997

مجالد بن سعید اور جرح و تعدیل، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


مُجَالِد بن سعید جرح و تعدیل کی میزان میں
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

مجالد بن سعید ہمدانی کوفی(م : 144ھ)جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے،نیز یہ آخری عمر میں ’’اختلاط‘‘ کا شکار بھی ہو گیا تھا،جیسا کہ :
1 حافظ عبد الرحیم بن حسین،عراقی رحمہ اللہ (406-765ھ)فرماتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ، وَقَدِ اخْتَلَطَ أَخِیرًا ۔
’’جمہور محدثین کرام نے اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔یہ آخری عمر میں مختلط بھی ہو گیا تھا۔‘‘
(طرح التثریب في شرح التقریب : 389/2)
2 حافظ،ابو الحسن، علی بن ابوبکر، ہیثمی (807-735ھ)فرماتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔‘‘
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد :33/5، 190)
3 علامہ ،محمود بن احمد،عینی،حنفی(855-762ھ)لکھتے ہیں:
وَمُجَالِدٌ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’مجالد کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : 240/6، تحت الحدیث : 934)
4 علامہ ابن مُفْلِح(884-816ھ)فرماتے ہیں :
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ ۔ ’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے۔‘‘
(المبدع في شرح المقنع : 345/7)
5 علامہ عبدالروف مناوی رحمہ اللہ (1031-952ھ)حافظ عراقی سے نقل کرتے ہیں:
’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘(فیض القدیر :14/6، ح : 8247)
6 علامہ،احمد بن محمد بن علی، شوکانی رحمہ اللہ (1250-1173ھ)فرماتے ہیں :
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف کہا ہے۔‘‘
(نیل الأوطار : 273/2)
جارحین
1 امام ابو عبد اللہ،احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)فرماتے ہیں:
مُجَالِدٌ حَدِیثُہٗ عَنْ أَصْحَابِہٖ کَأَنَّہٗ حُلْمٌ ۔
’’مجالد کی اپنے اصحاب سے بیان کردہ حدیث ایسے ہے ،جیسے خواب۔‘‘
(المجروحین لابن حبّان : 11/3، وسندہٗ صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں : حَدِیثُ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، کَأَنَّہٗ حُلْمٌ ۔
’’مجالد کی شعبی سے بیان کردہ روایت گویا خواب ہے۔‘‘
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راھویہ : 750)
مزید فرماتے ہیں: ضَعِیفُ الْحَدِیثِ ۔ ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔‘‘
(سؤالات المیموني : 362)
نیز فرماتے ہیں: فَإِنَّہٗ کَانَ یُکْثِرُ وَیَضْطَرِبُ ۔
’’مجالد زیادہ روایات بیان کرتا تھا اور اضطراب کا شکار رہتا تھا۔‘‘
(المعرفۃ والتاریخ للإمام یعقوب بن سفیان : 165/2، وسندہٗ صحیحٌ)
2 امام،محمد بن ادریس، شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ)فرماتے ہیں:
وَالْحَدِیثُ عَنْ مُّجَالِدٍ یُّجَالِدُ الْحَدِیثَ ۔
’’مجالد سے بیان کی گئی روایات (صحیح) حدیث کی مخالفت کرتی ہیں۔‘‘
(المجروحین لابن حبّان : 11/3،وسندہٗ حسنٌ)
3 امام،ابو عبد اللہ،محمد بن سعد بن منیع رحمہ اللہ (230-168ھ)فرماتے ہیں :
وَکَانَ ضَعِیفًا فِي الْحَدِیثِ ۔ ’’یہ حدیث میں ضعیف تھا۔‘‘
(الطبقات الکبرٰی : 349/6)
4 علامہ،ابراہیم بن یعقوب،جوز جانی(م : 259ھ)لکھتے ہیں :
یُضَعَّفُ حَدِیثُہٗ ۔ ’’اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف قرار دی جائے۔‘‘
(أحوال الرجال : 126)
5 امام،ابو عبد الرحمن،احمد بن شعیب،نسائی رحمہ اللہ (303-215ھ)فرماتے ہیں :
ضَعِیفٌ ۔ ’’یہ ضعیف راوی ہے۔‘‘(الضعفاء المتروکون، ص : 233)
نوٹ : بعض اہل علم نے امام نسائی رحمہ اللہ سے مجالد کو ’’ ثقہ‘‘قرار دینا بھی ذکر کیا ہے،لیکن اس کا ثبوت نہیں مل سکا۔
6 امام،ابو الحسن،علی بن عمر، دار قطنی رحمہ اللہ (385-306ھ)فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِقَوِيٍّ ۔ ’’یہ قوی راوی نہیں۔‘‘(الضعفاء المتروکون : 532)
نیز فرماتے ہیں : لَیْسَ بِثِقَۃٍ،۔۔۔، لاَ یُعْتَبَرُ بِہٖ ۔
’’یہ ثقہ راوی نہیں۔اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘(سؤالات البرقاني : 474)
7 امام،ابو حاتم، محمد،ابنِ حبان رحمہ اللہ (م : 354ھ)فرماتے ہیں:
وَکَانَ رَدِيْئَ الْحِفْظِ، یُقَلِّبُ الْـأَسَانِیدَ، وَیَرْفَعُ الْمَرَاسِیلَ، لَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ ۔ ’’اس کا حافظہ بہت نکما تھا۔یہ سندوں کو بدل دیتا تھا اور مراسیل کو مرفوع بنا دیتا تھا۔اس کی بیان کردہ حدیث سے دلیل لینا جائز نہیں۔‘‘
(المجروحین : 11-10/3)
8 امام،ابوزکریا،یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (233-158ھ)فرماتے ہیں:
مُجَالِدٌ ضَعِیفٌ، وَاھِي الْحَدِیثِ ۔ ’’مجالد ضعیف راوی ہے اور اس کی بیان کردہ احادیث کمزور ہیں۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 362/8، وسندہٗ صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں: مُجَالِدٌ وَّحَجَّاجٌ لَّا یُحْتَجُّ بِحَدِیثِہِمَا ۔
’’مجالد اور حجاج کی بیان کردہ حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
(تاریخ ابن معین بروایۃ الدوري : 3142)
نیز فرماتے ہیں: کَانَ ضَعِیفًا ۔ ’’ضعیف راوی تھا۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 233/4، وسندہٗ حسنٌ، المجروحین لابن حبّان : 1039، وسندہٗ حسنٌ)
ایک مرتبہ فرمایا : إِسْرَائِیلُ وَشَرِیکٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ مُّجَالِدٍ ۔
’’اسرائیل اور شریک میرے نزدیک مجالد سے اچھے راوی ہیں۔‘‘
(تاریخ ابن معین : 3056)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے مجالد کو ایک مقام پر ’’ثقہ‘‘ بھی کہا ہے۔
(تاریخ یحیی بن معین بروایۃ العبّاس الدوري : 1277)
امام صاحب کا توثیق والا قول جمہور کے بھی اور ان کے اپنے قول کے بھی خلاف ہے،لہٰذاجمہور کے موافق قول لیا جائے گا۔
9 امام،ابو سعید،یحییٰ بن سعید،قطان رحمہ اللہ (198-120ھ)فرماتے ہیں:
فِي نَفْسِي مِنْہُ شَيْئٌ ۔ ’’میرا دل اس کے بارے میں صاف نہیں۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 361/8، وسندہٗ صحیحٌ)
امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ نے عبداللہ بن سعید سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ میں وہب بن جریر کے پاس سیرت لکھنے جا رہا ہوں،جو مجالد سے مروی ہے۔اس پر آپ نے فرمایا:
تَکْتُبُ کَذِبًا کَثِیرًا، لَوْ شِئْتَ أَنْ یَّجْعَلَہَا لِيْ مُجَالِدٌ کُلَّہَا عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَّسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فَعَلَ ۔
’’آپ بہت سے جھوٹ لکھنے جا رہے ہیں۔اگر آپ چاہیں کہ مجالد میرے لیے ان ساری سندوں کو شعبی اور مسروق کے واسطے سے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک پہنچا دے، تو وہ ایسا کر دے گا۔‘‘(الجرح والتعدیل : 361/8، وسندہٗ صحیحٌ)
مطلب یہ ہے کہ مجالد کا حافظہ اس حد تک بگڑ گیا تھا کہ وہ ’’تلقین‘‘ قبول کرنے لگا تھا،یعنی جب اسے کوئی من گھڑت سند بیان کر کے کہتا کہ اصل سند اس طرح ہے،تو وہ اسے تسلیم کر لیتا تھا۔
0 امام ابو حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا مجالد کی بیان کردہ حدیث کو دلیل بنایا جا سکتا ہے؟تو فرمایا : نہیں،پھر فرمایا: وَلَیْسَ مُجَالِدٌ بِقَوِيِّ الْحَدِیثِ ۔
’’مجالد کی بیان کردہ حدیث قوی نہیں ہوتی۔‘‘(الجرح والتعدیل : 362/8)
! امام،ابو احمد،عبد اللہ،ابنِ عدی رحمہ اللہ (365-277ھ)فرماتے ہیں:
أَکْثَرُ رِوَایَتِہٖ عَنْہُ (الشَّعْبِيِّ)، وَعَامَّۃُ مَا یَرْوِیہِ غَیْرُ مَحْفُوظٍ ۔
’’اس نے زیادہ روایات شعبی کے واسطے سے بیان کی ہیں۔اس کی بیان کردہ اکثر روایات غیر محفوظ (منکر)ہیں۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 423/6)
@ امام،ابو عیسیٰ، محمد بن عیسیٰ، ترمذی رحمہ اللہ (279-209ھ)فرماتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَ مُجَالِدًا بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ، وَھُوَ کَثِیرُ الْغَلَطِ ۔
’’بعض اہل علم نے مجالد کو ضعیف قرار دیا ہے۔وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔‘‘
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 648)
نیز فرماتے ہیں: وَقَدْ تَکَلَّمَ بَعْضُہُمْ فِی مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ ۔ ’’بعض اہل علم نے حافظے کی خرابی کی بنا پر مجالد پر کلام کی ہے۔‘‘
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 1172)
# امام،ابوبکر،محمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)فرما تے ہیں:
غَیْرُ مُحْتَجٍّ بِہٖ ۔ ’’اس کی بیان کردہ حدیث سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔‘‘
(السنن الکبریٰ للبیہقي : 128/8)
$ علامہ،علی بن احمد،ابنِ حزم رحمہ اللہ (456-384ھ)کہتے ہیں:
ضَعِیفٌ ۔ ’’یہ ضعیف راوی ہے۔‘‘(المحلّٰی بالآثار : 62/3)
نیز فرماتے ہیں: ھَالِکٌ ۔ ’’سخت ضعیف ہے۔‘‘(المحلّٰی : 429/10)
%۔۔۔( حافظ منذری(مختصر سنن أبي داوٗد : 256/6)،حافظ بو صیری (اتّحاف الخیرۃ المھرۃ : 45)،علامہ ابن ملقن(البدر المنیر : 391/9)،حافظ ابن حجر(فتح الباري : 480/9)اور حافظ ابنِ کثیر(البدایۃ والنھایۃ : 141/8)نے بھی اس کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
لہٰذا حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (البدایۃ والنھایۃ : 14/3)کااس کی حدیث کی ایک سند کو ’’حسن‘‘کہنا صحیح نہیں۔
) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مَشْہُورٌ، صَاحِبُ حَدِیثٍ، عَلٰی لِینٍ فِیہِ ۔ ’’مشہور محدث ہے،البتہ کمزور راوی ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال للذھبي : 438/3)
نیز فرماتے ہیں: لَیْسَ بِالْقَوِيِّ ۔ ’’قوی نہیں ہے۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء للذھبي : 146/2)
اتنی جروح کے بعد اب مجالد کے بارے میں ذکر کی گئی توثیقات بھی ملاحظہ فرمائیں:
معدلین
1 امام ابنِ شاہین رحمہ اللہ نے امام یحییٰ بن معین سے اس کا’’ثقہ‘‘ ہونا ذکر کیا ہے۔
(تاریخ الثقات : 1435)
اس کا جواب گزر چکا ہے کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی یہ بات جمہور محدثین،نیز خود اپنی ہی جرح کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔
2 امام ابو عبد اللہ،سفیان بن سعید،ثوری رحمہ اللہ (161-93ھ)فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِیہِ، وَبِخَاصَّۃٍ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، وَھُوَ ثِقَۃٌ ۔
’’ائمہ دین نے اس پر جرح کی ہے،خصوصاً امام یحییٰ بن سعید نے،تاہم وہ ثقہ ہے۔‘‘
(المعرفۃ والتاریخ : 100/3)
3 امام،ابو یوسف،یعقوب بن سفیان، فسوی رحمہ اللہ (م : 277ھ)فرماتے ہیں:
وَأَمَّا مُجَالِدٌ وَّالْـأَجْلَحُ، فَقَدْ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِیہِمَا، وَمُجَالِدٌ عَلٰی کُلِّ حَالٍ أَمْثَلُ مِنَ الْـأَجْلَحِ ۔
’’مجالد اور اجلح دونوں کے بارے میں محدثین کی جرح موجود ہے اور مجالد ہر حال میں اجلح سے اچھا ہے۔‘‘(المعرفۃ التاریخ : 83/3)
یاد رہے کہ اجلح کندی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ثقہ‘‘ ہے۔
اس کے بارے میں علامہ ہیثمی فرماتے ہیں : وَالْـأَکْثَرُ عَلٰی تَوْثِیقِہٖ ۔
’’اکثر محدثین کرام اس کی توثیق ہی کرتے ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد : 189/1)
اس کی توثیق اور اس پر جرح کی حقیقت تفصیلاً جاننے کے لیے میرے مایۂ ناز شاگرد اور اندوختہ سرمایہ،حافظ ابو یحییٰ نورپوریd کی بیش قیمت کتاب’’صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکار ِحدیث(ص : 275-271)‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
نوٹ: امام بخاری رحمہ اللہ سے مجالد کو ’’صدوق ‘‘کہنا ثابت نہیں۔
3 امام،ابو الحسن،احمد بن عبداللہ، عجلی رحمہ اللہ (261-181ھ) فرماتے ہیں:
جَائِزُ الْحَدِیثِ، حَسَنُ الْحَدِیثِ ۔
’’اس کی حدیث درست اور حسن ہے۔‘‘(تاریخ الثقات : 460)
4 امام،ابو بسطام، شعبہ بن حجاج،عتکی رحمہ اللہ (م : 160ھ)نے الحسن بن علی بن عاصم سے کہا: یَا حَسَنُ اسْتَخِرِ اللّٰہَ، وَأَدْبِرْ عَلٰی مُجَالِدٍ ۔
’’حسن! اللہ سے خیر طلب کرو اور مجالد کے پاس جاؤ۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 232/4،وسندہٗ حسنٌ)
5 امام،ابو الحسن، علی بن عبد اللہ،مدینی رحمہ اللہ (234-161ھ)نے امام شعبی رحمہ اللہ کے شاگردوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: مُجَالِدٌ فَوْقَ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، فَوْقَ أَجْلَحَ الْکِنْدِيِّ ۔ ’’مجالد،اشعث بن سوار سے کم درجہ اور اجلح کندی سے بلند درجہ ہے۔‘‘(المعرفۃ والتاریخ للفسوي : 1713، وسندہٗ صحیحٌ)
6 امام، ابو عبداللہ،محمد بن مثنّٰی،بصری رحمہ اللہ (215-118ھ)فرماتے ہیں:
یُحْتَمَلُ حَدِیثُہٗ لِصِدْقِہٖ ۔ ’’اس کی سچائی کی بنا پر اس کی حدیث روایت کی جائے گی۔‘‘(تہذیب التہذیب لابن حجر : 37/10)
نوٹ: امام مسلم رحمہ اللہ نے مجالد بن سعید سے اصول میں کوئی روایت نہیں لی۔ صحیح مسلم میں مجالد کی روایت متابعت میں(دوسرے راوی کے ساتھ ملا کر )ہے۔
تنبیہ نمبر1 :
ابو سعید،عبداللہ بن سعید،اشجع،کندی(م : 257ھ)کہتے ہیں:
ذَکَرَ رَجُلٌ عُثْمَانَ عِنْدَ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ، فَقَالَ : مُجَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ لِّغُلَامِہٖ : جُرَّہٗ وَاطْرَحْہُ فِي الْبِئْرِ ۔
’’مجالد بن سعید کے پاس ایک آدمی نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا،تو وہ اپنے غلام سے کہنے لگا : اس کو کھینچ کر کنویں میں پھینک دو۔‘‘(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 234/4)
اس کی سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے’’ ضعیف‘‘ہے،کیونکہ ابو سعید257ھ میں فوت ہوئے،جبکہ مجالد بن سعید 144ھ میں فوت ہو گئے تھے۔دونوں کا لقاء و سماع صرف ثابت ہی نہیں،بلکہ ممکن ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھٰذِہٖ حِکَایَۃٌ مُّرْسَلَۃٌ ۔ ’’یہ مرسل(منقطع)حکایت ہے۔‘‘
(تاریخ الإسلام : 977/3، بتحقیق بشّار)
امام عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں:
’’یحییٰ بن سعید اور ابو اسامہ کی مجالد سے بیان کردہ حدیث کچھ بھی نہیں،کیونکہ انہوں نے مجالد کے حافظے کی خرابی کے بعد اس سے بیان کیا ہے۔البتہ شعبہ،حماد بن زید اور ہشیم کی حدیث صحیح ہے، کیونکہ وہ مجالد کا حافظہ خراب ہونے سے پہلے اس سے بیان کرتے ہیں۔‘‘
(الجرح والتعدیل : 361/8)
امام ابن ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آخری عمر میں حافظے کا بگاڑ ہے۔
الحاصل: مجالد بن سعید،کوفی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ــ’’ضعیف ‘‘ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.