512

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ
مرزا صاحب اکثر کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی بہترین ومستند شرح”فتح الباری لابن حجر ” ہےتو آج ہم اسی فتح الباری سے مرزا صاحب کو بتائیں گے کہ جو بات آپ اس حدیث سے سمجھنا چاہتے ہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو اس کا رد کیا ہےاور سلف صالحین میں سے کسی نے بھی وہ بات نہیں کہی جو مرزا صاحب کہتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری:7/403)فرماتے ہیں :
قِيلَ أَرَادَ عَلِيًّا وَعَرَّضَ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَقِيلَ أَرَادَ عُمَرَ وَعَرَّضَ بِابْنِهِ عبد الله
(سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں)بعض لوگوں نے کہاکہ یہاں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ہٹ کیا سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنھماکی طر ف اشارہ کرکے،اور بعض نے یہ کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکی طرف اشارہ کر کے ان کے باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ہٹ کیا ،یہ دونوں قول ہی صیغہ تمریض یعنی مرجوح ترین ہیں،ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں :
وَفِيه يعد لِأَنَّ مُعَاوِيَةَ كَانَ يُبَالِغُ فِي تَعْظِيمِ عُمَر
ان دونوں باتوں میں بعدہے،ممکن ہی نہیں ہے ایسا ہوناکیونکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی حد درجہ، بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے۔
مرزا صاحب یہ تھا فہم سلف جس کو ہم نے مان لیا اور آپ نے رد کر دیا،آپ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی توہین کی گئی جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بات تو مرجوح ترین ہےکیونکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی حد درجہ، بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے،اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یہ کہیں کہ میں ان سے خلافت کا زیادہ حقدار ہوں۔اگر آپ کے کہنے کے مطابق یہاں سے یہ مرادلی جائے کہ اس “امر” سے مراد خلافت ہے تو سلف کا فہم پھر بھی یہی کہتا ہےکہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ہٹ نہیں کی تھی،یہ ہے فہم سلف جس کی آپ مخالفت کرتے ہیں۔
بعض علمانے تو یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ایک محاورہ ہےجوعربی زبان میں استعمال ہوتاہےجیسے عربوں میں یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ فلاں بندہ گدھے سے بھی عقل والا ہے، فلاں دیوار سے بھی زیادہ عقل رکھتا ہے۔۔تو یہاں لفظا ایسا کہا گیا ہے حقیقت
میں ایسی مراد بلکل نہیں ہوتی،یہ بطور محاورہ، مبالغہ کرنے کے لیے کہا گیا ہےحالانکہ دیوار میں کون سا عقل ہوتی ہے۔
فائدہ؛لفظقِيلَ یہ صیغہ تمریض ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ قول مرجوح ترین ہوتا ہے،اس کی کوئی حثییت نہیں، کسی کا رد کرنے کے لیے اس کو پیش کیا جاتا ہے۔
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی حبیب بن مسلمہ نے کہا :
حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ
آپ تو بچا لیے گئے ہیں۔
اب مرزا صاحب کہتے ہیں کہ اگر وہاں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھمابول پڑتے تو ان کی جان کو خطرہ بن جانا تھا یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تلوار کے زور پرلوگوں کو قتل کرواتے تھے۔۔نعوذ باللہ ۔
جب کہ اس حدیث کی شرح میں ابن ھبیرہ ذہلی(الافصاح عن معانی الصحاح:4/206)فرماتے ہیں کہ :
يعني أن الله تعالى عصمه من الخطأ
ان کے بچا لیے جانے کا مطلب یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو غلطی سے بچالیا۔
خلاصہ کلام: معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھماکا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں تھاورنہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماسیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت ہی نہ کرتے،جس طرح مرزا صاحب بیان کرتےہیں اگر معاملہ اتنا ہی خراب تھاتو انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اللہ اور اس کے رسول کی بیعت کیوں کی؟ان کو اپنا حاکم کیوں تسلیم کیا؟سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھمابیان کرتے ہیں کہ میں اس موقعے پر بھی خاموش رہا کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کوئی بات کروں اور پھر اس کا غلط مطلب لے لیا جائے جس کی وجہ سے امت میں افتراق پیدا ہو،لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا حاکم تسلیم کر رہے ہیں،میرے بولنے سے کہیں اختلاف پید انہ ہو جائےاور فرماتے ہیں کہ میں نے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی جنت کی نعمتوں کو یاد کیاکہ مجھے اس اختلاف نہ کرنے کی وجہ سے اللہ اپنی نعمتیں دےگا۔
انجینئر صاحب! اگر یہ اختلاف کرنا حق کو واضح کرنا تھا، کوئی ایسی بات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو اصولی تھی اور عین اسلام تھی تو سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکو وہ بات کر کے جنت کی نعمتیں حاصل کرنی چاہیں تھیں نا؟حق بات سے خاموشی اختیار کر کے جنت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کا کیا مطلب ہے؟تو اس موقعے پر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکو بزدل ثابت کرنے کی کوشش کی گی کہ انہوں نے کلمہ حق نہیں کہا اور خاموش رہےاور اللہ کی جنت کی نعمتوں کو یاد کیا ،اگر جنت کی نعمتوں کا حصول کلمہ حق سے تھا تو وہ خاموش کیوں رہے؟بغیر کلمہ حق کے جنت کی نعمتوں کے حصول کا کیا مطلب؟
سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماتو خاموش اس لیے رہے کہیں ایسا نہ وہ کہ میری بات کا غلط مطلب لے لیا جائے اور امت میں اختلاف،خانہ جنگی شروع ہو جائے۔
اب یہ حدیث تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ سیدنامعاویہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے پہلے ہی اقتدار کے لالچی تھے، پتہ نہیں انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور کیسے برداشت کیا؟ معاذ اللہ ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح لکھ دیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کی اور نہ ہی وہ ایسی بات کر سکتے ہیں کیونکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بے حدّتعظیم کیا کرتے تھےلیکن جس بات کا سلف نے ردّ کیا آپ نے فہم سلف کو جھٹلاتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیا،آپ لوگوں کو تو کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی سب سے مستند شرح”فتح الباری” ہے آپ خود اس فتح الباری کو کیوں نہیں مانتے؟کیا آپ کا فہم محدثین کے فہم سے زیادہ تیز ہے؟ کیا آپ کو ان سے زیادہ عربی آتی ہے؟ کیا آپ محدثین سے زیادہ علم حدیث رکھتے ہیں؟ کیا فہم سلف اس کو کہتے ہیں کہ آپ کی سمجھ میں وہ بات آئے جو سلف نے ان احادیث سے نہیں سمجھی؟اللہ آپ کوہدایت نصیب فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.