1,516

اللہ کہاں ہے؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری، شمارہ 79

ہر دَور کے مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ :
اہل سنت والجماعت کا اجماعی اور بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے اپنے عرش پر بلند ہے، ہر جگہ موجود نہیں۔یہ عقیدہ ہر دَور کے مسلمانوں کا بنیادی نظریہ رہا ہے۔
n امامِ کبیر،حافظ،ابو عمر،طلمنکی رحمہ اللہ (م : 429ھ)فرماتے ہیں :
أَجْمَعَ أَھْلُ السُّنَّۃِ عَلٰی أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ عَلٰی حَقِیقَتِہٖ، لَا عَلَی الْمَجَازِ ۔
’’اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔یہ استوا حقیقی ہے،مجازی نہیں۔‘‘(اجتماع الجیوش الإسلامیۃ لابن القیّم : 142/2)
n شیخ الاسلام،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
اَلْقَوْلُ بِأَنَّ اللّٰہَ فَوْقَ الْعَرْشِ؛ ھُوَ مِمَّا اتَّفَقَتْ عَلَیْہِ الْـأَنْبِیَائُ کُلُّھُمْ، وَذُکِرَ فِي کُلِّ کِتَابٍ أُنْزِلَ عَلٰی کُلِّ نَبِيٍّ أُرْسِلَ، وَقَدِ اتَّفَقَ عَلٰی ذٰلِکَ سَلَفُ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتُھَا ۔
’’اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا عقیدہ ایسا نظریہ ہے جس پر تمام کے تمام انبیا متفق تھے اور ہر مرسل نبی پر جو کتاب نازل ہوئی،اس میں یہ نظریہ موجود تھا۔ امت ِمحمدیہq کے اسلاف اور ائمہ بھی اس پر متفق ہیں۔‘‘
(بیان تلبیس الجہمیّۃ في تأسیس بدعہم الکلامیّۃ المعروف بہ نقض التأسیس : 9/2)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں :
وَاللّٰہُ فَوْقَ عَرْشِہٖ کَمَا أَجْمَعَ عَلَیْہِ الصَّدْرُ الْـأَوَّلُ، وَنَقَلَہٗ عَنْہُمُ الْـأَئِمَّۃُ ۔
’’اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بلند ہے،جیسا کہ صدر ِاوّل کے مسلمانوں کا اس پر اجماع تھا اور ائمہ کرام نے اس اجماع کو نقل بھی کیا ہے۔‘‘(العلوّ لعليّ الغفّار، ص : 596)
اس کے برعکس ارسطو،افلاطون،فیثاغورث،ابن سینا،فارابی،ابوہُذَیْل علاف معتزلی اور ابوعلی جبائی معتزلی کی روحانی اولاد کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔یہ عقیدہ و نظریہ قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کے خلاف ہے۔
فطری نظریہ :
اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوقات سے بلند تسلیم کرنا فطری عقیدہ ہے،اسی لیے ہر مخلوق کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فطری طور پر یہ بات ڈال دی گئی ہے۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
چیونٹی کا نظریہ :
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’خَرَجَ نَبِيٌّ مِّنَ الْـأَنْبِیَائِ یَسْتَسْقِي، فَإِذَا ہُوَ بِنَمْلَۃٍ رَّافِعَۃٍ بَعْضَ قَوَائِمِہَا إِلَی السَّمَائِ، فَقَالَ : ارْجِعُوا، فَقَدِ اسْتُجِیبَ لَکُمْ مِّنْ أَجْلِ شَأْنِ النَّمْلَۃِ ۔‘
’’ایک نبی(اپنی قوم کے ساتھ)اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے نکلے۔اچانک ان کے سامنے ایک چیونٹی آسمانوں کی طرف اپنی کچھ ٹانگیں اٹھائے ہوئے(بارش کی دُعا کر رہی) تھی۔نبی نے فرمایا :واپس لوٹ جاؤ،کیونکہ چیونٹی کے عمل کی وجہ سے تمہاری دُعا قبول کر لی گئی ہے۔‘‘(سنن الدارقطني : 1797، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 325/1، 326، وسندہٗ حسنٌ، واللّفظ لہٗ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
b اس کے راوی محمد بن عون’’حسن الحدیث‘‘ہیں۔
1 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَجُلٌ مَّعْرُوفٌ ۔
’’یہ جانے پہچانے محدث ہیں۔‘‘(العلل ومعرفۃ الرجال : 211/2)
2 امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب الثقات(411/7)میں ذکر کیا ہے۔
3 امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کی حدیث کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دے کر ان کی توثیقِ ضمنی کی ہے۔
b محمد بن عون کے والد عون بن حکم بھی ’’ثقہ‘‘ہیں۔
1 امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب الثقات(281/7)میں ذکر کیا ہے۔
2 امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کی حدیث کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دے کر ان کی توثیقِ ضمنی کی ہے۔
عون بن حکم رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ سے اور امام زہری رحمہ اللہ نے ابو سلمہ رحمہ اللہ سے سماع کی تصریح کی ہوئی ہے،لہٰذا سند ’’صحیح،متصل‘‘ہے۔
چیونٹی کا فطری طور پر یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ نہیں، بلکہ اپنی مخلوقات سے بلند ہے، اسی لیے تو وہ اپنی ٹانگیں آسمانوں کی طرف بلند کیے ہوئے بارش کی دُعا کر رہی تھی اور اس کی یہ دُعا اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبول بھی فرما لی۔
سابقہ امتوں کے موحّدین کا نظریہ :
سابقہ امتوں کے موحدین کا یہی نظریہ وعقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر مستوی ہے،ہر جگہ نہیں۔اس کی بھی ایک مثال پیشِ خدمت ہے :
n سیدنا عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عمہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’مَرَرْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِي بِرَائِحَۃٍ طَیِّبَۃٍ، فَقُلْتُ : مَا ہَذِہِ الرَّائِحَۃُ یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ : ہٰذِہِ مَاشِطَۃُ بِنْتِ فِرْعَوْنَ کَانَتْ تُّمَشِّطُہَا، فَوَقَعَ الْمُشْطُ مِنْ یَّدِہَا، فَقَالَتْ : بِسْمِ اللّٰہِ، قَالَتِ ابْنَۃُ فِرْعَوْنَ : أَبِي؟ قَالَتْ : رَبِّي وَرَبُّ أَبِیکِ، قَالَتْ : أَقُولُ لَہٗ إِذًا، قَالَتْ : قُولِي لَہٗ، قَالَ لَہَا : أَوَلَکِ رَبٌّ غَیْرِي؟ قَالَتْ : رَبِّي وَرَبُّکَ الَّذِي فِي السَّمَائِ ۔‘
’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی،میں ایک پاکیزہ خوشبو کے پاس سے گزرا۔ میں نے کہا : جبریل!یہ خوشبو کیسی ہے؟انہوں نے بتایا کہ یہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی عورت (اور اس کے بیٹے کی خوشبو ہے)۔وہ اسے کنگھی کر رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی۔اس نے کہا : بسم اللہ۔فرعون کی بیٹی نے کہا : (اللہ سے تمہاری مراد)میرے والد(ہیں)؟اس نے جواب دیا : (نہیں، بلکہ)میرا اور تمہارے والد کا ربّ۔اس نے کہا : تب تو میں اپنے والد کو بتاؤں گی۔اس نے کہا: بتا دینا۔(فرعون کو بتایا گیا،تو)اس نے کہا : کیا میرے علاوہ تمہارا کوئی ربّ ہے؟ اس نے جواب دیا : میرا اور تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں کے اوپر ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 310/1، مسند أبي یعلٰی الموصلي : 25/7، واللفظ لہٗ، الأحادیث المختارۃ للضیاء المقدسي : 288، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان(2904) اور امام حاکم(496/2)H نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِسْنَادُہٗ لَا بَأْسَ بِہٖ ۔
’’اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 29/5، طبعۃ سلامۃ)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ نہ ہونے،بلکہ آسمانوں کے اوپر ہونے کا نظریہ ہر دَور کے موحدین کا متفقہ عقیدہ رہا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ :
1 سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’إِنَّ اللّٰہَ حَیِيٌّ کَرِیمٌ، یَسْتَحْیِیْ، إِذَا رَفَعَ الْعَبْدُ یَدَیْہِ، أَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا، حَتّٰی یَضَعَ فِیہِمَا خَیْرًا ۔‘
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ حیا و کرم کا پیکر ہے۔جب بندہ (اس کی طرف بغرضِ دُعا)اپنے ہاتھوں کو اٹھاتا ہے،تو اسے انہیں خالی لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے،حتی کہ وہ انہیں خیر سے بھر دیتا ہے۔‘‘
(أمــــــــــالي المحاملي بروایۃ ابن یحیی البیّع : 433، شرح السنّۃ للبغوي : 1385، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ ۔ ’’یہ حدیث حسن غریب ہے۔‘‘
مسلمانوں کو دُعا کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے ،جس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ذات ِباری تعالیٰ اپنی مخلوقات سے بلند ہے۔
2 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ گرامی روایت کرتے ہیں :
’إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَلَائِکَۃً سَیَّارَۃً، فُضُلًا، یَتَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّکْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِیہِ ذِکْرٌ؛ قَعَدُوا مَعَہُمْ، وَحَفَّ بَعْضُہُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِہِمْ، حَتّٰی یَمْلَئُوا مَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَإِذَا تَفَرَّقُوا؛ عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَی السَّمَائِ، [قَالَ :] فَیَسْأَلُہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ : مِنْ أَیْنَ جِئْتُمْ؟ فَیَقُولُونَ : جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَّکَ فِي الْـأَرْضِ، یُسَبِّحُونَکَ، وَیُکَبِّرُونَکَ، وَیُہَلِّلُونَکَ، وَیَحْمَدُونَکَ، وَیَسْأَلُونَکَ، قَالَ : وَمَاذَا یَسْأَلُونِي؟ قَالُوا : یَسْأَلُونَکَ جَنَّتَکَ، قَالَ : وَہَلْ رَّأَوْا جَنَّتِي؟ قَالُوا : لَا، أَيْ رَبِّ، قَالَ : فَکَیْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي؟ قَالُوا : وَیَسْتَجِیرُونَکَ، قَالَ : وَمِمَّ یَسْتَجِیرُونَنِي؟ قَالُوا : مِنْ نَّارِکَ یَا رَبِّ، قَالَ : وَہَلْ رَّأَوْا نَارِي؟ قَالُوا : لَا، قَالَ : فَکَیْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِي؟ قَالُوا : وَیَسْتَغْفِرُونَکَ، [قَالَ :] فَیَقُولُ : قَدْ غَفَرْتُ لَہُمْ، فَأَعْطَیْتُہُمْ مَّا سَأَلُوا، وَأَجَرْتُہُمْ مِّمَّا اسْتَجَارُوا، [قَالَ :] فَیَقُولُونَ : رَبِّ، فِیہِمْ فُلَانٌ عَبْدٌ خَطَّائٌ، إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَہُمْ، [قَالَ :] فَیَقُولُ : وَلَہٗ غَفَرْتُ، ہُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِہِمْ جَلِیسُہُمْ ۔‘
’’اللہ تبارک وتعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں،جو چلتے پھرتے رہتے ہیں اور خاص اسی مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں کہ وہ ذکر ِالٰہی کی مجالس کو تلاش کریں۔ جب وہ ذکر کی کسی محفل کو پالیتے ہیں تو ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے یوں ڈھانپتے ہیں کہ آسمانِ دنیا تک کے خلا کو پُر کر دیتے ہیں۔جب وہ (محفل سے فارغ ہو کر)بکھرتے ہیں تو آسمانوں کی طرف چڑھتے اور بلند ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھتا ہے،حالانکہ وہ اُن سے بہتر جانتا ہوتا ہے :تُم کہاں سے آئے ہو؟فرشتے جواب دیتے ہیں : ہم زمین میں موجود تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں۔وہ تیری تسبیح،تکبیر،تہلیل اور تحمید کرتے ہوئے تجھ سے کچھ مانگ رہے ہیں۔(پھر یوں مکالمہ ہوتا ہے:)
اللہ تعالیٰ : وہ مجھ سے کیا مانگ رہے ہیں؟
فرشتے : وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ : کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟
فرشتے : نہیں،ہمارے ربّ۔
اللہ تعالیٰ : اگر وہ میری جنت دیکھ لیں تو ان کے اشتیاق کا کیا عالَم ہو؟
فرشتے : (ہمارے ربّ!)وہ تیری پناہ کے بھی طلب گار ہیں۔
اللہ تعالیٰ : وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں؟
فرشتے : ہمارے ربّ! تیری آگ سے۔
اللہ تعالیٰ : کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟
فرشتے : نہیں۔
اللہ تعالیٰ : اگر وہ میری آگ دیکھ لیں تو ان کے ڈر کا کیا عالَم ہو؟
فرشتے : وہ تجھ سے مغفرت کے بھی سوالی ہیں۔
اللہ تعالیٰ : میں نے انہیں معاف بھی فرما دیا ہے، انہیں وہ کچھ عطا بھی فرما دیا ہے،جو انہوں نے مانگا ہے اور انہیں اس چیز سے پناہ بھی دے دی ہے،جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی ہے۔
فرشتے : ہمارے ربّ! ان میں موجود فلاں بندہ تو گناہ گار تھا۔وہ تو بس پاس سے گزرا اور ویسے ہی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
اللہ تعالیٰ : میں نے اسے بھی معاف فرما دیا ہے،کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں ،جن کے ساتھ بیٹھنے والا بھی بدبخت نہیں رہتا۔‘‘(صحیح مسلم : 2689)
اس حدیث سے بھی یہ عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ نہیں،بلکہ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر بلند ہے۔اسی لیے تو فرشتے مجالسِ ذکر میں شامل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں۔
3 سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّہْرِ، وَقَالَ : ’إِنَّہَا سَاعَۃٌ تُفْتَحُ فِیہَا أَبْوَابُ السَّمَائِ، وَأُحِبُّ أَنْ یَّصْعَدَ لِي فِیہَا عَمَلٌ صَالِحٌ ۔‘
’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج کے زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرتے اور فرماتے:یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ اس وقت میں میرا نیک عمل ہی اوپر چڑھے۔‘‘
(سنن الترمذي : 478، وسندہٗ صحیحٌ متّصل)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن غریب‘‘قرار دیا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر جگہ مانا جائے تو اعمال کے آسمانوں کی طرف چڑھنے کے نبوی عقیدے کی تکذیب لازم آتی ہے۔
4 سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عمہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’اتَّقُوا دَعَوَاتِ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّہَا تَصْعَدُ إِلَی السَّمَائِ، کَأَنَّہَا شَرَارٌ ۔‘
’’مظلوم کی بددعاؤں سے بچو،کیونکہ وہ آسمانوں کی طرف ایسے چڑھتی ہیں،گویا چنگاریاں ہوں۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 29/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
قَدِ احْتَجَّ مُسْلِمٌ بِعَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ، وَالْبَاقُونَ مِنْ رُّوَاۃِ ہٰذَا الْحَدِیثِ مُتَّفَقٌ عَلَی الِاحْتِجَاجِ بِہِمْ ۔
’’امام مسلم رحمہ اللہ نے عاصم بن کلیب کی حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کے باقی راویوں کے قابل حجت ہونے پر اتفاق ہے۔‘‘
اگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے، تمام مخلوقات سے بلند نہیں تو بددُعا اوپر کیوں چڑھتی ہے؟
صحابہ کرام کا عقیدہ :
صحابہ کرام] کا اتفاقی عقیدہ تھا کہ ذات ِباری تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے،ہر جگہ نہیں۔ایک دلیل ملاحظہ ہو :
b سیدنا عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عمہما کا فرمان ہے :
یُنَادِي مُنَادٍ بَیْنَ یَدَيِ الصَّیْحَۃِ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ، أَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ، [قَالَ :] فَسَمِعَہَا الْـأَحْیَائُ وَالْـأَمْوَاتُ، [قَالَ :] وَیَنْزِلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَیُنَادِي مُنَادٍ : لِمَنِ الْمَلِکُ الْیَوْمَ؟ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ۔
’’صیحہ(قیامت بپا ہونے کے وقت سخت چیخ)سے پہلے ایک آواز لگانے والا پکارے گا : لوگو! قیامت تمہارے پاس آ پہنچی ہے۔اس آواز کو زندہ اور مُردہ سب لوگ سنیں گے۔اللہ عزوجل آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرمائیں گے۔پھر ایک منادی یہ آواز لگائے گا : آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟واحد و قہار اللہ کے لیے۔‘‘
(الأھوال لابن أبي الدنیا : 27، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 437/2، وسندہٗ حسنٌ)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ نہیں،بلکہ آسمانوں کے اوپر مانتے تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا کی طرف اُترنے کا عقیدہ رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
تابعین عظام کا نظریہ :
اب کچھ مثالیں تابعین عظام کے عقیدے کی بھی ملاحظہ فرماتے جائیں :
1 سیدنا ابن عباسرضی اللہ عمہما کے مولیٰ،عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّ اللّٰہَ بَدَأَ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْـأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا یَوْمَ الْـأَحَدِ، ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ۔
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں،زمین اور ان دونوں کے مابین موجود چیزوں کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی۔پھر جمعہ کے دن عرش پر مستوی ہو گیا۔‘‘
(تفسیر ابن أبي حاتم : 1497/5، وسندہٗ حسنٌ)
2 کعب احبار،تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا خَلَقَ الْخَلْقَ؛ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ، فَسَبَّحَہُ یَعْنِي الْعَرْشَ ۔
’’اللہ عزوجل نے جب مخلوقات کو پیدا کیا تو عرش پر مستوی ہو گیا۔عرش نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی۔‘‘(تفسیر ابن أبي حاتم : 2217/7، وسندہٗ حسنٌ)
3 امام ربیعہ بن ابو عبد الرحمن (م : 136ھ)کے بارے میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کُنْتُ عِنْدَ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَسَأَلَہٗ رَجُلٌ، فَقَالَ : {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی}، کَیفَ اسْتَوٰی؟ فَقَالَ : اَلِاسْتوَائُ غَیْرُ مَجْہُولٌ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُولٍ، وَمِنَ اللّٰہِ الرِّسَالَۃُ، وَعَلَی الرَّسُولِ الْبَلَاغُ، وَعَلَیْنَا التَّصْدِیقُ ۔
’’میں ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کے پاس تھا کہ ان سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق{اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی}(رحمن عرش پر مستوی ہوا)۔ وہ کیسے مستوی ہوا؟انہوں نے فرمایا : استوا معلوم ہے،البتہ اس کی کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔پیغام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اسے پہنچا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ہے اور تصدیق کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
(العلوّ للعليّ الغفّار للذہبي، ص : 129، وسندہٗ صحیحٌ)
4 امام ابوجعفر،محمد بن احمد بن نصر،ترمذی رحمہ اللہ (295-201ھ)سے ایک شخص نے سوال کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ (ہر رات)آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔تو نزول کے بعد علوّ(بلندی)کیسے باقی رَہ جاتی ہے؟ اس پر امام موصوف نے فرمایا :
اَلنُّزُولُ مَعْقُولٌ، وَالْکَیْفُ مَجْھُولٌ، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ ۔
’’نزولِ باری تعالیٰ معلوم ہے،جبکہ اس کی کیفیت نامعلوم ہے،لیکن اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 382/1، وسندہٗ صحیحٌ)
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔باری تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا نظریہ باطل و مردود اور کتاب و سنت و اجماعِ امت سے بغاوت پر مبنی ہے۔اہل سنت والجماعت میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.