰہ بالاستعانۃ والإخلاص وصدق اللّجإ إلی اللّٰہ والھجرۃ إلی رسولہ بالحرض علی الوصول إلی أقوالہ وأعمالہ وھدیہ وسننہ ، فمن کانت ھجرتہ إلی اللّٰہ ورسولہ فھجرتہ إلی اللّٰہ ورسولہ ، ومن ھاجر إلی غیر ذلک فھو حظّہ ونصیبہ فی الدّنیا والآخرۃ ۔ واللّٰہ المستعان !
”سنت خود بخود بدعت کو ختم کرتی ہے ، بدعت، سنت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ جب سنت کا سورج کسی بندے کے دل میں طلوع ہوجاتا ہے تو اس کے دل سے ہر بدعت کی دھند کو ختم کردیتا ہے اور ظلمت کے ہر اندھیرے کو زائل کردیتا ہے ، کیونکہ سورج کی طاقت کے سامنے ظلمت کی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔آدمی سنت اوربدعت میں کوئی فرق نہیں سمجھتا ، اسے بدعت کی ظلمت سے سنت کی روشنی کی طرف صرف یہی بات لے جاسکتی ہے کہ آدمی سنت کی پیروی کرے ، اپنے دل کو ہر وقت سب کچھ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے استعانت ، اخلاص اور سچی تڑپ میں رکھے اور سب کچھ چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، اعمال ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے طریقے کی تلاش میں رہے ۔(سب کچھ چھوڑ کر)جس آدمی کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہوئی ، اس کی ہجرت مقبول ہوگی اور جس نے کسی غیر کی طرف ہجرت کی تو دنیا وآخرت وہی اس کا نصیب وحصہ ہے ۔”
(مدارج السالکین لابن القیم : ١/٣٧٤)
بدعت بے اصل اوربے ثبوت کام کو کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
( وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ) (الاسراء : ١٧/٣٦)
”اور آپ اس چیز کے پیچھے نہ پڑیں ، جس کا آپ کو علم نہیں ۔”
مزید فرمایا :      ( إِنْ یَّتَّبِعُوْنَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْأَنْفُسُ وَلَقَدُ جَاءَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّھِمُ الْھُدٰی ) (النجم : ٥٣/٢٣)
”وہ تو صرف ظن اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آئی ہے ۔”
علم تو قرآن وحدیث ہے ۔ جس دین کے ثبوت پردلیل شرعی نہ ہو ، وہ بغیر علم کے ہوا اور وہ بدعت ہے ۔ بدعت نفس پرستی کا نتیجہ ہے ۔
فرمانِ باری تعالیٰ : ( قُلْ یٰۤأَھْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْا أَھْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَضَلُّوْا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیْلِ )(المائدۃ : ٥/٧٧)
”(اے نبی ! کہہ دیجیے )اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور نہ ان لوگوں کی راہ پرچلو ، جو پہلے خود گمراہ ہوئے اور پھر بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔”
نیز فرمایا : ( وَإِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِأَھْوَائِھِمْ بِغَیْرِ عَلْمٍ ) (الانعام : ٦/١١٩)
”اور بے شک بہت سے لوگ اپنی خواہشات کے ساتھ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں۔”
یہ آیت ِ کریمہ بدعتی کی مذمت کرتی ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے بغیر دین میں بدعت جاری کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ۔
مزید فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( لِیَحْمِلُوْا أَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا یَزِرُوْنَ ) (النحل : ١٦/٢٥)
”تاکہ وہ روز ِ قیامت اپنے پورے بوجھ بھی اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھ بھی ، جن کو انہوں نے بغیر علم کے گمراہ کیا ، خبردار برا ہے جو وہ بوجھ اٹھائیں گے ۔”
بدعتی ، بدعت کا وبال سر پر اٹھائے گا ، بدعت کو رائج کرنے کا وبال بھی اس کے سرہوگا ۔
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ومعلوم أنّ کلّما لم یسنّہ ولا استحبّہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ولا أحد من ھؤلاء الّذین یقتدی بھم المسلمون یکون من البدع المنکرات ، ولا یقول أحد فی مثل ھذا : إنّہ بدعۃ حسنۃ ، إذ البدعۃ الحسنۃ عند من یقسم البدع إلی حسنۃ وسیّئۃ لابدّ أن یستحبّھا أحد من أھل العلم الّذین یقتدی بھم ، ویقوم دلیل شرعیّ علی استحبابھا ، وکذلک من یقول : البدعۃ الشّرعیّۃ کلّھا مذمومۃ لقولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی الحدیث الصّحیح : (( کلّ بدعۃ ضلالۃ )) ویقول عمر فی التّراویح : نعمۃ البدعۃ ھذہ ، إنّما سمّاھا بدعۃ باعتبار وضع اللّغۃ ، فالبدعۃ فی الشّرع عند ھؤلاء ما لم یقم دلیل شرعیّ علی استحبابہ ، ومآل القولین واحد ، إذ ھم متفقون علی أنّ ما لم یستحبّ أو یجب من الشّرع فلیس بواجب ولا مستحبّ ، فمن اتّخذ عملا من الأعمال عبادۃ ودینا ، ولیس ذلک فی الشّریعۃ واجبًا ولا مستحبًا فھو ضالّ باتّفاق المسلمین ۔۔۔     ”یہ بات تو معلوم ہے کہ ہر وہ چیز جسے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جاری نہیں کیا، نہ اسے پسند کیا ہے اورنہ ہی اسے کسی اس شخص نے پسند کیا ہے ، جن کی مسلمان اپنے دین میں پیروی کرتے ہیں ، وہ منکر بدعات میں سے ہے ، کوئی بھی اس طرح کی بات کو بدعت ِ حسنہ نہیں کہتا ، کیونکہ جو شخص بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرتا ہے ، اس کے نزدیک بدعت ِ حسنہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان اہل علم میں سے کوئی اس کو مستحب قرار دے ، جن کی پیروی کی جاتی ہے ، نیز اس کے استحباب پر کوئی دلیل شرعی قائم ہو ۔ اسی طرح جو شخص کہتا ہے کہ صحیح حدیث میں رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ہرشرعی بدعت مذمو م ہے : (( کلّ بدعۃ ضلالۃ ))    (ہر بدعت گمراہی ہے)، اورسیدنا عمر  رضی اللہ عنہ تراویح کے بارے میں جو فرماتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ، اس کا نام انہوں نے لغت کی وضع کے اعتبار سے رکھا ہے ، لہٰذاان کے نزدیک شریعت میں ہر وہ کام بدعت ہے ، جس کے استحباب پر کوئی دلیل شرعی قائم نہ ہو ۔ دونوں اقوال کا نتیجہ ایک ہی ہے ، کیونکہ سب اس بات پر تو متفق ہیں کہ شریعت میں جو کام واجب یا مستحب نہیں ، وہ واجب یا مستحب نہیں ہوسکتا ، چنانچہ جس نے کسی ایسے عمل کو اختیار کیا ، جو شریعت میں واجب یا مستحب نہیں ہے تو ایسا شخص باتفاق المسلمین گمراہ ہے۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٧/١٥٢)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.