1,996

قرآن کریم کی تعلیم بطور حق مہر، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

قرآن مجید کی تعلیم بہ طور حق مہر

قرآن مجید کی تعلیم کو مہر مقرر کرنا جائز ہے ، جیسا کہ ؛
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ امْرَأَۃٌ، فَقَالَتْ : إِنَّہَا قَدْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلّٰہِ وَلِرَسُولِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : مَا لِي فِي النِّسَاءِ مِنْ حَاجَۃٍ، فَقَالَ رَجُلٌ : زَوِّجْنِیہَا، قَالَ : أَعْطِہَا ثَوْبًا، قَالَ : لاَ أَجِدُ، قَالَ : أَعْطِہَا وَلَوْ خَاتَمًا مِّنْ حَدِیدٍ، فَاعْتَلَّ لَہ،، فَقَال : مَا مَعَکَ مِنَ القُرْآنِ؟ قَالَ : کَذَا وَکَذَا، قَالَ : فَقَدْ زَوَّجْتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِنَ القُرْآن .
”ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی کہ میں نے خود کو اللہ اور اس کے سچے رسول کے لیے وقف کردیا ہے۔ فرمایا : ابھی مجھے شادی میں رغبت نہیں ہے، ایک صحابی کہنے لگے : میری شادی کر وا دیں! فرمایا : کوئی سوٹ مہر دے دیں۔ کہنے لگا : سوٹ تو نہیں ہے۔ فرمایا: کچھ دے دیں، خواہ لوہے کا چھلا ہی ہو جائے۔ آدمی نے عذر پیش کیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا : کچھ قرآن یاد ہے؟ کہنے لگا : جی ہاں، فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ فرمایا: میں نے ان سے آپ کا نکاح ان سورتوں کی تعلیم کے عوض کر دیا۔”
(صحیح البخاري : ٥٠٢٩، صحیح مسلم : ١٤٢٥)
صحیح مسلم (١٤٢٥/٧٧) میں الفاظ ہیں:
اِنْطَلِقْ، فَقَدْ زَوَّجْتُکَھَا، فَعَلِّمْھَا مِنَ الْقُرْآنِ .
”جائیے! میں نے ان سے آپ کا نکاح کردیا، بس قرآنی سورتوں کی تعلیم دے دینا۔”
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  سے ہی مروی روایت کے الفاظ یہ بھی ہیں:
أَنَا فِي الْقَوْمِ إِذْ دَخَلَتِ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّہَا قَدْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لَکَ فَرَ فِیہَا رَأْیَکَ فَقَالَ رَجُلٌ : زَوِّجْنِیہَا، فَلَمْ یُجِبْہُ حَتّٰی قَامَتِ الثَّالِثَۃَ، فَقَالَ لَہ، : عِنْدَکَ شَيْئٌ؟ قَالَ : لَا، قَالَ : اذْہَبْ فَاطْلُبْ، قَالَ : لَمْ أَجِدْ، قَالَ : فَاذْہَبْ فَاطْلُبْ، وَلَوْ خَاتَمًا مِّنْ حَدِیدٍ، قَالَ : مَا وَجَدْتُ خَاتَمًا مِّنْ حَدِیدٍ، قَالَ : ہَلْ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئٌ؟ قَالَ : نَعَمْ، سُورَۃُ کَذَا، وَسُورَۃُ کَذَا قَالَ : قَدْ أَنْکَحْتُکَہَا عَلٰی مَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ .
”ہم آپس میں بیٹھے تھے، کہ ایک عورت آئی او رکہنے لگی : اللہ کے رسول! میں خود کو آپ کے لیے وقف کرتی ہوں، آپ کا کیا ارادہ ہے؟ ایک آدمی عرض کرنے لگا : آپ میری شادی کروا دیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی جواب نہ دیا، حتی کہ جب تیسری بار کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: حق مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے؟ کہنے لگا : نہیں۔ فرمایا: جائیے اور کچھ تلاش کر لائیں۔ کہنے لگا : کچھ نہیں ملا۔ فرمایا: جائیے اور کچھ تلاش کر لائیں، لوہے کا چھلا بھی چل جائے گا۔ کہنے لگا: وہ بھی نہیں ملا۔ فرمایا: کچھ قرآن یاد ہے؟ کہنے لگا : جی ہاں، فلاں فلاں سورتیں حفظ ہیں۔ فرمایا: میں ان سے آپ کا نکاح ان سورتوں کی تعلیم کے عوض کرتا ہوں۔”
(مسند الإمام أحمد : ٥/٣٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَقَدْ ذَہَبَ الشَّافِعِيُّ إِلٰی ہٰذَا الحَدِیثِ، فَقَالَ : إِنْ لَمْ یَکُنْ لَّہ، شَيْءٌ یُّصْدِقُہَا فَتَزَوَّجَہَا عَلٰی سُورَۃٍ مِّنَ القُرْآنِ، فَالنِّکَاحُ جَائِزٌ، وَیُعَلِّمُہَا سُورَۃً مِّنَ القُرْآنِ .
”امام شافعی رحمہ اللہ  اس حدیث کے مطابق فرماتے ہیں : مہر کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور قرآن کی چند سورتوں کے عوض نکاح کر لیا جائے، تو ایسا نکاح جائز و صحیح ہے، بس بیوی کو قرآن کی کوئی سورت سکھا دے۔”
(سنن الترمذي تحت حدیث : ١١١٤)
امام مالک بن انس رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
فِي الَّذِي أَمَرَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّنْکِحَ بِمَا مَعَہ، مِنَ الْقُرْآنِ أَنَّ ذَالِکَ فِي أُجْرَتِہٖ عَلٰی تَعْلِیمِہَا مَا مَعَہ، مِنَ الْقُرْآنِ .
”جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا کہ وہ قرآن کے عوض نکاح کر سکتے ہیں، در حقیقت وہ اس عورت کو قرآن کی تعلیم دینے پر اجرت کے عوض تھا۔”
(الِاستذکار لابن عبد البر : ٥/٤١٥، التمہید لما في الموطّأ من المعانی والآثار لہ، : ٢١/١٢٠، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  (٥٠٨۔٥٩٧ھ) فرماتے ہیں:
قَوْلُہ، : [بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ] دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ تَعْلِیمَ الْقُرْآنِ یَجُوزُ أَنْ یَّکُونَ صَدَاقًا .
” بِمَا مَعَک من الْقُرْآن دلیل ہے کہ قرآن کی تعلیم حق مہر بن سکتی ہے۔”
(کشف المشکِل من حدیث الصحیحین : ٢/٢٧٠)
حافظ خطابی رحمہ اللہ  (٣١٩۔٣٨٨) لکھتے ہیں :
وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی جَوَازِ الْـأُجْرَۃِ عَلٰی تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ وَالْبَاءُ فِي قَوْلِہٖ بِمَا مَعَکَ بَاءُ التَّعْوِیضِ کَمَا تَقُولُ : بِعْتُکَ ہٰذَا الثَّوْبَ بِدِینَارٍ أَوْ بِعَشْرَۃِ دَرَاہِمَ؛ وَلَوْ کَانَ مَعْنَاہَا مَا تَأَوَّلَہ، بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَنَّہ، إِنَّمَا زَوَّجَہ، إِیَّاہَا لِحِفْظِہِ الْقُرْآنَ تَفْضِیلاً لَّہ، لَجُعِلَتِ الْمَرْأَۃُ مَوْہُوبَۃً بِّلَا مَہْرٍ وَّہٰذِہٖ خُصُوصِیَّۃٌ لَّیْسَتْ لِغَیرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَوْلَا أَنَّہ، أَرَادَ بِہٖ مَعْنَی الْمَہْرِ لَمْ یَکُنْ لِّسُؤَالِہٖ إِیَّاہَا ہَلْ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ مَعَنٰی لِـأَنَّ التَّزْوِیجَ مِمَّنْ لَّا یُحْسِنُ الْقُرْآنَ جَائِزٌ جَوَازُہ، مِمَّنْ یُّحْسِنُہ،، وَلَیْسَ فِي الْحَدِیثِ أَنَّہ، جَعَلَ الْمَہْرَ دَیْناً عَلَیْہِ إِلٰی أَجَلٍ فَکَانَ الظَّاہِرُ أَنَّہ، جَعَلَ تَعْلِیمَہُ الْقُرْآنَ إِیَّاہَا مَہْراً لَّہَا .
”اس حدیث میں قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اس میں باء تعویض کے لیے ہے، جیسا کہ ‘بعتک ھذا الثوب بدینار و بعشرۃ’ دراہم میں باء تعویض کے لیے ہے۔ اگر باء کا معنی وہ ہوتا، جو بعض اہل علم نے بنا لیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کو فضلیت دیتے ہوئے شادی کی کہ اسے قرآن یاد ہے، تو یوں تو عورت کا بغیر مہر ہبہ ہونا لازم آتا ہے، جب کہ یہ صرف نبی کا خاصہ ہے۔ اگر آپ نے اس مہر نہ بنایا ہوتا، تو اس سے یہ پوچھنے کا کیا فائدہ کہ کیا آپ کو قرآن یاد ہے؟ کیوں کہ جیسے اچھے انداز میں قرآن پڑھنے والے کی شادی کرنا جائز ہے، ویسے ہی نا شائستہ انداز میں قرآن پڑھنے والے کی شادی کرنا جائز ہے۔ نیز اس کا مہر مؤجل بھی نہیں بنایا، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ قرآن کی تعلیم کو ہی مہر مقرر کر دیا گیا۔”
(معالم السنن : ٣/٢١١)
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ  (٦٠٠۔٦٧١ھ) لکھتے ہیں:
فِي رِوَایَۃٍ قَالَ : (اِنْطَلِقْ فَقَدْ زَوَّجْتُکَہَا فَعَلِّمْہَا مِنَ الْقُرْآنِ) قَالُوا : فَفِي ہٰذَا دَلِیلٌ عَلَی انْعِقَادِ النِّکَاحِ وَتَأَخُّرِ الْمَہْرِ الَّذِي ہُوَ التَّعْلِیمُ، وَہٰذَا عَلَی الظَّاہِرِ مِنْ قَوْلِہٖ : (بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ) فَإِنَّ الْبَاءَ لِلْعِوَضِ، کَمَا تَقُولُ : خُذْ ہٰذَا بِہٰذَا، أَيْ عِوَضًا مِّنْہُ . وَقَوْلُہ، فِي الرِّوَایَۃِ الْـأُخْرٰی : (فَعَلِّمْہَا) نَصٌّ فِي الْـأَمْرِ بِالتَّعْلِیمِ، وَالْمَسَاقُ یَشْہَدُ بِأَنَّ ذَالِکَ لِأَجْلِ النِّکَاحِ، وَلَا یُلْتَفَتُ لِقَوْلِ مَنْ قَالَ إِنَّ ذَالِکَ کَانَ إِکْرَامًا لِّلرَّجُلِ بِمَا حَفِظَہ، مِنَ الْقُرْآنِ، أَيْ لِمَا حَفِظَہ،، فَتَکُونُ الْبَاءُ بِمَعْنَی اللَّامِ، فَإِنَّ الْحَدِیثَ الثَّانِي یُصَرِّحُ بِخِلَافِہٖ فِي قَوْلِہٖ : (فَعَلِّمْہَا مِنَ الْقُرْآنِ) .
”دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ‘جائیے! میں نے ان سے آپ کو بیاہ دیا، بس انہیں قرآن سکھا دیجیے گا۔’ فقہائے کرام کہتے ہیں کہ اس حدیث سے نکاح کے انعقاد اور مہر جو کہ تعلیم ہے کو مؤخر کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ یہ نبی پاک کے اس فرمان کا ظاہر ہے: (بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ) ‘جتنا آپ کو قرآن یاد ہے۔’ اس میں باء عوض کے لیے ہے ، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : خذ ھذا بھذا یعنی یہ اس کے عوض لے لیں۔ ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان (فَعَلِّمْہَا) نص ہے کہ یہ تعلیم کا حکم ہے۔ سیاق تقاضا کرتا ہے کہ یہ حکم نکاح کی وجہ سے تھا۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ یہ نکاح اکرام کی وجہ سے ہوا تھا، کیوں کہ آدمی کو قرآن یاد تھا، اس طور یہ باء لام کے معنی میں ہو گی۔ لیکن اس معنی کا رد حدیث کے اگلے الفاظ میں ہے کہ (فَعَلِّمْہَا مِنَ الْقُرْآنِ) ‘آپ انہیں قرآن سکھا دیں۔”’
(تفسیر القرطبي : ٥/١٣٤)
سنی مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  (٧٠٠۔٧٧٤ھ) کہتے ہیں:
وَہٰذَا الْحَدِیثُ مُتَّفَقٌ عَلٰی إِخْرَاجِہٖ مِنْ طُرُقٍ عَدِیدَۃٍ، وَالْغَرَضُ مِنْہُ أَنَّ الَّذِي قَصَدَہُ الْبُخَارِيُّ أَنَّ ہٰذَا الرَّجُلَ تَعَلَّمَ الَّذِي تَعَلَّمَہ، مِنَ الْقُرْآنِ، وَأَمَرَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُعَلِّمَہ، تِلْکَ الْمَرْأَۃَ، وَیَکُونَ ذَالِکَ صَدَاقًا لَہَا عَلٰی ذَالِکَ، وَہٰذَا فِیہِ نِزَاعٌ بَّیْنَ الْعُلَمَائِ، وَہَلْ یَجُوزُ أَنْ یُّجْعَلَ مِثْلُ ہٰذَا صَدَاقًا؟ أَوْ ہَلْ یَجُوزُ أَخْذُ الْـأُجْرَۃِ عَلٰی تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ؟ وَہَلْ ہٰذَا کَانَ خَاصًّا بِّذَالِکَ الرَّجُلِ؟ وَمَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ (زَوَّجْتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ؟) أَبِسَبَبِ مَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ کَمَا قَالَہ، أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : نُکْرِمُکَ بِذَالِکَ أَوْ بِعِوَضِ مَا مَعَکَ، وَہٰذَا أَقْوٰی، لِقَوْلِہٖ فِي صَحِیحِ مُسْلِمٍ (فَعَلِّمْہَا) وَہٰذَا ہُوَ الَّذِي أَرَادَہُ الْبُخَارِيُّ ہَاہُنَا .
”یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، جو معنی امام بخاری رحمہ اللہ  نے مراد لیا ہے وہ یہ ہے کہ اس آدمی نے قرآن کا کچھ حصہ سیکھا ہوا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیا کہ وہ قرآن کا ایک حصہ اس عورت کو سکھا دے، نکاح پر اس کا یہی مہر بن جائے گا۔ اہل علم کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کیا ایسی چیز مہر بن سکتی ہے؟ یا قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے؟ یا یہ اس آدمی کے ساتھ ہی خاص تھا؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا معنی؟ (زَوَّجْتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ؟) ‘میں نے اس سے قرآن کی تعلیم کے عوض آپ سے کر دیا۔’ کیا قرآن یاد ہونے کی وجہ سے جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ ہم آپ کا اکرام کرتے ہوئے نکاح کرتے ہیں یا پھر اس قرآن کے عوض جو آپ کو یاد ہے؟ آخری معنی ہی زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے ، کیوں کہ صحیح مسلم کے الفاظ (فَعَلِّمْہَا) اسی بات کا پتہ دیتے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ  کی بھی یہاں یہی مراد ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ١/٦٨، سلامۃ)
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ  (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں:
وَتَضَمَّنَ أَنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا رَضِیَتْ بِعِلْمِ الزَّوْجِ وَحِفْظِہٖ لِلْقُرْآنِ أَوْ بَعْضِہٖ مِنْ مَّہْرِہَا جَازَ ذَالِکَ، وَکَانَ مَا یَحْصُلُ لَہَا مِنِ انْتِفَاعِہَا بِالْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ ہُوَ صَدَاقُہَا، کَمَا إِذَا جَعَلَ السَّیِّدُ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا، وَکَانَ انْتِفَاعُہَا بِحُرِّیَّتِہَا وَمِلْکِہَا لِرَقَبَتِہَا ہُوَ صَدَاقُہَا، وَہٰذَا ہُوَ الَّذِي اخْتَارَتْہُ أُمُّ سُلَیْمٍ مِنِ انْتِفَاعِہَا بِإِسْلَامِ أَبِي طَلْحَۃَ، وَبَذْلِہَا نَفْسَہَا لَہ، إِنْ أَسْلَمَ، وَہٰذَا أَحَبُّ إِلَیْہَا مِنَ الْمَالِ الَّذِي یَبْذُلُہُ الزَّوْجُ .فَإِنَّ الصَّدَاقَ شُرِعَ فِي الْـأَصْلِ حَقًّا لِّلْمَرْأَۃِ تَنْتَفِعُ بِہٖ، فَإِذَا رَضِیَتْ بِالْعِلْمِ وَالدِّینِ وَإِسْلَامِ الزَّوْجِ وَقِرَاء َتِہٖ لِلْقُرْآنِ کَانَ ہٰذَا مِنْ أَفْضَلِ الْمُہُورِ وَأَنْفَعِہَا وَأَجَلِّہَا، فَمَا خَلَا الْعَقْدُ عَنْ مَّہْرٍ وَّأَیْنَ الْحُکْمُ بِتَقْدِیرِ الْمَہْرِ بِثَلَاثَۃِ دَرَاہِمَ أَوْ عَشَرَۃٍ مِّنَ النَّصِّ؟ وَالْقِیَاسُ إِلَی الْحُکْمِ بِصِحَّۃِ کَوْنِ الْمَہْرِ مَا ذَکَرْنَا نَصًّا وَّقِیَاسًا وَّلَیْسَ ہٰذَا مُسْتَوِیًا بَّیْنَ ہَذِہِ الْمَرْأَۃِ وَبَیْنَ الْمَوْہُوبَۃِ الَّتِي وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِیَ خَالِصَۃٌ لَّہ، مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ، فَإِنَّ تِلْکَ وَہَبَتْ نَفْسَہَا ہِبَۃً مُّجَرَّدَۃً عَنْ وَّلِيٍّ وَّصَدَاقٍ بِّخِلَافِ مَا نَحْنُ فِیہِ فَإِنَّہ، نِکَاحٌ بِّوَلِيٍّ وَّصَدَاقٍ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ مَالِيٍّ، فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ جَعَلَتْہُ عِوَضًا عَنِ الْمَالِ لِمَا یَرْجِعُ إِلَیْہَا مِنْ نَّفْعِہٖ، وَلَمْ تَہَبْ نَفْسَہَا لِلزَّوْجِ ہِبَۃً مُّجَرَّدَۃً کَہِبَۃِ شَيْءٍ مِّنْ مَّالِہَا بِخِلَافِ الْمَوْہُوبَۃِ الَّتِي خَصَّ اللّٰہُ بِہَا رَسُولَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ہٰذَا مُقْتَضٰی ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ . وَقَدْ خَالَفَ فِي بَعْضِہٖ مَنْ قَالَ : لَا یَکُونُ الصَّدَاقُ إِلَّا مَالًا وَّلَا تَکُونُ مَنَافِعُ أُخْرَی، وَلَا عِلْمُہ، وَلَا تَعْلِیمُہ، صَدَاقًا کَقَوْلِ أَبِي حَنِیفَۃَ وَأَحْمَدَ فِي رِوَایَۃٍ عَنْہُ . وَمَنْ قَالَ : لَا یَکُونُ أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَۃِ دَرَاہِمَ کَمَالِکٍ وَّعَشَرَۃِ دَرَاہِمَ کَأَبِي حَنِیفَۃَ، وَفِیہِ أَقْوَالٌ أُخَرُ شَاذَّۃٌ لَّا دَلِیلَ عَلَیْہَا مِنْ کِتَابٍ وَّلَا سُنَّۃٍ وَّلَا إِجْمَاعٍ وَّلَا قِیَاسٍ وَّلَا قَوْلِ صَاحِبٍ . وَمَنِ ادَّعٰی فِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ الَّتِي ذَکَرْنَاہَا اخْتِصَاصَہَا بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَنَّہَا مَنْسُوخَۃٌ أَوْ أَنَّ عَمَلَ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ عَلٰی خِلَافِہَا فَدَعْوٰی لَا یَقُومُ عَلَیْہَا دَلِیل . وَالْـأَصْلُ یَرُدُّہَا، وَقَدْ زَوَّجَ سَیِّدُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مِنَ التَّابِعِینَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ ابْنَتَہ، عَلٰی دِرْہَمَیْنِ وَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِ أَحَدٌ، بَلْ عُدَّ ذٰلِکَ فِي مَنَاقِبِہٖ وَفَضَائِلِہٖ، وَقَدْ تَزَوَّجَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ عَلٰی صَدَاقٍ خَمْسَۃِ دَرَاہِمَ، وَأَقَرَّہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا سَبِیلَ إِلٰی إِثْبَاتِ الْمَقَادِیرِ إِلَّا مِنْ جِہَۃِ صَاحِبِ الشَّرْعِ .
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ اگر عورت اپنے خاوند کے قرآن کے متعلق علم و حفظ دونوں یا کسی ایک کو بہ طور مہر تسلیم کر لے، تو ایسا کرنا جائز ہے۔ یوں قرآن کے حفظ اور علم سے جو فائدہ حاصل ہو گا اسے مہر ٹھہرایا جائے گا۔ جیسا کہ اگر آقا اپنی لونڈی کی آزادی کو مہر بنا لے، وہ اپنی آزادی اور خود مختار ہونے سے حاصل ہونے والے فائدے کو مہر بنا لے گی۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا  نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ  کی اسلام کے انتفاء کو مہر قبول کر لیا اور خود کو ان کے اسلام قبول کرنے کے لیے وقف کردیا، انہیں قبول اسلام اس سے کہیں زیادہ محبوب تھا کہ اس کا شوہر انہیں مالی فائدہ پہنچاتا، کیوں کہ مہر دراصل مشروع ہی عورت کو فائدہ بہم پہنچانے کے لیے ہوا ہے۔ جب عورت علم، دین یا اپنے خاوند کے قبول اسلام اور قرآن کی قراء ت پر راضی ہو، تو یہ افضل ترین، نفع مند اور عظیم تر حق مہر ہوگا۔ لہٰذا یہ عقد مہر سے خالی نہیں ہے۔ تین یا دس درہم حق مہر کے تقرر کا نص میں حکم کہاں؟ قیاس یہی ہے کہ مہر دیا جائے گا، جیسا کہ ہم نے نص اور قیاس سے ثابت کر دیا ہے۔ ایک یہ عورت اور دوسری جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر خود کو پیش کردے، دونوں کا حکم برابر نہیں ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا خاصہ ہے۔ کیوں کہ اس نے آپ سے نکاح کی پیش کش بغیر کسی ولی اور مہر کے کی تھی، جب کہ ہم ولی اور مہر کی بات کرتے ہیں، گو مہر مالی نہ بھی ہو، کیوں عورت نے خاوند سے حاصل ہونے والے نفع کو مال کا عوض بنا لیا۔ اس عورت نے خود کو اپنے خاوند کے لیے بغیر کسی نفع کے ہبہ نہیں کیا، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو کیا، کیوں کہ یہ اللہ نے آپ کو خصوصیت دے رکھی ہے۔ ان تمام احادیث کا تقاضا یہی ہے۔ بعض احادیث کے متعلق علما مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ مہر مال ہی ہو سکتا ہے، دیگر منافع، علم و تعلیم وغیرہ مہر نہیں بن سکتے۔ امام ابو حنیفہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا یہی قول ہے۔ بعض نے امام مالک کے قول کو اختیار کرتے ہوئے مہر کی مقدار تین درہم بتائی ہے، تو بعض نے امام ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرتے ہوئے دس درہم کی بات کی ہے۔ دیگر شاذ اقوال بھی ہیں، جن پر قرآن، حدیث، اجماع ، قیاس اور قول صحابی سے دلیل نہیں ملتی۔جو ان احادیث میں خاصہئ نبوی کی بات کرے یا منسوخ کہیں یا اہل مدینہ کے عمل کے مخالف کہے، تو یہ دعوی بلا دلیل ہوگا، جنہیں نص رد کر دے گی۔ تابعین میں سید اہل مدینہ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ  نے اپنی بیٹی کی شادی دو درہم مہر پر کی اور کسی نے آپ پر تنکیر نہیں کی، بل کہ اسے آپ کے فضائل و مناقب میں شمار کیا گیا۔ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  نے پانچ درہم مہر پر شادی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے ثابت رکھا۔ لہٰذ ا مقدار کا تعین شریعت ہی کر سکتی ہے۔”
(زاد المعاد في ھدي خیر العباد : ٥/١٦٢، ١٦٣)
فائدہ نمبر 1 :
ابو نعمان ازدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
زَوَّجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی سُورَۃٍ مِّنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ قَالَ : لَا یَکُونَ لِـأَحَدٍ بَّعْدَکَ مَھْرًا .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک سورت کو مہر بنا کر شادی کروائی اور فرمایا : آپ کے علاوہ کسی اور کے لیے اسے مہر بنانا جائز نہیں۔”
(التحقیق في مسائل الخلاف لابن الجوزي : ٢/٢٨٣، ح : ١٦٧٧، سنن سعید بن منصور : ٦٤٢)
تبصرہ :
جھوٹی روایت ہے۔ ابو عرفجہ اور ابو نعمان دونوں ”مجہول” ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی کی کارستانی ہے۔ واللہ اعلم !
حافظ ابن عبدا لہادی رحمہ اللہ  (٧٠٥۔٧٤٤ھ) اس روایت کو غیر ثابت اور مرسل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
وَأَبُو عَرْفَجَۃَ وَأَبُو النُّعْمَانِ مَجْھُولَانِ .
”ابو عرفجہ اور ابو نعمان دونوں ‘مجہول’ ہیں۔”
(تنقیح التحقیق في أحادیث التعلیق : ٤/٣٨١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
ھٰذَا لَا یَثْبُتُ .    ”یہ حدیث ثابت نہیں۔”
(مختصر التحقیق في أحادیث التعلیق : ٢/١٩٧)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَھٰذَا مَعَ إِرْسَالِہٖ فِیہِ مَنْ لَّا یُعْرَفُ .
”یہ روایت ‘مرسل’ ہو نے کے ساتھ ساتھ ‘مجہول’ راویوں کے ہتھے بھی چڑھی ہوئی ہے۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٩/٢١٢)
بعض لوگوں نے اسے بخاری کی طرف منسوب کرکے فحش غلطی کھائی ہے۔
فائدہ نمبر 2 :
مکحول شامی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لَیْسَ ذٰلِکَ لِـأَحَدٍ بَّعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چلے جانے بعد یہ کسی کے لیے روا نہیں۔”
(سنن أبي داؤد : ٢١١٣)
حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ  اسے غیر ثابت اور مرسل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَقَوْلُ مَکْحُولٍ لَّیْسَ بِحُجَّۃٍ .
”مکحول رحمہ اللہ  کا قول حجت نہیں ہے۔”
(تنقیح التحقیق : ٤/٣٨١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَھُوَ مُنْقَطِعٌ .    ”یہ ‘منقطع’ ہے۔”
(مختصرالتحقیق في أحادیث التعلیق : ٢/١٩٧)
فائدہ نمبر 3 :
ایک روایت ہے:
قَدْ أَنْکَحْتُکَہَا عَلٰی أَنْ تُقْرِئَہَا وَتُعَلِّمَہَا وَإِذَا رَزَقَکَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَوَّضْتَہَا فَتَزَوَّجَہَا الرَّجُلُ عَلٰی ذَالِکَ .
”میں ان سے آپ کا نکاح اس شرط پر کیے دیتا ہوں کہ آپ انہیں پڑھائیں گے اور تعلیم دیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ آپ کو مال و دولت سے نوازیں، تو مہر بھی ادا کریں گے۔ آدمی نے شرط قبول کرکے شادی کر لی۔”
(سنن الدارقطني : ٣/٢٤٩، ٢٥٠، السنن الکبریٰ للبیھقي : ٧/٢٤٣)
تبصرہ :
جھوٹی روایت ہے۔ عتبہ بن سکن ”متروک” ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
تَفَرَّدَ بِہٖ عُتْبَۃُ، وَھُوَ مَتْرُوکٌ .
”یہ روایت عتبہ کا تفرد ہے، جو کہ ‘متروک’ ہے۔”
امام بیہقی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
عُتْبَۃُ بْنُ السَّکَنِ مَنْسُوبٌ إِلَی الْوَضْعِ، وَھٰذَا بَاطِلٌ لَّا أَصْلَ لَہ، .
”عتبہ بن سکن ‘وضاع’ قسم کا راوی ہے اور یہ روایت باطل اور بے اصل ہے۔”
اس روایت میں اور بھی خرابی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اسے ”غیر ثابت” کہا ہے۔(فتح الباري : ٩/٢١٣)
الحاصل :    تعلیم قرآن مجید کو مہر مقرر کرنا جائز اور درست ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.