1,919

تفسیر طبری اہل نظر کی نظرمیں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

تفسیر طبری اہل ِنظر کی نظر میں

امام طبری رحمہ اللہ  کی تفسیر کا نام ”جامع البیان عن تاویل آی القرآن المعروف بہ تفسیر الطبری” ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر کے حوالے سے عظیم سرمایہ ہے۔
حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
اَلتَّفْسِیرُ، لَمْ یُصَنِّفْ َأَحَدٌ مِّثْلَہ، .
”اس جیسی تفسیر کسی نے نہیں لکھی۔”
(تاریخ بغداد : ٢/١٦٣)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
تَفْسِیرُ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبَرِيِّ، وَہُوَ مِنْ أَجَلِّ التَّفَاسِیرِ وَأَعْظَمِہَا قَدْرًا .
”تفسیر طبری ایک جلیل قدر اور عظیم المرتبت تفسیر ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ : ١٣/٣٦١)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَمَّا التَّفَاسِیرُ الَّتِي فِي أَیْدِي النَّاسِ فَأَصَحُّہَا : تَفْسِیرُ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبَرِيِّ فَإِنَّہ، یَذْکُرُ مَقَالَاتِ السَّلَفِ بِالْـأَسَانِیدِ الثَّابِتَۃِ وَلَیْسَ فِیہِ بِدْعَۃٌ .
”تمام تفاسیر میں سے صحیح ترین تفسیر، محمد بن جریر طبری کی تفسیر ہے۔ آپ متقدمین مفسرین کے تفسیری اقوال صحیح سندوں سے ذکر کرتے ہیں۔ یہ تفسیر بدعی نظریات سے پاک ہے۔”
(الفتاویٰ الکبریٰ : ٥/٨٤، مجموع الفتاویٰ : ١٣/٣٨٥)
مزید فرماتے ہیں:
وَالتَّفَاسِیرُ الْمَأْثُورَۃُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعِینَ، مِثْلُ تَفْسِیرِ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرِ الطَّبَرِيِّ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور تابعین عظام سے منقول و ماثور تفاسیر جیسے محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ  کی تفسیر ۔”
(درء تعارض العقل والنقل : ٢/٢١)
مفسر ابن عطیہ رحمہ اللہ  (٥٤١ھ) لکھتے ہیں:
ثُمَّ إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَرِیرِ الطَّبَرِيَّ رَحِمَہُ اللّٰہُ، جَمَعَ عَلَی النَّاسِ أَشْتَاتِ التَّفْسِیرِ، وَقَرَّبَ الْبَعِیدَ وَشَفٰی فِي الـإِسْنَادِ .
”امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ  نے لوگوں کے لیے تفسیری موتی چنے، دور پڑے علمی خزینے کو قریب کر دیا اور سند کا اہتمام کیا۔”
(المحرر الوجیز في تفسیر الکتاب العزیز المعروب بہ تفسیر ابن عطیۃ : ١/٣١)
مؤرخ اسلام مفسر قرآن امام ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
رَوَی الْکَثِیرَ عَنِ الْجَمِّ الْغَفِیرِ، وَرَحَلَ إِلَی الْآفَاقِ فِي طَلَبِ الْحَدِیثِ، وَصَنَّفَ التَّارِیخَ الْحَافِلَ، وَلَہ، التَّفْسِیرُ الْکَامِلُ الَّذِي لَا یُوجَدُ لَہ، نَظِیرٌ، وَغَیْرُہُمَا مِنَ الْمُصَنَّفَاتِ النَّافِعَۃِ فِي الْـأُصُولِ وَالْفُرُوعِ .
”امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ  نے شیوخ و اساتذہ کے ایک جم ِغفیر سے کسب ِفیض کیا، طلبِ حدیث میں کئی اسفار کیے، ضخیم تاریخی کتاب تصنیف کی، نیز آپ  رحمہ اللہ  نے ایک بے مثال تفسیر بھی لکھی۔ اس کے علاوہ بھی آپ کی اصول و فروع میں بہت سی تصانیف ہیں۔”
(البدایۃ والنھایۃ : ١١/١٦٥، طبع إحیاء التراث)
امام ابن جریر  رحمہ اللہ  کے شاگرد عبد اللہ بن احمد بن جعفر ابو محمد فرغانی رحمہ اللہ  (٣٦٢ھ) کہتے ہیں :
فَتَمَّ مِنْ کُتُبٍ یَّعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ جَرِیرٍ کَتَابَ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ وَجَوَّدَہ،، وَبَیَّنَ فِیہِ أَحْکَامَہ،، وَنَاسِخَہ، وَمَنْسُوخَہ،، وَمُشْکِلَہ، وَغَرِیبَہ،، وَمَعَانِیہِ، وَاخْتِلَافَ أَہْلِ التَّأْوِیلِ وَالْعُلَمَاءِ فِي أَحْکَامِہٖ وَتَأْوِیلِہٖ، وَالصَّحِیحَ لَدَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ، وَإِعْرَابَ حُرُوفِہٖ، وَالْکَلَامَ عَلَی الْمُلْحِدِینَ فِیہِ، وَالْقِصَصَ وَأَخْبَارَ الْـأُمَّۃِ، وَالْقِیَامَۃَ، وَغَیْرَ ذٰلِکَ مِمَّا حَوَاہُ مِنَ الْحِکَمِ وَالْعَجَائِبِ، کَلِمَۃً کَلِمَۃً، وَآیَۃً آیَۃً، مِنَ الِاسْتِعَاذَۃِ إِلٰی أَبِي جَادَ، فَلَوِ ادَّعٰی عَالِمٌ أَنْ یُصَنِّفَ مِنْہُ عَشْرَۃَ کُتُبٍ، کُلُّ کِتَابٍ مِّنْہَا یَحْتَوِي عَلٰی عِلْمٍ مُّفْرَدٍ عَجِیبٍ مُسْتَقْصًی لَّفَعَلَ .
”امام محمد بن جریرطبری رحمہ اللہ  کی کتب میں سے ایک تفسیر القرآن ہے، آپ نے اس میں عمدگی کا مظاہرہ کیا، احکامات ، ناسخ و منسوخ، مشکل و غریب، معانی و مفاہیم، علماء و مفسرین کے احکام اور تفسیری اختلافات، راجح اقوال، اعراب پر بحث، ملحدین پر ردود، سابقہ امتوں کے قصص، امت محمدیہ کے احوال، قیامت کے مناظر اور دیگر حکمتیں اور لطائف پر لفظ لفظ اور آیت آیت کر کے شروع سے آخر تک سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اگر کوئی عالم اس سے دس ایسی کتابیںتصنیف کرنا چاہے کہ جس میں سے ہر کتاب ایک علیحدہ، انوکھے اور تحقیقی فن کو محیط ہو، تو ایسا بعید نہیں۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر : ٥٢/١٩٦، طبقات المفسرین للداوودي : ٢/١١٤، واللفظ لہ،، وسندہ، حسنٌ)
علامہ ابو الحسن علی بن یوسف قغطی رحمہ اللہ  (٥٦٨۔٦٤٦ھ) لکھتے ہیں:
اَلْعَالِمُ الْکَامِلُ الْفَقِیہُ الْمُقْرِیئُ النَّحْوِيُّ اللُّغَوِيُّ الْحَافِظُ الْـأَخْبَارِيُّ جَامِعُ الْعُلُومِ، لَمْ یُرَ فِي فُنُونِہٖ مِثْلُہ،، سَمِعَ بِبَلَدِہٖ وَبِلَادِ الْـأَعَاجِمِ وَالْعِرَاقِ وَالشَّامِ وَمِصْرَ وَالْحِجَازِ الْجَمَّ الْغَفِیرَ، وَاسْتَوْطَنَ بَغْدَادَ، وَصَنَّفَ التَّصَانِیفَ الْکِبَارَ؛ مِنْہَا تَفْسِیرُ الْقُرْآنِ الَّذِي لَمْ یُرَ أَکْبَرُ مِنْہُ وَلَا أَکْثَرُ فَوَائِدَ، وَکِتَابُ التَّارِیخِ، وَہُوَ أَجَلُّ کِتَابٍ فِي بَابِہٖ .
”آپ رحمہ اللہ  عالم کامل، فقیہ، مقری، نحوی، لغوی، حافظ حدیث، مؤرخ اور ہر فن مولاتھے۔ آپ کی شان کو کوئی نہیںپہنچ سکا، اپنے علاقے کے علاوہ عجم کے علاقے، عراق، شام، مصر اور حجاز وغیرہ میں ایک جم ِغفیر سے استفادہ کیا۔ مستقل ڈیرے بغداد میں ڈالے، کئی بڑی تصانیف لکھیں، جن میں تفسیر القران، جس سے بڑی اور مفید کتاب چشم ِفلک نے نہیں دیکھی اور تاریخ کے موضوع پر کتاب،جو اپنے میدان میں شہ کار کی حیثیت رکھتی ہے، شامل ہیں۔”
(إنباہ الرواۃ علی أنباہ النحاۃ : ٣/٨٩)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
فَالَّذِینَ اعْتَنُوا بِجَمْعِ التَّفْسِیرِ مِنْ طَبْقَۃِ الْـأَئِمَّۃِ السِّتَّۃِ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِیرٍ الطَّبَرِيُّ وَیَلِیہِ أَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُنْذَرِ النِّیسَابُورِيُّ وَأَبْو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي حَاتِمِ بْنِ إِدْرِیسَ الرَّازِيُّ وَمِنْ طَبَقَۃِ شُیُوخِہِمْ عَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ بْنِ نَصْرِ الْکَشِيِّ فَہٰذِہِ التَّفَاسِیرُ الْـأَرْبَعَۃُ قُلَّ أَنْ یَّشَذَّ عَنْہَا شَيْءٌ مِنَ التَّفْسِیرِ الْمَرْفُوعِ وَالْمَوْقُوفِ عَلَی الصَّحَابَۃِ وَالْمَقْطَوعِ عَنِ التَّابِعِینَ . وَقَدْ أَضَافَ الْطَّبَرِيُّ إِلَی النَّقْلِ الْمَسْتَوْعَبِ أَشْیَائً لَّمْ یُشَارِکُوہُ فِیہَا کَاسْتِیعَابِ الْقِرَاءَ اتِ وَالْـإِعْرَابِ وَالْکَلَامِ فِي أَکْثَرِ الْـأَیَاتِ عَلَی الْمَعَانِي وَالتَّصَدِّي لِتَرْجِیحِ بَعْضِ الْـأقْوَالِ عَلٰی بَعْضٍ، وَکُلُّ مَنْ صَنَّفَ بَعْدَہ، لَمْ یَجْتَمِعْ لَہ، مَا اجْتَمَعَ فِیہِ؛ لِـأَنَّہ، فِي ہٰذِہِ الْـأُمُورِ فِي مَرْتَبَۃٍ مُّتَقَارِبَۃٍ وَغَیْرُہ، یَغْلِبُ عَلَیْہِ فَنٌّ مِّنَ الْفُنُونِ فَیَمْتَازُ فِیہِ وَیَقْصُرُ فِي غَیْرِہٖ .
”چھٹے طبقے کے ائمہ میں سے جنہوں نے تفسیر قرآن کا بیڑا اٹھایا ہے، ان میں امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ  ان کے بعد امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن منذر نیشاپوری ، ابو محمد عبد الرحمن بن ابو حاتم بن ادریس رازی رحمہ اللہ  اور ان کے شیوخ کے طبقہ میں عبد بن حمید بن نصر کشی رحمہ اللہ  سر فہرست ہیں۔ ان چاروں تفاسیر میں شاید ہی کسی آیت کی مرفوع، موقوف یا مقطوع تفسیر چوک گئی ہو۔ روایات نقل کرنے میں امام طبری رحمہ اللہ  نے دوسروں کی بہ نسبت کچھ اضافہ کیا ہے۔ قراء ت ، اعراب، آیات کے معانی میں بحث اور اقوال میں راجح و مرجوح کا فرق کرنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ بعد والوں میں کوئی بھی وہ کچھ جمع نہ کر سکا، جو آپ رحمہ اللہ  نے جمع کردیا ہے۔ کیوں کہ آپ رحمہ اللہ  ان فنون میں ایک عالی المرتبت تھے، بعد والوں پر دوسرے فنون غالب آ گئے، لہٰذا آپ اس فن میں ممتاز رہے اور دوسروں میں قاصر رہ گئے۔”
(العجاب في بیان الأسباب : ١/٢٠٣)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ  (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں:
وَلَہ، التَّصَانِیفُ الْعَظِیمَۃُ مِنْہَا تَفْسِیرُ الْقُرْآنِ وَہُوَ أَجَلُّ التَّفَاسِیرِلَمْ یُؤَلَّفْ مِثْلُہ، کَمَا ذَکَرَہُ الْعُلَمَاءُ قَاطِبَۃً، مِنْہُمُ النَّوَوِيُّ فِي تَہْذِیبِہٖ وَذٰلِکَ لِـأَنَّہ، جَمَعَ فِیہِ بَیْنَ الرِّوَایَۃِ وَالدِّرَایَۃِ وَلَمْ یُشَارِکْہ، فِي ذٰلِکَ أَحَدٌ لَّا قَبْلَہ، وَلَا بَعْدَہ، .
”آپ رحمہ اللہ  کی بہت ہی عظیم الشان تصانیف ہیں، جن میں تفسیر القرآن بھی شامل ہے۔ یہ ایک بے نظیر تفسیر ہے، جیسا کہ تمام علمائے کرام کا کہنا ہے۔ ان میں سے ایک حافظ نووی رحمہ اللہ  ہیں، آپ نے یہ بات اپنی کتاب ‘تہذیب الاسماء و اللغات’ میں ذکر کی ہے۔ کیوں کہ امام طبری نے اس تفسیر میں روایت و درایت کو جمع کر دیا ہے، ایسا کام آپ سے پہلے کوئی کر سکا، نہ آپ کے بعد ہی کر سکا۔”
(طبقات المفسرین، ص ٩٦)
مزید فرماتے ہیں:
…بَعْدَہُمِ ابْنُ جَرِیرٍ الطَّبَرِيُّ وَکِتَابُہ، أَجَلُّ التَّفَاسِیرِ وَأَعْظَمُہَا، ثُمَّ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَابْنُ مَاجَہْ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ مَرْدَوَیْہِ وَأَبُو الشَّیْخِ بْنُ حَیَّانَ وَابْنُ الْمُنْذِرِ فِي آخَرِینَ وَکُلُّہَا مُسْنَدَۃٌ إِلَی الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ وَأَتْبَاعِہِمْ وَلَیْسَ فِیہَا غَیْرَ ذَالِکَ إِلَّا ابْنُ جَرِیرٍ فَإِنَّہ، یَتَعَرَّضُ لِتَوْجِیہِ الْـأَقْوَالِ وَتَرْجِیحِ بَعْضِہَا عَلٰی بَعْضٍ وَّالْإِعْرَابِ وَالِاسْتِنْبَاطِ فَہُوَ یَفُوقُہَا بِذَالِکَ .
”ان کے بعد محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ  آئے، آپ کی کتاب سب سے بہترین اور عظیم المرتبت تفسیر ہے۔ پھر امام ابن ابو حاتم، ابن ماجہ، حاکم، ابن مردویہ، ابو شیخ ابن حیان اور ابن منذر آئے۔ ان سب مفسرین نے اپنی اپنی تفسیروں میں موقوفات، مقطوعات اور تبع تابعین کے اقوال کا اہتمام کیا ہے، لیکن امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ  نے اپنی تفسیر میں ان اقوال کی توجیہ و ترجیح، اعراب پر گفتگو اور فقہی استنباط کا اہتمام بھی کیا ہے۔ یوں ان کی تفسیر دوسروں سے زیادہ مفید ہے۔”
(الإتقان في علوم القرآن : ٤/٢٤٢)
آخر میں امام ابن جریرطبری  رحمہ اللہ  کے اس عظیم علمی شہ کار کے بارے میں حافظ سیوطی رحمہ اللہ  کا قول فیصل ذکر کیے دیتے ہیں :
فَإِنْ قُلْتَ : فَأَیُّ التَّفَاسِیرِ تُرْشِدُ إِلَیْہِ وَتَأْمُرُ النَّاظِرَ أَنْ یُّعَوِّلَ عَلَیْہِ؟ قُلْتُ : تَفْسِیرُ الْإِمَامِ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبَرِيِّ الَّذِي أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ الْمُعْتَبَرُونَ عَلٰی أَنَّہُ لَمْ یُؤَلَّفْ فِي التَّفْسِیرِ مِثْلُہ، .
”اگر آپ پوچھیں کہ کون سی تفسیر سب سے زیادہ راہنما اور قابل اعتماد ہے؟ میرا جواب ہو گا کہ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ  کی تفسیر، کہ جس کے بے مثال و بے نظیر ہونے پر معتمد علمائے کرام کا اجماع ہے۔”
(الإتقان في علوم القرآن : ٤/٢٤٤)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.