2,449

جنازہ کے بعد دعا۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا ”قبیح بدعت” ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ، خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ] ، تابعین عظام  رحمہم اللہ  ، ائمہ دین رحمہم اللہ  اور سلف صالحین سے یہ ثابت نہیں۔
اس کے باوجود ”قبوری فرقہ” اس کو جائز قرار دیتا ہے ، جنازہ کے متصل بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام ] جو سب سے بڑھ کر قرآن وحدیث کے معانی ، مفاہیم ومطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے تھے ، وہ ضرور اس کا اہتمام کرتے ۔
چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں ، امامِ بریلویت جناب احمد یار خان نعیمی اوجھانوی صاحب لکھتے ہیں :      ”ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب (ابو حنیفہ)کا قول وفعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ پر نظر نہیں کرتے ۔” (”جاء الحق” : ١/١٥)
نیز ایک مسئلہ کے بارے میں لکھتے ہیں :     ”حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ، ان کی دلیل صرف قولِ امام ہے ۔”(”جاء الحق” : ٢/٩،١٠٤)
اب مبتدعین پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام ابوحنیفہ سے باسند ِ ”صحیح” اس کا استحباب ثابت کریں ، ورنہ ماننا پڑے گا کہ اس فرقہ کا امام ابو حنیفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ” أجلی الأعلام بأنّ الفتوٰی مطلقا علی قول الامام ” کے نام سے رسالے لکھنے والوں کو ” کشف الغطاء ” وغیرہ کے حوالے پیش کرتے وقت شرم کرنی چاہیے !
واضح رہے کہ بعض حنفی اماموں نے بھی جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے سے منع کیا ہے اور اس کو مکروہ قرار دیا ہے :
1    ابنِ نجیم حنفی ، جنہیں حنفی ابو حنیفہ ثانی کے نام سے یاد کرتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں :
ولا یدعو بعد التّسلیم ۔     ”نماز ِ جنازہ کا سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے ۔”
(البحر الرائق لابن نجیم الحنفی : ٧/١٨٣)
2    طاہر بن احمد البخاری الحنفی (م ٥٤٢ھ) لکھتے ہیں :     لا یقوم بالدعاء فی قرائۃ القرآن لأجل المیّت بعد صلاۃ الجنازۃ وقبلھا لا یقوم بالدعاء بعد صلاۃ الجنازۃ ۔
”نماز ِ جنازہ سے پہلے اور بعد میت کے لیے قرآنِ مجید پڑھنے کے لیے مت ٹھہرے اور نماز ِ جنازہ کے (متصل)بعد دعا کی غرض سے بھی مت ٹھہرے ۔”(خلاصۃ الفتوی : ١/٢٢٥)
3    ابنِ ہما م حنفی کے شاگرد ابراہیم بن عبدالرحمن الکرکی (٨٣٥۔٩٢٢ھ)لکھتے ہیں :
والدّعاء بعد صلاۃ الجنازۃ مکروہ کما یفعلہ العوّام فی قرآء ۃ الفاتحۃ بعد الصّلاۃ علیھا قبل أن ترفع ۔     ”نماز ِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو اٹھانے سے پہلے سورہئ فاتحہ کو دعا کی غرض سے پڑھنا ، جیسا کہ عوام کرتے ہیں ، مکروہ ہے ۔”(فتاوی فیض کرکی : ٨٨)
4    محمد خراسانی حنفی (م ٩٢٦ھ)لکھتے ہیں :      ولا یقوم داعیا لہ ۔
”نماز ِ جنازہ کے(متصل) بعد میت کے حق میں دعا کے لیے کھڑا نہ ہو ۔”(جامع الرموز : ١/١٢٥)
5    ایک اور حنفی ”امام” لکھتے ہیں :      اذا خرج من الصّلاۃ لا یقوم بالدّعاء ۔
”جب نماز ِ جنازہ سے فارغ ہو جائے تو دعا کے لیے نہ ٹھہرے ۔”(فتاوی سراجیہ : ٢٣)
اعتراض :      ان عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد کھڑے ہو کر نہیں ، بلکہ بیٹھ کر دعا کرے ، مطلق دعا کی نفی بالکل نہیں ۔
J         یہ مفہوم کئی وجوہ سے باطل ہے :
1    حنفی مذہب کی کسی معتبر کتاب میں یہ مفہوم مذکور نہیں ، لہٰذا مردود وباطل ہے ۔
2    یہاں ”قیام ” کا معنیٰ کھڑے ہونا نہیں ، بلکہ ٹھہرنا مراد ہے ، جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
(وَلَا تَقُمْ عَلیٰ قَبْرِہٖ )(التوبۃ : ٨٤)        یعنی :” آپ منافقین میں سے کسی کی قبر پر مت ٹھہریں۔”         یہ مطلب نہیں کہ منافقین کی قبروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے ، بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں ، بلکہ یہاں قیام سے مراد ٹھہرنا ہے کہ آپ ان کی قبروں پر دعا کے لیے نہیں ٹھہر سکتے ۔
آئیے نما ز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کے مزعومہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں :
دلیل نمبر 1 :      ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
(أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ)(البقرۃ : ١٨٦)    ”میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ، جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے ۔”
J      1    بعض الناس کا عمومی دلائل سے اس کا ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں ہے ۔
2    نبی ئ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جو قرآن کے مفاہیم ومطالب سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے ، ان سے جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں ، اگر اس آیت کے عموم سے یہ مسئلہ نکلتا تو وہ ضرور دعا کرتے ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس آیت کے عموم سے نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کی ترغیب دی گئی ، واضح جھوٹ ہے ۔
3    خود تقلید پرست جناز ہ سے پہلے اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کرنے کے قائل نہیں ، لہٰذا ان کا اس آیت کے عموم پر عمل نہیں ۔
4    اس آیت سے یہ استدلال کسی حنفی امام سے ثابت کریں۔
دلیل نمبر 2 :      رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
( فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ٭ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ )(الانشراح : ٧۔٨)
”تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو ۔”
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے ارشادات
b    اس کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  اور قتادہ ، ضحاک ، مقاتل اور کلبی وغیرہم سے مروی ہے :      اذا فرغت من الصّلاۃ المکتوبۃ أو مطلق الصّلاۃ فانصب الی ربّک فی الدّعاء وارغب الیہ فی المسئلۃ ۔     ”جب تم نماز ِ فرض یا کسی بھی قسم کی نماز سے فارغ ہو تو اپنے رب سے دعا کرنے میں لگ جاؤ اور اس کی بارگاہ میں سوال کرنے میں رغبت کرو ۔”(تفسیر مظہری : ١٠/٩٤، طبع انڈیا)
J     1    اس آیت ِ کریمہ سے کسی ثقہ امام نے نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہیئت سے دعا کا جواز ثابت نہیں کیا ہے ، لہٰذا یہ استدلال باطل ہے ۔
2    سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  سے یہ تفسیر ثابت نہیں ، کیونکہ پہلی روایت میں علی بن ابی طلحہ راوی ہے، جس کا سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  سے سماع ثابت نہیں ، دوسری روایت میں ”سلسلۃ الضعفاء ” ہے ، یعنی سعد بن محمد بن الحسن بن عطیہ بن سعد العوفی اور اس کا چچا الحسین بن الحسن بن عطیہ العوفی اور الحسن بن عطیہ العوفی اور عطیہ العوفی ، سارے کے سارے راوی ”ضعیف” ہیں ۔
ضحاک کی روایت ” حُدِّثْتُ ”(مجھے بیان کیا گیا ہے)، یعنی جہالت کے وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔
لہٰذا یہ دونوں روایتیں ”ضعیف” ہوئیں ۔
3    مقاتل خود ”ضعیف” ہے ۔    4    کلبی خود کذاب اور متروک ہے ۔
5    قال الطّبریّ : حدّثنا ابن عبد الأعلیٰ ، قال : ثنا ابن ثور عن معمر عن قتادۃ فی قولہ : فاذا فرغت من صلاتک فانصب فی الدّعاء ۔     ”امام قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب تو اپنی نما ز سے فارغ ہو تو دعا میں رغبت کر ۔”(تفسیر طبری : ٣٠/١٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
اس صحیح تفسیر میں نماز ِ جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کا کوئی ذکر نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوں تو دعا میں کوشش کریں ، یعنی اذکار ِ مسنونہ پڑھیں یا اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ جب دنیاوی امور سے فارغ ہو جائیں تو عبادت میں خوب محنت کریں ۔
bb     اس آیت کی تفسیر میں خواجہ یعقوب چرخی (م ٨٧٥ھ) لکھتے ہیں :
”تو جب تم نماز سے فارغ ہو جاؤ تو دعا میں محنت کرو ، نماز کے بعد نیاز پیش کر کے حق تعالیٰ کی ملاقات ڈھونڈو اور دنیا و آخرت حق تعالیٰ سے طلب کرو ،جب بندہ نماز پڑھ کر دعا نہ کرے تو (حق تعالیٰ) اس کی نماز اس کے منہ پر مارتے ہیں ۔”(تفسیر یعقوب چرخی : ص ١٥٧، طبع قدیم ھند)
J      1    یعقوب چرخی کا قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے ۔
2    یہی بات باسند ِ صحیح امام ابو حنیفہ وغیرہ سے ثابت کی جائے ۔
3    اہل سنت والجماعت میں سے کوئی بھی اس نظریہ کا حامل نہیں رہا ہے ۔
4    اس میں نماز ِ جنازہ اور مخصوص ہیئت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
5    جمہور حنفی فقہاء کے نزدیک نماز ِ جنازہ کے بعد دعا کرنا صحیح نہیں ، لہٰذا یہ قول مردود ہے ۔
دلیل نمبر 3 :      سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا صلّیتم علی المیّت فأخلصوا لہ الدّعاء ۔ ”جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو ۔”(سنن ابی داو،د : ٣١٩٩، سنن ابن ماجہ : ١٤٩٧، السنن الکبری للبیہقی : ٤/٤٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٣٠٧٦،٣٠٧٧)نے ”صحیح” کہا ہے ، اس کا راوی محمد بن اسحاق صاحب المغازی جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے ، صحیح ابنِ حبان میں اس نے سماع کی تصریح کی ہے ۔
تبصرہ :      اس حدیث سے نماز ِ جنازہ کے اندر میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، محدثین کرام نے اس سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے ۔
n     امام ابنِ ماجہ  رحمہ اللہ نے اس پر یوں تبویب کی ہے :         باب ما جاء فی الدّعاء فی الصّلاۃ علی الجنازۃ ۔    ”نماز جنازہ کے اندردعا کرنے کا بیان ۔”
n    امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ  کی تبویب ان الفاظ سے ہے :     ذکر الأمر لمن صلّی علی میّت أن یخلص لہ الدّعاء ۔        ”جو آدمی میت پر نماز (جنازہ) پڑھتا ہے ، اس کو میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کے حکم کا بیان ۔”
n    امام بیہقی  رحمہ اللہ یوں باب قائم فرماتے ہیں :      باب الدّعاء فی صلاۃ الجنازۃ ۔
”نماز ِ جنازہ کے اندر دعا کرنے کا بیان ۔”
مبتدعین اس حدیث کو نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کے لیے بطور ِ دلیل پیش کرتے ہیں ، یہ ہمارے اس دور کے اہل بدعت کی کارستانی ہے ، بلکہ زبردست سینہ زوری ہے کہ حدیث کی معنوی تحریف کر کے ایک بدعت ایجاد کر لی ہے ، محدثین کرام اور اپنے حنفی فقہاء کے فہم اور اقوال کو نظر انداز کر دیا ہے ۔
چنانچہ احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :     ” ف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے فوراً بعد دعا کی جاوے ، بلا تاخیر ۔جو لوگ اس کے معنیٰ کرتے ہیں کہ نماز میں اس کے لیے دعا مانگو ، وہ ‘ف ‘ کے معنیٰ سے غفلت کرتے ہیں ، صلّیتم شرط ہے اور فأخلصوا اس کی جزاء ، شرط اور جزاء میں تغایر چاہیے ، نہ یہ کہ اس میں داخل ہو ، پھر صلّیتم ماضی ہے اور فأخلصوا امر ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا حکم نماز پڑھ چکنے کے بعد ہے ، جیسے فاذا طعمتم فانتشروا میں کھا کر جانے کا حکم ہے ، نہ کہ کھانے کے درمیان ۔۔۔اور فا سے تاخیر ہی معلوم ہوئی ۔”(”جاء الحق” : ٢٧٤)
دیکھا آپ نے کہ ”مفتی ” صاحب کس طرح جرأت ِ رندانہ سے محدثین کرام اور اپنے حنفی فقہاء و ائمہ کو ”غفلت” کا الزام دے رہے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک اعتبار سے یہاں تغایر موجود ہے ، وہ ہے کلیت اور جزئیت کا تغایر ، نماز کلیت کے اعتبار سے افعال و اقوال کے مجموعہ کا نام ہے ، جبکہ دعا ایک جز ء ہے ، جسے قول کہا جاتا ہے ، شرط اور جز ا ء کے درمیان اتنی سی مغایرت کافی ہے ، ورنہ نماز ِ جنازہ کو دعاؤں سے خالی کرنا پڑے گا ، کیونکہ من کل الوجوہ مغایر ت اس وقت ہوگی ، جب نماز ِ جنازہ کے اندر کوئی بھی دعا نہ ہو ۔اگر شرط اور جزاء میںمن وجہ مغایرت کافی ہو تو یہاں بھی مغایرت موجود ہے ۔
ویسے بھی جب ماضی پر ”اذا” داخل ہوجائے تو معنیٰ مستقبل کا پیدا ہو جاتا ہے ، لہٰذا صحیح معنیٰ اور ترجمہ یہ ہو اکہ     ” جب تم نماز ِ جنازہ پڑھو تو اس میت کے لیے دعا میں اخلاص پیدا کرو۔”
جیسا کہ محدثین کرام کے فہم سے پتا چلتا ہے ۔اگر ہر جگہ فا کا معنیٰ تاخیر کا لیں تو فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللّٰہ من الشّیطن الرّجیم     کا معنیٰ یہ ہوگا کہ قرآنِ پاک پڑھ لینے کے بعد أعوذ باللّٰہ ۔۔۔ پڑھنا چاہیے ، یہاں بھی قرأت ماضی اور فاستعذ امر ہے ۔
قرآنِ مجید میں ایک آیت سے بطریق اشارۃ النص ثابت ہوتا ہے کہ نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا جائز نہیں ، جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :      ( وَلَا تُصَلِّ عَلیٰ أَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ أَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلیٰ قَبْرِہٖ )(التوبۃ : ٨٤)     ”آپ کبھی بھی ان (منافقین )پر نماز ِ جنازہ نہ پڑھیں ، نہ ہی ان کی قبر پر (دعا کے لیے) ٹھہریں۔”
نبی ئ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا جنازہ پڑھتے تھے تو منافقین کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا ، اسی طرح اگر آپ نماز ِ جنازہ کے متصل بعد مسلمان میت کے لیے اجتماعی دعا کرتے ہوتے تو منافقین کے حق میں اس سے بھی روک دیا جاتا ، ثابت ہوا کہ نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا سنت ِ نبوی سے ثابت نہیں ہے ۔
دلیل نمبر 4 :      سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
انّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی علی المنفوس ، ثمّ قال : اللّٰھم أعذہ من عذاب القبر ۔
”بے شک نبی پاک   صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوزائدہ کی نماز ِ جنازہ پڑھی ، پھر دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس کو عذاب ِ (فتنہ)قبر سے پناہ دے ۔”(کنز العمال : ١٥/٧١٦، طبع جدید حلب)
J     1    اس کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے ، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ     ”بے شک نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوزائدہ پر نماز ِ جنازہ پڑھی اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس کو عذاب ِ (فتنہ ئ)قبر سے پناہ دے۔”
اس روایت میں ثمّ ، واؤ کے معنیٰ میں ہے ، یعنی نماز ِ جنازہ پڑھی اور اس میں یہ دعا پڑھی ، جیسا کہ محدثین کرام کے فہم سے پتا چلتا ہے ،آج تک کسی ثقہ محدث نے اس کو جنازہ کے متصل بعد دعا کے ثبوت میں پیش نہیں کیا ہے ۔
2    اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ اور ہاتھ اٹھا کر دعا کا کوئی ذکر نہیں ۔
3    یہاں حرف ثمّ کا معنیٰ فا ، یعنی تعقیب مع الوصل والا کرنا صحیح نہیں ، کیونکہ ثمّ تعقیب مع تراخی کے لیے آتا ہے ، اس جگہ بغیر کسی قرینہ ئ صارفہ کے اس کو تعقیب مع الوصل کی طرف پھیرنا صحیح نہیں ہے،حنفی فقہاء کی صراحت سے بھی یہی پتا چلتا ہے ۔
دلیل نمبر 5 :      سیدناعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :
انّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قرأ علی الجنازۃ بفاتحۃ الکتاب ۔
”بے شک نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کے موقع پر فاتحہ پڑھی ۔”(مشکوٰۃ المصابیح مع أشعۃ اللمعات : ١/٦٨٦)
تبصرہ :      1    یہ حدیث ”حسن” درجہ کی ہے ، اس کا ایک شاہد ام شریک کی روایت سے سنن ابنِ ماجہ (١٤٩٦)میں موجود ہے ، اس کو امام طبرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر (٢٥/٩١، ح : ٢٥٢) میں حمّاد بن بشیر الجہضمی عن أبی عبداللّٰہ الشّامی (مرزوق) عن شھر بن حوشب کے طریق سے روایت کیا ہے ، اس کے مزید شواہد کے لیے مجمع الزوائد (٣/٣٢)دیکھیں ۔
2    یہ روایت نماز ِ جنازہ میں سورہئ فاتحہ پڑھنے کی زبردست دلیل ہے ، اس کا ترجمہ امام ِ بریلویت احمد یار خان نعیمی بریلوی نے ان الفاظ میں کیا ہے :      ” روایت ہے حضرت ابنِ عباس سے کہ نبی ئ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے پر سورہئ فاتحہ پڑھی ۔” (مشکوٰۃ شریف ترجمہ از احمد یار خان بریلوی ، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور : ١/٣٦١، ”جاء الحق” : ١/٢٧٥)
لہٰذا اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ ”جنازہ کے موقع پر فاتحہ پڑھی” یقینا معنوی تحریف ہے ۔
الصّلاۃ علی المیّت سے مراد نماز ِ جنازہ ہوتا ہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے :     صلّوا علی صاحبکم ۔ یعنی : ”تم اپنے ساتھی پر نماز ِ جنازہ پڑھو۔”(صحیح بخاری : ٢٣٩٧، صحیح مسلم : ١٦١٩)
قرآنِ مجید میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ( ولا تصلّ علی أحد منھم مات أبدا)(التوبۃ : ٨٤)
”آپ کبھی بھی ان (منافقین) پر نماز ِ جنازہ نہ پڑھیں ۔”
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ”جنازہ کے موقع پر نہ پڑھیں۔” !!!!
3    یہ ترجمہ محدثین کے فہم کے خلاف ہے ، کسی ثقہ امام نے اس سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا ۔
امام ابنِ ماجہ  رحمہ اللہ (١٤٩٥) نے اس پر باب ما جاء فی القراء ۃ علی الجنازۃ قائم کیا ہے ، اسی طرح امام ترمذی  رحمہ اللہ نے بھی اس پر باب ما جاء فی القراء ۃ علی الجنازۃ قائم کیا ہے ، یعنی نماز ِ جنازہ میں قرائت کرنے کے بارے میں بیان ۔
دوسری صحیح احادیث سے نصا ً ثابت ہے کہ نماز ِ جنازہ کے اندر سورہئ فاتحہ پڑھی جائے ، لہٰذا بعض الناس کا احتمال صحیح اور صریح احادیث اور محدثین کرام کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے ۔
دلیل نمبر 6 :      عبداللہ بن ابی بکر تابعی کہتے ہیں :
لمّا التقی النّاس بمؤنۃ جلس رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی المنبر وکشف لہ ما بینہ وبین الشام ، فھو ینظر الی معرکتھم ، فقال علیہ السّلام : أخذ الرّأیۃ زید بن حارثۃ ، فمضی حتّی استشھد ، وصلّی علیہ ودعا لہ وقال : استغفروا لہ وقد دخل الجنّۃ ، وھو یسعیٰ ، ثمّ أخذ الرّأیۃ جعفر بن أبی طالب ، فمضیٰ حتّی استشھد ، فصلّی علیہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ودعا لہ وقال : استغفروا لہ ، وقد دخل الجنّۃ ، فھو یطیر فیھا بجناحیہ حیث شاء ۔
”جب لوگوں کو کوئی مصیبت پہنچتی تو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھتے اور آپ کے لیے شام تک کا علاقہ واضح کر دیا جاتا ، چنانچہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم ان (مسلمانوں) کے معرکے دیکھتے ، آپ نے فرمایا ، زید بن حارثہ نے پرچم اٹھایا ہے اور چلتے رہے حتی کہ شہید کر دئیے گئے ، آپ نے ان پر نماز ِ (جنازہ )پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرمایا ، ان کے لیے دعا کرو ، وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوگئے ، پھر جعفر بن ابی طالب نے پرچم پکڑا اور چلتے رہے حتی کہ وہ شہید کر دئیے گئے ، ان پر رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِ (جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرمایا، ان کے لیے دعا کرو ، وہ جنت میں داخل ہوگئے ، وہ جنت میں اپنے دونوں پروں کے ساتھ جہاں چاہتے اڑتے پھر رہے تھے ۔”(کتاب المغازی لمحمد بن عمر الواقدی : ٢/٢١١، نصب الرایۃ : ٢/٢٨٤)
تبصرہ :      1    یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے ، اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف ، متروک اور کذاب” ہے ، ابنِ ملقن  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد ضعّفہ الجمہور ۔
”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٥/٣٢٤)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ  نے اسے ”متروک” کہاہے ۔(تقریب التھذیب : ٦١٧٥)
امام شافعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     کتب الواقدیّ کذب ۔ ”واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندا ہیں۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/٢١ ، وسندہ، صحیح)
امام اسحاق بن راہویہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لأنّہ عندی ممّن یضع الحدیث ۔
”میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے ۔”(الجرح والتعدیل : ٨/٢١)
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے اسے ”کذاب” قرار دیا ہے ۔(الکامل لابن عدی : ٦/٢٤١ ، وسندہ، حسن)
امام بخاری ، امام ابو زرعہ ، امام نسائی اور امام عقیلی  رحمہم اللہ نے اسے ”متروک الحدیث ” کہا ہے ، اما م یحییٰ بن معین اور جمہور نے ”ضعیف” کہاہے ۔
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یروی أحادیث غیر محفوظۃ والبلاء منہ ، ومتون أخبار الواقدیّ غیر محفوظۃ ، وھو بیّن الضّعف ۔ ”یہ غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے ، واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوظ ہیں ، وہ واضح ضعیف راوی ہے۔”(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٦/٢٤٣)
2    اس کا راوی عبدالجبار بن عمارہ القاری ”مجہول” ہے ، اسے امام ابو حاتم الرازی (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٣٣)اور حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (میزان الاعتدال : ٢/٥٣٤)نے ”مجہول ” قراردیا ہے ، صرف امام ابنِ حبان نے اسے ”الثقات” میں ذکر کیا ہے ، جو کہ ناکافی ہے ۔
3    یہ روایت مرسل تابعی ہے ، لہٰذا ارسال کی وجہ سے بھی ”ضعیف” ہے ۔
اس طرح کی روایت سے سنت کا ثبوت محال ہے ۔
دلیل نمبر 7 :      ابراہیم ہجری کہتے ہیں :
رأیت ابن أبی أوفیٰ ، وکان من أصحاب الشّجرۃ ، ماتت ابنتہ الی أن قال : ثمّ کبّر علیھا أربعا ، ثمّ قام بعد ذلک قدر ما بین التّکبیرتین یدعو وقال : رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یصنع ھکذا ۔        ”میں نے ابن ابی اوفیٰ کو دیکھا جو کہ بیعت ِ رضوان والے صحابی ہیں ، ان کی دختر کا انتقال ہوا ۔۔۔ آپ نے ان پر چار تکبیریں کہیں ، پھر اس کے بعد دوتکبیروں کے فاصلہ کے بقدر کھڑے ہو کر دعا کی اور فرمایا ، میں نے نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے ۔”
(”جاء الحق” : ٢٧٥، مقیاس حنفیت : ٥٢٦، بحوالہ کنز العمال : ٤٢٨٤٤)
تبصرہ :     1    اس روایت کی سند ”ضعیف” ہے ، اس میں ابراہیم بن مسلم ہجری راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، اس پر امام ابو حاتم الرازی ، امام نسائی ، امام بخاری ، امام ترمذی ، امام ابن عدی ، امام یحییٰ بن معین ، امام احمد بن حنبل ، امام جوزجانی ، امام ابنِ سعد اور ابنِ جنید  رحمہم اللہ کی سخت جروح ہیں ۔
(دیکھیں تھذیب التھذیب لابن حجر : ١/١٤٣۔١٤٤)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اس کو ” لیّن الحدیث، رفع موقوفات” کہا ہے ۔(تقریب التھذیب : ٢٥٢)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” کہا ہے ۔(تلخیص المستدرک للذھبی : ١/٥٥٥)
2    اس میں نماز ِ جنازہ کے اندر چوتھی تکبیر کے بعد دعا کا ثبوت ملتا ہے ، نہ کہ سلام کے بعد انفرادی یا اجتماعی دعا کا ، ایک روایت میں صراحت بھی ہے کہ :     وکبّر علی جنازۃ أربعا ، ثمّ قام ساعۃ یدعو ، ثمّ قال : أترونی کنت أکبّر خمسا ، قالوا : لا ۔۔۔     ”آپ نے ایک جنازہ پر چار تکبیریں کہہ دیں ، پھر کچھ دیر کے لیے دعا کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے ، پھر فرمایا ، کیا تم نے خیال کیا تھا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا ، لوگوں نے کہا ، نہیں ۔”
(السنن الکبری للبیہقی : ٤/٣٥، وسندہ، حسن ان صح سماع الحسن بن الصباح من أبی یعفور)
نیز امام بیہقی نے اس روایت پر یوں تبویب کی ہے :     باب ما روی فی الاستغفار للمیّت والدّعاء لہ ما بین التّکبیرۃ الرّابعۃ والسّلام ۔    ”اس روایت کا بیان جس میں چوتھی تکبیر اور سلام کے درمیان میں میت کے لیے دعا کرنے کا ذکر ہے ۔”(السنن الکبری للبیہقی : ٤/٤٢)
ایک محدث اپنی روایت کو اہل بدعت سے بہتر سمجھتا ہے ، لہٰذا یہ روایت ہندوستانی بدعت کوبالکل سہارا نہیں دے سکتی ۔
دلیل نمبر 8 :      ابو بکر بن مسعود الکاسانی (م ٥٨٧ھ) ایک حدیث بیان کرتے ہیں :
أنّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی علی جنازۃ ، فلمّا فرغ جاء عمر ومعہ قوم ، فأراد أن یصلّی ثانیا ، فقال لہ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : الصّلاۃ علی الجنازۃ لا تعاد ، ولکن ادع للمیّت واستغفر لہ ۔
” بے شک نبی ئاکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کی نماز ِ جنازہ پڑھی ، جب پڑھ چکے تو حضرت عمر آپہنچے اور ان کے ہمراہ ایک گروہ بھی تھا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ دوبارہ جنازہ پڑھیں ، تو نبی پاک   صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ نماز ِ جنازہ دوبارہ نہیں پڑھی جا تی ، ہاں ! اب میت کے لیے دعا واستغفار کر لو ۔”
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع : ٢/٧٧٧، طبع جدید مصری)
تبصرہ :     1    یہ روایت بے سند ، موضوع(من گھڑت )، باطل ، جھوٹی ، جعلی ، خود ساختہ ، بناوٹی ، بے بنیاد اور بے اصل ہے ، محمد رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا اور جھوٹ ہے
2 اُدْعُ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ آپ دعا کریں ، یہ نہیں کہ ہماری دعا میں شامل ہو جائیں ۔
دلیل نمبر 0 :      سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تلاوت ِ قرآن سے محبت رکھنے والا مؤمن جب انتقال کرتا ہے تو فتصلّی الملائکۃ علی روحہ فی الأرواح ، ثمّ تستغفر لہ ۔۔۔     ”تو فرشتے ارواح میں اس کی روح کی نماز ِ جنازہ پڑھتے ہیں، پھر اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔”(شرح الصدور : ص ٥٣، مطبوعہ مصر)
تبصرہ :     1    یہ روایت سخت ترین ”ضعیف” ہے ، جیسا کہ حافط سیوطی  رحمہ اللہ اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :     ھذا حدیث غریب فی اسنادہ جہالۃ وانقطاع ۔
”یہ حدیث غریب ہے ، اس کی سند میں مجہول راوی اور انقطاع ہے ۔”(شرح الصدور : ٥٣)
حافظ سیوطی کی کتاب سے یہ روایت تو نقل کی گئی ، لیکن اس پر انہوں نے حکم لگایا تھا ،واضح خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ذکر نہیں کیا گیا ۔
2    اس روایت کے بارے میں امام بزار خود فرماتے ہیں :     خالد بن معدان لم یسمع من معاذ ۔     ”خالد بن معدان نے سیدنا معاذ  رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا ۔”(کشف الأستار : ٧١٢)
حافظ منذری  رحمہ اللہ اس وجہئ ضعف کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :     فی اسنادہ من لا یعرف حالہ ، وفی متنہ غرابۃ کثیرۃ ، بل نکارۃ ظاہرۃ ۔ ”اس کی سند میں ایسا راوی بھی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے اور اس کے متن میں بہت غرابت ہے ، بلکہ ظاہری نکارت ہے ۔”(الترغیب والترھیب : ١/٢٤٥)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ انقطاع کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :      وفیہ من لم أجد ترجمتہ ۔
”اس میں ایک ایسا راوی بھی ہے ، جس کے حالات مجھے نہیں ملے ۔”(مجمع الزوائد : ٢/٢٥٤)
3    اس میں نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کا ذکر نہیں ، یہاں تو اس بات کا ذکر ہے کہ جب وہ (مؤحد)انتقال کرتا ہے تو فوراً فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں ، فرشتوں کی صلاۃ سے مراد دعا ہے ، مؤمنین کے حق میں فرشتوںکی دعا سے مراد ان کے لیے مغفرت مانگنا ہوتا ہے ، نہ کہ نماز ِ جنازہ پڑھنا ، جب صلاۃ سے مراد یہاں نماز ہے ہی نہیں تو دعا بعد الصلاۃ (نماز کے بعد کی دعا)کہاں سے آگئی ؟
الیٰ یوم البعث کے الفاظ کو خیانت کرتے ہوئے ذکر نہیں کیا جاتا ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ ہم فرشتوں کے افعال واقوال کے مکلف نہیں ہیں ، ہمارے لیے شرعی نصوص حجت ہیں ، نہ ہی فرشتے اس شریعت کے مکلف ہیں۔
دلیل نمبر ! :      عمیر بن سعد بیان کرتے ہیں :
صلّیت مع علیّ علی یزید بن المکفّف ، فکبّر علیہ أربعا ، ثمّ مشیٰ حتّی أتاہ ، فقال : اللّٰہمّ عبدک وابن عبدک نزل بک الیوم ، فاغفر لہ ذنبہ ووسّع علیہ مدخلہ ، ثمّ مشیٰ حتّی أتاہ ، وقال : اللّٰہمّ عبدک وابن عبدک نزل بک الیوم ، فاغفر لہ ذنبہ ووسّع علیہ مدخلہ ، فانّا لا نعلم منہ الّا خیرا وأنت أعلم بہ ۔     ”میں نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یزید بن مکفف کی نماز ِ جنازہ پڑھی ، تو علی  رضی اللہ عنہ نے اس پر چار تکبیریں (نماز ِ جنازہ)پڑھیں ، پھر چل کر قبر کے قریب ہوئے ، پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ ! یہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہے جو آج تیرے یہاں حاضر ہوا تو تو اسے اس کے گناہ بخش دے اور اس کی قبر اس پر فراخ فرما دے ، پھر آپ چلے اور اس کے مزید قریب ہو کر یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ! آج تیری بارگاہ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا حاضر ہوا ، پس تو اس کو اس کے گناہ معاف فرما دے اور اس پر اس کی قبر فراخ کر دے ، کیونکہ ہم اس کے بارے میں سوائے بھلائی کے کچھ نہیں جانتے اور تو خود اس کے متعلق بہتر جانتا ہے ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٣/٣٣١، مطبوعہ بمبئی ھند)
تبصرہ :     1    اس روایت کا نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا سے کوئی تعلق نہیں ، اس کا تعلق تو دفن کے بعد قبر پر دعا کرنے کے ساتھ ہے ، جیسا کہ محدثین کی تبویب سے پتا چلتا ہے ، امام ابنِ ابی شیبہ  رحمہ اللہ  نے اس روایت کو فی الدّعاء للمیّت بعد ما یدفن ویسوّی علیہ     کے تحت ذکر کیا ہے ، یعنی انہوں نے اس حدیث کو میت کو دفن کرنے کے اور مٹی برابر کرنے کے بعد دعا کے بیان میں پیش کیا ہے ۔
اسی طرح امام عبدالرزاق  رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ تبویب کی ہے :     باب الدّعاء للمیّت حین یفرغ منہ ۔     ”دفن کرنے سے فارغ ہو کر میت کے لیے دعا کرنے کا بیان ۔”(مصنف عبد الرزاق : ٣/٥٠٩)
دیکھیں کہ اہل سنت کے دوبڑے امام اس روایت کو دفن کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں پیش کررہے ہیں ، محدثین کا فہم مقدم ہے ، وہ اپنی روایات کو دوسروں سے بہتر جانتے تھے ۔
2    چلنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز ِ جنازہ پڑھ کر قبر پر آئے اور قبر پر دفن کے بعد دعاکی ، بلکہ سنن کبریٰ بیہقی (٤/٥٦)کی روایت میں صراحت موجود ہے کہ : وقد أدخل میّتا فی قبرہ ، فقال : اللّٰہمّ ۔۔
”آپ میت کو قبر میں داخل کر چکے تھے تو دعا کی ، اے اللہ ! ۔۔۔۔”
3    اس روایت میں اجتماعی ہیئت کا بھی ذکر نہیں ہے ۔
دلیل نمبر @ :      عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ أنّہ صلّی علی المنفوس ، ثمّ قال : اللّٰہمّ أعذہ من عذاب القبر ۔    ”سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ۤپ نے ایک نومولود پر نماز ِ جنازہ پڑھی ، پھر یہ دعا کی ، اے اللہ! اس کو فتنہئ قبر سے اپنی پناہ میں رکھنا ۔”(السنن الکبری للبیہقی : ٤/٩)
تبصرہ :     1    اس کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے ، صحیح ترجمہ یہ ہے :
”روایت ہے حضرت سعید بن مسیب سے کہ فرماتے ہیں ، میں نے حضرت ابو ہریرہ کی اقتداء میں اس بچے پر نماز پڑھی ، جس نے کبھی کوئی خطانہ کی تھی ، لیکن میں نے آپ کو فرماتے سنا کہ الٰہی ! اسے عذاب ِ قبر سے بچالے ۔”(مشکوٰۃ شریف ترجمہ از احمد یار خان نعیمی بریلوی : ١/٣٦٤)
2    امام اہل سنت امام مالک  رحمہ اللہ نے اس روایت کو باب ما یقول المصلّی علی الجنازۃ
”جنازہ پڑھنے والا نماز ِ جنازہ میں جو پڑھے گا ، اس کا بیان”     کے تحت لائے ہیں ۔(المؤطا : ١/٢٢٨)
3    مزید جوابات حدیث نمبر 1 کے تحت ملاحظہ فرمائیں ۔
4    اس میں نماز ِ جنازہ کے متصل بعد فاتحہ اور چار قل کا کوئی ثبوت نہیں ، نہ ہی اجتماعی ہیئت کا کوئی ذکر ہے ۔
دلیل نمبر # :      کاسانی نقل کرتے ہیں :
انّ ابن عباس وابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم فاتتھما صلاۃ علی الجنازۃ ، فلمّا حضرا ما زادا علی الاستغفار لہ ۔ واللّفط للکاسانی ۔    ”سیدنا ابنِ عباس اور ابنِ عمر ایک نماز ِ جنازہ سے رہ گئے تو جب حاضر ہوئے تو اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔”
(المبسوط : ٢/٦٧، طبع بیروت ، بدائع الصنائع : ٢/٧٧٧)
تبصرہ :     1    یہ روایت بے سند ، موضوع(من گھڑت)، باطل ، جھوٹی ، جعلی ، خود ساختہ، بناوٹی ، بے بنیاد اور بے اصل ہے ، جھوٹی اور بے سند روایات وہی پیش کر سکتا ہے جو بدعتوں کا شیدائی اور سنتوں کا دشمن ہو مقلدین کے” فقہاء ” کی کتابیں اس طرح کی واہی تباہی سے بھری پڑی ہیں ، ان کے دین میں سند نام کی کوئی چیز نہیں ، اسی لیے محدثین کرام ان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔    فافہم وتدبّر !
دلیل نمبر # :      سیدنا ابو امامہ الباہلی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ، کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ فرمایا :      جوف اللّیل الآخر ودبر الصّلوات المکتوابات ۔
”رات کے آخری نصف اور فرضی نمازوں کے بعد والی ۔”(سنن الترمذی : ٣٤٩٩، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی : ١٠٨)
تبصرہ :     1    اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، عبدالرحمن بن سابط راوی نے سیدنا ابو امامہ  رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا ، امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن سابط نے سیدنا ابو امامہ سے سماع نہیں کیا ۔”(تاریخ یحیی بن معین : ٣٦٦)
حافظ ابن القطان الفاسی  رحمہ اللہ کہتے ہیں :     واعلم أنّ ما یرویہ عبد الرحمن بن سابط عن أبی أمامۃ لیس بمتّصل ، وانّما ھو منقطع ، لم یسمع منہ ۔    ”یاد رہے کہ جو روایات عبدالرحمن بن سابط سیدنا ابو امامہ سے بیان کرتے ہیں ، وہ تمام متصل نہیںہیں ، وہ تو منقطع ہیں ، کیونکہ عبدالرحمن بن سابط نے سیدنا ابو امامہ  رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ۔”(نصب الرایۃ للزیلعی : ٢/٢٣٥، بیان الوہم والایہام : ٢/٣٨٥)
لہٰذا امام ترمذی  رحمہ اللہ کا اس کو ”حسن” کہنا صحیح نہیں ۔
دلیل نمبر $ :      سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من عبد بسط کفّیہ فی دبر کلّ صلاۃ ، ثمّ یقول : اللّٰہمّ الٰھی والہ ابراھیم واسحاق ویعقوب والہ جبرئیل ومیکائیل واسرافیل علیھم السّلام ! أسألک أن تستجیب دعوتی ، فانّی مضطرّ ، وتعصمنی فی دینی ، فانّی مبتلی ، وتناولنی برحمتک ، فانّی مذنب ، وتنفی عنی الفقر، فانّی متمسکن ، الّا کان حقّا علی اللّٰہ عزّوجلّ أن لّا یردّ یدیہ خالیتین ۔
”جو آدمی بھی اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا کر ہر نماز کے بعد کہے ، اے اللہ ! اے میرے الہ اور ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب ، جبریل ، میکائیل ، اسرافیل oکے الہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری دعا کو قبول کر لے ، میں لاچار ہو ، تو مجھے میرے دین میں عصمت دے دے ، میں آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا ہوں ، تو مجھے اپنی رحمت دے دے ، میں گناہ گار ہوں اور تو مجھ سے فقر کو دور کر دے ، میں تنگدست ہوں ، اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ خالی نہ لوٹائے ۔”(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ١٢٩)
تبصرہ :     یہ روایت موضوع(من گھڑت )ہے ، کیونکہ :
1    اس کا راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمن القرشی البالسی”متروک” ہے ، امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     اضرب علی أحادیثہ ، ھی کذب ، أو قال : موضوعۃ ۔    ”اس کی احادیث کو پھینک دے ، وہ جھوٹ ہیں ۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٥/٣٨٨)
امام نسائی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بثقۃ ۔ ”یہ ثقہ نہیں ۔”(الضعفاء والمتروکون : ص ٢١١)
امام ابن عدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      وعبدالعزیز ھذا یروی عن خصیف أحادیث بواطیل۔
”یہ عبدالعزیز خصیف سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے ۔”(الکامل لابن عدی : ٥/٢٨٩)
2    عبدالعزیز نے یہ روایت خصیف الجزری سے ذکر کی ہے ، جو کہ متکلم فیہ راوی ہے ، نیز اس کا سیدنا انس  رضی اللہ عنہ سے سماع بھی نہیں ہے ۔
3    اسحاق بن خالد بن یزید البالسی کے بارے میں امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وروایاتہ تدلّ عمن روی عنہ بأنّہ ضعیف ۔     ”اس کی روایات دلالت کرتی ہیںکہ جس سے بھی اس نے روایت لی ہے ،بہر حال ضعیف ہے ۔”(الکامل لابن عدی : ١/٣٤٤)
قارئین ! اس روایت سے نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہیئت سے دعا کا اثبات کرنا انصاف وعلم کا خون کرنے کے مترادف ہے ۔
دلیل نمبر % :      عن عبد اللّٰہ بن سلام أنّہ فاتتہ الصّلاۃ علی جنازۃ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، فلمّا حضر قال : ان سبقتمونی بالصّلاۃ علیہ ، فلا تسبقونی بالدّعاء لہ ۔
”سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کی نماز ِ جنازہ سے پیچھے رہ گئے تو جب پہنچے تو فرمایا کہ تم لوگوں نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ تو مجھ سے پہلے پڑھ لی ہے تو ان کے لیے دعا کرنے میں تو مجھ سے پہل نہ کرو۔”(المبسوط : ٢/٦٧، طبع بیروت ، بدائع الصنائع : ٢/٧٧٧، طبع جدید مصر)
تبصرہ :     1    یہ روایت بے سند ، موضوع(من گھڑت)، باطل ، جھوٹی ، بے بنیاد اور بے اصل ہے ، حدیث کی کسی کتاب میں اس کا وجود نہیں ملتا ، سچ ہے کہ جب تک شیطان اور اس کے حواری دنیا میں موجود ہیں ، جھوٹی روایات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
2    اس کا مطلب ہے کہ اگر تم نے مجھ نے سے پہلے نماز ِ جنازہ پڑھ لی ہے تو دفن کے بعد دعا میں مجھے شریک کر لینا ۔
دلیل نمبر ^ :      عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں :      ومن ذلک قول أبی حنیفۃ : انّ التّعزیۃ سنّۃ قبل الدّفن لا بعدہ ۔۔۔ لأنّ شدّۃ الحزن انّما تکون قبل الدّفن ، فیغری ویدعی لہ ۔
”اور ان مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ تعزیت کرنا دفن سے پہلے سنت ہے نہ کہ دفن کے بعد ۔۔۔ اس لیے کہ غم کی شد ّت دفن سے پہلے ہی ہوتی ہے ، لہٰذا (قبل دفن ہی)تعزیت اورمیت کے واسطے دعا کی جانی چاہیے ۔”(کتاب میزان الشریعۃ الکبری : ١/١٨٥، مطبوعہ مصر )
تبصرہ :      عبدالو ہاب شعرانی سے لے کر ابو حنیفہ تک صحیح سند ثابتکریں ، ورنہ اہل بدعت مانیں کہ وہ امام ابو حنیفہ پر بھی جھوٹ باندھنے سے باز نہیں آتے ۔
دلیل نمبر & :      مفتیٰ بہ روایت
صاحب ِ کشف الغطاء مانعین کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :     ”دفن سے پہلے میت کے لیے فاتحہ اور دعا کرنا درست ہے ۔یہی روایت معمولہ (مفتیٰ بہ)ہے ، ایسا ہی خلاصۃ الفقہ میں ہے ۔”
(العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ : ٤/٣٠، طبع لائلپور)
تبصرہ :     1    یہ قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے ۔
2جمہور حنفی فقہاء کی تصریحات کے خلاف بھی ہے ۔
3    تقلید پرست امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں یا صاحب ِ ”کشف الغطائ” کے ، وضاحت کریں!
دلیل نمبر * :      فضلی حنفی کی تصریح
عبدالعلی البر جندی محمد بن الفضل سے نقل کرتے ہیں :     قال محمّد بن الفضل : لا بأس بہ (أی بالدّعاء بعد صلاۃ الجنازۃ) ۔    ”محمد بن الفضل نے فرمایا کہ نماز ِ جنازہ کے بعد دعا کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔”(برجندی شرح مختصر الوقایۃ : ١/١٨٠، طبع نولکشوری)
تبصرہ :     1    برجندی حنفی نے محمد بن فضل کا یہ قول صاحب ”قنیہ” زاہدی جو معتزلی ہے ، سے نقل کیا ہے ، اما م ِ بریلویت احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں :     ” قنیہ غیر معتبر کتاب ہے ، اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا ، مقدمہ شامی بحث رسم المفتی میں کہ صاحب ِ قنیہ ضعیف روایات بھی لیتا ہے ، اس سے فتویٰ دینا جائز نہیں ، اعلیحضرت (احمد رضا خان بریلوی)قدس سرہ نے بذل الجوائز میں فرمایا ہے کہ قنیہ والا معتزلی ، بدمذہب ہے ۔”(”جاء الحق” : ١/٢٨١)
امام ِ بریلویت احمد رضاخان بریلوی خود لکھتے ہیں :      ”اس کی نقل پر اعتماد نہیں ۔”
(بذل الجوائز مندرج فتاوی رضویہ : ٩/٢٥٤)
2    تقلید پرست یہ بتائیں کہ وہ محمد بن فضل کے مقلد ہیں یا امام ابو حنیفہ کے ، اپنے امام سے باسند ِ صحیح جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کا جواز ثابت کریں۔
3    محمد بن فضل کا قول جمہور حنفی فقہاء کے مقابلے میں بھی مردود ہو جائے گا۔
4    اس کتاب میں قنیہ کے حوالے سے لکھا ہے :      عن أبی بکر بن أبی حامد أنّ الدّعاء بعد صلاۃ الجنازۃ مکروہ ۔    ”ابو بکر بن حامد حنفی سے روایت ہے کہ نماز ِ جنازہ کے بعد دعا مکروہ ہوتی ہے ۔”        اس قول کی تائید فتاویٰ فیض کرکی میں موجود ہے ۔
الحاصل :     نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے کے ثبوت میں پیش کی گئی دونوں آیات ِ قرآنی اور تیسری ، چوتھی اور پانچویں دلیل میں پیش کی گئی احادیث کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ۔
چھٹی دلیل کے تحت پیش کی گئی حدیث موضوع(من گھڑت)اور باطل و مردود ہے ، ساتویں دلیل میں مذکور حدیث ”ضعیف” ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع سے خارج بھی ہے ، کیونکہ اس میں چوتھی تکبیر کے بعد اور سلام سے پہلے دعا کا ذکر ہے ۔
آٹھویں اور نویں دلیل کے تحت ذکر کی گئی احادیث بھی من گھڑت اور سخت ”ضعیف” ہیں ، دسویں اور گیارہویںدلیل میں پیش کردہ حدیث کا بھی جنازہ کے متصل بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا سے کوئی تعلق نہیں ۔
لہٰذا اللہ کے فضل وکرم سے اس بدعت کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل کا جائزہ لے کر ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا بدعت ِ قبیحہ ہے۔
دس سوالات
اس بدعت پر زور دینے والوں سے ان دس سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :
1    نبی ئ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کے جواز میں نصِ صریح پیش کریں!
2    نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کرنے کے ثبوت پر کم از کم ایک ”ضعیف” حدیث ہی پیش کر دیں ، جس میں نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کی صراحت ہو !
3    کسی ایک صحابی ئ رسول   صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا باسند ِ صحیح ثابت کریں !
4    کسی صحابی ئ رسول سے نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے کا ثبوت کسی ”ضعیف” روایت سے ثابت کریں ، جس میں نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کی صراحت موجود ہو !
5    نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع (من گھڑت) حدیث سے نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کا ثبوت پیش کریں !
6    کسی صحابی سے موضوع (من گھڑت ) روایت پیش کریں ، جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ انہوں نے نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کی تھی !
7    امام ابو حنیفہ سے باسند ِ صحیح نماز ِ جنازہ کے متصل بعد دعا کا جواز ثابت کریں !
8    فقہ حنفی کی کسی معتبر ترین کتاب سے اس کا جواز ثابت کریں !
9    کسی ثقہ امام سے نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا باسند ِ صحیح ثابت کریں!
0    کسی ثقہ امام کا نام بتائیں ، جس نے ان مذکورہ دلائل سے نماز ِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنے کا جواز ثابت کیا ہو یا ایسا باب قائم کیا ہو !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.