2,706

سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ قاتل عمار ہیں؟

کیا سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ قاتلِ سیدنا عماررضی اللہ عنہ ؟
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالےسے جب بات ہوتی ہےتو مرزا صاحب بخاری ومسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی(باغی گروہ کے حوالے سے ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں)سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ گروہ میں سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھےاور سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سیدنا عمار شہید ہوئے، ان کے بقول مسند احمد میں حدیث موجود ہے کہ جس میں سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ خود یہ بات بتائی کہ میں نے قتل کیا ۔
اب مرزا صاحب کی منافقت تو یہ ہےکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کی بشارت بھی ثابت ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعریف ان کے بارے میں موجود ہے جیسا کہ ہم کئی بار یہ بات بتا چکے ہیں اس کے باوجود سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو مطعون کرتے ہیں اور پمفلٹ میں سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ سیدنا لکھاہے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ابو الغادیہ کو بھی سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ لکھاہےلیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ حضرت لکھا ہے،سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے نام کےساتھ حضرت لکھا ہے اور سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کےساتھ بھی حضرت ہی لکھا۔
ہم پوچھتے ہیں کہ مرزا صاحب!اس کی وجہ کیا ہے؟ مرز اصاحب کے چاہنے والے اور ان کو سننےو الے بھی ان سے پوچھیں کہ اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں اور اگر آپ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا احترام ایک جیسا کرتے ہیں تو اس دوغلی پالیسی کی وجہ کیا ہے؟اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ناموں کےساتھ سیدنا اور جب کہ سیدنا معاویہ کے نام کے ساتھ حضرت لکھا ہے،سیدنا مغیرہ بن شعبہ کے نام کےساتھ حضرت لکھا ہے اور سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنھم کےساتھ بھی حضرت ہی لکھا، سیدنا کیوں نہیں لکھا؟ آخر اس منافقت کی وجہ کیا ہے؟
منافقت پر منافقت یہ ہے کہ سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں مرزا صاحب دعوی کرتے ہیں کہ وہ قاتل عمار رضی اللہ عنہ ہیں ، اگر سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ ان کے بقول جہنمی ہیں اور جہنم کی پیشین گوئی ان پر فٹ ہوتی ہےتو ان کو سیدنا کیوں لکھاہے؟ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو انہوں نے حضرت لکھاہے، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جن کے ایمان کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بزبان نبوت دی ہے ان کو مرزا صاحب نے حضرت لکھا ہے سیدنا نہیں اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو بقول قرآن مرزا صاحب کے نزدیک بھی اللہ ان سے راضی ہوچکا ہے،ان کو حضرت لکھا ہے،سیدنا نہیں لکھااور جن کو مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یقینی طور پر یہ قاتلِ عمار کہتے ہیں ان کو سیدنا لکھا ہے۔یہ دوغلی پالیسی کیوں اپنائی؟
اس حوالے سے ہمارا جو موقف ہےوہ بڑاواضح ہےاگرچہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کا یہ دعوی ثابت ہے کہ میں نے تیر مارااور اس سے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئےلیکن ان کا یہ دعوی قطعی اور یقینی نہیں ہوسکتاکیونکہ مسند احمد میں (6538)ہی ایک دوسری حدیث ہےمرزا صاحب کی نظر اس حدیث پر کیوں نہیں گئی؟حنظلہ بن خولید عنبری کہتے ہیں کہ؛
بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فِي رَأْسِ عَمَّارٍ، يَقُولُ: كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنَا قَتَلْتُهُ.
میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا جب دوبندے جھگڑاکرتے ہوئےسیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئےدونوں میں سے ہر ایک کا دعوی یہ تھاکہ میں نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیاہے۔
اب دو صورتیں ہوسکتی ہیں؛
: ان دونوں میں سے ایک سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہونگے۔
: یہ دونوں دعویدار کوئی اور ہونگے۔
اگر یہ دونوں کوئی اور ہیں تو پھر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کا دعوی کرنےو الے تین لوگ ہوئے،اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ان دونوں میں سے ایک ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرا کوئی اور تھاتو پھر بھی کم ازکم دو لوگ دعویدار ہیں اس بات کہ ہم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے،اب اس صورتِ حال میں کیسے حتمی اور یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ قاتلِ عمار ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں؟اب ظاہر ہے کہ جنگ کے موقع پر کسی کے پاس اتنا اطمینان نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ یقینی طور پر یہ دعوی کرے کہ میرا تیر ہی اس کو لگا اور وہ میرے تیر کی وجہ سے ہی فوت ہوا، کیونکہ ہر طرف سے تو تیر آرہے ہوتے ہیں،جب کہ دوسرا شخص بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ میرے تیر کی وجہ سے قتل ہوئے ہیں، اب تین یا کم ازکم دو بندے دعویدار ہیں ان میں سے آپ کسی ایک کے بارے میں یقینی اور حتمی طور پر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی قاتل ہے؟ ہم اس صحیح حدیث کی وجہ سے اس بات کو نہیں مانتے کہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہی یقینی اور حتمی طور پر قاتلِ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب ایسا نہیں کیا جاسکتا تو وہ وعید کہ جس میں ہے کہ عمار کا قاتل اور اس کا مال لوٹنے والا جہنم میں جائے گا سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ پر فٹ نہیں کی جاسکتی۔
لیکن مرزا صاحب کی دوغلی پالیسی دیکھیں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے لکھا کہ اگرچہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ یہ بیعتِ رضوان والے صحابی ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ عمار کا قاتل اور اس کا مال لوٹنے والا جہنم میں جائے گا لہذا سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ “رضی اللہ عنھم ورضواعنہ”کی لسٹ سے خارج ہو جائیں گےاس حدیث کی وجہ سے، ہم کہتے ہیں کہ یہ ان کی علمی خطا ہے ان کا یہ موقف درست نہیں ہے، درست موقف ہم صحیح حدیث کی روشنی میں پیش کردیا، جن علما کاموقف یہ ہے کہ قاتل عمار رضی اللہ عنہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہیں انہوں نے بھی یہی تاویل کی ہےکہ اگرچہ مان لیا جائے کہ سیدنا ابوالغادیہ قاتل عمار رضی اللہ عنہ مان لیے جائیں تو پھر بھی باقی بشارتوں “رضی اللہ عنھم ورضواعنہ”سے وہ خارج نہیں ہونگےاس کے بعد جو بھی غلطی ہوجائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو معا ف کردے گا کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحابہ کو”رضی اللہ عنھم ورضواعنہ”کا سرٹیفیکیٹ دے دیا ہے اور سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ کسی بھی صورت صحابہ کی لسٹ سے خارج نہیں ہیں ، یہ بلکل ایسے ہی جیسے غزوہ بدر کے موقع پرجو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے بعد میں اگرچہ کسی سے غلطی ہوئی جیسا کہ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے کافروں کو مسلمانوں کے جنگی راز دے دیئے جو کہ ایک سیدھی سیدھی بغاوت ہے(صحیح بخاری میں ان کا یہ واقعہ تفصیل سے موجود ہے )تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر یہ فرمایا تھا کہ جو مرضی کرتے رہو ، میں نے تم کو معاف کردیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بغاوت جیسا عمل بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی پہلی بشارتوں کی وجہ سے ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح جو علماجو سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کو قاتلِ عمار رضی اللہ عنہ سمجھتے ہیں (علامہ البانی رحمہ اللہ کے علاوہ)ان کا بھی یہ موقف ہے کہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کی اگرچہ یہ غلطی ہے لیکن بیعتِ رضوان شریک ہونے کی وجہ سے اللہ نےاس وقت بشارت دی اس بشارت کی وجہ سے یہ غلطی ختم اور معاف ہوجائے گی، ہم نے اپنا موقف صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کردیا ہے ۔
مرز اصاحب کہتے ہیں کہ”آج بھی علما کہہ رہے ہوتے ہیں کہ دونوں ہی ٹھیک ہیں حالانکہ گورا یہ بات کبھی بھی نہیں مانے گا کہ ایک جنگ، جس میں ہزاروں لوگ مرجائیں، دونوں ہی ٹھیک ہوں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی تو سر! دونوں کیسے ٹھیک ہوگئے؟ یہ دھوکہ آپ کسی اورکو دیں۔”
مرزا صاحب! ہم تو دھوکہ دیتے ہی نہیں ہیں، جس کو آپ دھوکہ کہہ رہے ہیں وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےجس کو مرزا صاحب دھوکہ کہہ رہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرمارہے ہیں کہ؛
أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
“جو دونوں گروہوں میں سے حق کے زیادہ قریب ہوگا۔”
دونوں حق پر ہونگے لیکن ایک حق کے زیادہ قریب ہےا ور ایک تھوڑاقریب ہے۔یہ اعتراض آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کریں لیکن آپ سے سوال یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے تو خود شہید نہیں کیاسیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو، جس نے شہید کیا ہے، جس کو آپ یقینی اور حتمی قاتل قرار دیتے ہیں ان کو سیدنا کہتے ہیں اور آپ اور جنہوں نے قتل نہیں کیاان کو آپ حضرت کہتے ہیں ،آخر اس منافقت کی وجہ کیا ہے؟اور جو پمفلٹ آپ نے لکھا اس کی رو سے سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ جنتی ثابت ہورہے ہیں اور ان کو اجتہادی طور پر ایک اجر ملنے کی توقع کی جارہی ہے، خود آپ کہتے ہیں کہ ان کو ایک اجر ملے گااور دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ” دونوں کیسے ٹھیک ہوگئے؟ یہ دھوکہ آپ کسی اورکو دیں۔”تو کیا ایک اجر باطل پرست کو ملتا ہے یاحق پرست کو ایک اجر ملتا ہے؟اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو ہدایت نصیب فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.