2,544

فہم سلف پر اشکالات اور ان کے جوابات ، حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ

فہم سلف…. کچھ اشکالات اور ان کے جوابات
آج جب کہ ہر فرقہ اپنے مسلک و مذہب کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرنے کی تک و دو میں سرگرم ہے، ایک عام آدمی کے لیے حق و باطل میں امتیاز کرنا خاصہ مشکل ہوا جا رہا ہے۔ قادیانی حضرات تک سب لوگ مختلف چینلز اور انٹر نیٹ پر بیٹھے لوگوں کو قرآن و سنت کے نام پر گمراہ کرنے کی مذموم سعی کر رہے ہیں۔
آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتا چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر وہمہ گیر اور آفاقی دین ہے، اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔
جی ہاں! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقینا روز بروز بڑھتے ”اسلامی فرقوں” کے پیچھے یہی دوری کا فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالانہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔
کیا آپ بھی حق و باطل میں تمیز کرنے کے لیے وہ طریقہ جاننا چاہیں گے؟ اگر آپ تیار ہیں تو لیجیے وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلاف دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیرو بھلائی کی گواہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دی ہے۔ یقینا یہ لوگ اہل حق تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلاف خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔
فہم سلف کی حجیت پر آپ کے اسی ماہنامہ السنۃ میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس بارے میں ائمہ دین اور علمائے کرام کے سنہرے اقوال پیش کیے جا چکے ہیں اور اللہ کے فضل سے ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ شائقین خصوصی طور پر شمارہ نمبر ٢٣ سے ٢٥ تک ملاحظہ فرمائیں۔ ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد قارئین کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔
لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم فقط اصلاح کی خاطر ان لوگوں کے اشکالات کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے!
تمام متلاشیان حق سے اپیل ہے کہ اللہ کے لیے وہ ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر اس تحریر کو پڑھیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
اشکال نمبر1 :
ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِہِ أَوْلِیَاءَ . (الأعراف : ٣)
”تم اس چیز کی پیروی کرو، جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو۔”
لہٰذا صرف قرآن و حدیث حجت ہے، صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لیے حجت نہیں، لہٰذا فہم سلف حجت نہیں۔”
جواب:
فہم سلف کی حجیت کے خلاف یہ سب سے بڑا اشکال ہے، لیکن یہ اشکال دراصل غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا پھر خلط مبحث کی کوشش، کیونکہ بحث یہ نہیں کہ صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لیے حجت ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و سنت پر عمل کے لیے پہلے اس کا فہم ضروری ہے۔ عمل تو تب ہی ہوگا، جب اس کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے گا۔
جب یہ بات تسلیم ہے کہ قرآن و سنت کو پہلے صحیح طور پر سمجھا جائے گا، پھر عمل کیا جائے گا تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلف، یعنی صحابہ و تابعین نے قرآن و سنت کو بہتر سمجھا ہے یا بعد والوں نے؟ اس کا فیصلہ کوئی مسلمان صرف یہی کر سکتا ہے کہ صحابہ و تابعین نے بعد والوں کے مقابلہ میں قرآن و سنت کو بہت بہتر طور پر سمجھا ہے۔ ائمہ دین کا اتفاقی فیصلہ یہی ہے۔
عمل کے لیے قرآن و سنت کا کوئی مفہوم تو بہر حال متعین کرنا ہی پڑے گا۔ اگر سلف کا فہم حجت نہیں تو کیا بعض لوگوں کا اپنا فہم حجت ہے؟ یا اگر وہ کسی بعد والے شخص سے فہم لے رہے ہیں تو کیاسلف کو چھوڑ کر ان بعد والوں کا فہم ان کے لیے حجت ہے؟
رہی یہ بات کہ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کا حکم ہے، صحابہ و تابعین کے فہم پر عمل کا نہیں تو عرض ہے کہ قرآن وسنت نے ہی ہمیں یہ راہ دکھائی ہے اور اہل حدیث کی دعوت جو کہ ”سلفی دعوت” کے نام سے معروف ہے، وہ یہی ہے کہ قرآن وسنت کا مفہوم وہی معتبر ہوگا جو سلف صالحین نے معین کر دیاہے۔ سلف کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں ہم محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ کے کچھ دروس میں سے انتخاب پیش کریں گے، جس سے یہ اشکال خصوصا اور دیگر بہت سے اشکالات عموما دور ہو جائیں گے:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ضروری ہے کہ ہم دین کا صحیح مفہوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور صحابہ کرام اور سلف صالحین کے طریقہ سے لیں۔ سابقہ حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں فرمایا ہے،میرے خیال میں وہ آپ کے علم میں ہو گی۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ، وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ…
”میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھامنا اور بدعات سے بچنا۔۔۔”
(مسند الامام احمد : ٤/١٢٦، ١٢٧، سنن ابی داو،د : ٤٦٠٧، سنن الترمذی : ٢٦٧٦، وقال : حسن صحیح، سنن ابن ماجہ : ٤٢، وصححہ ابن حبان : ٥)
ہم دیکھتے ہیں کہ اس اور اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت ، یعنی رسول کریم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کا طریقہ ہے۔ یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے ایک زائد چیز ہے، اگرچہ صرف کہنے میں ہی ہے (حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں)۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے ساتھ اس دوسری چیز کا ذکر قرآن کریم کا بھی اسلوب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں:
وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِیرًا
(النساء : ١١٥)
”اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔”
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یہاں کیوں لائی گئی؟ یہ آیت اس طرح کیوں نہ تھی کہ جو ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے تو جدھر وہ چلتا ہے، ہم چلنے دیں گے۔۔۔؟
مؤمنوں کی راہ کی مخالفت ساتھ ذکر کیوں کی گئی؟ دراصل اس میں ایک بہت ہی بڑی نصیحت ہے۔ وہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا ہر فرقہ اور رؤئے زمین پر بسنے والا ہر گروہ، جن کی تعداد کم وپیش تہتر ہے، بلکہ یہ گروہ (مختلف پہلوؤںسے) بہت ہی زیادہ ہیں۔ سب کا یہ دعوٰی ہے کہ وہ کتاب وسنت پر کار بند ہیں، حتی کہ ان جدید فرقوں میں سے سب سے آخر ی گروہ کا بھی یہ دعوٰی ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  خاتم النبیین نہیں ہیں، بلکہ ان کے نزدیک اب بھی بہت سے انبیاء باقی ہیں، پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت پر کار بند ہیں۔ اسی سے آپ باقی تمام قدیم و جدید فرقوں کا اندازہ کر لیں۔
اب ان تمام فرقوں کے درمیان فیصلہ کن چیز کون سی ہے، حالانکہ سب کا یہی دعوٰی ہے کہ وہ کتاب وسنت پر عمل کرتے ہیں؟ اس بات کا جواب اس آیت کریمہ اور سابقہ دونوں حدیثوں میں موجو دہے۔ آیت کریمہ فرماتی ہے کہ جو بھی گروہ اور فرقہ ان پہلے مؤمنوں کی راہ کو چھوڑے گا، جو کہ ہدایت اور بصیرت پر تھے، وہ گمراہ ہے، اگرچہ وہ یہ دعوٰی کرتا رہے کہ وہ کتاب و سنت پر ہے۔ جب تک وہ مسلمانوں کے طریقے اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتا رہے گا، یہ بات اس کے گمراہ فرقوں میں شامل ہونے کی دلیل ہو گی۔
چنانچہ ہر وہ عقیدہ جو ایسے گروہ سے ملے، جو اپنے عقیدے کو اجماع امت یا صحابہ کرام یا سلف صالحین کا عقیدہ ثابت نہیں کر سکتا تو وہ عقیدہ دلیل ہے کہ اس کا حامل گروہ ان بہتر فرقوں میں ایک ہے، جو کہ جہنمی ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دین صرف وہ نہیں، جو ہماری پوری دنیا کے اہل حدیث بھائیوں کے ہاں مشہور ہے۔ وہ بھائی خواہ اہل الحدیث کے نام سے معروف ہوں یا انصار السنہ کے نام سے یا سلفیوں کے نام سے یا اور کسی نام سے۔ یہ تمام نام ایک ہی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں۔ تو معاملہ اس طرح نہیں، جیسے ہمارے ان بھائیوں میں عام طور پر معروف ہے کہ ہماری دعوت صرف کتاب و سنت پر اعتماد کرنے میں منحصر ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ضروری ہے، جس کا ذکر سابقہ دو احادیث نبویہ اور آخر میں قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ کتاب وسنت کے ساتھ یہ تیسری اور آخر چیز سلف صالحین کا منہج و عمل ہے۔
اگر کتاب و سنت پر اعتماد کرنے کا دعوٰی کرنے والا کوئی گروہ اس تیسری چیز کو مضبوطی سے نہ پکڑے تو یہ اس کی گمراہی کی دلیل ہے، چاہے وہ کتاب و سنت پر عمل کا کتنا ہی دعوٰی کرے!
حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا یہ شعر بڑا بر موقع ہے:
العلم قال اللہ، قال رسولہ، قال الصحابۃ، لیس بالتمویہ
”علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو۔ ملمہ سازی علم نہیں۔”
تو ابن القیم رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، یعنی کتاب وسنت کو ہی علم صحیح قرار دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہماری ذکر کردہ (قرآن و سنت کی) نصوص کے پیش نظر اس پر قو ل صحابہ کا اضافہ بھی کیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے۔ میرا تو عقیدہ ہے کہ اسی تیسری چیز کو چھوڑنا ہی ان قدیم و جدید فرقوں کی گمراہی کا سبب ہے، جو آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
ہر روز ہم کسی ایسے نئے گروہ کی باتیں سنتے ہیں، جو کتاب و سنت پر عمل کرنے کا دعوٰی کرتا ہے اوربالفعل جب آپ ان کو دیکھیں گے تو وہ کتاب و سنت کو لازم پکڑتے ہیں۔ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی تعصب ان لوگوں میں موجود نہیں ہوتا، لیکن جب وہ کتاب و سنت کی نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کے فہم کے پابند نہیں رہے تو دائرہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہو گئے، حالانکہ وہ کتاب و سنت پر عمل کا دعوٰی کرتے ہیں۔”
(دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ٨/٤٦ ملخصا، من المکتبۃ الشاملۃ)
نیز فرماتے ہیں:
أن سبب ضلال الفرق کلہا قدیماً وحدیثاً ہو عدم التمسک بہذہ الدعامۃ الثالثۃ : أن نفہم الکتاب والسنۃ علی منہج السلف الصالح .
المعتزلۃ المرجئۃ القدریۃ الأشعریۃ الماتریدیۃ؛ وما فی ہذہ الطوائف کلہا من انحرافات، سببہا أنہم لم یتمسکوا بما کان علیہ السلف الصالح؛ لذلک قال العلماء المحققون :
وکل خیر فی اتباع من سلف، وکل شر فی ابتداع من خلف .
فہذا لیس شعراً، بل ہذا الکلام مأخوذ من الکتاب والسنۃ: (وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ) (النساء : ١١٥) لماذا قال : ویتبع غیر سبیل المؤمنین؟ کان یستطیع ربنا أن یقول : (ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی نولہ ما تولی ونصلہ جہنم وساء ت مصیراً) فلم قال : ویتبع غیر سبیل المؤمنین؟ حتی لا یرکب أحد رأسہ، ولا یقول : أنا فہمت القرآن ہکذا، وفہمت السنۃ ہکذا، فیقال لہ : یجب أن تفہم القرآن والسنۃ علی طریقۃ السلف المؤمنین الأولین السابقین، وقد أید ہذا النص من القرآن نصوص من أحادیث الرسول علیہ الصلاۃ والسلام .
”قدیم و جدید تما م گمراہ فرقوں کی گمراہی کا سبب صرف اس تیسرے اصول کو چھوڑنا ہے۔ یہ تیسرا اصول یہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا فہم سلف صالحین کے منہج کے مطابق لیں۔
معتزلہ، مرجئہ، قدریہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور ان فرقوں میں جتنی گمراہیاں ہیں، ان کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے سلف صالحین کے طریقے کا التزام نہیں کیا۔ اسی لیے محققین علمائے کرام کا کہنا ہے:
وکل خیر فی اتباع من سلف، وکل شر فی ابتداع من خلف .
”ہر بھلائی سلف صالحین کے اتباع میں اور ہر گمراہی بعد والے لوگوں کی اختراع میں ہے۔”
یہ محض ایک شعر نہیں، بلکہ کتاب و سنت سے ماخوذ کلام ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ) (النساء : ١١٥)
”اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے۔۔۔”
اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی راہ کا تذکرہ کیوں کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما سکتا تھا کہ جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی نافرمانی کرے گا، ہم اسے۔۔۔ سبیل المومنین (مؤمنوں کے راستے) کا ذکر کیوں کیا؟ اس لیے کہ ہر کوئی اپنی عقل پر سوار نہ ہو جائے اور یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے قرآن کریم کو اس طرح سمجھا ہے اور میں نے حدیث کو اس طرح سمجھا ہے۔ ایسے شخص کو کہا جائے گا کہ تمہارے لیے کتاب و سنت کو پہلے سلف صالحین مؤمنین (صحابہ کرام و تابعین و تبع تابعین) کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کی تائید میں بہت سی احادیث نبویہ بھی موجود ہیں۔۔۔”
(دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالباني : ١٣/٣، من المکتبۃ الشاملۃ)
نیز سلفی دعوت کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
والدعامۃ الثالثۃ : وہو مما تتمیز بہ الدعوۃ السلفیۃ علی کل الدعوات القائمۃ الیوم علی وجہ الأرض؛ ما کان منہا من الإسلام المقبول، وما کان منہا لیس من الإسلام إلا اسماً، فالدعوۃ السلفیۃ تتمیز بہذہ الدعامۃ الثالثۃ ألا وہی : أن القرآن والسنۃ یجب أن یفہما علی منہج السلف الصالح من الصحابۃ والتابعین وأتباعہم، أی : القرون الثلاثۃ المشہود لہم بالخیریۃ بنصوص الأحادیث الکثیرۃ المعروفۃ، وہذا مما تکلمنا علیہ بمناسبات شتی، وأتینا بالأدلۃ الکافیۃ التی تجعلنا نقطع بأن کل من یرید أن یفہم الإسلام من الکتاب والسنۃ بدون ہذہ الدعامۃ الثالثۃ فسیأتی بإسلام جدید، وأکبر دلیل علی ذلک الفرق الإسلامیۃ التی تزداد فی کل یوم؛ والسبب فی ذلک ہو عدم التزامہم ہذا المنہج الذی ہو الکتاب والسنۃ وفہم السلف الصالح .
”اور تیسرا اصول جس سے سلفی دعوت آج رؤئے زمین پر موجود تمام اسلامی یا نام نہاد اسلامی دعوتوں سے ممتاز ہے، وہ (کتاب وسنت کے ساتھ) تیسرا اصول یہ ہے کہ کتاب و سنت کو سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ یہ وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی بھلائی کی گواہی بہت سی مشہور و معروف احادیث نبویہq میں دی گئی ہے۔ ہم اس موضوع پر مختلف مناسبتوں سے بات کر چکے ہیںاور ہم ایسے تسلی بخش دلائل دے چکے ہیں، جن سے قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی شخص اس تیسرے اصول کے بغیر کتاب وسنت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا، وہ ایک نیا اسلام متعارف کرائے گا۔ اس پر بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ روز بروز اسلامی فرقے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کا سبب کتاب و سنت کے فہم صالحین کے منہج کو لازم نہ پکڑنا ہے۔”
(دروس الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ١٣/٣، من المکتبہ الشاملۃ)
نیز سلفی لوگوں (اہل حدیث) کے بارے میں لکھتے ہیں:
أنہم یدعون إلی فہم الکتاب والسنۃ علی منہج السلف الصالح، لا یکتفون فقط بدعوۃ المسلمین إلی الرجوع إلی الکتاب والسنۃ، بل یزیدون علی ذلک إلی الرجوع إلی الکتاب والسنۃ علی منہج السلف الصالح .
”وہ کتاب و سنت کو سلف صالحین کے منہج کے مطابق سمجھنے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دینے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس پر یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کو سلف صالحین کے طریقے کے مطابق سمجھا جائے۔”
(دروس الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ٣٨/١٥)
اب سلفی لوگوں اور سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟ شیخ موصوف کی زبانی ملا حظہ فرمائیں:
الدعوۃ السلفیۃ : نسبۃ إلی السلف، وفی اللغۃ : ہم القوم المتقدمون، ویراد بہم فی الاصطلاح : أنہم القرون الثلاثۃ الخیرۃ التی جاء الثناء علیہا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قولہ : (خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یأتی من بعد ذلک أناس یشہدون ولا یستشہدون، ویخونون ولا یؤتمنون، ویکون فیہم الکذب) فہؤلاء بشہادۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أی : لہذہ القرون الثلاثۃ : أنہم خیر القرون، ولا شک أن ہدیہم وطریقتہم وسنتہم ہی خیر الہدی وخیر السنن وخیر الطرائق، ویقابل السلف الخلف، وہم : الذین جاء وا بعد ہذہ القرون الثلاثۃ، ونحن نعلم أنہ قد اختلفت طریقۃ السلف عن الخلف فی کثیر من الأمور، فقد ظہرت بعد القرن الثالث أمور لم تکن…
”سلفی دعوت، سلف کی طرف منسوب ہے، لغوی اعتبار سے سلف سے مراد پہلے لوگ ہیں اور اصطلاح میں وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی تعریف و توصیف اس فرمان نبوی میں موجود ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جو گواہی دیں گے ، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان کو امین نہیں سمجھا جائے گا۔ ان میں جھوٹ رواج پا جائے گا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی گواہی کے مطابق یہ تین زمانے سب زمانوں سے بہترین ہیں۔ بلاشبہ ان کا طریقہ، ان کا راستہ اور ان کا منہج ہی سب طریقوں، راستوں اور مناہج سے بہترین ہے۔ سلف کے مقابلے میں خلف کا لفظ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ان تین زمانوں کے بعد آئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے امور میں سلف کا طریقہ خلف سے مختلف ہے، کیونکہ تیسری صدی کے بعد بہت سے ایسے امور ظاہر ہو گئے تھے، جو پہلے نہ تھے۔۔۔”
(دروس الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ٣٨/٢)
قرآن و سنت کے دلائل سے مزین و مدلل محدث البانی رحمہ اللہ کے ان دروس سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کا وہی فہم معتبر ہے، جو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے لیا ہے۔ اگر کوئی بعد والا شخص قرآن کریم کی کسی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی کسی حدیث کا ایسا مفہوم لیتا ہے، جو سلف صالحین کے خلاف ہو تو اس پر عمل کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ یہی سبیل المومنین ہے جس کے التزام کا حکم قرآن و حدیث نے کتاب و سنت کے التزام کے ساتھ ہی دیا ہے۔یہی ائمہ دین اور محدثین کا طریقہ ہے اور یہی اہل الحدیث کا منہج ہے۔
یہاں پر شیخ الحدیث مولانا مسعود عالم حفظہ اللہ کا ایک فرمان بہت ہی قابل ذکر ہے، جس سے منصف آدمی کا مذکورہ اشکال زائل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے درس صحیح بخاری دیتے ہوئے فرمایا:
”اہل حدیث دین کے اندر صرف وحی کے اوپر اعتماد کرتے ہیں اور قرآن مجید اور سنت صحیحہ، اسی کو اپنا مدار بناتے ہیں۔ اسی کے اوپر اعتماد کر کے اسی سے دینی راہنمائی لیتے ہیں۔”
ہاںقرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے، قرآن و سنت کو….سمجھنے کے لیے، اس سے راہنمائی لینے کے لیے ان کا طریقہ اور ان کا راستہ وہ ہے، جو صحابہ و تابعین کا راستہ تھا۔ قرآن و سنت کو، اس دور کے اندر، سمجھتے ہیں کہ نازل ہوا تھا، جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت و مصاحبت کے لیے پوری انسانیت کے گروہ سے چن لیا تھا اور انہوں نے جس طرح قرآن و سنت کو سمجھا اور قرآن و سنت پر عمل کیا، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے یہی معیار عمل ہے۔ اسی طرح قرآن و سنت پر عمل کرنا چاہیے، جس طرح صحابہ نے کیا تھا اور صحابہ سے سیکھ کر تابعین نے کیا تھا۔ اور یہی اہتمام فرمایا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے اندر کہ قرآن مجید کی آیات بھی ذکر کرتے ہیں، احادیث نبویہ بھی ذکر کرتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنن بھی ذکر کرتے ہیں اور صحابہ و تابعین کے فتاوٰی بھی ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح سمجھا تھا۔ یہ منہج ہے الحمدللہ اہلحدیث کا، جو اس کتاب کے اندر امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کے لیے بالکل واضح طور پر پیش کر دیا ہے۔”
(درس صحیح بخاری بجامعۃ محمد بن اسمٰعیل البخاري اھلحدیث، کندیاں اوتار، قصور، بتاریخ ٣٠یولیو ٢٠١٠ئ)
مولانا عبداللہ بہالپوری رحمہ اللہ اپنی ہر بات پر قرآن و حدیث سے دلائل دینے والے ایک گمراہ فرقہ” جماعت المسلمین” کے بانی مسعود بی۔ ایس۔ سی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”شیطان شکار کرتا ہی اس وقت ہے، جب آدمی سلف کی لائن سے نکل کر نئی راہ نکالتا ہے۔”
(رسائل بھالپوری : ٦٦٦)
معلوم ہوا کہ یہ اشکال بالکل بے بنیاد ہے۔ دین میں دلیل قرآن و سنت ہی ہیں، لیکن ان کو سمجھنے کے لیے فہم سلف کا التزام ضروری ہے، کیونکہ یہی سبیل المومنین ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ قرآن کریم یا حدیث نبوی کے کسی لفظ کاصحیح معنیٰ سمجھنے کے لیے آپ لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگر فہم قرآن و سنت میں ائمہ لغت کی بات کو آپ مان لیتے ہیں تو صحابہ و تابعین کا فہم ان ائمہ لغت کی بات سے بھی کم قیمت ہے؟
اشکال نمبر2 :
آپ جب سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فہم کو معتبر سمجھتے ہیں اور بعد والوں کے فہم کو کچھ بھی حیثیت نہیں دیتے تو پھر بہت سے مسائل میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ او ردیگر ائمہ کرام کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں اور ان کی عبارتیں کیوں پیش کرتے ہیں؟۔”
جواب:۔
یہ بھی سمجھنے کی غلطی ہے، کیونکہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بعد والے ائمہ دین کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ سلف کے مقابلے میں بعد والے ائمہ کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا ہمارا قول مقید ہے، عام نہیں۔ اسے عموم پر محمول کرنا زیادتی ہے۔
مثلا بالفرض کسی آیت یا کسی حدیث کا ایک مفہوم صحابی رسول بیان کریں اور دوسرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہتو ہم سلفی لوگ کہیں گے کہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول سلف کے قول کے مخالف نہ ہو تو ہم اہل الحدیث اسے اپنے سرماتھے پر رکھیں گے۔ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی، جس میں ہم نے سلف کے مقابلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فہم کو ترجیح دی ہو۔
پھر یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حدیث نبوی کے مطابق سب سے بہتر زمانہ صحابہ کرام کا ہے، لہٰذا صحابہ کرام کے فہم کی موجودگی میں اس کے خلاف فہم تابعین معتبر نہیں، اسی طرح صحابہ کرام کے بعد تابعین کا زمانہ بہتر ہے، لہٰذا فہم تابعین کے مقابلے میں فہم تبع تابعین معتبر نہیں۔ اسی طرح تابعین کے بعد سب سے بہتر زمانہ تبع تابعین کا ہے، لہٰذا تبع تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم معتبر نہیں۔ ہاں! بعد والوں کا فہم پہلے لوگوں کے فہم کے مطابق ہو تو الحمدللہ!
اہل الحدیث کے اسلاف کا بھی یہی طرز عمل تھا کہ وہ صحابہ کرام کے فہم کے مقابلے میں تابعین کے فہم کو معتبر نہیں سمجھتے تھے، جیسا کہ نکاح شغار کے مفہوم کے بارے میں نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریفات ذکر کرنے کے بعد مولانا عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اب ان دونوں تعریفوں میں مقابلہ کیا جائے تو نافع تابعی ہیں اور حضرت معاویہ صحابی ہیں اور صحابی کا قول تابعی سے مقدم ہے۔”
(الاعتصام : ٦٢/١٥)
قارئین کرام اللہ کے لیے سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہی فہم سلف کا مسئلہ ہے، جو محدث روپڑی رحمہ اللہ نے سمجھا دیا ہے۔ اسی طرح تابعین کے مقابلے میں تبع تابعین اور تبع تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم معتبر نہیں۔
اب تو یقینا یہ اشکال ختم ہو گیا ہو گا کہ ہم کبھی بعد والوں کا فہم کیوں پیش کرتے ہیں؟
اشکال نمبر3 :
سلف صالحین بھی آخر انسان تھے۔ ان سے قرآن و سنت کے سمجھنے میں غلطی کا امکان موجود تھا۔
جواب:
یہ بات بالکل درست ہے کہ سلف صالحین بھی انسان تھے، یقینا ان کو بھی غلط فہمی ہو سکتی تھی، لیکن سب کے سب سلف کبھی کسی غلطی پر جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین سب کے سب قرآن و سنت کی کسی نص کو سمجھ نہ پائے تھے تو اس کی گمراہی میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ مزید تفصیل اگلے اشکال کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔
پھر کیا یہ بات کہنے والے ائمہ دین یا اپنے آپ کو غلطی سے مبرا سمجھتا ہے؟ اگر سلف سے فہم میں غلطی ہو سکتی تھی تو بعد والوں سے بالاولیٰ ہو سکتی ہے، کیونکہ صحابہ و تابعین نے اس دین کو قریب سے دیکھا ہے۔ لہٰذا جس سے غلطی کا امکان زیادہ ہے، اس کے فہم کے مقابلے میں ان لوگوں کا فہم معتبر ہوگا، جن سے غلطی کا فہم کم تھا۔
اشکال نمبر4 :
کئی صحابہ کرام کے کئی تفردات مشہور ہیں۔ اگر فہم سلف حجت ہے تو پھر ان تفردات پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟۔”
جواب:
ہمارے بعض بھائی فہم سلف کا انکار کرنے کے لیے اکثر صحابہ کرام کے ایسے تفردات پیش کرتے ہیں، جن کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان صحابہ کرام تک اس بارے میں کوئی حدیث پہنچی ہی نہیں ہوتی اور وہ اپنے اجتہاد پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ وہ اپنے اعتراض کو قابل التفات بنانے کے پہلے یہ ثابت کیا کریں کہ ایسے تفرد والے صحابی تک وہ حدیث پہنچی بھی ہے۔
یا یہ لوگ کسی ایسے مسئلہ کو دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں صحابہ کرام کے رائے اور ان کا اجتہاد مختلف ہو گیا تھا، کچھ صحابہ کرام نے کسی نص کا ایک مطلب سمجھا اور کسی صحابی نے کچھ اور سمجھ لیا، لیکن ایسے مسائل پیش کرنے سے ہمارے ان بھائیوں کا مدعا ذرا برابر بھی ثابت نہیں ہو سکتا، کیونکہ فہم سلف کسی ایک صحابی یا تابعی یا تبع تابعی کے فہم کا نام نہیں، بلکہ اس سے مراد مجموعی فہم ہوتا ہے، مثلا اگر صحابہ کرام قرآن و سنت کی کسی نص کے فہم میں متفق الخیال ہوں اور ان کی تین مختلف آرا ہوں تو پھر بھی صحابہ کرام کی آراء کے مجموعہ میں سے کوئی ایسی ایک رائے اور کوئی ایسا ایک فہم ، جسے آپ قرآن و سنت کے زیادہ قریب سمجھیں، اسے اپنا لیں، نہ کہ سب کے فہم کو چھوڑ کر ایک نیا فہم نکالیں، یہ بدعت ہو گی۔ دونوں صورتوں میں فہم صحابہ کرام کا ہی معتبر ٹھہرا۔
ا گر کسی صحابی کو غلط فہمی ہوئی ہے تو درست بات کس کو سمجھ آئی ہے؟ کیا کسی اور صحابی کو بھی سمھ نہیں آئی؟ یقینا ایسا نہیں ہو سکتا کہ سب صحابہ کرام دین کے سمجھنے میں غلطی پر رہے ہوں، کسی ایک کو بھی سمجھ نہ آئی ہو اور بعد والے کسی شخص کو صحیح بات سمجھ آئی ہو۔ ایسا کہنا تو عقیدے کی سخت خرابی اور بہت بڑی گمراہی ہے، کیونکہ بشہادت نبوت وہ بہترین زمانہ ہیں۔
کیا بہترین زمانہ وہ ہوتا ہے، جس میں کسی ایک کو بھی دین کا صحیح فہم حاصل نہ ہو؟ یہی بات صحابہ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین اور کے بارے میں بھی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گواہی موجود ہے۔ ضروری طور پر یہ تسلیم کرنا پڑ ے گاکہ اگر سلف میں سے کسی کو فہم میں غلطی لگی ہے تو اسی دور میں ایسے لوگ بھی موجود تھے، جن کا فہم اس حوالے سے بالکل درست تھا۔ یعنی حق فہم سلف میں بہر حال موجود ہے۔ اب آپ کا فرض ہے کہ اسے تلاش کریں، نہ کہ اس کا انکار کر کے کوئی نیا طریقہ نکا لیں۔
اشکال نمبر 5 :
مانا کہ اختلافی صورت میں سب کا نہیں تو بعض صحابہ کرام یا بعض سلف کا فہم معتبر ہو جائے گا، پھر بھی فہم سلف معتبر رہا، لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ حدیث نبوی سن کر صحابہ کرام میں سے کسی کو بھی صحیح سمجھ نہیں آئی، تو ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ مثلا صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا تھا کہ میری وفات کے بعد تم میں سے سب سے پہلے وہ فوت ہوگی، جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ازواج مطہرات نے ہاتھوں کی باہم پیمائش شروع کر دی، حالانکہ سب سے پہلے فوت سیدہ زینب رضی اللہ عنھا ہوئیں، جن کے ہاتھ چھوٹے تھے، پھر ازواج مطہرات کو معلوم ہوا کہ فرمان نبوی میں ہاتھوں کی لمبائی سے مراد سخاوت تھی۔۔۔
جواب:
اس واقعہ میں فہم سلف کا انکار کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس سے ایسے دلائل پیش کرنے والے بھائیوں کی اپنی نا سمجھی ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارا ان سے سوال ہے کہ اگر ازواج مطہرات کو صحیح سمجھ نہیں آئی تھی تو پھر کس کو آئی تھی؟ اللہ تعالیٰ اگر سمجھ دے اور تعصب کو دور کر کے اس حدیث کا مکمل مطالعہ کر لیا جائے تو خود اسی حدیث میں ازواج مطہرات کا اپنا بیان موجود ہے کہ ان کو بعد میں صحیح پھر بھی ان کو حاصل ہو گیا تھا۔
اعتراض اس وقت بنتا جب یہ ثابت کیا جاتا کہ ازواج مطہرات اور تمام صحابہ کرام میں سے کسی کو صحیح سمجھ نہ آئی تھی، پھر بعد کے کسی دور میں یہ عقدہ حل ہوا تھا، حالانکہ ایسا ممکن ہی نہیں اور ایسی کوئی مثال پیش ہی نہیں کی جا سکتی۔
اشکال نمبر6 :
فہم سلف کا معتبر ہونا تسلیم ہے، مگر یہ قاعدہ کلی نہیں، بلکہ اکثری قاعدہ ہے۔ بسا اوقات اس کے خلاف بھی ہو جاتا ہے، یعنی بعد والوں کو سلف سے زیادہ فہم حاصل ہو سکتا ہے۔”
جواب:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان گرامی کے مطابق سلف صالحین علم و عمل اور فہم وسمجھ ہر اعتبار سے بعد والوں سے بہت بہتر تھے۔
اس سلسلے میں عالم ربانی، شیخ الاسلام ثانی حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کیا، خوب بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بہتر ہونے کے بارے میں جو حدیث نبوی ہے، وہ مطلق ہے، یعنی ہر اعتبار سے وہ بعد والوں سے بہتر تھے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی صحابی نے غلط فتوٰی دیا اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس غلطی پر تنبیہ نہیں کی، پھر بعد والے کسی زمانے میں کسی شخص نے اس غلطی کی طرف توجہ دلائی۔۔۔ تو ایسا شخص اس حدیث پر ایمان نہیں لاتا، کیونکہ اس کے نزدیک اس اعتبار سے بعد والا زمانہ بہتر ہوا، جس میں غلطی پکڑی گئی، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہر اعتبار سے پہلے تین زمانوں کو بہتر قرار دے رہے ہیں۔۔۔”
(اعلام الموقعین لابن القیم : ٤/١٣٦)
بدعات کے رد کے لیے ائمہ دین یہی دلیل دیتے رہے ہیں۔
جو بھائی اس قاعدہ کو کلی نہیں سمجھتے، ان سے سوال کیا جانا چاہیے کہ جب آپ کسی بدعت کے رد میں دلائل دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا یہ معنیٰ ہوتا تو صحابہ کرام سب سے پہلے سمجھتے۔۔۔ اگر عین اسی وقت آپ کو کوئی گمراہ یہ کہہ دے کہ یہ قاعدہ کلی نہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
ہم یہاں اس کی ایک بہت ہی خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں:
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے، ان کے دو تسمے تھے، اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے جوتے تھے۔”
(صحیح بخاري : ٣١٠٧)
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا نے ایک سبز جبہ نکالا اور فرمایا:”یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تھا، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں۔”
(صحیح مسلم : ٢٠٦٩)
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا، جسے وہ تبرک نبوی سمجھتے تھے۔
(صحیح بخاری : ٥٦٣٧)
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بال مبارک تھے، جنہیں ہم نے سیدنا انس یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا، کہتے ہیں، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیاوما فیہا سے زیادہ پیارا ہے۔”
(صحیح بخاری : ١٧٠)
یہ چاروں احادیث حصول تبرک کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث سے کچھ بدعتی حضرات اپنے بزرگوں سے تبرک حاصل کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ تبرک صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص تھا، اس پر پر دلیل کیا ہے؟ صرف فہم صحابہ!
جیسا کہ حافظ شاطبی فرماتے ہیں: ”صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابو بکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علیw اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو۔۔۔”
(الاعتصام : ٢/٨)
اسی طرح مولانا عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ تبرک کے سلسلہ میں بدعتی لوگوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیںـ:”فہم دین صحابہ کا معتبر ہے۔۔۔”
(سنن ابو داو،د : ٢/٥٢٤، طبع دار السلام)
اب اگر کوئی بدعتی یہ کہہ دے کہ یہ قاعدہ کلی نہیں ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی حدیث کو صحابہ کرام کے عمل نہ کرنے کی وجہ سے خاص قرار دیا جائے تو یہ اس کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔
معلوم ہوا کہ یقینا یہ قاعدہ کلی ہے کہ ہمارے اسلاف یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے قرآن و سنت کو ہماری نسبت بہت بہتر انداز میں سمجھا ہے۔ اس قاعدے کے کلی ہونے پر ائمہ دین کا اتفاق ہے، کسی ثقہ امام و محدث نے اس کے کلی ہونے کا انکار نہیں کیا، بلکہ وہ بدعتی لوگوں کو پکار پکار کر اسی کلی قاعدہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور اسی کلی قاعدہ کے ذریعے گمراہوں کا ناطقہ بند کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ائمہ اہل سنت کے بہت سے اقوال ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
اگر کسی بھائی کے پاس اس کے خلاف ائمہ دین میں سے کسی کا کوئی قول ہو تو وہ پیش کرے۔ اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو کیا سب ائمہ دین ایک غلط بات پر ڈٹے رہے ہیں؟!!!
اشکال نمبر7 :
”جب ائمہ دین کا یہ اتفاقی عقیدہ تھا کہ ہر معاملے میں فہم سلف ہی معتبر ہوتا ہے تو کئی مرتبہ انہی ائمہ دین کے بارے میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہاں ان کا فہم سلف کے فہم کے خلاف ہے، لہٰذا ہم نہیں مانتے۔۔۔ ائمہ دین فہم سلف کو حجت ماننے کے بعد پھر خود فہم سلف کے خلاف کیوں کہہ دیتے تھے؟ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ وہ اس کو قاعدہ کلی نہیں سمجھتے تھے۔۔۔”
جواب:
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ائمہ دین فہم سلف کے حجت ہونے کی کلیت کا انکار کرتے تھے، بلکہ جہاں کہیں انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو فہم سلف کے خلاف تھی تو وہاں بھی ان کا اعتماد فہم سلف پر ہی تھا، لیکن سلف سے مروی جس روایت پر انہوں نے اعتماد کیا تھا، ہماری تحقیق میں وہ ثابت نہ ہو سکی، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کی بات سلف کے فہم کے خلاف ہو گئی، اگرچہ انہوں نے اپنی کوشش کے مطابق فہم سلف پر ہی اعتماد کیا تھا۔
اب ائمہ دین تو اپنی تحقیق کے مطابق فہم سلف پر ہی عمل کر رہے تھے، وہ عنداللہ معذور و ماجور ہوں گے، لیکن ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان ائمہ کے پاس سلف کی جو روایت تھی، ثابت نہیں ہے، پھر بھی ائمہ دین کے ایسے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں۔۔۔
نوٹ:
بعض لوگ بہت جرات سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ کرام کا فہم کیسے معتبر ہو سکتا ہے، حالانکہ بعض صحابہ قرآن و سنت کی نصوص سننے کے بعد بھی اپنی بات پر ڈٹے رہتے تھے؟ اس سلسلے میں وہ صحیح بخاری سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ فتوٰی دیا تھا کہ جنبی ا ۤدمی تیمم سے پاک نہیں ہو سکتا۔ پھر ان کے سامنے قرآن کریم کی آیت کریمہ پڑھی گئی، لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، رجوع نہیں کیا۔
یہ منکرین حدیث کا ایک چکمہ تھا، جس میں ہمارے بعض بھائی بھی آگئے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں ایسی بات کہنا ایمان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ یہ بات تو کوئی رافضی شیعہ کہے کہ صحابہ کرام قرآن وسنت کی نصوص کے خلاف ڈٹ جاتے تھے تو اس کو زیبا ہے، لیکن کسی سنی مسلمان کو تو ایسی بات زیب نہیں دیتی۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اگلے شمارہ میں ہم یہ وضاحت کریں گے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس الزام سے بالکل بری ہیں اور یہ بات کہنے والوں کو خود بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.