1,171

نماز فجر اور عصر کے بعد مصافحہ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا} (المائدۃ 5 : 3)
’’آج کے دِن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور ِدین پسند کر لیا ہے۔‘‘
یہ عظیم المرتبت آیت ِکریمہ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔اس میں دینِ اسلام کے کامل و تمام ہونے کا مژدۂ جاں فزا سنایا گیا ہے۔اس دن کے بعد دینِ اسلام میں کوئی بھی اضافہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں،بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔
بعض لوگ زبانِ قال سے تو تکمیل دین کے اقراری ہیں،لیکن زبانِ حال سے یہی باور کراتے ہیں کہ دین مکمل نہیں ہے،اسی لیے وہ دینِ محمدی میں اضافے کرتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی تو قرآن و حدیث کا من پسند مفہوم متعین کر کے اپنے بدعتی مذہب کو سہارا دیتے ہیں،کبھی بدعات کو ’’حسنہ‘‘کا نام دے کر سند ِجواز فراہم کرتے ہیں،کبھی یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہماری بدعات قرآن و حدیث کی کسی دلیل کے خلاف نہیں اور کبھی یہ رَٹ لگا رہے ہوتے ہیں کہ اگر ہماری ایجاد کردہ بدعت شریعت سے ثابت نہیں،تو اس کے خلاف بھی نہیں۔ یوں وہ اپنے دامن کو بدعات و مکروہات سے لبریز کر لیتے ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں امامِ حرمین،فقیہِ مدینہ،مالک بن انس رحمہ اللہ (179-93ھ) فرماتے ہیں :
مَنْ أَحْدَثَ فِي ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ الْیَوْمَ شَیْئًا لَّمْ یَکُنْ عَلَیْہِ سَلَفُہَا؛ فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَانَ الرِّسَالَۃَ، لِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُولُ {۔۔۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔}(المائدۃ 5 : 3)، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَّوْمَئِذٍ دِینًا؛ لَا یَکُونُ الْیَوْمَ دِینًا ۔
’’امت ِمحمدیہ میں سے جو شخص آج کے دِن کوئی نیا کام ایجاد کرے،جس پر اس امت کے اسلاف نے عمل نہیں کیا،تو اس نے یہ سمجھ لیا کہ (معاذ اللہ!)رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت سے کام لیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے : {۔۔۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔۔۔}(المائدۃ 5 : 3)(آج کے دِن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور ِدین پسند کر لیا ہے۔)جو چیز اُس دن دین نہیں تھی،وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔‘‘
(الإحکام في أصول الأحکام لابن حزم : 85/6، وسندہٗ حسنٌ)
علامہ،ابراہیم بن موسیٰ،شاطبی رحمہ اللہ (م : 790ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبْتَدِعَ مُعَانِدٌ لِّلشَّرْعِ وَمُشَاقٌّ لَّہٗ؛ لِأَنَّ الشَّارِعَ قَدْ عَیَّنَ لِمَطَالِبِ الْعَبْدِ طُرُقًا خَاصَّۃً، عَلٰی وُجُوہٍ خَاصَّۃٍ، وَقَصَرَ الْخَلْقَ عَلَیْہَا بِالْـأَمْرِ وَالنَّہْيِ، وَالْوَعْدِ وَالْوَعِیدِ، وَأَخْبَرَ أَنَّ الْخَیْرَ فِیہَا، وَأَنَّ الشَّرَّ فِي تعدِّیہا، إِلٰی غَیْرِہَا؛ لِأَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ، وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ، وَأَنَّہٗ إِنَّمَا أَرْسَلَ الرَّسُولَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِینَ، فَالْمُبْتَدِعُ رَادٌّ لِّہٰذَا کُلِّہٖ، فَإِنَّہٗ یَزْعُمُ أَنَّ ثَمَّ طُرُقًا أُخَرَ، لَیْسَ مَا حَصَرَہُ الشَّارِعُ بِمَحْصُورٍ، وَلَا مَا عَیَّنَہٗ بِمُتَعَیِّنٍ، وَأَنَّ الشَّارِعَ یَعْلَمُ وَنَحْنُ أَیْضًا نَّعْلَمُ، بَلْ رُبَّمَا یَفْہَمُ مِنِ اسْتِدْرَاکِہِ الطُّرُقَ عَلَی الشَّارِعِ، أَنَّہٗ عَلِمَ مَا لَمْ یَعْلَمْہُ الشَّارِعُ، وَہٰذَا إِنْ کَانَ مَقْصُودًا لِّلْمُبْتَدِعِ، فَہُوَ کُفْرٌ بِالشَّرِیعَۃِ وَالشَّارِعِ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ مَقْصُودٍ، فَہُوَ ضَلَالٌ مُبِینٌ ۔
’’بدعتی شخص شریعت کا معاند و مخالف ہوتا ہے،کیونکہ شارع نے بندوں کے مفاد میں(عبادات کے)کچھ خاص طریقے اور خاص انداز مقرر کیے ہیں۔پھر امر و نہی اور وعد و وعید کے ذریعے مخلوق کو ان کا پابند بنایا اور یہ بتا دیا کہ ساری کی ساری بھلائی انہی طریقوں میں ہے ،جبکہ ساری خرابی ان طریقوں سے تجاوز کرنے میں ہے،کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے ،ہم نہیں جانتے،نیز اس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا ہے کہ ان کے ذریعے وہ جہانوں پر رحمت کرے۔لیکن بدعتی لوگ ان ساری باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت کے کچھ اور طریقے بھی ہیں،شارع نے کوئی طریقہ خاص و متعین نہیں کیا۔ان کے خیال میں شارع بھی جانتا ہے اور وہ بھی جانتے ہیں۔بلکہ بسااوقات تو وہ اپنی طرف سے عبادت کے طریقے ایجاد کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں،شارع نہیں جانتا۔اگر بدعتی کا یہ اعتقاد ہو، تو شریعت و شارع کے ساتھ کفر ہے اور اگر یہ اعتقاد نہ ہو،تو بھی بدعت ایجاد کرنا واضح گمراہی ہے۔‘‘(الاعتصام : 65/1، بتحقیق سلیم الہلالي)
بدعات کے سلسلے کی ایک کڑی نماز ِعصر اور نماز ِفجر کے بعد مصافحہ کرنا ہے۔اگرچہ مصافحہ سنت ِنبوی اور نیکی کا کام ہے،لیکن اس کو بعض نمازوں کے ساتھ خاص کرنا بدعت ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ایسا قطعاً ثابت نہیں۔یہ بدعت ِسیئہ اور باطل عمل ہے۔اگر یہ کارِ خیر ہوتا،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ضرور اس کی تعلیم دیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
’إِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَّبِيٌّ قَبْلِي؛ إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَیْہِ أَنْ یَّدُلَّ أُمَّتَہٗ عَلٰی خَیْرِ مَا یَعْلَمُہٗ لَہُمْ، وَیُنْذِرَہُمْ شَرَّ مَا یَعْلَمُہٗ لَہُمْ‘ ۔
’’مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں،ان پر یہ فرض تھا کہ جس چیز کو اپنی امت کے لیے بہتر جانتے،اس کی طرف ان کی راہ نمائی کرتے اور جس چیز کو ان کے لیے برا جانتے،اس سے انہیں ڈراتے۔‘‘(صحیح مسلم : 1844)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہر خیروشر کے بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیا ہے، لیکن بدعتی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی گئی نیکی پر اکتفا نہیں کرتے،بلکہ اپنی طرف سے تقربِ الٰہی کے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔
علامہ،عبد الرحمن بن احمد،ابن رجب،حنبلی رحمہ اللہ (795-736ھ)فرماتے ہیں :
فَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَی اللّٰہِ بِعَمَلٍ لَّمْ یَجْعَلْہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ قُرْبَۃً إِلَی اللّٰہِ؛ فَعَمَلُہٗ بَاطِلٌ مَّرْدُودٌ ۔
’’جو شخص کسی ایسے عمل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، جسے اللہ و رسول نے تقربِ الٰہی کا ذریعہ نہیں بنایا، تو اس کا یہ عمل مردود و باطل ہے۔‘‘(جامع العلوم والحکم : 178/1)
اہل علم نے مخصوص نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے کو بدعت ہی قرار دیا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس کے جواز کی طرف رجحان کیا،تو اہل علم نے ان کی اس بات کا سختی سے ردّ فرمایا، جیسا کہ :
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-771ھ)فرماتے ہیں :
قَالَ النَّوَوِيُّ : وَأَصْلُ الْمُصَافَحَۃِ سُنَّۃٌ، وَکَوْنُہُمْ حَافَظُوا عَلَیْہَا فِي بَعْضِ الْـأَحْوَالِ لَا یُخْرِجُ ذٰلِکَ عَن أَصْلِ السُّنَّۃِ، قُلْتُ : وَلِلنَّظَرِ فِیہِ مَجَالٌ، فَإِنَّ أَصْلَ صَلَاۃِ النَّافِلَۃِ سُنَّۃٌ مُرَغَّبٌ فِیہَا، وَمَعَ ذٰلِکَ فَقَدَ کَرِہَ الْمُحَقِّقُونَ تَخْصِیصَ وَقْتٍ بِہَا دُونَ وَقْتٍ، وَمِنْہُمْ مَّنْ أَطْلَقَ تَحْرِیمَ مِثْلِ ذٰلِکَ، کَصَلَاۃِ الرَّغَائِبِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَہَا ۔
’’علامہ نووی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مصافحہ کی بنیاد سنت پر ہے اور بعض لوگوں کا بعض اوقات میں اس کی پابندی کرنا اس کو سنت سے خارج نہیں کرتا۔میں (ابن حجر)کہتا ہوں کہ یہ بات محل نظر ہے،کیونکہ نفل نماز اصل میں سنت سے ثابت اور مؤکدہ ہے،لیکن اس کے باوجود محققین اہل علم نے اسے کسی وقت کے ساتھ خاص کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے،بلکہ بعض نے تو ایسی صورت کو حرام بھی قرار دیا ہے۔اس کی ایک مثال بے اصل نماز ’صلاۃ الرغائب‘ہے۔‘‘
(فتح الباري : 55/11)
b ملا علی قاری بن سلطان محمد،حنفی،ماتریدی(م : 1014ھ)لکھتے ہیں :
وَلَا یَخْفٰی أَنَّ فِي کَلَامِ الْإِمَامِ نَوْعُ تَنَاقُضٍ، لِأَنَّ إِتْیَانَ السُّنَّۃِ فِي بَعْضِ الْـأَوْقَاتِ لَا یُسَمّٰی بِدَعَۃً، مَعَ أَنَّ عَمَلَ النَّاسِ فِي الْوَقْتَیْنِ الْمَذْکُورَیْنِ لَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الِاسْتِحْبَابِ الْمَشْرُوعِ، فَإِنَّ مَحَلَّ الْمُصَافَحَۃِ الْمَشْرُوعَۃِ أَوَّلُ الْمُلَاقَاۃِ، وَقَدْ یَکُونُ جَمَاعَۃٌ یَّتَلَاقَوْنَ مِنْ غَیْرِ مُصَافِحَۃٍ، وَیَتَصَاحَبُونَ بِالْکَلَامِ وَمُذَاکِرَۃِ الْعِلْمِ وَغَیْرِہٖ مُدَّۃً مَّدِیدَۃً، ثُمَّ إِذَا صَلَّوْا یَتَصَافَحُونَ، فَأَیْنَ ہٰذَا مِنَ السُّنَّۃِ الْمَشْرُوعَۃِ؟ وَلِہٰذَا صَرَّحَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا بِأَنَّہَا مَکْرُوہَۃٌ حِینَئِذٍ، وَأَنَّہَا مِنَ الْبِدَعِ الْمَذْمُومَۃِ، نَعَمْ، لَوْ دَخَلَ أَحَدٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاۃِ، أَوْ عَلٰی إِرَادَۃِ الشُّرُوعِ فِیہَا، فَبَعْدَ الْفَرَاغِ لَوْ صَافَحَہُمْ، لَکِنْ بِشَرْطِ سَبْقِ السَّلَامِ عَلَی الْمُصَافَحَۃِ، فَہٰذَا مِنْ جُمْلَۃِ الْمُصَافَحَۃِ الْمَسْنُونَۃِ بِلَا شُبْہَۃٍ ۔
’’علامہ نووی رحمہ اللہ کے کلام میں واضح طور پر کچھ تناقض ہے۔کسی سنت پر بعض اوقات عمل کرنا تو بدعت نہیں ،نیز مذکورہ دونوں اوقات (فجروعصر کی نماز کے بعد)میں لوگوں کا مصافحہ کرنا مستحب و مشروع طور پر نہیں ہوتا،لیکن جو مصافحہ شریعت سے ثابت ہے،اس کا محل آغاز ِملاقات ہے۔یہاں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ آپس میں بغیر مصافحہ کے ملتے ہیں،بہت دیر تک باہم بات چیت بھی کرتے ہیں اور ان کے مابین علمی مذاکرہ وغیرہ بھی ہوتا ہے،پھر جب وہ نماز پڑھتے ہیں، تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے لگتے ہیں۔اس طرزِعمل کا مسنون طریقے سے کیا تعلق ہے؟اسی لیے ہمارے بعض علمائِ کرام نے اس صورت میں مصافحہ کو مکروہ اور بدعت ِمذمومہ قرار دیا ہے۔ہاں، اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد کے اندر داخل ہوا،جب لوگوں نے نماز شروع کر رکھی تھی یا وہ نماز شروع کرنے والے تھے،تو نماز سے فارغ ہو کر ان سے مصافحہ کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ پہلے سلام کہے،پھر مصافحہ کرے۔یہ طریقہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 458/8)
نیز اہل علم نے اس مصافحہ کو بدعت قرار دیا ہے،جیسا کہ :
b علامہ،عزالدین ،عبد السلام ،مقدسی رحمہ اللہ (م : 678ھ)فرماتے ہیں :
اَلْمُصَافَحَۃُ عَقِیبَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ مِنَ الْبِدَعِ، إِلَّا الْقَادِمَ لَمْ یَجْتَمِعْ بِمَنْ یُّصَافِحُہٗ قَبْلَ الصَّلَاۃِ؛ فَإِنَّ الْمُصَافَحَۃَ مَشْرُوعَۃٌ عِنْدَ الْقُدُومِ ۔
’’نماز فجر وعصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعت ہے۔سوائے اس شخص کے جو ایسے وقت میں آئے کہ جس سے مصافحہ کر رہا ہے، نماز سے پہلے اس سے مل نہ سکا ہو، کیونکہ آتے وقت مصافحہ کرنا مشروع ہے۔‘‘(فتاوی العزّ عبد السلام، ص : 389)
b شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ) سے جب پوچھا گیا کہ نماز کے بعد مصافحہ سنت ہے یا نہیں،تو آپ رحمہ اللہ نے یہ جواب دیا :
اَلْمُصَافَحَۃُ عَقِیبَ الصَّلَاۃِ لَیْسَتْ مَسْنُونَۃً، بَلْ ہِيَ بِدْعَۃٌ ۔
’’نماز کے بعد مصافحہ مسنون نہیں،بلکہ یہ تو بدعت ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 339/23)
b علامہ ادریس بن بیکدن بن عبداللہ ترکمانی(م : 800ھ)لکھتے ہیں :
وَأَمَّا الْمُصَافَحَۃُ فِي الصَّلَاتَیْنِ؛ بَعْدَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ وَبَعْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَبِدْعَۃٌ مِّنَ الْبِدَعِ الَّتِي ۔۔۔ لَا أَصْلَ لَہَا فِي الشَّرْعِ، وَاخْتَارَ بَعْضُ الْعُلَمَائِ تَرْکَہَا، لِأَنَّہَا زِیَادَۃٌ فِي الدِّینِ ۔
’’عصر و فجر کی دونوں نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا ان بدعات میں سے ہے جن کی ۔۔۔شریعت میں کوئی دلیل موجود نہیں۔بعض علمائِ کرام نے اسے ترک کرنا ہی پسند کیا ہے،کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے۔‘‘
(اللمع في الحوادث والبدع : 283/1)
b علامہ محمد بن محمد،ابن الحاج رحمہ اللہ (م : 737ھ)فرماتے ہیں :
وَیَنْبَغِي لَہٗ أَنْ یَّمْنَعَ مَا أَحْدَثُوہُ مِنَ الْمُصَافَحَۃِ بَعْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَبَعْدَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ وَبَعْدَ صَلَاۃِ الْجُمُعَۃِ، بَلْ زَادَ بَعْضُہُمْ فِي ہٰذَا الْوَقْتِ فِعْلَ ذٰلِکَ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَذٰلِکَ کُلُّہٗ مِنَ الْبِدَعِ، وَمَوْضِعُ الْمُصَافَحَۃِ فِي الشَّرْعِ إِنَّمَا ہُوَ عِنْدَ لِقَائِ الْمُسْلِمِ لِأَخِیہِ، لَا فِي أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَذٰلِکَ کُلُّہٗ مِنَ الْبِدَعِ، فَحَیْثُ وَضَعَہَا الشَّرْعُ نَضَعُہَا، فَیُنْہٰی عَنْ ذٰلِکَ، وَیُزْجَرُ فَاعِلُہٗ، لِمَا أَتٰی مِنْ خِلَاف السُّنَّۃِ ۔
’’نمازی کو چاہیے کہ وہ نماز ِفجر و عصر اور جمعہ کے بعد اس مصافحہ سے باز رہے،جسے لوگوں نے دین میں اضافہ کر کے رواج دیا ہے۔بعض لوگوں نے تو اس میں اور اضافہ کیا اور پانچوں نمازوں کے بعد ایسا کرنے لگے ہیں۔یہ سب بدعات ہیں۔شریعت میں مصافحہ کا وقت مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے ملنا ہے،نہ کہ پانچوں نمازوں کے بعد۔اس طرح کے سارے کام بدعت ہیں۔شریعت نے جس کام کو جیسے رکھا ہے،ہم ویسے ہی رکھیں گے۔ اس کام سے روکا جائے اور ایسا کرنے والے کو ڈانٹا جائے،کیونکہ اس نے خلاف ِسنت فعل کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘(المدخل : 223/2)
b علامہ ابن عابدین،شامی،حنفی(1252-1198ھ)لکھتے ہیں :
تُکْرَہُ الْمُصَافَحَۃُ بَعْدَ أَدَائِ الصَّلَاۃِ بِکُلِّ حَالٍ، لِأَنَّ الصَّحَابَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَّا صَافَحُوا بَعْدَ أَدَائِ الصَّلَاۃِ، وَلِأَنَّہَا مِنْ سُنَنِ الرَّوَافِضِ ۔
’’نماز ادا کرنے کے بعد مصافحہ کرنا بہر صورت مکروہ ہے،کیونکہ صحابہ کرامy نے کبھی نماز کی ادائیگی کے بعد مصافحہ نہیں کیا،نیز یہ رافضیوں کا طریقہ ہے۔‘‘
(ردّ المحتار علی الدرّ المختار، المعروف بہ فتاویٰ شامی : 381/6)
b علامہ،عبد الحی،لکھنوی،حنفی(1304-1264ھ)اس کے بدعت ہونے کو یوں بیان کرتے ہیں :
قَدْ شَاعَ فِي عَصْرِنَا ہٰذَا فِي أَکْثَرِ الْبِلَادِ، وَخُصُوصًا فِي بِلَادِ الدَّکَّنِ، الَّتِي ہِيَ مَنْبَعُ الْبِدَعِ وَالْفِتَنِ، أَمْرَانِ یَنْبَغِي تَرْکُہُمَا؛ أَحَدُہُمَا أَنَّہُمْ لَا یُسَلِّمُونَ عِنْدَ دُخُولِ الْمَسْجِدِ، وَقْتَ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، بَلْ یَدْخُلُونَ وَیُصَلُّونَ السُّنَّۃَ، ثُمَّ یُصَلُّونَ الْفَرْضَ، وَیُسَلِّمُونَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْہُ، وَمِنْ تَوَابِعِہٖ، وَہٰذَا أَمْرٌ قَبِیحٌ، فَإِنَّ السَّلَامَ إِنَّمَا ہُوَ سُنَّۃٌ عِنْدَ الْمُلَاقَاۃِ، کَمَا ثَبَتَ ذٰلِکَ فِي الْـأَخْبَارِ، لَا فِي أَثْنَائِ الْمُجَالَسَۃِ، وَثَانِیہِمَا أَنَّہُمْ یُصَافِحُونَ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَالْعَصْرِ، وَصَلَاۃِ الْعِیدَیْنِ وَالْجُمُعَۃِ، مَعَ أَنَّ مَشْرُوعِیَّۃَ الْمُصَافَحَۃِ أَیْضًا، إِنَّمَا ہِيَ عِنْدَ أَوَّلِ الْمُلَاقَاۃِ ۔
’’ہمارے موجودہ زمانے میں اکثر علاقوں،خصوصاً دکن کے علاقوں،جو بدعتوں اور فتنوں کا گڑھ ہیں،میں دو کام رواج پا گئے ہیں،جن کو ترک کرنا ضروری ہے۔ایک تو یہ کہ لوگ نماز ِفجر کے وقت مسجد میں داخل ہوتے ہوئے سلام نہیں کہتے،بلکہ داخل ہو کر سنتیں ادا کرتے ہیں،پھر فرض ادا کرنے اور اذکار کرنے کے بعد ایک دوسرے کو سلام کہتے ہیں۔یہ ایک قبیح امر ہے،کیونکہ سلام کہنا تو ملاقات کے وقت سنت ہے،جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، نہ کہ مجلس کے دوران۔دوسرے یہ کہ وہ نماز ِفجر و عصر ،عیدین اور جمعہ کے بعد مصافحہ کرتے ہیں،حالانکہ مصافحہ بھی ملاقات کے شروع ہی میں سنت ہے۔‘‘
(السعایۃ في الکشف عمّا في شرح الوقایۃ، ص : 264)
الحاصل :
نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا بدعت ہے،شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بدعات سے محفوظ فرمائے اور سنت ِرسول کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.