1,031

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

قریب الموت ، میت اورقبر پر قرآن پڑھنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ۔ صحابہ کرام ] کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا ۔ تیجہ ، قُل ، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیر بدعات ورسومات ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن وحدیث اوراجماع سے ایصالِ ثواب کی جو صورتیں ثابت ہیں ،مثلاً دعا، صدقہ وغیرہ، ہم ان کے قائل وفاعل ہیں ۔ قرآن خوانی کے ثبوت پر کوئی دلیل شرعی نہیں ، لہٰذا بدعت ہے ۔اہل بدعت نے اسے شکم پروری کا بہترین ذریعہ بنا کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا ہے ۔
مبتدعین کے مزعومہ دلائل کا مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے :
دلیل نمبر 1 :      نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دوقبروں سے ہوا ، ان کو عذاب ہورہاتھا ، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اوردوسرا چغل خور تھا ۔
ثمّ أخذ جریدۃ رطبۃ ، فشقّھا بنصفین ، ثمّ غرز فی کلّ قبر واحدۃ ، قالوا : یا رسول اللّٰہ ! لم صنعت ھذا ؟ فقال : لعلّہ أن یخفّف عنھما ما لم ییبسا ۔۔۔
”پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی ، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ فرمایا ، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کردے ۔”
(صحیح بخاری : ١/١٨٢، ح : ١٣٦١، صحیح مسلم : ١/١٤١، ح : ٢٩٢)
حافظ نووی   رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      استحبّ العلماء قراء ۃ القرآن لھذا الحدیث ، لأنّہ إذا کان یرجی التّخفیف بتسبیح الجرید ، فتلاوتہ أولیٰ ، واللّٰہ أعلم !
”اس حدیث سے علمائے کرام نے قرآنِ کریم کی تلاوت کو مستحب سمجھا ہے ، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہے تو قرآنِ کریم کی تلاوت بالاولیٰ ایسے ہوگی ۔ واللہ اعلم !”(شرح صحیح مسلم للنووی : ١/١٤١)
تبصرہ :      اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں ، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی ، لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے، نیزیہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا ۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوشفاعت کی وجہ سے ہوئی ، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ   رضی اللہ عنہما  سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :      إنّی مررت بقبرین یعذّبان ، فأحببت بشفاعتی أن یرفّہ ذاک عنھما ، ما دام الغصنان رطبین ۔     ”میں دوایسی قبروں کے پاس سے گزرا ، جن (کے مردوں)کو عذاب دیا جارہاتھا ۔ میں نے اپنی شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہوجائے ، جب تک دونوں ٹہنیاں تَر رہیں ۔”
(صحیح مسلم : ٢/٤١٨، ح : ٣٠١٢)
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے ۔ اسی طرح ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ  سے بھی مروی ہے ۔(صحیح ابن حبان : ٨٢٤، وسندہ، حسنٌ)
نیز دیکھیں : (مصنف ابن ابی شیبۃ : ٣/٣٧٦، مسند الامام احمد : ٢/٤٤١، عذاب القبر للبیہقی : ١٢٣، وسندہ، حسنٌ)
فائدہ :      مورّق العجلی کہتے ہیں :      أوصیٰ بریدۃ الأسلمیّ أن توضع فی قبرہ جریدتان ، فکان مات بأدنی خراسان ، فلم توجد إلّا فی جوالق حمار ۔
”سیدنا بریدہ الاسلمی   رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں ، آپ   رضی اللہ عنہ  خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے ، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں میں ملیں ۔”
(الطبقات لابن سعد : ٧/٨، وسندہ، صحیحٌ ان صحّ سماع مورق عن بریدۃ)
بشرطِ صحت یہ سیدنا بریدہ   رضی اللہ عنہ  کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا تھا ،نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب سے تخفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔
فائدہ :      سیدنا ابوبرزہ الاسلمی   رضی اللہ عنہ  والی روایت(تاریخ بغداد : ١/١٨٢۔١٨٣) ”ضعیف”ہے ۔ اس کے دوراویوں الشاہ بن عماراور النضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے ، دوسری بات یہ ہے کہ قتادہ   رحمہ اللہ ”مدلس” ہیں ۔ ان کا سیدنا انس   رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ۔(جامع التحصیل فی احکام المراسیل : ٢٥٥)
دلیل نمبر 2 : سیدنا معقل بن یسار   رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      اقرأوا علی موتاکم یٰسین ۔
”اپنے قریب المرگ لوگوں پر سورہئ یٰسۤکی قرائت کرو۔”(مسند الامام احمد : ٥/٢٦، سنن ابی داو،د : ٣١٢١، السنن الکبرٰی للنسائی : ١٠٩١٤، سنن ابن ماجہ : ١٤٤٨)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان (٣٠٠٢)اور امام ِ حاکم (اتحاف المھرۃ لابن حجر ); نے ”صحیح” کہا ہے ۔
یہ امام ابنِ حبان اورامام ِ حاکم کا تساہل ہے ، جبکہ اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس کی سند میں ابوعثمان کے والد ، جو کہ ”مجہول” ہیں ، ان کی زیادت موجود ہے ۔ یہ” المزید فی متصل الاسانید” ہے۔ ابو عثمان نے سیدنا معقل بن یسار   رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی ، لہٰذا سند ”ضعیف”ہوئی ۔
امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      أراد بہ من حضرتہ المنیّۃ لا أنّ المیّت یقرأ علیہ ، وکذلک قولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( لقّنوا موتاکم : لا إلہ إلّا اللّٰہ )) ۔
”اس حدیث سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب الموت شخص مراد لیا ہے ، نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا، اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اپنے مردوں کو لا الہ الا الہ کی تلقین کرو (یہ بھی قریب المرگ کے لیے ہے ، میت کے لیے نہیں)۔”
حافظ ابن القیم   رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے ۔(الروح لابن القیم : ص ١١)
فائدہ نمبر 1:      قال صفوان (بن عمرو): حدّثنی المشیخۃ أنّھم حضروا غضیف بن الحارث الثّمالی ، قال : فکان المشیخۃ یقولون : إذا قرأت عند المیّت (یعنی یٰسۤ) خفّف عنہ بھا ۔     ”صفوان بن عمرو نے کہا ، مجھے بوڑھوں نے خبر دی کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس حاضر ہوئے ، وہ بوڑھے کہتے تھے کہ جب تو میت کے پاس سورہئ یس کی قرائت کرے گا تو اس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہوگی ۔”(مسند الامام احمد : ٤/١٠٥)
یہ بوڑھے نامعلوم ہیں ، لہٰذا سند ”مجہول” ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔
اس لیے حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ٣/١٨٤)کا اس کی سند کو ”حسن” قرار دینا صحیح نہیں ۔
فائدہ نمبر 2:      سیدنا ابو الدرداء اور سیدنا ابو ذرغفاری   رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من میّت یموت ، فیقرأ عندہ یٰسۤ إلّا ھوّن اللّٰہ عزّ وجلّ علیہ ۔
”جو میت مرتی ہے اور اس پر سورہئ یس کی قرائت کی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کردیتے ہیں ۔”(مسند الفردوس : ٦٠٩٩، التلخیص الحبیر لابن حجر : ٢/١٠٤)
اس کی سند ”موضوع” (من گھڑت)ہے ۔ اس میں مروان بن سالم الغفاری ”متروک ووضاع” ہے ۔
دلیل نمبر 3 :      سیدنا علی   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو کوئی قبرستان سے گزرے اورسورہئ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کوبخش دے تو اس کو تمام مردوں کی گنتی کے برابر ثواب دیا جائے گا ۔”(تاریخ قزوین : ٢/٢٩٧)
تبصرہ :      یہ سخت ترین ”ضعیف” روایت ہے ، اس کے راوی داؤد بن سلیمان الغازی کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ۔
اس کے بارے میں حافظ ذہبی   رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
کذّبہ یحیی بن معین ، ولم یعرفہ أبو حاتم ، وبکلّ حال فھو شیخ کذّاب ، لہ نسخۃ موضوعۃ عن علیّ بن موسیٰ الرّضا ، رواھا علیّ بن محمّد بن مھرویہ القزوینیّ الصّدوق عنہ ۔
”اسے امام یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے ، امام ابوحاتم نے ان کو نہیں پہچانا ۔ بہرحال وہ جھوٹا شیخ ہے ۔ اس کے پاس علی بن موسیٰ الرضا کا ایک من گھڑت نسخہ تھا ، جسے علی بن محمد بن مہرویہ صدوق نے اس سے بیان کیا ہے ۔”(میزان الاعتدال للذھبی : ٢/٨)
اس درجہ کے راویوں کی روایت سے حجت پکڑنا اہل بدعت ہی کی شان ہے !
دلیل نمبر 4 :      سیدنا انس بن مالک   رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :      ”جو کوئی قبرستان میں داخل ہواور سورہئ یٰسۤ تلاوت کرے تو ان قبرستان والوں سے اللہ تعالیٰ عذاب میں تخفیف فرماتا ہے اورپڑھنے والے کو مردوںکی تعداد کے مطابق نیکیاں ملیں گی۔”(شرح الصدور للسیوطی : ص ٤٠٤)
تبصرہ :      یہ روایت جھوٹ کاپلندہ ہے ۔ محدث البانی   رحمہ اللہ نے اس کی یہ سند ذکر کی ہے :      أخرجہ الثّعلبیّ فی تفسیرہ (٣/١٦١/٢) من طریق محمّد بن أحمد الرّیاحی ، حدّثنا أبی ، حدّثنا أیّوب بن مدرک عن أبی عبیدۃ عن الحسن عن أنس بن مالک ۔۔۔ (السلسلۃ الضعیفۃ : ١٢٤٦)
1 اس کے راوی ایوب بن مدرک کو امام یحییٰ بن معین   رحمہ اللہ نے” کذاب ”، امام ابوحاتم الرازی   رحمہ اللہ ، امام نسائی   رحمہ اللہ اور امام دارقطنی   رحمہ اللہ نے ”متروک” ، امام ابوزرعہ الرازی   رحمہ اللہ ، امام یعقوب بن سفیان جوزجانی   رحمہ اللہ ، امام صالح بن محمد جزرہ اور امام ابنِ عدی   رحمہ اللہ وغیرہم نے ”ضعیف” کہاہے ۔
امام ابنِ حبان   رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      روی أیوب بن مدرک عن مکحول نسخۃ موضوعۃ ولم یرہ، ۔    ”ایوب بن مدرک نے امام مکحول سے ایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے ، ان کو دیکھا نہیں ۔”(لسان المیزان لابن حجر : ١/٤٨٨)
اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں ۔
2 احمد بن ابی العوام الریاحی اور ابو عبیدہ کی توثیق مطلوب ہے ۔
3 امام حسن بصری ”مدلس” ہیں اور ”عن” سے روایت کررہے ہیں ۔ سماع کی تصریح نہیں ہے ۔
دلیل نمبر 5 : سیدنا ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو کوئی قبرستان میں گیا اورپھر سورہئ فاتحہ ، سورہئ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے ، پھر یوں کہے ، اے اللہ !جو میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا ، اس کاثواب اس قبرستان والے مؤمن مردوں ، مؤمن عورتوں کو پہنچا تووہ تمام اس کی سفارش اللہ تعالیٰ کے ہاں کریں گے ۔”
(فوائد لابی القاسم سعد بن علی الزنجی ، بحوالہ شرح الصدور للسیوطی : ص ٤٠٤)
تبصرہ :      یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہے ۔
دلیل نمبر 6 : حماد مکی نے کہا کہ ایک رات کو میں مکہ شریف کے قبرستان میں گیا اور ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا ، میں نے دیکھا کہ قبروں والے حلقوں میں تقسیم ہوکر کھڑے ہیں ۔میں نے کہا ، کیا قیامت قائم ہوگئی ہے؟ توانہوں نے کہا ، نہیں ، لیکن ایک آدمی نے ہمارے بھائیوں میں سے سورہئ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخش دیا ۔ ہم ایک سال سے اس کو تقسیم کر رہے ہیں ۔
(شرح الصدور للسیوطی : ص ٤٠٤)
تبصرہ :      یہ بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع(من گھڑت)اور باطل ہے ۔ حماد نامعلوم ہے ۔ نامعلوم آدمی کا بے سند خواب اہل بدعت کی دلیل بن گیا ہے !
دلیل نمبر 7 :      الحسن بن الہیثم کہتے ہیں کہ خطاب (نامی شخص) میرے پاس آیا اورمجھے کہا کہ جب تو قبرستان جائے تو سورہئ اخلاص پڑھ اور اس کا ثواب قبرستان والوں کو بخش دے ۔
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال : ٢٥٢)
تبصرہ :      یہ سخت ”ضعیف” قول ہے ۔اس کے راوی الحسن بن الہیثم کی توثیق مطلوب ہے ۔ خطاب نامی شخص کے حالات اورتوثیق وعدالت کا ثبوت فراہم کیا جائے ۔
دلیل نمبر 8 : ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ قبرستان میں قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال : ٢٤٥)
تبصرہ :      یہ قول سخت ترین ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1 اس میں شریک بن عبداللہ القاضی ”مدلس” ہیں اور ”عن” کے ساتھ بیان کررہے ہیں ، سماع کی تصریح ثابت نہیں ہے ۔
2 الری نامی راوی کی تعیین وتوثیق مطلوب ہے ۔
3 یہ لوگ ابراہیم نخعی کے مقلد ہیں یا ۔۔۔۔ انہیں چاہیے کہ اپنے امام سے باسند ِ ”صحیح” اس کا جواز پیش کریں ۔
نامعلوم لوگوں کے بے سند خواب پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
دلیل نمبر 9 : الحسن (بن عبدالعزیز)الجروی کہتے ہیں کہ میں اپنی ہمشیر کی قبر پرگیا اوروہاں میں نے سورہئ تبارک الذی پڑھی ۔ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ میں نے تمہاری ہمشیر کو خواب میں دیکھا ہے ، وہ کہہ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری طرف سے میرے بھائی کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ جو اس نے پڑھا تھا ، میں نے اس سے فائدہ اٹھایا ۔
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال : ص ٢٤٦)
تبصرہ : اس خواب کے راوی ابویحییٰ الناقد کی توثیق چاہیے ۔نیز امتی کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے ۔
دلیل نمبر 0 : الحسن بن الصباح کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی   رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ قبرستان میں قبروں پرقرآن پڑھنا کیسا ہے ؟ توفرمایا ، کوئی حرج نہیں ۔
تبصرہ :      اس میں ایصالِ ثواب کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اگرچہ قبر پر قرآنِ کریم کی تلاوت کے جواز پر بھی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے ۔
دلیل نمبر ! : خیثم نے وصیت کی کہ ان کو قبرستان میں دفن کیا جائے تو ان کی قوم ان پرقرآن پڑھے ۔(الزھد للامام احمد : ٢١٢٢)
تبصرہ :      اس کی سند ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1 اس میں سفیان ثوری ”مدلس” ہیں ، جو کہ ”عن ” کے ساتھ بیان کررہے ہیں ۔سماع کی تصریح ثابت نہیں ، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے ۔
2 اس میں رجل مبہم موجود ہے ۔
دلیل نمبر @ :      سلمہ بن شبیب کہتے ہیں کہ میں امام احمد بن حنبل   رحمہ اللہ کے پاس آیا ، وہ نابینا امام ، جو کہ قبرستان میں قرآن پڑھتا تھا ، کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔”
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال : ص ٢٤٧)
تبصرہ :      یہ قول ثابت نہیں ۔ اس کے راوی العباس بن محمد بن احمد بن عبدالعزیز کی توثیق نہیں مل سکی ۔
الحاصل : قرآن خوانی شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہے ۔سلف صالحین میں سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں ، بلکہ یہ بعد کے بدعتیوں کی ایجاد ہے ، جو انہوں نے شکم پروری کے لیے جاری کی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.