974

کفن پر لکھنا بدعت ہے، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

کفن پر لکھنا بدعت ہے!
قبر میں شجرہ یا غلاف کعبہ یا عہد نامہ یا دیگر ”تبرکات” کا رکھنا، نیز مردے کے کفن یا پیشانی پر انگلی یا مٹی یا کسی اور چیز سے عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا ناجائز اور بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے۔ یہ خانہ ساز دین، آسمانی دین کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث میں ان افعال قبیحہ پر کوئی دلیل نہیں، بلکہ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان کا قائل و فاعل نہیں۔ یہ بدعتیوں کی ایجادات ہیں۔ اہل سنت ان خرافات و بدعات سے بیزار ہیں، کیونکہ یہ انتہائی جرات مندانہ اقدام دین الٰہی میں بگاڑ کا باعث ہے۔
ان افعال قبیحہ کے ثبوت پر پیش کیے گئے دلائل کا علمی جائزہ پیش خدمت ہے:
جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی رحمہ اللہ (١٣٢٤۔١٣٩١ھ) لکھتے ہیں:
قبر میں بزرگان دین کے تبرکات اور غلاف کعبہ و شجرہ یا عہد نامہ رکھنا مردہ کی بخشش کا وسیلہ ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ
(جاء الحق از احمد یار خان نعیمی : ١/٣٣٦)
اس آیت کریمہ سے عہد نامہ وغیرہ کے جواز پر استدلال کرنا باطل ہے، کیونکہ صحابہ کرام اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت کریمہ سے یہ استدلال نہیں کیا۔ لہٰذا یہ کلام الٰہی کی معنوی تحریف ہے۔ اس آیت میں بالاتفاق وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں، جیسا کہ:
مفسر قرآن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وھذا الذی قالہ ھؤلاء الأئمۃ، لا خلاف فیہ بین المفسرین .
”ان ائمہ نے جو کہا ہے (کہ وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں)، اس میں مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٢/٥٣٥)
بعض لوگ تمام مفسرین اور ائمہ اہل سنت کا اتفاقی معنیٰ ترک کر کے اپنی مرضی کا معنیٰ لیتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے سنی ہونے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، کیوں؟
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
فَکُلُّ مَنِ اعْتَمَدَ عَلَی تَقْلِیدِ قَوْلٍ غَیْرِ مُحَقَّقٍ، أَوْ رَجَّحَ بِغَیْرِ مَعْنَی مُعْتَبَرٍ فَقَدْ خَلَعَ الرِّبْقَۃَ وَاسْتَنَدَ إِلَی غَیْرِ شَرْعٍ، عَافَانَا اللَّہُ مِنْ ذَلِکَ بِفَضْلِہِ، فَہَذِہِ الطَّرِیقَۃُ فِی الْفُتْیَا مِنْ جُمْلَۃِ الْبِدَعِ الْمُحْدَثَاتِ فِی دِینِ اللَّہِ تَعَالَی، کَمَا أَنَّ تَحْکِیمَ الْعَقْلِ عَلَی الدِّینِ مُطْلَقًا مُحْدَثٌ .
”ہر وہ شخص جو کسی غیر ثابت شدہ قول کی تقلید پر اعتماد کرتا ہے یا بغیر کسی وجہ کے اسے راجح قرار دے، اس نے (اسلام کی) رسی اتار دی اور شریعت کے علاوہ کسی اور چیز پر اعتماد کر لیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسے کاموں سے بچائے۔ فتوٰی میں یہ طریقہ اختیار کرنا ان بدعات میں سے ہے، جو اللہ تعالیٰ کے دین میں نکالی گئی ہیں، جیسا کہ عقل کو دین پر حاکمیت دینا مطلق طور پر بدعت ہے۔”
(الاعتصام للشاطبي : ٢/١٧٩)
نعیمی صاحب دوسری دلیل لکھتے ہیں:
”یوسف  علیہ الصلوۃ والسلام نے بھائیوں سے فرمایا تھا:(اذْہَبُوا بِقَمِیصِی ہَذَا فَأَلْقُوہُ عَلَی وَجْہِ أَبِی یَأْتِ بَصِیرًا) (سورۃ یوسف : ٩٣) ”میری قمیص لے جا کر والد صاحب کے منہ پر ڈال دو، وہ انکھیارے ہو جائیں گے۔” معلوم ہوا کہ بزرگوں کا لباس شفا بخشا ہے، کیونکہ یہ ابراہیم  علیہ الصلوۃ والسلام کی قمیص تھی، تو امید ہے کہ بزرگوں کا نام مردے کی عقل کھول دے اور جوابات یاد آ جائیں۔”
(جاء الحق از نعیمی : ١/٣٣٦)
یہ پیغمبر کا معجزہ تھا۔ معجزہ سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے، نیز سلف صالحین سے یہ بات ثابت نہیں، لہٰذا یہ دین نہیں۔
یہ کہنا کہ یہ سیدنا ابراہیم  علیہ الصلوۃ والسلام کی قمیص تھی، محض بے دلیل بات ہے، کیونکہ قرآن مجید کی خلاف ورزی ہے۔ آیت کریمہ میں ہے کہ (اذْہَبُوا بِقَمِیصِی ہَذَا) ”میری قمیص لے جاؤ۔”
نیز فرمایا:
وَجَاء ُوا عَلَی قَمِیصِہِ بِدَمٍ کَذِبٍ . (یوسف : ١٨)
”وہ (اخوان یوسف) ان (سیدنا یوسف  علیہ الصلوۃ والسلام) کی قمیص پر جھوٹا خون لائے۔”
جناب نعیمی صاحب تیسری دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”نبی کریمe نے اپنا تہبند شریف اپنی بیٹی سیدہ زینب کے کفن میں شامل فرما دیا تھا۔”
(جاء الحق از نعیمی : ١/٣٣٦)
نبی اکرمe نے اپنی قمیص بطور تبرک دی تھی اور تبرک آپe کی ذات گرامی کے ساتھ خاص تھا، اب کسی اور کو آپe قیاس نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَہُوَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ ـ بَعْدَ مَوْتِہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ ـ لَمْ یَقَعْ مِنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ شَیْء ٌ مِنْ ذَلِکَ بِالنِّسْبَۃِ إِلَی مَنْ خَلَّفَہُ، إِذْ لَمْ یَتْرُکِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہُ فِی الْأُمَّۃِ أَفْضَلَ مِنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ (رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ)، فَہُوَ کَانَ خَلِیفَتَہُ، وَلَمْ یُفْعَلْ بِہِ شَیْء ٌ مِنْ ذَلِکَ، وَلَا عُمَرَ (رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا)، وَہُوَ کَانَ فِی الْأُمَّۃِ بَعْدَہُ، ثُمَّ کَذَلِکَ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِیٌّ، ثُمَّ سَائِرُ الصَّحَابَۃِ الَّذِینَ لَا أَحَدَ أَفْضَلَ مِنْہُمْ فِی الْأُمَّۃِ، ثُمَّ لَمْ یَثْبُتْ لِوَاحِدٍ مِنْہُمْ مَنْ طَرِیقٍ صَحِیحٍ مَعْرُوفٍ أَنَّ مُتَبَرِّکًا تَبَرَّکَ بِہِ عَلَی أَحَدٍ تِلْکَ الْوُجُوہِ أَوْ نَحْوِہَا، بَلِ اقْتَصَرُوا فِیہِمْ عَلَی الِاقْتِدَاء ِ بِالْأَفْعَالِ وَالْأَقْوَالِ وَالسِّیَرِ الَّتِی اتَّبَعُوا فِیہَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَہُوَ إِذًا إِجْمَاعٌ مِنْہُمْ عَلَی تَرْکِ تِلْکَ الْأَشْیَاء ِ کُلِّہَا .
”صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق تھے، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علیw اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیاہو، بلکہ ان (صحابہ) کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرمe کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک تبرکات پر اجماع ہے۔”
(کتاب الاعتصام للشاطبي : ٢/٨۔٩)
مفتی صاحب بطور دلیل شاہ عبدالعزیز کے فتاوٰی کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں:
”قبر میں شجرہ رکھنا بزرگان دین کا معمول ہے، لیکن اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ یہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے رکھیں۔ اس کو فقہاء منع کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مردے کے سر کی طرف قبر میں طاقچہ بنا کر شجرہ کاغذ میں رکھیں۔”
(جاء الحق : ١/٣٣٧)
اگر بزگان دین سے مراد سلف صالحین، ائمہ محدثین ہیں تو یہ سفید جھوٹ ہے اور اگر احناف مراد ہیں تو وہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین کی مخالفت میں ہمیشہ کمر بستہ نظر آتے ہیں۔
اگر کوئی ان ”بزرگان دین” سے قرآن و حدیث سے دلیل مانگ لے تو کیا جواب ملے گا؟ یہ جسے چاہیں ممنوع ٹھہرا دیں اور جسے چاہیں جائز قرار دیں، جیسا کہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے شجرہ رکھنا ممنوع قرار دیا اور قبر میں طاقچہ بنا کر رکھنا جائز قرار دیا۔ کیوں؟
جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
”میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، اسی طرح عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے، خواہ تو انگلی سے لکھا جائے یا کسی اور چیز سے۔ امام ترمذی حکیم بن علی نے نوادر الاصول میں روایت کی کہ حضور  علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
من کتب ھذا الدعاء وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ فی رقعۃ لم ینلہ عذاب القبر، ولا یری منکرا ونکیرا .
”جو شخص اس دعا کو لکھے اور میت کے سینے اور کفن کے درمیان کاغذ میں لکھ کر رکھے تو اس کو عذاب قبر نہ ہوگا اور نہ منکر نکیر کو دیکھے گا۔”
(جاء الحق : ١/٣٣٨)
یہ بدعات کے ثبوت پر دلیل ہے۔ لگتا ہے کہ یہ دلیل ان کو شیطان نے وحی کی ہے، ورنہ نوادر الاصول تو کجا، دنیا جہان کی کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔
یہ وضعی، بے سند اور من گھڑت روایت ان لوگوں کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ لوگ دین میں بدعات جاری کرنے اور ان کے ثبوت پر جھوٹی روایات پیش کرنے میں اہل کتاب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
نیز ان کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ یہ ان کے اپنے قول کے بھی خلاف ہے، جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب کے پچھلے ہی صفحہ پر ذکر کیاہے کہ ان کے ”فقہائ” مردے کے سینہ پر شجرہ یا عہد نامہ رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ اگر نعیمی صاحب کے نزدیک یہ حدیث نبوی ہے تو ان کے ”فقہائ” جو اس حدیث پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
مفتی صاحب ایک نئی دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”الحرف الحسن (یہ احمد رضا خان صاحب کی تصنیف ہے) میں ترمذی سے نقل کیا کہ صدیق اکبرt سے روایت ہے کہ جو کوئی عہد نامہ پڑھے تو فرشتہ اسے مہر لگا کر قیامت تک کے لیے رکھ لے گا۔ جب بندے قبر سے اٹھائے جائیں گے تو فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لا کرندا کرے گا کہ عہد والے کہاں ہیں؟ ان کویہ عہد نامہ دیا جائے گا۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ
عن طاؤس أنہ أمر بھذہ الکلمات، فکتب فی کفنہ . (الحرف الحسن)
(جاء الحق از نعیمی : ١/٣٣٩)
یہ بے سند اور جھوٹی روایت ہے۔ شرعی احکام کی اس پر بنیاد ڈالنا اہل بدعت کا ہی وطیرہ ہو سکتا ہے۔ رہا طاؤس کا قول تو اس کا بھی حوالہ اور سند دونوں نہیں مل سکے۔
اس کے باوجود مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
”عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، یہ دونوں کام جائز اور احادیث صحیحہ، اقوال فقہاء سے ثابت ہیں۔”
(جاء الحق از نعیمی : ١/٣٣٦)
وہ احادیث صحیحہ کہاں ہیں؟ اگر بے سند روایات کا نام احادیث صحیحہ ہے تو پھر جھوٹ کسے کہتے ہیں؟
قارئین کرام! آپ نے بدعات کے ثبوت پر دلائل ملا حظہ فرما لیے، اس کے باوجود نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
”میت کے لیے کفن وغیرہ پر ضرور عہد نامہ لکھا جاوے۔”
(جاء الحق از نعیمی : ١/٣٤١)
نعیمی صاحب ”فتاوٰی بزازیہ” سے نقل کرتے ہیں:
”اگر میت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہد نامہ لکھا تو امید ہے کہ اللہ اس کی بخشش کر دے اور اس کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ امام نصیر نے فرمایا کہ اس روایت سے معلوم ہو ا کہ لکھنا جائز ہے اور مروی ہے کہ فاروق اعظم کے اصطبل کے گھوڑوں کے رانوں پر لکھا تھا:
حبس فی سبیل اللہ .
(جاء الحق از نعیمی : ١/٣٣٩،٣٤٠)
بدعات کے شیدائی دلائل سے تہی دست ہوتے ہیں۔”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا” کے مصداق ”مفتی” صاحب نے کیسی دلیل پیش کی کہ فاروق اعظم کے اصطبل کے گھوڑوں کے رانوں پر لکھا تھا۔ یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اس کا معتبر حوالہ اور سند پیش کی جائے۔ پھر بھی کہاں گھوڑوں کے رانوں پر مذکورہ الفاظ لکھنا اور کہاں میت کی پیشانی یا کفن پر کلمہ طیبہ لکھنا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.