1,048

مسلک سلف ہی اسلم و احکم ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اہل سنت والجماعت،یعنی سلف صالحین،ائمہ محدثین کا عقیدہ و منہج اپنانے میں ہی عافیت ہے،کیونکہ سلف صالحین کا عقیدہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہے،جیسا کہ محدث ِشہیر،امام ابوبکر ، احمد بن حسین بن علی بن موسیٰ، بیہقی(458-384ھ)اور مؤرّخِ اسلام،حافظ ابو القاسم، علی بن حسن بن ہبۃ اللہ، ابن عساکر(571-499ھ)Hفرماتے ہیں:
فَأَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، فَمُعَوَّلُہُمْ فِیمَا یَعْتَقِدُونَ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃِ .
”اہل سنت والجماعت کے عقائد کتاب و سنت پر مبنی ہیں۔”
(مناقب الإمام الشافعي للبیہقي، ص : 462، تبیین الکذب المفتري فیما نسب إلی الأشعري لابن عساکر، ص : 345)
ائمہ اہل سنت،یعنی محدثین کرام کے برعکس خلف،یعنی متاخرین و متکلمین کا عقیدہ بشر مریسی اور جعد بن درہم جیسے گمراہوں سے ماخوذ ہے،جس کی لڑیاں یہودیوں تک جا پہنچتی ہیں۔اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ سلف کا عقیدہ اسلم اور خلف کا عقیدہ احکم و اعلم ہے، ائمہ مسلمین کے اجماعی عقائد کی سراسر مخالفت ہے۔جس عقیدے کی بنیاد قرآن و حدیث اور فہم سلف پر نہ ہو،احکم و اعلم(ٹھوس اور مبنی برعلم)کیسے ہو سکتا ہے؟
متکلمین نے سلف صالحین کے عقیدہ و منہج کے خلاف عقیدہ گھڑا اور بعض لوگوں نے اس کو احکم و اعلم قرار دے دیا۔یہ خالص عقیدہئ توحید کے خلاف سازش ہے،تاکہ اسلامی عقائد کی شکل مسخ کر دی جائے، قرآن و حدیث پر مبنی عقیدے کا وجود ختم کر دیا جائے اور ائمہ محدثین کے عقائد کے مقابلے میں باطل عقائد کو درست اور صحیح ثابت کیا جائے۔
شیخ الاسلام،ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں:
وَلاَ یَجُوزُ أَیْضًا أَنْ یَّکُونَ الْخَالِفُونَ أَعْلَمَ مِنَ السَّالِفِینَ، کَمَا یَقُولُہ، بَعْضُ الْـأَغْبِیَائِ، مَمَّنْ لَّمْ یَقْدِرْ قَدَرَ السَّلَفِ، بَلْ وَلَا عَرَفَ اللّٰہَ وَرَسُولَہ، وَالْمُؤْمِنِینَ بِہٖ، حَقِیقَۃَ الْمَعْرِفَۃِ الْمَأْمُورِ بِہَا، مِنْ أَنَّ طَرِیقَۃَ السَّلَفِ أَسْلَمُ وَطَرِیقَۃَ الْخَلَفِ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ، فَإِنَّ ہٰؤُلاَءِ الْمُبْتَدِعَۃَ الَّذِینَ یُفَضِّلُونَ طَرِیقَۃَ الْخَلَفِ عَلٰی طَرِیقَۃِ السَّلَفِ، إِنَّمَا أَتَوْا مِنْ حَیْثُ ظَنُّوا أَنَّ طَرِیقَۃَ السَّلَفِ ہِيَ مُجَرَّدُ الْإِیمَانِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ وَالْحَدِیثِ، مِنْ غَیْرِ فِقْہٍ لِّذٰلِکَ، بِمَنْزِلَۃِ الْـأُمِیِّینَ الَّذِینَ قَالَ فِیہِمْ : (وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتَابَ اِلَّا اَمَانِيَّ) (البقرۃ 2 : 78)، وَأَنَّ طَرِیقَۃَ الْخَلَفِ ہِيَ اسْتِخْرَاجُ مَعَانِي النُّصُوصِ الْمَصْرُوفَۃِ عَنْ حَقَائِقِہَا بِأَنْوَاعِ الْمَجَازَاتِ وَغَرَائِبِ اللُّغَاتِ، فَہٰذَا الظَّنُّ الْفَاسِدُ أَوْجَبَ تِلْکَ الْمَقَالَۃَ، الَّتِي مَضْمُونُہَا نَبْذُ الْإِسْلَامِ وَرَاءَ الظَّہْرِ، وَقَدْ کَذَبُوا عَلٰی طَرِیقَۃِ السَّلَفِ، وَضَلُّوا فِي تَصْوِیبِ طَرِیقَۃِ الْخَلَفِ، فَجَمَعُوا بَیْنَ الْجَہْلِ بِطَرِیقَۃِ السَّلَفِ فِي الْکِذْبِ عَلَیْہِمْ، وَبَیْنَ الْجَہْـــــــــــلِ وَالضَّـــــــــــــــــلَالِ بِتَصْـــــــوِیبِ طَــــــــــــــــــــــرِیقَۃِ الْـــــــخَلَف .
”یہ بھی ممکن نہیں کہ پہلے گزر جانے والے اہل علم کے مقابلے میں بعد میں آنے والے زیادہ علم والے ہوں۔بعض بے وقوف قسم کے لوگ جنہیں سلف صالحین کی قدر معلوم نہیں،بلکہ دراصل انہیں اللہ و رسول اور مؤمنوں کی حقیقی معرفت ہی نہیں،وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ سلف صالحین کا منہج زیادہ سلامتی والا ہے،جبکہ خلف (بعد والوں) کا منہج زیادہ علم پر مبنی اور ٹھوس ہے۔یہ بدعتی اور گمراہ لوگ بعد والے زمانے کے فلسفیوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے منہج کو سلف کے منہج پر فضیلت دیتے ہیں۔انہوں نے اپنے وہم و گمان کی بنا پر یہ کہہ دیاہے کہ ‘سلف کا منہج صرف قرآن و حدیث کے ظاہری معانی پر استوار ہوتا ہے اور سلف قرآن و سنت کا فہم نہیں رکھتے،بالکل اُن اَن پڑھ لوگوں کی طرح،جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتَابَ اِلَّا اَمَانِيَّ) (البقرۃ 2 : 78) (ان [اہل کتاب]میں سے بعض اَن پڑھ ہیںجو کتاب کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزؤں کے)،اس کے برعکس خلف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مجاز کی مختلف اقسام اور پیچیدہ قسم کی لغات کے ذریعے ان نصوص کے معانی کا استخراج کرتے ہیں،جن میں حقیقی معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔’ یہ غلط سوچ ہی اس بات کا موجب ہوئی ہے،جو اسلام کو پسِ پشت ڈالنے پر مبنی ہے۔ان لوگوں نے سلف کے منہج کے سلسلے میں دروغ گوئی سے کام لیا اور خلف کے منہج کو درست قرار دینے میں گمراہی کا شکار ہو گئے۔وہ بیک وقت دو جہالتوں کا شکار ہوئے؛ ایک تو جہالت کے سبب انہوں نے سلف کے منہج پر جھوٹ باندھا،دوسرے وہ خلف کے طریقے کو درست قرار دے کر جہالت و ضلالت میں مبتلا ہوئے۔”
(مجموع الفتاوٰی : 8/5، الفتاوی الحمویۃ الکبرٰی : 189-185/5)
شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)نقل فرماتے ہیں :
قَالَ شَیْخُنَا : وَالْکَلَامُ الَّذِي اتَّفَقَ سَلَفُ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتُہَا عَلٰی ذَمِّہٖ، وَذَمِّ أَصْحَابِہٖ، وَالنَّہْيِ عَنْہُ، وَتَجْہِیلِ أَرْبَابِہٖ، وَتَبْدِیعِہِمْ، وَتَضْلِیلِہِمْ، وَہُوَ ہٰذِہِ الطُّرُقُ الْبَاطِلَۃُ، الَّتِي بَنَوْا عَلَیْہَا نَفْيَ الصِّفَاتِ، وَالْعُلُوِّ، وَالِاسْتِوَاءِ عَلَی الْعَرْشِ، وَجَعَلُوا بِہَا الْقُرْآنَ مَخْلُوقًا، وَنَفَوْا بِہَا رُؤْیَۃَ اللّٰہِ فِي الدَّارِ الْآخِرَۃِ، وَتَکَلُّمَہ، بِالْقُرْآنِ، وَتَکْلِیمَہ، لِعِبَادِہٖ، وَنُزُولَہ، کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا، وَمَجِیئَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لِفَصْلِ الْقَضَاءِ بَیْنَ عِبَادِہٖ، فَإِنَّہُمْ سَلَکُوا فِیہِ طُرُقًا غَیْرَ مُسْتَقِیمَۃٍ، وَاسْتَدَلُّوا بِقَضَایَا مُتَضَمِّنَۃً لِّلْکَذِبِ، فَلَزِمَہُمْ بِہَا مَسَائِلُ، خَالَفُوا بِہَا نُصُوصَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَصَرِیحَ الْمَعْقُولِ، وَکَانُوا جَاہِلِینَ، کَاذِبِینَ، ظَالِمِینَ، فِي کَثِیرٍ مِّنْ مَّسَائِلِہِمْ، وَرَسَائِلِہِمْ، وَأَحْکَامِہِمْ، وَدَلَائِلِہِمْ .
”ہمارے شیخ(ابن تیمیہ رحمہ اللہ )نے فرمایا : علم کلام جس کی اور جس کے سیکھنے والوں کی سلف صالحین نے مذمت کی ہے،اس سے منع فرمایا ہے،جس کے حاملین کو سلف نے جاہل، بدعتی اور گمراہ قرار دیا ہے،اس علم کلام سے مراد وہ باطل اسباب ہیں جن کی بنا پر گمراہوں نے صفات ِباری تعالیٰ،خصوصاً عُلُوِّ باری تعالیٰ اور استواء علی العرش کی نفی کی ہے،قرآنِ کریم کو مخلوق قرار دیا ہے،آخرت میں دیدار ِالٰہی سے انکار کیا ہے،قرآنِ کریم کے کلامِ باری تعالیٰ ہونے کی نفی کی ہے،اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے کلام کرنے سے انکاری ہوئے ہیں، ہر رات اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرمانے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کے مابین فیصلے کرنے کے لیے آنے کا بھی انکار کیا ہے۔گمراہ لوگ اس سلسلے میں غلط راستوں پر چل پڑے اور انہوں نے جھوٹ پر مبنی قصے کہانیوں سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں بہت سے ایسے مسائل ان کے گلے پڑ گئے،جن میں انہوں نے کتاب و سنت اور صریح عقلی اصولوں کی مخالفت کی اور اس طرح وہ اپنے بے شمار مسائل،رسائل،احکام اور دلائل میںجاہل،جھوٹے اور ظالم قرار پائے۔”(الصواعق المرسلۃ علی الجہمیۃ والمعطّلۃ : 1267,1266/4)
شیخ الاسلام رحمہ اللہ اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں:
ثُمَّ ہٰؤُلَاءِ الْمُتَکَلِّمُونَ الْمُخَالِفُونَ لِلسَّلَفِ، إِذَا حَقَّقَ عَلَیْہِمُ الْـأَمْرُ، لَمْ یُوجَدْ عِنْدَہُمْ مِّنْ حَقِیقَۃِ الْعِلْمِ بِاللّٰہِ، وَخَالِصِ الْمَعْرِفَۃِ بِہٖ خَبَرٌ، وَلَمْ یَقَعُوا مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی عَیْنٍ وَّلَا أَثَرٍ، کَیْفَ یَکُونُ ہٰؤُلَاءِ الْمَحْجُوبُونَ، الْمُفْضَلُونَ، الْمَنْقُوصُونَ، الْمَسْبُوقُونَ، الْحَیَارَی، الْمُتَہَوِّکُونَ، أَعْلَمَ بِاللّٰہِ، وَأَسْمَائِہٖ، وَصِفَاتِہٖ، وَأَحْکَمَ فِي بَابِ ذَاتِہٖ، وَاٰیَاتِہٖ، مِنَ السَّابِقِینَ الْـأَوَّلِینَ، مِنَ الْمُہَاجِرِینَ، وَالْـأَنْصَارِ، وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ، مِنْ وَّرَثَۃِ الْـأَنْبِیَائِ، وَخُلَفَاءِ الرُّسُلِ، وَأَعْلَامِ الْہُدٰی، وَمَصَابِیحِ الدُّجٰی، الَّذِینَ بِہِمْ قَامَ الْکِتَابُ، وَبِہٖ قَامُوا، وَبِہِمْ نَطَقَ الْکِتَابُ، وَبِہٖ نَطَقُوا، الَّذِینَ وَہَبَہُمُ اللّٰہُ مِنَ الْعِلْمِ وَالْحِکْمَۃِ مَا بَرَزُوا بِہٖ عَلٰی سَائِرِ أَتْبَاعِ الْـأَنْبِیَائِ، فَضْلاً عَنْ سَائِرِ الْـأُمَمِ، الَّذِینَ لَا کِتَابَ لَہُمْ، وَأَحَاطُوا مِنْ حَقَائِقِ الْمَعَارِفِ، وَبَوَاطِنِ الْحَقَائِقِ، بِمَا لَوْ جُمِعَتْ حِکْمَۃُ غَیْرِہِمْ إِلَیْہَا لَاسْتَحْیَا مَنْ یَّطْلُبُ الْمُقَابَلَۃَ، ثُمَّ کَیْفَ یَکُونُ خَیْرُ قُرُونِ الْـأُمَّۃِ أَنْقَصَ فِي الْعِلْمِ وَالْحِکْمَۃِ، لاَ سِیَّمَا الْعِلْمِ بِاللّٰہِ، وَأَحْکَامِ أَسْمَائِہٖ، وَاٰیَاتِہٖ، مِنْ ہٰؤُلَاءِ الْـأَصَاغِرِ، بِالنِّسْبَۃِ إِلَیْہِمْ؟ أَمْ کَیْفَ یَکُونُ أَفْرَاخُ الْمُتَفَلْسِفَۃِ، وَأَتْبَاعُ الْہِنْدِ وَالْیُونَانِ، وَوَرَثَۃُ الْمَجُوسِ وَالْمُشْرِکِینَ، وَضُلَّالُ الْیَہُودِ، وَالنَّصَارٰی، وَالصَّابِئِینَ، وَأَشْکَالِہِمْ وَأَشْبَاہِہِمْ، أَعْلَمَ بِاللّٰہِ مِنْ وَّرَثَۃِ الْـأَنْبِیَائِ، وَأَہْلِ الْقُرْآنِ وَالْإِیمَانِ .
”سلف صالحین کے مخالف ان متکلمین پر جب کوئی معاملہ آن پڑتا ہے تو ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے بارے میں صحیح علم اور حقیقی معرفت کی کوئی بات نہیں ہوتی۔وہ اس سلسلے میں کسی نص اور حقیقت سے واقف نہیں ہو پاتے۔یہ بے عقل،نکمے،حقیر،ہارے ہوئے،پریشان اور بہکے ہوئے لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات،اسماء اور صفات کے سلسلے میں زیادہ عالم اور اس کی ذات و آیات کے بارے میں ان سابقون اولون مہاجرین وانصار اور ان کے حقیقی پیروکاروں سے زیادہ ٹھوس کیسے ہو سکتے ہیں،جو انبیائے کرام کے وارث،رسولوں کے جانشین، ہدایت کے مینار اوراندھیری راتوں کے روشن چراغ ہیں۔وہ لوگ جن کے ذریعے کتاب اللہ محفوظ رہی اور جنہوں نے کتاب اللہ کی حفاظت کی،جن کے بارے میں کتاب اللہ نے بیان کیا اور جنہوں نے کتاب اللہ کی بات کی۔ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ علم عنایت فرمایا تھا جس کی بنا پر وہ تمام غیر اہل کتاب امتوں پر،بلکہ باقی تمام انبیائے کرام کے پیروکاروں پر بھی فضیلت پا گئے۔انہوں نے ان ظاہری و باطنی حقائق و معارف کا احاطہ کیا کہ اگر ان کے سامنے باقی تمام لوگوں کی حکمت کو جمع کیا جائے تو مقابلے کا مطالبہ کرنے والا شرم سے ڈوب مرے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امت ِمحمدیہqکے بہترین زمانے والے لوگ اپنی نسبت ان حقیر لوگوں سے علم و حکمت میں ناقص کیسے ہو سکتے ہیں،خصوصاً ذات ِالٰہی اور اس کی اسماء و صفات کے احکام کے حوالے سے؟کیا فلسفیوں کی ذریت،ہندوستانی و یونانی تہذیبوں کے پیروکار،مجوسیوں اور مشرکین کے وارث،نیزیہود ونصاری وصابی اور ان جیسے دیگربے دین لوگوں کے ڈسے ہوئے لوگ ،انبیائے کرام کے وارثوں اور اہل قرآن و ایمان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں؟۔”(مجموع الفتاوٰی : 11/5)
ائمہ اہل حدیث کے مخالفین متکلمین کے بارے میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَمِنَ الْمُحَالِ أَنْ یَّکُونَ تَلَامِیذُ الْمُعْتَزِلَۃِ، وَوَرَثَۃُ الصَّابِئِینَ، وَأَفْرَاخُ الْیُونَانِ، الَّذِینَ شَہِدُوا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ بِالْحَیْرَۃِ، وَالشَّکِّ، وَعَدَمِ الْعِلْمِ الَّذِي یَطْمَئِنُّ إِلَیْہِ الْقَلْبُ، وَأَشْہَدُوا اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہ، عَلَیْہِمْ بِہٖ، وَشَہِدَ بِہٖ عَلَیْہِمُ الْـأَشْہَادُ، مِنْ أَتْبَاعِ الرُّسُلِ، أَعْلَمَ بِاللّٰہِ، وَأَسْمَائِہٖ، وَصِفَاتِہٖ، وَأَعْرَفَ بِہٖ، مِمَّنْ شَہِدَ اللّٰہُ وَرَسُولُہ، لَہُمْ بِالْعِلْمِ وَالْإِیمَانِ، وَفَضَّلَہُمْ عَلٰی مَنْ سَبَقَہُمْ، وَمَنْ یَّجَِيءُ بَعْدَہُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، مَا خَلَا النَّبِیِّینَ وَالْمُرْسَلِینَ، وَہَلْ یَقُولُ ہٰذَا إِلَّا غَبِيٌّ جَاہِلٌ، لَمْ یَقْدِرْ قَدَرَ السَّلَفِ، وَلَا عَرَفَ اللّٰہَ وَرَسُولَہ،، وَمَا جَاءَ بِہٖ .
‘معتزلہ کے شاگرد،بے دین لوگوں کے وارث اور یونانیوں کی ذریت،جو خود اپنے بارے میں پریشانی و شک کی گواہی دیتے ہیں اور اس علم سے بے بہرہ ہونے کے معترف ہیں جس سے دل کو اطمینان نصیب ہوتا ہے اور انہوں نے اپنی اس حالت پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بنایا ہوا ہے،نیز اس سلسلے میں پیغمبروں کے متبعین بھی گواہی دے چکے ہیں،ممکن ہی نہیں کہ ایسے لوگ ان لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت رکھتے ہوں، جن کے علم و ایمان کی گواہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے دے رکھی ہو اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے علاوہ پہلے اور بعد میں آنے والے تمام انسانوں پر فضیلت دی ہو۔ایسی بات تو کوئی کندذہن اور جاہل شخص ہی کہہ سکتا ہے،جسے نہ سلف صالحین کی قدر و قیمت کا علم ہے،نہ اسے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی تعلیمات کی معرفت حاصل ہے۔”(الصواعق المرسلۃ علی الجہمیّۃ والمعطّلۃ : 161/1)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اشاعرہ کے ردّ میں فرماتے ہیں :
وَتَارَۃً یَّجْعَلُونَ إِخْوَانَہُمُ الْمُتَأَخِّرِینَ أَحْذَقَ وَأَعْلَمَ مِنَ السَّلَفِ، وَیَقُولُونَ : طَرِیقَۃُ السَّلَفِ أَسْلَمُ، وَطَرِیقَۃُ ہٰؤُلَاءِ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ، فَیَصِفُونَ إِخْوَانَہُمْ بِالْفَضِیلَۃِ فِي الْعِلْمِ، وَالْبَیَانِ، وَالتَّحْقِیقِ، وَالْعِرْفَانِ، وَالسَّلَفَ بِالنَّقْصِ فِي ذٰلِکَ، وَالتَّقْصِیرِ فِیہِ، أَوِ الْخَطَإِ وَالْجَہْلِ، وَغَایَتُہُمْ عِنْدَہُمْ أَنْ یُّقِیمُوا أَعْذَارَہُمْ فِي التَّقْصِیرِ وَالتَّفْرِیطِ، وَلَا رَیْبَ أَنَّ ہٰذَا شُعْبَۃٌ مِّنَ الرَّفْضِ، فَإِنَّہ، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ تَکْفِیرًا لِّلسَّلَفِ، کَمَا یَقُولُہ، مَنْ یَّقُولُہ، مِنَ الرَّافِضَۃِ وَالْخَوَارِجِ، وَلاَ تَفْسِیقًا لَّہُمْ، کَمَا یَقُولُہ، مَنْ یَّقُولُہ، مِنَ الْمُعْتَزِلَۃِ وَالزَّیْدِیَّۃِ وَغَیْرِہِمْ، کَانَ تَجْہِیلًا لَّہُمْ، وَتَخْطِئَۃً، وَتَضْلِیلًا، وَنِسْبَۃً لَّہُمْ إِلَی الذُّنُوبِ وَالْمَعَاصِي، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ فِسْقًا، فَزَعَمَا أَنَّ أَہْلَ الْقُرُونِ الْمَفْضُولَۃِ فِي الشَّرِیعَۃِ أَعْلَمُ وَأَفْضَلُ مِنْ أَہْلِ الْقُرُونِ الْفَاضِلَۃِ، وَمِنَ الْمَعْلُومِ بِالضَّرُورَۃِ لِمَنْ تَدَبَّرَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ، وَمَا اتَّفَقَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، مِنْ جَمِیعِ الطَّوَائِفِ أَنَّ خَیْرَ قُرُونِ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ فِي الْـأَعْمَالِ، وَالْـأَقْوَالِ، وَالِاعْتِقَادِ، وَغَیْرِہَا مِنْ کُلِّ فَضَیلَۃٍ، أَنَّ خَیْرَہَا الْقَرْنُ الْـأَوَّلُ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، کَمَا ثَبَتَ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ، وَأَنَّہُمْ أَفْضَلُ مِنَ الْخَلَفِ فِي کُلِّ فَضِیلَۃٍ، مِنْ عِلْمٍ، وَعَمَلٍ، وَإِیمَانٍ، وَعَقْلٍ، وَدِینٍ، وَبَیَانٍ، وَعِبَادَۃٍ، وَأَنَّہُمْ أَوْلٰی بِالْبَیَانِ لِکُلِّ مُشْکِلٍ، ہٰذَا لَا یَدْفَعُہ، إِلَّا مَنْ کَابَرَ الْمَعْلُومَ بِالضَّرُورَۃِ مِنْ دِینِ الْإِسْلَامِ، وَأَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ .
”یہ لوگ کبھی اپنے متاخرین ہمنواؤں کو سلف صالحین کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور زیادہ علم والے قرار دیتے ہوئے کہنے لگتے ہیں : ‘سلف کا منہج زیادہ سلامتی والا ہے،جبکہ ان لوگوں کا منہج زیادہ علم پر مبنی اور زیادہ ٹھوس ہے۔’یوں یہ لوگ اپنے ہمنواؤں کو علم،بیان،تحقیق اور معرفت میں سلف پر فضیلت دیتے ہیں ،جبکہ سلف صالحین کو اس بارے میں ناقص، کوتاہ یا غلطی وجہالت کے مرتکب قرار دیتے ہیں۔یہ لوگ زیادہ سے زیادہ (سلف کی عزت و تکریم) یہ کرتے ہیں کہ افراط و تفریط میں ان کے لیے عذر پیش کرتے ہیں۔بلاشبہ یہ رویہ ایک قسم کا رافضی پن ہے۔رافضی اور خوارج کہتے ہیں کہ سلف کے بارے میں یہ نظریہ رکھنے سے ان کی تکفیر لازم نہیں آتی،جبکہ معتزلہ اور زیدیہ وغیرہ کے نزدیک یہ نظریہ سلف کے فاسق ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔اگر ان دونوں گروہوں کی اس بات کو مان بھی لیا جائے تو اس نظریے سے کم از کم سلف کی جہالت ،گمراہی اور غلطی ثابت ہوتی ہے،نیز ان کی گناہوں کی طرف نسبت ضرور ہو جاتی ہے۔ان دونوں گروہوں کے خیال کے مطابق شریعت ِاسلامیہ میں جن زمانوں والوں کو کم تر قرار دیا گیا ہے،وہ علم و فضل میں ان زمانوں والوں سے فائق ہیں،جن کو شریعت ِاسلامیہ میں بَرتَر قرار دیا گیا ہے۔جو شخص کتاب و سنت اور اہل سنت والجماعت کے تمام گروہوں کے اجماعی نظریات پر غور کرتا ہے،اسے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ امت ِ محمدیہq میں سے اعمال، اقوال،اعتقاد اور ہرقسم کی فضیلت میں صحابہ کرام کا زمانہ سب سے بہتر تھا،پھر تابعین اورتبع تابعین کے زمانے کا نمبر آتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہت سی سندوں کے ذریعے یہ بات ثابت ہے۔قرآن وسنت اور اجماع سے یہ بھی ضروری طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ سلف صالحین ہر فضیلت،مثلاً علم،عمل،ایمان،عقل،دین،بیان اور عبادت میں خلف سے افضل ہیں،نیز ہر مشکل معاملے کو سلجھانے کے وہی زیادہ لائق ہیں۔ اس بات کا انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرمی کی بنا پر دین اسلام کے بنیادی عقائد سے منحرف ہو جائے اور جسے اللہ تعالیٰ نے علم رکھتے ہوئے بھی گمراہ کر دیا ہو۔”
(مجموع الفتاوٰی : 158,157/4)
امام،محمد بن علی بن محمد،ابن ابو العز حنفی رحمہ اللہ (792-731ھ)سلف صالحین اور ائمہ دین کے مخالفین اہل کلام کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَنَبِیُّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُوتِيَ فَوَاتِحَ الْکَلِمِ وَخَوَاتِمَہ، وَجَوَامِعَہ،، فَبُعِثَ بِالْعُلُومِ الْکُلِّیَّۃِ، وَالْعُلُومِ الْـأُوَلِیَّۃِ وَالاْئُخْرَوِیَّۃِ، عَلٰی أَتَمِّ الْوُجُوہِ، وَلٰکِنْ کُلَّمَا ابْتَدَعَ شَخْصٌ بِدْعَۃً اتَّسَعُوا فِي جَوَابِہَا، فَلِذٰلِکَ صَارَ کَلَامُ الْمُتَأَخِّرِینَ کَثِیرًا، قَلِیلَ الْبَرَکَۃِ، بِخِلَافِ کَلَامِ الْمُتَقَدِّمِینَ، فَإِنَّہ، قَلِیلٌ، کَثِیرُ الْبَرَکَۃِ، (لَا) کَمَا یَقُولُہ، ضُلَّالُ الْمُتَکَلِّمِینَ وَجَہَلَتُہُمْ : إِنَّ طَرِیقَۃَ الْقَوْمِ أَسْلَمُ، وَإِنَّ طَرِیقَتَنَا أَحْکَمُ وَأَعْلَمُ ! وَلاَ کَمَا یَقُولُہ، مَنْ لَمْ یَقْدِرْہُمْ مِّنَ الْمُنْتَسِبِینَ إِلَی الْفِقْہِ : إِنَّہُمْ لَمْ یَتَفَرَّغُوا لِاسْتِنبَاطِ الْفِقْہِ، وَضَبْطِ قَوَاعِدِہٖ، وَأَحْکَامِہٖ، اشْتِغَالًا مِّنْہُمْ بِغَیْرِہٖ، وَالْمُتَأَخِّرُونَ تَفَرَّغُوا لِذٰلِکَ، فَہُمْ أَفْقَہُ !
فَکُلُّ ہٰؤُلَاءِ مَحْجُوبُونَ عَنْ مَّعْرِفَۃِ مَقَادِیرِ السَّلَفِ، وَعُمْقِ عُلُومِہِمْ، وَقِلَّۃِ تَکَلُّفِہِمْ، وَکَمَالِ بَصَائِرِہِمْ، وَتَاللّٰہِ مَا امْتَازَ عَنْہُمُ الْمُتَأَخِّرُونَ إِلَّا بِالتَّکَلُّفِ، وَالِاشْتِغَالِ بِالْـأَطْرَافِ، الَّتِي کَانَتْ ہِمَّۃُ الْقَوْمِ مُرَاعَاۃَ أُصُولِہَا، وَضَبْطَ قَوَاعِدِہَا، وَشَدَّ مَعَاقِدِہَا، وَہِمَمُہُمْ مُشَمَّرَۃً إِلَی الْمَطَالِبِ الْعَالِیَۃِ فِي کُلِّ شَيْئٍ، فَالْمُتَأَخِّرُونَ فِي شَأْنٍ، وَالْقَوْمُ فِي شَأْنٍ آخَرَ، وَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا . ”ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جامع،کامل اور واضح کلمات عطا فرمائے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کلی اور کامل ترین شکل میں دنیاوی و اخروی علوم دے کر مبعوث فرمایا گیا۔متاخرین نے جب کسی شخص کو کسی بدعت کا مرتکب دیکھا تو اس بارے میں لمبے تڑنگے رُدُود شروع کر دیے۔اس طرح متاخرین کی کلام مقدار میں بہت زیادہ اور برکت میں بہت کم رہی۔اس کے برعکس متقدمین کی کلام مقدار میں بہت تھوڑی اور برکت میں بہت زیادہ تھی۔گمراہ اور جاہل متکلمین کی یہ بات یکسر غلط ہے کہ ‘سلف صالحین کا منہج زیادہ سلامتی والا ہے،جبکہ ان کا اپنا منہج زیادہ علم پر مبنی اور ٹھوس ہے۔’اسی طرح ان نام نہاد فقیہوں،جن کو سلف صالحین کی قدر معلوم نہیں ہوسکی،ان کی یہ بات بھی صحیح نہیں کہ ‘سلف صالحین کو فقہی استنباطات کرنے اور فقہی قواعد و احکام کی تشکیل کرنے کی اتنی فرصت نہیں ملی، جتنا وہ اور کاموں میں مشغول رہے،جبکہ متاخرین نے ان کاموں کے لیے وقت نکالا،چنانچہ وہی زیادہ فقہ والے ہیں۔’ایسی باتیں کرنے والے تمام لوگ سلف صالحین کی صحیح قدر و قیمت، ان کے علوم کی گہرائی،ان کے عدمِ تکلف اور ان کی کمال بصیرت سے لاعلم ہیں۔اللہ کی قسم! متاخرین کو متقدمین سے اگر کسی چیز میں امتیاز حاصل ہے تو وہ تکلف کرنے اور ان چیزوں کی فروعات میں مشغول ہونے میں حاصل ہے کہ سلف کا اہتمام جن کے اصول میں مصروف ہونے،ان کے قواعد کو مرتب کرنے اور ان کے ضوابط کو مقرر کرنے کا تھا۔سلف صالحین ہر چیز کے بارے میں بلند مقاصد حاصل کرنے کے ارادے رکھتے تھے۔یوں متقدمین اور متاخرین کی مصروفیات جُدا ہیں۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھاہے۔”(شرح العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : 83,82)
مشہور مفسر،علامہ،محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ (م : 1393ھ)فرماتے ہیں:
إِنَّ مَذْہَبَ السَّلَفِ أَسْلَمُ، وَأَحْکَمُ، وَأَعْلَمُ، وَقَوْلُہُمْ : مَذْہَبُ السَّلَفِ أَسْلَمُ إِقْرَارٌ مِّنْہُمْ بِذٰلِکَ، لِأَنَّ لَفْظَ [أَسْلَمُ] صِیغَۃُ تَفْضِیلٍ مِّنَ السَّلَامَۃِ، وَمَا کَانَ یَفْضُلُ غَیْرَہ، وَیَفُوقُہ، فِي السَّلَامَۃِ، فَھُوَ أَحْکَمُ وَأَعْلَمُ، وَبِہٖ یَظْہُرُ أَنَّ قَوْلَہُمْ : وَمَذْہَبُ الْخَلَفِ أَحْکَمُ وَأَعْلَمُ، لَیْسَ بِصَحِیحٍ، بَلْ الْـأَحْکَمُ الْـأَعْلَمُ ہُوَ الْـأَسْلَمُ، کَمَا لَا یَخْفٰی .
”سلف صالحین کا مذہب ہی زیادہ سلامتی والا ہے اور وہی زیادہ ٹھوس اور علم پر مبنی ہے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ سلف کا مذہب زیادہ سلامتی والا ہے،یہ ان کی طرف سے ہماری ذکر کردہ بات کا اقرار ہے،کیونکہ [اسلم]اسم تفضیل کا صیغہ ہے(یعنی زیادہ سلامتی والا)۔ جو چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں زیادہ فضیلت والی اور زیادہ سلامتی والی ہو،وہی زیادہ ٹھوس اور زیادہ علم پر مبنی ہو گی۔اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ خلف کا مذہب زیادہ ٹھوس اور زیادہ علم پر مبنی ہے۔بلکہ ظاہر ہے کہ جو چیز زیادہ ٹھوس اور زیادہ علم پر مبنی ہو،وہی زیادہ سلامتی والی ہوتی ہے۔”(آداب البحث والمناظرۃ : 136/2)
مشہورسلفی عالم،شیخ محمد بن صالح،ابنِ عثیمین رحمہ اللہ (م : 1421ھ) فرماتے ہیں:
فَتَبَیَّنَ بِہٰذَا أَنَّ ہٰؤُلَاءِ الْمُحَرِّفِینَ عَلٰی ضَلَالٍ، وَأَنَّ مَنْ قَالَ : إِنَّ طَرِیقَتَہُمْ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ، فَقَدْ ضَلَّ، وَمِنَ الْمَشْہُورِ عِنْدَہُمْ قَوْلُہُمْ : طَرِیقَۃُ السَّلَفِ أَسْلَمُ، وَطَرِیقَۃُ الْخَلَفِ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ، وَہٰذَا الْقَوْلُ عَلٰی مَا فِیہِ مِنَ التَّنَاقُضِ، قَدْ یُوصِلُ إِلَی الْکُفْرِ، فَہُوَ ؛ أَوَّلًا فِیہِ تَنَاقُضٌ، لِأَنَّہُمْ قَالُوا : طَرِیقَۃُ السَّلَفِ أَسْلَمُ، وَلَا یُعْقَلُ أَنْ تَکُونَ الطَّرِیقَۃُ أَسْلَمُ، وَغَیْرُہَا أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ، لِأَنَّ الْـأَسْلَمَ یَسْتَلْزِمُ أَنْ یَّکُونَ أَعْلَمَ وَأَحْکَمَ، فَلَا سَلَامَۃَ إِلاَّ بِعِلْمٍ بِأَسْبَابِ السَّلَامَۃِ، وَحِکْمَۃٍ فِي سُلُوکِ ہٰذِہِ الْـأَسْبَابِ، ثَانِیًا : أَیْنَ الْعِلْمُ وَالْحِکْمَۃُ مِنَ التَّحْرِیفِ وَالتَّعْطِیلِ؟ ثَالِثًا : یَلْزَمُ مِنْہُ أَنْ یَّکُونَ ہٰؤُلَاءِ الْخَالِفُونَ أَعْلَمَ بِاللّٰہِ مِنْ رَّسُولِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ، لِأَنَّ طَرِیقَۃَ السَّلَفِ ہِيَ طَرِیقَۃُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ، رَابِعًا : أَنَّہَا قَدْ تَصِلُ إِلَی الْکُفْرِ، لِأَنَّہَا تَسْتَلْزِمُ تَجْہِیلَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَسْفِیہَہ،، فَتَجْہِیلُہ، ضِدُّ الْعِلْمِ، وَتَسْفِیہُہ، ضِدُّ الْحِکْمَۃِ، وَہٰذَا خَطَرٌ عَظِیمٌ، فَہٰذِہِ الْعِبَارَۃُ بَاطِلَۃٌ، حَتّٰی وَإِنْ أَرَادُوا بِہَا مَعْنًی صَحِیحًا، لاِئَنَّ ہٰؤُلَاءِ بَحَثُوا، وَتَعَمَّقُوا، وَخَاضُوا فِي أَشْیَائَ، کَانَ السَّلَفُ لَمْ یَتَکَلَّمُوا فِیہَا، فَإِنَّ خَوْضَہُمْ فِي ہٰذِہِ الْـأَشْیَاءِ ہُوَ الَّذِي ضَرَّہُمْ وَأَوْصَلَہُمْ إِلَی الْحَیْرَۃِ وَالشَّکِّ، وَصَدَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ قَالَ : ‘ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ'(صحیح مسلم : 2670)، فَلَوْ أَنَّہُمْ بَقُوا عَلٰی مَا کَانَ عَلَیْہِ السَّلَفُ الصَّالِحُ، وَلَمْ یَتَنَطَّعُوا، لَمَا وَصَلُوا إِلٰی ہٰذَا الشَّکِّ، وَالْحَیْرَۃِ، وَالتَّحْرِیفِ .
”اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ صفاتِ باری تعالیٰ میں تحریف کرنے والے یہ لوگ گمراہی پر ہیں۔جو شخص کہتا ہے کہ ان محرفین کا طریقہ زیادہ علم پر مبنی اور ٹھوس ہے،وہ بھی گمراہ ہے۔ان کا یہ قول مشہور ہے کہ سلف صالحین کا منہج زیادہ سلامتی والا جبکہ متاخرین کا منہج زیادہ علم پر مبنی اور ٹھوس ہے۔یہ قول متناقض ہونے کے ساتھ ساتھ کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ متناقض ہے،خود وہ کہتے ہیں کہ سلف کا زیادہ سلامتی والا ہے۔یہ بات کیسے معقول ہو سکتی ہے کہ زیادہ سلامتی والا منہج تو سلف کا ہو،لیکن زیادہ علم پر مبنی اور ٹھوس وہ منہج ہو جو ان کے خلاف ہو؟زیادہ سلامتی والا ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہی زیادہ علم پر مبنی اور زیادہ ٹھوس بھی ہو۔سلامتی تو اسی وقت ہو گی جب سلامتی کے اسباب کا علم ہو گا اور ان اسباب کو اپنانے میں حکمت بھی ہو گی۔دوسری بات یہ ہے کہ صفات ِباری تعالیٰ میں تحریف اور تعطیل کرنے میں کون سا علم اور کون سی حکمت پنہاں ہے؟تیسری بات یہ ہے کہ اس نظریے سے متاخرین کا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام سے زیادہ معرفت ِالٰہی کے حامل ہونا لازم آتاہے،کیونکہ سلف کا طریقہ تو وہی تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا تھا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ یہ نظریہ کفر میں دھکیل دیتا ہے،کیونکہ اس سے (معاذاللہ!) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جہالت و عدم حکمت کا فتویٰ لازم آتا ہے،کیونکہ علم نہ ہونا جہالت اور حکمت نہ ہونا عدم حکمت ہے(اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم و حکمت تھی تو سلف صالحین اسی منہج پر چل کر اس سے خالی کیوں تھے؟)۔لہٰذا یہ بہت خطرناک اور باطل عبارت ہے،اگرچہ وہ اس سے کوئی صحیح معنیٰ مراد لیتے ہوں،کیونکہ ان متاخرین نے ان چیزوں میں بحث و تفتیش اور غور و فکر شروع کیا ہے،جن کے بارے میں سلف صالحین نے کلام نہیں فرمائی۔ان چیزوں میں غوروفکر نے انہیں نقصان سے دوچار کرتے ہوئے حیرانی و شک میں مبتلا کیا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کہ : ‘ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ'(غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے)(صحیح مسلم : 2670)۔اگر یہ لوگ سلف صالحین کے منہج پر ہی قائم رہتے اور غلو سے کام نہ لیتے تو وہ اس پریشانی و شک کی دلدل میں نہ گرتے۔”(القول المفید علی کتاب التوحید، ص : 672,671)
قوام السنۃ،امام،ابوالقاسم،اسماعیل بن محمد،اصبہانی رحمہ اللہ (م : 535ھ)فرماتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ لَمْ تَتَعَدَّ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ وَإِجْمَاعَ السَّلَفِ الصَّالِحِ، وَلَمْ تَتَّبِعِ الْمُتَشَابَہَ، وَتَأْوِیلَہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ، وَإِنَّمَا اتَّبَعُوا الصَّحَابَۃَ وَالتَّابِعِینَ، وَمَا أَجْمَعْ الْمُسلمُونَ عَلَیْہِ بَعْدَہُمْ قَوْلًا وَّفِعْلًا، فَأَمَّا مَا اخْتَلَفُوا فِیہِ مِمَّا لَا أَصْلَ لَہ، فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، وَلَا أَجْمَعَتْ عَلَیْہِ الْـأُمَّۃُ، فَہُوَ مُحْدَثٌ .
”اہل سنت والجماعت کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اجماع سے تجاوز نہیں کرتے،نہ ہی فتنہ پروری کے لیے متشابہات اور ان کی تفسیر کے پیچھے پڑتے ہیں۔ وہ قول و فعل میں صرف صحابہ و تابعین اور بعد کے مسلمانوں کے اجماع کے پیروکار ہیں۔بعد کے لوگوں نے جن معاملات میں اختلاف کیا ہے اور کتاب وسنت میں ان کی کوئی دلیل نہیں،نہ اس پر امت کا اجماع ہوا،وہ بدعت ہیں۔”(الحجّۃ في بیان المحجّۃ : 410/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.