967

قبر رسول سے اذان، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

بعض لوگ یہ بیان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ سانحۂ حرہ(63ھ)کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے اذان سنائی دیتی رہی۔کسی بھی واقعے،حادثے یا سانحے کی صحت و سقم کا پتہ اس کی سند سے لگایا جا سکتا ہے۔محدثین کرام رحمہم اللہ پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے،انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں سند کی پرکھ کے لیے مبنی بر انصاف قوانین وضع کیے،پھر راویانِ اسانید کے کوائف بھی سپرد کتب کر دئیے۔ذخیرۂ روایات کی جانچ کا یہ انداز اسلامی ورثے کا امتیازی پہلو ہے۔دیگر مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
کتب ِحدیث ہوں یا سیرت و تاریخ،اہل علم ان میں اپنی سندیں ذکر کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں،اب یہ بعد والوں پر ہے کہ وہ ان اصول و قوانین اور راویوں کے کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت و سقم کا لحاظ کریں یا اپنے مفاد میں ملنے والی ہر روایت کو اندھا دھند پیش کرتے جائیں۔
ذیل میں سانحۂ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کے بارے میں ملنے والی روایت اپنی تمام تر سندوں اور ان پر تبصرے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔فیصلہ خود فرمائیں!
1 سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ (م : 90ھ)بیان کرتے ہیں:
لَمَّا کَانَ أَیَّامُ الْحَرَّۃِ لَمْ یُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، وَلَمْ یُقَمْ، وَلَمْ یَبْرَحْ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ الْمَسْجِدَ، وَکَانَ لَا یَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاۃِ، إِلَّا بِہَمْہَمَۃٍ، یَسْمَعُہَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سانحۂ حرہ کے دوران تین دن تک مسجد ِنبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ مسجد ِنبوی ہی میں مقیم تھے۔انہیں نماز کا وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے سنائی دینے والی آواز ہی سے ہوتا تھا۔‘‘(مسند الدارمي : 44/1)
تبصرہ : اس کی سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔سانحۂ حرہ اسے بیان کرنے والے راوی سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے رونما ہو چکا تھا۔پھر سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔حرہ کا واقعہ 63ہجری میں رونما ہوا اور امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ 94ہجری میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی پیدائش90ہجری کو ہوئی۔
پھر امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ مدینہ منورہ میں فوت ہوئے،جبکہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ شام میں پیدا ہوئے۔اب کیسے ممکن ہے کہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے یہ روایت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے خود سنی ہو؟انہیں کس شخص نے یہ بات بیان کی،معلوم نہیں۔لہٰذا یہ روایت ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
2 امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : حَدَّثَنِي طَلْحَۃُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ : کَانَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ أَیَّامَ الْحَرَّۃِ فِي الْمَسْجِدِ،۔۔۔، قَالَ : فَکُنْتُ إِذَا حَانَتِ الصَّلاۃُ أَسْمَعُ أَذَانًا یَّخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْقَبْرِ، حَتّٰی أَمِنَ النَّاسُ ۔
’’امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سانحۂ حرہ کے دنوں میں مسجد ِنبوی ہی میں مقیم تھے۔۔۔وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی اذان کا وقت ہوتا،میں قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتا۔جب تک امن نہ ہوگیا،یہ معاملہ جاری رہا۔‘‘(الطبقات الکبرٰی : 132/5)
تبصرہ : یہ من گھڑت قصہ ہے،کیونکہ اس کی سند میں :
1 محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ہے۔
2 دوسرا راوی طلحہ بن محمد بن سعید ’’مجہول‘‘ہے۔
اس کے بارے میں امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لَا أَعْرِفُ ۔
’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 486/4)
3 تیسرے راوی محمد بن سعید بن مسیب کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’مقبول‘‘ (مجہول الحال)قرار دیا ہے۔(تقریب التہذیب : 5913)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب [الثقات(421/7)]میں ذکر کیا ہے،کسی معتبر امام نے اس کی توثیق نہیں کی۔
3 [الطبقات الکبری لابن سعد(131/5)]،[تاریخ ابن ابی خیثمہ(2011)]، [دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی(510)]اور [مثیر العزم الساکن لابن الجوزی(476)] میں جو سند مذکور ہے۔اس کا راوی عبد الحمید بن سلیمان مدنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے بارے میں :
b امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لَیْسَ بِشَيْئٍ ۔
’’یہ فضول راوی ہے۔‘‘(تاریخ ابن معین بروایۃ العباس الدوري : 160/3)
b امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(سؤالات ابن أبي شیبۃ لعليّ المدیني : 117)
b امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضَعِیفُ الْحَدِیثِ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 14/6)
b امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لَیْسَ بِقَوِيٍّ ۔
’’یہ بالکل بھی مضبوط نہیں۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 14/6)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے [کتاب الضعفاء والمتروکین(351)]میں ذکر فرمایا ہے۔
b امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ نے انہیں ایسے راویوں میں ذکر کیا ہے،جن کی روایت قابل التفات نہیں ہوتی،پھر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی محدثین سے سنا ہے کہ وہ اسے ’’ضعیف‘‘کہتے ہیں۔(المعرفۃ والتاریخ : 150/3)
b امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
(کتاب الضعفاء والمتروکین : 397)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا شَيْئَ ۔
’’یہ کسی کام کا نہیں۔‘‘(الثقات : 5927)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ہی قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب : 3764)
جمہور محدثین کرام کی اس تضعیف کے مقابلے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا [مَا أَرٰی بِہٖ بَأْسًا(العلل : 194)]کہنا اور امام ابن عدی رحمہ اللہ کا [وَہُوَ مِمَّنْ یُّکْتَبُ حَدِیثُہٗ(الکامل : 319/5)] کہنا اس کو ثقہ ثابت نہیں کر سکتا۔
4 حافظ،ابو عبد اللہ، محمد بن محمود،ابن نجار رحمہ اللہ (643-578ھ)نقل کرتے ہیں:
أَنْبَأَنَا ذَاکِرُ بْنُ کَامِلِ بْنِ أَبِي غَالِبٍ الْخَفَّافِ، فِیمَا أُذِنَ لِي فِي رِوَایَتِہٖ عَنْہُ، قَالَ : کَتَبَ إِلَيَّ أُبُو عَلِيٍّ الْحَدَّادِ، عَنْ أَبِي نُعَیمٍ الْـأَصْبَہَانِيِّ، قَالَ : أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصِیرٍ : أَخْبَرَنَا أَبُو یَزِیدٍ الْمَخْزُومِيُّ : أَخْبَرَنَا الزُّبَیْرُ بْنُ بَکَّارٍ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ (بْنِ زَبَالَۃَ) : حَدَّثَنِي غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْہُمْ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّہٗ لَمَّا کَانَ أَیَّامُ الْحَرَّۃِ تُرِکَ الْـأَذَانُ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، وَخَرَجَ النَّاسُ إِلَی الْحَرَّۃِ، وَجَلَسَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : فَاسْتَوْحَشْتُ، فَدَنَوْتُ مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ، سَمِعْتُ الْـأَذَانَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’جن دنوں حادثۂ حرہ رونما ہوا،مسجدنبوی میں تین دن تک اذان نہ ہوئی۔لوگ حرہ کی طرف نکل چکے تھے،لیکن سعید بن مسیب رحمہ اللہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ میں تنہائی میں وحشت محسوس کرنے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب ہو گیا۔جب نماز کا وقت ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے اذان کی آواز سنی۔‘‘
(الدرّۃ الثمینۃ في أخبار المدینۃ، ص : 159)
تبصرہ : یہ سفید جھوٹ ہے۔اس کا راوی محمد بن حسن بن زبالہ مخزومی ’’کذاب‘‘ اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا شیدائی تھا۔
اس کے بارے میں :
1 امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَیْسَ بِثِقَۃٍ، کَانَ یَسْرِقُ الْحَدِیثَ، کَانَ کَذَّابًا، وَلَمْ یَکُنْ بِشَيئٍ ۔
’’یہ قابل اعتماد نہیں تھا،حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا،جھوٹا اور فضول شخص تھا۔‘‘
(تاریخ ابن معین بروایۃ العباس الدوري : 511,510/2)
2 امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَاہِي الْحَدِیثِ، ضَعِیفُ الْحَدِیثِ، مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، عِنْدَہٗ مَنَاکِیرُ، وَلَیْسَ بِمَتْرُوکِ الْحَدِیثِ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث کمزور،ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔اس کے پاس عجیب و غریب قسم کی روایات ہیں،البتہ یہ متروک الحدیث نہیں ۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 228/7)
3 امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ ۔
’’محدثین نے اس کی روایات چھوڑ دی ہیں۔‘‘(کتاب الضعفاء والمتروکین : 535)
4 امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَہُوَ وَاہِي الْحَدِیثِ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل : 228/7)
5 امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔
(سؤالات البرقاني للدارقطني : 427)
6 امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کَانَ یَسْرِقُ الْحَدِیثَ، وَیَرْوِي عَنِ الثِّقَاتِ مَا لَمْ یَسْمَعْ مِنْہُمْ، مِنْ غَیْرِ تَدْلِیسٍ مِّنْہُمْ ۔
’’یہ حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا اور ثقہ راویوں سے بغیر تدلیس کے وہ روایات بیان کرتا تھا،جو اس نے ان سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔‘‘(المجروحین : 275/2)
7 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کَذَّبُوہُ ۔
’’محدثین کے نزدیک یہ شخص جھوٹا تھا۔‘‘(تقریب التہذیب : 8515)
نیز فرماتے ہیں: مُتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ ۔
’’اس کے ضعیف ہونے پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘(فتح الباري : 298/11)
یہ جروح میں لتھڑا ہوا راوی ہے،اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
قبر نبوی سے اذان کی آواز آنے کے بارے میں دنیا جہان میں یہی چار سندیں ہیں،جن کا حال آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے۔دین کی بنیاد سند پر ہے،جب کسی قصے کہانی کی سندیں جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہوں تو اس کو بیان کرنا جھوٹ کو رواج دینے کی کوشش ہے۔ بعض لوگ جھوٹی سندوں پر مبنی روایات سے اپنے عقائد اخذ کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں :
b مشہور فلسفی،جناب ظفر احمد عثمانی،دیوبندی(م : 1369ھ)لکھتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَيٌّ،۔۔۔، وَإِنَّہٗ یُصَلِّي فِي قَبْرِہٖ بِأَذَانٍ وَّإِقَامَۃٍ ۔
’’بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔۔۔،اور آپ اپنی قبر مبارک میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز ادا فرماتے ہیں۔‘‘(فتح الملہم : 419/3)
قبر مبارک میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھنے کا نظریہ قطعی طور پر ثابت نہیں۔ قبر نبوی سے اذان والی روایات کی حقیقت آپ نے ملاحظہ کر ہی لی ہے۔خواہ مخواہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مبالغہ آمیزی پر مبنی عقیدہ گھڑ لیا گیا ہے۔
b دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث،جناب انور شاہ کشمیری،دیوبندی صاحب (1352-1292ھ)کہتے ہیں: إِنَّ کَثِیرًا مِّنَ الْـأَعْمَالِ قَدْ تَثْبُتُ فِي الْقُبُورِ کَأَذَانٍ وَّالْإِقَامَۃِ عِنْدَ الدَّارِمِيِّ، وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ ۔
’’قبروں میں بہت سے اعمال ثابت ہیں،جیسا کہ سنن دارمی میں اذان و اقامت ثابت ہے اور سنن ترمذی میں قرآن کی قراء ت۔‘‘ (فیض الباري : 183/1)
دارمی والی روایت کی حیثیت تو واضح کی جا چکی ہے،اب ترمذی والی روایت بھی ملاحظہ ہو:
n سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف یہ قول منسوب ہے :
ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِبَائَ ہٗ عَلٰی قَبْرٍ، وَہُوَ لاَ یَحْسِبُ أَنَّہٗ قَبْرٌ، فَإِذَا فِیہِ إِنْسَانٌ یَّقْرَأُ سُورَۃَ {تَبَارَکَ الَّذِي بِیَدِہِ الْمُلْکُ} حَتّٰی خَتَمَہَا، فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! إِنِّي ضَرَبْتُ خِبَائِي عَلٰی قَبْرٍ، وَأَنَا لاَ أَحْسِبُ أَنَّہٗ قَبْرٌ، فَإِذَا فِیہِ إِنْسَانٌ یَّقْرَأُ سُورَۃَ تَبَارَکَ الْمُلْکِ، حَتّٰی خَتَمَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہِيَ الْمَانِعَۃُ، ہِيَ الْمُنْجِیَۃُ، تُنْجِیہِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ ۔
’’ایک صحابی نے انجانے میں کسی قبر پر اپنا خیمہ لگا لیا۔اس میں ایک انسان سورۂ ملک کی قراء ت کر رہا تھا۔اس نے مکمل سورت پڑھی۔صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اللہ کے رسول! میں نے انجانے میں ایک قبر پر اپنا خیمہ لگا لیا تو اس میں ایک انسان سورۂ ملک کی قراء ت کر رہا تھا،اس نے پوری سورت پڑھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سورۂ ملک اپنے پڑھنے والے سے عذاب کو روکتی ہے اور اسے عذاب ِقبر سے نجات دیتی ہے۔‘‘(سنن الترمذي : 2890)
تبصرہ : اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس کا راوی یحییٰ بن عمرو بن مالک نکری’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کَانَ مُنْکَرَ الرِّوَایَۃِ عَنْ أَبِیہِ ۔
’’یہ اپنے والد سے منکر روایات بیان کرتا تھا۔‘‘(المجروحین : 114/3)
مذکورہ بالا روایت بھی یحییٰ بن عمرو اپنے والد ہی سے بیان کر رہا ہے،لہٰذا یہ جرح مفسر ہوئی۔اس راوی کو امام یحییٰ بن معین،امام احمد بن حنبل، امام ابوزرعہ رازی،امام نسائی،امام دارقطنی(کتاب الضعفاء والمتروکین : 850)وغیرہم نے بھی ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں صُوَیْلِحٌ یُّعْتَبَرُ بِہٖ کہنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ہی قرار دیا ہے۔(تقریب التہذیب : 7614)
2 یحییٰ بن عمرو کے والد عمرو بن مالک نکری (حسن الحدیث) یہ روایت ابوالجوزاء سے بیان کرتے ہیں اور ان کی ابوالجوزاء سے روایت ’’غیرمحفوظ‘‘ہوتی ہے۔
(تہذیب التہذیب لابن حجر : 336/1)
یہ تھی کشمیری صاحب کی دلیل جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔کسی غیر ثابت روایت کو اپنا عقیدہ بنا لینا کیسے جائز ہے؟کھوٹے سکے کسی کام کے نہیں ہوتے۔دین و عقیدہ کی بنیاد صرف صحیح احادیث بنتی ہیں۔ وللّٰہ الحمد والمنّۃ، نسألہ الموت علی الکتاب والسنّۃ !
الحاصل : واقعہ حرہ کے وقت قبر نبوی سے اذان سنائی دینا ثابت نہیں۔اس بارے میں کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔لہٰذا اس قصے کو بیان کرنا اور اس سے مسائل کا استنباط کرنا دین اسلام کے ساتھ خیرخواہی پر مبنی نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.