929

عدل ہو تو ایسا ۔ حافظ ابو یحییٰ نورپوری

حافظ ابو یحییٰ نورپوری
موسیٰ اور اس کے ساتھی بکریاں چروا رہے تھے ، بکریاں تو لوگ آج بھی چرواتے ہیں ، لیکن ان کے چروانے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ بکریا ں اور بھیڑئیے اکٹھے چر رہے تھے ، پھر کوئی بھیڑیا کسی بکری پر حملہ نہیں کر رہا تھا ، حالانکہ بھیڑ یے تو بکریوں کو دیکھتے ہی پھاڑ کھاتے ہیں ، لیکن اب حالات بدلنے والے تھے ، ایک رات اچانک ایک بھیڑ ئیے نے ایک بکری پر حملہ کر دیا ، وہ سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا ، یہ بات تو ان کی سوچ سے بھی باہر تھی ، البتہ موسیٰ بن اعین کا روشن دماغ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا ، وہ کہنے لگا ، جس کے عدل و انصاف کی برکت سے انسان ہی نہیں بھیڑئیے بھی مہذب بن گئے تھے ، محسوس ہوتا ہے کہ وہ مردِ عادل آج اس دنیا میں نہیں رہا ، تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ واقعی وہ انصاف کا پیکر دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف روانہ ہو گیا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شخصیت کون تھی ؟ چلیں آپ کو بتادیتے ہیں ، یہ وہ ہستی ہے جسے لوگ ”فاروقِ ثانی ” کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، آپ کا نام عمر تھا ، سلسلہ نسب یوں تھا :
عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن الحکم بن ابی العاص بن امیہ القرشی ۔
یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تخلیق ہی اسی اعلیٰ مقصد کے لیے کی تھی ، نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے بعد دنیا میں عدل و انصاف کی ایک انوکھی مثال قائم کی ۔
ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ جن اسلاف کے آپ جانشین تھے ، انہوں نے بعد والوں کے لیے سبق ہی یہی چھوڑا تھا، چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت ہی دیکھ لیں ، آپ کی زندگی عدل و انصاف کا مرقع نظر آتی ہے ، جس احسن انداز سے آپ نے حکمرانی کی ذمہ داری نبھائی ، وہ محتاجِ بیان نہیں ، اپنے بیگانے سب اس کے معترف ہیں ، ہم صرف ان کے وقت ِ رخصت کا ایک واقعہ بیان کئے دیتے ہیں:
”عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو وار کر زخمی کیا گیا اور دنیا میں آپ کا آخری دن تھا ، آپ نے اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بلا کر فرمایا ، دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے ؟ حساب کیا گیا تو تقریباً ٨٦ ہزار تھا ، فرمایا ، میرے خاندان والوں کے پاس اتنا مال ہو تو درست ورنہ قریبی رشتہ داروں سے مانگ کر پورا کرو اور بیت الما ل میں جمع کروا دو ۔
ذرا غور کیجیے کہ اتنی انصاف پسندی کے باوجود بھی جب آپ کو کہنے والے نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ خوش بخت ہیں ، پہلے آپ کو صحابیت کا شرف حاصل ہو ا ، پھر اسلام میں مرتبہ و مقام ملا ، پھر خلافت ملی تو آپ نے عدل و انصاف کی روایت قائم کی ، پھر اب آپ کو شہادت ملنے والی ہے ، آپ نے فرمایا ، تم اس سب کچھ کو بہت عظیم عمل سمجھتے ہو ، میں تو چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ میری نجات کے لیے ‘گزارا’ بن جائے ، ڈر ہے کہ کہیں میرے لیے وبال نہ جائے !” (صحیح بخاری : ٣٧٠٠)
یہ تو تھے ہمارے اسلاف ! لیکن اگر آج کے حکمرانوں کی بداعتدالیوں اور عیش و عشرت پر نظر دوڑائی جائے تو حیرانی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، آج کے حکمران حکومت کو ایک نہایت نفع بخش کاروبار سمجھ کر لوٹ کھسوٹ کی ساری حدیں عبور کر جاتے ہیں ، ہر حکمران اپنے دورِ حکومت میں قوم کا مال دونوں ہاتھوں سے لوٹتا اور دنیا کے امیر ترین اشخاص کی لسٹ میں شامل ہو کر واپس جاتا دکھائی دیتا ہے ۔
اُدھر ہمارے اسلاف کی اتنی سادگی اور انصاف پسندی کی برکت سے پوری دنیائے انسانیت نہیں ، بلکہ دنیائے حیوانیت بھی ان سے لرزتی تھی اور اِدھر ہمارے آج کے حکمرانوں کی عیش پرستیوں اور بدعنوانیوں کی نحوست سے مسلمان غیروں کے غلام بن چکے ہیں ۔
یہ سب کچھ دیکھ کر شاعر کا یہ شعر یاد آجاتا ہے :
؎ وہ معززتھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ہے آج بھی کوئی حکمران جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیرت پر عمل کر تے ہوئے عدل وانصاف کو اپنا وطیرہ بنا کر نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مصداق بن جائے اور دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی کو اپنا مقدر بنا لے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سبعۃ یظلّہم اللّٰہ فی ظلّہ یوم لا ظلّ الّا ظلّہ : الامام العادل
”سات اشخاص کو اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت )اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ دے گا ، جس دن اس کے (عرش کے )سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ، ان میں سے ایک عدل وانصا ف کرنے والا حکمران ہو گا ۔۔۔” (صحیح بخاری : ٦٨٠٦، صحیح مسلم : ١٠٣١)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.