1,594

فقہ حنفی اور نجاسات، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

قارئین کرام اسی ماہنامہ کے سابقہ شماروں میں ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔اسلافِ امت اور ائمہ دین احادیث ِنبویہ کی روشنی میں یہی موقف رکھتے تھے۔اور تو اور فقہ حنفی کے بانیان میں سے امام محمد بن حسن شیبانی اور امام زفر دونوں کا یہی خیال تھا۔ہمارا اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ان منکرین حدیث کا ردّ کرنا تھا جو صحیح بخاری اور دیگر کتب ِحدیث میں موجود اس طرح کی احادیث کا تمسخر اڑاتے ہیں،حالانکہ وحی کے مقابل اپنی عقل کو لاکھڑا کرنے والے کبھی عقل مند نہیں ہو سکتے۔دوسرا مقصد ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ ہمارے ملک کی اکثر آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے،جہاں لوگوں کا ہر وقت بھیڑ،بکریوں،اونٹوں، گائیوں اور دیگر حلال جانوروںسے واسطہ رہتا ہے۔ان جانوروں کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے ان لوگوں کی واقفیت بہت ضروری ہے۔ محدثین کرام نے ان مسائل کو کھول کر بیان کیا ہے،حالانکہ وہ علم و عقل اور فہم و شعور میں ہم سے بہت بڑھ کر تھے۔
لیکن بعض شرارتی ذہن کے لوگ حدیث کو ماننے کے دعویدار ہونے کے باوجود اہل حدیث کے اس موافقِ حدیث موقف پر جاہل لوگوں کے سامنے طعن و تشنیع کرتے ہیں اور نادان یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس مسئلے پر طعن و تشنیع کی زد ہم سے پہلے حدیث ِرسول، اسلافِ امت اور فقہ حنفی کے بانیان پرپڑتی ہے۔وہ اس طرح کی باتیں کر کے اپنی ہی عاقبت خراب کرتے ہیں۔ان کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔خود ان کی فقہ میں حلال جانوروں کے پیشاب کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں موجود ہیں،جیسا کہ :
1 دودھ دوہتے وقت دو ایک مینگنی دودھ میں پڑ جائیں یا تھوڑا سا گوبر گر جائے تو معاف ہے،بشرطیکہ گرتے ہی نکال ڈالا جائے۔(علم الفقہ : 54/1)
بھئی اگر وہ ناپاک ہے تو معاف کیوں؟کیا انسانی پاخانہ جو کہ ناپاک ہے، اس کے دودھ میں گرنے پر بھی حنفی بھائی یہی عمل کر کے دودھ استعمال کر لیں گے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
2 حلال پرندوں کا پاخانہ پاک ہے،بشرطیکہ بدبودار نہ ہو۔(علم الفقہ : 54/1)
واہ بھئی واہ! کیا بات ہے؟ایک طرف یہ کہتے نہیں تھکتے کہ جانور حلال ہو یا حرام اس کا پیشاب اور پاخانہ ناپاک ہے،ان بکریوں کا بھی جن کے باڑے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے۔لیکن دوسری طرف حلال پرندوں کا پاخانہ پاک ہے!!!کیوں؟
بہرحال اس مضمون میں ہم قارئین کرام سے یہ التماس کرنا چاہیں گے کہ ایسے پروپیگنڈوں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔جو لوگ اس پاک چیزپر اہل حدیث کو مطعون کرتے ہیں،ان کا اپنا دامن نجاستوں سے اٹا ہوا ہے۔ان کی کتب ِفقہ کے اگر نجاست والے ابواب پڑھ لیے جائیں تو سلیم الفطرت شخص کو متلی ہونے لگتی ہے۔ان لوگوں کی چیرہ دستیوں سے مجبور ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نجاست کے حوالے سے ان کی کتب ِفقہ کی ادنیٰ سی جھلک یہاں پیش کر رہے ہیں۔سلیم الفطرت لوگ ہمیں صرف دس حوالے پیش کرنے کی اجازت دے دیں، ملاحظہ فرمائیں:
1 ہاتھ میں کوئی نجس چیز لگی تھی،اس کو کسی نے زبان سے تین دفعہ چاٹ لیا تو بھی پاک ہو جائے گا۔(فتاوی شامی : 226/1، طحطاوی : 157/1، فتاوی عالمگیری : 45/1، فتاوی قاضی خان : 11/1وغیرہ، ونیز المبسوط : 96/1)
2 عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے۔(فتاوی شامی: 123/1)
n عورت کے آگے سے جو خالص رطوبت بے آمیزشِ خون نکلتی ہے، ناقضِ وضو نہیں، اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے۔(بہار شریعت از امجد علی بریلوی : 24/2)
3 کتا اور گدھا ذبح کر کے ان کا گوشت بیچنا جائز ہے۔(فتاوی عالمگیری : 115/3)
4 کتا اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔(بدائع الصنائع : 74/1، الدر المختار مع کشف الاستار : 38/1، رد المحتار : 153/1، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار: 115-114/1، البحر الرائق لابن نجیم : 102-101/1، فیض الباری از انور شاہ کشمیری دیوبندی : 274/1، مجموعہ رسائل از مہدی حسن شاہجہانپوری دیوبندی، ص : 240)
5 نجاست خفیفہ مرئیہ ہو یا غیر مرئیہ،اگر جسم یا کپڑے پر لگ جائے تو چوتھائی حصہ کے بقدر معاف ہے۔(علم الفقہ : 52/1)
6 فقہ حنفی کا صحیح مسئلہ یہ ہے کہ کتا اور ہاتھی نجس نہیں۔(علم الفقہ : 54/1)
7 تیل یا گھی ناپاک ہو جائے تو اس میں پانی ڈالا جائے گا۔جب یہ تیل یا گھی پانی کے اوپر آجائے تو وہ اتار لیا جائے۔اس طرح تین مرتبہ کرنے سے پاک ہو جائے گا۔(مراقی الفلاح، ص : 86)
8 سور کی چربی اور ناپاک چیز سے کھال کو دباغت دیں تو تین مرتبہ دھونے سے پاک ہو جائے گی۔(علم الفقہ : 61/1)
9 گدھی کا دودھ پاک ہے۔(علم الفقہ از عبد الشکور لکھنوی دیوبندی : 53/1)
0 کتے کی کھال کا مصلّٰی بنا کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند : 292/1، فتاوی شامی : 153/1)
n نیز محمد شریف کوٹلوی بریلوی کتے کی کھال کے بارے میں لکھتے ہیں :
”میں کہتا ہوں کہ دباغت کے بعد جب کھال پاک ہو جاتی ہے تو اس سے جائے نماز یا ڈول بنانے میں کیا مضائقہ ہے؟”(در مختار پر اعتراضات کے جوابات، ص : 107)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.