1,893

کیا قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ ——- علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو نماز ہی ٹوٹے گی ، وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ :
دلیل نمبر ١:حافظ ابن المنذر (م:٣١٨ھ)لکھتے ہیں :
أجمع أہل العلم علی أن الضحک فی غیر الصلاۃ لا ینقض الطہارۃ ولا یوجب وضوء ا وأجمعوا علی أن الضحک فی الصلا ۃ ینقض الصلاۃ ۔
”اس بات پر اہل علم کا اجماع و اتفاق ہے کہ نماز کے علاوہ ہنسنا وضو کو نہیں توڑتا ، نہ ہی وضو کو واجب کرتا ہے ، اس بات پر بھی اجماع ہے کہ نماز میں ہنسنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔”(الاوسط لابن المنذر : ١/٢٢٦)
دلیل نمبر ٢: عن عطاء عن جابر قال: کان لا یری علی الذی یضحک فی الصلاۃ وضوء ا۔
”عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ( صحابیئ رسول) سیدناجابر( بن عبداللہ الانصاری)رضی اللہ عنہ نماز میں ہنسنے والے پر وضو خیال نہیں کرتے تھے۔”(سنن الدارقطنی : ١/١٧٤، ح: ٦٥٠، وسندہ حسن)
دلیل نمبر ٣:
”ہشام کہتے ہیں کہ میرے بھائی نماز میں ہنس پڑے ، ان کو عروہ نے نماز دہرانے کا کہا ، وضو کرنے کا نہیں کہا ۔ ”
(مصنف ابن ابی شیبہ : ١/٣٨٧، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر ٤: عن عطاء فی الرجل یضحک فی الصلاۃ ، قال: ان تبسم فلا ینصرف ، وان قہقہ استقبل الصلاۃ ، ولیس علیہ وضو ء ۔
”امام عطاء بن ابی رباح نے ایسے شخص کے بارے میںفرمایا،جو نماز میں ہنس پڑے ، اگر اس نے تبسم ظاہر کیا ، تو نماز نہیں توڑے گا ، لیکن اگر قہقہہ لگا کر ہنسا تونماز دہرائے گا، البتہ اس پر وضو نہیں ہے ۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: ١/٣٨٧، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر ٥: عبد الرحمن بن قاسم کہتے ہیں : ضحکت وأنا أصلی مع أبی ، فأمرنی أن أعید الصلاۃ
”میں اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ہنس پڑا ، انہوں نے مجھے نماز دہرانے کا حکم دیا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : ١/٣٨٧، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر ٦: محمد بن سیرین تابعی کہتے ہیں : کانوا یأمروننا ونحن صبیان ، اذا ضحکنا فی الصلاۃ أن نعید الصلاۃ ۔ ”بچپن میں جب ہم نماز میں ہنس پڑتے تو (علمائ)ہمیں نماز دہرانے کا حکم دیتے تھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : ١/٣٨٨، وسندہ صحیح)
امام احمد بن حنبل (مسائل احمد لابن ہانی: ١/٧)، امام ِ شافعی(الام للشافعی: ١/٣١)، امام اسحاق بن راہویہ (مسائل احمد واسحاق:١/ ٢٠)کا بھی یہی فتوی ہے۔
امام ابو بکر ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں : یعید الصلاۃ ولا یعید الوضوئ۔
”نماز میں ہنسنے والا نماز تو دہرائے گا، لیکن وضو نہیں دہرائے گا۔”(مصنف ابن ابی شیبہ ؛ ١/٣٨٨)
تقلید پرست جمہور ِامت اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ، وہ اس کو وضو لوٹانے کا حکم دیتے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا محدثین کرام کے اصولوں کے مطابق جائزہ پیش کرتے ہیں :
دلیل نمبر ١:سیدنا ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگو ں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور مسجد میں واقع ایک گڑھے میں گر گیا ، اس کی بصارت میں نقص تھا ، بہت سا رے لوگ نماز میں ہنس پڑے ، رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو شخص ہنسا ہے، وہ وضو بھی دوبارہ کرے گا اور نماز دہرائے گا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی : ١/٢٤٦، نصب الرایۃ : ١/٤٧)
تبصرہ :اس کی سند ”ضعیف ” ہے ، اس میں ہشام بن حسان” مدلس”ہیں ، جو ”عن ”سے روایت کر رہے ہیں ، ثقہ مدلس کی صحیح بخاری و مسلم کے علا وہ ”عن ” والی روایت ” ضعیف ”ہوتی ہے ۔
دلیل نمبر ٢:ابو العالیہ الریا حی نے کہا کہ ایک اندھا کنویں میں گر گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کونماز پڑھا رہے تھے ، آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے کچھ لوگ ہنس پڑے ، تو آپ نے فرمایا، جو ہنسا ہے ، وہ وضو بھی دوبارہ کرے اور نماز بھی دہرائے۔”(مصنف عبد الرزاق: ٢/٣٧٦، ح؛ ٣٧٦٠،٣٧٦٢)
تبصرہ : اس کی سند ”تدلیس” اور”انقطاع” کی وجہ سے ”ضعیف”ہے ۔ امام ابن المنذرفرماتے ہیں :
حدیث أبی العالیۃ مرسل ، والمرسل لا تقوم بہ الحجۃ ۔
”ابو العالیہ کی حدیث مرسل ہے اورمرسل حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔”(الاوسط:١/٢٢٨)
یاد رہے کہ دین متصل ، صحیح روایات کا نام ہے ۔
دلیل نمبر ٣: حسن بصری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک نابینا آدمی قبلہ کی جانب سے نماز کے ارادہ سے آیا ، لوگ فجر کی نماز میں مشغول تھے ، یہ نابینا ایک گڑھے میں گر گیا، کچھ لوگ ہنس پڑے، حتی کہ انہوں نے قہقہہ لگا دیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ، جس نے قہقہہ لگایا ہے ، وہ وضو اور نماز دونوں کو دہرائے۔”(کتاب الآثاربروایۃ محمد: ٣٣)
تبصرہ: یہ موضوع (من گھڑت)حدیث ہے، کیونکہ :
١۔۔۔۔۔۔یہ مرسل ہے اور مرسل روایت ”ضعیف” ہوتی ہے ۔
٢۔۔۔۔۔۔راویئ کتاب محمد بن حسن الشیبانی ”کذاب” ہے ۔
٣۔۔۔۔۔۔اس میں محمد بن حسن الشیبانی کا استاذ بالاتفاق ”ضعیف و متروک” ہے، کسی ”ثقہ ” امام سے اس کا ”ثقہ ” ہونا باسندِ ”صحیح” ثابت نہیں ۔
دلیل نمبر ٤: معبد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے میں مشغول تھے کہ ایک نابینا آدمی نماز کے ارادے سے آیا اورایک گڑھے میں گر گیا ، کچھ لوگ ہنس پڑے ، حتی کہ انہوں نے قہقہہ لگا دیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ، جس نے قہقہہ لگایا ہے ، وہ وضو اور نماز دونوں کو دہرائے ۔(سنن الدارقطنی : ١/١٦٦، ح؛ ٦١٢)
تبصرہ: یہ روایت سخت ترین ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
١۔۔۔۔۔۔اس میں ”ارسا ل ” ہے، معبد الجہنی تابعی ہیں ، خودامام ِ دارقطنی نے اس کو” مرسل” کہا ہے ، جناب زیلعی حنفی نے بھی اس کو ”مرسل ”قرار دیا ہے۔(نصب الرایۃ : ١/٥١)
٢۔۔۔۔۔۔اس میں امام حسن بصری کی تدلیس ہے۔
٣۔۔۔۔۔۔اس کی سند کا دارومدار نعمان بن ثابت پر ہے ، جو بالاجماع ”مجروح ” ہیں ۔
دلیل نمبر ٥: سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے نماز میں قہقہہ لگایا ، وہ وضو اور نماز دہرائے۔(الکامل لابن عدی؛ ٣/١٦٧)
تبصرہ: یہ روایت بھی ” ضعیف” ہے ، کیونکہ اس میں ”انقطاع” ہے ، امام عطاء بن ابی رباح کا سیدنا ابن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : قد رآی ابن عمر ولم یسمع منہ ۔
”یقینا انہوں نے سیدنا ابن عمرکو دیکھا ہے ، لیکن ان سے سماع نہیںکیا ۔”(المراسیل لابن أبی حاتم:١٥٤)
یہی بات امام علی بن مدینی ؒ اور امام ابو عبداللہ نے بھی فرمائی ہے۔(تہذیب الہذیب: ٧/١٨٢)
نیز اس میں بقیہ بن ولید راوی اگرچہ جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہیں(دیکھین :الترغیب والترہیب للمنذری: ٤/٥٦٨، الکاشف للذہبی: ١/١٠٦۔١٠٧) ، لیکن ”تدلیسِ تسویہ ” کے مرتکب تھے ، لہٰذا سند مسلسل بالسماع ہونی چاہیے۔
حافظ ابن حجر ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
بقیۃ صدوق، لکنہ یدلس ویسوی ، قد عنعنہ عن شیخہ وشیخ شیخہ ۔
”بقیہ صدوق راوی ہے ، لیکن تدلیس تسویہ کرتاتھا ، اس نے اپنے استاذ اور استاذ کے استاذ سے بصیغہئ عن روایت کی ہے۔”(موافقۃ الخبر الخبر لابن حجر: ١/٢٧٦)
حافظ ابن ملقن لکھتے ہیں : لکن بقیۃ رمی بتدلیس التسویۃ ، فلا ینفعہ تصریحہ بالتحدیث
”بقیہ پرتدلیس تسویہ کا الزام ہے ، لہٰذا صرف اپنے شیخ سے سماع کی تصریح چنداں مفید نہیں ۔”
(البدرالمنیر: ٤/٥٠٩)
اس روایت کے ”ضعیف” ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے ، امام ابن عدی اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ومحمد الخزاعی ہذا ہو من مجہولی مشایخ بقیۃ ، ویقال عن بقیۃ فی ہذہ الحدیث عن محمد بن راشد عن الحسن ، ومحمد بن راشد أیضا عن الحسن مجہول ۔
”اس روایت میں موجود محمدالخزاعی ، بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے، اس سند میں محمد بن راشد عن الحسن بھی بیان کیا جاتا ہے اور حسن بصری سے بیان کرنے والا محمد بن راشد بھی مجہول ہے۔”(الکامل: ٣/١٦٦۔١٦٧)
حافظ ابن حجر (لسان المیزان: ٥/١٦٣)اور حافظ ذہبی (میزان الاعتدال : ٣/٥٤٤، المغنی : ٢/٢٩٧)نے اسی کواختیار کیاہے۔
جناب ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں : ابن راشد ہذا وثقہ ابن حنبل وابن معین۔۔۔۔(الجوہرالنقی: ١/١٤٦)
ہم کہتے ہیں کہ جناب ابن ترکمانی حنفی صاحب شدید وہم و اختلاط کا شکار ہو گئے ہیں ، محمد الخزاعی” مجہول ”کو محمد بن راشد المکحولی سمجھ بیٹھے ہیں ، ایک ”ثقہ ”راوی کی” توثیق”ایک” مجہول ”پر تھوپ دی ہے، ابن ترکمانی کی تقلیدِ ناسدید میں جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی کا اسے محمد بن راشد المکحولی کہہ کر اس روایت کو” حسن”قرار دینا مبنی بر جہالت ہے، کیونکہ محمد بن راشدالمکحولی کے اساتذہ میں کسی محدث نے بھی حسن بصری کو ذکر نہیں کیا، نہ ہی حسن بصری کے شاگردوں میں ان کا نام موجود ہے ، اس لیے حافظ ذہبی نے لکھا ہے:
محمد بن راشد عن الحسن نکرۃ ۔ ”حسن بصری سے بیان کرنے والا محمد بن راشد مجہول ہے۔”
(المغنی : ٢/٢٩٧، میزان الاعتدال: ٣/٥٤٤)
ثابت ہوا کہ اس روایت میں محمد الخزاعی سے مراد محمد بن راشد المکحولی نہیں ، بلکہ اور کوئی ہے، جس کے حالات نہیں مل سکے۔ہماری بات کی تصدیق کے لیے صرف محمد بن راشد المکحولی کا حسن بصری سے سماع نہ ملنا ہی کافی تھا ، محدثین کی تصریح مزید سونے پر سہاگہ ہے ۔
دلیل نمبر ٦: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا قہقہ أعاد الوضوء والصلاۃ ۔” جب کوئی (نماز میں )قہقہہ لگائے ،وہ وضو اور نماز کا اعادہ کرے۔”
(الکامل لابن عدی: ٣/١٦٧)
تبصرہ: یہ سند” موضوع”(من گھڑت )ہے۔کیونکہ :
١۔۔۔۔۔۔اس میں عمرو بن عبید راوی” متروک و کذاب” اور ”داعی الی البدعہ ”ہے ، یونس بن عبید کہتے ہیں :
کان عمرو بن عبید یکذب فی الحدیث ۔یعنی :” عمرو بن عبید حدیث میں جھوٹ بولتاتھا۔”
(الجرح والتعدیل:٦/٢٤٦)
ابو حاتم کہتے ہیں کہ ”متروک الحدیث ” ہے ۔(الجرح والتعدیل : ٦/٢٤٧)
حمیدکہتے ہیں : لا تاخذ عن ہذا شیأا ، فانہ یکذب علی الحسن ۔
”اس سے کچھ روایت نہ کرو ، کیونکہ یہ حسن بصر ی پر جھوٹ باندھتاہے۔”(الجرح والتعدیل :٦/٢٤٦، وسندہ حسن)
عمرو بن علی کہتے ہیں : کان متروک الحدیث، صاحب بدعۃ ۔(الجرح والتعدیل : ٦/٢٤٧، وسندہ صحیح)
نعیم بن حمادکہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا کہ محدثین کرام نے عمر و بن عبید کو کس بنا پر ”متروک ” قرار دیا ہے ،؟فرمایا ، یہ بدعت کا داعی ہے ۔(الجرح والتعدیل: ٦/٢٤٧، وسندہ حسن )
٢۔۔۔۔۔۔اس کا دوسرا راوی عمر بن قیس المکی بھی ”متروک ” ہے ۔
٣۔۔۔۔۔۔اس میں حسن بصری کی ”تدلیس ” بھی ہے۔
دلیل نمبر ٧: عامر شعبی کہتے ہیں :”یہ قہقہہ فتنہ ہے، ایسا انسان وضو اور نماز کا اعادہ کرے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: ١/٣٨٨)
تبصرہ: اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس میں اشعث بن سوارنامی راوی ”ضعیف” ہے۔(تقریب التہذیب:٥٢٧)
امام ِ مسلم نے اس سے متابعت میں روایت لی ہے،اس میں ابو خالد الاحمر ”مدلس”بھی موجود ہے۔
دلیل نبمر ٨: ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب آدمی نماز میں ہنس پڑے تو وہ وضو اور نماز دونوں کا اعادہ کرے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: ١/٢٨٨)
تبصرہ: اس میں مغیرہ نامی راوی کا تعین مطلوب ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے، نہ قرآن ہے، نہ حدیث ہے ، نہ اجماعِ امت ہے، آلِ تقلیدامام ابراہیم نخعی کے مقلد یا امام ِ ابو حنیفہ کے ۔
لہٰذا یہ کہناکہ نماز میںہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے ، باطل ، بلکہ ابطل الاباطیل ہے ، ایک باوضو انسان کا وضو اس وقت ٹوٹے گا ، جب سنت یا اجماع سے دلیل قائم ہو جائے گی ۔
ہنسنا یا قہقہہ لگانا ان چیزوں میں سے نہیں ، جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، مثلا ، چھوٹی یا بڑی قضائے حاجت ، نیند ، ریح وغیرہ ، ان چیزوں کے نماز کے اندر واقع ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نماز کے باہر بھی ، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے اندر ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، ان کے نزدیک نماز کے علاوہ ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، یہ عجیب منطق ہے!
آلِ تقلید یہ کہتے ہیں کہ اگر حالت ِ نماز میں ہوا خارج ہو گئی تو وضو ٹوٹ جائے گا ، نمازی دوبارہ وضو کرے ، جو نماز پڑھ چکا ہو ، اس پر بنیاد کرتے ہوئے باقی ادا کر لے، اگر درمیان میں کلام نہیںکی تو نماز فاسد نہیں ہوگی ، اگر کلام کر لی تو نماز فاسد ہو جائے گی ، ازسرِنو نماز ادا کرنا ضروری ہوگا، وہی کہتے ہیں کہ اگر دوران نماز ہنسی آ جائے تو وضو اور نماز دونوں کا اعادہ ضروری ہو گا، معلوم ہو ا کہ ان کے نزدیک نماز میں ہنسنا ہوا خارج کرنے سے بھی بڑا کا م ہے۔
جناب عبدالشکور لکھنوی فاروقی دیوبندی لکھتے ہیں :
”نابالغ کے قہقہے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، اگرچہ نماز میں ہی ہو۔”(علم الفقہ از لکھنوی:٩٦)
نیز لکھتے ہیں:
”جنازہ کی نماز اور تلاوت کے سجدہ میں قہقہہ لگانے سے وضو نہیں جاتا، بالغ ہویا نابالغ۔”(علم الفقہ: ٩٦)
جبکہ یہ فرق شریعت ِ مطہرہ سے ثابت نہیں ، محض ان کے منہ کی باتیں ہیں ۔دیکھیں کہ یہ لوگ کس طرح اسلام کے نظام ِ نظافت و طہارت کا سنگین مذاق اڑاتے ہیں !
یاد رہے کہ وضو ایمان میں داخل ہے ، یہ بات بھی واضح ہو کہ لکھنوی صاحب نے اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ہر مسئلہ میں وہی قول لکھا جائے گا ،جس پر فتویٰ ہے۔”(علم الفقہ: ١٥)
تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے اتنی دیر بیٹھا ، جتنی دیر میں تشہد پڑھا جاسکتا ہے، پھر جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے یا قہقہہ لگا دے یا ہنس دے یا نماز کے منافی کوئی کام کر دے تو نماز مکمل ہو گئی ۔فیاللعجب!
اس سے بڑھ کر حیرانی اس بات پر ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز میں ہنسنے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں ، ان کے نزدیک اگر نماز میں کسی پر تہمت لگائی یا فحش کلام کر دی تو وضو نہیں ٹوٹے گا ، مطلب صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک نماز میں ہنسنا کسی پر تہمت لگانے سے بھی بڑ اجرم ہے۔
اس پر ایک مناظرہ کی روئیداد ملاحظہ فرمائیں :
البویطی یقول : سمعت الشافعی یقول : قال لی الربیع : أنا أشتہی أن أسمع مناظرتک و اللؤلوی ، قال: فقلت لہ : لیس ہناک ، قال: فقال: أنا أشتہی ذلک ، قال : فقلت : متی شئت ، قال : فأرسل الی فحضرنی رجل ممن کان یقول بقولہم ، ثم رجع الی قولی ، فاستتبتہ وأرسل الی اللؤلوی ، فجاء ، فأتینا بطعام ، فأکلنا ولم یأکل اللؤلوی ، فلما غسلنا أیدینا قال لہ الرجل الذی کان معی : ما تقول فی الرجل قذف محصنۃ فی الصلاۃ ؟ قال : بطلت صلاتہ ، قال: فما حال الطہارۃ ؟ قال : بحالہا ، قال : فقال لہ : فما تقول فی من ضحک فی الصلاۃ ؟ قال : بطلت صلاتہ و طہارتہ ، قال : فقلت : قذف المحصنات فی الصلاۃ أیسر من الضحک فی الصلاۃ ؟ قال : فأخذ اللؤلوی نعلہ وقام ، قال : فقلت للفضل : قد قلت لک : انہ لیس ہناک۔
”بویطی کہتے ہیں کہ میں نے امام (محمدبن ادریس)الشافعی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے فضل بن ربیع(یہ امیر المومنین ہارون الرشید کے دربان تھے)نے کہا ، میں آپ کے اور (حسن بن زیاد)اللولوی (کذاب حنفی فقیہ)کے مابین مناظرہ سننا چاہتا ہوں ، میں نے کہا ، وہ اس قابل نہیں ، اس نے کہا کہ میں کرانا چاہتا ہوں ، امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ، آپ کب مناظرہ کرانا چاہتے ہیں ؟پھر اس (فضل بن ربیع)نے (مناظرے کے لیے)مجھے بلوالیا ، اسی اثنا میں ایک آدمی میرے پاس آیا جو پہلے اللولوی کا معتقد تھا ، بعد میں اس نے میر ا مسلک اختیار کر لیا تھا ، میں نے اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا ، اس(فضل بن ربیع)نے اللولوی کو بھی بلایا ، وہ آگیا، ہمارا کھانا لایا گیا، ہم سب نے کھانا کھایا، لیکن اللولوی نے نہیں کھایا، جب ہم ہاتھ دھو رہے تھے تو میرے ایک ساتھی نے اللولوی سے پوچھا کہ آپ ایسے انسان کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، جو نماز میں کسی پاک دامن عورت پرزنا کی تہمت لگائے؟اس نے کہا ، اس کی نماز باطل ہے ، اس نے پھر پوچھا کہ اس کے وضو کاکیا بنے گا؟اللولوی نے کہا کہ وہ برقرار رہے گا، اس نے اللولوی سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، جو نماز میں ہنس پڑے؟اس نے جواب دیا کہ اس کا وضواور نماز دونوں باطل ہیں ، اس نے کہا کہ میں نے اللولوی سے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک نماز میں پاک دامن عورت پر زناو بدکاری کی تہمت لگانا ، نماز میں ہنسنے کے مقابلے میں چھوٹا جرم ہے(کہ وہاں صرف نماز ٹوٹی اور یہاں وضو اورنماز دونوں )؟اس پر اللولوی نے جوتے پکڑے اور بھاگ گیا ، امام ِ شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے فضل بن ربیع کو کہا کہ میں نے تو آپ کو پہلے بتایا تھا کہ یہ مناظر ہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔”(الکامل لابن عدی: ٢/٣١٩، وسندہ حسن)
اس مناظرہ کے راوی ابو جعفر محمد بن زاہرالنسائی کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
لم یکن بہ بأس۔(الجرح والتعدیل: ٧/٢٦٠)
قارئین!اب آپ خود فیصلہ کریں کہ دین و ایمان کے خلاف ایسے مضحکہ خیزاور سنسنی خیز مسائل بیان کرنے والے دین کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں ؟شریعت کی اس مخالفت کو آپ کیا نام دیں گے؟
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.