1,043

مدت تکمیل قرآن، ابو یحیی نور پوری


مدت ِتکمیل قرآن
حافظ ابو یحییٰ نورپوری
تین دن اور اس سے زائد مدت میں قرآنِ کریم کی تلاوت مکمل کرنا مستحب اور افضل ہے، دلائل ملاحظہ ہوں :
دلیل نمبر 1 :
سیدنا عبداللہ بن عمرو صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں مکالمہ ہوا :
’صُمْ مِّنَ الشَّہْرِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ‘، قَالَ : إِنِّي أُطِیقُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ : فَمَا زَالَ حَتّٰی قَالَ : ’صُمْ یَوْمًا وَّأَفْطِرْ یَوْمًا‘، وَقَالَ : ’اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَہْرٍ‘، فَقُلْتُ : إِنِّي أُطِیقُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، حَتّٰی قَالَ : ’اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي ثَلَاثٍ‘ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ـمہینے میں صرف تین دن کے روزے رکھا کرو۔انہوں نے عرض کیا:مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔مسلسل یہی کہتے رہے، (کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے)،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا:ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرو۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قرآنِ کریم کی تلاوت ایک مہینے میں مکمل کیا کرو۔ انہوں نے عرض کیا:میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں،(اور مسلسل یہی کہتے رہے)، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین دن میں مکمل کر لیا کرو۔‘‘
(صحیح البخاري : 1978)
دلیل نمبر 2 :
سیدنا عبداللہ بن عمرو صلی اللہ علیہ وسلم ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’لَمْ یَفْقَہْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ‘ ۔
’’جس نے تین دنوں سے پہلے قرآن کی تلاوت مکمل کی،اس نے سمجھا نہیں ۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 1394، سنن الترمذي : 2949، سنن ابن ماجہ : 1347، فضائل القرآن للنسائي : 92، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ ۔
’’یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
دلیل نمبر 3 :
سیدنا عبداللہ بن عمرو صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ چالیس(۴۰) دنوں میں قرآنِ کریم کی تکمیل کیا کریں،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مہینے میں،پھر فرمایا:بیس(۲۰)دنوںمیں،پھرفرمایا : پندرہ(۱۵)دنوںمیں،پھر فرمایا: دس(۱۰) دنوں میں، پھر فرمایا:سات(۷) دنوں میں، اورسات(۷) دنوں پر آکر رک گئے۔
(فضائل القرآن للنسائي : 94، مختصر قیام اللیل للمروزي، ص : 66، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 4 :
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص صلی اللہ علیہ وسلم ہی بیان کرتے ہیں کہ ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں بات چیت ہوئی :
’اِقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَہْرٍ‘، قُلْتُ : إِنِّي أَجِدُ قُوَّۃً، حَتّٰی قَالَ : ’فَاقْرَأْہُ فِي سَبْعٍ، وَلاَ تَزِدْ عَلٰی ذٰلِکَ‘ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک مہینے میں قرآنِ مجید مکمل کیا کرو، میں نے عرض کیا:میں اس سے کم مدت میں تکمیل کی طاقت رکھتا ہوں،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پھر سات دنوں میں تکمیل کر لیا کرو، اس سے کم مدت میں مکمل نہ کرنا۔‘‘(صحیح البخاري : 5054، صحیح مسلم : 1159)
دلیل نمبر 5 :
ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
’وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّہٗ فِي لَیْلَۃٍ‘ ۔
’’میں نہیں جانتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں مکمل قرآنِ کریم پڑھا ہو۔‘‘(صحیح مسلم : 139/746)
دلیل نمبر 6 :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’اِقْرَئُ وا الْقُرْآنَ فِي کُلِّ سَبْعٍ‘ ۔
’’ہر ہفتے قرآنِ کریم کی تلاوت مکمل کیا کرو۔‘‘
(فضائل القرآن للفریابي : 131، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 7 :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد الرحمن علیہ السلام بیان کرتے ہیں:
’إِنَّ أَبَاہُ کَانَ یَخْتِمُ فِي رَمَضَانَ فِي ثَلَاثٍ، وَفِي غَیْرِ رَمَضَانَ مِنَ الْجُمُعَۃِ لِلْجُمُعَۃِ‘ ۔
’’میرے والد ِمحترم رمضان المبارک میں تین دنوں میں قرآن ِ کریم کی تکمیلِ
کیا کرتے تھے اور دوسرے دنوں میں ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک قرآن مکمل کیا کرتے تھے۔‘‘(فضائل القرآن للفریابي : 132، وسندہٗ صحیحٌ)
مذکورہ بالا مرفوع احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک رات میں مکمل قرآن کریم نہیں پڑھا،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات دن یا کم از کم تین دن میں تکمیل کی ہدایت فرماتے تھے،لہٰذا بہتر یہی ہے تین دن یا اس سے زائد مدت میں ہی قرآنِ کریم کی تکمیل کی جائے۔
تین دن سے کم مدت میں تکمیل اور اسلافِ امت :
البتہ ان تعلیمات ِنبوی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تین دن سے پہلے تکمیل کرنا حرام ہے،کیونکہ اسلاف ِامت کا فہم وعمل یہی بتاتا ہے۔اس کی تفصیل درجِ ذیل ہے :
1 سیدنا عثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ :
n خلیفۂ راشد،سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآنِ کریم پڑھنا ثابت ہے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 294/1، سنن الدارقطني : 34/2، ح : 1658، وسندہٗ حسنٌ)
2 سیدنا ابن عبّاس صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو جمرہ تابعی علیہ السلام :
n ابوجمرہ، نصر بن عمران بصری علیہ السلام ،جو کہ ایک ثقہ تابعی امام ہیں،کہتے ہیں:
إِنِّي رَجُلٌ سَرِیعُ الْقِرَاء َۃِ، وَرُبَّمَا قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فِي لَیْلَۃٍ مَّرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَـأَنْ أَقْرَأَ سُورَۃً وَّاحِدَۃً أَعْجَبُ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ، فَإِنْ کُنْتَ فَاعِلًا لَّا بُدَّ؛ فَاقْرَأْہُ قِرَاء َۃً تُسْمِعُ أُذُنَیْکَ وَیَعِیہِ قَلْبُکَ ۔
’’میں تیز قراء ت کرنے والا شخص ہوںاور کبھی تو ایک رات میں ایک یا دو مرتبہ قرآنِ مجید مکمل کر لیتا ہوں۔سیدنا عبداللہ بن عباس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں
ایک سورت کی تلاوت کر لوں،تو یہ مجھے آپ کے طرز ِعمل سے اچھا لگتا ہے۔ البتہ اگر آپ ضرور ہی ایسا کرنا چاہتے ہیں،توتلاوت ایسے انداز میں کریں کہ آپ کے کان اسے سن رہے ہوں اور آپ کا دل اسے سمجھ رہا ہو۔ ‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 396/2، وسندہٗ حسنٌ)
3 امام سعید بن جبیر تابعی علیہ السلام :
n امام سعید بن جبیر تابعی علیہ السلام کے بارے میں ہے:
’إِنَّہٗ کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ لَیْلَتَیْنِ‘ ۔
’’ آپ علیہ السلام دو راتوں میں قرآنِ پاک مکمل پڑھ لیا کرتے تھے۔ ‘‘
(الطبقات الکبری لابن سعد : 270/2، سنن الدارمي : 3528، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 273/4، وسندہٗ صحیحٌ)
4 امام قتادہ بن دعامہ تابعی علیہ السلام :
n سلام بن ابو مطیع علیہ السلام ،امام قتادہ بن دعامہ تابعی علیہ السلام کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
’إِنَّہٗ کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ سَبْعِ لَیَالٍ مَرَّۃً، فَإِذَا جَائَ رَمَضَانُ؛ خَتَمَ فِي کُلِّ ثَلَاثِ لَیَالٍ مَّرَّۃً، فَإِذَا جَائَ الْعَشْرُ؛ خَتَمَ فِي کُلِّ لَیْلَۃٍ مَّرَّۃً‘ ۔
’’آپ علیہ السلام سات راتوں میں ایک مرتبہ قرآنِ مجید مکمل کیا کرتے تھے۔ البتہ جب ماہِ رمضان المبارک آتا،توتین راتوں میں ایک مرتبہ قرآن کریم کی تکمیل کرتے اور جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا،تو ہر رات میں ایک مرتبہ تکمیل کرتے تھے۔‘‘
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 339/2، وسندہٗ صحیحٌ)
5 علقمہ بن قیس تابعی علیہ السلام :
n امام ابراہیم نخعی علیہ السلام ،علقمہ بن قیس نخعی تابعی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:
إِنَّ عَلْقَمَۃَ کَانَ یَقْرَأُ فِي خَمْسٍ، قَالَ : وَقَرَأَہٗ فِي مَکَّۃَ فِي لَیْلَۃٍ ۔
’’علقمہ علیہ السلام پانچ دنوں میں قرآنِ کریم پڑھا کرتے تھے،البتہ مکہ مکرمہ میں انہوں نے ایک رات میں قرآنِ کریم کی قراء ت کی۔‘‘
(فضائل القرآن للفریابي : 139، وسندہٗ صحیحٌ، فضائل القرآن لأبي عبید، ص : 182، الثقات لابن حبّان : 208/5، وسندہٗ صحیحٌ)
6 اسود بن یزید تابعی علیہ السلام :
n امام ابراہیم نخعی علیہ السلام ،اسود بن یزیدتابعی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:
کَانَ الْـأَسْوَدُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي شَہْرِ رَمَضَانَ فِي لَیْلَتَیْنِ، وَیَخْتِمُہٗ فِي سِوٰی رَمَضَانَ فِي سِتٍّ ۔
’’اسود بن یزید علیہ السلام رمضان المبارک میں دو راتوں میں مکمل قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، جبکہ عام حالات میںچھ دنوں میں قرآن کی تکمیل کیا کرتے تھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 500/2، الثقات لابن حبّان : 31/4، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 136/6، وسندہٗ صحیحٌ)
7 امام علی ازدی تابعی علیہ السلام :
n امام مجاہد بن جبر تابعی علیہ السلام ،علی ازدی تابعی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:
کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي رَمَضَانَ کُلَّ لَیْلَۃٍ ۔
’’آپ علیہ السلام رمضان المبارک میں ہر رات مکمل قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 500/2، الثقات لابن حبّان : 164/5، 165، وسندہٗ حسنٌ)
8 سعد بن ابراہیم تابعی علیہ السلام :
n امام شعبہ بن حجاج قشیری علیہ السلام فرماتے ہیں:
کَانَ سَعْدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ۔
’’سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن تابعی علیہ السلام ہر دن رات میں ایک دفعہ مکمل قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔‘‘
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 364/5، تاریخ دمشق لابن عساکر : 213/20، وسندہٗ صحیحٌ)
9 ابو ہارون خزاز رازی علیہ السلام :
n محمد بن خالد،خزاز علیہ السلام بارے میں امام ابن ابوحاتم رازی علیہ السلام کا بیان ہے:
کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ۔
’’آپ علیہ السلام ایک دن رات میں قرآنِ مجید مکمل کیا کرتے تھے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 245/7)
0 امام عبد الرحمٰن بن مہدی علیہ السلام :
n امام علی بن مدینی علیہ السلام فرماتے ہیں:
کَانَ عَبْدُ الرَّحْمٰنُ بْنُ مَہْدِيٍّ یَّخْتِمُ فِي کُلِّ لَیْلَتَیْنِ، کَانَ وِرْدُہٗ فِي کُلِّ لَیْلَۃٍ نِصْفُ الْقُرْآنَ ۔
’’امام عبد الرحمن بن مہدی علیہ السلام دو راتوں میں قرآنِ کریم مکمل کیا کرتے تھے۔ ایک رات میں نصف قرآن پڑھا کرتے تھے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 247/10، وسندہٗ صحیحٌ)
! امام محمد بن احمد بن ابو عون علیہ السلام :
n امام ابن حبان علیہ السلام اپنے استاذ محمد بن احمد بن ابو عون علیہ السلام کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
وَکَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ مَّرَّتَیْنِ ۔
’’آپ علیہ السلام ہر دن رات میں دو مرتبہ قرآنِ کریم مکمل کیا کرتے تھے۔‘‘
(صحیح ابن حبّان : 4622)
@ حافظ یحیٰی بن شرف نووی علیہ السلام :
n حافظ نووی علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَالِاخْتِیَارُ أَنَّ ذٰلِکَ یَخْتَلِف بِالْـأَشْخَاصِ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْل الْفَہْمِ وَتَدْقِیقِ الْفِکْرِ؛ اُسْتُحِبَّ لَہٗ أَنْ یَّقْتَصِرَ عَلَی الْقَدَرِ الَّذِي لَا یَخْتَلُّ بِہِ الْمَقْصُودُ مِنَ التَّدَبُّرِ وَاسْتِخْرَاجِ الْمَعَانِي، وَکَذَا مَنْ کَانَ لَہٗ شُغْلٌ بِالْعِلْمِ أَوْ غَیْرِہٖ مِنْ مُّہِمَّاتِ الدِّینِ وَمَصَالِحِ الْمُسْلِمِینَ الْعَامَّۃِ؛ یُسْتَحَبُّ لَہٗ أَنْ یَّقْتَصِرَ مِنْہُ عَلَی الْقَدَرِ الَّذِي لَا یُخِلُّ بِمَا ہُوَ فِیہِ، وَمَنْ لَّمْ یَکُنْ کَذٰلِکَ فَالْـأَوْلٰی لَہُ الِاسْتِکْثَارُ مَا أَمْکَنَہٗ مِنْ غَیْرِ خُرُوجٍ إِلَی الْمَلَلِ، وَلَا یَقْرَؤُہٗ ہَذْرَمَۃً، وَاللّٰہُ أَعْلَم ۔
’’اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ تکمیل قرآن کی مدت کا مسئلہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔جو شخص سمجھ بوجھ اور گہری سوچ رکھنے والا ہے، وہ اتنی مقدار میں تلاوت کرے کہ تدبر اور استخراج معانی کے مقصد میں خلل واقع نہ ہو۔ اسی طرح جو شخص علمی مصروفیات یا دیگر دینی سرگرمیوں اور عام مسلمانوں کی اصلاح میں مشغول ہے،اس کیلئے مستحب ہے کہ وہ اتنی مقدار میں تلاوت کرے کہ اس کے دیگر امور میں خلل نہ آئے۔ہاں،جو شخص ایسی مصروفیات میں نہیں ہے، اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ اکتاہٹ کے بغیر جس قدر ممکن ہو سکے،کثرت کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرے،نیز تیز رفتاری سے قراء ت نہ کرے،واللہ اعلم!‘‘
(التبیان في آداب حملۃ القرآن، ص : 61، فتح الباري شرح صحیح البخاري لابن حجر : 97/9، تفسیر ابن کثیر : 81/1، 82، بتحقیق عبدالرزاق المہدي)
# علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری علیہ السلام :
n شارحِ سنن ترمذی، علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَلَوْ تَتَبَّعْتَ تَرَاجِمَ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ؛ لَوَجَدْتَّ کَثِیرًا مِّنْہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقْرَئُ ونَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ، فَالظَّاہِرُ أَنَّ ہَوُلَائِ الْـأَعْلَامَ لَمْ یَحْمِلُوا النَّہْيَ عَنْ قِرَاء َۃِ الْقُرْآنِ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ عَلَی التَّحْرِیمِ ۔
’’اگر آپ ائمہ حدیث کی سیرت کی ورق گردانی کریں گے، تو آپ کو ان میں بہت سے ایسے ائمہ ملیں گے،جو تین دنوں سے پہلے قرآنِ کریم کی قراء ت مکمل کر لیا کرتے تھے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کبار محدثین تین دن سے پہلے قرآنِ کریم کی تکمیل کے بارے میں وارد ہونے والی ممانعت کو تحریمی نہیں سمجھتے تھے۔‘‘(تحفۃ الأحوذي : 63/4)
لیکن تکمیل کی جو بھی صورت ہو،آداب ِتلاوت کو ملحوظ ِخاطر رکھنا چاہیے،جیسا کہ امام ترمذی علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَالتَّرْتِیلُ فِي الْقِرَاء َۃِ أَحَبُّ إِلَی أَہْلِ الْعِلْمِ ۔
’’قراء ت میں ترتیل اہل علم کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 2946)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.