663

سلف صالحین اور مسلک اہل حدیث حافظ ابو یحیی نور پوری

! امام معمر بن احمد ابو منصور الاصبہانی (م٤١٨ھ) فرماتے ہیں:
فَہَذَا مَذْہَب أہل السّنۃ وَالْجَمَاعَۃ والأثر، فَمن فَارق مَذْہَبہم فَارق السّنۃ، وَمن اقْتدی بہم وَافق السّنۃ، وَنحن بِحَمْد اللَّہ من المقتدین بہم، المنتحلین لمذہبہم، الْقَائِلین بفضلہم، جمع اللَّہ بَیْننَا وَبینہمْ فِی الدَّاریْنِ، فَالسنۃ طریقتنا، وَأہل الْأَثر أَئِمَّتنَا، فأحیانا اللَّہ عَلَیْہَا وأماتنا برحمتہ إِنہ قریب مُجیب .
”یہ (صفات باری تعالیٰ میں تعطیل و تاویل کی نفی) اہل سنت و الجماعت اور اہل الاثر کا مذہب ہے۔ جو ان کے مذہب کو چھوڑتا ہے، وہ سنت کو چھوڑتا ہے اور جو ان کی پیروی کرتا ہے، وہ سنت کی موافقت کرتاہے۔ ہم بحمداللہ ان (اہل سنت و الجماعت) کے پیروکار ہیں اور ان کے مذہب کی طرف منسوب ہیں، ان کی فضیلت کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ دنیا و آخرت میں جمع کر دے۔ پس سنت ہمارا راستہ ہے اور محدثین ہمارے ائمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی (سنت) پر زندہ رکھے اور اپنی رحمت پر فوت کرے۔ وہ قریب و مجیب ہے۔”
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ١/٢٦٠، وسندہ، صحیح)
@ علامہ ابو المظفر السمعانیرحمہ اللہ (٤٢٦۔٤٨٩ھ) فرماتے ہیں:
أَنا أمرنَا بالاتباع وندبنا إِلَیْہِ، ونہینا عَنِ الابتداع، وزجرنا عَنہُ، وشعار أہل السّنۃ اتباعہم السّلف الصَّالح، وترکہم کل مَا ہُوَ مُبْتَدع مُحدث .
”ہمیں اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں اسی کی طرف ترغیب دی گئی ہے اور ہمیں بدعت سے منع کیا گیا ہے اور ہمیں اس سے ڈانٹا گیا ہے۔ اہل سنت کا شعار اپنے سلف صالحین کی پیروی اور ہر بدعت کو چھوڑنا ہے۔”
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ١/٣٩٥، الانتصار لاھل الحدیث : ٣١)
# قوام السنہ، امام اسماعیل بن محمد الاصبہانیرحمہ اللہ (م٥٣٥ھ) فرماتے ہیں:
وَلَیْسَ الْعلم بِکَثْرَۃ الرِّوَایَۃ، وَإِنَّمَا ہُوَ الإتباع، والاستعمال یَقْتَدِی بالصحابۃ، وَالتَّابِعِینَ وَإِن کَانَ قَلِیل الْعلم، وَمن خَالف الصَّحَابَۃ وَالتَّابِعِینَ فَہُوَ ضال، وَإِن کَانَ کثیر الْعلم .
”علم کثرت روایت کا نام نہیں، بلکہ علم تو اتباع و اقتدا کا نام ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کی پیروی کرے، اگرچہ علم تھوڑا ہی ہو اور جو شخص صحابہ و تابعین کی مخالفت کرے، وہ گمراہ ہے، اگرچہ زیادہ علم والا ہی ہو۔”
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ٢/٤٦٩)
نیز فرماتے ہیں:
وَذَلِکَ أَنہ تبین للنَّاس أَمر دینہم فعلینا الإتباع لِأَن الدّین إِنَّمَا جَاء َ من قبل اللہ تَعَالَی لم یوضع عَلَی عقول الرِّجَال، وآرائہم قد بَین الرَّسُول صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ السّنۃ لأمتہ، وأوضحہا لأَصْحَابہ، فَمن خَالف أَصْحَاب رَسُول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ فِی شَیْء من الدّین فقد ضل .
”لوگوں کے لیے اپنے دین کا معاملہ واضح ہو گیا ہے۔ ہم پر اتباع ضروری ہے، کیونکہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔ دین لوگوں کی عقلوں اور آراء پر نہیں رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی سنت کو امت کے لیے واضح کر دیا ہے اور آپe نے اپنے صحابہ کے لیے اپنی سنت کی وضاحت کی ہے۔ تو جس شخص نے دین کے کسی مسئلہ میں بھی رسول اللہe کے صحابہ کی مخالفت کی، وہ گمراہ ہو گیا۔”
(الحجۃ فی بیان المحجۃ لابي القاسم الاصبھانی : ٢/٤٧٢)
$ شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَمَنْ آتَاہُ اللَّہُ عِلْمًا وَإِیمَانًا؛ عَلِمَ أَنَّہُ لَا یَکُونُ عِنْدَ الْمُتَأَخِّرِینَ مِنْ التَّحْقِیقِ إلَّا مَا ہُوَ دُونَ تَحْقِیقِ السَّلَفِ لَا فِی الْعِلْمِ وَلَا فِی الْعَمَلِ .
”جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے علم اور ایمان دیا ہو، اسے معلوم ہو جائے گا کہ علم و عمل میں متاخرین کی تحقیق، سلف صالحین کی تحقیق سے ادنیٰ درجہ کی ہی ہو گی۔”
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیہ : ٧/٤٣٦)
نیز فرماتے ہیں:
وقد عدلت المرجئۃ فی ہذا الأصل عن بیان الکتاب والسنۃ وأقوال الصحابۃ والتابعین لہم باحسان واعتمدوا علی رأیہم وعلی ما تأولوہ بفہمہم اللغۃ، وہذہ طریقۃ أہل البدع ولہذا کان الإمام أحمد یقول : أکثر ما یخطیء الناس من جہۃ التأویل والقیاس،ولہذا تجد المعتزلۃ والمرجئۃ والرافضۃ وغیرہم من أہل البدع یفسرون القرآن برأیہم ومعقولہم وما تأولوہ من اللغۃ ولہذا تجدہم لا یعتمدون علی أحادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم والصحابۃ والتابعین وأئمۃ المسلمین فلا یعتمدون لا علی السنۃ ولا علی إجماع السلف وآثارہم وإنما یعتمدون علی العقل واللغۃ وتجدہم لا یعتمدون علی کتب التفسیر المأثورۃ والحدیث وآثار السلف وإنما یعتمدون علی کتب الأدب وکتب الکلام التی وضعتہا رؤوسہم وہذہ طریقۃ الملاحدۃ أیضا إنما یأخذون ما فی کتب الفلسفۃ وکتب الأدب واللغۃ؛ وأما کتب القرآن والحدیث والآثار فلا یلتقون الیہا، ہؤلاء یعرضون عن نصوص الأنبیاء إذ ہی عندہم لا تفید العلم وأولئک یتأولون القرآن برأیہم وفہمہم بلا آثار عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ وقد ذکرنا کلام أحمد وغیرہ فی انکار ہذا وجعلہ طریقۃ أہل البدع .
”مرجئہ نے اس اصول (ایمان) میں کتاب و سنت کے بیان اور اقوال صحابہ و تابعین کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی عقلوں اور فہم لغت پر مبنی اپنی تاویلات پر اعتماد کیا ہے۔ یہ اہل بدعت کا طریقہ ہے۔ اسی لیے امام احمدرحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اکثر لوگ غلطی تاویل اور قیاس میں کرتے ہیں۔ اسی لیے آپ معتزلہ، مرجئہ اور روافض وغیرہم کو دیکھتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر اپنی آراء اور عقلوں اور لغت پر مبنی اپنی تاویلات سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نبی اکرمe کی احادیث اور صحابہ و تابعین و ائمہ دین پر اعتماد نہیں کرتے۔ نہ وہ سنت پر اعتماد کرتے ہیں نہ سلف کے اجماع پر اور نہ ان کے آثار پر۔ وہ صرف اپنی عقل اور لغت پر اعتماد کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ حدیث پر مبنی تفاسیر اور اقوال سلف پر بھی اعتماد نہیں کرتے۔ بلکہ وہ کتب ادب اور ان کتب علم کلام پر اعتماد کرتے ہیں، جن کو ان کے بڑوں نے لکھا ہے۔ ملحد لوگوں کا بھی یہی طریقہ ہے۔ وہ صرف ان چیزوں کو لیتے ہیں جو فلسفے اور لغت و ادب کی کتابوں میں ہیں۔ قرآن کریم اور حدیث و آثار پر مبنی کتب کی طرف وہ التفات نہیں کرتے۔ یہ لوگ انبیائے کرام کے فرامین سے اعراض کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک وہ علم کا فائدہ نہیں دیتے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر حدیث نبوی اور اقوال صحابہ کو چھوڑ کر اپنے فہم اور اپنی عقلوں سے کرتے ہیں۔ ہم نے اس کے رد میں امام احمدرحمہ اللہ وغیرہ کی کلام بیان کی ہے اور انہوں نے اسے اہل بدعت کا طریقہ قرار دیا ہے۔”
(الایمان لابن تیمیہ : ١١٤)
% حافظ ذہبیرحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٨ھ) لکھتے ہیں:
جزمت بأن المتأخرین علی إیاس من أن یلحقوا المتقدمین فی الحفظ والمعرفۃ .
”میرا یقین ہے کہ متاخرین حفظ و معرفت میں متقدمین کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔”
(تذکرۃ الحفاظ للذھبي : ٣/٩٦٩)
نیز فرماتے ہیں:
ہَکَذَا کَانَ أَئِمَّۃُ السَّلَفِ اَ یَرَوْنَ الدُّخُوْلَ فِی الکَلاَمِ، وَلاَ الجِدَالَ، بَلْ یَسْتَفْرِغُونَ، وُسْعَہُم فِی الکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَالتَّفَقُہِ فِیْہِمَا، وَیَتَّبِعُونَ، ولا یتنطعون .
”اسی طرح ائمہ سلف علم کلام و جدال میں داخل ہونا جائز نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ اپنی قوت و طاقت کو کتاب و سنت اور ان دونوں کے فہم میں خرچ کرتے تھے۔ وہ اتباع کرتے تھے، تکلف نہیں کرتے تھے۔”
(سیر أعلام النبلاء للذھبی : ١٢/١١٩)
نیز فرماتے ہیں:
وَمَنْ سَکَتَ شَاکّاً مُزْرِیاً عَلَی السَّلَفِ، فَہَذَا مُبْتَدِعٌ .
”جو شخص سلف پر عیب لگاتے ہوئے شک میں خاموش بھی ہو جائے، وہ بدعتی ہے۔”
(سیر أعلام النبلاء للذھبي : ١٢/١٧٨)
^ علامہ ابن قدامہ الموفقرحمہ اللہ (٥٤١۔٥٢٠ھ) فرماتے ہیں:
فقد ثَبت وجوب اتِّبَاع السّلف رَحْمَۃ اللہ عَلَیْہِم بِالْکتاب وَالسّنۃ وَالْإِجْمَاع وَالْعبْرَۃ دلّت عَلَیْہِ .
”سلف کے اتباع کا واجب ہونا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ قیاس بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔”
(ذم التاویل لابن قدامہ : ص٣٥)
& امام دارمیرحمہ اللہ (٢٠٠۔٢٨٠ھ) فرماتے ہیں:
إِنَّ عَلَی الْعَالِمِ بِاخْتِلَافِ الْعُلَمَائِ، أَنْ یَجْتَہِدَ وَیَفْحَصَ عَنْ أَصْلِ الْمَسْأَلَۃِ، حَتَّی یَعْقِلَہَا بِجَہْدِہِ ما أَطَاقَ، فَإِذَا أَعْیَاہُ أَنْ یَعْقِلَہَا مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ فَرَأْیُ مَنْ قَبْلَہَ مِنْ عُلَمَاءِ السَّلَفِ خَیْرٌ لَہُ مِنْ رَأْیِ نَفْسِہِ .
”ہم کہتے ہیں کہ علمائے کرام کے اختلاف کی بنا پر ایک عالم کو اجتہاد اور مسئلہ کی دلیل کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے، حتی کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق سمجھے۔ جب کتاب و سنت سے سمجھنے سے وہ عاجز آجائے تو اس سے پہلے سلف کے علمائے کرام کی آراء اس کے لیے اس کی اپنی رائے سے بہتر ہیں۔”
(نقض الامام عثمان بن سعید الدارمی علی المریسی : ٦٦٥)
* علامہ ابن رجبرحمہ اللہ (٧٣٦۔٧٩٥ھ)فرماتے ہیں:
وقد ابتلینا بجہلۃ من الناس یعتقدون فی بعض من توسع فی القول من المتأخرین انہ أعلم ممن تقدم فمنہم من یظن فی شخص أنہ أعلم من کل من تقدم من الصحابۃ ومن بعدہم لکثرۃ بیانہ ومقالہ، ومنہم من یقول ہو أعلم من الفقہاء المشہورین المتبوعین، وہذا یلزم منہ ما قبلہ لأن ہؤلاء الفقہاء المشہورین المتبوعین أکثر قولا ممن کان قبلہم فإذا کان من بعدہم أعلم منہم لاتساع قولہ کان أعلم ممن کان أقل منہم قولا بطریق الأولی : کالثوری والأوزاعی واللیث، وابن المبارک، وطبقتہم، وممن قبلہم من التابعین والصحابۃ أیضاً، فإن ہؤلاء کلہم أقل کلاماً ممن جاء بعدہم وہذا تنقص عظیم بالسلف الصالح وإساء ۃ ظن بہم ونسبتہ لہم إلی الجہل وقصور العلم .
”ہمیں ایسے جاہل لوگوں سے پالا پڑا ہے، جو زیادہ کام کرنے والے بعض متاخرین کو متقدمین سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو کسی ایک شخص کو اس کے زیادہ بیان و مقال کی وجہ سے تمام سلف صحابہ و تابعین سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہیں جو کسی مخصوص شخص کو ان تمام مشہور مقتدا ائمہ سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔ اس قول سے بھی پہلے والی بات لازم آتی ہے، کیونکہ یہ مشہور ائمہ اپنے سلف سے زیادہ اقوال کے حامل تھے، اگر ان سے بعد والا شخص زیادہ اقوال کی وجہ سے ان سے افضل ہے تو یہ لوگ اپنے سلف مثلا امام سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام لیث، امام ابن المبارک، ان کے ہم عصروں اور ان سے پہلوں، یعنی تابعین اور صحابہ کرام سے زیادہ اقوال رکھنے کی وجہ سے بالاولیٰ ان سے افضل ہوں گے، کیونکہ یہ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین بعد والوں کی نسبت کم اقوال رکھتے ہیں۔ اس سے سلف صالحین کی بہت بڑی گستاخی ہوتی ہے اور یہ ان کے بارے میں بد گمانی ہے۔ اور ان کو جاہل اور کم علم کہنے کے مترادف ہے۔”
(فضل علم السف علی الخلف لابن رجب : ٦١)
نیز فرماتے ہیں:
ولیکن الإنسان علی حذر مما حدث بعدہم فإنہ حدث بعدہم حوادث کثیرۃ وحدث من انتسب إلی متابعۃ السنۃ والحدیث من الظاہریۃ ونحوہم وہو أشد مخالفۃ لہا لشذوذہ عن الأئمۃ وانفرادہ عنہم بفہم یفہمہ أو یأخذ مالم یأخذ بہ الأئمۃ من قبلہ .
”انسان کو سلف صالحین کے بعد والے لوگوں کی نکالی ہوئی نئی چیزوں سے بچنا چاہیے، کیونکہ سلف کے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور وہ ظاہری قسم کے لوگ ظاہر ہوئے جو سنت و حدیث کی پیروی کا دم بھرتے تھے، لیکن وہ سنت کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے تھے، کیونکہ وہ ائمہ کرام سے انفرادیت اختیار کرتے تھے اور ان سے جدا فہم لیتے تھے یا متقدمین نے جو استنباط نہیں کیا، وہ استنباط کرتے تھے۔”
(فضل علم السلف علی الخلف لابن رجب : ٦٩)
نیز فرماتے ہیں:
فأما الأئمۃ وفقہاء أہل الحدیث فإنہم یتبعون الحدیث الصحیح حیث کان إذا کان معمولا بہ عند الصحابۃ، ومن بعدہم، أو عند طائفۃ منہم فأما ما اتفق علی ترکہ فلا یجوز العمل بہ .
”محدثین میں سے فقہاء اور ائمہ صحیح حدیث جہاں بھی وہ ہو، اس کا اتباع کرتے ہیں، جب وہ تمام صحابہ و تابعین یا ان میں سے کسی گروہ کے ہاں معمول بہ ہو، لیکن جس کو چھوڑنے پر صحابہ و تابعین کا اتفاق ہو، اس پر عمل کرنا (ائمہ حدیث اور فقہائے حدیث) کے ہاں جائز نہیں۔”
(فضل علم السلف علی الخلف لابن رجب : ٤٧)
( ابو محمد عبداللہ بن ابی زید القیروانی (٣١٠۔٣٨٦ھ) فرماتے ہیںـ:
تسلیم السنن وأن لا تعارض برأی ولا ترفع بقیاس، وما تأولہ منہا السلف الصالح تأولناہ، وما عملوا بہ عملناہ، وما ترکوہ ترکناہ، ویسعنا أن نمسک عما أمسکوا، ونتبعہم فیما بینوا، ونقتدی بہم فیما استنبطوہ ورأوہ فی الحوادث، ولا نخرج عن جماعتہم فیما اختلفوا فیہ وفی تأویلہ،وکل ما قدمنا ذکرہ ہو قول أہل السنۃ وأئمۃ الناس فی الفقہ والحدیث .
”سنتوں کو تسلیم کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہیں۔ سنن کی جو تفسیر سلف صالحین نے کی ہے، ہم وہی کریں گے اور جس پر انہوں نے عمل کیا، اسی پر ہم عمل کریں گے اور جس کو انہوں نے چھوڑا، اس کو ہم بھی چھوڑ دیں گے۔ ہمیں یہی کافی ہے کہ جس چیز سے وہ رک گئے، اس سے ہم بھی رک جائیں اور جس چیز کو انہوں نے بیان کیا، اس میں ہم ان کی پیروی کریں اور جو انہوں نے استنباط و اجتہاد کیا، اس میں ان کی اقتدا کریں، جس چیز میں ان کا اختلاف ہے، اس میں ان کی جماعت سے نہ نکلیں (کوئی نیا مذہب نہ نکالیں، بلکہ اختلافی صورت میں ان میں سے ہی کسی کا مذہب قبول کریں۔) تمام وہ چیزیں جو ہم نے ذکر کی ہیں، وہ اہل سنت اور فقہ و حدیث کے ائمہ کا قول ہے۔”
(الجامع : ١١٧)
) حافظ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ (ابن ابی زمنین)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اِعْلَمْ رَحِمَکَ اَللَّہُ أَنَّ اَلسُّنَّۃَ دَلِیلُ اَلْقُرْآنِ، وَأَنَّہَا لَا تُدْرَکُ بِالْقِیَاسِ وَلَا تُؤْخَذُ بِالْعُقُولِ، وَإِنَّمَا ہِیَ فِی اَلِاتِّبَاعِ لِلْأَئِمَّۃِ وَلِمَا مَشَی عَلَیْہِ جُمْہُورُ ہَذِہِ اَلْأُمَّۃِ …
”جان لیں کہ سنت قرآن کریم کی دلیل ہے۔ سنت کو قیاس اور عقل کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ نو ائمہ کرام اور جمہور امت کے طریقے کے اتباع کا نام ہے۔”
(کتاب اصول السنۃ لابن ابي زمنین : ١)
شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَکُلُّ قَوْلٍ یَنْفَرِدُ بِہِ الْمُتَأَخِّرُ عَنْ الْمُتَقَدِّمِینَ وَلَمْ یَسْبِقْہُ إلَیْہِ أَحَدٌ مِنْہُمْ فَإِنَّہُ یَکُونُ خَطَأً .
”ہر وہ قول جس میں بعد والا متقدمین سے منفرد ہو، اس سے پہلے وہ قول کسی نے نہ کہا ہو، وہ یقینا غلط ہوگا۔”
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیہ : ٢١/٢٩١)
ہم اہلحدیث تو یہ کہتے ہیں:
ما تکلم فیہ السلف فالسکوت عنہ جفائ، وما سکت عنہ السلف فالکلام فیہ بدعۃ .
” جس مسئلہ میں سلف نے کلام کی ہے، اس بارے میں خاموش رہنا گناہ ہے اور جس مسئلہ میں سلف خاموش رہے ہیں، اس بارے میں کلام کرنا بدعت ہے۔”
نیز کہتے ہیں:
کل خیر فی اتباع من سلف وکل شر فی ابتداع من خلف.
”ہر خیر و بھلائی سلف کے اتباع میں ہے اور ہر برائی بعد والوں کی اختراع میں ہے۔”
علامہ شاطبیرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَالْمُتَأَخِّرُ لَا یَبْلُغُ من الرُّسُوخِ فِی عِلْمٍ مَا یَبْلُغُہُ الْمُتَقَدِّمُ، وَحَسْبُکَ مِنْ ذَلِکَ أَہْلُ کُلِّ عِلْمٍ عَمَلِیٍّ أَوْ نَظَرِیٍّ؛ فَأَعْمَالُ الْمُتَقَدِّمِینَ فِی إِصْلَاحِ دُنْیَاہُمْ وَدِینِہِمْ عَلَی خِلَافِ أَعْمَالِ الْمُتَأَخِّرِینَ، وَعُلُومُہُمْ فِی التَّحْقِیقِ أَقْعَدُ، فَتَحَقُّقُ الصَّحَابَۃِ بِعُلُومِ الشَّرِیعَۃِ لَیْسَ کَتَحَقُّقِ التَّابِعِینَ، وَالتَّابِعُونَ لَیْسُوا کَتَابِعِیہِمْ، وَہَکَذَا إِلَی الْآنِ، وَمَنْ طَالَعَ سِیَرَہُمْ، وَأَقْوَالَہُمْ، وَحِکَایَاتِہِمْ؛ أَبْصَرَ الْعَجَبَ فِی ہَذَا الْمَعْنَی .
”بعد والا شخص علمی رسوخ میں پہلے والے شخص تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں ہر عملی و نظریاتی علم کا یہی حال ہے۔ متقدمین کے دنیا و دین کے اصلاح کے حوالے سے جو کام ہیں، وہ متاخرین کے کاموں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ ان کے علوم، تحقیق میں گہرے تھے۔ صحابہ کرام کا شرعی علوم میں رسوخ تابعین کے رسوخ جیسا نہیں تھا (بلکہ اس سے بڑھ کر تھا) ، اسی طرح تابعین، تبع تابعین کی طرح نہیں تھے اور آج تک یہی صورت حال ہے۔ جو شخص متقدمین کے احوال، اقوال اور حکایات کا مطالعہ کرے گا، اس سلسلے میں عجیب باتیں دیکھے گا۔”
(الموافقات للشاطبي : ١/١٤٩)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.